- 1,482وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو دہشت گرد ہیں انکا کوئی دین و مذہب نہیں ہے ، یہ بس دہشت گرد ہیں لیکن یہ بات غلط ہے ۔ پھر لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ذرا خود سوچو کہ مسجد کے اوپر بم بلاسٹ کرنے والا مسلمان کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی یا وہ کہنا نہیں چاہتے ۔ وہ اسکی ذمہ داری اسلام کے اوپر نہیں ڈالنا چاہتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۔ لیکن پھر یہ جو مسلمان ہیں ، یہ دہشت گرد کیسے بنے ؟ یہ جو اللہ تعالیٰ کا مزاج مبارک ہے جس طرح اللہ نے قرآن مجید میں پہیلیوں کی صورت میں آیتیں نازل کی ہیں جنکو کوئی جیسا سمجھنا چاہے ویسا سمجھ لے ۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ جو مشکل پسندی اور قرآن مجید میں جو الجھاؤ رکھا ہے اس الجھاؤ کی وجہ سے آج اسلامی دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی آپکے سامنے ہے ، اس نے لوگوں کو الجھایا ہے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی ۔ اب اس بات کا کوئی تک بنتا ہے ؟
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
سورۃ آل عمران آیت نمبر 67
ترجمہ :- ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔
یہ تو بہت زیادہ پریشان کن بات ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کیلئے کہا جائے کہ وہ نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی ۔ وہ دین حنیف کے ماننے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے ۔ یہودی انکو کہتے ہیں جو حضرت ابراہیم کے ماننے والے ہوں اور نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کو کہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی تشریح کے مطابق تو نصرانی عیسائیوں کو کہتے ہیں ۔ کیا ابراہیم علیہ السلام کو کوئی کہے گا یہودی یا نصرانی ؟ عیسیٰ علیہ السلام تو ابھی آئے ہی نہیں تھے تو وہ نصرانی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اب یہ ہے دیکھ لیں ۔ کیا یہ آپکو اللہ کا کلام لگتا ہے یعنی کیا اللہ اتنی بے تکی بات کہے گا ؟ اس طرح کی بیشمار بے تکی باتیں لکھی ہوئی ہیں جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہو رہا ہے , ”اے محمد تم کہیں شرک نہ کر بیٹھنا “۔ اب اگر اللہ تعا لی کو حضور صلی اللہ وسلم سے شرک کی توقع ہے تو تمہیں اور مجھے تو بستر باندھ لیناچاہئے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو حضور سے یہ امید ہے تو ہمارا کیا ہوگا ؟ آپ محمد الرسول اللہ کو یہ کہہ رہے ہیں کہ شرک نہ کر بیٹھنا ۔ بتاؤ حد ہوگئی ۔اسی طرح کیا حضور پاک کیلئے یہ امکان ہے کہ وہ شرک کردینگے ؟ تو پھر کیوں کہہ رہے ہو یہ بات ، کیا حضورؐ کو مرتبہ کم کرنے کیلئے ؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ آیت اللہ میاں کا کلام ہی نہیں ہے ۔ الجھاؤ ہی الجھاؤہے اور کوئی چھوٹا موٹا الجھاؤ نہیں ہے ۔
اگر کوئی شخص حضور پاک سے بے انتہا محبت کرتا ہو اور کوئی وہابی قرآن کی یہ آیت لے آئے ، چند اور آیتیں اسکے سامنے رکھے کہ تم حضور کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہو دیکھو قرآن میں کیا لکھا ہے ۔ قرآن میں تو لکھا ہے اے رسول اللہ کہیں تم شرک نہ کر بیٹھنا اور تم انکو اتنا بڑا سمجھ رہے ہو ۔ اس بندے کا تو ایمان ہی خراب ہوجائے گا ۔ وہابی کہے گا کہ تم حضور پاک کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہو ، ان سے مانگ رہے ہو ، وہ تو اللہ سے مانگتے تھے ۔ قرآن کی انہی آیتوں سے اچھے بھلے عاشق رسول کا بیڑا غرق کردینگے ۔ اچھا اب ہم یہ بات کہہ رہے ہیں تو کہیں گے کہ دیکھو یہ قرآن کے گستاخ ہیں ۔ بات وہ لوگ نہیں کرنے دیتے جنکو پتہ ہے کہ وہ غلط ہیں ، جو سننا بھی نہیں چاہتے کیونکہ سنیں گے تو چپ ہوجائینگے ۔ لہذا کہتے ہیں نہیں نہیں نہیں یہ کفر ہے ہٹاؤہٹاؤ بند کردو ۔
تم اک گورکھ دھندا ہو:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو الجھاؤپیدا کیا ہے سب آپکے سامنے ہے اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔ قرآن میں جب اس طرح کی آیتیں ہیں کہ اللہ کے نزدیک تو دین ، اسلام ہی ہے کوئی اور دین اختیار نہ کرلینا کیونکہ قیامت کے دن تو اسلام والا ہی کامیاب رہے گا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہے یا اگر اللہ نے بھیجی ہے تو میرا خیال ہے اس وقت اللہ میاں بے ہوشی کے زیر اثر تھے کیونکہ وہ بھول گئے ہونگے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی انہوں نے ہی بھیجا تھا ۔ یوم محشر میں تو یہودی بھی کھڑے ہونگے ، آدم کے ماننے والے ، موسیٰ کے ماننے والے اور عیسیٰ کے ماننے والے بھی ہونگے ، تو کیا اس دن وہ سب ناکام رہینگے صرف اسلام پر کاربند شخص ہی کامیاب رہیگا ؟ کیا بقیہ ادیان اور مرسلین کو کسی اور نے بھیجا تھا ؟ یہ آیت اللہ کی طرف سے کیسے ہوسکتی ہے ؟ جبکہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہے کہ یا رسول اللہ کہہ دو کہ میں کسی آسمانی کتاب کو جھٹلانے کیلئے نہیں آیا ۔ اور ساتھ ہی توریت اور انجیل کا نام بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ بھی حق تھا اور جو تمہارے اوپر نازل کی گئی ہے کتاب قرآن وہ بھی حق ہے ۔ اگر بائبل حق ہے تو کیا عیسائیت کا دین باطل تھا ؟ اگر توریت حق ہے تو وہ جو ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام نے یہودیوں کو دین بنا کے دیا تھا وہ باطل تھا ؟ تو پھر یہ آیت کہاں سے آگئی ؟ یہ الجھاؤ پیدا کیا گیا ہے لیکن چونکہ آپکی پھٹتی ہے اسلئے بولتے نہیں کہ بھئی اللہ میاں نے جو بولا ہے وہ ٹھیک ہے ۔ ارے بھائی آنکھیں کھولو ، اب کس چیز کا ڈر ہے ، جب معلوم ہے کہ یہ نمازیں بھی ویسے ہی منہ پہ دے ماری جائینگی تو پھر جنت میں کون جائیگا ؟ اپنی مرضی سے جنت میں کوئی نہیں جائیگا ، جنت میں وہی جائینگے جنکو اللہ بھیجنا چاہے گا اور کوئی نہیں جائیگا ۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ اپنے اعمال کی بنیاد پہ جنت میں چلے جاؤگے ، نمازیں پڑھو ، روزے رکھو تو تم بہت بڑے بے وقوف ہو ۔ ایک حدیث شریف میں ہے ایک بیچارے صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہماری بخشش اعمال کی بنیاد پر ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں ، اعمال کی بنیاد پہ نہیں ، اللہ کے فضل سے ہوگی ۔ اس صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ آپکی بخشش کیسے ہوگی ؟ آپ نے فرمایا کہ میری بخشش بھی اللہ کے فضل سے ہوگی ۔ اگر بخشش اللہ کے فضل سے ہی ہونی ہے تو پھر آدمی اعمال کیوں کرے ؟ میں نہیں یہ تو بڑے بڑے شاعروں نے کہہ دیا ، نصرت فتح علی خان کی ایک قوالی بھی ہے کہ تم اک گورکھ دھندا ہو ، سب کے گلے کا پھندا ہو ۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ، شاعروں نے بھی کہہ دیا ہے ۔
پل میں تولہ پل میں ماشہ:
جتنی بے تکی باتیں ہیں وہ آپ اللہ میاں کی اسٹوری میں سن لیں ۔ میں تو عاجز ہوں ، مجھے تو اس بات پہ غصہ ہے ، آپ نجانے کیا سمجھتے ہوں لیکن میرے جذبات تو اس آیت سے مجروح ہوئے ہیں کہ اے محمد مشرک نہ ہوجانا ۔ میں ایسے دین کو ہی نہیں مانتا ۔ پہلے اتنی عزت عطا کی کہ یہ میرا حبیب ہے لو لاک لما خلقت الافلاک کہ اگر تجھے بنانا مقصود نہ ہوتا تو یہ زمین و آسمان نہ بناتا اور پھر اسکے بعد کہہ رہے ہیں کہ جی شرک نہیں کرنا ، یہ کیا بات ہوئی ؟ تم کو محمد الرسول اللہ سے شرک کی توقع ہے ؟ حد ہوگئی ہے ۔ لیکن اگر واقعی یہ آیتیں اللہ کی طرف سے آئی ہیں تو میں تو نہیں مانتا کہ یہ آیتیں ہیں ، یہ اس قابل نہیں ہیں کہ انکو پڑھا جائے ۔ بھئی ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ
لا یومن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین
ترجمہ: جب تک تم مجھ محمد سے سب سے زیادہ محبت نہیں کروگے (اپنے ماں باپ حتیٰ کہ تمام انسانوں سے زیادہ) تو تم مومن نہیں بن سکتے۔
پھر جو ہمارے بڑے بڑے اکابرین ہیں جیسا کہ مولانا روم ہیں انہوں نے کہا ؛
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوذ نام تو بردن کمال بے ادبی است
ادب گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
ایک طرف تو یہ اسٹینڈرڈ ہے کہ ہزار بار مشک و عنبر کے عرق سے اپنی زبان دھونے کے بعد بھی اگر میری زبان سے حضور کا نام نکل جائے تو کمال کی بے ادبی ہے ۔ایک طرف یہ نزاکت بھی ہے کہ آسمان کے نیچے زمین پر ایک ایسی بارگاہ ہے جسکے آداب عرش الہیٰ سے بھی زیادہ نازک ہیں ۔ جہاں جنید بغدادی اور با یزید بسطامی جیسے اولیاء بھی ادب سے سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں کہ کہیں تیز تیز سانسوں سے اس بارگاہ میں بے ادبی نہ ہوجائے ۔ اور پھر ادھر یہ بھی ہے ؛
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
سورۃ الکہف آیت نمبر 110
ترجمہ :- کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہوں ، میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔
پھر یہ بھی ہے کہ اے محمد شرک نہ کر بیٹھنا ۔ یہ سب کیا ہے ، یہ کونسا قرآن ہے ؟ کیا یہ موروکو (Morocco) میں اترا تھا یا مصر (Egypt) میں اترا تھا ۔ پاگل سمجھا ہوا ہے کیا مخلوق کو ؟ وہ چلے گئے لوگ ۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے نہیں مانیں گے ۔ ایمان کی تو ایسی تیسی کردی ہے آپکے قرآن نے ، اب کیا کروگے ؟ اب تم بھی آجاؤ ۔ ایک طرف یہ معیار ہے کہ محمد ؐ کا نام زبان کو مشک و عنبر سے دھونے کے بعد بھی لینا کمال کی بے ادبی ہے ۔ آپ عملی طور پر یہ کر کے دیکھیں ، زبان کو مشک و عنبر سے دھوکے دیکھیں ۔ یا تو پھر یہ کہیں کہ اولیاء کرام تو بس زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں ۔
میں ایک عملی سوچ بتا رہا ہوں ، جب آپ نے کوئی کام نہ کرنا ہو تو جو مرضی آئے کہہ دو آپ یہی کہیں گے کہ ہاں جی ٹھیک ہے ، لیکن جب وہ کام عملی طور پر کرنا ہو تو پھر آدمی کہتا ہے کہ اب کیا کروں ، اب کیا کروں ؟ اتنا تقریریں سنیں اتنا اپنے دل میں حضور پاک کیلئے ادب بنانے کی کوشش کی اور آخر میں نتیجہ یہ ہے ۔ ایک طرف تو محمد الرسول اللہ اتنے بڑے ہیں کہ شب معراج جسم سمیت اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ، اللہ کو دیکھ لیا ، اللہ کو دیکھنے کے بعد بھی انکو توقع ہے کہ شرک کردینگے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں ؟ یعنی دیدار الہیٰ کرنے کے بعد بھی انکے شرک کرنے کے امکانات موجود ہیں ۔ یہ شرافت نہیں ہے ، یہ تو انسانوں کیساتھ کھلواڑ ہے ۔ یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہم نہیں مانتے ایسے قرآن کو جو حضورؐ کے اد ب سے باز رکھے۔ اسکو مان کر آپ کم سے کم حضور کا ادب نہیں کرسکتے ۔ اگر تمہارا یہ ایمان ہے کہ حضور سے بھی شرک کا احتمال ہے تو لعنت بھیجتا ہوں ایسے ایمان پر ۔
دہشت گرد قرآن میں موجود اسی طرح کی آیتوں کو آگے بڑھا کر اس پر عمل کر رہے ہیں:
اگر میرا اور آپکا ایمان یہ ہوگا کہ محمد الرسول اللہ بھی شرک کر سکتے ہیں تو ہمارے دل میں انکی کیا عظمت ہوگی ، کیا محبت ہوگی ؟ پھر وہابی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نماز میں حضور کا خیال آجائے تو کسی گدھے کا خیال لے آؤ ، پھر تو وہ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو حضور پاک سے شرک کی توقع ہے تو پھر کیا رہ گیا ۔ خیر اور شر دونوں اوپر سے ہی آرہا ہے۔ یہ سارا کا سارااللہ کا کیا دھرا ہے ۔ آج جو دہشت گرداِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں اور جو کچھ بھی وہ کر رہے ہیں یہ اسی طرح کی آیتوں کا نتیجہ ہے ۔ وہ قرآن مجید کی آیتوں کو ہی لے لے کر آگے جارہے ہیں ، یعنی ان آیات کے اوپر ہی تو عمل کر رہے ہیں ۔ انکو شیطان نے تھوڑی کہا ہے کہ لوگوں کو مارو ، یہ سب دہشت گرد تو قرآن مجید میں جو لکھا ہوا ہے کہ جہاں بھی کافر ملے اسے مار دو ، اس پر عمل کر رہے ہیں ۔ اب اس آیت میں یہ تھوڑی لکھا ہوا ہے کہ یہ کب اور کہاں نازل ہوئی تھی ۔ مراد یہ ہے کہ اس قسم کی آیتیں دوران جنگ نازل ہوئی تھیں کہ جہاں بھی کافر ملے اسے ماردو ، کیونکہ اس وقت دین ایک نوزائیدہ حالت میں تھا اور جنگ ہارنے کی صورت میں اسکے مٹ جانے کا خطرہ تھا ۔ لیکن جوں ہی جنگیں یا غزوات ختم ہوئے ، مکہ فتح ہوگیا ، دین اسلام مستحکم ہوگیا اور اسکے مٹنے کا خطرہ ختم ہوگیا تو اس طرح کی سب آیتیں اللہ کی طرف سے منسوخ کردی گئی تھیں ۔ کافر جہاں ملے اسے قتل کردو، اگر یہ بات ہر دور کیلئے ہوتی تو پھر حضور پاک تبلیغ تو نہ کرتے بلکہ کافر کو دیکھتے ہی جان سے ماردیتے کہ جی یہ تو اللہ کا حکم ہے ۔ جبکہ عملی طور پر تو یہ ہوا کہ فتح مکہ کے بعد الٹا انہوں نے سب کافروں کو جنہوں نے انکے ساتھ زیادتیاں کی تھیں معاف فرمایا اور انہیں اسی شہر مکے میں رہنے اور اپنے اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی ۔ مقصد یہ کہ اس طرح کی آیتیں مسلمانوں کا جذبہ بڑھانے کیلئے دوران جنگ نازل ہوئی تھیں اور بعد میں منسوخ کردی گئیں لیکن قرآن کو مرتب کرنے والوں نے اس طرح کی منسوخ شدہ آیات کو بھی قرآن کا حصہ بنا ڈالااور اسکا نتیجہ آج ان دہشت گردوں کی صورت میں نکلا ہے جنہوں نے انہی آیتوں پر عمل کرکے نہ صرف اسلام کو بدنام کردیا ہے بلکہ دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔
قرآن کو کتابی صورت میں مرتب کرنا خدا کی منشاء کے خلاف تھا:
یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ حضور پاک کو معلوم تھا کہ وہ آخری نبی اور قرآن آخری کتاب ہے اسکے باوجود انہوں نے قرآن کو کتابی صورت میں ایک جگہ مرتب نہیں فرمایا اور نہ ہی اللہ کی طرف سے ایسا کوئی حکم آیا ۔ یعنی اللہ کی پلاننگ میں قرآن کو کتابی صورت میں مرتب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، یہ خیال عمر خطاب جیسے لوگوں کو آیا ۔ اس نے ابو بکر صدیق سے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر میں وہ کام کیوں کروں جو حضور پاک نے نہیں کیا لہذا اُس وقت تو وہ چپ ہوگئے لیکن انکی وفات کے بعد انہوں نے خدا کی حکمت کے خلاف اس قرآن کو مرتب کیا اور آج یہی مرتب کیا ہوا قرآن انسانوں کی اکثریت کی سلامتی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بنا ہوا ہے ۔ کیا حضور پاک کو معلوم نہیں تھا کہ پچھلی امتوں نے آسمانی کتب میں تحریف اور رد و بدل کی ہیں تو میں قرآن کو اپنی حیات مبارکہ میں ہی مرتب کردوں تاکہ بعد میں کوئی اس میں تحریف نہ کرسکے ۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی خدا کی طرف سے ایسا کوئی حکم آیا ۔
”یاد رہے کہ اسی قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ لہذا وہ قرآن تو آج بھی محفوظ ہے ۔ اللہ نے جو قرآن بھیجا وہ کاغذ پر نہیں بلکہ نور کی صورت میں حضور پاک کے قلب پر نازل ہوا ۔ اور جو بھی شخص تصوف یا روحانی تعلیم کے ذریعے اپنے نفس کو پاک اور قلب کو صاف کرنے میں کامیاب ہوا حضور پاک نے وہ نوری قرآن اس شخص (ولی) کے سینے میں منتقل کردیا “
پہلے زمانے کے لوگوں کو یہ بات سمجھانا شاید مشکل ہوتا کہ قرآن حضور ؐکے سینے سے کسی دوسرے انسان کے سینے میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں اس بات کو بہت آسانی اور مثالوں کیساتھ سمجھایا جا سکتا ہے ۔ ایک مثال تو فیکس مشین کی ہے جسکے ذریعے آپ کاغذ پر لکھی تحریر کو دنیا کے کسی اور کونے میں موجود کسی اور انسان کو منتقل کرسکتے ہیں ، آپکے پاس اپنی تحریر جوں کی توں محفوظ ہے لیکن ساتھ ہی اسکی کاپی دوسرے شخص تک بھی پہنچ گئی ۔ دوسری مثال ٹیکسٹ میسیج (Text Message) یا آئی میسیج (iMessage) کی ہے جسکے ذریعے تحریر کی نقل آپکے فون سے کسی اور فون میں منتقل ہوجاتی اور اس میں تو کسی تارکی بھی ضرورت نہیں پڑتی ۔ چودہ سو سالوں سے وہ نوری قرآن اسی طرح حضور پاک کے سینے سے اولیاء کے سینے میں منتقل ہوتا آیا ہے ۔ اس قرآن میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی تضاد ۔
”قرآن کو مرتب نہ فرمانے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ اس اصل قرآن کی جستجو کریں اور اس جستجو کیلئے اپنے نفوس کو پاک اور قلوب کو منور کرنا پڑتا ۔ اس طرح نفس کی پاکیزگی اور قلب کی طہارت کو حاصل کرنا مسلمان کے علم و عمل میں رہتا اور وہ اللہ سے اپنے تعلق کو جوڑ پاتے اور اس طرح بقیہ نبیوں کی امت سے افضل امت بھی کہلاتے “
لیکن صرف چند لوگوں کی نادانی سے اللہ کا یہ پلان تباہ ہوگیا اور لوگوں نے کاغذ پہ لکھے اس قرآن کو ہی اپنے مذہب کا مرکز و محور بنا ڈالا اور پھر مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے ۔ مسلمانوں کی ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ وہ قرآن کو علم سرچشمہ سمجھتے ہیں اور انکا خیال ہے کہ دنیا کے تمام علوم اسی قرآن میں بند ہیں ۔ لیکن حضور پاک نے تو قرآن کو علم کا سرچشمہ قرار نہیں دیا ، انہوں نے تو اپنی ذات کو علم کا سرچشمہ قرار دیا اور فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ۔ اگر قرن میں سائنس سمیت دنیا کے تمام علوم بند ہیں تو کیا اس قرآن کا دن رات مطالعہ کرنے والے اسے پڑھ کر کسی ایک بھی چیز کو ایجاد کر سکے ہیں ؟ پھر ایک اور آیت میں لکھا ہے کہ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ یعنی اگر تمہیں کسی چیز کا علم نہ ہو تو کسی اہل ذکر سے پوچھ لو (کیونکہ اسکا سینہ حضور کے سینے سے جڑا ہوا ہے ) ۔ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ کسی چیز کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو قرآن کی آیتوں میں تلاش کرو ، تمہیں مل جائیگی بلکہ حکم دیا کہ کسی اہل ذکر کو تلاش کرکے اس سے پوچھو ۔ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ قرآن سائنس سمیت تمام علوم کا سرچشمہ ہے ، غلط ہے ۔
اگر اللہ کو امام الانبیاء سے شرک کی توقع ہے تو پھر اسکا تصور نبی اور تصور رسول بڑا کمزور ہے:
قرآن میں اللہ نے جو پہیلیوں میں با تیں کی ہیں اور اس حوالے سے ہم نے جو گفتگو کی ہے کوئی اسکو غلط ثابت کرکے بتائے ۔ اگر اس قرآن کو مانوگے تو کبھی بھی محمد کا ادب نہیں کرسکو گے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا موڈ ہے جب جی چاہے جسکو چاہے آسمان پہ بٹھا دیں ۔ اللہ میاں بھول بھی جاتے ہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ میرے سامنے عرش الہیٰ پہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ جیسے ہی نیچے گئے تو کہہ دیا کہ بھئی شرک نہیں کرنا ۔ یہ کیا ہے ۔؟ ایسے دین کوماننے سے کیا فائدہ جس میں اللہ تعالیٰ کو امام الانبیاء محمد الرسول اللہ سے شرک کی توقع ہو ، وہ دین تو بڑا کمزور ہے ۔ اور یہ تصور نبی اور تصور رسول بھی بڑا کمزور ہے کہ امام الانبیاء سے اللہ کو شرک کی توقع ہے ۔ میں کس بنیاد پہ سجدے کروں تمہیں ، میں کس بنیاد پہ تمہارے دین پر عمل پیرا ہوجاؤں جب تم کو امام الانبیاء سے شرک کی توقع ہے ۔ کس بنیاد پراس دین پر عمل پیرا ہو جاؤں ؟
قرآن مجید میں اس طرح کی باتیں پڑھ کر آدمی اپنا عقیدہ کیسے قائم کریگا ؟ عجیب و غریب باتیں ہیں ، ایک طرف یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے دوسری طرف حدیثوں میں لکھا ہوا ہے کہ بی بی عائشہ نے کہا یا رسول اللہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں ، آپکے تو اگلے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں ؟ یعنی حضور کو گناہگار بنا ڈالا ۔ بتائیے ، آدمی کہاں جائے ، کیا کرے ، کیا عقیدہ بنائے ؟ یہ تو دوغلی باتیں ہیں ایک طرف یہ کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ کہ انکے گناہ معاف کردئیے گئے یعنی انہوں نے گناہ کئے تب ہی تو معاف بھی ہوئے ۔ اور جس طرح سے اللہ نے قرآن میں یہ بات لکھی ہے اس سے لوگ یہی مفہوم نکالتے ہیں کہ ہم نے تمہارے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردئیے ۔ اس طرح اللہ نے الجھایا ہے ۔ اگر میں کسی سے راستہ پوچھوں ، وہ مجھے الجھا دے اور میں دو تین گھنٹے ہائی وے پر پریشان ہوتا رہوں تو مجھے اس شخص پر کتنا غصہ آئیگا ؟ اچھا مجھے جو راستہ نہیں ملا ، میرے تین چار گھنٹے برباد ہوگئے وہ تو ایک معمولی بات ہے ، یہاں تو دائمی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے کہ اگر آدمی اِدھر سے اُدھر ہوگیا تو ساری زندگی جہنم میں جلنا ہوگا ۔ کتنا نازک معاملہ ہے اور اس نازک معاملے میں اللہ تعالیٰ شغل فرما رہے ہیں ۔ میری سمجھ میں تو نہیں آتی یہ کہانی ۔ یہ تو ہماری زندگیوں اور ہمارے جذبات سے کھیلنے والی بات ہوگئی ۔ ایک طرف جہنم کی آگ کھڑی ہے اسلئے آپ کو تو بے انتہا محتاط ہونا چاہئے تھا ۔بجائے اسکے کہ آپ انتہائی حساس ہوں اور کھول کھول کر بالکل آسانی سے بات سمجھا ئیں تاکہ لوگ سمجھ پائیں اور صحیح راستہ اختیار کریں ۔ آپ تو الٹا انتہائی لا پرواہی سے کام لے رہے ہیں ۔ آپ بولئے کیا یہ اچھی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بات آئے وہ بالکل صاف صاف ہو ، آسانی سے سمجھ میں آئے تاکہ لوگ اچھا راستہ اختیار کرلیں ۔ جیسے قرآن کی اس آیت کو دیکھیں ۔
وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ
سورۃ الکہف آیت نمبر 17
ترجمہ :- جسکو اللہ گمراہ کرنا چاہے وہ ہرگز نہیں پائے گا اپنے لئے کوئی ولی مرشداور جسکو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے۔
لیکن جب ہدایت دینے کی بات آئی تو کہا کہ جی اللہ خود ہدایت دیگا ۔ اب دیوبندی کیا سمجھے گا ، یہ دیوبندی کو دیوبندی کس نے بنایا ہے ؟ اسکی وجہ قرآن میں الجھاؤ ہے جو اللہ میاں نے خود پیدا کیا ہے۔ انسان کی جو عقل ہے وہ تو بڑی افلاطون چیز ہے ، وہ اپنا من پسند مفہوم نکالنے میں مہارت رکھتا ہے ۔ انسان وہ راستہ اختیار کرتا ہے جس میں اسے دو گھڑی کا سکون ملے ۔ لہذا اس سے اسی حساب سے بات کی جانی چاہیے ۔ قرآن میں اللہ نے ہدایت کی بات تو کہی ہے لیکن منفی انداز میں کہی ہےکہ جسکو گمراہ کرنا چاہوں اسکو مرشد کامل نہیں ملے گا ۔ یہ تو ہوگئی گمراہی کی بات اور جب ہدایت دینے کی بات آئی تو کہا مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِجسکو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے ۔ یعنی ہدایت یافتہ وہی ہوگا جسکو اللہ ہدایت دیگا ۔ بات وہی ہے لیکن الجھی ہوئی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے اولیاء کرام گزرے ہیں لیکن سب کے سب بیچاروں نے اپنی زبان بند رکھی ۔چونکہ انکو کوئی سہارا نہیں تھا ، انہوں نے یہی کہا کہ ٹھیک ہے جی ، آپ جو بھی فرما رہے ہیں سب حق ہے ۔ لیکن یہ چالاکیاں دیکھ کر ہمارے دل و دماغ میں اسکا تصور ٹوٹ گیا ہے ، جیسے کانچ میں ایک لکیر پیدا ہوجائے تو وہ بیکار ہوجاتا ہے ۔ اب آدمی کیسے سر جھکائے اسکے آگے جب یہ پتہ چلے کہ انہوں نے حق کو سمجھانا اتنا مشکل کر دیا ہے ، اتنا مشکل کردیا ہے اور یہ بھی خیال نہیں رکھا کہ لوگوں کا کیا حال ہوگا ۔
سیدنا گوھر شاہی اگر ہدایت کا نقشہ بنا کر دیں تو بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں:
میں آپکو سیدنا گوھر شاہی کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ جب میں پہلی دفعہ نارتھ ڈکوٹا امریکہ گیا توآپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ، انہوں نے ایڈریس سمجھاتے ہوئے کہا کہ کاغذ کے اوپر لکھو کونسے روڈ پر ہو ؟ ہاں جی ہم اس روڈ پر ہیں ۔ فرمایا اچھا اب اسکے اوپر اتنا میل چلو (سمجھ لیں کہ انہوں نے اسی میل کہا ) تو دائیں طرف شیل کا پیٹرول پمپ (Shell Gas Station) آئے گا ، پھر اس سے دائیں طرف مڑوگے تو موٹل (Motel 6) آئے گا ، اس سے آگے جاؤگے تو کریری روڈ آئیگا ، پھر ہجے (Spelling) کرتے ہوئے کریری روڈ (Crary Road) لکھوایا یعنی ایسا نقشہ (Road Map) بنا کر دیا کہ بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں چھوڑا ۔ اگر سیدنا گوھر شاہی ہدایت کا نقشہ (Map) بنائیں تو کہانی ختم ہوجائے ۔ سرکار کی زبان سے آج تک جو نکلا ہے وہ ایسے سمجھ میں آیا ہے کہ آدمی زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ تیر کی طرح سیدھی بات کرتے ہیں ۔ کیا بات ہے سرکار کی ۔ اور یہ بھی دیکھیں جب ذکر قلب کی بات آئی تو آپ نے سمجھایا کہ ذکر قلب کیا ہوتا ہے ؟ آپ کسی بھی صوفی کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ، کسی نے نہیں کہا کہ دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگاؤ ۔ اسی طرح کسی صوفی کی کتاب میں نہیں لکھا کہ قلب تین سال میں جوان ہوتا ہے ، یہ صرف سیدنا گوھر شاہی نے بتائی اور یہ بھی کہ تین سال کے بعد قلب اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ پھر اگر اسکو بیرونی نور نہ بھی ملے تو چلتا رہتا ہے ۔ جو بات سیدنا گوھر شاہی نے بیان کی ہے وہ ایسے تیر کی طرح دل و دماغ میں گھستی ہے کہ آدمی بھول ہی نہیں سکتا ۔ لیکن اللہ کا معاملہ مختلف ہے ۔ یا تو پھر اللہ میاں کے ہاں صحیح طرح بیان کرنےاور بات چیت کا مسئلہ ہے ۔شاید مسئلہ یہ ہو کہ وہ اپنا مدعا صحیح طور پر بیان کرنا نہ جانتے ہوں ۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو پریشان نہ ہوں ، بہت سے لوگوں کیساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ اپنا مدعا اچھی طرح بیان نہیں کر پاتے ۔لیکن آپ سیدنا گوھر شاہی کا طریقہ مبارک دیکھیں ۔
ہم سیدنا گوھر شاہی کی نعمتوں اور احسانات کے شکرگزار ہیں :
واقعہ غیبت (عارضی روپوشی )کے بعد کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم کو اس بات کے پیسے ملتے ہیں کہ ہم سیدنا گوھر شاہی کی جے جے کار کریں لیکن اب تو غیبت کو پندرہ ،سولہ سال ہوگئے اب تو کوئی چیک نہیں آرہا ہے ، اب تو آپ ہم کو پیسے نہیں دے رہے ۔ اس سے پہلے تو یہ گمان ہوسکتا تھا کہ سیدنا گوھر شاہی نے اتنی مدد کی اسلئے سرکار کی جے جے کی ۔ لیکن اب کیا ہے؟ انجمن سرفروشان اسلام (دجالی ٹولہ) والے بھی سوچیں کہ غیبت کو سولہ سال ہوگئے ہیں اب کہاں سے آرہا ہے چیک ۔ چلو اس وقت اگر پیسے ملتے تھے تو اتنی جے جے تو نہیں ہوتی تھی ۔ ہم توسیدنا گوھر شاہی کی نعمتوں اور احسانات کے شکر گزار ہیں جنکے بارے میں آپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ میری نعمتوں کو جھٹلانا نہیں ۔ دوسری طرف آپ قرآن میں سورۃ رحمٰن دیکھیں ، ہر جملے میں نعمتوں کا ذکر ہے ۔
فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ …. فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ …. فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ….
(سورۃ الرحمان)
تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے ۔ ۔ ۔ ۔ تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے ۔ ۔ ۔ ۔ تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے
اگر کوئی آدمی کھڑا ہوکر بولے مجھے احمق مت بولنا ، مجھے احمق مت بولنا ، مجھے احمق مت بولنا ۔ تو لوگ کہیں گے ابے الو کے پٹھے تم احمق نہیں ، تم پاگل ہو ۔ میں مانتا ہوں تم احمق نہیں ہو لیکن تم پاگل ہو ۔ کیوں ایک ہی بات کو بار بار بول رہے ہو ؟ جیسے کہ نصرت فتح علی خان کے سازوں کا سرگم ہو ، اور ایک سیدنا گوھر شاہی کی یہ نعمتیں ہیں ۔ اتنے احسانات کردئیے اور شعور بھی نہیں دیا کہ احسان کر رہے ہیں ۔ آج جو ہم سرکار گوھر شاہی اور پھر اللہ کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں اس میں کوئی کفر شامل نہیں ہے ، اس میں کوئی بغض و عناد شامل نہیں ہے ، یہ حق ہے ، یہ حقیقت کا بیان ہے ۔ جو جیسا ہے وہ ویسا ہی رہے گا بھلے وہ کہے کہ میں کیسا ہوں یا نہ کہے کہ میں کیسا ہوں ۔مشک آں است کہ خود بگوید نہ کہ عطار بگوید
جب موت اور جہنم کا خوف انسان کے ذہن سے نکل جائے تب ہی وہ حق بات کہہ سکتا ہے:
دو باتیں ہیں جو انسانوں کو حق بیان کرنے سے روکتی ہیں ، ایک تو موت کا خوف اور دوسرا جہنم کا خوف ۔ اگر دماغ سے یہ بات نکل جائے اور آدمی کو یہ سمجھا دیا جائے کہ بھائی دیکھو جنت اور جہنم میں ڈالنے کا اختیار کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ جب یہ بات سمجھ میں آجائے گی تو خوف نکل جائے گا ۔ ایک اور بات کہ چلو جی میں تو جہنم میں جائونگا لیکن وہ جو روزانہ نماز پڑھتا ہے، قل ھو اللہ احد اللہ صمد ، روز توحید کے نعرے لگاتا ہے اسکی کیا گارنٹی ہے ؟ میں تو جہنمی ہوں لیکن اسکی کیا گارنٹی ہے جو دن رات قل ھو اللہ میں گھسا ہوا ہے ؟ جس نے وہی کیا جو اللہ نے کہا ۔ قل انما بشر مثلکم ۔۔۔۔ کی بنیاد پر کہا کہ ہاں جی بالکل صحیح ہے حضور پاک میں اور عام انسان میں صرف یہی فرق ہے کہ انکے اوپر وحی آتی تھی ، اسکے بعد توحید میں عمر کی طرح اتنا آگے نکل گیا کہ جس طرح اس نے حجر اسود کیلئے کہا کہ اس پتھر کی تو کوئی اوقات ہی نہیں ہے ، یہ نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ ۔ تو ایسے بندے کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ جنت میں چلا جائیگا ؟ گارنٹی تو کسی کی ہے ہی نہیں ۔اب جب ہم اور تم دونوں بے سہارا ہیں تو پھر حق بول لیتے ہیں ۔ سرکار گوھر شاہی کی جو ذات والا ہے ، آپ نے ہم کو کوئی حکم نہیں دیا کہ بھئی تم جاکر اللہ کے پول کھولو اور میری خوب جے جے کار کرو ۔ یہ سرکار گوھر شاہی کا حکم نہیں ہے ، یہ تو ہم اپنے بل بوتے پر خود ہی کر رہے ہیں ۔ اب چونکہ اپنے بل بوتے پر کر رہے ہیں تو کوئی لالچ بھی نہیں ہے کہ سرکار بہت خوش ہونگے ۔ ہم نے جوحق دیکھا ہے ، جو ذہن میں آیا ہے وہ بیان کر رہے ہیں ۔ اب جیسے بھی ہیں کافر ہیں ، منافق ہیں ، حرامی ہیں جو مرضی آئے سمجھ لو ، قرآن کو جھٹلانے والے کہو ، اللہ کو جھٹلانے والے کہو آپکی مرضی ہے ۔ لیکن ہمارے جو سوال ہیں ان سے آپکا دماغ پھٹ جائیگا ۔یہ بتادیں کہ یہ والا قرآن مجید حضور پاک کے متعلق صحیح عقیدہ دل میں بننے دیگا ؟ ایک طرف اللہ میاں کہتے ہیں یہ سراپا نور ہیں دوسری طرف کہتا ہے یہ تو شرک بھی کرسکتے ہیں اور تیسری طرف کہتا ہے کہ وہ تو صرف اور صرف رسول ہیں اور کچھ بھی نہیں ۔ اب یہ دو آیتیں دیکھیں ؛
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
سورۃ الکہف آیت نمبر 110
ترجمہ :- کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہوں ، میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40
ترجمہ :- محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ ہر بات جانتا ہے ۔
ایک آیت میں لکھا ہے بشر ہیں تو دوسری میں لکھا ہے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ محمد الرسول اللہ کسی مرد کے باپ کہاں ہیں وہ تو صرف خاتم النبیین ہیں اور پچھلی آیت میں جو کہا تھا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ(میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں ) وہ بھول گئے آپ ۔ یہاں پر اپنی پڑی ہے تو بھول گئے کہ پیچھے کیا کہا تھا ؟ جب آپکا جی چاہے جو آپکا جی چاہے کہہ دیں ۔ ظاہر ہے آپ نے لوگوں کو ڈرا کر رکھا ہے کہ ذرا سی بات کی تو جہنم میں ڈال دونگا ۔ ٹھیک ہے ڈال دو جہنم میں اور آتا ہی کیا ہے ؟ زبردستی کرنا ، یہی آتا ہے آپکو ۔
آج مسلمانوں سے یہ سوال ہے ، جتنا مرضی چاہے لعن طعن کر لیں لیکن یہ بتائیے کہ حضور پاک کے بارے میں آپکا عقیدہ کیسے بنے گا، کیا عقیدہ رکھیں گے آپ ؟وہ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ حضور پاک کسی مرد کے باپ ہی نہیں ہیں ۔ اچھا مصیبت یہ ہے کہ کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ انکے بیٹے بھی ہوئے ہیں اور پھر کہا جارہا ہے کہ کسی مرد کے باپ بھی نہیں ہیں ۔ حضور پاک کے بیٹے کا نام ابراہیم تھا اور یہ بیٹا بھی بیوی سے نہیں بلکہ ایک کنیز ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوا جو یہودی مذہب پر قائم تھیں لیکن انہوں نے کہہ دیا کہ وہ کسی کے باپ نہیں۔ اسی طرح عیسیٰ کا واقعہ بیان کیا ہے ۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا )157( بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
سورۃ النساء آیت نمبر 157، 158
ترجمہ :- اور انہوں نے کہا کہ بیشک ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے حالانکہ انہوں نے نہ ہی اسے قتل کیا اور نہ ہی صولی پر چڑھایا بلکہ ان کیلئے شبیہہ بنادی گئی (انکے سامنے عیسیٰ کا ہم شکل جسہ ظاہر کردیا گیا)۔ اور بیشک جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور اسکے متعلق شک میں مبتلا ہیں ، انکو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے ماسوائے ظن (گمان) کی پیروی کے اور انہوں نے یقینا اسے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کرلیا (عالم بالا میں بلوالیا) بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
کہ نہ انکو قتل کیا گیا اور نہ انکو صولی پہ چڑھایا گیا ۔ اب مسلمان سمجھے کہ سرے سے ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا ۔ ارے بھائی یہ واقعہ ہوا تھا لیکن وہ لطیفہ نفس کا جسہ تھا جسکے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ۔ اب جس طرح کسی کو یہ علم نہ دیا گیا ہو کہ حضور پاک کے بیٹے بھی تھے وہ صرف یہی پڑھے کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو وہ یہی سمجھے گا کہ انکا بیٹا ہوا ہی نہیں ۔ یہ ادھوری بات ہوگئی ۔
اسلام کی اندر بگاڑ اور پریشانیوں کا پہلا سبب اللہ خود ہے:
پتہ نہیں لوگوں کا عقیدہ کہاں سے بنتا ہے ؟ اب چونکہ یہی نہیں پتہ کہ عقیدہ کہاں سے بنتا ہے لہذا لوگوں نے اپنے اپنے عقیدے بنا رکھے ہیں کوئی شیعہ ہے ، کوئی سنی ہے ، کوئی وہابی ہے ، کوئی دیوبندی ہے ، کوئی کچھ ہے اور کوئی کچھ ۔ کل ایک شیعہ آیا تھا اسکو یہی نہیں پتہ کہ شیعوں کے اندر بتیس (32) فرقے ہیں ۔ اور پھر ایک نئی بات وہ جو بیچارہ اسماعیلی آیا اس نے پوچھا یہ بتائیے کہ امام موسیٰ کاظم سچے امام تھے یا امام اسماعیل ؟ ارے بھائی امام موسیٰ کاظم سچے امام تھے ، یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن اسماعیلی اسکو جھٹلاتے ہیں ۔ ہر جگہ گڑ بڑ ہی گڑ بڑ ہے ۔ ایک طرف جائیں تو وہابیوں نے حضور کو بالکل ہی (Degrade) کردیا ہے ، دوسری طرف جائیں تو بریلویوں نے انہیں اللہ سے بھی آگے بڑھا دیا ہے کہ بس وہی وہ ہیں ۔ میں نے خود مسجدوں میں سنا جو مولوی بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضور نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ آیتیں کہاں سے لاتے ہو ؟ تو کہا جی پردہ ہے وہاں سے لاتے ہیں ۔ حضور نے کہا کہ اب جاکے دیکھنا ۔ جاکے دیکھا تو حضوؐر خود ہی بیٹھے تھے ۔ تو پھر حضوؐر نے کیا کہا ہوگا کہ جبرائیل یہ آیت لیجا کر حضور پاک کے اوپر نازل کردو یعنی حضور پاک خود ہی اپنے اوپر آیت بھیج رہے ہیں ۔ اسلام کا تو بیڑا غرق ہوگیا ۔
اسلام کے اندر جو پریشانیاں اور مصیبتیں ہیں یہ صرف دہشت گردوں ، وہابیوں اور شیعوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اسکا پہلا سبب اللہ خود ہے ۔ اسلام کے اندر یہ مسائل اللہ تعالیٰ نے خود ہی پیدا کئے ہیں اور انہوں نے یہ جو اتنی سختی پیدا کی ہے یہ صرف عیسیٰ کو جھٹلانے کیلئے کی ہے کہ کہیں یہ بات نہ نکل جائے کہ انکا اصل معاملہ کیا ہے ۔ لہذا اللہ نے فوراََ جھٹلا دیا کہ اسکا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ سچ ہے ۔ جسکو تم روح مقدس (Holy Ghost) کہتے ہو ، وہ کیا ہے ؟ وہ اللہ تعالیٰ کا جرثومہ ہے لہذا بیٹا ہی ہوا ۔ اسکو جھٹلادیا کہ جی اللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔ ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اِن چیزوں سے پاک ہے اور دوسری طرف یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اچھا جی یہودیوں کو کہو کہ اگر یہ اللہ کے بیٹے یا اُسکی سے امت ہیں تو اللہ ان پر عذاب کیوں بھیجتا ہے ؟
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاء وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
سورۃ المائدہ آیت نمبر 18
ترجمہ :- اور کہا یہود و نصاری نے کہ ہم بیٹے ہیں اللہ کے اور اسکے پیارے ۔ تو کہہ دو کہ پھر کیوں عذاب کرتا ہے تم کو تمہارے گناہوں پر ۔ کوئی نہیں بلکہ تم بھی ایک آدمی ہو اسکی مخلوق میں ، بخشے جسکو چاہے اور عذاب کرے جسکو چاہے ، اور اللہ ہی کیلئے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ دونوں کے بیچ میں ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
یاد رہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ حضور پاک کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے کی امت سے ہیں جسکے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت نازل کی جس میں صاف صاف تردید کرنے کے بجائے اللہ تعالی اپنے بیٹوں کی پہچان بتا رہے ہیں کہ انکی پہچان یہ ہے اللہ ان پر کبھی عذاب نہیں بھیجے گا ۔ ارے یار یہ کیا بول رہے ہو تم ، اس بات کی تو کوئی حیثیت(Value) ہی نہیں ہے، اگر اللہ کا بیٹا نہیں ہے تو آگے بات کیوں کر رہے ہو ؟ بلکہ اب جو بات تم کر رہے ہو اس سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ ہاں جی اللہ کا بیٹا (یا اسکی امت بھی ) ہے لیکن اللہ کے بیٹے (یا انکی جو امت ہوگی) وہ چاہے کریں اسکے اوپر عذاب نہیں آئیگا ۔ وہ یہ ردّ تو کر رہا ہے کہ نہیں نہیں یہ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتا رہا ہے اور الجھا رہا ہے کہ ہاں جی اگر اللہ کے بیٹے ہونگے تو ان پر عذاب نہیں آئیگا ۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا اگر آپکو کچھ سمجھ میں آرہا ہے تو خدا کے واسطے مجھے بھی سمجھائیں ۔
سیدنا گوھر شاہی کی ظاہری آنکھوں سے روپوشی کو پندرہ سولہ سال ہوگئے:
سرکار گوھر شاہی ظاہری طور پر آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور ہم زندہ ہیں ۔ اب کیا ڈر ہے ؟ اس سے بڑھ کر کیا قیامت آئیگی ، موت اس سے بڑھ کر تو نہیں ۔ جس آگ میں ہم جل رہے ہیں ، جہنم کی آگ اس سے زیادہ خطرناک تو نہیں ہوسکتی ۔ اب تو ڈر ہی نہیں رہا ۔ جو قیامت ہم نے دیکھ لی ہے اس سے بڑھ کر کوئی قیامت نہیں ہوسکتی ؟ جب سرکار کے دیدار ، سرکار کے ساتھ کے علاوہ کچھ مانگا ہی نہیں اور اب اس نوبت کو آگئے کہ اتنا عرصہ گزر گیا سرکار کا دیدار ہی نہیں ہوا ۔ اس سے بڑھ کر موت ، اس سے بڑھ کر عذاب ، اس سے بڑھ کر نار ، اس بڑھ کر قیامت ، اس سے بڑھ کر حشر کیا ہوگا ؟ اس سے بڑھ کر تو کوئی قیامت نہیں ہے ۔ سولہ سال ہوگئے ۔ اب کیا جہنم کا خوف ، یہ سولہ سال جہنم میں ہی تو گزارے ہیں ۔ وہ تو ایک دفعہ کا مرنا ہے یہاں تو روز مرتے ہیں ، یہ تو روز کی موت ہے ۔
یہ خیال انسان کو پریشان کردیتا ہے کہ ہم کو حق کی تلقین کرنے والا خود راست باز نہیں:
میں اللہ سے ڈرنا چاہتا ہوں ، میں بلک بلک کر اللہ کی بارگاہ میں رونا چاہتا ہوں لیکن کوئی اندر ایسا بیٹھا ہوا ہے جسکو ڈر نہیں لگتا ۔ وہ مجھے ڈرنے ہی نہیں دے رہا ۔اندر ہے کوئی ایسی چیز جو ڈرنے نہیں دے رہی ۔ صداقت کی بات کریں ، حق کی بات کریں ، راست بازی کی بات کریں اور ایسا کرتے کرتے ، اپنے آپکو صادق بناتے بناتے ، اپنے آپکو راست باز بناتے بناتے ، اپنے آپکو حق پر قائم کرتے کرتے یہ پتہ چلے کہ وہ خود راست باز نہیں ہے ، وہ صادق ہی نہیں ہے ، وہ حق پر ہی نہیں ہے تو کہاں جائیں ؟ کیوں جھوٹ بولا ، کیوں الجھایا ۔ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور تمہارے لئے کھیل ہے ۔ یہاں تو جہنم کھڑی ہے ۔ جنت کی بات نہیں ، جہنم میں کیوں جلے آدمی ؟ ہم حق اختیار کرنا چاہتے ہیں ، بتاؤ سیدھا راستہ کہاں ہے ؟ الجھایا کیوں ہے ؟ کیا یہ حق ہے ، یہ راست بازی ہے ، یہ صداقت ہے ؟دوسروں کو کہتے ہیں۔
فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 94
ترجمہ :- موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو ۔
خود جھوٹ بولتے ہو ، یہ کوئی طریقہ ہے ۔کہتے ہیں یہ مومن ہے ، یہ کافر ، یہ منافق ہے ، تو پھر کیوں بنایا ہے ان سب کو ؟ سب انسانوں کو مومن بنادیتے ۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں سچا راستہ اختیار کرو ، دوسری طرف سچے راستے پر جانے نہیں دے رہے ، الجھایا ہوا ہے ۔ میرے تو یہی جذبات ہیں اگر آپ لوگوں کو جنت میں جانا ہے تو کل سے یہاں نہیں آنا کیونکہ یہ راستہ تو جہنم میں جا رہا ہے ، یہ راستہ جنت کا نہیں ہے ۔ جنت میں وہ جائینگے جنہوں نے اللہ کے نخرے اٹھانے ہیں ۔ ہم نے تو حق بات کہنی ہے ۔ یہ غلط ہے تو غلط ہے ۔ ہم غلط کو صحیح نہیں کہہ سکتے ۔ مجھے یہ بتائیے ، پہلے میں اپنے بارے میں بات کرتا ہوں ۔ اگر سیدنا گوھر شاہی نہ ملتے تو پتہ نہیں ہمارا ذہن حضوؐر کیلئے کیا عقیدہ رکھتا ؟ یہ بیچارے مسلمان جو نماز ، روزہ ، زکواۃ اور حج کو صراط مستقیم سمجھتے ہیں اور کیا سمجھیں ۔ یعنی یہ تو وہی کام ہوگیا کہ کام بھی کرنا ہے ، تنخواہ بھی نہیں ملنی اور گالیاں بھی کھانی ہیں ۔ اسی طرح مسلمان لوگ نماز روزہ کرتے ہیں ، انکو پتہ ہے کہ ان اعمال سے کچھ نہیں بنے گا لیکن پھر بھی پڑھتے ہیں۔اللہ کا ڈر غالب ہے ۔ یہ تو صحیح نہیں ہے ،ایسے تو کام نہیں چلے گا ۔
ہمارے لئے تو حرام ہے کہ ہم سیدنا گوھر شاہی کے علاوہ کہیں اور ہاتھ اٹھائیں ۔ اب یہ مسئلہ نہیں رہا کہ گوھر شاہی کون ہیں ؟ اب مسئلہ یہ آگیا ہے کہ ہم کہاں ہیں ؟ یہ چھوڑ دو کہ گوھر شاہی کون ہیں ، یہ صحیح سوال (Valid Question) نہیں ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں ؟ اب ہم وہاں ہیں جہاں ہم کو ہونا چاہئے ۔ اگر میری باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں لیکن ہمارے جذبات کا بھی خیال رکھیں ۔ ہم کو بھی اپنی آخرت سنوارنے کا شوق تھا ، کہاں جائیں ، کیا کریں ؟
اللہ کا مزاج لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اور خوف میں مبتلا کر کے رکھنے کا ہے :
ایک دفعہ سیدنا گوھر شاہی آئرلینڈ میں بلفاسٹ (Belfast) کے نزدیک ایک ٹاؤن ہے اینٹرم (Antrim) وہاں تشریف لے گئے ۔ آپ نے کمرے کی کھڑکی کھول کر دیکھا کہ ہم باہر کھڑے ہیں تو بات کرنے لگ گئے کہ کیا حال ہے استادو ، خیر ہے ؟ پھر فرمایا کہ کہ آج اللہ سے بات چیت ہوئی ہے وہ کہہ رہا تھا (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہ تم ان لوگوں کو ڈانٹتے کیوں نہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میں نے اُسے کہا بھئی کیوں ڈانٹوں ، اِنکے اوپر تیرا کرم ہے ۔ سرکار نے فرمایا کہ اسکو حیرت ہوئی کہ اچھا میرا کرم ہے ۔
اب ذرا فرمان گوھر شا ہی دیکھئے کہ ذکر قلب چل گیا تو گارنٹی ہی گارنٹی ہے کہ اللہ نے قبول کرلیا اور ذکر قلب چلا دیا ۔ دل میں نور آگیا ، مشن میں لگ گئے ، اب اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ انکو ڈانٹ ڈپٹ کے رکھو ۔ جب بندے صحیح چل رہے ہیں تو آپ نے یہ کیوں کہا کہ انکو ڈانٹو ، خوف میں مبتلا کرکے رکھو ، ڈرا دھمکا کے رکھو ، کیوں ؟ یہ صحیح نہیں ہے اس طرح آپ اپنی ویلیوگرا رہے ہیں ، ایسا نہ کریں ۔ ایک آدمی صحیح چل رہا ہے تو پھر اسکو کیوں ڈانٹا جائے اور اللہ میاں یہ سیدنا گوھر شاہی کو کہہ رہے ہیں کہ انکو ڈانٹو ۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو نہیں ڈانٹوں گا ۔
ایک دفعہ سرکار نے فرمایا کہ ہم نے دیکھا ہم کو یوم محشر کا نقشہ دکھایا گیا ، یہ سرکار کے الفاظ ہیں ۔ تو سرکار نے فرمایا کہ ولیوں اور نبیوں سے بھی آگے کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ انکو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا کہ یہ کون ہیں ؟ آواز آتی ہے کہ یہ گوھر شاہی کے ماننے والے ہیں ۔ یہاں آپ اس بات کو سمجھو نا کہ سرکار کیا کہہ رہے ہیں ، اب اگر اللہ میاں گھور گھور کے دیکھ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ انکی اطلاع میں نہیں ہے ، دوسرا یہ کہ انکو یہ توقع نہیں تھی ، تیسرا یہ کہ وہ پریشان ہیں کہ اب تو کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ گوھر شاہی نے کھڑا کیا ہے ۔ گوھر شاہی نے کھڑا کردیا تو اب کیا بولیں ۔ اب دال نہیں گلے گی ۔
شروع شروع میں خیال آتا تھا کہ یار غوث پاک کے مرید کتنے خوش قسمت تھے ، غوث پاک نے اللہ سے وعدہ لیا کہ میرا مرید بغیر ایمان کے نہیں مرے گا ۔ کیونکہ شروع شروع میں بہت ڈرتے تھے کہ کہیں سے بس آخرت کی گارنٹی مل جائے کہ جہنم میں نہیں جائینگے ۔ ، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آخرت میں سرخرو ہوجائیں ۔ یہی خیال آتا کہ یار غوث پاک نے اپنے ممریدوں کیلئے ایسا کہا ہے ۔ وقت گزرتا گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گیارہویں شریف کے ایک موقع پر سرکارگوھر شاہی نے فرمایا کہ اسم ذات کی کنجی غوث پاک کے پاس ہے ، قلب کہیں سے بھی چلے وہ شخص غوث پاک کے مریدوں میں چلا جاتا ہے ۔ تم لوگوں پہ لازم ہے کہ ہر جمعرات کو قصیدہ غوثیہ پڑھا کرو ۔ اچھا اب یہاں خوش ہونا چاہئے تھا کیونکہ اتنے سالوں سے توقع تھی کہ اگر غوث پاک کے مرید ہوتے تو آخرت کی چھٹی ہوجاتی ، یہ خوف نکل جاتا لیکن جس دن یہ بات سنی تو اس وقت تک خیالات ہی بدل چکے تھے ۔ جب یہ بات پتہ چلی تو پھر کہا ارے ہٹو ہم تھوڑی ہیں غوث پاک کے مرید جو قصیدہ غوثیہ پڑھیں ، ہم تو نہیں پڑھیں گے ۔ جب سرکارگوھر شاہی کیساتھ مل گئے تو نہ صرف یہ کہ ایک مستقل روحانی ارتقاء جاری رہا بلکہ سوچ ، سمجھ ، ادراک ، فہم ، دانش ، عقل ، یہ بھی مرحلہ وار ارتقاء پذیر رہے ۔ ایک (Everlsting Spiritual & Cognitive Evolution) جاری رہا اور پھر آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تو لاٹری نکل گئی ۔
سرکار کے بارے میں آپ لوگوں کے جوجذبات ہیں اور دل و جان سے فخر ہے کہ میں سرکار کا کتا ہوں ۔ یہی فخر ایمان ہے ۔ میرا گوھر شاہی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شر بھی بھیجتا ہوں خیر بھی بھیجتا ہوں لیکن سیدنا گوھر شاہی نے ہمیشہ خیر بھیجی ہے ۔ لفظوں میں بھی خیر ہے ، خیر ہے ، خیر ہے ۔
انسان کے پردے میں ہے کردار کبریائی ۔۔۔سمجھی ہے جسے دنیا مہدی و گوھر شاہی ۔
چاہا کہ لامکان سے موجود مکاں جب ہو ۔۔۔صورت گری سے اپنی صورت ہے پھر بنائی
کیونکر اسے پہچانے کوئی اہل نظر آخر ۔۔۔نظارہ اسکا قید نظر سے ہوا ہرجائی
مکر و فریب انسان کچھ کارگر نہیں ہے ۔۔۔تدبیر گوھر شاہی نے کچھ ایسی ہے فرمائی