کیٹیگری: مضامین

تقویٰ کیا ہے ؟

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 183

روزے کا مقصد تقوی حاصل کرنا ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم سے پہلی امتوں پر بھی روزہ فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقوی حاصل کر سکو ۔ تقوی کے معنی پاک و طاہر ہونے کے ہیں ۔ انسان کے وجود میں جو ناپاک چیز ہے اسی کے پاک کرنے کی طرف اشارہ ہے جو کہ لطیفہ نفس ہے ۔ روح تو ناپاک نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ وہ تو اللہ کا امر ہے ۔ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں کہ اس نفس نے پلیت کیتا ۔۔۔ اساں منڈوں پلیت نا سی۔۔۔یعنی ہمارے اندر کوئی چیز ناپاک نہیں تھی نہ ہمارا قلب ناپاک تھا، نہ ہماری روح ناپاک تھی ۔ یہ جو لطیفہ نفس ہے یہ پلیت ہے اس پلیت نے ہم کو پلیت بنا دیا ۔ تقوی کا یہی مقصد ہے کہ آپ کے اندر جو لطیفہ نفس شیطانی مخلوق ہے اس کو پاک کرنا ہے ، اس کا پاک ہونا تقوی کہلاتا ہے ۔

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاعلی آیت نمبر 14
ترجمہ : کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنا تذکیہ کر لیا

لہذا اس لطیفہ نفس کا پاک ہونا تقوی ہے ۔روزہ رکھنے کے لوازمات یہ نہیں ہے کہ آپ مخصوص وقت کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیں اور یہ آپ کو پتہ نہ ہو کہ روزہ رکھنے سے تقوی کیسے حاصل ہو گا، نہ ہی آپ کو یہ پتہ ہو کہ تراویح کیوں پڑھی جاتی ہیں ، نہ ہی آپ کو یہ پتہ ہو کہ افطار میں کیا کیا چیز آپ نے کھانی ہے تو پھر یہ فاقہ ہی ہے ۔جس طرح سے ملک پاکستان میں روزہ رکھا جاتا رہا ہے وہ تو انتہائی بھیانک ہے ۔ روزہ رکھنے کے بعدلوگوں کا رد عمل بڑا خطرناک ہو جاتا ہے ، ہر آدمی کو جتاتے ہیں میری منہ نہ لگنا میں روزے سے ہوں یعنی بلا وجہ ایک دوسرے کے اوپر غصہ دکھاتے ہیں ۔ نماز عصر کے بعد اکثر آپ کو نظر آئے گا لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں اورافطار سے ایک گھنٹہ پہلے ٹیبل پر رکھ کر اس کا دیدار کر رہے ہیں اور دن کا باقی ماندہ حصہ ٹی وی پر بالی وڈ اور ہالی وڈ دیکھ کر گزر جاتا ہے ، تو یہ روزہ نہیں ہے یہ فاقہ ہے ۔روزے کا اصل مقصدیہ ہے کہ لطیفہ نفس جس کی غذا نار ہے اس کو روکا جائے اور نور فراہم کیا جائے۔ جب نفس کی غذا نار کم ہو گی اور نور کی بہتات ہو گی تو پھر ہمارے اندر طہارت آئے گی ۔ لیکن نور کی بہتات کیسے ہوگی ؟ ہمارا قلب جس نے نور بنانا ہے وہ پاور اسٹیشن کی مانند ہے جس نور بنا بنا کر پورے جسم کو طہارت مہیا کرنی ہے لیکن ہمارا جو قلب ہے وہ سویا ہوا ہے علامہ اقبال کا بھی شعر ہے کہ
دل بیدار پیدا کر دل خوبیداہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری ، نہ میری ضرب ہے کاری

رمضان میں شیطان کے قید ہونے سے کیا مراد ہے؟

دل کی دھڑکنوں میں جب اللہ ھو ، اللہ ھو داخل ہو جاتا ہے اور یہ دل اللہ کا ذاکر بن جاتا ہے تو اللہ ھو کے ٹکراؤ سے نور کی پیدوار شروع ہو جاتی ہے اور وہ نور نس نس میں جانا شروع ہو جاتا ہے ۔پھر جس کا دل اللہ کا ذکر سے جاری ہو جائے اس کو پھر روزہ رکھنے کا مزا آتا ہے ۔پھر جب وہ روزہ رکھتا ہے تو خوراک کے نا کھانے کی وجہ سے نار کی کمی ہو جاتی ہے اور نور کے سرائیت کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی ۔ اب موجودہ دور میں ایک حدیث کا حوالہ مبینہ طور پر یہ دیاجاتا ہے کہ رمضان میں شیطان کو قید کر لیا جاتا ہے لیکن وہ فرمان نبویؐ یہ ہے کہ اس رمضان میں اپنے شیطان کو قید کرو۔ اگر شیطان کو اللہ نے قید کر دیا ہے تو پھر آپکو کس سے لڑنا ہے ۔ ہر انسان کے اندر ایک شیطان جن ہے اُس شیطان جن کو آپ نے قید کرنا ہے جس کے لئے لطیفہ نفس میں نار کو کم کر کے لطیفہ قلب میں نور کی بہتات بڑھانی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رات دیر تک تراویح پڑھتے ہیں اگر لطیفہ قلب کا منہ کھلا ہو گا تو تلاوت قرآن کا نور قلب میں جائے گااور پھر وہ نور نسوں سے ہوتا ہوا نفس تک پہنچے گااور اس کے اندر طہارت آ جائے گی ۔ روزے کا براہ راست تعلق نفس کی طہارت کے لئے ہے اور اللہ کو پانے کے لئے سب سے بڑا مرحلہ نفس کو پاک کرنا ہی ہے ۔

وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
سورة الذاریات آیت نمبر 21

کہ میں تمھارے نفس کے پردے کے پیچھے ہوں ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا کہ من عرفی نفسہ فقد عرفی ربہ۔۔۔کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔اسی لئے ایک جگہ آیا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا بھی میں دیتا ہوں ۔اللہ کی طرف جو راستہ جا رہا ہے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ لطیفہ نفس ہے اور روزہ اس نفس کو کمزور کرتا ہے لہذا اللہ کی ذات تک پہنچنے کا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھرسے20 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس