کیٹیگری: مضامین

اسمِ ذات اللہ کا ذکر کرنے سے روکنے والے کا انجام:

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
سورة العلق آیت نمبر 5
ترجمہ: انسان کو ہم نے وہ علم دیا جس کو وہ جانتا نہیں تھا۔

اُس کے بعد فرمایا ہے کہ

كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَ
سورة العلق آیت نمبر 7-6
ترجمہ: انسان پھر بھی بھٹک جاتا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اِس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ سب کچھ جانتا ہے اور مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

پھر اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ

إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ
سورة العلق آیت نمبر 8
ترجمہ: حقیقت تو یہ ہے کہ تم سب نے میرے پاس ہی آنا ہے۔

اللہ تعالی نے پھر فرمایا کہ

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَ عَبْدًا إِذَا صَلَّ
سورة العلق آیت نمبر 10-9
ترجمہ: آپ نے اُس شخص کو دیکھا ہے کہ جب ہمارا کوئی بندہ صلوة میں ہوتا ہے تو اُس کو وہ منع کرتا ہے کہ یہ کیا کررہے ہو!

مولوی سے آدمی پوچھے کہ یہ پہلی آیت ہے جو نازل ہوئی تھی اُس کے اندر صَلَّ کا لفظ آیا ہے تو آپ نے نماز کا کہا ہے کہ آپ کو نماز پڑھنے سے روکا لیکن اُس وقت تو نماز اُتری نہیں تھی تم نے اِس کا ترجمہ نماز کیسے کیا! دین کو اِن مردودوں نے بگاڑ دیا ہے۔ یہاں پر بہت غور کی بات ہے کہ یہ پہلی آیت ہے تو اگر مولوی کہیں کہ یہاں صَلَّ سے مراد نماز ہے تو کہنا کہ یہ پہلی آیت ہے اُس وقت نماز آئی نہیں تھی۔ جب تک نماز اُتری نہیں تھی تو قرآن کی پہلی آیت ہے اُس میں نماز کا ذکر کیسے ہوگا!
یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب نبی پاکؐ اعلانِ نبوت سے پہلے غارِحرا میں جایا کرتے تھے اور وہاں بیٹھ کراپنے دل کیطرف توجہ کرکے اسمِ ذات اللہ ھو کا ذکرکرتے تھے۔ آپ یقین جانیں کہ یہ منظر ہم (یونس الگوھر) نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جب حضورؐ یُوں دل کیطرف توجہ کرتے تو رشتہ داروں میں سے کوئی بندہ تھا وہ آجاتا اور وہ یہ سمجھتا کہ شاید کوئی معاملہ کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے کچھ ہوگیا ہے یا کہیں کوئی جِن وغیرہ تو نہیں آرہے کہ چُپ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب وہ آتا اور اُٹھا دیتا کہ آپ ایسا نہ کریں اُٹھ جائیں تو اُس کا ذکر یہاں اِس آیت میں کیا ہے أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَ عَبْدًا إِذَا صَلَّ کہ آپ نے اُس شخص کو دیکھا نا کہ وہ آکرکے میرے بندے کو صَلَّ سے روک رہا ہے، جس ذکروفکر میں وہ لگا ہوا ہے اُس سے روک رہا ہے کہ یہ کس کام میں لگ گئے ہو۔ اُس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ

أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَىٰ أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ
سورة العلق آیت نمبر 11 تا 12
ترجمہ: کیا آپ نے دیکھا ہے وہ بندہ جو آپ کو آکے روک رہا تھا وہ ہدایت پر ہے! یا اُس نے آپ کو پاک صاف ہونے کی کوئی تعلیم دی ہو۔

أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ کہ آپ نے دیکھا ہے کہ وہ طہارت پاکی صافی میں لگا ہوا ہے یا نہیں ہے، متقی ہے یا نہیں ہے!۔ یہ کسی کے بارے میں اللہ تعالی حضورؐ کو سمجھا رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ حضورؐ کا ذہن اُس کے بارے میں تعظیم والا ہے کہ شاید یہ صحیح کہہ رہے ہوں کہ یہ میں نہیں کروں وہ نہ کروں تو اب اللہ اُن کو سمجھا رہا ہے کہ آپ ذکر کرتے تھے اور وہ آپ کو آکرروکتا تھا تو کیا آپ نے دیکھا ہے کہ وہ ہدایت پر ہے یا اُس نے آپ کو آکرکے تقوی کا امر کیا!
پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ

أَرَأَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ
سورة العلق آیت نمبر 13
ترجمہ: کیا آپ نے دیکھا کہ اُس نے جھٹلا دیا!

عربی میں تَوَلَّىٰ کا مطلب لیا جاتا ہے کہ منہ پھیر لینا۔ اُس کا مزید آگے مطلب سمجھیں تو مڑجانا۔ اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ کیسے اُس نے یہ حق کو جھٹلایا اورمڑگیا۔
اللہ تعالی نے پھر فرمایا کہ

أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّـهَ يَرَىٰ
سورة العلق آیت نمبر 14
ترجمہ: کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے!

اللہ تعالی اُس بندے سے بہت ناراض ہے۔ پہلے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ کیا وہ جانتا نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ

كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ
سورة العلق آیت نمبر 15
ترجمہ: اگر وہ باز نہ آیا تو پھر ہم اُس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر اُس کو گھسیٹیں گے۔

یہاں سے آپ کو یہ سبق بھی ملنا چاہیئے کہ جو آپ کہتے ہیں کہ صوفی بے ضرر ہوتا ہے سب سے پیار کرتا ہے تو صوفی کے اگر کوئی اُنگلی کردے تو اُس کو یہ بھی کرنا چاہئیے جو اللہ کررہا ہے۔ اِن الفاظوں سے آپ اللہ تعالی کے جذبات کا اندازہ لگائیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ کہ اگر وہ بندہ باز نہیں آیا تو ہم اُس کے پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر اُس کو گھسیٹیں گے جیسے ہم اُردو میں کہتے ہیں کہ چُٹیا پکڑ کر گھسیٹیں گے تو یہاں اللہ تعالی نے فرمایا کہ پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر اُسے گھسیٹیں گے۔
پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ

نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب
سورة العلق آیت نمبر 16 تا 19

نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ کہ وہ پیشانی جھوٹی اور خطا کرنے والی ہے تو یہ دماغ کیطرف اشارہ ہے۔ اب جو اُنہوں نے کرنا تھا وہ کرلیا تو اب اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ اُن کو بولو کہ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ کہ اب وہ اپنے ساتھیوں کو بلا لے جن کو وہ مدد کیلئے پُکارتا ہے۔ سَنَدْعُ کہ ہم بلائیں گے، الزَّبَانِيَةَ یہ جو جہنم میں موٴکل ہوتے ہیں اُن کو الزَّبَانِيَةَ کہتے ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ اُس کو کہو کہ اپنے بندوں کو بلا لے اور اُن کے مقابلے میں ہم جہنم کے موٴکلات کو بلا لیتے ہیں۔ اُس بندے کے بارے میں حضورؐ کو اللہ تعالی سمجھا رہے ہیں۔ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب کہ آپ اُس کی بات ماننا چھوڑ دیں اور آپ تو بس رب کے سجدے میں جائیں اور قرب میں مشغول ہوجائیں۔ اللہ کے یہ سکھانے کا طریقہ آپ ملاحظہ فرمالیں کہ کسی کے بارے میں اللہ تعالی سمجھا رہے اور پہلے تو دلیلیں دی ہیں کہ جس کی آپ بات مان رہے ہو وہ آپ کو ذکرفکر سے روک رہا ہے تو آپ یہ دیکھیں کہ وہ ہدایت پر ہے یا نہیں ہے، طہارت کی زندگی گزار رہا ہے یا نہیں اور آپ یہ بھی دیکھیں کہ وہ جھٹلا کربھاگ گیا ہے تو کیا اُس کو معلوم نہیں ہے کہ گوھرشاہی دیکھ رہے ہیں۔ أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّـهَ يَرَىٰ کہ کیا اُس کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اُس کے بعد فرمایا کہ اگر وہ باز نہیں آیا تو ہم اُس کے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کے اُس کو گھسیٹیں گے۔ اب نجانے قرآنِ مجید میں کسکا ذکر ہے لیکن کسی کا تو ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا کہ

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلً
سورة الکھف آیت نمبر 54
ترجمہ: یہ جو قرآن شریف ہم نے انسانیت کیلئے اُتارا ہے اِس میں ہم نے ہر چیز کو مثال کے ساتھ سمجھایا ہے اور سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن انسانیت کی جو اکثریت ہے وہ جھگڑا کرتے ہیں مانتے نہیں ہیں۔

اب ہم قرآن کے مطابق یہ تشریح کررہے ہیں، ایک ایک لفظ کو سمجھا رہے ہیں تو آپ کسی مولوی کو جاکر کہیں کہ تم تو غلط بتاتے ہو یہ ہے صحیح بات، قرآنِ مجید کا حوالہ دے دیں آپ کو لیکن اگر وہ مان لے تو پھر آکر ہمیں بتا دینا۔ یہ بات اللہ فرما رہا ہے کہ ہم نے کھول کھول کر قرآنِ مجید میں ایک ایک مثال دے کر قرآن کو سمجھایا ہے لیکن انسانیت کی جو اکثریت ہے وہ جھگڑا کریں گے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 اکتوبر 2020 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآنِ مکنون کی خصوصی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس