- 781وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
تفہیمِ قرآن کیا ہے؟
قرآن مجید کی سمجھ، فہم اور ادراک کیلئے سب سے پہلے قلب کو پاک کیا جاتا ہے۔ قلب کے پاک ہوئے بغیر قرآن کی سمجھ انسان کو حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لئے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے فرمایا کہ قرآن مجید عام لوگوں کے پڑھنے کیلئے نہیں ہے۔ مبتدی کیلئے ضروری ہے کہ وہ ذکر اللہ میں مشغول ہو جائے۔ ذکر الہی کے ذریعے پہلے وہ اپنے نفس کو پاک کرے اور اپنے قلب میں ذکر اللہ کو بسائے۔ جب نفس اور قلب پاک صاف ہو جائے تو پھر قرآن مجید کی تلاوت کرے اور پھرقرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ پھر اللہ کی طرف سے اُس کی فقہ عطا ہو گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 26
ترجمہ: بہت سے لوگوں کوقرآن گمراہ کردیتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو قرآن اُن کو ہدایت کرتا ہےاورگمراہ وہ لوگ ہوتے ہیں جوفاسق ہوں۔
اب اللہ تعالی نے جو لکھا ہے کہ قرآن کن کو گمراہ کرتا ہے اور کن کو ہدایت دیتا ہے، یہ جاننا بڑا ضروری ہے۔ دین کی جو اصطلاحات ہیں اُن اصطلاحات کو عام فہم زبان میں سمجھنا اور سمجھانا بڑا ضروری ہے کیونکہ ہم اُن اصطلاحات کو کُلی طور پر سمجھتے نہیں ہیں لہذا قرآن ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ قرآن کو پڑھ کر گمراہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو فاسق ہوں۔ فاسق کون ہوتا ہے یہ آپ کو پتہ نہیں ہے۔ علماء حضرات کے نزدیک فاسق وہ ہے جس بندے کے پاس عمل نہ ہو یعنی بے عمل شخص فاسق ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا لیکن ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ بے عمل ہوتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ با عمل ہو جاتے ہیں لیکن اللہ نے تو قرآن میں فرمایا ہے کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اگر فاسق سے مراد بے عمل تھا تو پھر اُس کو ساری زندگی بے عمل رہنا چاہئیے،واعظ و تقریریں سن کر وہ کیوں باعمل ہو جاتا ہے! اِس سے معلوم یہ ہوا کہ فاسق کا مطلب بے عمل نہیں ہے۔ اگر اللہ ہدایت نہ دے تو قرآن فاسق کو گمراہ کر دے گا اور اللہ اُس کو ہدایت نہیں دے گا تو اُس کی تو چھٹی ہو گئی کیونکہ قرآن پڑھے گا تو گمراہ ہو جائے گا اور نہیں پڑھے گا تو اللہ اُس کو ہدایت نہیں دے گا۔ اب وہ کہاں جائے؟ اتنی بڑی سزا بے عمل کوتو نہیں ملتی تو پھر فاسق کون ہے!
فاسق کی پہچان کیا ہے؟
فاسق اُسے کہتے ہیں جس کے پاس زبانی علم ہو لیکن باطنی علم یعنی سینے کو منور کرنے والا علم نہ ہو کیونکہ اللہ نے ہدایت دل کو دینی ہے اور تم نے دل کو صاف کرنے والا علم نہیں سیکھا تو اللہ تمہیں ہدایت کیسے دے گا! ظاہری علم ہے باطنی علم نہیں ہے تو تجھے ہدایت مل ہی نہیں سکتی کیونکہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ
وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ: جس کو بھی اللہ ایمان عطا کرتا ہے مومن بناتا ہے تو اُس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔
اب قلب والی تعلیم تمہارے پاس نہیں ہے، نہ قلب والی تعلیم تمہارے پاس ہوگی اور نہ ہدایت تیرے قلب کو ملے گی۔ اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا ہےکہ
لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
سورة المائدة آیت نمبر108
ترجمہ: اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اللہ ہدایت اس لئے نہیں دیتا کہ جو علم تمہارے دل کو ہدایت کے قابل بناتا ہے وہ علم تمہارے پاس ہے ہی نہیں تو ہدایت کیسے ملے گی! قرآن مجید کو پڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ظاہری علم بھی ہو اور آپ کے پاس دل والا علم بھی ہو۔ پھر تو آپ قرآن پڑھیں لیکن اگر اندر والا علم نہیں ہے تو پھر قرآن کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں آپ کی بچت ہے ورنہ قرآن میں تو صاف صاف لکھا ہے کہ قرآن تجھے الجھا دے گا اور گمراہ کر دے گا۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا کہ بہت سوں کو یہ گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو یہ ہدایت دے دیتا ہے۔ اب آپ پریشان ہوں گے کہ قرآن مجید گمراہ بھی کرتا ہے، ہاں یہ لکھا ہوا ہے اور پھر آگے اس کی تشریح بھی ہے کہ گھبراوٴ مت کیونکہ قرآن صرف اُن لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جن کے پاس اندر والا علم نہیں ہے، جو فاسق ہیں۔ فاسق وہ ہیں جن کے پاس دل والا علم نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان پہلے ذاکر قلبی بن جائے اور اگر ذاکر قلبی نہیں ہے تو پھر قرآن سے دور رہے کیونکہ قرآن نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ گمراہ ہو جاوٴ گے اگر تم فاسق ہوئے۔ اتنا بڑا خدشہہ لینے سے بہتر ہے کہ پہلے تم یہ پتہ کرلو کہ تم فاسق تو نہیں ہو۔ اگر علماء کرام اِس بات پر بضد ہیں کہ فاسق بےعمل کو کہتے ہیں تو اب یہاں حدیث شریف بھی ہے کہ
سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لاَ يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ . قَالُوا وَلاَ، أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلاَ أَنَا إِلاَّ أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ
کتاب الرقاق، صحیح بخاری 6467، کتاب 81، حدیث 56
یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہماری بخشش اعمال کی بنیاد پر ہو گی تو آپؐ نے فرمایا کہ نہیں اللہ کے فضل سے ہو گی۔
جب اعمال کی بنیاد پر بخشش نہیں ہونی ہے تو پھر فاسق کو اگر بےعمل سمجھا جائے اور اللہ تعالی فرمائے کہ بےعمل کو ہدایت نہیں دوں گا تو یہ بات یومِ محشر میں قابل گرفت کیوں نہیں ہو گی کہ اس کےاعمال نہیں ہیں لہذا یہ فاسق ہے! اسی طرح میاں محمد بخش نے فرمایا کہ
جے میں ویکھاں عملاں ول تے کجھ نئیں میرے پلے
جے میں ویکھاں تیری رحمت ول تے بلے بلے بلے
فاسق وہ نہیں ہوتا کہ جو بےعمل ہوبلکہ فاسق وہ ہے جس کی زبان تو کلمہ پڑھے اور جس کے دل میں دنیا گھسی ہوئی ہو ۔ بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ
تیرا دل کھلاوے منڈے کڑیاں
توں سجدے کریں مسیتی
تیرے دل کے اندر تو دنیا بھری ہوئی ہے اور تم زبان سے کلمہ پڑھ رہےہواور زبان سے ذکر کررہے ہو۔ علامہ اقبال نے بھی فرمایا ہےکہ
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
قرآن مجید سے ہدایت کیسے ملتی ہے؟
قرآن مجید کی تشریح کرنے سے پہلے یہ بہت ضروری ہے کہ قرآن مجید کن لوگوں کیلئے فائدے مند ہے یہ جانا جائے۔ آپ دیکھیں گےکہ جنہوں نے اپنے دل اورنفس کو پاک نہیں کیا اور وہ قرآن مجید پڑھنے پڑھانے لگ گئے تو کوئی شیعہ بن گیا، کوئی وہابی بن گیا، کوئی سنی، کوئی اہل حدیث تو کوئی دیو بندی بن گیا۔ قرآن کو پڑھ کر یہ لوگ امتی کیوں نہیں بنے! جتنا زیادہ یہ قرآن کو پڑھتے ہیں اُتنا زیادہ یہ گمراہ پوتے ہیں۔ جو دہشت گرد ہیں یہ بھی اِسی قرآن کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو قرآن کو پڑھنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اِس کیلئے کچھ شرائط ہیں۔ جب تک تم اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کروگےتوقرآن مجید تمہیں ہدایت نہیں دے گا۔ قرآن مجید میں لکھا ہےکہ
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
سورة البقرة آیت نمبر2
یہ جو کتاب ہے حضورؐ کے سینے میں یہ تمام شکوک و شبہات سے پاک ہے لیکن یہ صرف متقیوں کو ہدایت کرے گی ۔ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ متقی اُس کو کہتے ہیں کہ جس نے اپنا ظاہر و باطن پاک صاف کر لیا۔ اسی لئے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نےکہا کہ مبتدی کو چاہئیے کہ وہ ذکر اللہ کرے کیونکہ ابھی وہ قرآن مجید پڑھنے کے قابل نہیں ہے۔ ایک جگہ یہ بھی آیا کہ کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن اُن کے اوپر لعنت کرتا ہے۔ قرآن اُن پرلعنت کرتا ہے جن کے اندرنفس کاکُتا بیٹھا ہوا ہے۔ یہی قرآن ہےکہ مسلم ممالک میں خاص طورپرجوعرب ممالک ہیں اِن مماملک میں مسلمان کالا علم جادو سیکھنے کیلئےاِس قرآن مجید کی بے حُرمتی کرتے ہیں۔ قرآن پر پاوٴں رکھ کر چلتے ہیں، غلاظت پھینکتے ہیں اور یہاں تک کہ اللہ معاف کرے، سرکارمعاف فرمائیں، اِس پر پیشاب تک کر دیتے ہیں اور پھر قرآن مجید کو الٹا پڑھتے ہیں۔ جب یہ قرآن مجید کواُلٹا پڑھتےہیں تواِس سے اِن کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ اب بتائیےکہ کیا قرآن مجید صرف خیر کی تعلیم دیتا ہے!
قرآن مجید کے ساتھ کچھ اللہ تعالی کے موئکلات اور افواج بھی لگی ہوئی ہیں اور اُن کا کام یہ ہے کہ جو تم زبان سےقرآن پڑھ رہے ہو اُس کے نور کو وہ تیرے سینے کے اندر اتاریں جسطرح جبرائیلؑ نے قرآن کے نور کو حضور نبی پاک کے قلب پر اتارا تھا ۔ اگر تیرا سینہ پاک صاف نہیں ہے تو پھر شیطان اُس کےغلط معنیٰ دل کے برابرمیں بیٹھےہوئے خناس پر اتار دے گا۔ پھرتم قرآن کی غلط تشریحات بیان کرو گےتو اُمتِ محمد کا شیرازہ بکھیرجائےگا۔ کوئی وہابی ہوگا، کوہی سلفی، کوئی دیوبندی، کوئی بریلوی اور کوئی شیعہ ہو گا۔
قرآن سے ہدایت نہیں مل پائے گی تو قرآن کو پڑھنے سے پہلے سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے مومن بن جائیں اور اپنے قلب میں نور کو لے آئیں۔ جب آپ مومن ہو گئے، آپ کے دل کی دھڑکنوں میں اللہ ھو اللہ ھو اُتر گیا، سوتے ،اٹھتے، بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹوں کے بل بھی جب آپ کے دل میں اللہ ھو ہونا شروع ہو گیا تو آپ کا دل اللہ نے اپنی محبت اور ایمان کیلئے قبول کر لیا۔ جب تمہیں یہ یقین ہو گیا کہ میں مومن بن گیا ہوں تو اب قرآن کھول کر بیٹھ جاوٴ کیونکہ اللہ نے صرف ایک گروہ کا فرمایا ہے کہ صرف فاسقوں کو ہدایت نہیں ملے گی لیکن باقی سب کو ملے گی۔ اب تم موٴمن ہوگئے اورتمہارے پاس ثبوت آگیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
سورة المجادلة آیت نمبر22
جب دل پر اسم ذات اللہ نقش ہو گیا تواب تجھے اللہ کی طرف سے گارنٹی ہوگئی۔ جب دل اللہ اللہ کرے، دل کی دھڑکنیں اسم اللہ سے گونجیں اوردل کےاوپراسمِ ذات اللہ نقش ہوتواب خوشی مناوٴ۔ اب جب تم قرآن پڑھوگے تو قرآن کا نور تیرے سینے کے اندر اترے گا۔ اِس سے پہلے نور بنتا ہی نہیں اورضائع ہوتا رہتا ہے، بے حرمتی ہوتی رہتی ہے اور قرآن تمہارے اوپر لعنت بھیجتا رہتا ہے۔
کیا قرآن مجید کو پڑھ کر ہرانسان منور ہوسکتا ہے؟
ہمیں بہت سے لوگوں نے کہا کہ قرآن مجید کی تفسیر لکھیں اور تشریح بیان کریں لیکن ہم نے نہیں کی کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنی چاہے تشریح بیان کر دیں لیکن اگر تمہارے قلب میں نور نہیں ہے تو تم گمراہ ہو کر ہی رہوگے۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے صوفی اسکالرز ہیں، داتا علی ہجویری کی کتابیں پڑھنے والے،غوث اعظم کے خان وادے سے تعلق رکھنے والے، شیخِ طریقت اور پیرِ طریقت کہلانے والے، یہ بھی تو قرآن کے اچھے ترجمے جانتے ہیں، صوفیاء کرام کی باتیں بھی جانتے ہیں لیکن اُس کے باوجود بھی اِن کی سمجھ میں قرآن کدھرآیا کیونکہ یہ بھی کسی نہ کسی فرقے کا شکار ہو گئے۔ قرآن ان کی سمجھ میں اس لئے نہیں آیا کیونکہ چاہے جتنی اچھی تفسیر لکھ لو، غوث پاک کی تعلیم پڑھ لو، داتا علی ہجویری، خواجہ غریب نواز کی تعلیم پڑھ لواور یہاں تک کہ سرکار گوھر شاہی کی کتاب پڑھ لیں لیکن اگر دل میں نور نہیں ہے تو کسی کتاب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب دل میں نور نہیں ہے تو نور اندر نہیں اترے گا اورنور اندرنہیں اُترے گا تو ہدایت کیسے ملے گی! قرآن مجید کو پڑھنے کیلئے سب سے بڑی شرط قلب کے زندہ اور منور ہونے کی ہے۔ جب قلب منور ہو جاتا ہے تو اُس کے بعد آپ کا راستہ کھل گیا۔ آپ نے یہ بات یاد رکھنی ہے کہ
علم دو طرح کا ہے ایک ظاہری اور ایک باطنی۔ جو ظاہری علم ہے وہ ساری باتیں ہی ہیں، مقام شنید ہے، سنی سنائی باتیں ہی ہیں اور یہ جو طریقت ہے یہ مقامِ دید ہے۔ اگر تم نے ظاہری طور پر بھی اللہ کو تسلیم نہیں کیا توتم کافر ہو۔ اگر زبان سے اقرار کیا لیکن دل میں اُس کا نور نہیں اُترا توتم فاسق ہو اور یہی فسق ہے۔ اگر یہ فسق ہےتوتم قرآن کو پڑھتےرہو لیکن قرآن تجھے گمراہ کر دے گا۔ پھرتم جتنا قرآن پڑھوگے اُتنے ہی زیادہ فرقے بناوٴ گے۔
قرآن پڑھنے سے پہلے آپ نے اِس بات کی یقین دہانی کرنی ہے کہ کہیں آپ فاسق تو نہیں ہیں اور فاسق اُس کو کہتے ہیں کہ جس کی زبان تو اقرار کرتی ہو لیکن جس کے دل میں نورِایمان نہ ہو لیکن جس کا دل اللہ اللہ کرنے لگ گیا، نوراندراُتر گیا تو پھر وہ مومن ہے۔ اب تم نمازیں اور قرآن پڑھو گے تو سارا نور اندر جائے گا۔
قرآن مجید کوپڑھنے سے پہلے کیا ضروری ہے؟
قرآن پڑھنے سے پہلے آپ مومن بن جائیں کیونکہ مومن بننے کا تعلق قرآن پڑھنے سے نہیں ہے۔ مومن بننے کا تعلق شرح صدر سے ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ
أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورة الزمرآیت نمبر22
ترجمہ: وہ شخص جس نے اپنا سینہ اسمِ اللہ سے کھول لیا تو پھراُس کو اپنے رب کا نور میسرآئےگا۔
جس نے شرح صدر کر لی ہے اس کے دل میں اللہ کا نور اتر گیا ہے۔ جن لوگوں نے شرح صدر نہیں کی اور بغیر دل کی طہارت کے یا منور ہوئے بغیر جنہوں نے قرآن مجید کوپڑھا ہے تو وہ گمراہ ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے بہتر تہتر فرقے بنا دیے ہیں۔
سورة الفاتحة کی باطنی تشریح:
جس صورت میں قرآن نازل ہوا ہے ہم اُس ترتیب سے قرآن کی تشریح نہیں کر رہےہیں۔ جو کتابی صورت میں قرآن ہمارے پاس موجود ہے اسی ترتیب کے ساتھ ہم قرآن مجید کا مطالعہ شروع کریں گے۔
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
سورة الفاتحة آیت نمبر7-1
قرآن مجید کی پہلی سورة جس کو ہم موضوعِ مطالعہ لا رہے ہیں وہ سورة فاتحہ ہے۔ سورة فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور یہ قرآن مجید کی سب سے اہم ترین سورة ہے۔ سورة فاتحہ مکی سورة ہے۔ یہ سورة الْحَمْدُ لِلَّـهِ سے شروع ہوتی ہے۔
ایک حمد ہوتی ہے اور حمد کا مطلب ہے کہ اللہ کی تعریف اور جب اُس میں “ال” لگا دیا جائے تو پھراُس کو خصوصیت حاصل ہو جاتی ہے۔ حمد للہ کا مطلب اللہ کی تعریف اور الحمد اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جہاں جہاں نسبت ہےاور جس جس دل میں اللہ کا نور گیا ہے اُن سب کی تعریف بھی کرو گے تو اللہ کی تعریف ہوگی۔
“حمد للہ” یہ ہےکہ اللہ اللہ کہنا اللہ کی تعریف ہے اور “الحمد للہ” یہ ہے یا رسول اللہ، مولی علی، یاعلی، یاغوثِ اعظم، یا خواجہ غریب نواز، یا لال شہباز قلندر، یا گوھر شاہی، یہ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ہے۔ حمد للہ صرف اللہ کی تعریف ہے اور الحمد للہ ہے تو یہ اب خصوصیت ہو گئی کہ جس جس ذات سے اللہ کا تعلق ہے اُس کی تعریف بھی اللہ کی ہی تعریف ہے یعنی جس کے بھی اندر اللہ کا نورآگیا تواب اُس کی تعریف کروگے تووہ بھی اللہ کی تعریف کہلائے گی۔ مولوی اِس کا ترجمہ اسطرح کرتے ہیں الحمد للہ کہ ساری تعریفیں اللہ کیلئے ہیں لیکن ساری نہیں بلکہ سارے اللہ والوں کی تعریفیں اللہ کی ہیں۔ جس کو اللہ کی نسبت مل گئی ہے مطلب یہ کہ جو مومن بن گیا، ذاکر قلبی بن گیا اور اُس کے اندر اللہ کا نور آگیا تو اللہ کی صفات اب اس کے کردار میں نظر آنے لگیں گی۔ اُن صفات کو دیکھ کر اب لوگ تعریف کریں گے کہ فلاں بڑا اچھا آدمی ہے لیکن وہ صفت کس کی ہے! وہ صفت اللہ کی ہے۔ اس لئے کہا الحمد للہ کہ ساروں کی تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں یا علی تو یہ الحمد للہ میں آ رہا ہے، یا بی بی فاطمہ الزہرہ المدد تو یہ الحمد للہ کی تفسیر ہے، یا خواجہ اویس قرنیؓ ہماری مدد کرو تو یہ الحمد للہ کی تفسیر ہے، یا غوث اعظم دستگیر ہماری مدد اوررہبری کرو، اممد نی شئیََ للہ یا غوث اعظم دستگیر تو یہ الحمد للہ میں آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ جہاں اللہ کا نقش ثبت ہو گیا اور جس جس دل میں اللہ کا نام اُتر گیا، اُس کی تعریف کرنا اللہ کی تعریف ہے۔ حمدُللہ اللہ کی تعریف ہے اور الحمد للہ اُن ساروں کی تعریف جن میں اللہ آ گیا اوراللہ کے ذکر کی وجہ سے دل میں نور بن رہا ہے اور نور بنتا جا رہا ہے اوراُس کے کردار میں اللہ کی صفات جلوہ نما ہو رہی ہیں۔ سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی نے ایک مقام پر یہ فرمایا کہ
کسی کنجوس کو اللہ کے ذکر میں لگا دو تو جب نور اس کے قلب میں اترے گا اور اللہ بڑا سخی ہے تو اللہ کی صفات کا اس سے اظہار ہو گا اور وہ بھی سخی ہو جائے گا۔
اب یہاں سخاوت کے عنصر کا پیدا ہوجانا اُس کی ذات کا خاصہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کی صفات کا اظہار ہوا ہے۔ جب اللہ کا نور اُس کے قلب میں داخل ہوا ہے تو اب اِس بندے کی جو تعریف ہو گی تو در پردہ وہ اللہ کی تعریف ہوگی کیونکہ یہ فیاضی اور سخاوت اُس کی شخصیت کا حصہ ہے ہی نہیں، جب تک اللہ کا نور داخل نہیں ہوا تھا وہ کنجوس تھا۔ جب نور داخل ہوا ہے تو شخصیت نہیں بدلی ہے، اُس کے کردار میں اب اللہ کی صفات جلوہ گر ہو رہی ہیں۔ تعریف بھی اُسی کی ہو گی جس کی صفات کا اظہار ہو گا، اسی لئے کہا الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۔ اس کے بعد کا جملہ اس کو مزید اجاگر کرتا ہے رَبِّ الْعَالَمِينَ کہ اُس نے اپنا نور سارے عالم میں لوگوں میں بانٹ دیا ہے، وہی پرورش کرتا ہے جسموں اور روحوں کی۔ جب وہ روحوں کی پرورش کرتا ہے تو اُن روحوں میں اُس کا کردار جھلکتا ہے رَبِّ الْعَالَمِينَ کہ تمام عالمین میں پالنے والا وہ اکیلا ہے۔
رب کس کو کہتے ہیں؟
رب دو طرح کے ہیں، ایک ظاہری پرورش کرنے والے اور دوسرے باطنی پرورش کرنے والے یعنی ایک جسموں کے پالن ہار اور ایک روحوں کے پالن ہار۔ اللہ کے پاس یہ دونوں صفات ہیں کیونکہ جسموں کا رزق بھی وہی دیتا ہے اور روحوں کا رزق بھی وہی دیتا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کی تشریح:
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہ اے اللہ تو عرش پر تھا، وہاں جو تیرا وجود ہے اس کی بھی تعریف کرتا ہوں اور جو فرش پر جن کے دلوں میں تو سما گیا ہے اور جن کی شخصیت میں تیری صفات کا اظہار ہو رہا ہے اُن کی تعریف بھی تیری ہی تعریف ہے کیونکہ تو نے ہی اُن کی روحوں کو پالا ہے۔ تبھی تو اُن کی روحوں اور کردار میں تیری صفات کا اظہار ہو رہا ہے لہذا تعریف مولی علی کی ہو، تعریف محمد رسول اللہ کی ہو، تعریف مولی حسن حسین کی ہو، تعریف امام جعفر صادق کی ہو، تعریف امام ابو حنیفہ کی ہو بلکہ تعریف داتا گنج بخش کی ہو، تعریف داتا علی ہجویری اور اُن کے فیض یافتہ اولیاء خواجہ غریب النواز، نظام الدین اولیاء، بابا فرید گنج شکر، شیخ عبد القادر جیلانی کی یا تعریف سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی کی ہو، یہ جتنی بھی ہستیاں ہیں اِن کی تعریف اللہ کی تعریف ہے کیونکہ اِن کے کردار میں اللہ کی صفات نمودار ہوتی ہیں، ان کی شخصیت میں اللہ کا ہی رنگ جھلکتا ہے، ان کے کردار میں قوتِ یزداں نظر آتی ہے، ان کے کردار میں اللہ کا کردار نظر آتا ہے لہذا جو بھی اللہ سے منسلک ہے وہ اللہ والا ہے اوراُس کی تعریف کرنا اللہ کی تعریف کرنا ہے تبھی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ
تَنَزّل الرّحمَة عِندَ ذِکرِ الصّالِحین
حلیة الاولیاء، حدیث 10750، ج 7، ص 335
ترجمہ: جب تم صالحین کا ذکر کرو گے تو میں رحمت بھیجوں گا۔
اللہ تعالی رحمت اس لئے بھیجے گا کیونکہ در پردہ وہ بھی اللہ ہی کی تعریف ہے ۔ آپ یاد کیجئے کہ درود شریف کے بارے میں احادیث میں کیا آیا ہے کہ تم میرے حبیب پر ایک مرتبہ درود پڑھو گے تو میں دس رحمتیں بھیجوں گا۔ صالحین کیلئے بھی تو یہ ہی کہا کہ جب تم صالحین کا ذکر کرو گے تو میں رحمتیں نازل کروں گا۔ اب اگر خواجہ، داتا، غوث اور یا علی کہا جائے تو قرآن کے مطابق یہ ہم اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا کہ
خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
اس لئے کہ مصطفی کا ذکر خدا کا ہی تو ذکر ہے کیونکہ مصطفی کے اندرجو صفات کا اظہار ہو رہا ہے وہ صفات کس کی ہیں! جسطرح مرشد اپنے مرید سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح اللہ اپنے بندے کی صفات سے پہچانا جاتا ہے کہ یہ کس کا بندہ ہے۔ یہ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کی تشریح ہے۔
قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے حضورؐ کو کیاآوازآتی تھی؟
ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ پہلی آیت جو حضور پاکؐ پر نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
سورة العلق آیت نمبر1
جب قرآن نازل نہیں ہوا تھا تو حضور پاکؐ کو صرف ایک آواز آتی تھی اقْرَأْ اور کچھ نہیں اور یہ بات حضور پاکؐ نے خدیجة الکبری کو بتائی کہ اقْرَأْ کی آواز آتی ہے تو خدیجة الکبری نے کہا کہ میرا ایک جاننے والا ہے جو عالم اور راہب ہے ورقہ بن نوفل، اُس کے پاس چلتے ہیں شاید کچھ پتہ چلے تو اُس نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں اور اطمینان کے ساتھ اس آواز کو سنا کریں۔ جب وہاں سے لوٹ کر آئے تو پھر آواز آئی اقْرَأْ تو پھر اچانک جبرائیل امین سامنے نمودار ہو گئے اور کہا بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ جبرائیلؑ غارِحرا میں آئے اور کہا اقْرَأْ اور حضورؐ نے باقاعدہ جواب دیا ہے کہ انا لیس بقاری لیکن در حقیقت واقعہ تو یہ ہوا ہے کہ آواز آرہی ہے اقْرَأْ لیکن بول کون رہا ہے یہ نظر نہیں آرہا۔ اب وہ آواز کہاں سے آرہی ہے اس کو جاننے کیلئے ورقہ بن نوفل کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے کہا آپ اطمینان سے اس آواز کو سنیں اور جب وہاں سے لوٹ کر واپس آئے ہیں تو پھر آواز آئی ہے اقْرَأْ اور سامنے جبرائیلؑ سامنے آ گئے ۔ اب ذکر وہاں پر بھی اسم کا ہی ہے کہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ۔ صحابہ کرام نے اقْرَأْ کا لفظ ساتھ جوڑ کر ایسے لکھ دیا ہے جیسے آپ کے گھر آپ سے کوئی پیسے لینے آئے اور آپ اپنے بچے سے کہیں کہ بیٹا دروازے پر جا کر کہہ دو ابا گھر پر نہیں ہیں اور آپ کا بچہ جا کر کہہ دے کہ ابا نے کہا ہے وہ گھر پر نہیں ہیں۔ یہ لفظ اقْرَأْ تو حضور کو کہا گیا ہے۔ ایک دفعہ نہیں کہا گیا ہے بلکہ کئی ہفتوں تک اقْرَأْ کی آوازیں حضورؐ کو آتی رہتی تھیں۔ اس لفظ کو قرآن میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی! واللہ عالم بالصواب یہ کس نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا انا لیس بقاری کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں جب کہ وہاں پڑھنے کی تو کوئی بات ہو ہی نہیں رہی تھی وہاں تو اقرار لیا جا رہا تھا۔ وہی اقرار جب آپ سب کو ذکر دیا جاتا ہے تو لیتے ہیں کہ تین دفعہ اللہ ھو دہراوٴ۔یہی اقرار وہاں لیا جا رہا تھا کہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اور دوسرا یہاں پربھی اسمِ اللہ ہی ہے کہ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ۔ اب وہ جو اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي والی آیت ہے اُس کی نہ تاویل میں اور نہ تفسیر میں ایسی کوئی معنی خیز بات لکھی ہے۔
ہر نماز میں سورة فاتحہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟
سورة فاتحہ کیلئے مولا علی کا قول مبارک موجود ہے کہ
سورة فاتحہ میں پورا قرآن بند ہے اور سورة فاتحہ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ میں بند ہے اور بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ اسم ذات اللہ میں بند ہے۔
اِس سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ واقعاتاََ جو پہلی سورت ہے وہ سورة فاتحہ ہی ہے جو نازل ہوئی تھی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اگر آپ نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھیں تو نماز نہیں ہوتی لیکن جب آپ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو کچھ بھی نہیں پڑھتے پھر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ امام ہوتا ہی وہ ہے جس کے دل میں اسم ذات اللہ موجود ہو اور اسم ذات اللہ ہی سورة فاتحہ کا نچوڑ ہے۔ جب دل کی دھڑکنوں میں اللہ ھو اللہ ھو شروع ہو گیا توپھر وہ ہر وقت کی سورة فاتحہ چل رہی ہے۔ اس لئے وہ دائمی صلوة بن گئی۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ سورة فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور آپ کے اندر سات لطائف ہیں اور ساتوں لطائف کیلئے اس کی ایک ایک آیت کام آتی ہے۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ اللہ کا نام جو سورة فاتحہ میں بند ہے وہ ہر ہر لطیفے میں جانا چاہئیے اور ساتوں لطائف تک سورة فاتحہ کا فیض پہنچ جائے ۔
سورة فاتحہ کا باطنی راز:
سورة فاتحہ کو سورة فاتحہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے اندر وہ چیز ہے جو دل کو مفتوح کرتی ہے یعنی دل کو کھولتی ہے۔ وہ کھولنے والی چیز اسم ذات اللہ ہے۔ باطنی تشریح کا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات کا فیض کئی کئی سالوں میں ملتا ہے۔ وہ لفاظی نہیں ہے اور ان سات آیتوں کو آپ پڑھتے رہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان سات آیتوں کو سات لطائف میں اتارنا ہے لیکن وہ کیسے اتریں گی! صوفی تو وہ ہے جو ان سات آیتوں کو ساتوں لطائف میں اتارے گا بھلے دس سال لگ جائیں اُس کے بعد قرآن کی اگلی بات پڑھے گا۔ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ دو اللہ تعالی کے صفاتی نام ہیں۔ اُس کے بعد کہا گیا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو يَوْمِ الدِّين کا مطلب ہے وہ دن کہ جس کو اللہ تعالی نے جزا کیلئے مخصوص کیا ہے۔ وہاں تمہارا اعمال نامہ پیش ہو گا اور اُس دن فیصلے ہوں گے تو وہ يَوْمِ الدِّينِ کا مالک ہے۔ اس کے بعد إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو فرقہ وہابیہ اور سلفیوں نے بڑے ہی خطرناک طریقے سے غلط استعمال کیا ہے۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ
وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة الکھف آیت نمبر17
ترجمہ: جس کو وہ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اُس کو کسی ولی اور مرشد سے نہیں ملاتا۔
ولی اور مرشد کا ملنا اللہ کی مدد ہے۔ اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ ہم تیری بندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اور تیری بندگی کرنے کے ہم قابل ہو جائیں، اِس میں تیری مدد چاہتے ہیں۔ تیرے بندے بن جائیں اور صحیح معنوں میں عبودیت اختیار کر لیں تو اِس میں تمہاری مدد چاہتے ہیں۔ وہ مدد یہ ہے کہ اللہ تعالی ہمیں کسی مرشد کامل سے ملا دے۔ پھر آگے لکھا ہوا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ ہمیں ہدایت کردے بالکل جو سیدھا راستہ تمہاری طرف جا رہا ہے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ اُن لوگوں اُن ہستیوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمت سرفراز کی ہے اور جن سے تو راضی ہو گیا ہے۔ ایک طرف اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے کہ ہم تیری عبادت کے قابل ہو جائیں اور پھر اُس کے ساتھ اللہ کی طرف سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ صراطِ مستقیم اُن لوگوں کا راستہ ہے کہ جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا ہے۔ اِن ہستیوں سے جڑ جانا ، ان ہستیوں سے تعلق پیدا کر لینا، ان کی رفاقت اور مصابحت اختیار کر لینا صراط مستقیم ہے۔ یہ ہدایت کا راستہ ہے اور پھرمرشد کا ملنا اللہ کی مدد اور توفیق ہے۔ اللہ کی مدد ہو گی تو مرشدِ کامل ملے گا ورنہ مارے مارے پھرتے رہو گے لیکن کبھی بھی مرشد کامل نہیں ملے گا۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہ ہمیں اُن لوگوں کی پیروی نہیں کرنی ہے جو تمہارے غضب کی زد میں ہیں۔ عام علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ ان کے راستے پر نہ چلا جن سے تم ناراض ہو۔
غضب کی زد میں آنا کیا ہے؟
غضب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو اللہ کا غضب صورتِ ابلیس دنیا میں گھوم رہا ہے اور دوسرا وہ کہ جن سے اللہ ناراض ہو جائے تو اُن کے اندر وہ قہاری مخلوق ڈال دیتا ہے اور پھراُن کے اوپر ہر وقت اللہ تعالی کی لعنت برستی رہتی ہے۔ جسطرح حبل اللہ سے ہر وقت اللہ تعالی کی رحمت برستی رہتی ہے تو اِسی طرح غضب کی بھی ایک لکیر ہوتی ہے جس کے توسط سے اللہ کی لعنت ان لوگوں پر برستی رہتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نبیوں اور مرسلین کے گستاخ ہوتے ہیں، جلیس اولیاء ہوتے ہیں، ولیوں کے گستاخ ہوتے ہیں۔
پرانی امتوں میں ایک گروہ ہوا کرتا تھا جس کا نام نصارا تھا اُن کو نبیوں سے دشمنی تھی۔ کوئی بھی نبی آتا وہ اُس کی جان لینے کے پیچھے پڑ جاتے۔ قوم نصارا نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا، زکریاؑ کو بھی انہوں نے ہی قتل کیا۔ اُس کے بعد پھر ایک دور آیا جب نبوت ختم ہوگئی، نبی پاکؐ امام الانبیاء خاتم الرسول بن کر اس دنیا میں مبعوث ہوئے اور فرمایا لا نبی بعدی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ پھر ولائت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب یہ نصارا نبیوں اور مرسلین کے دشمن تھے لیکن نبوت ختم ہو چکی تھی تو اب اللہ نے اُسی کا نعم البدل ولیوں کے خلاف بھی رکھنا تھا جو نصارا کرتے رہے ہیں۔ پھر یہ لوگ حضورؐ کی امت میں حضور کی بعثت کے بعد فوراً اسطرح کے خوارجین منظر عام پر آنے لگ گئے جن کو حضور سے بغض ہو گیا۔ جو بظاہر مسلمان کہلاتے تھے لیکن حضورؐ سے بغض اتنا ہو گیا کہ صرف اس وجہ سے کہ حضورؐ کے پاس ان کی مسجد میں نماز پڑھیں گے تو اؐن کو حضورؐ کا ادب کرنا پڑے گا تو انہوں نے مسجد ضرار بنا لی۔ یہ خوارجین پیدا ہوئے اور یہ خوار جین چلتے رہے یہاں تک کہ مولا علی کا زمانہ آ گیا تو ان خوارجین کی تعداد بڑھ کر دس ہزار ہوچکی تھی۔ مولا علی نے اُن کے ساتھ جنگ کی اور پانچ ہزار خوارجین کو مار دیا اور باقی کے پانچ ہزار ڈر گئے، سہم گئے اور بظاہر توبہ تائب ہو گئے کیونکہ اسلام کا یہ قانون ہے کہ سامنے والا اگر توبہ کرے تو آپ اسے مار نہیں سکتے۔ حضرت علی کو معلوم تھا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن شریعت کی بات سامنے آ گئی کہ زبان سے توبہ کر رہے ہیں تو معاف کرنا پڑے گا لہذا اُن کو چھوڑ دیا۔ پھر وہ نطفے نکل کر آتے رہے کبھی امیر معاویہ اوراُس کی اولاد آگئی اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر اب اُس گروہ نے نجد سے اپنا سینگ نکالا اور پھر فرقہ وہابیہ شروع ہوا، سلفی آئے، اہلحدیث آئے اور انہوں نے ان ہستیوں کو جن کو اللہ تعالی نے ولی مرشد کہا ہےان کے خلاف اعلان جنگ کردی۔ قرآن میں جو آیت شیطانوں اور بتوں کیلئے آئی تھی انہوں نے وہ آیتیں ولیوں اور فقیروں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دی اور لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔ ولیوں کا نام لینا اور اُن کی عزت کرنا شرک بنا دیا۔ ولیوں سے محبت کرنا اور محبت سے اُن کا نام لینے کو شرک بنا دیا گیا۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ
من عادی لی ولیا فقد آذنتہ با الحرب
6502 – کتاب الرقاق – صحیح البخاری
ترجمہ: جس نے میرے دوست سے دشمنی کی یعنی عداوت رکھی تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا دیتا ہوں۔
جب اللہ کسی کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے تو وہ ظاہری جنگ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی دو کام کرتا ہے۔
1۔ اللہ تعالی یا تو کسی بڑے ہی نمرود فرعون جیسے آدمی کا مردہ نفس سزا کے طور پراُس میں داخل کر دیتا ہے اور پھر وہ بندہ اُس کے قبضے میں چلا جاتا ہے ۔
2۔ اللہ یا پھرعرش الہی سے قہاری مخلوق بھیجتا ہےجو اُس کا اندر تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور اس کے اوپر اللہ تعالی کی لعنت کا طوق پڑا رہتا ہے۔ایسے لوگوں کیلئے کہا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کیونکہ وہ بھی علماء اور ولیوں کے رُوپ میں پھررہے ہیں جن کے اوپر اللہ، محمد رسول اللہ اور ولیوں کی لعنتیں پڑ رہی ہیں ۔ یہ لوگ عالم، اسکالر، شیخ الاسلام اور شیخِ طریقت کا بھیس بھر کے گھوم رہے ہیں۔ ہم سورة فاتحہ میں اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ جن پر آپ کا غضب ہوا ہے ہمیں اُن سے دور رکھنا اور ہمیں اُن کے پاس بھیجنا جن سے آپ راضی ہو گئے ہو تو یہاں پر اصلی مرشد اور نقلی مرشد کا فرق ہو گیا۔ ولیوں کی جو مخالف جنس ہے اُن سے بچنے کی توفیق کی بات ہو رہی ہے کہ کہیں تم شیطان صفت لوگوں کی زد میں نہ آ جانا کہ جنہوں نے بظاہر تو رُوپ دھار رکھے ہیں، بڑے بڑے پگڑ پہنے ہوئے ہیں ، کہیں ہاتھوں میں تسبیح لٹکائی ہوئی ہے، گلے میں مالائیں لٹکائی ہوئی ہیں اور بڑے مخرج کے ساتھ اسلامی اصطلاحات کا بیان ہو رہا ہے لیکن کیا خبر کہ وہ اللہ کے غضب کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورة الکھف آیت نمبر28
ترجمہ: ایسے لوگوں کی پیروی مت کرنا جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے۔
آج کا مسلم کہتا ہے کہ ہم یونس الگوھر کی باتیں کیوں سنیں کیونکہ اُن کی تو داڑھی بھی نہیں ہے لیکن تم قرآن میں تو دیکھو اللہ تعالی نے کس کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے! اللہ نےکب فرمایا ہے کہ داڑھی نہ ہو تو اُس کی بات نہیں ماننا ۔ جب تک نبی پاکؐ نے صحابہ کرام کو داڑھی کا حکم نہیں دیا تھا تو کیا اُس وقت صحابہ کرام کی داڑھی تھی! جب اُس وقت صھابہ کرام کی داڑھی نہیں تھی تو پھراُس وقت وہ کیا تھے اور داڑھی سے کیا فرق پڑا کیونکہ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کی پیروی مت کرو کہ جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے۔ اگر کوئی بندہ آپ کے قلب کو ذکر اللہ میں لگا رہا ہو لیکن آپ اُس کی بات صرف اس لئے رد کر دیں کہ اُس کی داڑھی نہیں ہے تو پھر تو آپ بہت بڑے خسارے میں چلے جائیں گے۔
اللہ تعالی نے سورة فاتحہ میں کونسی نعمت کا ذکر فرمایا ہے؟
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ اُن لو گوں کے راستے پر چلا جن سے تو راضی ہوگیا ہے۔ یہاں پر پیروی کا درس دیا جا رہا ہے اور یہ پیروی اُن کی کرنی ہے جن سے اللہ راضی ہو گیا ہے۔ جن سے وہ راضی ہو گیا ہے اُن کی صفت یہ ہونی چاہئیے کہ جن کے دل اللہ کے ذکر میں ہیں تو ان کی پیروی کرنی ہے۔ ان دو آیتوں سے وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ پیروی کن کی کرنی ہے ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ ہمیں اُن کی پیروی کی توفیق عطا فرمادے جن سے تو راضی ہے۔ ہم اُن کی پیروی نہیں کرنی کہ جو تیرے غضب کا شکار ہیں۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن سے اللہ راضی ہے ان کی نشانی کیا ہے! کیا اللہ نے ان کو کوئی سرٹیفیکیٹ دیا ہے کہ میں تم سے راضی ہوں! ابھی تو ہم سارے مسلمان اپنی مرضی سے ایک دوسرے کو کافر منافق کہتے ہیں کہ یہ مردود ہے اور یہ کافر ہے۔ اب اللہ کس سے راضی ہے اور کس پر غضب کر رہا ہے اس کی نشانی کیا ہے! اس چیز کو جانے بغیر اگر آپ نے اس آیت سے آگے قدم بڑھایا تو آپ ریا کار ہو گئے۔ اللہ آپ سے مزید ناراض ہو جائے گا کیونکہ اتنی بڑی بات چھوڑ کر تم آگے کیوں بڑھے۔ پہلے یہ مسئلہ تو حل کر۔ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور پھر صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ اُن لوگوں کے راستے پر جن سے تو راضی ہے لیکن اب ان کو کہاں ڈھونڈنا ہے اور ان کی نشانی کیا ہے جن سے اللہ راضی ہے لیکن آپ نے تو بس اللہ کی رضا کو صحابہ کرام کے ساتھ لگا دیا ہے کہ رضی اللہ تعالی عنہ کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یہاں اللہ ترغیب دے رہے ہیں پیروی کی کہ ایسے لوگوں کی پیروی کرو کہ جن پر ہمارا انعام ہوا ہے اور جن سے ہم راضی ہیں۔
قرآن مجید کے مطابق کون اللہ کے غضب کا شکار ہے؟
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کہ ہم نے ان کی پیروی نہیں کرنی جن سے تُو ناراض ہے اور جن پر تیرا غضب ہوا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہ تو ان کی نشانی معلوم ہے جن سے اللہ راضی ہے اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوتا ہے کیونکہ ہم تو صرف یہ ہی دیکھتے ہیں کہ اِس کی داڑھی ہے، اِس کا عمامہ ہے، اِس نے عطر لگایا ہوا ہے، اس نے لمبا جبہ پہنا ہوا ہے، داڑھی کو بہت خوبصورت بنا کر بیٹھا ہوا ہے اور اِسی رُوپ کو دیکھ کر ہم اس کو اللہ والا سمجھ لیتے ہیں کہ یہ عالم دین ہے۔ ہمیں اِس داڑھی اور عمامے سے یہ کب پتہ چلتا ہے کہ اللہ اِس سے راضی ہے یا ناراض ہے! وہ کسوٹی کیا ہے کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی پیروی کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے دور رہنے کا اللہ نے حکم دیا ہے! ہم یہ جاننے کی کوشش کئے بغیر دھڑا دھڑ قرآن کی آیتیں پڑھتے رہتے ہیں ۔ اللہ نے جن لوگوں کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے، جن کو گمراہ کرنے کا کہا ہے اور پھر یہاں اللہ نے آپ کی سمجھ کو بھی چیلینج کیا ہے وہ اس طرح کہ اپنی بات اللہ نے منفی انداز میں فرمادی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا کہ اگر تجھے میں گمراہ کرنا چاہوں گا تو تجھے ولی مرشد نہیں دوں گا ۔ پھرتم مرشد دھونڈ نہیں پاوٴ گے۔ اب اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کو اللہ گمراہ کرے گا اُس کو کسی ولی مرشد سے نہیں ملائے گو لیکن جس کو ہدایت دے گا تو اُس کو ولی یا مرشد سے ملا دے گا۔ اِسی طرح پیروی کی بات آئی تو وہاں بھی منفی انداز میں بات ہو رہی ہے وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا کہ ایسوں کی اطاعت اور پیروی مت کرنا جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے۔ پیروی کرنا ہے تو اُن کی کرنا جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے آباد کر رکھا ہے۔ جن کے قلب ذکر الہی سے آباد ہیں اُن کی پیروی کرنا ہے کیونکہ ان کی پیروی سے تمہارے دل بھی اللہ کے ذکر سے آباد ہو جائیں گے۔
اہم نکتہ:
یہاں ایک نکتہ ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ اُن کی پیروی کرنا جن کو ہم نے اپنی رضا اور اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ کا وہ انعام کیا ہے اور کیا وہ انعام کوئی پرائز بانڈ ہے یا نشانِ حیدر ہے! یہاں انعام سے مراد نعم ہے۔ نعم کا مطلب ہے کہ راضی ہونا یعنی جن سے اللہ راضی ہوگیا ہے۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ یہاں اللہ متنبی کر رہا ہے کہ دیکھو پیروی کیلئے کسی ایسے کے جال میں نہ پھنس جانا کہ جو میرے غضب کی زد میں ہے۔ ہمیں توپتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کون ہے جو اللہ کے غضب میں ہے اور اللہ کِن سے راضی ہے! ہم تو اپنے آپ کو پہچاننے کے قابل نہیں ہیں اور ہمیں تو اتنی بھی توفیق نہیں ہے کہ ہم یہ پتہ چلا لیں کہ سنی صحیح ہے یا شیعہ ، وہابی، دیوبندی صحیح ہے یا بریلوی صحیح ہے کیونکہ سب آپ کو صحیح سمجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو کافر منافق کہہ کر لعن طعن میں لگے ہوئے ہیں۔ اب جن کی پیروی کرنی ہے جن سے اللہ راضی ہے اُن کوکیسے پہچانیں گے کیونکہ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اللہ ہم سے راضی ہے یا نہیں۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر اللہ تعالی جس سے ناراض ہو جائے تو اُس کو شعور نہیں دیتا کہ اللہ تم سے ناراض ہے۔ یہی اللہ کی عادت ہے اور یہی فقیر کی عادت ہے۔ جو سب سے بڑا گستاخ ہو گا فقیراُس کے سامنے ایسے پیش آئے گا کہ جیسے وہ مرشد ہے اور فقیر اُس کا مرید ہے۔ فقیر کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا ہے۔ فقیر بھی شعور نہیں دیتا اور پتہ چلنے نہیں دے کہ وہ تجھ سے ناراض ہے۔ راضی ہے تو اُس کا اظہار وہ بار بار کرے گا لیکن تم سمجھ نہیں پاوٴ گے۔ ایک جگہ نبی پاکؐ کے ادب کے حوالے سے قرآن مجید میں آیا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورة الحجرات آیت نمبر2
ترجمہ: اے مومنو! اپنی آوازوں کو نبی پاکؐ کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو۔ نہ اُن سے اسطرح گفتگو کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو۔ ایسا کیا تو تمہارے اعمال حبط کراور تباہ و برباد کر دیے جائیں گے اورتمہیں اِس کا شعور بھی نہیں ہوگا۔
ساری نمازیں سارے روزے سارے حج عمرے سب تباہ و برباد کر دے گا اور تمہیں شعور بھی نہیں ہو گا کہ تمہارا متاعِ ایمان اور خرمنِ ایمان لٹ گیا اور برباد ہو گیا جس کی تمہیں خبر بھی نہیں چلنے دے گا۔ اگرتمہارے دل میں کبھی یہ وسوسہ آئے کہ سرکار مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ راضی ہیں کیونکہ یہ شعور کی کہانی ہے، یہ الفاظ کا کھیل نہیں ہے۔ اگر تمہارا تعلق ان سے نہ ہوتا یا وہ تجھ سے اپنا تعلق تجھ ختم کر دیتے تو اس بات کی فکر نہ ہوتی اور نہ اس بات شعور ہوتا کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں۔ اگر آج تیرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ سرکار مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں تو پھر تو خوشی مناوٴ کہ تمہارا اس ذات سے تعلق قائم ہے کیونکہ اگر تعلق ختم ہو جاتا تو وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ تجھے شعور نہ دیتا۔ اب عام آدمی کو کیسے پتا چلے گا کہ اللہ کا انعام کس پر ہے اور اللہ کا غضب کس پر پڑ رہا ہے تو یہ جاننا بڑا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جن سے اللہ راضی ہے وہ کون ہیں اور اللہ جن پر غاضب ہے وہ کون ہیں! بابا بلھے شاہ نے فرمایا ہے کہ
سوچ کے یار بنائیں بندیا یار بنا کے فیر نہ سوچیں سولی تے چڑھ جائیں
بہت سے لوگوں نے دعوے کئے ہوئے ہیں کہ وہ خاندان سے ہے، سائیں ہے اور کوئی کہتا ہے کہ وہ محبوبِ گوھر شاہی ہے تو پھرلوگ اُن کی باتیں سُن کراُن کےساتھ لگ جاتے ہیں۔ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ سرکارگوھرشاہی تم سے راضی ہیں یا ناراض ہیں کیونکہ یہ قول توتمہاری اپنی زبان کا ہے کہ تم محبوب ہواورسائیں ہولیکن کسوٹی اورپہچان بھی توہونی چاہئیے کہ جس سے پتہ چلے کہ یہ وہ بندہ ہے جس سے سرکارراضی ہیں اوریہ وہ بندہ ہے جس سےسرکارراضی نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگ دعوے کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اورسب کا اکھٹے ہو کر ایک کام ہے کہ یونس الگوھر کی برائی کرنا۔ بیس سال ہو گئے ہیں اوراِن بیس سالوں میں انہوں نے پورا زور لگا لیا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ پردے کے پیچھے کوئی توہے جو جھکتا نہیں ہے، جو بکتا نہیں ہے اور جب وہ بولتا ہے تو سننے والوں کو پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کون بول رہا ہے!
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 20 مارچ 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے۔