کیٹیگری: مضامین

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا
سورة طحہ آیت نمبر 124تا 125
ترجمہ : جس شخص نے ہمارے ذکر کو چھوڑ دیا ، تو پھر ہم اسکی روزی تنگ کر دیتے ہیں اوریوم محشر میں ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔وہ کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کیوں کر دیا حالانکہ دنیا میں میرے بصیرت سلامت تھی۔

یہاں اس آیت میں دو چیزیں واضح نظر آتی ہیں کہ ایک تو اللہ تعالی اُس شخص کے رزق کو سکیڑ دیتا ہے اور دوسرا یوم محشر میں اندھا کھڑا کرے گا۔ اب اگر اس آیت کا ظاہری معنی لے لیا جائے تو یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالی اُنکا رزق تنگ کر دیتا ہے ۔ ہمارے علماء بھی یہی بتاتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اس کا مالی حالت کمزور ہو جاتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ظاہری ذکر کی بات تھی تو ایک آدمی روزہ بھی رکھ رہا ہے، تراویح بھی پڑھ رہا ہے اور نماز بھی پڑھ رہا ہے لیکن صرف ذکر چھوڑ دینے کی وجہ سے اسکی روزی روٹی کم ہو گئی باقی عبادتوں کا اثر کیوں نہیں ہوا ۔
اگر یہ ظاہری رزق کی طرف اشارہ ہے کہ جو اللہ کے ذکر سے اعراض و کنارہ کرتا ہے اللہ اس کا ذکر تنگ کر دیتا ہے تو پھر کافروں کو تو بھوکا مر جانا چاہیےکیونکہ وہ تو اللہ پر ایمان ہی نہیں رکھتے لیکن اُنکے پاس تو بے پناہ دولت ہے ۔درحقیقت یہ آیت ظاہری معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ علمِ طریقت سے متعلتہ ہے ۔جو شخص نماز، روزہ اور قرآن پڑھے گاپھر وہ اللہ کے ذکر سے اعراض و کنارہ کیوں کرے گا؟ تو پھر یہ کونسا ذکر ہے جس کو چھوڑ دینے سے انسان کی روزی روٹی کم ہو جاتی ہے اور وہ کونسے رزق کی طرف اشارہ ہے ۔ایک شخص ہمارے پاس آیا اور کہا کہ یہ جو آپ نے ذکر قلب دیا ہے یہ واپس لے لیں ، ہم نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بضد تھے۔ یہ اللہ کے ذکر سے اعراض وہ کنارہ کرنا ہے ۔اس آیت میں صحابہ کرام سے مخاطب ہیں کیونکہ اُنکے دلوں میں اللہ کا ذکر ہوتا تھا اور اللہ کا نور تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
غمض عینک یا علی واسماء فی قلبک لا الہ الا اللہ
سورة طحہ میں جس ذکر کی بات ہو رہی ہے وہ قلبی ذکر کی طرف اشارہ ہے کہ جب تمھیں ایک دفعہ ازن ذکر قلب عطا ہو گیا اور اللہ کی مرضی سے ذاکر قلبی بن گیا تو پھر اللہ کی نظروں میں آ گیا ۔اب جو چیز اللہ تعالی عطا کر دے اُس چیز کو چھوڑ دینا اور اسے جھٹلا دینا کفر ہے ۔اب فرض کریں اللہ نے آپ کو ذکر قلبی سے نوازہ اور آپ ذکر قلبی میں لگ گئے ، اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں کے بل بھی اللہ اللہ شروع ہو گیا ۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ اب اس بندے کا رجحان اور میلان دنیا کی طرف کم ہو جاتا ہے اور اللہ کی طرف بڑھتا جاتا ہے ۔یعنی دل سے دنیا کی خواہشات کا جو انبار ہے وہ چھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور اسکا دل اللہ کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ پھر قریبی رشتے شکوہ کرتے ہیں ، بیوی بھی شکوہ کرتی ہے کہ پہلے جیسی نظر التفات نہیں رہی، پہلے میرے حسن کی بڑی تعریفیں کیا کرتا تھا ، کپڑے پہن کر آتی تھی تو تعریفیں کیا کرتا تھا اور اب کھویا کھویا رہتا ہے ۔ بھائیوں اور والدین کو بھی شکایت ہوتی ہے کہ یہ کھو سا گیا ہے نہ جانے کیا ہو گیا ہے ۔کیونکہ جب دل میں نور جائے گا تو نور دل کا رُخ اللہ کی طرف کر دے گا۔ اب ذکر قلب کی وجہ سے یہ جو تبدیلیاں انسان کے اندر آتی ہیں وہ ذاکر کو محسوس نہیں ہوتی ہیں کیونکہ وہ تو یہی سمجھتا ہے کہ میں تو اللہ کی طرف جا رہا ہوں میرا دھیان اللہ کی طرف لگ گیا ہے لیکن اللہ کے علاوہ جن سے محبت کی پینگیں بڑھا رکھی تھیں ، جن کیلئے جیتے اور مرتے تھے ان کی طرف توجہ کم ہو گئی اور اللہ کی طرف توجہ زیادہ ہو گئی ۔ یہ جو توجہ میں کمی ہوتی ہے یہ ہمار ے رشتوں سے برداشت نہیں ہوتا ہے ۔ہمارے رشتے توجہ میں شراکت مسلمان ہونے کی باوجود برداشت نہیں کر سکتے ۔ لوگوں کا گمان یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی محبت میں ہم سے شراکت کر لے لیکن ہماری محبت میں اللہ کی بھی شراکت نہ ہو اور پھر مسلمانی کا دعویٰ بھی ہے ۔جب ذاکر قلبی کا دھیان اللہ کی طرف ہوتا ہے تو پھر ساری کی ساری توجہات اس راستے کی طرف لگ جاتی ہیں ، وہ دیوانہ سا ہو جاتا ہے ۔ اگر لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ جب سے ذکر میں لگے ہیں نماز کی طرف دھیان نہیں جاتا ہے کیونکہ یہ ذکر قلب براہ راست انجیکشن ہےاور دوسری عبادات کی طرف توجہ اتنی زیادہ نہیں رہتی ہے ۔

“ایک مومن کا ایمان اگر روح ہے تو وہ روح ذکر قلب ہے “

جسم میں اگر روح آ گئی ہے تو باقی لوازمات بھی ہو جائیں گے ۔روزہ ، نمازیں اور زکوة روحانی تزین و آرائش ہیں لیکن اگر اُس وجود میں روح نہ ہو تو پھر تمام تزین و آرائش بیکار ہے ۔

ذکرِ قلب کے اثرات:

سرکار گوھر شاہی کی تشریف آوری سے پہلے یہ ذکر قلب کی دولت ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی تھی ۔ بارہ بارہ سال کے چلوں ، انتہائی سخت محنتوں ، جسمانی مشقتوں کے بعد آخر میں عطا ہوتا تھا ۔ ہزاروں لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے جوانی میں محنت شروع کی اور آخر میں مرنے سے پہلے ذکر قلب اُن کو نصیب ہوا جسکی وجہ سے سوچ یہ بن جاتی ہے کہ یہ جتنی بھی مشقتیں کی ہیں یہ ذکر قلب اُسکا ثمر ہے ۔ لیکن آج سرکار گوھر شاہی کے فضل و کرم سے یہ دولت ہم گنہگاروں کو مل رہی ہے ، نہ نماز کی شرط ہے اور نہ نفس کو پاک کئے جانے کی شرط ہے ۔ہم اس کے مستحق نہیں تھے لیکن سرکار گوھر شاہی کے کرم سے عطا ہو گیا ہے تو پھر ہماری ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ یہ نظر ِ گوھر سے عطا ہوا ہے اور رب میرے دل میں آ گیاہے ۔سرکار گوھر شاہی کی تشریف آوری سے پہلےلوگوں نے ذکر قلب کے حصول کیلئے زہد و پارسائی بہت کی ، نفس کو ہر نعمت سے محروم کیا اور نفی کی ، ساری ساری رات اُٹھ کر عبادتیں کی اور اپنی زندگی کا مقصد حصول ِ ذکر قلب بنا لیا ۔ پھر اتنی سخت ریاضتوں کے بعد عمر کے آخری حصّے میں جب یہ چیز میسر آئی تو اسکو اللہ کا سب سے بڑا کرم سمجھ لیا ۔آج یہ دولت سرکار گوھر شاہی کی نظر عنایت سے ہر انسان کو مل رہی ہے اور دوسری بات یہ کہ نماز پڑھنے کو دل اسکو چاہتا ہے جسکو نماز میں کچھ ملے ۔ جب تمھارے دل میں بیٹھے بیٹھے اللہ اللہ کی صدائیں گونج رہی ہیں تو پھر تمھارا دل تو یہی چاہے گا کہ بیٹھے رہو ۔
ذکر قلب کے مل جانے کے بعد اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے نماز میں مزا نہیں آ رہا ہے تو اُس پر کفر کے فتوے نہ لگاؤ بلکہ وہ طریقہ سکھاؤ جس سے نماز میں مزا پیدا ہوتا ہے پھر جب وہ طریقہ اسے آ جائے گا تو پھر فرض و سنتیں تو ایک جگہ رہ گئیں وہ خواہ مخواہ نفلیں بھی پڑھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اُسے اب یہ غرض نہیں ہے کہ یہ فرض ، نفل، وتر یا واجب ہے اسکو تو مزے سے غرض ہے ۔کسی عورت کے حسن کا اثیر وہ ہو گا جس نے ابھی حسن محمد نہیں دیکھا ہے ، جس نے زلف مصطفی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔اگر دنیا کے تمام حسن سے ہٹا کر کسی ایک جگہ مرکوز کرنا ہے تو پھر آقا محمد ﷺ کا حسن مشتہر کر دیا جائے۔ذکر قلب میں ایک ایسا نشہ ہے کہ شراب میں بھی وہ نشہ نہیں ہے اور وہ اِسی میں لگ جاتا ہے ۔

روزی میں تنگی سے کیا مراد ہے ؟

ذکر قلب چلنے کے بعد قلب کو مضبوط ہونے میں تقریباً تین سال لگ جاتے ہیں ۔ اب وہ انسان تو مزے میں آ گیا لیکن اسکے ساتھ ساتھ شیطان جن، ابلیس ، اسکا نفس اور اسکے ساتھ ساتھ ایسے لوگ جن میں شیطان جن نے ڈیرہ لگا رکھا ہے وہ بھی اسکے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔کبھی شیطان بیوی میں گھس جائے گااور بیوی کہے گی کہ جب سے تو اللہ ھو میں لگا ہے تو نے میری طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور بچوں کا بھی خیال نہیں رہا ہے ، پتہ نہیں تیرا دھیان کہاں لگ گیا ہے ۔والدین بھی پریشان کرتے ہیں ، یار دوست بھی پریشان کریں گے جن کے ساتھ تو عیاشی کرنے اِدھر اُدھر جاتا ہے ، وہ بھی کہتےہیں کہ اسکو کیا ہو گیا ہے ۔شیطان اپنا دائرہ تیرے اوپر تنگ کرتا رہے گا اور مصیبتیں یکے بعد دیگرے تیرے اوپر نازل ہوتی رہیں گی ۔ دنیا والے اور شیطان دونوں مل کر حتی الامکان کوشش کریں گے تو اِس راستے کو چھوڑ دے ۔ اگر بیوی ذکر و فکر میں لگ گئی ہے تو شوہر کو شکایت ہو گی کہ شاید اس نے کہیں اور معاملہ طے کر لیا ہے اور دھیان اس طرف نہیں جائے گا کہ اسکا رخ اللہ کی طرف ہو گیاہے اور اگر شوہر ذکر و فکر میں لگ گیا ہے تو بیوی آگے آ جائے گی کہ یہ آج کل کیا ہو گیا ہے، کہاں جارہے ہو کس سے مل رہے ہو ۔ذکر قلب میں آنے کے بعد ظاہری روزی روٹی میں بھی تنگی ہو جائے گی ۔شیطان اور دنیا والے تجھے ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیں گے کہ تمھیں انتخاب کرنا پڑے کہ ذکر قلب یا فیملی میں سے کسی ایک چیز کا چناؤ کرنا پڑے ۔ جو انسان روحانی طور پر کمزور ہوتے ہیں انکا نفس طاقتور ہوتا ہے اور مرشد کی نسبت کمزور ہوتی ہے اسکو لوگ آکر مشورے دیتے ہیں کہ نماز تو ہم نے تمھیں پڑھتے دیکھا نہیں صرف ذکر کی بات کرتے ہو یہ کونسا اسلام ہے ، ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ تیرا ذہن پلٹ جائے، کبھی سرکار گوھر شاہی کے خلاف باتیں کریں گے کبھی ہمارے خلاف باتیں کریں گے اور کوشش یہ ہو گی کہ تمھیں اس ذکر قلب کے راستے سے متنفر کردیں کہ اس میں کچھ نہیں رکھاہے ۔ پانچ وقت کی نماز پڑھ ، دورود شریف پڑھ ، رزق حلال کما ، والدین کی خدمت کر لے بس یہی کافی ہے جنت میں جانے کیلئے۔پھر اگر تو ان مصائب و آلام اور لوگوں کی باتوں میں آکر اس راستے کو چھوڑ دے ، بدگمانیوں اور وسوسے میں تیرا قلب گھر جائےتو پھر اللہ باطنی رزق تنگ کر دیتا ہے اور روز محشر اندھا اُٹھایا جائے گا۔ یہ اسم ِ ذات اللہ ، اللہ کے اذن سے قلب میں داخل ہوتا ہے لیکن جب اس راستے سے بد گمان ہو کر اللہ کو چھوڑ دے گا جو کہ اللہ نے عطا کیا تھا تو پھر اللہ فرماتاہے کہ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا تیری روزی تنگ کر دیں گے ۔ روزی تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ذکر قلب کی وجہ سے جو اطمینان قلب ، سکون اور نور آتا تھا وہ ختم ہو جائے گا۔پھر بیوی وہی ہو گی ، ماں بھی وہی ہو گی ، اولاد بھی وہی ہوگی ، دولت کے انبار بھی لگ جائیں گے لیکن سکونِ قلب سے محروم ہو جائے گا۔لاکھوں ڈالر ہونے کے باوجود دل کا سکون میسر نہیں ہو گایہی روزی کا تنگ ہونا ہے اور یوم محشر میں اللہ تعالی باطنی بصیرت چھین لے گا۔ تو کہے گا دنیا میں جب میرا ذکر چلا تھا تو مجھے نظارے نظر آتے تھے ، میری بصیرت اچھی تھی ، کبھی میں غوث پاک کا دیدار کرتا تھا اب مجھے اندھا کیوں اُٹھایا ہے ! اللہ تعالی کی طرف سےجواب آئے گا کہ کیونکہ تُو نے میرے راستے کو چھوڑ دیا تھا ۔اللہ نے کرم کیا اور اسم ذات تمھارے قلب میں جاگزیں ہوا اور یہ ہدایت ہے اور جب اس ہدایت سے منہ موڑ کر نماز میں کھڑا ہوا اور ہدایت کی طلب کی تو اللہ تعالی تجھ سے مزید ناراض ہو گا کہ میں نے تجھے ہدایت کا راستہ دکھایا تھا اور تیرے قلب میں اپنا نام اُتارہ تھا تو اسکو چھوڑ کر یہاں نماز میں مذاق کرنے آیا ہے کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا ۔ پھر وہ نمازیں بھی تمھارے منہ پر ماری جائیں گی ۔ کوئی اثر اُن نمازوں کا نہیں ہو گا اور ذکر قلب کو چھوڑنے کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ جو ذکر قلب اور اس روحانی راستے کو چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے مردود ہو جاتا ہے ۔
جو لوگ اس راستے میں چل رہے ہیں اُن پر یہ مصیبتیں آتی رہتی ہیں ، کبھی بیوی ناراض ، کبھی شوہر ناراض ،کبھی ماں ناراض، کبھی باپ ناراض توکبھی بچے ناراض ،اور تو اُنکو خوش کرنے کیلئے اِس راستے کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جب تو اس راستے کو چھوڑ دیتا ہے تو تُو اللہ کی بارگاہ میں مردود ہو جاتا ہے اسکے بعد کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ویسے تو لوگ بڑی خواہشات کرتے ہیں کہ اللہ اور محمد کا دیدار کر ا دیں ، اللہ سے دوستی کرا دیں اور جس سے دوستی کرنا چاہتا ہے اسکی خاطر کس کس کو چھوڑ سکتا ہے ۔سورة مزمل میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
سورة المزمل آیت نمبر 8
ترجمہ : اور اپنے رب کے اسم کے ذکرمیں ڈوب جا اور سب سے رشتے ناطے توڑ دے۔

رشتے ناطے دل سے توڑے جاتے ہیں اگر شوہر ہے تو شوہر کے حقوق نبھا ، دل میں نہ لا ۔بیوی ہے تو بیوی کے حقوق نبھا اجازت ہے ، لیکن شوہرکو دل میں نہیں لانا ۔اگر والدین ہیں تو اولاد ہونے کا حق نبھا ، اُنکی خدمت کر ، اگر وہ غصے میں اگر غلط بھی کہہ دیں تو اُنکو اُف بھی نہ کر لیکن اس دل کے خانے میں کسی کو داخل کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اسکو اللہ نے اپنے لئے بنایا ہے ، اسمیں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کر سکتا ۔ دل میں صرف اور صرف اللہ اور وہ جو اللہ سے جڑے ہیں کیونکہ وہ اللہ کا حصہ ہیں ۔تمھارے دل میں اللہ ، محمد اور تیر امرشد ہو گااور کوئی نہیں ہو گا۔ اور وہ جو اس راستے میں ہی اس دنیا کی پریشانیوں سے گھبرا جائیں ، رشتے داروں کی دھمکیوں میں آ کر اس راستے سے دور ہو جائیں تو اللہ کی نظر میں وہ مردود ہو جاتے ہیں ۔کچھ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا شوہر اس راستے سے منع کر تاہے آپ بتائیں ہم کیا کریں؟ لیکن یہ ذکر قلب تو آپ کو اللہ کی طرف سے عطا ہو ا ہے اور آپ کا تعلق اللہ سے جڑا ہے اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اللہ سے تعلق رکھنا ہے یا پھر اپنے شوہر کوترجیح دینا ہے ، ہم سے اس بارے میں سوال نہ کریں۔
جو ذکر کے حلقے ہوتے تھے اُن میں سرکار گوھر شاہی نے یہ پابندی لگائی تھی کہ جو امیر حلقہ ہو گا اُن کیلئے ضروری ہے کہ داڑھی رکھیں اور شریعت پر کاربند ہوں ۔ایسا ہی ایک امیر حلقہ تھا اُس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی ، کچھ عرصے بعد وہ سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کہتی ہے داڑھی کٹوا دو تو میں کیا کروں؟ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اللہ توایک ہی ہے جس سے تو نکاح کرے گا وہ تیری بیوی ہو جائے گی ۔ اب یہ تمھاری مرضی ہے اللہ کو رکھ یا بیوی کو رکھ۔یہ بات تو آپ کو خود سوچنا چاہیے کہ میرے رب سے تعلق کے بیچ میں کوئی مداخلت پیدا کر رہا ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے ۔یوم محشر میں کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ میں نے بیوی کے کہنے پر اللہ تجھے چھوڑ ا تھا ۔یہ سارے رشتے اسی دنیا کے ہیں جیسے ہی سانس کی ڈوری ٹوٹی نکاح بھی ٹوٹ گیا ۔مرنے کے بعد شوہر کا بیوی سے تعلق نہیں ہوتا ۔ یہ اللہ کی محبت کا سفر ہے اور اس میں بڑی قربانیاں ہوتی ہیں اب مزید اس کے بعد عطائیں چاہیں تواسکے لئے اس قابل تو بنیں اور اتنی جرات تو آئے کہ کچھ بھی ہو جائے میں اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا۔اگر اتنی ہمت نہیں ہے کہ اپنے رب کیلئے پوری دنیا کو چھوڑ دیں تو پھر آگے کی باتیں نہ پوچھیں ۔اللہ نے فرمایا کہ یہ راستہ ہمت والوں کا ہے ۔اس راستے میں ہر قدم پر ٹھوکر لگے گی ، صبح سے شام تک درد ملے گا، بددعائیں ملیں گے، لعن و طعن ہو گالیکن تیرے پاؤں میں زرا بھی لرزش نہ ہو اور اللہ کی طرف سے ثابت قدمی عطا ہو جائے کہ اب مجھے میرا رب مل گیا ہے اب میں اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا۔یہ محبت کی معراج ہے کہ جس سے محبت کرتے ہو اسکا نام دل میں گونج رہا ہے ، جہاں بھی نظر اُٹھاتے ہیں اس کا نام نظر آ رہاہے یہ اس کی محبت کا ثمر ہے ۔یہ راستہ دشوار ضرور ہے لیکن منزل اللہ کی ذات ہے جس کی قیمت ساری دنیا کی مصیبتوں ، نفرتوں کو گلے سے لگانا ہے ۔ جو لوگ اللہ والے بنے وہ سب سے تعلق توڑ کر جنگل میں چلے گئے اور اسکے بعد کسی عزیز و اقارب کی یاد آ گئی تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اُسے سو حج اکبر کا ثوا ب دوں گا کیونکہ اِس نے میرے لئے ان کو چھوڑ دیا تھا۔جب جب اُنکی یاد آئے گی رب تیرے مرتبے بڑھاتا رہے گا۔یہی حُب فی اللہ ہے کہ جو اللہ والا ہے وہ تیرا نیا رشتہ دارہے اور جو اللہ والا نہیں ہےاُس سے تیرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 8 مئی 2020 کو یو ٹیوب لائیو پر قرآن مکنون کی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیاہے ۔

متعلقہ پوسٹس