کیٹیگری: مضامین

پاکستان میں سیاستدان جمہوریت کے فروغ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔اور مارشل لاء کوبہت بُرا سمجھتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں،پاکستان کی جو عوام ہے اُس کی اکثریت کو نہیں پتا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور اُس پر اچھنبے کی بات یہ ہے کہ خود سیاست دانوں کو بھی نہیں پتا کہ جمہوریت کیا ہے۔اُن کے نزدیک جمہوریت کا ایک ہی مطلب ہے، مجھے سیٹ مل جائےچونکہ لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔عوام کی رائے کو جمہور کہتے ہیں ،تو جو عوام چاہتی ہے وہ ہو یہ جمہوریت ہے۔ پاکستان میں جب انتخابات ہوتے ہیں تو اُن انتخابات میں ووٹ کے ذریعے جو چناؤ ہو تا ہے اُس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ جو اُمیدوار جیت گیا ہےاُس کے منشور کو، اُس کی پالیسیوں کو لوگوں نے پسند کیا ہے اور اُس کو اپنی آواز سمجھ کے ووٹ دیا ہے کہ یہ ہماری پسندیدہ پالیسیاں ہیں ،لہذا ہم اس اُمید وار کو ووٹ دیں گے اور جب یہ جیت جائے گا تو جو ہماری پالیسیز ہیں اس پر عمل درآمد ہو گالیکن ایسا نہیں ہے۔سب سے پہلے تو پاکستان میں لوگوں میں شعور ہونا چایئے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔اور شعور کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم ہو۔یہ جتنے بھی بڑے بڑے سیاستدان کرسیوں پہ بیٹھے ہیں یہ اتنے بے غیرت اور بے حیا ہیں کہ یہ کوئی پیر ہے،کوئی وڈیرا ہے، کوئی زمیں دار ہے اور کوئی صنعتکار ہے۔جن دیحی علاقوں میں یہ رہتے ہیں یا جہاں سے اِن کا تعلق ہے،جہاں سے ان کو ووٹ ملتے ہیں تو اِن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں کوئی اسکول،کالج نہ بنے لوگوں کو تعلیم نہ ملے۔تعلیم مل گئی تو پھر ووٹ نہیں ملیں گے۔پاکستان میں اب تک جو تعلیم کا فقدان رہا ہے اُس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے۔پیسے کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں رُکتی۔کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی اندرونِ سندھ چلے جائیں وہاں ایسے علاقے ہیں کہ جہاں کھُلے آسمان کے نیچے لوگ ،بچے بیٹھ کے پڑھتے ہیں نہ کوئی اسکول ہے نہ کوئی ڈیسک ہے،نہ اُن کے لیے کوئی کتابیں ہیں۔ایسے ہی پڑھتے ہیں تعلیم تو مل جاتی ہےمگر شعور نہیں ہے۔اب تک کوئی ایسا سیاست دان آیا نہیں ہے کہ جس نے لوگوں کو جمہوریت کا درس دیا ہو۔ابتدائی دور میں جب وہ سیاست میں نووارد ہوتے ہیں ،قدم رکھتے ہیں تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔لیکن چند سال گزر نے کے بعدجب وہ اِس کرپشن کے سسٹم کو سمجھ جاتے ہیں تو وہ اس کا حصّہ بن جاتے ہیں۔آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔اگر کوئی آواز اُٹھانے والا ہو بھی تو قوم جاہل ہے۔اِسی طرح کا کچھ حال دین میں بھی ہے۔

ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے :

علامہ اقبال نے اللہ سے شکوہ کیا تو خود کو بہت بہادر سمجھا کہ دیکھو جی میں نے اللہ سے شکوہ کر دیا۔ہم نے جب دُنیاکو دیکھا،مذا ہب کو دیکھااور پھر اللہ تعالیٰ کی پالیسیوں اور مزاج کو دیکھا تو ہم نے آواز اُٹھائی۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں خوف نہیں ہے کہ ہم اللہ پر اعتراض کریں گے تو وہ ہمیں جہنم میں ڈال دے گا؟ خوف تھا لیکن جب یہ احساس ہوا کہ جہنم سے بچنا اور جنت میں جانا اِن دونوں میں سے کوئی بھی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور انتہائی غیر یقینی کا شکار ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔جس کو وہ چاہتا ہے اُس کو جنت میں ڈال دے گااورجس کو وہ نہیں چاہتا اُس کو وہ جہنم میں ڈال دے گا۔اب اگر آپ ڈرائیونگ ٹیسٹ کے لیے جائیں اور امتحان لینے والا یہ کہے کہ جس کو میں چاہوں پاس کروں ،جس کو میں چاہوں فیل کروں میری مرضی ہے تو ایک آدمی جو ڈرائیونگ اسکول سے کئی سبق پڑھ کر آیا ہےاُس کو فیل کر دے اور دوسرے آدمی نے کچھ نہیں پڑھا اُس کو گاڑی چلانی ہی نہیں آتی اُس کو لائسنس دے دے۔تو اُس سے کیا ہو گا سب سے پہلے تو لوگ ڈرائیونگ اسکول سے پڑھنا چھوڑ دیں گے کہ کیا فائدہ ،اُن کا حوصلہ نہیں بڑھے گا ۔ اِسی طرح اللہ نے جو نظام بنایا ہے ،اس نظام میں صرف اور صرف ایک ہیرو ہے باقی کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔کہنے کوتو
زمین وزماں تمھارے لئے۔۔۔۔۔۔مکین ومکاں تمہارے لئے
یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں۔’’لولاک لماخلقت الافلاک‘‘یہ بھی کہا گیا ہے لیکن حقیقت سے دور ہے۔جس کی چلتی ہے بات صرف،سیاہ سفید کا جو مالک ہے وہ اللہ ہے۔آپ اچھے اعمال کریں یا بُرے اعمال کریں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جنت میں وہ جائے گا جس کو اللہ چاہے گا،جس کو وہ نہیں چاہے گا بھلے اُس نے کتنی نمازیں پڑھی ہوں،کتنا ذکر کیا ہو وہ جہنم میں ڈال دے گا۔اور جو ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں،اچھے راستے پر چلنا چاہتے ہیں اور ہر قسم کی قربانی دینا چاہتے ہیں اُس کو پا نے کے لیے، پھر ان کے راستے میں جب مزاحمتیں ایسی ا ٓ جائیں کہ جہاں وہ بے بس ہو جائیں اور اپنی اس خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے دیکھیں کہ ہم ربّ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ربّ ہی ہمارے ہاتھ میں نہیں آنا چاہتا۔کب تک۔کوئی اور تمہیں ربّ کے راستے سے روکے تو رہزن۔اگر خود ربّ ہی تم کو اپنے راستے سے روک دے تو وہ کون ہے ؟ اور کیوں ہے ایسا ؟اگر لوگوں کو اپنے پاس آنے سے روکنا ہے،اپنا قُرب ،اپنا جلوے، اپنی محبت، اپنا عشق لوگوں کو عطا کر نے سے روکنا ہی ہے تو یہ سب ڈرامہ بازی کیا ہے۔کیوں ہے یہ سب کچھ ڈرامہ ؟

سیدنا گوھر شاہی کا خُلق:

اگر آپ کو خُلق دیکھنا ہے تو سیدنا گوھر شاہی کا خُلق دیکھیں۔سیدنا گوھر شاہی کی مسکراہٹ آپ کو بتائے گی کہ خُلق کیا ہوتا ہے۔سیدنا گوھر شاہی کا چلنا آپ کو بتائے گا کہ خُلق کیا ہوتا ہے۔سیدناگوھر شاہی سارے مصائب و آ لام کو ماتھے پر شکن لائے بغیرخندہ پیشانی سے سہتے ہیں،مسکراتے رہتے ہیں۔آواز کی پچ اور کوالٹی کم اور زیادہ نہیں ہوتی خواہ غم آئے یا خوشی آئے۔یہ خُلق ہے۔
ایک تو نعرہ ہے۔ ’ ’ جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی ‘‘ بغیر سوچے،سمجھے،بغیر پرکھے اگر کوئی یہ بولتا ہے تو محبت میں بول رہاہے۔لیکن اگر پیتینس سال کی مستقل تحقیق کے بعد یہ کہے کوئی کہ ’’ گوھر شاہی جیسا کوئی ہو نہیں سکتا ‘‘ تو یہ ایک بہت بڑا ابیان ہے۔ غیبت سے پہلے کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ جو گوھر شاہی کے نعرے لگاتے ہو یہ سرکار نے تم کو بچایا ہوا ہے،ایسی باتیں مت کرو، ویسی باتیں مت کرو،یہ ہو جائے گا،وہ ہو جائے گا۔اب لوگ یہ نعرے کیوں لگا رہے ہیں! ! اب تو سرکار سامنے نہیں بیٹھے ہوئے۔کیوں؟ غیبت سے پہلے تو سرکار کے سامنے بیٹھ کے کبھی نہیں کہا آپ رب الا رباب ہیں لیکن اب تو کہہ رہے ہیں۔اگر یہ عقل،اگر یہ جرأت جسم و جاں میں محسوس ہوتی ہے تو پھر اعتراض کرنا ہے،اپنی کوشش کرنی ہے۔جب مستقبل آپ کا کیا ہے یہ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔کوئی اور بیٹھا ہواہے اور آپ صرف ایک کٹھ پتلی کی مانند ہیں۔جب کچھ آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر آپ کون سے اعمال کا انتخاب کریں گےکہ یہ اچھے ہیں یہ کر لیتے ہیں یہ بُرے ہیں یہ نہیں کرتے ۔اب تو اعمال کا انتخاب صرف ایک ہی نیت سے ہو سکتا ہے کہ میں اچھا ہوں میں اچھا ہی کروں گا۔نتیجہ کچھ بھی نکلے وہ اُس کی مرضی ہے۔اللہ تعا لیٰ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ گو ہر شاہی کی صحبت نے،گوھر شاہی کی رنگت نے لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل دیا ہے اور یہ تاریخِ انسانیت میں ایک انقلاب ہے ۔ایسا پانسہ پلٹا ہے۔ دینِ الہیٰ میں بھی یہ لکھا ہے کہ ” دوست کا پردہ رہے تو بہتر ہے“۔

امام مہدی گوھر شاہی کسی کے پابند نہیں ہیں :

ہر مذہب نے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق امام مہدی کے لیے باتیں کر رکھی ہیں کہ وہ ہمارے دین کو تقویت بخشیں گے۔اگرناگہانی آفت آئے اور گھر ومحلے میں سارے تباہ وبرباد ہو جائیں اور پھر پتا چلے کہ کچھ لوگ مرمت کرنے کے لیے آ رہے ہیں تو ہر آدمی یہ سمجھے گا کہ میرا گھر مرمت ہو گا۔یہی ہر مذہب کا حال ہے۔ہمارے جو آئمہ اکرام گزرے ہیں وہ خدا تو نہیں ہیں۔اُنہوں نے اپنی روحانی بصیرت سے،فہم وادراک سے جو کچھ سوچا اُس طرح کے بیانات دیئے کہ اما م مہدی آئیں گے تو یہ کریں گے وہ کریں گے،آپ کیا کہہ سکتے ہو کہ وہ کیا کریں گے۔حالات وواقعات جو مانگیں گے ،جو اُس دور میں درکارہو گا امام مہدی وہی کریں گے۔امام مہدی کسی نبی کے پابند نہیں ہیں۔ اللہ کی طرف سے اُن کو ایک ٹاسک ہے عشقِ الہیٰ۔اور کوئی مذہب کی قید نہیں ہے۔یہ تو ایسا ہو گیاکہ پاکستان میں اگر ہم یہ دیکھیں کہ کار کی صنعت کیسی ہے تو وہ بچارے سوزوکی جاپان کی ایک بڑی ہی گِری پڑی سی ایک کمپنی ہے اُنہوں نے وہاں ایک پلانٹ وغیرہ لگایا ہوا ہے۔اُس کا کچھ سامان وہاں پاکستان میں بنتا ہے اور انجن ونجن جاپان سے آجاتا ہے،بنا لیتے ہیں۔افورڈ ہی نہیں کر سکتے ہو وہ۔اپھر اچانک آکر کوئی یہ کہے کہ ہم بی ایم ڈبلیو بنائیں گے اور ہر آدمی خریدے گا سوزوکی جو ایف ایکس ہے اُس سے سستی بی ایم ڈبلییو بیچیں گے ،یہ ہو گیا ہے سرکار گوھر شاہی کے آنے سے۔وہ جو اللہ میاں کبھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ کسی نبی کو کہیں کہ عشقِ الہیٰ پھیلاؤ۔وہ یہ ڈیمانڈ کر بیٹھے کہ سب کوعشقِ الہیٰ دے دو۔اللہ میاں اپنے معاملات میں اتنے سخت ہیں۔کیسی کو مومن بناتے وقت اُن کو لگتا ہے کی شاید میں کچھ زیادہ ہی رحیم ہو جاؤں گا ۔میں یہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ مومن ہی کسی کو بناتے ہیں تو وہ پُھولے نہیں سماتے۔یہ سرکار گوھر شاہی ہیں۔میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ جو عشقِ الہیٰ کا جو ٹاسک ہے۔اللہ کے عشق کا جو ٹاسک ہے ، باوجود اس کے اللہ چاہتا ہے کہ دینِ ا لہیٰ قائم ہو،لوگوں کو عشق ملے یہ چاہتا ہے وہ۔ اسی طرح اللہ میاں کا بھی یہی حال ہے۔پہلے تو اُنہوں نے کہہ دیا سب کو عشق دے دو اُس کے بعد اب ،اُن کی فطرتیں تو وہی ہیں اللہ میاں کی کہ ڈرا کے رکھو ،دھمکا کے رکھو،ڈنڈا ہاتھ میں لے کے رکھو،یہ کیا کیا ،وہ کیا کیا ،وہ کیسے ہو گیا،ویسا کیسا ہو گیا،اِس کو کیسے عشق دے دوں،اُس کو کیسے دے دوں،سب کو رّد کر دیا کہ یہ تو عشق کے قابل ہی نہیں ہے اور کہا کہ سب کو عشق ملنا چاہئے۔ اللہ کا عشق ہے تو اللہ کی اجازت ضروری ہو گی ۔اب امام مہدی بھر بھر کے لوگوں کو لے جائیں کہ یہ عشق کے لیے آئے ہیں اور وہ کہے،کہ یہ اس قابل نہیں ہے ،یہ بھی اس قابل نہیں ہے،وہ بھی اس قابل نہیں ہے۔ یہ کہانی کچھ بن نہیں رہی تھی کہ دینِ الہیٰ جو اللہ میاں کا مزاج ہےوہ کبھی بھی قائم نہیں ہونے دے گاکیونکہ جو وہ چاہ رہے ہیں ان کے اندر کوئی ایک چیز ہے ایسی کہ جو ان کو سخا وت کرنے پر ممنوع ،یعنی منع کرتی ہے ۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب اُن سے عشق کریں اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اتنی آسانی سے دے دوں۔بابا فرید کو چھتیس سال اُلٹا لٹکا یا۔اِس کو ایسے ہی دے دوں۔ارے بھئی بابا فرید اور ہیں۔یہ زمانہ اور ہے دُنیا بدل گئی ہے۔
میرا یہ خیال ہے اللہ میاں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے پھر یہ جو بات نکلی ہے،کہ عالمِ غیب بھی ہے۔ وہاں ساڑھے تین کروڑر اللہ کی برادری بھی ہے۔وہاں ریاض الجنہّ بھی ہے وہاں جا بھی سکتے ہیں اور یہ ایک ایسی چیز ہے۔جس طرح آپ نے دیکھا ہو گا کریڈیٹ کارڈ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کہ صرف ان لوگوں کو ملتے ہیں جن کی کریڈیٹ ہسٹربہت اچھی ہو اور ان کا انٹریسٹ ریٹ بھی کم ہوتا ہے۔اور دوسرے وہ ہیں کہ جن کا کریڈیٹ کارڈ کی ہسٹری اچھی نہیں ہے ان کی کریڈیٹ ہسٹری کو مزید اچھا بنانے کے لیے ہائی انٹریسٹ ریٹ کے کریڈیٹ کارڈ ہوتے ہیں وہ لو گوں کو آسانی سے مل جاتے ہیں اتنی آسانی سے بھی نہیں ملتے لیکن مل جاتے ہیں ۔ اب جب سے ہائی انٹریسٹ والے کریڈیٹ کارڈ آئے ہیں جو عام آدمی کو بھی مل جاتے ہیں تو وہ جو خاص سخت قانون والے کریڈیٹ کارڈ ہیں اب انُ کی ویلیو نیچے چلی گئی۔کیونکہ اُن کےمعیار پر کوئی پہنچتا ہی نہیں ہے۔مالی حالات تو لوگوں کے خراب رہتے ہیں وہ کمپنی جو ہے وہ اب آباد نہیں ہے لہذا اُن لوگوں نے بھی اب اس طرح کے کریڈیٹ کارڈ نکالنے شروع کر دیئے ہیں۔
اسی طرح یہ جو امام مہدی کا ٹاسک ہے اس کے اندر یہ چیز ہے کہ سرکار گوھر شاہی لوگوں کو عشقِ الہیٰ ،دینِ الہیٰ کے لئے راغب کریں اور وہاں سے جو ہے مسئلے مسائل پیدا ہوں وہ فیض دینے کے لئے رضا مند ہی نہ ہو ۔تولوگ تو اٹک گئے۔لہذا پھر ایک نیا مشن بنایا گیا۔اُس میں کوئی کریڈیٹ چیک نہیں ہےاو ر نہ صرف یہ کے کریڈیٹ چیک نہیں ہےبلکہ اُن کو وہاں لے جانے کی بات کی جا رہی ہے جہاں سے اللہ میاں خود آئے ہیں۔یہ ایک ایسی عرضِ خاص ہے۔ یہ ایسی اسپیشل آفر ہے جس سے اُن کی دوکان بند ہو گئی۔اب وہ کھلے گی بھی نہیں۔آپ اگر ان باتوں کے مطلق منفی سوچ رکھتے ہیں تو سوال کر سکتے ہیں،پوچھ سکتے ہیں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اُس کا کیا ثبوت ہے۔ لوگ تو اندھے ہیں۔تم کو تو کچھ نظر نہیں آرہا ذرا دُنیا میں آگے پیچھے جھانک کے دیکھو۔ پھر آپ کہیں گے کیا ہو رہا ہے دنیا میں ؟ اور ہمارا جواب یہ ہوگا کہ کہاں ہے دین؟کہاں ہے تمہارا قرآن؟کہاں ہے حدیث؟ نظر آرہا ہے کچھ عملی طور پر۔قرآن وحدیث پڑھنے والے بڑے بد فعل ہیں۔جو نہیں پڑھتے وہ پھر بھی نسبتاََ کم درجے کے گنہگار لوگ ہیں ۔یہ جوخُدا کو نہیں مانتے اُن میں پھر بھی انسانیت موجود ہے۔ جو خدا کے عشق کے دعویدار ہیں وہ تو بلکل مردود اور حرام زادے ہیں۔لوگوں کی عزتیں کس نے برباد کی ہیں،یہ جالی ڈبے پیروں نے۔بچیوں کو نہیں چھوڑا ،عورتوں کونہیں چھوڑا،لڑکوںکو نہیں چھوڑا یہ اتنے حرامی لوگ ہیں مذہب کی چادر لے کے انہوں نے اپنی شہوت کی آگ پوری کی ہے۔

اب دُنیا کو سیدنا گوھر شاہی کی صورت میں ایک نیا اُفق اور سورج مل گیا ہے۔اب دنیا کو اُسی سمت میں جانا ہے۔جو اُس سمت میں نہیں جائے گااللہ میاں نے اپنے اسکرپٹ میں لکھا ہے کہ جو االلہ کے ماننے والے ہیں وہ ایک دوسرے کو مار مار کے خود ہی سب ختم ہو جائیں گے۔

حدیث شریف میں بھی یہی لکھا ہے کہ ”فتنہ اہل اسلام سے نکلے گا اور اسی میں لوٹے گا “تو یہ تو مار مار کے ایک دوسرے کو مر جائیں گے۔آپ محبت کی طرف آئیں۔اگر اللہ میاں کو محبت اتنی پسند ہوتی تو کسی مذہب کے اندر اِس طرح کی شدت پسندی نہ رکھتا کہ اس نے چوری کی ہے اس کے ہاتھ کاٹ دو۔اللہ میاں جہاندیدہ ہوتے تو یہ سوچتا کہ اتنے منصف مزاج لوگ توہر زمانے میں نہیں ہو گے کہ جو یہ دیکھ لیں گے کہ چوری اس نے ضرورت کے تحت کی ہے ،یہ چوری اس نے مزے کے لئے کی ہے ۔جس کے پیٹ میں روٹی نہیں تھی۔ جو ایک ہفتے سے بھوکا تھا اگر اس نے ایک روٹی چُرا کے کھا لی اور تیرا مذہب اُس کے ہاتھ کاٹ دے گا تو لعنت ہے ایسے مذہب پر۔کہاں ہے تیرا رازق؟جس نے اس کے پیٹ میں رزق نہیں پہنچایا۔ہاتھ کاٹنے کے لیے تیار ہے۔کہاں ہے ایسا رازق۔کیا کریں گے ایسے دین کا۔کہ پیٹ میں بھوک ہو، چلنے کی ہمت نہ ہو اور اپنے جسم میں ذرا سی طاقت پہنچانے کے لئے کسی کی روٹی چُرا لی توآپ اُس کا ہاتھ کاٹ دیں گے ۔ میں تو نہیں مانتا ایسے دین کو۔کیا اللہ میاںکو معلوم نہیں تھا کہ جو انسان وہ بھیجے گا اس مذہب کے اندر جو بڑے بڑے قاضی بنیں گے ،بڑے بڑے عالم حرامزادے ،مُلّا ،مولوی بنیں گے وہ کُتی کے بچے یہ نہیں دیکھیں گے کہ لوگ بھوک اور افلاس کی وجہ سے چوری کر کے روٹی کھا رہے ہیں۔وہ دین بیچ کر کے روٹی کھاتے ہیں اوریہ اپنے پیٹ بھرنے کے لیے ایک روٹی چُرا لے گا تو اس کے ہاتھ،پاؤں کاٹ دیئے جائیں گے۔اگر بچے کے ہاتھ میں آپ نے چاقو دیا ہے اور بچے نے کسی کو مار دیا تو بچہ قصور وار نہیں ہے۔آپ قصور وار ہیں۔دینِ اسلام کا قصور نہیں ہے اللہ نے یہ قانون اُن کو کیوں دیا ہے کہ چُوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دو۔جو ایک آنکھ نکالے تم بھی اس کی ایک آنکھ نکال دو۔اگر یہی قانون رہے گا تو پوری دینا کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔پوری دُنیا اندھی ہو جائے گی۔اب یہ نہیں چلے گا۔اسلام کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے کب تک ہم کہیں گے کہ اس کا اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔

انسانیت کو سیدنا گوھر شاہی کی اشد ضرورت ہے :

دنیا کو تو اس وقت ضرورت ہے کسی مسیحاکی جو حالات دنیا کے آج ہیں پہلے کبھی بھی نہیں تھے۔کیا مذہبی تشدت ،مذہبی کرپشن اتنا پہلے کہیں تھا؟آج تو یہ عالم ہے کہ ہر مذہب میں بلا کا کرپشن ہے۔کوئی مذہب ،کوئی فرقہ حق کی بات نہ جانتا ہے اور نہ اُس سے دور دور کا واسطہ ہے۔اگرسیدنا گوھر شاہی سےسے مدد نہیں لینی تو آپ کے علاوہ اگر دنیا کو دیکھیں تو اُمید کی کرن کہاں نظر آتی ہے۔ کیا ہے آپ کے پاس؟کوئی آپشن ہے۔کیا کوئی مسلمان کھڑے ہو کے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں صحیح اسلام پرہوں ۔کیا کوئی کرسچین کھڑے ہو کے یہ کہے کہ میں صحیح عیسائیت پر ہوں ،نہ ہی کوئی یہودی یہ بات کہہ سکتا ہے اور نہ کوئی سکھ،نہ کوئی ہندویہ بات کہہ سکتا ہے۔ایک عجیب وغریب بے راہ روی پھیل چکی ہے۔حقیقت کھو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو ہے وہ مزاج ہی سمجھ میں نہیں آتا۔آپ تو آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔اگر آپ سرکار گوھر شاہی سے مدد لینا نہیں چاہتے،تو آئیں کوئی طرم خان اس دنیا میں بھیجیں۔بھیج دیں کسی کو ہے کچھ۔اللہ تعالیٰ تو ہر شے ہر قادر ہے پھریہ سب کیا ہو رہا ہے ۔آپ کی مرضی کے خلاف کیوں ہو رہا ہے۔ پتہ ہل نہیں سکتا ہے ،ہوا چل نہیں سکتی ہےپھر بھی آپ نے کہا کہ لوگوں نے نافرمانیاں کی ہیں۔ہماری بات نہیں مانی تو ہم جہنم میں ڈال دیں گے۔آپ کی مرضی کے خلاف تو کچھ ہل نہیں سکتا تھا۔پھر یہ جہنم کا تصور کہاں سے آیا۔جہنم کا مطلب تو یہ ہوا،گمراہی کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی جو ہے آپ کے راستے پر چلنا نہیں چاہتا تھا اور اُس نے وہی کیا جو اُس نے چاہا۔لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان جو چاہے وہی کرے آپ کی مرضی کے بغیر تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔کیا آپشن ہے دنیا کے پاس ؟سیدنا گوھر شاہی اگرمدد نہ کریں تو دنیا کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اللہ تو کہہ چکا ہے کہ میں آخری رسول بھیج چکا ہوں ۔ اب اگر خُدا اس طر ح کا ہو توپھر کیا کرے گا آدمی اس کے لئے یہ آپشن ہے صرف کہ پھر وہ سیدنا گوھر شاہی کے قدموں میں آجائے تو آپ اس تباہی سے بچ سکتے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس