کیٹیگری: مضامین

حضورؐ کی معراج کا سفر کیسے شروع ہوا؟

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
سورة الاسراء آیت نمبر1

سُبْحَانَ الَّذِي کہ پاک ہے وہ ذات۔ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ کہ وہ اپنے بندے کو لے گیا۔ اگر ہم آپ سے کہیں کہ یہ قلم لے جانا اور پھر کل ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کا قلم کہاں ہے کیونکہ یہاں تو نظر نہیں آرہا اور آپ کہیں کہ وہ قلم تو میں ساتھ لے گیا تھا۔ اب اللہ تعالی بھی یہی فرما رہے ہیں سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے بندے کو لے گیا اور مطلب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بلوایا۔ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى کہ رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی کی طرف۔ اب یہاں مسجد اقصی کے بارے میں اللہ تعالی نے ایک جملہ فرمایا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ کہ مسجدِ اقصی کے اطراف میں ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا تاکہ اللہ کے رسول کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ إِنَّهُ کہ وہ جو ہے۔ اب یہاں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، پہلے إِنَّهُ استعمال ہوا کہ وہ جو ہے هُوَ السَّمِيعُ وہ سننے والا ہے الْبَصِيرُ اور دیکھنے والا ہے۔ اب وہاں ہم بھی جاتے ہیں اور لوگ بھی جاتے ہیں لیکن صرف دیواریں نظر آتی ہیں تو پھر اور کونسی نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالی خصوصی طور پر لے کر گیا۔ یہاں اِن الفاظ سے تو یہ لگ رہا ہے کہ معراج شریف کا جو سفر تھا اِس میں اللہ حضورؐ کے ساتھ ساتھ تھے۔ پھر مسجدِ اقصی کے پاس جو قبة الصخرة ( چٹان کی گنبد) ہے جہاں سے آپؐ آسمانوں کی طرف گئے تھے۔ آپؐ براہ راست بھی جاسکتے تھے لیکن یہاں سے ہوکر گئے ہیں۔ مسجد اقصی قبة الصخرة یروشلم سے معراج ہوئی ہے۔ اب کہا یہ جاتا ہے کہ اُس وقت نبی پاکؐ اُم ہانی (مولا علیؓ کی بہن) کے گھر تھے اور سو رہے تھے لیکن قرآن میں یہ ذکرنہیں ہے کہ اُم ہانی کے گھر تھے۔ قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ خانہ کعبہ سے لے کرگئے ہیں لیکن یا پھر یہ ہوگا کہ اُم ہانی کے گھر سے خود چل کرخانہ کعبہ کی طرف گئے ہونگے اور پھرخانہ کعبہ سے اللہ نے ساتھ لیا ہو۔ قرآن مجید میں یہ ذکر نہیں ہے لیکن روایتوں اور حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مولا علیؓ کی بہن اُم ہانی کے گھر محوِ استراحت تھے اور جبرائیلؑ نے آکر اُٹھایا اور کہا کہ آپ کو اللہ نے بلایا ہے۔ قرآن میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں اور جو کسی نے اُس کا ترجمہ کردیا تو بس کردیا۔ ذہن کے اوپر برف جم جاتی ہے، جس طرح آپ کو توجہ دلا رہے ہیں تو آپ کو محسوس ہورہا ہے کہ بات تو ٹھیک ہے کیونکہ قرآن مجید میں تو کسی کا ذکر نہیں ہے کہ جبرائیلؑ آئے تھے اور کون لے کر گئے تھے لیکن ایک دفعہ براق کا ذکر ہوا۔
ایک دفعہ نبی پاکؐ اپنے ہجرے میں تھے تو ہوا بہت تیز چلی اور بی بی عائشہؓ کی جو الماری تھی اُس کے اوپر جو پردے کے طور پر کپڑا پڑا ہوا تھا وہ ہٹ گیا۔ وہاں پر بہت ساری گڑیا رکھی ہوئیں تھی اور وہاں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے پر تھے تو انہوں نے جلدی سے ڈھک دیا۔ حضورؐ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ الماری میں کیا رکھا ہے تو پھراُن کو بتانا پڑا کہ یا رسول اللہ! یہاں پر میری گڑیا رکھی ہیں۔ آپؐ مسکرائے لیکن منع نہیں کیا اور فرمایا کہ گڑیا سے کھیل لیا کرو۔ اب جب حضورؐ سے کُھلے عام اجازت مل گئی تو حضورؐ نے پوچھا کہ دکھانا یہ گھوڑا کیا ہے! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اِس گھوڑے کے پر ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ کیسا گھوڑا ہے جس کے پر ہیں! پھر بی بی عائشہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! سلمانؑ اور داوٴدؑ کے پاس براق تھے اور آپ نے خود فرمایا کہ اُن کے پر تھے تو آپؐ مسکرائے اور فرمایا کہ ہاں۔ اب حضورؐ معراج کے سفر پر جو گئے ہیں تو نجانے مسجدِ حرام سے ہی براق پر بیٹھ کر گئے ہیں یا پھر براق والا جو سفر ہے وہ مسجدِ اقصی سے شروع ہوا ہے لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ جو دیوارِ گریہ (جہاں یہودی کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں) ہے اُس مقام پر حضورؐ نے شبِ معراج کو اپنا براق باندھا تھا۔ حضورؐ معراج پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالی نے جو کچھ بھی بنایا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ

لولاک لما خلقت الاٴفلاک

اللہ تعالی نے جتنے بھی عالمین ہیں اُن سب کی حضورؐ کو سیرکرائی۔ عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، بیت المعمور، سدرة المنتہی اور ہرجگہ کی آپؐ کو سیر ہوتی رہی۔ آپؐ کو یہ بھی دکھایا گیا کہ آپؐ کی اُمت کی تعداد کتنی ہوگی اور آپؐ کو یہ بھی بتایا گیا کہ جہنم میں عذاب کیسے دیا جاتا ہے اور آپؐ کو سب کچھ مختصراً دکھایا گیا۔ پھر آپؐ اوپر چلے گئے کہ قرآن مجید میں جہاں کیلئے کہا ہے کہ

فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَىٰ
سورة النازعات آیت نمبر20

آپؐ نے وہاں آیتِ کبریٰ کو دیکھا۔ پھر قرآن مجید میں ذکر آیا ہے کہ

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَیٰ
سورة النجم آیت نمبر9

أَوْ أَدْنَیٰ کہ اور قریب آئے۔ یہ تمام چیزیں قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن احادیث اور روایتوں میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ کچھ روایتیں ایسی بھی ہیں کہ جن کو پڑھنے کے بعد تھوڑا سا یقین بھی ڈاما ڈول ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں یہ ہے کہ جب حضورؐ عرش پر پہنچے تو آپؐ اپنی سادگی کے مطابق اپنی چپلیں اُتار کرعرش پرجانے لگے تو عرش سے آواز آئی کہ یا رسول اللہ! چپل پہن کر آجائیں۔
درِ مصطفی سنگِ موسی نہیں ہے
تو پردے میں آ تجھ سے پردہ نہیں ہے

کچھ روایتوں میں لکھا ہے کہ جب آپؐ وہاں پہنچے ہیں تو عرش کانپ رہا تھا، فریاد کررہا تھا اور عرش پر زلزلہ مچا ہوا تھا تو پھر جب آپؐ نے اپنے نعلینِ مبارک عرش پررکھے ہیں تو اُس کو قرار آگیا۔ اِس طرح کی بہت ساری روایتیں ہیں کہ جن میں نجانے کیا کیا لکھا ہوا ہے۔ اہلسنت والجماعت کے جو مقتدرعلماء اور اولیاء بھی ہیں تو انہوں نے کہا ہے کہ جب آپؐ عالمِ جبروت میں پہنچے ہیں تو وہاں جبرائیل امین نے معذرت کرلی کہ میں آگے نہیں جاسکتا ہوں۔ کچھ روایتوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ جبرائیلؑ کہہ رہے تھے کہ میرے پرجل رہے ہیں حالانکہ جو مقامِ جبروت ہے وہ مقامِ جبرائیل ہے۔ جب جبرائیلؑ اللہ سے وحی لے کرآتے تھے تو اُس وقت اُن کے پرنہیں جلتے تھے بلکہ صرف شبِ معراج کو پر جلنے لگ گئے تو بہت جھوٹی روایتیں بھی شامل کی گئی ہیں جن کو پڑھ کر آپ کو لگے گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ آج پاکستان کی مسجدوں میں یہی ہورہا ہے اور واقعات سے اتنی کتابیں بھری ہوئی ہیں تو حضورؐ کے پاس اتنا وقت کیسے تھا کہ آپؐ نے اتنی باتیں فرمائیں! کئی لاکھ حدیثیں موجود ہیں تو اتنی احادیث حضورؐ کب فرما رہے تھے!

وحی جلی اور وحی خفی کیا ہیں؟

وحی دو طرح کی ہوتی ہے۔
1. وحی جلی: وحی جلی نفس کی تعلیم کیلئے آتی ہے جیسے قرآن کے تیس پارے ہیں۔
2. وحی خفی: جو وحی خفی ہے وہ اللہ تعالی کی محمد الرسول اللہ کے ساتھ براہِ راست گفتگو ہے جو براہِ راست وحی ہے جس کے ذریعے حدیثِ قدسی کا قیام ہوتا ہے۔
اگر حضورؐ کی زبان مبارک سے ایسی بات نکلے جو وحی جلی میں نہ آئی ہو تو پھراب یہ اشکال پیدا ہو جاتا کہ یہ بات معاذاللہ حضورؐ نے اپنے پاس سے فرمائی ہے یہ وحی الہی تو نہیں ہے لہٰذا اللہ تعالی نے یہ حکمت اختیار کی اور قرآن مجید میں اِس کا ذکر آیا ہے کہ

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ
سورة النجم آیت نمبر3
ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے۔

اس آیت کی مزید تشریح بیان کرتے ہیں کہ اب یہاں آکر حکمت یہ ہوگئی کہ جو بھی حضورؐ فرما رہے ہیں وہ وحی الہی ہے اور یہ بھی نہیں بتانا پڑا کہ یہ وحی خفی تھی اور یہ بھی نہیں بتانا پڑا کہ یہ باطنی طور پر بغیر جبرائیلؑ کے آئی تھی۔

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَ
سورة النجم آیت نمبر4
ترجمہ: جو کچھ بھی وہ کہہ رہے ہیں صرف وہی کہہ رہے ہیں جو وحی کے طور پر آیا ہے۔

اب حضورؐ نے تو بہت ساری باتیں فرمائیں۔ نماز کا طریقہ وحی جلی میں نہیں آیا تو حضورؐ نے خود فرمایا کہ نماز ایسے پڑھو تو اب ماننا پڑے گا کہ یہ بھی وحی ہے۔ اگر یہ وحی ہے جو حضورؐ نے فرما دیا ہے تو پھر یہ قرآن کا حصہ کیوں نہیں! قرآن کا حصہ اس لئے نہیں کیونکہ قرآن وحی جلی ہے اور یہ وحی خفی ہے۔ وحی جلی کے ساتھ تو جبرائیلؑ آئے اور ظاہری طور پرقرآن کہلایا۔ قرآن کے اندر نماز آگئی اور نماز پڑھنی کیسے ہے یہ نہیں آیا۔ نماز کا طریقہ حضورؐ نے سکھایا کہ ایسے کھڑے ہو اور ایسے پڑھو تو وحی جلی میں یہ طریقہ نہیں آیا اور یہ طریقہ حضورؐ نے اپنی طرف سے بتایا اور پھر یہ قرآن کی آیت آگئی إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَ کہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ وحی ہے تو پھرجو طریقہ حضورؐ نے نماز کا بتایا ہے وہ وحی الہی ماننا پڑے گا۔ اب اس بات سے بھی گڑبڑ پیدا ہوتی ہے کہ اگرحضورؐ نے فرمایا کہ پانی لاوٴ تو جاہل لوگ یہی کہیں گے کہ قرآن نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی حضورؐ فرمارہے ہیں وہ وحی الہی ہے تو اب حضورؐ نے فرمایا کہ پانی لاوٴ تو کیا یہ لفظ وحی الہی ہے، نہیں ہے تو مولوی اِس قرآن کی آیت کو پڑے گا تو وہ اُلجھن کا شکار رہے گا کہ قرآن نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی حضورؐ نے فرمایا ہے وہ اُن کی اپنی خواہش سے نہیں ہے وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔ اب اگرحضورؐ نے فرمایا ہے کہ پانی لاوٴ تو وہ اِس آیت اور منطق سے ثابت کر دے گا کہ حضورؐ کا پانی مگانا بھی وحی الہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ احکامات جو قرآن میں نہیں آئے اور حضورؐ نے فرما دیے تو لوگوں کو یہ گمان تھا کہ شاید حضورؐ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں۔ اُن کو خاموش کرانے کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو کچھ حضورؐ فرمارہے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی وحی ہے۔ یہیں پر تو چالیس پاروں کا ثبوت ہے جیسے نماز کا ذکر وحی جلی میں آیا کہ نماز قائم کرو۔ نماز قائم کیسے کرو یہ قرآن میں نہیں آیا۔ اب جو لوگوں نے سن لیا وہ یہ تھا کہ نماز کا طریقہ یہ ہے اور نماز کی قبولیت کیسے ہوگی یہ حضورؐ سے بات آگے نہیں بڑھی جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ

لا صلوة اِلا بحضور القلب
کتاب گنج حکمت یا احادیث منظوم، ص 176، الا ان الکتاب لا یعد من مصادر الدرجة
ترجمہ: قلب کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

اگر محمد الرسول اللہ نے نماز کیلئے یہ فرمایا کہ لا صلوة اِلا بحضور القلب تو یہ وہ چیز ہے جو کہ وحی خفی میں آئی ہے۔

إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى صُوَرِكُمْ وَلا یَنَظُرُ إِلىٰ اَعمَلِکُم وَلَكِنْ يَنْظُرُ فَی قُلُوبِكُمْ وَ نِیّاَتِکُم
صحیح مسلم 2564، نور الہدی صفحہ 127
ترجمہ: اللہ تعالی نہ تمہاری شکلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔

یہ وحی خفی ہے۔ قرآن کے تین جز وحی جلی ہیں اور جو دس جز ہیں وہ وحی خفی ہیں۔ یہ باریک نقطہ یہاں سمجھنا ہوگا کہ دین کے حوالے سے جو حضورؐ کی رائے ہے اُس کو وحی کہا گیا ہے۔ اب اگر حضورؐ نے یہ کہا کہ علی پانی کا مشکیزہ لے آوٴ تو منطق کے ذریعے تو آپ کہہ دیں گے کہ یہ بھی اللہ کی وحی ہے لیکن یہ وحی نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی کے بارے میں گفتگو ہے۔ یہ دو چیزیں آپ نے یاد رکھنی ہیں کہ

جو وحی جلی ہے اس کیلئے جبرائیلؑ آئے ہیں اور جو وحی خفی ہے ساری کی ساری دین کی عمارت باطن کے اوپر قائم ہے تواُس میں جبرائیلؑ کو نہیں بھیجا اور ظاہری تعلیم میں جبرائیلؑ کو بھیجا۔ یہاں پریہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کا جو باطنی نظام ہے وہ بہت محفوظ ہے اور اُس میں شیطان کو دخل نہیں ہے.

ظاہری تعلیم میں جو جبرائیلؑ کو بھیجا اور ظاہر میں اتنے لوازمات کئے یہ انسانوں کیلئے حُجت ہے، ورنہ لوگ کہتے کہ پتہ نہیں یہ کلام کہاں سے آیا ہے کیونکہ جبرائیلؑ بار بار لوگوں کے سامنے آئے تواُن کو ہوگیا کہ کوئی جِن نہیں آتا بلکہ جبرائیلؑ آتے ہیں۔ یہ بات لوگوں کی حُجت کیلئے قائم کی گئی کیونکہ حضورؐ کی بارگاہ میں لوگ حضورؐ کو الزام دیتے تھے کہ اِن کے اوپرمعاذاللہ ثم معاذاللہ جِن سوار ہے۔ اب قرآن مجید میں جو لفظ آیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے فرمایا کہ

وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ
سورة التکویر آیت نمبر 22
ترجمہ: اور تمہارا صاحب مجنون نہیں ہے۔

مجنون کا مطلب پاگل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ تو اردو میں محاورے کے طور پر لے لیا ہے لیکن مجنون کا مطلب ہوتا ہے وہ جس کے اوپر جِن سوار ہو۔ جیسے کہ اب لفظ مجنو ہے بلکہ اصل لفظ مجنون ہے تو اُس کے اوپر لیلیٰ کا جِن سوار تھا۔ اِسی طریقے سے اب اُس زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ کوئی جِن یہ ساری کہانی لے کر آتا ہے تو اِس لئے جبرائیلؑ کو بھیجنا ضروری تھا کہ لوگوں کو یقین آجائے کہ یہ جِن نہیں ہے بلکہ جبرائیلؑ وحی لے کر آ رہے ہیں۔ ظاہر کا سارا کا سارا بندوبست لوگوں کیلئے حُجت تھا۔ اس کیلئے حدیث میں بھی آیا ہے کہ

حدثنا یحیی بن یمان، عن ھشام، عن الحسن، عن جابر، قالً: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: العلم علمان، فعلم فی القلب فذاک العلم النافع، وعلم اللسان فتلک حجة اللہ علی ابن آدم
خرجہ ابن اٴبی شیبة (7/82، رقم 34361)، والحکیم فی نوادر الاٴصول (2/303)

علمِ ظاہر اللہ کی طرف سے انسان پر حُجت ہے اور ایک علمِ نافع ہے اُس علم کا تعلق قلب سے ہے۔ جو قلب کے پاس آئی ہے یہ وحی خفی ہے۔

وحی جلی اور وحی خفی کیسے میسر آتی ہے؟

نبی پاکؐ کا قلبِ مبارک وحی جلی کا بھی مخزن ہے اور وحی خفی کا بھی مخزن ہے۔ علامہ اقبالؓ نے فرمایا ہے کہ
بہ مصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
اگر بائو نہ رسیدی تمام بولهبی است

تم حضورؐ کی ذات تک رسائی حاصل کرلو۔ حدیثِ مبارک ہے کہ

أنا مدينة العلم وعلي بابها
روی الطبرانی فی “المعجم الکبیر” (11061) والحاکم فی “مستدرکہ” (4637)
ترجمہ: میں اِس کا علم ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔

جب سرچشمہٴِ علم حضورؐ کی ذات ہے تو آپ نے قرآن پر تکیہ کیوں کیا ہوا ہے! آپ نے قرآن کو اتنا عظیم کیوں دے دیا کہ حضورؐ سے بھی آگے قرآن کو بنا دیا! قرآن تو ایک صفتِ الہی اور صفتِ تکلم ہے کیونکہ قرآن اللہ کا ایک صفاتی نور ہے اور محمد الرسول اللہ میں اللہ کی ذات ہے۔ قرآن تو االلہ کا کلام ہے اور حضورؐ اللہ کے محبوب ہیں۔ قرآن حضورؐ کا ایک وصف ہے اور اگر حضورؐ سے جُدا کر کے قرآن کو سمجھیں اور پڑھیں گے تو کبھی ہدایت نہیں ملے گی۔ اگر حضورؐ کے سینے سے تعلق جڑ جاتا ہے تو وحی جلی بھی میسر آگئی اور وحی خفی بھی میسر آگئی۔ حضورؐ کی ساری کی ساری حکمت والی باتیں وہ بھی حضورؐ کے سینے سے مل جائیں گی۔

حضورؐ معراج پر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ اب یہاں اِس عمل سے پہلے اللہ تعالی اپنی تعریف بیان فرما رہے ہیں کہ کیا شان ہے ہماری کہ ہم اپنے بندے کو لے گئے تو معلوم یہ ہوا کہ یہ عمل ایسا تھا کہ اللہ نے اپنے اِس عمل پر فخر فرمایا ہے یعنی اللہ خود اِس واقعہ کو اہمیت دے رہے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا ہے تو ایسا کون کرسکتا ہے کہ راتوں رات لے جائے! اب جو لے کرگئے ہیں تو اُس میں یہ ہوسکتا ہے کہ جو جثہ توفیقِ الہی نبی پاکؐ کے وجود میں ہے اُس کو عارضی طور پر پرواز کی طاقت دے دی گئی ہو اور پھر اُس کی پرواز کے ذریعے حضورؐ کو لے کرگئے ہوں۔ پھر اللہ تعالی یہ تعریف اپنے جثہ توفیق الہی کی کررہے ہیں۔ سرکار امام مہدی گوھرشاہی نے فرمایا کہ

ہماری ہرمعراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے۔

معراج کا مطلب یہ ہوا کہ اوپر چڑھے ہیں یعنی اوپر گئے ہیں۔ سرکار گوھرشاہی بطورِامام مہدی تو آپ کے وجودِ مبارک میں جو جثہ توفیقِ الہی ہے وہ جثہ وہ ہے جو باطنی پرواز کرتا ہے۔ اب رہ گئی بات کہ براق آیا اورجبرائیلؑ آئے تووجوہات کچھ اور ہیں اورکہانیاں کچھ اورہیں۔ محمد الرسول اللہ کو جبرائیلؑ کی ضرورت ہی نہیں تھی تو آپؐ نے خود ہی اُن کو کہہ دیا کہ آپ یہی پررہیں کیونکہ جب حضورؐ واپس آئے ہیں تو براق کہاں تھا اورجبرائیلؑ کہاں تھے تو حضورؐ کے معراج پر صرف جانے کی کہانی ہے لیکن واپسی کا کہیں لکھا ہے کہ حضورؐ واپس کیسے آئے کیونکہ واپسی پرکوئی براق نہیں تھا تو پھر واپس کیسے آئے! سرکارگوھر شاہی نے فرمایا کہ

حضورؐ جب فارغ ہوگئے توعرشِ الہی پر آنکھیں بند کیں اور لمحہ بھرمیں آنکھیں کھولی تو جہاں سے گئے تھے وہیں تھے۔

حضورؐ کی پرواز کا بھی یہی عالم ہے۔ جبرائیل امین نے لیلة معراج میں صرف ایک سفر کے رہنما (Tour Guide) کا کام کیا ہے کہ یہ مقام یہ ہے اور وہ مقام یہ ہے، ورنہ محمد الرسول اللہ جبرائیلؑ کےنہ محتاج تھے اورنہ ہیں۔

حضورؐ کی معراج کے حوالے سے لفظ عَبْد کیوں استعمال کیا؟

اللہ تعالی نے عَبْد کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ جسم اور روح دونوں اکٹھی ہوں تو پھر “عبد” کہلاتا ہے اور یا پھر کہنا پڑتا کہ محمدؐ بن آمنہ تاکہ ثبوت ملتا کہ جسم سمیت گئے ہیں۔ جب لفظ عبد استعمال ہوتا ہے تو اِس کا مطلب بندہ نہیں ہوتا بلکہ عبد کا مطلب ہے جسم اور روح کا مرکب۔ اس لئے یہاں لفظ عبد استعمال کیا کہ سمجھ میں آئے کہ یہ جو معراج ہوئی ہے یہ جسم اور روح دونوں کو ملا کر ہوئی ہے کیونکہ روح کو عبد نہیں کہا جا سکتا۔ عبد صرف اُس وقت کہا جا سکتا ہے جب روح جسم میں ہو۔ اگر روح جسم میں نہ ہو اور اکیلی روح ہو تو اُس کو بندہ نہیں کہہ سکتے۔

ذاتِ الہی کے مختلف مظاہر:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى کہ وہ ذات پاک ہے جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجدِ اقصی کی طرف لے گئی۔ اِس عبارت سے لگ نہیں رہا کہ یہ اللہ نے فرمائی ہوگی کہ وہ کیا ذات ہے کیونکہ یہ Third Person (صیغہ غائب) میں بات ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ میں لے کر گیا ہوں۔ سُبْحَانَ الَّذِي کہ پاک ہے وہ ذات جو لے گئی۔ یہ اب پتہ نہیں کون کہہ رہا ہے کیونکہ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ یہ کون کہہ رہا ہے! اب لوگوں کے پاس تو بہت ساری منطقیں ہیں کہ اِس کا یہ مطلب ہے اور اُس کا وہ مطلب ہے۔ اب یہاں تو اللہ تعالی صیغہ غائب میں فرما رہے ہیں لیکن کہیں اللہ تعالی Plural (جمع) میں فرماتے ہیں نَحنُ کہ ہم نے۔ یہ قرآن مجید اوراللہ کے مزاج کے باریک نقطے ہیں۔ اللہ کا مزاج یہ ہے کہ جب اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نَحنُ تو اُس کا مطلب ہوتا ہے اللہ،عکسِ اول، طفلِ نوری، ذاتی اور صفاتی جثہ توفیقِ الہی، سب کو شامل کرکے اللہ تعالی لفظ نَحنُ استعمال فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی کے یہ مختلف مظاہرِ قدرت ہیں یعنی اللہ تعالی کی ذات کے یہ مختلف مظاہر ہیں اورمختلف صفات ہیں۔

اللہ تعالی نے مسجدِ اقصی کے اطراف میں کیا برکتیں رکھی ہیں؟

اب یہاں مسجدِ اقصی کی تعریف ہورہی ہے کہ الَّذِي بَارَكْنَا ہم نے اِس کو برکت عطا کی ہے۔ حَوْلَهُ کہ اِس کے چاروں طرف برکت ہی برکت ہے۔ مسجدِ حرام کے اندر برکت ہے اِس کا تو قرآن نے ذکر نہیں کیا لیکن مسجدِ اقصی کو اللہ تعالی نے اپنی برکتوں سےاُسے گھیرے میں لیا ہوا ہے اِس کا ذکر قرآن میں ہے اورآپ اسرائیل پر لعنتیں بھیج رہے ہو۔ لِنُرِيَهُ تاکہ ہم دکھائیں مِنْ آيَاتِنَا کہ اپنے محبوب کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔اِس کا مطلب کہ وہاں اللہ کی بہت ساری نشانیاں ہیں۔ لوگ تو ایسے ہی گھوم کر آجاتے ہیں لیکن کیا نشانیاں دکھائیں تھی!
1. حجرِاسود کا دوسرا حصہ بھی وہاں رکھا ہے۔
2. وہاں پر ہیکلِ سلیمانی ہےاوراُس کی کنجیاں ہیں۔
3. جنات کے بڑے بڑے نواردات بھی وہاں رکھے ہوئے ہیں۔
4. سلیمانؑ کی انگوٹھی بھی وہاں رکھی ہوئی ہے۔
5. اِس کے علاوہ وہاں پرظاہر میں ایک براق بھی موجود ہے لیکن اللہ نے اُس کو پوشیدہ کیا ہوا ہے۔ وہ بُراق اس لئے ہے کہ امام مہدیؑ کا استقبال ہولیکن امام مہدیؑ کو ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ امام مہدیؑ تو خود قابلِ منتقلی ہیں یعنی آنکھیں بند کیں تو اُدھر لیکن یہ سب اللہ کی طرف سے انتظامات ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مسجدِ اقصی کے اطراف میں برکتیں رکھی ہیں لیکن اہلِ فلسطین کو اُس سے فیض نہیں ہورہا! اُن برکتوں سے مستفیض کون ہورہا ہے تو وہی ہورہے ہیں کہ جن کی ایک انچ کی جگہ نہیں تھی لیکن اب پورا ملک بنا کربیٹھے ہیں اور تم کو صرف یہی تکبر ہے کہ ہم سے بڑی کوئی اُمت نہیں ہے کیونکہ ساری برکتیں تو وہ لے رہے ہیں۔ قرآن اِس بات کا شاہد ہے کہ مسجدِ اقصی کو ساری برکتوں سے گھیرا رکھا ہے۔

نیا عالمی نظام کیا ہوگا؟

یہی برکتیں ہیں جِن سے عنقریب مصرکا کچھ حصہ بھی اسرائیل میں شامل ہوجائے گا، شام کا حصہ بھی اسرائیل میں شامل ہوجائے گا اور سعودی عرب کا اچھا خاصا حصہ بھی اسرائیل میں شامل ہو جائے گا لیکن جو حصہ شامل ہوگا اُس میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے۔ ایک نیا نظام تو سیاست دان بنا رہے ہیں لیکن ایک دنیا کا نظام اللہ بھی بنا رہا ہے۔ پھرہم یہ بھی سوچتے تھےکہ سرکار گوھرشاہی نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کی ہاں اورناں میں دنیا کے فیصلے ہونگے تو ہم سوچتے تھے کہ دنیا میں امریکہ، انگلینڈ اور روس اتنے بڑے ممالک ہیں تو پاکستان کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تو وہ وقت جب آئے گا تو کیسے آئے گا اور کب آئے گا کہ جب پوری دنیا پاکستان کی ہاں اور ناں میں فیصلے کرے گی! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مچھرانسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے تو کرونا وائرس بھی ایک مچھر کی طرح ہی ہے جس نے پوری دنیا کو جُھکا دیا۔ جہاز کھڑے ہوگئے، سب کچھ بند ہوگیا، سب جوہری پلانٹ اور سب ایٹمی طاقتیں کسی کام کی نہیں رہی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

اٴَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
سورة الفیل آیت نمبر1
ترجمہ: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا!

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں پھر فرمایا کہ

وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ
سورة الفیل آیت نمبر3
ترجمہ: اور اُن پر اُڑتی ہوئی ابابیل کو بھیج دیا۔

جب ابابیل آئے تواُن کے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھے اور فاصلہ بہت زیادہ تھا تو پتھروں کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔ جب یہودیوں کا قبضہ ہوجائے گا اور ہمارا کعبہ چِھن جائے گا تو اِس پریقیناً ہم کو ماتم کرنا چاہیئے لیکن ہم ماتم اس لئے نہیں کررہے کہ یہ گریٹراسرائیل بن جائے اور اُس کے بعد اسرائیل امام مہدیؑ کے قبضے میں ہوگا کیونکہ ہم جب اسرائیل گئے تو ہم نے وہاں ایک ایسا جھنڈا دیکھا کہ جس کے اوپرسرکار گوھر شاہی کا صرف چہرہ مبارک بنا ہوا تھا اوروہ شفاف جھنڈا تھا جس پر چہرہ مبارک لہرا رہا ہے۔ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ کہ جو نشانیاں اللہ نے وہاں رکھی ہوئی ہیں وہ دیکھتی بھی ہیں اورسنتی بھی ہیں۔ اب حضورؐ نے چاہا کہ ہمارا قبلہ کعبے کو بنا دیا جائے تواللہ تعالی نے حضورؐ کا دل رکھا جب حضورؐ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھتا ہوا چہرہ اللہ نے دیکھا تو اللہ نے نبی پاکؐ کی خواہش کو پورا کیا۔ ہمارا تعلق تو بطورِ مسلمان خانہ کعبہ سے ہے اور ہمارا قبلہ تبدیل ہوگیا کیونکہ پہلے ہم مسجدِ اقصی کی طرف دیکھ کرنماز پڑھتے تھے اور جب حضورؐ کی خواہش پرتبدیل ہوگیا تو پھر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ معراج براہِ راست مسجدِ حرام سے عرشِ الہی تک جاتی لیکن اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے کہ اُس مں حضورؐ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی آئے ہیں۔ قبلہ تبدیل ہونے کے باوجود بھی مسجدِ اقصی آئے ہیں اور پھراللہ تعالی نے فرمایا کہ مسجدِ اقصی کے اطراف برکتیں رکھی ہیں تاکہ آپ میری نشانیاں دیکھ لیں۔ قبلہ تبدیل ہوگیا ہے لیکن امام مہدیؑ دوبارہ قبلہ اُسی کو کریں گے۔ مسجدِ اقصی کا جودروازہ ہے وہاں ایک پتھر ہے جس کے اوپرعیسیؑ کو ٹھوکر لگی تو اُس میں سے خون نکلا تو وہ خون اُس پتھر کے اندر جذب ہوگیا۔ جب تھامس (Thomas)آیا تو اُسے بتایا کہ اُس پتھرکی حفاظت کرنا تو وہ بات وہاں سے نکلی۔ لوگ اُسے نئی طرف لے گئے کہ ایک پیالہ تھا جس میں سے خون ٹپک رہا تھا جس کو لوگوں نے Da Vinci Code کا نام دیا کہ دراصل جو مقدس گریل (Holy Grail) ہے وہ مریم مگدلینی کے جسم کو کہا گیا ہے اور وہاں عیسیؑ کا نطفہ پڑا ہے لیکن یہ معاذاللہ غلط تہمت ہے۔ وہ مقدس گریل یہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک بڑا سا پتھر ہے جس کو سلیمانؑ نے ملکہ صباء کے جنات سے منگوایا تھا۔ اُس پتھر کے اندر عیسیؑ کا خون اور پسینہ تروتازہ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر

جب تمہارا دل بھی ایسا ہوجائے گا توتم اُدھرجانا تو تم کو تازہ تازہ خون کی خشبو آئے گی جوعیسیؑ کا خون اُس پتھر میں چلا گیا تھا لیکن یہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ پھرعیسیؑ واپس آئیں گے اور لوگ کہیں گے کہ تم بتاوٴ کیسے عیسیؑ ہو تو پھرعیسیؑ کہیں گے کہ اِس پتھر میں جو میرا خون تھا اُس کو بھی پرکھو اور میرے خون کو بھی پرکھو۔ یہ خون کے ٹیسٹ کی ایک چیز ہوگی یہ خبر کرونا وائرس کی طرح پھیل جائے گی۔ داوٴدؑ کے جو مناجات تھے جو وہ پڑھتے تھے وہ آوازیں بھی اُن پتھروں میں بند ہیں۔ کچھ پرندے تھے جو غش کھا کر مناجات سُن رہے تھے اور گِرکرمرگئے تو اُن کو بھی اللہ تعالی نے محفوظ کردیا، وہ بھی اُن دیواروں میں ہیں۔ جب عیسیؑ آئیں گے تو مسجدِ اقصی میں اُن کی ماں مریم بھی ظاہر میں کھڑی ہونگی تو پھروہ بتائیں گے کہ یہ عورت نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ پاکستان کی ہاں اور ناں میں فیصلے ہونگے جب پاکستان کے اوپر سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی کا ہاتھ ہوگا۔ اُس وقت پاکستان سے صرف پیارومحبت کی تعلیم ہوگی۔ جو کچھ اب ہے یہ نہیں ہوگا کیونکہ ابھی تو وہاں شیطان بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایک وقت آئے گا کہ پوری دنیا سب پاکستان سے پیار کریں گے۔ ابھی تووہ پاکستان نہیں ہے بلکہ ناپاکستان ہےلیکن امام مہدیؑ کے فضل و کرم سے وہ ناپاکی دور ہوگی اورپھر وہ پاکستان واقعی میں پاکستان ہوگا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 22 مارچ 2020 کو لیلة المعراج پر یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس