کیٹیگری: مضامین

انسانیت میں روحانی بالیدگی:

اب جس دور میں ہم آ گئے ہیں وہاں صرف صوفی ازم کا صرف نام رہ گیا ہے صوفی نہیں رہے۔سیدنا امام مہدی گوھرشاہی کی آمد سے قبل روحانیت یا صوفی ازم ہر مذہب کا حصہ رہی ہے ، اسکی شروعات آدم صفی اللہ سے ہوئی، لوگ جب صوفی ازم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ڈکشنری (لغت)سے نکالتے ہیں کہ صوفی ازم ”صوف “سے نکلا ہے اور صوف کا معنی ہے کھدر کا کپڑا، یہ تو نری جہالت کی بات ہے۔ آدم صفی اللہ سے پہلے تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدموں میں سے کسی کو روحانیت کا علم نہیں دیا گیا، اِن سب کی ارواح خوابیدہ رہیں،کسی باطنی مقام پر پہنچ نہیں سکتے تھے کیونکہ روحوں کو بیدار کرنے کا علم بھیجا نہیں گیا تھا تو روحوں کی بیداری بھی نہیں تھی ۔ آخری آدم، آدم صفی اللہ کو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا اور پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اُس کو روحانی علم دیا گیا اورپھر اُس کے بعد چار بڑے مرسلین آئے ہیں ایک تووہ خود تھے چار اور آئے، آدم صفی اللہ کے بعد جو مرسل آئے وہ ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ یہاں مرسل اور نبی میں فرق بھی سمجھتے چلیں، نبی وہ ہوتا ہے جومرسل کی تعلیم کو درست کرنے کے لیے آتا ہے اُس نبی کا اپنا کوئی کلمہ نہیں ہوتا وہ نبی خود بھی اپنے مرسل کاکلمہ پڑھتے تھے، فرض کیا اگر نبوت ختم نہ ہوتی اور حضور ؐکے بعد کوئی نبی آتا تو اُس نبی نے بھی” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ ہی پڑھنا تھا یعنی کلمہ بھی مرسل کا ہوتا ہے اورتعلیم بھی مرسل کی چلتی ہے، نبی کا نہ کلمہ ہوتا ہے نہ تعلیم اُس پر صحیفہ اترتا تھا، صحیفہ کا مطلب ہی درست کرنا ہے۔ مرسل کی تعلیم میں جو بگاڑ پیدا ہوجاتا تھا اس کو درست کرنے کے لیے صحیفہ اتارا جاتا تھا، نبی کی اپنی کوئی تعلیم نہیں ہوتی ہے ۔
آدم صفی اللہ کے بعد ابراہیم خلیل اللہ آئے اور ابراہیم خلیل اللہ کو باطنی علم عطا ہوا، وہ باطنی علم آدھا اُن کے اپنے لئے ،آدھا اُن کی اُمت کے ولیوں کے لئے تھا،جو معجزات مرسلین کوعطا ہوتے ہیں تو اُس کی امت میں جو بھی ولی یا صوفی ہوں اُن کو بھی اللہ تعالی اِن ہی معجزات سے نوازتا ہے جو کرامات کہلاتی ہیں۔ جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ کا معجزہ یہ تھا کہ جب اُن کوآگ میں ڈال دیا گیا تو وہ گل گلزار ہوگئی اور انکی امت کے بہت سے ولی ایسے ہیں جو آگ پر چلے۔معاشروں میں کسی کی سچائی کو ثابت کرنا ہو تو کہتے ہی ا نگاروں پر چل کر دکھاؤ اگر وہ سچا ہوتا ہے تو وہ انگاروں پہ چل لیتا ہے انگارے اسکے پاؤں کو جھلساتے نہیں ہیں ، یہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ یہ انہی کے لیے ہوگا جو ابراہیم خلیل اللہ کی اُمت سے تھے اور یہ معیار وہاں سے شروع ہوا کہ اگر انکی اُمت میں سے کسی نے ولائیت کا دعویٰ کیا ہوگا تو اس کو کہا گیا ہو گا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آگ پر چل کر دکھاؤ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک یہ تصور پیدا ہوگیا کہ جو سادات ہیں آگ اُن پر اثر نہیں کرے گی۔ابراہیم خلیل اللہ کے بعد جو مرسل آئے وہ موسی کلیم اللہ ہیں، پھر انکے بعد عیسی روح اللہ آئے اور پھرمحمد رسول اللہ آگئے اور رسالت و نبوت دونوں ختم ہوگئیں۔کتابوں اور احادیث میں جو لکھا ہے اُس سےتو یہ پتا چلتا ہے کہ آدم صفی اللہ سے لیکر محمد رسول اللہ تک مرسلین جو کچھ لیکرآئے یہ ایک ہی عمارت کی مختلف اینٹیں تھیں ،حضورؐکے آنے پروہ عمارت مکمل ہوگئی۔ وہ عمارت کیا ہے وہ اللہ کی ذات ہے۔آدم صفی اللہ کے ذریعے انسانوں کا تعلق اللہ سے جڑ گیا ،اُنکا دل منور ہوگیا اور منور دل کے ذریعے اُن پر انوار و تجلیات کا نزول ہوا اور اللہ تعالی نے الہام کا سلسلہ شروع کیا اورالقا بھیجا۔
ابراہیم علیہ السلام اُنہوں نے روح کی تعلیم شروع کی جو ایک واجبی تعلیم تھی اُس کے بعد موسی کلیم اللہ آگئے، موسی کلیم اللہ نے ضد کی کہ اللہ کا دیدار ہو لیکن اللہ تعالی کی طرف سے اُن کو جواب ملا تم دیدار کے قابل نہیں ، انہوں نے ضد کی تو اللہ نے اُن کوبتایا کہ اسم ذات اور اسم ذات کا ذاتی نور جس کو حاصل ہوگا وہ ہی اللہ کےدیدار کے قابل ہوگا، موسی کلیم اللہ نے پوچھا کوئی ہے جو تیرے دیدار کے قابل ہو گا تو پھر حضور کا ذکر ہوا کہ ”ایک میرا حبیب اور ایک اُس کی امت دیدار تک پہنچے گی“ ۔ موسی کلیم اللہ کے ماننے والوں میں جو اولیاء کرام ہوئے وہ بھی اللہ سے ہم کلام ہو گئے۔لیکن اب ایک مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ جو موسی کلیم اللہ کا ماننے والا اللہ کے دیدار والی بات کبھی نہیں مانے گا اورکہے گا جب ہمارے نبی کوجب اللہ کا دیدارنہیں ہوا تو تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے۔اب یہ بات رکاوٹ بن گئی حالانکہ اللہ کا مقصد یہ تھا کے آہستہ آہستہ باطنی علم کھولیں گے جس پر عمل کرنے سے انسان میں روحانی بالیدگی پیدا ہوگی اور اس بات کا شعور آئے گا کہ اس دور کے لوگ اللہ سے بات چیت بھِی کرسکتے ہیں رابطہ بھی کرسکتے ہیں،لیکن انسانوں میں وہ روحانی بالیدگی نہیں ہوئی ۔ جس دور میں مرسل آیا اُس دور میں تولوگوں نے وہ روحانی تعلیم حاصل کرلی اُس مرسل کے بعد جو نبی باقی تعلیم لے کر آیا اس کولوگوں نے نہیں مانا، لوگ انتہائی سختی سےاپنے اپنےمذہب کی حدود میں مقید رہنے پر مصر ہیں کہ جیسے اس سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔جس طرح آپ یہودی کو قائل نہیں کر سکتے کہ اللہ کا دیدار ہو سکتا ہے اِسی طرح کسی وہابی کو بھی اللہ کے دیدار پر قائل نہیں کر سکتے۔
ایک تو رہبر و مرشد کی محبت کی وجہ سے ہے کہ آپ سننا اور جاننا نہیں چاہتے کہ میرے مرشد و رہبر سے زیادہ کوئی اور بھی جانتا ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ اگر یہ بات ہو تو آپ محروم رہ جائیں گے اور ایک بات یہ ہے کہ بہتر یا کمتر کی بات نہیں ہے،دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں،اب یہ سچائی ہے، لیکن اگر آپ اپنے آپ کو ہی سچا اور بہتر کہیں گے تو کون مانے گا ، لہذا ایسا جملہ کہنا مناسب نہیں ،سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب لوگوں کے سینے منور ہونے لگ جائیں گے تو وہ خود ہی جان لیں گے، پہچان لیں گے۔آدم صفی اللہ نے لوگوں کو قلب کی تعلیم دی جب تک ابراہیم خلیل اللہ آئے لوگ قلب کی تعلیم بھول چکےتھے۔ جب موسی کلیم اللہ آئے تو ابراہیم خلیل اللہ کی تعلیم کو بھول چکے تھے ، یہاں تعلیم سے مراد شریعت کی تعلیم نہیں ہے ،بلکہ باطنی علم کی طرف اشارہ ہے ،موسی علیہ السلام کو یہودی عالموں نے شریعت کی تعلیم سامنے رکھ کر تنگ کیا تھا کیونکہ باطنی علم وہ بھول چکے تھے ، بھول کیسے گئے؟ کیونکہ باطنی تعلیم ولی لے کر آتا ہے اور وہ تعلیم اُس کے سینے میں ہوتی ہے کہیں لکھی ہوئی نہیں ہوتی اگر لکھی ہوئی ہو بھی کہ روح اِس طرح منور ہوتی ہے تو بھی کیا فائدہ!! کیونکہ آپ کو نہ تو اپنی روح نظر آتی ہے نہ نور نظر آتا ہے یہ تو باطنی کام ہے باطنی لوگوں کے ذریعے ہوتا ہے ، اگر باطنی علم لکھ بھی دیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں ۔مثال کے طور پر بچہ پیدا کرنے کا طریقہ لکھ دیں لیکن اگر آپ نا مرد ہیں تو بچہ پیدا کرنے کا علم جتنا مرضی سیکھ لیں کبھی بھی باپ نہیں بن سکتے۔جب تک ولی آتے رہے باطنی تعلیم چلتی رہی جب ولی آنا بند ہو گئے تو لوگ باطنی تعلیم کو بھول گئے ۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب مرسلین اُس باطنی علم کو لیکر آئےتب انہوں نے باطنی تعلیم پر اتنا زیادہ زور کیوں نہیں دیا اُس علم کو چھپا چھپا کر کیوں رکھا ۔جیسا کہ حضور نبی کریم جب تشریف لائے باطنی علم بھی آیا لیکن وہ علم عام نہیں ہوا، حضور پاک کی وہ احادیث جو باطنی علم سے متعلقہ ہیں اُن کی روشنی میں آپ کچھ لوگوں کو تو قائل کرسکتے ہیں لیکن انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہےجنہیں قائل نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا یہ ذہن بنا ہوا ہے کہ باطنی علم کا وجود نہیں ہے ،نہ ہی اسکا ذکرقرآن و حدیث میں ملتا ہے۔
دین اسلام کے ظاہری ڈھانچہ میں سنی وہابی دیوبندی سب شامل ہیں اُن سب نے صوفیوں کو زندیق قرار دیا ہوا ہے ،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شیعہ فرقہ بھی صوفیاء کرام کو نہیں مانتا۔ ایران میں اُن کے مزارات پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا جبکہ یہ سارے صوفی وہ ہیں جو مولا علی کےنام لیوا ہیں جس کا یہ کہناہے کہ ہمیں سب مولا علی سے ملا ہے ،مولا علی کو وہ اپنی آنکھوں کا تارا جانتے ہیں ،جس ولی کو اٹھا کر دیکھ لیں انہوں نےاپنے عقیدے میں مولا علی اور اہل بیت کواتنا بڑا مقام دیا ہے کہ آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔کیا اِن شیعوں کو اولیاء کرام کی یہ بات نظر نہیں آتی کہ جو مولا علی کے ماننے والے ہیں ،جو اہل بیت کے ماننے والے، ان کی تعریف کرنے والے، اُنکی جوتیوں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے والوں کو زندیق کہہ دیں ۔ یہ بڑی دل برداشتہ کہانی ہے۔لیکن پھر سیدنا گوہر شاہی کی وہ مثال سامنے آتی ہے کہ جس کے بارے میں سرکار نے ارشاد فرمایاکہ

”شروع شروع میں ہم سمجھتے تھے کہ سنی بہتر ہیں، ایک دن ہم کو خیال آیا اِن فرقے والوں کے سینے دیکھیں جب سنیوں وہابیوں دیوبندیوں کے سینوں کو دیکھا تو معلوم ہوا سب کے دل کالے ہیں ، اب اس سے کیا فرق ہوا کوئی سنی ہے وہابی ہے یا شیعہ ہے دل تو سب کے کالے ہیں “

ٹھیک ہےکوئی یا علی، یا حسین کا نعرہ لگا رہا ہے لیکن یا علی اور یا حسین سے زیادہ بڑا نام اللہ کا ہے جب زبان سے اللہ اللہ کرنے سے ، زبان سے یا محمد کہنے اوردرود شریف پڑھنے سے اِن کے سینے منور نہیں ہوئے تو زبان سے یا علی ،یا حسین کہنے سے خود بخود تمہارے سینے کیسے منور ہوگئے، زبان سے نام لینے سے تم خودبخود کیسے مومن بن گئے؟ علی اور حسین سے بڑا نام اللہ اور محمد کا ہے جب یہ اسم زبان سے لینے سے بندہ منور نہیں ہوتا تو مولا علی کے نام سے کیسے ہو گا۔ہاں مولاعلی کے نام میں نور ہے کیا اللہ کے نام میں نور نہیں ہے؟ محمؐد کے نام میں نور نہیں ہے؟ نور تو ہے لیکن نور بنانے کا طریقہ تم کو نہیں آتا ۔اسم ،دل کی دھڑکنوں میں جائے رگڑا لگے ،نور بنے وہ نور دل سے نکل کر نسوں میں جائے لطائف تک پہنچے تب ہی سینہ منور ہو گا ۔آپ اہل بیت کے ماننے والے ہیں ٹھیک ہے لیکن آپ ہی کی طرح زبانی طور پر اللہ کو ماننے والے بھی ہیں ، تم اہل بیت کو ماننے والے ہو تو یہ اللہ کو ماننے والے ہیں ، اہل بیت، اللہ سے بڑی تو نہیں ہے ۔ یہ لوگوں کے ذہن میں ایک فتور ہے۔حضور کی ایک حدیث ہے کہ منافق کی پہچان علی ہے۔ اب جس کے سینے میں نور ہی نہیں ہے تو وہ حضرت علی کو کیسے پہچانے گا۔محض زبان سے یا علی کا نعرہ لگاتا رہے گا۔

ازلی مومن اور منافق کی پہچان:

سینے میں نار ہے یا نور اس کا کب پتا چلے گا؟اگر تومنافق ہے تیرے سینے میں شیطان بیٹھا ہوا ہے ، یا علی کہنے سے فرق تب پڑے گا جب یا علی کا نور اندر جائے اور نار کو دھکیلے، تو مومن ہے یا منافق، زبان سے علی علی کر رہا ہے تو وہ تو باہر ہی رہے گا، اس کا نور اندر گھسنے کی کوشش کرے گا تب ہی شناخت قائم آئے گی کہ مومن ہے یا منافق۔
مثال: ایک طالب علم ایسا ہے جو پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دیتا ایک ایسا ہے جوبڑا پڑھاکو ہے ، دونوں کی قابلیت کا پتا تب ہی چلے گا جب دونوں امتحان میں بیٹھیں گے ،پرچہ دیں گے اور نتیجہ آنے پر حقیقت سامنے آئے گی۔ اسی طرح تو منافق ہے یا کافر اس بات کا پتا تب چلے گا جب نور کو اندر داخل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور نور داخل نہیں ہو گا تیرا دل نور کو واپس باہر دھکیلے گا تو معلوم ہو گا یہ ازلی منافق ہے۔

”سیدنا گوہر شاہی فرماتے ہیں فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے ، کافروں کی زبان اقرار نہیں کرتی ، منافقوں کے دل تسلیم نہیں کرتے“

تمہارا دل تو منافق تھا، منافق دل کی نماز کیسےقبول ہوگی؟ سیدنا گوہر شاہی کی تعلیم دیکھیں اور پرکھیں کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں کتنی بڑی بڑی حقیقتیں پنہاں ہیں ۔فرمایا اگر تم دیکھنا چاہتے ہو کہ اللہ تم پر کتنا مہربان ہے تو لگ جاؤ اللہ کے ذکر میں ، اپنے آپ کو پہچاننے اوراپنے مرشد کو پہچاننے کی کسوٹی دل والا علم ہے ایک دو تین یا سات دن میں اگر تیرے دل میں اللہ اللہ شروع ہو گئی تو پھر وہ مہربان ہی مہربان ہے۔ ورنہ مال و دولت تو کافر منافق کے پاس بھی ہے اُن کو دیا اور تم کو بھی دیا تو کیا مہربانی ہوئی اگر وہ تجھ پر مہربان ہوتا تو تجھے اپنے نام لیوائوں میں شامل کرتا۔سیدنا گوھر شاہی کا ہر لفظ ایک کسوٹی اوردلیل ہے۔کون ایسا آیا ہے اِس دنیا میں جو اپنے علم اور تصرف کو پرکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ جو یہ کہے مرشد کوآزماؤ وہ کیسے جھوٹا پیر ہو سکتا ہے ، جھوٹا پیر یہ کیوں کہے گا وہ تو لوگوں کو الجھا کر رکھتا ہے کہ تم پر کرم ہو جائے گا دو سال بعد پوچھا پیر جی اب کرم ہو گیا تو پیر کہتا ہے ہاں کرم ہو گیا ہے بس چپ کر کے بیٹھے رہو ۔ ہم کہتے ہیں ایسا کرم کس کام کا کہ جس بندے پر کرم ہوا ہےاس کو پتا ہی نہ چلے۔آج گورے توتصوف کی بات کرتے ہیں لیکن آج جو خود کو صوفی کہتے ہیں ان صوفیوں کو تصوف کا نہیں پتا ۔دنیا بھرمیں خاص طور پر مصر میں تو صوفیوں کا میلہ لگا ہوا ہے وہاں چھپ چھپ کے صوفی خانقاہیں بنی ہوئی ہیں لبنان، موروکو، تیونس میں بھی بہت صوفی ہیں لیکن آج جتنے بھی صوفیوں کو دیکھ لیں وہ سب شریعت کی بات کررہے ہیں ۔

اصل صوفی کون ہوتا تھا؟

بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صوفی ازم اسلام سے ہٹ کر کچھ ہے جو اسلامی شریعت کو اپناتا ہے وہ ہی سچا راسخ العقیدہ مسلم ہے ، جبکہ راسخ العقیدہ یا سچا دیندار وہی ہےجو صراط مستقیم پر قائم ہو۔ اور آرتھوڈوکس ۔جو یہاں وہاں سے تھوڑی تھوڑی دین کی باتیں جمع کر لےوہ ان آرتھوڈوکس کہلاتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ایک طبقہ شروع سے صوفیوں کو زندیق کہتا آیا ہے ۔عام مسلمان جس کا کسی بھی دور سے تعلق ہو اس کا سارا کا سارا زور ظاہری رسومات مذہب پر ہے جبکہ صوفی کا زیادہ زور اور توجہ اللہ کے نام اور نور کو سینے میں پہنچا کر ارواح کو منور کرنے پر ہے ۔اقرار بالسان و تصدیق بالقلب اسلام کا بنیادی اصول ہے ۔
مثال:جیسے شادی کے وقت تین مرتبہ قبول کا اقرار لے کر کسی عورت کو بیوی بنا لیا اب ساری عمر کے لیےبیوی ہے ہر سال یا بار بار قبول ہے قبول ہے نہیں کہتے ۔اسی طرح جو ظاہری رسومات مذہب ہیں وہ اقرار کے لیے ہیں یعنی اقرار بالسان ہو گیا اب اس کے بعد تصدیق بالقلب میں لگو یعنی اس نور کو اپنی ارواح میں داخل کرنا ہے ۔زبان سے اقرار تو ایک منٹ میں ہو جاتا ہے۔ لیکن قلب کو سچا ہونے میں بڑا عرصہ لگ جاتا ہے ۔غالب نے بھی کہا
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا ۔۔۔۔۔۔مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
یہ محنت مذہبی لوگوں سے نہیں ہوتی۔ حدیثوں میں لکھا ہے فلاں آیت پڑھ کر سو جاؤتو اتنی عبادات کا ثواب ملے گا، یا اس آیت کے پڑھنے سے قلب زندہ ہو جائے گا ، فلاں آیت پڑھ لی تو نفس مر جائے گا، اس قسم کی باتیں پڑھ کر ہر ایک یہ ہی سمجھتا ہے میرا قلب زندہ ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں اگر قلب زندہ کرنا ہے تو قبرستان جایا کرو۔ کسی نے یہ کہہ دیا کہ قہقہ لگا کر ہنسنا قلب کی موت ہے۔ آئر لینڈ میں ہندوئوں اور سکھوں سے گفتگو فرماتے ہوئے سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا”جس کے دل میں رب آ جاتا ہے وہ ہر وقت ہنستا رہتا ہے“ یہ متضاد بات ہو گئی اب میں اس حدیث کو کیسے مانوں جس میں لکھا ہے ہنسنے سے قلب مردہ ہوتا ہے،وہ ذات جس نے میرے قلب کو زندہ کیا وہ تو کہہ رہے ہیں جس کے دل میں رب آ جاتا ہے وہ ہر وقت ہنستا رہتا ہے۔جو قلب قبرستان جانے سے زندہ ہوتا ہوگا وہ یقینا قبرستان جانے سے مردہ ہو جاتا ہوگا ۔ایک حدیث یہ بھی عام ہے کہ موت کو یاد کرو قلب زندہ ہو گا ، موت کو یاد کرنے سے قلب کا کیا تعلق ہے۔جس طرح کے حالات اس وقت ہیں اب تو قبرستان جانے کی زحمت اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے یوٹیوب پر جا کر لوگوں کے سر تن سے جدا کرنے، ان کے گلے کاٹنے کی ویڈیو زیکھ لیں قلب کا زندہ ہونا تو ایک طرف رہا ایسے منظر دیکھ کر کبھی مرے گا ہی نہیں ۔قبرستان میں مردے تو نظر نہیں آتے ، اُن ویڈیوز کو دیکھ کر تو ساری دنیا کے قلب زندہ ہو جانا چاہئیے۔ قلب کیسے زندہ ہوتا ہے اس بات کا تم کو علم اور شعور نہیں دیا گیا۔قرآن میں ہے

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
سورۃ النحل آیت نمبر 43
ترجمہ: سوال کرو اہل ذکر سے اس علم کے بارے میں جو تمہیں معلوم نہیں ہے

وہ علم اگر قرآن میں ہوتا تو قرآن کیوں کہتا کے اہل ذکر سے پوچھو ۔یہ کہہ دیتا اگلی آیت میں پڑھ لویا پچھلی آیت میں پڑھ لو۔ سلطان باھو نے کہا
نظر جناں دی کیمیا ہوئے سونا کردے وٹ
اللہ ذات کریندی ہے کی سید تے کی جٹ

جن کی نظروں کو کیمیاء گری عطا ہو گئی وہ پتھر پر نظر ڈالیں تو اس کو سونا بنا دیں ۔اللہ جس کو چاہے یہ طاقت دے دے ، بھلے سید ہو یا جٹ ہو۔یہ اللہ کی مرضی ہے اگر سید کو نہ دے اورکسی جٹ کو یہ تصرف دے دے۔ کیا آپ اللہ سے جھگڑا کریں گے۔فلاں آیت پڑھ لو تو سارا دن عبادت میں گزرے گا، جب خاص راتیں آتی ہیں جیسا کے لیلہ القدر کی رات ہے۔ جس رات کے لیے قرآن میں ہے کہ
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
اس رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بڑھ کر ہے ۔یعنی اس سال کی عبادت نوے سال کی عبادت کرنے کے برابر ہے۔ عام طور سے انسان کی زندگی نوے سال ہوتی بھی نہیں ہے ، تو اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہوگئی ۔اگر وہ یک رات آپ کو مل گئی تو دوسری رات کیوں جاگ رہے ہو؟ تمہیں یقین نہیں ہے نا وہ قبول ہوئی ہوگی۔ جس دن سے ہمیں یقین آگیا کہ ہمارا تعلق جڑ گیا ہے اس دن سے ہم نے صرف سرکار کو پکڑا ہے باقی سب چھوڑ دیا۔تمہیں یقین نہیں ہے تم پڑھ لو نمازیں ۔
ایک حدیث جبرائیل ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام ایک صحابی کے روپ میں حضور سےملنے آئے یہ ایک طریقہ کارتھا صحابہ کو تعلیم دینے کا۔ جبرائیل نے حضورؐ سے پوچھا ۔اسلام کیا ہے؟ آپ ؐ نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا۔ پھر پوچھا درجہ ایمان کیا ہے؟ آپ ؐ نے وہ بھی بتا دیا تو پھر پوچھا درجہ احسان کیا ہے؟ حضور پاکؐ نے تینوں سوالوں کے جواب بیان کئے ،سننے والے سنتے رہے۔درجہ احسان والی بات تو بالکل نئی اور چونکا دینے والی تھی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ درجہ احسان کے دو درجے ہیں ۔

مرتبہ احسان کا درجہ اول :

درجہ احسان پر فائز لوگ دوران ِعبادت رب کو دیکھتے ہیں ۔اسی دور میں ننانوے فیصد دیو بندی، وہابی، سنی ، شیعہ مسلمان تصوف کو ماننے کے لیے تیار نہیں جبکہ دیدار الہی حدیث جبرائیل ہے۔ کہ ایسی عبادت کر کہ تو رب کا دیدار کرےاور جو دوران عبادت رب کا دیدار کریں ان کو محسن کہتے ہیں ۔ اللہ کا دیدار کرنے والوں کو ولی کہنا پسند نہیں تو تم انہیں محسن کہہ دو،کتنے مسلمان ایسے ہیں جو یہ کوشش کرتے ہیں کہ جب نماز ادا کریں تو انکو اللہ کا دیدار ہو۔ درجہ احسان تو یہ کہہ رہا ہے کے جب تم عبادت کرو تو رب کو دیکھو۔ عبادت میں رب کو دیکھنا کتنی بڑی بات ہےادھر سرکار گوہر شاہی تو چھوٹی سی بات کہہ رہے ہیں کہ جب تو عبادت کرے تو تیرے دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کریں لوگوں نے اس بات کو جھٹلا دیا جبکہ اس سے بڑے بڑے ثبوت موجود ہیں جس میں ایک کا ابھی بیان ہوا کہ درجہ احسان یہ ہے کے عبادت میں تو رب کو دیکھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مولویوں کا دل فقیر کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ۔ سلطان باھو نے کہا ” جے توں چاہویں وحدت رب دی۔۔۔۔۔ مل فقیر دیاں گٹیاں نو“۔ اگر تو رب کی وحدت چاہتا ہے تو جا کسی فقیر کے قدموں میں بیٹھ، یہ فقیروں کے آگے جھکنے سے ہوتا ہے۔
تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

اب یہ ہم کو معلوم ہو گیا کہ درجہ احسان یہ ہے کہ جب تو عبادت کرے تو گویا رب کا دیدار کرے۔ یہ تعلیم فقیروں کو حاصل ہےاور ان ہی سے ملے گی۔شیعوں کے لئے مقام فکرہے یہ۔شیعہ مولا علی کا نام لیتے ہیں اُن کی باتیں بھی کرتے ہیں جبکہ مولا علی تو یہ کہتے ہیں کہ میں سجدے سے اس وقت تک سر نہیں اٹھاتا جب تک کہ اللہ کا جواب نہ آ جائے ” لبیک یا عبدی” تم حضرت علی کی صرف تعریف ہی کرتے رہو گے جو مولا علی کا عمل ہے اس کو کیوں نہیں اپنا تے!! تم نے مولا علی کے نام پر ناچنے کا ایک بہانہ بنا رکھا ہے یہ اسلام نہیں ہے وہ تو کہہ رہے ہیں جب تک اللہ کا جواب نہ آ جائے سجدہ سے سر نہیں اٹھاتا یہ تو ایک چھوٹی سی بات ہے۔ بلھے شاہ نے بھی کہاہے کہ
اساں عشق نمازجدوں نیتی اے۔۔۔۔۔۔۔تدوں بھل گئے مندر مسیتی اے
جب سے ہم نے نماز عشق شروع کی اس کے بعد ہم نے مسجد مندر بھلا دئیے ہیں ۔ نماز عشق کیا ہے؟ میں تجھے دیکھ لوں تو مجھے دیکھ لے۔ یہ تعلیم تو حدیثوں میں ہے اور لوگوں نے اس کو کہا کہ تصوف اسلام سے جدا ہے۔ تصوف نہ اسلام سے جدا تھا نہ عیسائیت سے جدا تھا، تصوف نہ یہودیت سے جدا تھا اور نہ ہی تصوف آدم صفی اللہ کی تعلیم سے جدا تھا ، آدم صفی اللہ کی عظمت تعلیم تصوف اور علم باطن کی وجہ سے ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ ، موسی کلیم اللہ، عیسی روح اللہ اور محمد رسول اللہ کی عظمتیں اس تعلیم تصوف اور علم باطن کی وجہ سے ہیں ورنہ تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدم آئے تھے اور اُن کے لاکھوں نبی آئے تھےآج ان کا نام نشان بھی نہیں ہے۔ علم تصوف کی وجہ سے مرسلین کا بھرم تھا اس علم تصوف کی وجہ سے لوگ آسمانوں تک پہنچے آپ کہتے ہیں علم تصوف اسلام کا حصہ ہی نہیں ہے ۔ اگر تصوف اسلام کا حصہ نہیں ہے تو پھر جو اسلام ہے وہ یہ ہی ہے کہ اسلام کی آڑ میں لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور ایسا اسلام اللہ کو منظورنہیں ہے۔

مرتبہ احسان کا دوسرا درجہ:

جبرائیل حدیث کے مطابق درجہ احسان کا پہلا درجہ یہ ہے کے دوران عبادت تو اللہ کو دیکھے۔ دوسرا درجہ بیان کرنے سے پہلےحدیث جبرئیل کے پہلے حصے کے الفاظ جوں کے توں جان لیں پھر اس کا مفہوم سمجھ آئے گا۔” حدیث جبرائیل :توعبادت کرے تو اللہ کو دیکھے ورنہ اللہ تجھے دیکھے۔ لوگ کہتے ہیں ہم نہیں دیکھ رہے چلو اللہ تو ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ یہاں وہ یہ بھول گئے کہ اللہ نے ایک بات اور بھی فرمائی۔
ان اللہ لا ینظر الا صورکم و اعمالکم ولا کن ینظر الا قلوبکم و نیاتکم۔۔۔۔اللہ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال دیکھتا ہے۔یہاں اب غور طلب نقطہ یہ ہے کہ اگر تمہاری اس بات کو مان لیا کہ اللہ دیکھ رہا ہے اُس حساب سے تودرجہ ایمان اور درجہ ایقان سب ہٹ گئے اور سارے مسلمان براہ راست درجہ احسان پر فائز ہو گئے ، درجہ احسان کی تو مٹی پلید ہو گئی کیونکہ تمہارے مطابق اللہ تو سب ہی کو دیکھ رہا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے اس کا مطلب ہےکہ اللہ اُن کو دیکھے گاجن کے قلب منور ہو گئےاور نور سے چمک گئے۔
مرتبہ احسان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ تو اپنے قلب کو اس قابل بنا ، اپنے باطن کو سنوار لے ، اپنے دل کو پاک صاف کر لے تاکہ اللہ کی نظر کی تجلیات تیرے دل پر پڑنا شروع ہو جائیں ۔اللہ کا دیکھنا ایسا نہیں ہے کہ تو خود بخود تصور کرکے بیٹھ جائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں اسٹیکر دیکھے جن پر لکھا تھا ، ” اللہ دیکھ رہا ہے”۔ اللہ کب کب دیکھ رہا ہے کیا رفع حاجت کے وقت بھی دیکھ رہا ہے؟ کیا اللہ اتنا ہی فارغ ہے۔لوگوں نے قرآان کی اس بات کو بھی خوب استعمال کیا۔لا تدرک الابصار۔۔۔۔کہ انسان کے پاس اللہ کو دیکھنے کی جو بصیرت ہے وہ نہیں ہے ۔یہ بات نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اللہ کو دیکھنا اور اللہ کا دیکھنا ، اس کا طریقہ کچھ اور ہے ۔

”اللہ لطیف ہے اللہ کا دیدار لطیف بصیرت سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے اللہ نے ایک روح انسان کے دماغ میں رکھی ہے جسے وہ لطیف بصارت حاصل ہے جب وہ روح منور ہو گئی تو ان ظاہری ، مٹی اور خون سے بنی ہوئی آنکھوں سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھوں سے رب کا دیدار ہوگا“

یہاں پر یہ کہنا بھی بہت ضروری ہے کہ بہت سی ہستیاں ایسی بھی گزری جنہوں نے ان ظاہری آنکھوں سے بھی رب کو دیکھا وہ اس طرح کہ جب ان ظاہری آنکھوں کے پیچھے خاص مخلوق جس کو طفل نوری یا جسہ توفیق الہی کہتے ہیں جب وہ کسی میں آ گئی تو ان ظاہری آنکھوں سےبھی لوگوں نے رب کو دیکھا ۔ کیونکہ اس کے پیچھے جو طاقت ہے وہ جسہ توفیق الہی اور طفل نوری کی تھی۔یہ تصور باطل ہے کہ انسان یہ کہے کہ تم دیکھنے کی کوشش کرو نہ دکھے تو خیر ہے کیونکہ اللہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ اس جملے میں اللہ کی شدید توہین ہے۔ آپ دیکھیں یا نہ دیکھیں اللہ پر تو فرض ہے کہ وہ آپ کو دیکھے ۔علم تصوف تو تھا اس کی کتابیں بھی موجود تھیں لیکن تصوف سمجھانے والا کوئی نہیں تھا، کتابوں کو پڑھ پڑھ کر لوگ صوفی ، گدی نشین، جعلی پیر تو بن گئے لیکن کوئی اللہ والا نہیں بنا ۔ تصوف کبھی ایک حقیقت تھا ، سلاسل روحانیہ کبھی سب سچےتھے لیکن اب ان میں فیض باقی نہیں رہا ۔جعلی پیر اور فقیر آ گئے ہیں ۔
اللہ اللہ کئے جانے سے اللہ نہ ملے ۔۔۔۔اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

امام مہدی سے متعلقہ ایک خاص نقطہ:

اقوام عالم کے لیے لمحہ فکریہ آپہنچا ہے کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں تمام مذاہب والوں کو صدیوں سے ایک ہستی کا انتظار ہے، ہندو کالکی اوتار کے انتظار میں ہیں ، مسلمان امام مہدی کے منتظر ہیں یہودی مسایا کی راہ دیکھ رہے ہیں عیسائی ، عیسی ٰعلیہ السلام کا انتظار کر رہے ہیں ، آنے والی وہ ہستی خود ساختہ تو نہیں ہوسکتی منجانب اللہ ہی آئے گی ۔دنیا میں اتنے بڑے بڑے لکھاری ہیں انکو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ مسلمانوں کا امام مہدی بھی اللہ بھیجے گا یہودیوں کا مسایا بھی اللہ کی طرف سے آئے گا اور ہندوئوں کا اوتار بھی منجانب اللہ ہو گا ،کیا اللہ کی طرف سے آنے والی تینوں ہستیاں آپس میں لڑنے آئیں گی ؟ کیا اللہ کا دماغ خراب ہے کےجو تین ہستیاں اللہ کی طرف سے آئیں گی وہ نیچے آکر اپنا دین ثابت کرنے کے لیے آپس لڑیں ۔ اس طرح تو تین اکھاڑے کھل جائیں گے۔
بات یہ ہے کہ اللہ نے ایک ہی ذات کو بھیجنا ہے جو ہندوؤں کے لیے کالکی اوتار ہوگا، مسلمانوں کے لیے مہدی ہوگا، یہودیوں کے لیے مسایا ہوگا۔سب کا کہنا یہ ہے وہ ان کے دین کے لیے آ رہا ہے تو کیا وہ ہستی جب مسلمانوں کے ساتھ ہوگی تونماز پڑھے گی، ہندوؤں میں جائے گی تو پوجا پاٹ کرے گی اور یہودیوں کے ساتھ دیوار گریہ پر کھڑے ہو کر روئے گی؟ نہیں ایسا نہیں ہے ، وہ ذات ایسی بات لے کر آئے گی جو تینوں مذاہب کے لیے قابل قبول ہو گی ، وہ ہستی کسی ایک مذہب کی بات نہیں کرے گا ، وہ خدا کی بات کرے گا اور خدا کو سارے مانتے ہیں ، اور خدا کی وہ بات اس کی محبت ہو گی۔منجانب اللہ ہستیاں زمین پر لڑنے نہیں آتیں۔ بلکہ رب کی محبت پھیلانے آتی ہیں ۔

”آخری زمانہ میں آنے والی وہ ذات الگ الگ ہستیاں نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے الگ الگ نام ہیں ، کوئی مہدی سمجھ کر کوئی ، کالکی اوتار اور کوئی مسیحا سمجھ کر ان کا منتظر ہے۔جو اللہ کو ماننے والے ہیں وہ اس ایک ذات کے ساتھ ہوجائیں گے ، جو اللہ والے نہیں ہوں گے وہ دجال کے ساتھ ہو جائیں گے“

دیکھنا یہ ہے کہ اس آنے والی ہستی کے تصدق میں منجانب اللہ کیا نشانیاں ظاہرہوئی ہیں ۔ اگر ان ہستیوں کی نشانیاں اللہ کی جانب سے ہیں تو کیا وہ ذات اللہ کی جانب سے نہیں ہوگی۔منجانب اللہ آنے والے مسیحا کا ایک ہی سبق ایک ہی پاٹ ہو گا ، اس کا مقصد پہلے سے قائم ادیان کا غلبہ ہر گز نہیں ہوگا ۔غلبہ ہو گا تو خدا کا اور جس دین کو وہ غالب کرے گا وہ سب کا دین ہوگا اور اس دین کا نام عشق الہی دین الہی ہے۔ اگر ان ہی ادیان کو اگے بڑھانا ہے تو کیا اکھاڑ لیا یہ دین تو تمہارے پاس پہلے بھی ہیں ۔ان ادیان کی وجہ سے ہے تو تم گھوڑے اور گدھے ہو۔ وہ تو اللہ کا دین قائم کریں گے ساری امتیں ختم ہو کر امت واحدہ میں ڈھل جائیں گی ۔ سب اللہ والے بھائی بھائی ہوجائیں گے اور باقی جو بچیں گے دجال کے ساتھ مل جائیں گے۔ امام مہدی قتال نہیں کریں گے۔ سرکار گوہر شاہی کی تحریک میں اللہ کا علم نہیں ہے تمام تعلیم سرکار کی اپنی ہے۔

 

متعلقہ پوسٹس