کیٹیگری: مضامین

اللہ تعالی کا دین دنیا میں کیسے آیا؟

اللہ تعالی نے دینِ الہی کونہیں اُتارا بلکہ سیدنا گوھرشاہی دینِ الہی لے کرآئے ہیں کیونکہ یہ اُترتا نہیں ہے۔ جودینِ الہی ہے یہ بائبل، توریت، زبور، انجیل اور قرآن کی طرح کوئی وحی الہی نہیں ہے جو اُتارا ہو کیونکہ دینِ الہی کچھ اور ہے۔ ایک دن اللہ کو خیال آیا کہ وہ اپنے آپ کو دیکھے کہ کتنا حسین ہے تواللہ نے اپنے حُسن کا اظہار فرمایا۔ اگرآپ دیکھنا چاہیں کہ آپ کتنے حسین ہیں توآپ اپنے حُسن کا اظہارآئینے کے آگے کریں گے لیکن اللہ کا توآئینہ نہیں تھا۔ آئینے کی وجہ سے ہمارے خد وخال منعکس ہوتے ہیں لیکن جب اللہ چاہتا ہے تووہ اظہارکرتا ہے۔ جب اللہ نے حُسن کا اظہارکیا توجواظہار ہوا وہ ایک صورت اختیار کرگیا جسے حُسن الہی کہا جا سکتا ہے۔ ہم توجب تک آئینے کے سامنے کھڑے رہیں تو ہمارا آئینے میں اظہار دکھتا رہتا ہےلیکن جب اللہ نے اپنے حُسن کا اظہارکیا تو وہ مجسم ہوگیا۔ ہم توجب تک آئینے کے سامنے ہیں توہم اپنے آپ کوآئینے میں دیکھ رہے ہیں اوراگرہٹ گئے تواظہار بھی ہٹ گیا لیکن اللہ کے ہاں ایسا نہیں کیونکہ جب اللہ نے اپنے حُسن کا اظہارکیا تووہ حقیقت بن گیا۔ جو حُسنِ الہی کا اظہار ہوا تو وہ مجسم صورت اختیار کرگیا تواِس کو دیکھ کراللہ تعالی نے سات مرتبہ جُنبش لی یعنی سات دفعہ والہانہ طور پرجُھوما۔ جوجُھومنے کا عمل ہے یعنی وارفتگی کا عمل ہے، یہ عمل عشق کہلایا اور جھومنے کے نتیجے میں جو اللہ کے جسم سے نور برآمد ہوا، جیسے ہم ناچتے ہیں تو پسینہ نکلتا ہے لیکن جب اللہ جھوما تو اللہ کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ پسینہ نکلے تو وہ نور نکلے گا توجب وہ نور نکلا تووہ نور بھی ایک صورت اختیار کرگیا، وہ طفلِ نوری کہلائے۔ یہ جواللہ کے جسم میں حرکت ہوئی تواُس حرکت سے نوربرآمد ہوا اور وہ نور مجسم ہوا تواُس سے طفلِ نوری بنا لیکن جب اللہ تعالی وارفتگی سے اپنے حُسن کو دیکھتا توکئی اظہار ہوئے۔ سلطان باھو نے صرف یہاں تک لکھا ہے اور آگے کی بات ہم بتارہے ہیں۔ اللہ کا جو اظہار ہوا تو جس جس ادا سے اُس نے اپنے حُسن کودیکھا، وہ ایک ایک ادا بھی مجسم ہوگئی، اُس کو جثہٴِ توفیقِ الٰہی کہتے ہیں۔ جس کے اندر وہ آجاتا ہے وہ عاشقِ الہی بن جاتا ہے۔ طفلِ نوری اب فقر ہے اور جثہٴِ توفیقِ الہی عشق ہے توجو فقر ہے وہ نبوت میں آگیا لیکن عشق نبوت میں نہیں آیا تو یہ سات طفلِ نوری ہوگئے۔ جب دنیا بن گئی تو جوطفلِ نوری تھے یہ دوطرح کے ہوگئے، ایک ذاتی اور ایک صفاتی۔ مختلف انبیائے اکرام کوفقرعطا ہوا اورسب کوصفاتی ہوا لیکن حضورؐ کو ذاتی عطا ہوا اور حضورؐ کو ذاتی طفلِ نوری بھی عطا ہوگیا۔ عیسٰیؑ علیہ السلام اور ابراہیمؑ کوبھی طفلِ نوری عطا ہوا لیکن وہ صفاتی تھے۔ حضورؐ نے طفلِ نوری کیلئے فرمایا کہ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقَرُ مِنِّیْ کہ فقرمیرا فخرہے اورفقرمجھ سے ہے تو ذاتی طفلِ نوری ملا۔ پھر یہاں سے اللہ تک پہنچانے کیلئے مختلف ادیان بن گئے۔ پھرحضورؐ کی اُمت میں اوردیگرانبیاء کی اُمت میں اللہ تعالی نے اپنے عشق کا ذائقہ بھی دیا۔ کچھ ہستیوں کوجثہ توفیقِ الہی دیا گیا جیسا کہ لال شہباز قلندرہیں۔ ہریانہ پانی پت میں ایک بزرگ بوُعلی شاہ قلندر میں بھی جثہ توفیقِ الہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اوربزرگ گزرے ہیں شاہ کمال کیتلیؒ، اُن میں بھی جثہ توفیقِ الہی تھا۔ اب جثہ توفیقِ الہی بھی اور طفلِ نوری بھی زمین پرآتے رہے لیکن جواللہ کا حسن (حسنِ الہی) جومجسم ہوگیا تھا یہ رہ گیا۔ جو طفلِ نوری تھے یہ اللہ کے حُسن کے مدحا سرا تھےجبکہ اللہ حسن مجسم (عکس اول) کو دیکھ دیکھ کرعشق فرماتا رہا۔

دینِ الہی کا امام مہدیؑ کے وجودِ مبارک میں آنا کیا ہے؟

آخری دور میں جوحُسنِ الہی تھا وہ امام مہدیؑ کے وجود میں آیا۔ اِسی حُسنِ الہی کو دیکھ کراللہ عشق فرماتا ہے اورجب یہی زمین پرآگیا ہے تو اِسی کودیکھنا دینِ الہی ہے۔ حُسنِ الہی، جس کو ہم نے اکثر بسا اوقات عکسِ اول کہا ہے لیکن اصل میں یہ دینِ الہی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سبقت اللہ تو یہ حُسنِ الہی کی ہی تعریف میں فرمایا ہے کہ اللہ کے رنگ میں رنگ جاوٴ۔ حُسنِ الہی اللہ کا دین ہے اور یہ تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ وجود ہے۔ جب یہ وجود زمین پرآگیا ہے تو اِس نے سب کوکہا کہ اب پوجا پاٹ اورظاہری عبادتیں چھوڑدو بلکہ اب عشق کرو۔ یہ اللہ کا حُسن ہے جوسرکارسیدنا گوھر شاہی کے وجود میں چُھپا بیٹھا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
سراپا حُسن بن جاتا ہے جس کے حُسن کا عاشق
بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں

یہ وہ حُسن ہے جس کا مظاہرہ کرکے دیدارکرکے یہ حُسن اِس دل میں بھی آجاتا ہے۔ اُس حُسنِ الہی کا امام مہدی کے وجود میں آنا دینِ الہی ہے۔ اوپر وہ کہتا تھا کہ مجھ سے عشق کرو تواوپراللہ عشق کرتا تھا۔ اللہ تعالی کا اب یہ منصوبہ تھا کہ جسطرح میں اپنے حُسن سے عشق کرتا ہوں اسی طرح میری مخلوق بھی میرے حُسن سے عشق کرے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے دنیا بنائی تھی کہ وہ پہچانا جائے اور تم تب ہی پہچانو گے جب وہ تمہارے سامنے آئیں گے کیونکہ پہلے تو تمہارے سامنے کبھی نہیں آیا۔ اب آخری دورمیں تمہارے سامنے آئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس کیلئے فرمایا کہ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کاعام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا

پھرجب اِن کودیکھ لیا تو اللہ کو دیکھ لیا۔ اب یہ نہیں ہے کہ یہ کسی دین کے خلاف ہو یا آپ کہیں کہ نہیں ہمارے لئے ہمارا دین کافی ہے بلکہ یہ توعشق کے مدارج ہیں۔ محبت اورعشق کا جو درجہ عیسائیت اور اسلام میں رکھا ہے تو اگرآپ اُسی تک محدود رہنا چاہتے ہیں تو رہیں۔ اگرآپ نے اللہ کے عشق میں آگے کے درجوں میں جانا ہے تو یہ تعلیم آگئی ہے اوراگرآپ کا جی چاہتا ہے تو لے لیں۔ یہ توکرم ہوگیا کہ جس حُسن سے اللہ عشق کرتا ہے تو آپ براہِ راست اُس کے قدموں میں چلے جائیں تو اِس سے بڑھ کرکیا فضلِ الہی ہوگا۔ جس کا عاشق خود خدا ہے یہ درجہٴِ معشوق ہے۔ یہ معشوق صرف ہماری نہیں ہیں بلکہ سرکار گوھرشاہی عکس اول کی موجودگی کی وجہ سے اللہ کی بھی معشوق ہیں۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 23 جنوری 2020 کو دورہ نیپال خصوصی نشست میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس