کیٹیگری: مضامین

باطنی علم کی مفقودگی:

سیدنا گوہر شاہی علم باطن کے ذریعے انسانوں کے دلوں میں اللہ کا نور بھر رہے ہیں اور تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک نقطے پر جمع فرما رہے ہیں اور وہ نکتہ ہے “اللہ کی ذات”
اگر آپ متانت و سنجیدگی سے غور فرمائیں تو تمام مذاہب، تمام ادیان کا جو مقصد ہے وہ تمام انسانیت کو اللہ سے ملانا ، باقی تمام وسائل بندگی میں آتے ہیں ،عرصہ بیت گیا اب تو مسلمانوں میں باطنی علم کا جو تصور ہے وہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ روحانیت کا تصور اب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت سے آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے لیکن قرآن مجید نے اللہ رب العزت کے بارے میں “ھو الظاہر” “ھو الباطن” یہ کہہ کر معاملے کو بالکل صاف اور شفاف فرما دیا ہے۔
ھو الظاہر۔۔۔۔ وہ ظاہر میں بھی ہے
ھو الباطن ۔۔۔۔۔ وہ باطن میں بھی ہے
جب اللہ تعالی کے وجود اور اسکے جلوؤں کو ظاہر اور باطن دونوں میں بیان کیا گیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ظاہر کا علم تو ہو اور باطن کا علم نہ ہو۔
جن کو باطن کے علم کے بارے میں نہیں پتا انہیں کہنا چاہئیے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ باطن کا علم کیا ہے، یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ باطن کا علم ہے ہی نہیں اور پھر یہ شعور کی بات ہے کہ انسان ظاہر اور باطن کا امتزاج ہے ۔انسان کی ایک جہت ظاہری ہے جو ہمارے جسم پر مبنی ہے اور جو انسان کی اصل حقیقت ہے وہ انسان کی روح ہے، روح سے متعلقہ جو علم ہے اس کوعلم باطن کہا جاتا ہے ، روح ظاہر نہیں ہے روح باطن ہے، اگر روح ظاہر ہوتی تو ہم ایک دوسرے کی روحوں کو دیکھ سکتے ۔روح کو کس طرح اللہ کی بندگی میں لگانا ہے، روح کو کس طرح اللہ کا قرب دلانا ہے ، روح کو کس طرح بیدار کرنا ہے، روح کو کس طرح کلمہ پڑھانا ہے یہ تمام چیزیں علم باطن سے حاصل ہوتی ہیں ۔ شرح صدر کیا ہے یہ نرا علم باطن ہے۔یہ ہمارا المیہ ہے کہ فرقہ واریت کی وجہ سے ہمارا مکمل انحصار ظاہری علوم پر ہے ، جسم کو عبادات پر لگانا ، ذکر و اذکار میں جسم کو لگانا ، زبانی کلامی ذکر و اذکار کرنا اور وہ جو ہماری روح ہے اس کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے اور نظر آتا ہے کہ ہمارے دور کے علماء نے ظاہری علم کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور باطنی علم کے وجود کے منکر ہوتے جا رہے ہیں ۔

انسان کی حقیقت اس کا جسم یا روح؟

جب آپ جسم سے ذکر کرتے ہیں ،جسم سے نمازیں پڑھتے ہیں اور جسمانی بندگی اختیارکرتے ہیں تو اس کو جزوی عبادت یا جزوی بندگی کہا جائے گا کامل عبادت کا درجہ حاصل نہیں ہو گا، کامل عبادت کا درجہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب انسان کا جسم بھی عبادت کرے اور اس کے ساتھ اس کی روح بھی اس میں شامل ہواور قرآن حکیم نے خالص اس کو کہا ہے جس نے اپنی روح کو بھی رب کے آگے جھکا دیا ، جس نے اپنی روح کو بھی رب کے ذکر ،رب کی عبادت میں لگا دیا ۔قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورة الذاریات آیت نمبر 56
ترجمہ: اور ہم نے انسانوں اور جنات کو اپنی بندگی کے لیے تخلیق کیا ہے

قرآن مجید کی یہ آیت بتا رہی ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ اللہ نے انسانوں اور جنات کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے، صاف صاف بھی کہہ سکتے تھے یعبدون لیکن وہاں الا کا جو لفظ لگایا ہے وہ قطعی فیصلہ ہے کہ کوئی اور دوسرا مصرف اور مقصد انسان کی تخلیق کا نہیں ہے سوائے اِس کے کہ انسان رب کی عبودیت میں آ جائے ، رب کی عبادت کرے، إِلَّا لِيَعْبُدُونِ سوائے اس کے کہ وہ رب کے عابد بن جائیں اور کوئی مقصد نہیں ہے۔جب اللہ نے بنایا ہی تم کو اپنی عبادت کے لیے ہے توپھر تم انسان ہو کے عبادت سے منہ کیوں چرا رہے ہو، عبادت کرنا اللہ نے تمہاری فطرت میں رکھا ہے ، جو چیز فطرت میں ہوتی ہے وہ آدمی ہر حال میں کرتا ہے ، جب عادت بن جائے تو آدمی وہ کام عادتا کرتا ہے تو جب فطرت بن جائے تب کیا حال ہو گا؟ جس طرح آگ کی فطرت گرم ہے کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے آگ ٹھنڈی ہو؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ انسان اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے تو صرف رب کی عبادت سے ہی وہ منہ موڑ کر کیوں بیٹھے ہیں ، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ رب کسی شے کو کسی مقصد کے لیے پیدا کرے اور وہ مقصد اس کی فطرت میں نہ ہو ، یہاں پر ہم سے سمجھنے میں غلطی ہو گئی اللہ تعالی جب انسانوں کی تخلیق کی بات کرتا ہے تو وہ روح کی بات کرتا ہے ، روحوں کی فطرت میں رب کی عبادت ہے جسموں کی فطرت میں رب کی عبادت نہیں ہے اور ہم نے اپنی حقیقت اپنا جسم سمجھ رکھا ہے، ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری حقیقت ہمارا جسم نہیں ہے ہماری حقیقت ہماری روح ہے۔اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے بھی ہم عالم ارواح میں موجود تھے اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ہم اپنی روح کے ساتھ عالم أرواح میں موجود ہوں گے ، ایک مختصر عرصے کے لیے جسم کی ہمراہی ہمیں دی گئی ہے اور جو جسم ہمیں مختصر عرصے کے لیے ملا ہے کیا ہی حماقت کی بات ہو گی کہ ہم اُس جسم کو اپنی حقیقت سمجھ لیں اور اس روح کو بھول جائیں جو ہماری حقیقت ہے ، یہ باتیں اکثر علماء کرام کی سمجھ اور فہم سے دور ہیں ، نہ جانے کیوں ! صحابہ کرام نے نبی کریمؐ سے پوچھا یا رسول اللہ روح کی حقیقت کیا ہے؟ تو قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالی نے فرمایا

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
سورة الاسراء آیت نمبر 85
ترجمہ : اور یہ لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے روح تیرے رب کا امر ہے اور روح کا علم سوائے چیدہ چیدہ لوگوں کے کسی کونہیں دیا گیا۔

ہمارے علماء کرام اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ تھوڑا علم دیا گیا ہے، جب کہ اس کا علم تھوڑا نہیں ہے اس کا مطلب ہے علم دیا گیا ہے تھوڑے لوگوں کو ، زیادہ لوگوں کو علم نہیں دیا گیا ۔اب یہاں قرآن مجید سے دو چیزیں سمجھ آتی ہیں ایک تو یہ کہ روح اللہ کا امر ہے ، امر کا مطلب ہے حکم ، جیسے موسی علیہ الصلوة وا لسلام کواللہ تعالی نے دس خاص احکامات دئیے تھے جنہیں انگریزی میں (Ten Commandments) کہا گیا ہے ہے۔ اگر اس آیت کو انگریزی میں ترجمہ کریں کہ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (Your soul is nothing but your Lord’s commandment) تیری روح جو ہے تیرے رب کا حکم ہے ، تو حکم کی حقیقت کیا ہو گی، اگر رب کا حکم ہو گا کہ اے روح عبادت کر تو وہ حکم ہے اس نے عبادت ہی کرنی ہے، یہ چیز ہمارے اکثر مسلمانوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں اپنی روحوں کو بھی اللہ اللہ میں لگانا ہے ، ہمیں اپنی روحوں کو بھی تقوی سکھانا ہے، ہمیں اپنی روحوں کو بھی اسلام سے مشرف کرانا ہے ، ہم نے صرف اپنی زبانوں اور اپنے جسموں کو اسلام تک رسائی دی ہے جو کہ جزوی رسائی ہے۔

کامل انسان کس کو کہتے ہیں؟

جس نے اسلام اپنے جسم پر بھی نافذ کیا اوراسلام اپنی روح پر بھی نافذ کیا وہ کامل مومن اور کامل انسان ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنت میں جاتے وقت فرشتے کہیں گے اپنے نبی کا کلمہ پڑھو ، تو جس جسم نے زمین پر زبان سے کلمہ پڑھا تھا اور وہ جسم تو قبر میں ہے اس روح نے تو زمین پر کبھی کلمہ پڑھا ہی نہیں ، اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے زبان سے تو بہت مرتبہ کلمہ پڑھا ہے توہماری روح نے بھی پڑھ ہی لیا ہوگا اور جنت کے داروغہ رضوان کے سامنے جا کر بھی ہماری روح کلمہ پڑھ لے گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔اب جسم کو ہی لے لیں بہت سے لوگوں کو سوتے میں بڑبڑانے کی عادت ہوتی ہے، اگر اُن سے پوچھیں کے تم سوتے میں کیا بڑبڑا رہے تھے تو وہ کہے گا مجھے نہیں پتا ، جسم سو رہا ہے اور بول رہا ہے اور جسم کو ہی یاد نہیں کیا بولا ہے تو وہ روح کو کیا یاد ہو گا کہ تیری روح نے کیا پڑھا ہے۔

سیدنا گوہر شاہی ہمیں علم باطن عطا فرما رہے ہیں ، سیدنا گوہر شاہی ہمیں سکھا رہے ہیں کہ ہم اپنی روحوں کو کلمہ کیسے پڑھائیں ، ہم اپنی روحوں کو نمازوں میں کیسے لگائیں، ہم اپنی روحوں کو تقوی کیسے سکھائیں کیونکہ اللہ کے نزدیک جو معیار ہے وہ خشک عبادتوں کا نہیں ہے، اللہ رب العزت کے نزدیک جو معیار ہے وہ تقوی ہے

تقویٰ اور پرہیزگاری کیا ہے ؟

ایک تو دینی اصطلاح میں پرہیز کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے دوسرا پرہیز کا لفظ عام زندگی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، وہاں سے بھی مثال لیں تو بات سمجھ میں آئے گی ، جیسا کہ بچپن میں جب بخار وغیرہ ہو جاتا تو ڈاکٹر کہتا روٹی نہیں کھانا ، دودھ ڈبل روٹی کھاؤ ، بیمار ہو جاتے ہیں تو آدمی مختلف کھانوں سے پرہیز کرتا ہے ، اسی طرح دینی اصطلاح میں اگر پرہیزگاری کا مطلب سمجھا جائے تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جن افعال سے منع کیا ہے ، جن کاموں سے منع کیا ہے، جو خلاف شریعہ کام ہیں ان کاموں سے آپ پرہیز کریں گے تو یہ تقوے کے زمرے میں آنے لگے گا ۔ تو اب پرہیز گاری کی یہ تعلیم روح کے لیے ہے یا جسم کے لیے ہے؟
انسان کے اندر ایک ایسی چیز بھی ہے جس کا انسان سے تعلق نہیں ہے اور وہی چیز ساری زندگی انسان پر حاوی رہتی ہے اور انسان کو مردود بنا دیتی ہےاور وہ ہے تمہارے اندر چھپا ہوا ایک شیطان جس کو قرآن نے نام دیا ہے لطیفہ نفس اور سورہ یوسف میں آیا ہے کہ یہ جو نفس ہے یہ برائی کا حکم دیتا ہے اسی نفس کو پاک کرنے کے لیے قرآن مجید نے کہا

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاعلیٰ آیت نمبر 14
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہوگیا ۔

تقوی یہ نہیں ہے کہ آپ ظاہری طور پر گناہ نہ کریں لیکن اندر نفس میں گناہ کرنے کی خواہش بدرجہ اتم موجود رہے۔ بلھے شاہ نے کہا
تیرا دل کھلاوے منڈے کڑیاں توں سجدے کریں مسیتی
واہ رے دنیا دارا رب دے نال وی توں چار سو وی کیتی

علامہ اقبال نے بھی اس بات کو کچھ اسطرح اپنے اشعار میں ڈھالا ہے
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

وہ ایک سجدہ جو ہزاروں سجدوں سے آدمی کونجات دے دیتا ہے وہ کون سا ہے وہ اس نفس کو جھکانے والا ہے۔ اس نفس کو پاک کرنے کا نام پرہیز گاری ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں
مریدوں کو تو ہے حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

اب درویش کیا کہتا ہے یہ جو قرآن تو ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہے نا اور تُو نے دعوی کیا ہوا ہے کہ میں اس قرآن کا عالم ہوں ، اور قرآن کہتا ہے اسکو ہاتھ نہیں لگانا ،عالم تو ہے تو لیکن اس قابل نہیں ہے کہ اس کو ہاتھ لگائے۔اور درویش کی یہ بات کدھر سے آئی ، ایسی ہستی کی طرف سے آئی کہ جس کی بات کو دنیا کے کسی عالم میں جھٹلانے کی جرائت نہیں ۔شیخ سرہندی۔۔۔۔۔ ہندوستان کے شہر ہریانہ میں ایک مقام ہے سرہند وہاں سے اللہ تعالی نےایک توحید پرست انسان کو پیدا کیا، جس نے ظاہری اور باطنی علوم حاصل کیے اور بعد میں چل کے وہ “مجدد اعظم” بن گیا ، ان کا پورا نام شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہے، آپ نے مکتوبات ربانی میں لکھا ہے ، مقتدی کو چاہئیے کہ وہ پہلے اللہ کا ذکر کرے ،قرآن مجید کو ابھی ہاتھ نہ لگائے ۔ کیونکہ قرآن مجید پڑھنے کے قابل نہیں ہے وہ جن کے نفس امارہ یعنی کتے ہیں ، جن کے اندر نفس کا کتا بھونک رہا ہے ، جن کے نفس امارہ ہیں ایسا بندہ جب قرآن پڑھتا ہے تو قرآن اس پر لعنت بھیجتا ہے، قرآن اس کو گمراہ کرتا ہے اور جس نے پہلے اپنے نفس کو ذکر اللہ کے ذریعے پاک کر لیا اور پھر اس کے بعد قرآن پڑھا تو قرآن پھر وہ اس کی زبان پر نہیں ٹھہرابلکہ اندر سینوں میں اترتا چلا گیا ۔ابھی ہم نے یہ ہی کہا تھا نہ ہے حق بات مریدوں کو تو گوارا لیکن ، شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات، کیونکہ تم نے جو درویش دیکھے ہیں وہ درویش ہیں بے شرع فقیر ، جن کو نہ توحید کا پتا نہ نبوت و رسالت کا پتا ، نہ ولایت کا پتا نہ تزکیے کا نہ تصفیے کا پتا ، نہ ایمان کا پتا ، جنہوں نے صرف لوگوں کے دین برباد کئے، جنہوں نے صرف لوگوں کی عزتیں برباد کیں ، تم ایسے فقیروں کو جانتے ہو انہی پر فتوے لگاتے ہو ، تمہارا یہ خیال ہے کہ سارے فقیر ایسے ہی ہوں گے ۔اب مجدد الف ثانی کی یہ بات جب ہم نے پہلی دفعہ پڑھی تو ہمیں بھی بڑی بے چینی ہوئی کہ یہ کیا کہہ دیا انہوں نے کہ ہم قرآن نہ پڑھیں ؟ تو ہم کو پتا کیسے چلے گا اللہ نے اس میں کیا کیا فرمایا ہےلیکن بعد میں ہم کو توجہ دلائی گئی یہ پڑھو قرآن کیا کہہ رہا ہے

الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
ترجمہ: کہ یہ جو قرآن ہے یہ پاکوں کو ہدایت کرتا ہے

اب ہم تو پاک ہی نہیں ہیں ہمارا نفس تو امارہ ہے، یہ بات سچی ثابت ہو گئی نا ، جو مجدد صاحب نے فرمائی ، تم مدرسے میں جاؤ ، دورِ حدیث کرو، قرآن کی تفاسیر پڑھو سب کچھ کرو ، ظاہری علم آ بھی جائے گا لیکن تمہیں اس کا فائدہ کچھ نہیں ہو گا، کیوں نہیں ہوگا فائدہ؟ کیونکہ قرآن کہتا ہے میں پاکوں کو ہدایت کرتا ہوں بلھے شاہ سے کسی نے پوچھا کہ ہم ناپاک کیسے ہوئے تو بلھے شاہ نے فرمایااس نفس پلیت نے پلیت کیتا، اساں مونڈھوں پلیت نا سی۔ یہ جو ہمارے اندر نفس ہے یہ پلیت ہے جب یہ ہمارے اندر آیا تو اس نے ہمیں بھی پلیت کر دیا ، ہم یوم ازل میں پلیت نہیں تھے، اس وقت اللہ تعالی نے حکم کیا ہو جا، ہم ساری روحیں بن گئے، اللہ کی روح پلیت نہیں ہو سکتی نا ، اللہ کے امر سے جو روح بنی اس میں کیا گندگی ہو سکتی ہے ! ہم پلیت اس طرح ہوئے ؟ ایک حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام کو کہا کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیداہوتا ہے تو صحابہ کرام نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا آپ کے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا؟ تو آقا علیہ الصلوة والسلام نے جواب دیا ہاں، میرے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا لیکن وہ میری صحبت میں مسلمان ہو گیا ۔ تو وہ توحضور کی صحبت میں مسلمان ہوا اور ہماری تو صحبت ہی نہیں نا ایسی ہے کہ وہ مسلمان ہو ، ہماری صحبت میں تو وہ کافروں کا کافر ہو گیا ، اس نفس کو ہی پاک کرنا آدھا ایمان ہے اور پھر اس کے بعد قلب کو بھی غیر اللہ سے پاک کرنا اب یہ پورا ایمان ہوگیا ۔حضور پاک کا جو یہ فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہےاس کے آگے پیچھے بھی کچھ کہا تھا وہ تو تم نے بیان ہی نہیں کیا کہ کس چیز کو صاف کرنا آدھا ایمان ہے، تم نے سوچا اتنا ہی کافی ہے نہا دھو کے آدھے مومن بن جاتے ہیں لیکن جسم کو پاک صاف کرنے سے آدھا ایمان تو نہیں آئے گا نا ، وضو کرنے سے آدھا ایمان تو نہیں ہو گا نا ،اگر ظاہری جسم کو ہی صاف کرنے سے آدھا ایمان ہے تو تہتر فرقے والے آدھے مومن تو ہو گئے نا ، پھر جہنم میں کیوں جائیں گے؟ شیعہ ہو سنی ہو ، وہابی ہو بریلوی ہو سارےفرقے والے وضو کرتے ہیں ، کلمے پڑھ پڑھ کر غسل کرتے ہیں اگر اس جسم کو دھونا ہی آدھا ایمان ہوتا تو تہتر کے تہتر فرقے آدھے مومن تو تھے پھر حضور پاک یہ تو نہ فرماتے کہ تہتر میں سے بہتر فرقے جہنمی ہوں گے لیکن بات یہ ہے کہ وہ جو آدھی صفائی آدھا ایمان ہے وہ صفائی جسم کے لیے نہیں ہے وہ نفس کے لئے ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے اپنے قلب کو بھی پاک کر لیا وہ پورا مومن ہو گیایہ تعلیم قرآن مجید کا مغز ہے۔یہ ہی تعلیم حضور پاک نے صحابہ کرام کو دی، یہ تعلیم صحابہ کرام سے آگے تابیعین تک پہنچی اور تابیعین سے تبع تابیعین تک آئی اور پھر وہاں سے سینہ بسینہ یہ تعلیم مستحق انسانوں کو ملتی آ رہی ہے اس تعلیم کا نام حرف عام میں اور دور حاضر میں تصوف کہا جاتا ہے ، دین اسلام میں بڑے بڑے جید علماء اس تعلیم کے معترف تھے، جیسا کہ مرحوم ڈاکٹر اسراراحمد رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے اسکالر تھے اور ایسے اسکالر دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں ، انہوں نے پاکستان میں تنظیم اسلامی بنائی اور ایک لروگرام ٹی وی پر بھی ان کا چلتا تھا ، تفہیم قرآن کے نام سے ، کبھی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تقاریر تصوف کے حوالے سے آپ سنیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ میری بات میں کتنی صداقت و حقانیت ہے۔

سیدنا گوھر شاہی کی تحریک اصلاح قلوب:

سیدنا گوہر شاہی ہمیں نفس کو پاک کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں ، سرکار گوہر شاہی ہمیں روح کو بیدار کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں ، سرکار گوہر شاہی ہمیں فساد قلب کا علاج دے رہے ہیں ، کہ فساد قلب کا علاج کیسے ہو، بخاری شریف کی ایک حدیث ہے

اے بنی آدم تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہو جائےتو پورے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر وہی فساد میں مبتلا ہو تو پورا جسم فساد میں مبتلا رہے گا یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے

تو فساد قلب کا علاج کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ اللہ نے ہدایت قلب کو ہی دینی ہے اوراگر ہمارا قلب بیمار ہو گا تو ہدایت کیسے ملے گی؟اللہ کی بارگاہ میں ہدایت کی دعا کرنے سے پہلے جس جسم کے حصے میں ہدایت آنی ہے اس کو تو صاف کرو اس سے تو بیماریاں نکالو ۔ سورة تغابن میں آیا

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ : جو اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔

لہذا رب کی بارگاہ میں ہدایت کے لیے ملتجم اور ملتمس ہونے سے پہلے اپنے قلب کو صاف ستھرا کر کے رکھنا ہے کہ اے مولا !میں نے تیرے حبیب کی تعلیم کے صدقے اپنے قلب کے فساد کا علاج کر لیا ہے اپنے دل کو تیرے نام سے دھو لیا ہے اب میرا دل حاضر ہے، ہدایت عطا کر۔

اسم للہ شئی طاہر لا یستقر الا بمکان الطاہر

اسم اللہ پاکیزہ شے ہے، لا یستقر، استقرار نہیں پکڑتی ، ٹہرتی نہیں ، الا بمکان الطاہر جہاں ٹہرنا ہے وہ مکان پاک نہ ہو جائے، دل میں اسم اللہ اترے گا نہیں جب تک اس کو پاک نہیں کیا جائے گا، دلوں کو پاک کرنا ضروری ہے، دلوں میں جو فساد ہے اس کا علاج بڑا ضروری ہے اس کے بغیر ہدایت حاصل نہیں ہو گی۔اب سیدنا گوہر شاہی فساد قلب کا علاج عطا فرما رہے ہیں ، یہ ہنر کسی مدرسے میں نہیں پڑھایا جا رہا ہے اگر پڑھایا جا رہا کے تو مجھے آپ واقف کار فرما دیں ۔فساد قلب کا علاج کسی عالم کے پاس نہیں ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہے تو پھر لے آئیے اسے، لیکن یہ کام سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی فرما رہے ہیں اور آپ کی تحریک کا جو بنیادی نکتہ ہے وہ ہے اصلاح القلوب ، دلوں کی اصلاح کرنا ، صالح وہی بنتا ہے جس کا دل اصلاح پذیر بن جائے، دل کا صالح ہونا انسان کا صالح ہونا ہےاور جس کا دل فساد میں مبتلا ہے اس کے جسم کے کوئی نیک اعمال اس کے دل کو صالح نہیں بنا سکتے کیونکہ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ دلوں کے فساد کا علاج پہلے کرنا ہے کیونکہ اللہ ہدایت زبانوں کو نہیں دیتا ، دماغ کو ، ہاتھوں پیروں کو نہیں دیتا اللہ ہدایت دیتا ہے انسانوں کے قلب کو، ومن یومن باللہ یہد قلبہ اور سرکار گوہر شاہی ہمیں دلوں کی اصلاح کا طریقہ بتا رہے ہیں فیض دے رہے ہیں ، فساد قلب کا علاج عطا فرما رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شرح صدر کا فیض عطا فرما رہے ہیں ۔

سیدنا گوھر شاہی داعی الیٰ اللہ ہیں :

تو ان تمام فیوض و برکات اور تمام علوم ظاہری اور تمام علوم باطنیہ کو حاصل کرنے کے بعد ہمارا کامل ایمان ہو گیا کہ سیدنا گوہر شاہی منجانب اللہ ہمارے لیے رشد و ہدایت لے کر آنے والے ہیں ، ہمارے دل کو یہ حقیقت معلوم ہو گئی کے سیدنا گوہر شاہی کو اللہ نے بھیجا ہے ، کیونکہ جو طاقت دلوں کو پاک صاف کرنے والی سیدنا گوہر شاہی کے پاس ہے وہ اللہ کے علاوہ کوئی دے نہیں سکتا ، وہ مدرسے میں نہیں ملتی ہے، اگر وہ تعلیم مدرسوں میں ملتی تو مجھے بتائیے کون سا فرقہ ایسا ہے کہ جس کے مدرسے نہیں ہیں ؟ سب کے اپنے اپنے مدرسے ہیں ، اگر یہ فرقہ واریت چند فروعی اختلافات پر ہی مبنی ہوتے اور کوئی major setback نہ ہوتا تو اتنا اختلاف نہ ہوتا کہ ایک فرقہ تو حضور پاک کو بشر کہے اور دوسرا نور کہے۔ایک فرقہ کہے حضورؐ کے پاس غیب کا علم ہے اور دوسرا فرقہ کہے نہیں ہے، ایک فرقہ کہے یزید جہنمی ہے اور دوسرا فرقہ کہے یزید جہنمی نہیں ہے، یہ فروعی اختلافات ہیں ؟خدا کا خوف کرو، اگر خدا کو خوف نہیں آتا تو کسی سے سیکھ لو۔اِن تمام حقائق کی روشنی میں یہ تو قلب صمیم سے ہم نے مان لیا تسلیم کر لیا ہے کہ یہ جو سیدنا گوہر شاہی کی بارگاہ ہے اس بارگاہ میں سیدنا گوہر شاہی کو اللہ کی حمایت حاصل ہے ، اللہ کا اذن حاصل ہے اور قرآن تو یہ ہی کہتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کرنے کے لیے “داعی الی اللہ” جو مقام ہے اس کی حقانیت یہ ہے کہ داعی الی اللہ حقیقت میں وہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس دعوت دینے کے لیے اللہ کا اذن حاصل ہو ،اور جو بغیر اذن الہیٰ دعوت حق دیتا ہے اس کی دعوت حق نہیں بلکہ دعوت فتنہ ہوتی ہے ۔داعی الی اللہ وہ ہے جس کے پاس اذن اللہ ہے، اللہ کا اذن ہے، جاؤ میری اجازت ہے تم لوگوں کو اس طرف بلاؤ میری مدد اور نصرت تمہارے ساتھ ہے۔نہ کوئی نبی نہ کوئی مرسل نہ کوئی ولی اپنے تئیں کسی کی شفاعت کرا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی نہ ہی کوئی ولی اپنے تئیں کسی کو دعوت حق پر قائم کر سکتا ہے ، یہ دعوت کا حق اللہ کی بارگاہ سے عطا ہوتا ہے ، اذن اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ۔جب دعوت کا اذن اللہ کی طرف سے عطا ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟تو پھر علامہ اقبال نے فرمایا
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

یہاں دیکھئے سورہ الاحزاب میں ہے

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا
سورة الأحزاب آیت نمبر 45
ترجمہ : اے پیارے نبی ہم نے آپکو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے دعوت دیتے ہیں۔

شاہد ۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارے اعمال و ایمان پر نگرانی کرنے والا بنا کر بھیجا
مبشر ۔۔۔۔۔۔ بشارت دینے والا بنا کر بھیجا
نذیر۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف سے خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا
محمد رسول اللہ کا دعوت دینے کا مزاج اور اسلوب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اِذن دیا ہے کہ آپ کو ِاذن حاصل ہے کہ آپ دعوت دیں انسانوں کو اپنے رب کی طرف آنے کی
اب آپ مجھے بتائیے کہ کیا صرف نکاح کرنا سنت ہے؟ کیا صرف حلوے کھانا سنت ہے؟ کیا صرف داڑھی رکھنا سنت ہے؟ دعوت حق کے لیے اذن الہی کا ہونا سنت نہیں ہے کیا؟ یہ سنت کہاں سے آئے گی؟ یہ سنت تو بڑی آسان ہے داڑھی چھوڑ دو بڑھ جائے گی ، کیا اذنِ الہی بھی کوئی ایسا ہی عمل ہے کہ دس دن شیونہ کرو تو اذن الہی اُ گ آئے گا ! اور یہ قرآن کہہ رہا ہے میں تو نہیں کہہ رہا۔ حضورؐ کے تمام اوصاف پر ہم ایمان رکھتے ہیں ،حضور کے تمام اوصاف ہمارے لیے سنت ہیں ، حضور کا یہ منصب داعی الیٰ اللہ اس میں اللہ کا اذن شامل ہے ، حضور کو اللہ کا اذن حاصل ہے دعوت حق دینے کے لیے ، ہمارے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ ہم دعوت کا کام شروع کریں تو ہمیں اذنِ الہی کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن محمد رسول اللہ کو تو ہے اور ہم کو نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ محمد رسول اللہ ، اللہ کے محبوب ہیں وہ اگر بغیر اذن ِالہی کے دعوت دے بھی دیں تو چل جائے گا، لیکن ہم مٹی کے انسان ہیں ، گناہ گار لوگ ہیں ، ہم پر بھروسہ کرنا اتنا آسان نہیں لہذا دعوت حق دینے کے لیے ہمارے پاس اذن ِالہی ہونا چاہئیے لیکن اس کے برعکس محمد رسول اللہ جو محبوب خدا ہیں ، خاتم النبین ہیں ، ان کو اللہ نے کہا آپ داعی الیٰ اللہ ہیں باذنِ اللہ ہیں ۔ہم تو بڑے آرام کے ساتھ اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں مولانا ، اگر قرآن کی یہ آیت سمجھ آگئی ہو تو دوبارہ اپنے نام کے ساتھ مولانا نہیں لکھنا ، خیر قرآن کی بات سمجھ میں آنا اتنی آسان بات نہیں ہے کیونکہ عام کتابیں دماغ سمجھا دے گا ، قرآن ایسی کتاب نہیں ہے جو دماغ سے سمجھی جاتی ہے، انجیل ایسی کتاب نہیں ہے جسے دماغ سے سمجھ لو گے ۔ اللہ کا کلام سمجھنے کے لیے اللہ کی توفیق چاہئیے۔ فقہہ چاہئیے اور فقہہ کتابوں سے نہیں ملتی فقہہ مدرسے سے نہیں ملتی ، فقہہ اللہ کی بارگاہ سے صاف ستھرے پاکیزہ قلب کو عطا ہوتی ہے اور یہ قرآن کی تعلیم ہے ۔علامہ اقبال نے فرمایا
مکتب کی کرامت تھی کہ فیضان نظر تھا
سکھلائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ اللہ تعالی حضور کی شان میں فرما رہا ہے کہ محمد رسول اللہ جو لوگوں کو دعوت حق دے رہے ہیں ،ہمارا اذن ہے ان کو حاصل ہے، ہم نے ان کو اجازت دی ہے کہ وہ ایسا کریں اور اس کے بعد قرآن نے کہا وَسِرَاجًا مُّنِيرًا وہ نور کا روشن چراغ ہیں۔محمد رسول اللہ نور کا روشن چراغ ہیں اب آپ منع کردو حضور نور نہیں ہیں ، اللہ تو کہتا ہے وہ نور کا روشن چراغ ہیں نور ہونا تو ایک طرف ، نور کا چراغ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سینوں کو بھی نور سے بھر رہے ہیں ، کیونکہ چراغ ہیں چراغ کا کام کیا ہوتا ہے؟ روشنی دینا ، جہاں جہاں اندھیرا ہو وہاں ماحول کو روشن کر دینا، محمد رسول اللہ سراج المنیرا ہو کر جہاں تشریف فرما ہوں گے اور آپ کے سینے سے نور کی کرنیں نکلیں گی اور کفر کی تاریکیوں کو اندھیروں کو ختم کر دیں گی۔

سیدنا گوہر شاہی مکمل طور پر حضور نبی کریم کی ظاہری اور باطنی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ سب سے بڑی سنت تو یہ کہ حضور داعی الی اللہ باذن اللہ ہیں۔جس طرح نبی پاکؐ کو دعوت حق کے لیے اللہ کا اذن حاصل ہوا تو سیدنا گوہر شاہی نے محمد رسول اللہ کی اِس سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ سے وہ اذن حاصل کیا۔دوسری سنت سراج المنیرا کی ہے۔جہاں جہاں قدم رنجہ فرمائے وہ جو روشن چراغ عشق الہی کا سینہ گوہر شاہی میں جگمگا رہا ہے ، جہاں تشریف لے گئے لوگوں کے سینوں میں چیرتا ہوا وہ نور چلا گیا ، اسم اللہ کا وہ چراغ منقسم ہوتا رہا ، ایک مذہب سے دوسرے مذہب اور دوسرے مذہب سے تیسرے مذہب اور پھر ایسے لوگوں کے سینوں میں بھی نور کی وہ کرنیں پہنچ گئیں جو کسی دین کسی مذہب سے وابستہ نہیں تھے۔ گوہر شاہی ایسی سنتوں پر عمل کر رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا سو فیصد یقین ہو گیا کہ سیدنا گوہر شاہی کامل سنت مصطفی پر ہیں ۔ ہمیں اس بات کا سو فیصد یقین ہو گیا کہ سیدنا گوہر شاہی کاملاً منجانب اللہ ہیں ۔

سیدنا گوھر شاہی کا مرتبہ مہدی قرآن و حدیث کے تناظر میں:

اب ایسا دور آیا ہے کہ جب قرآن کی کچھ آیات حقیقت بن کر سامنے آئیں اور اس کی روشنی میں سیدنا گوھر شاہی کا مرتبہ مہدی اور واضح ہو گیا قرآن مجید میں ہے کہ

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
سورة فصلت آیت نمبر 53
ترجمہ: عنقریب ہم تمھیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور تمھارے نفوس میں حتی کہ تم کہہ اُٹھو گے کہ یہی حق ہے۔

چاند پر تصویر گوہر شاہی نمایاں ہو گئی، سینوں میں اسم ذات کا چراغ جگمگانے لگا، امام مہدی علیہ الصلوة السلام کی یہ نشانیاں جو احادیث میں روایتوں میں اہل بیت اعظام کے آئمہ کرام نے بیان کی ہیں وہ سیدنا گوہر شاہی کی ذات میں نظر آنے لگیں۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر ہمارا ایمان ہو گیا کہ سیدنا گوہر شاہی منجانب اللہ امام مہدی علیہ الصلوة والسلام ہیں۔لیکن یہ ہمارا ایمان ہے یہ ہماری تحقیق ہے ، مولانا شعیب قاسم صاحب میں آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ سرکار گوہر شاہی کو امام مہدی مانیں ، یہ تو آپ کا اپنا کام ہے، کیا آپ کو امام مہدی کا انتظار نہیں ہے، آپ میرے کہنے سے مان لیں گے تو مجھے کیا فائدہ ہے! اور اگر آپ نہیں مانیں گے تو مجھے کیا نقصان ہے ؟ اگر آپ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو، یہ بتاؤ میرے بھائی مسلمان بھی ہو؟ اگر آپ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ آپ کی اولین ذمہ داری ہے کہ امام مہدی کو تلاش کریں ۔سیدنا گوہر شاہی کی تعلیم موجود ہے، کتاب موجود ہے تحقیق کریں ، ہم نہیں کہہ رہے آپ سیدنا گوہر شاہی کو امام مہدی مانیں ، کیونکہ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔امام مہدی تو اللہ نے بھیجنا ہے ، جن کے مقدر میں امام مہدی کو ماننا لکھا ہے وہ مانیں گے، میری کوشش سے کوئی سرکار گوہر شاہی کو امام مہدی مان نہیں سکتا، امام مہدی پر ایمان وہ لائے گا جس کو اللہ چاہے گا ، میں تو اپنا ذمہ دار ہوں ، میں نے تو اپنی تحقیق کی ہے چالیس سال لگانے کے بعد مجھ کو یہ راز پتا چلا ہے، اور ٹھوکر کھا کر ٹھاکر بنتا ہے آپ بھی ٹھوکر کھائیں ذرا ، اگر آپ سمجھتے ہیں مجھے کیا ضرورت ہے تحقیق کی تو نہ کریں آپ کی مرضی ہے ، آپ نے اپنی قبر میں جانا ہے ہم نے اپنی، ہم نے تحقیق کرلی ہے اور ہم خوش ہیں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 24 نومبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیاہے ۔

متعلقہ پوسٹس