کیٹیگری: مضامین

جشنِ شاہی کیوں منایا جاتا ہے؟

جشنِ شاہی ایک ایسا زندہ دن ہے کہ جب پندرہ رمضان کی صبح کی سفیدی نمودار ہوتی ہے تو یہ کائنات جلوہ امام مہدی کے رنگ و نوراورحسن سے منور ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کو سرکار امام مہدی گوھر شاہی سے فیض ہوا ہے اور جن کے قلب زندہ ہیں وہ اِس دن کی مُسرتوں سے مستفیض ہوپاتےہیں اورجن کے سینوں میں نظرِ گوھر شاہی سے نورکاچراغاں نہیں ہوا ہے اُن کیلئے تمام دن اورراتیں ایک جیسی ہیں۔امام مہدی کو صرف پہچاننا ہی نہیں ہے بلکہ امام مہدی کا ساتھ بھی دینا ہے۔امام مہدیؑ کو پہچاننے اور ساتھ دینے سے پہلے امام مہدی سے مستفیض ہونا ضروری ہے۔حقیقی معنوں میں جو مستفیض ہوا ہے وہ امام مہدی کو پہچانے گا۔چاند،سورج اور حجرِاسود کی نشانیوں کو دیکھ کر مان لینا کوئی بڑاکارنامہ نہیں ہے کیونکہ اِن چیزوں کو دیکھ کر لوگ اُن کو بھی مان لیتے ہیں جو اُن کے دورمیں نہیں آئے۔امام مہدی کے دور میں پیدا ہوں اور امام مہدی سے مستفیض نہ ہو پائیں تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔آج 1440 سال ہوچکے ہیں۔ 1440کا عدد 9ہے اورجو9 کاعدد ہے وہ امام مہدیؑ سے نسبت رکھتا ہے۔

معراج کی اقسام:

عقیدہ ایک سڑک کے نقشے کی طرح ہوتا ہے اور پھراس کےاوپرایمان کی گاڑی چلتی ہے۔اگرعقیدہ درست نہ ہوتوبغیرنقشےکےآپ ادھراُدھربھٹکتےرہیں گے۔سیدنا امام مہدی سرکارگوھرشاہی نے خود اپنے قلمِ مبارک سے دینِ الٰہی میں رقم فرمایا کہ

ہرمرتبےاورمعراج کا تعلق 15رمضان سےہے

1۔ایک معراج وہ ہے جس کا تعلق نبی کریمﷺکی ذاتِ مبارک سے ہےاوراس کو ہم لیلۃالمعراج اور لیلۃالعصرا سے یاد کرتے ہیں۔اس معراج کا مرکزی خیال یہ ہےکہ نبی پاکﷺکو جسم سمیت اوپر لےجایاگیا۔
2۔ایک معراج سرکار گوھر شاہی نے اپنے لئے لکھی ہے اورصرف ایک معراج نہیں لکھی کہ “ہرمعراج” کا لفظ سرکارگوھرشاہی نے رقم فرمایا ہے۔
ایک مرتبہ وہ ہے جیسا کہ پاکستان اورہندوستان میں سیاسی رتبہ ہوتا ہے جس میں سب سے اونچا رتبہ وزیرِاعظم کا ہوتا ہے۔وزیرِاعظم ہی آرمی چیف کو مقرر کرتا ہےلیکن آرمی چیف کو مرتبے میں کم ہونے کے باوجود بھی زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ مرتبہ کم طاقت والا ہی ہوبلکہ یہ بندے پر انحصار کرتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالٰی نے مرسلین،اولوالعزم رسولوں اورانبیاء کو بھیجا اور جب نبی پاکﷺدنیا میں تشریف لے آئے تونبوت اور رسالت ختم ہوگئی۔آپﷺنے فرمایاکہ

اناخاتم النبیین لا نبی بعدی
ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب : ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219
ترجمہ:میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اب نبوت اوررسالت ختم ہوگئی لیکن دنیا اورانسان ختم نہیں ہوئے۔نبوت اوررسالت ختم ہونے کے باوجود بھی انسانوں کو ہدایت کیلئے رہبری چاہیئے۔اگرانسان غلطی کرے توخودہی اللہ سے معافی مانگ لےلیکن اس کے باوجود بھی اللہ نے قرآن مجید میں منافقین کیلئے فرمایاکہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا
سورۃالنساءآیت نمبر61
ترجمہ:اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ حضورﷺکی بارگاہ میں آؤکہ حضورؐتمہارےلئےمغفرت مانگ لیں تو ناک بھنویں چڑھاکر بھاگ جاتے ہیں۔

اس لئے ایسی ہستی بھی چاہئےکہ گناہگاراس کے پاس آکر بیٹھ جائیں اور للچائی ہوئی نگاہوں سے بناءالفاظ کےیہ درخواست کریں کہ اے ہستی معظم!ہمیں بھی دھلوادواور ہم پر بھی کرم فرمادو۔زمین پر سہارے کیلئے ولائت اور امامت چلی اور فقراورعشق بھی چلا۔

انسانیت کے تین ادوار:

اللہ تعالٰی نے پوری انسانیت کے اِس دورکوتین حصوں میں بانٹا۔

1۔عبودیت کا دور:

اس دور میں مرسلین اورانبیاءکرام کوبھیجا۔اس دورمیں عبودیت عام تھی توعبودیت کو اس میں عروج ملا۔ جو سخت عبادتیں کرنے والے تھےاورعبودیت میں درجہِ کمال رکھنے والے نبوت ورسالت کے دورمیں بھیجے گئے۔عبودیت والے اپنا وقت گزار کر چلے گئے اور اوپرعبودیت والوں میں کوئی باقی نہیں رہا۔جب نبوت اوررسالت ختم ہوگئی تو پھراللہ تعالی نے دنیاپردوسرادور طاری کردیا۔

2۔رحمت کا دور:

دورِرحمت میں گناہگاروں،کمزوروں اور معذوروں کا اژدہام مچااور اُن کو اس دور میں بھیجا گیا۔ اس دور میں اولیاءاکرام آئےاور داتا،خواجہ، بابافرید،لال شہبازقلندر،بلھےشاہ اور بابا گرونانک جیسے لوگ آئے۔عبودیت میں جو کامل تھے اُن کا دور گزرگیا۔اب دوسرے دور میں عبودیت والے نہیں تھے اس لئے وہ اس دور میں آہی نہیں سکتے۔ دوسرے دور میں وہ آئے جو رحمت کے طلبگار تھے،عبودیت میں کمزور تھے،بندگی میں کمال کا درجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے، کسی ہستی پر تکیہ کرنے والے تھے،کسی کی زلفوں کے اسیر ہونا چاہتے تھے،کسی کے چہرے کا طواف کرنا چاہتے تھےاورنظرِرحمت کے طلبگار تھے۔ایسے لوگ اولیاءاکرام کے اردگرد جمع ہو گئےاورنظرِرحمت کی زد میں آگئےاوراس نظرِرحمت کوسیدنا غوثِ اعظمؓ کی آمد سےعروج ملا۔ دورِعبدالقادر جیلانیؓ نے زمانہِ رحمت کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔کسی نےخواجہ کی دیوانی کا نعرہ لگایا،کسی نے بابا فرید کا نعرہ لگایا،کوئی نظام الدین کی چوکھٹ پر بیٹھ گیا۔اتنی محنت وہ مسجد میں بھی کرسکتے تھے لیکن اُن کی فطرت میں عبودیت نہیں تھی۔اس دور میں لوگ اولیاءاکرام کی صحبت میں بیٹھےاور جو انواروتجلیات اولیاءاکرام کو گھیرے رکھتی تھیں،اُن انواروتجلیات نے ان گنہگاروں کے گناہ دھودئیے۔ایک نظرِرحمت سات کبیراگناہوں کو جلاتی ہےتوان اولیاءاکرام کی صحبت اختیار کرنے والوں کے گناہ جھڑنے لگ گئے،نفس سُدھرنے لگ گئے،دل زندہ ہونے لگ گئےاوریہ پارلگ گئے۔اس کے بعد نظرِرحمت کا دور بھی ختم ہوگیا اوراب تیسرا دورآگیا۔

3۔عشق کا دور:

اب جو آئے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ نظرِرحمت ان کو تبدیل کردے۔آج کے دور میں جو صوفی بننا چاہتے ہیں ان کو اس بات میں کوئی شرمندگی،تعصف اور حسنِ ملامت نہیں ہے کہ وہ گناہگار ہیں۔ گناہگار ہونے کے باوجود دیدہ دلیری یہ ہے کہ وہ دیدارِالٰہی اوردیدارِرسول کے متمنی ہیں۔نظرِرحمت صرف گناہوں کو جلاتی ہےلیکن فطرتوں کو تبدیل نہیں کرتی اور جہنمی کو پکڑ کرجنتی نہیں بناتی ہے۔اب یہ وہ دور آگیا ہے کہ نبوت ورسالت اور ولائت و فقرکا فیض بھی آپ جیسے گناہگاروں کا بال بھیکا نہیں کرسکتا۔عبودیت اورنظرِ رحمت کا دورچلاگیا ہے۔اب یہ آخری دور آگیا ہےاوریہ عشق کا دور ہے۔آپ سمجھتے ہونگے کہ عشق تو بہت اعلٰی چیز ہے اور واقعی یہ بہت اعلٰی چیز ہےلیکن

عشق اس دورکے انسان کی ضرورت ہےکیونکہ اب غفلت،اندرونی شرک اورشرکِ خفی کے میل کی جو دبیزچادر ان کے دلوں اورروحوں پرچڑھ گئی ہے وہ نظرِرحمت سے نہیں دُھل سکتی بلکہ اس کوعشق کی آگ ہی پگھلا سکتی ہے۔لہٰذااب جو عشق ہے وہ حسبِ ضرورت ہے

دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں پر گاڑی رکھنا عیش وآرام ہےاور ان ممالک میں آپ رکشہ،ٹرین اورسائیکل پر سفرکرسکتےہیں لیکن کچھ ملکوں میں گاڑی انسان کی ضرورت ہے۔انبیاءاورمرسلین کے دور میں اللہ تعالٰی نے عبودیت کو رائج العمل فرمایاتھا اواُس دور میں نظرِ رحمت کوعیش و آرام سمجھا جاتا تھا۔جب نظرِ رحمت کا دور آیا تو اُس میں عشق کو اعلی درجہ حاصل تھا۔اِس دور میں عبودیت اورنظرِرحمت دونوں آپ پر اثراندازنہیں ہونگےکیونکہ اندر کاشیطان اتنا سرکش اور ضدّی ہے کہ انسان کو بحث و مباحثہ پر آمادہ کرے گا۔انسان اپنےنفس کے دفاع میں جھوٹی قسمیں کھائے گا اور ایسے انسانوں کو قابو کرنا نظام الدین اولیاءاورخواجہ غریب نواز کا کام نہیں ہے۔نظرِرحمت سات کبیرہ گناہوں کو جلاتی تھی اور اگر کسی کی تقدیرِازل میں جہنم لکھی ہے تو وہ کونسی نظرِرحمت ہوگی جواس کو جلادے! لہٰذا اب عشق انسان کی ضرورت ہے۔عشق کے بارے میں داتا علی ہجویری نے فرمایا کہالعشق نار یحرق ماسوایعنی عشق آگ ہے اور یہ اپنے علاوہ سب کوجلادیتاہے۔اب ایسا نسخہ چاہیئے تھا کہ جو بندے کو ہی جلادےکیونکہ گناہ بندے کے اندر گُھسے ہوئےہیں۔اس لئے عشق بطورِضرورت آیا ہے۔اللہ تعالٰی نے اپنے استعمال کی جو صفت ہے یعنی عشق جو اُس کے اپنی زیرِ استعمال رہا ہے وہ زمین پر بھیج دیا۔یہ دور عشق کا ہے۔

عشق کی اقسام اور یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟

1۔دیدارِالہی:

جو عشق دیدارِالہی سے حاصل ہوتا ہے وہ عشق عام ہے۔جب آپ اپنے لطیفوں کو تیار کرتے ہیں،بیت المعمور جاتے ہیں،دوسرا ٹھکانا مقامِ محمود ہوا،مقامِ محمود میں اللہ کا دیدار ہوا اوراللہ کے جو نین نقش تھے وہ لطیفہ انا میں آگئے،لطیفہ انا سے آنکھوں پر اور آنکھوں سےجب اللہ کا نقشہ دل پرآیا توحکم دیا کہ اب تم نیچے چلے جاؤاور اب جو تجھے دیکھ لے وہ مجھے دیکھ لے۔نین نقش کا لطیفہ انا سے لے کر دل تک کے سفر کے دوران تھوڑا عشق انا میں،تھوڑا آنکھوں میں اورپھر تھوڑاہی دل میں گیااور پھر تجلیات پڑنا شروع ہوگئیں۔جب تم اُن کی نظروں میں آئے توتمہارے کبیرہ گناہ جل گئے ۔اسی لئے بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ
نظر جنہاں دی کیمیا ہووے سونا کردے وٹ
اللہ سائیں کریندی آ، کی سید تے کی جٹ

یہ عشق اللہ کے نین نقش یعنی اللہ کی تصویر کا عشق ہے۔اس کی زکٰوۃ نظرِرحمت ہوئی۔اگر یہی عشق آج کے دورمیں بھی رکھا جاتا تو یہ عشاقِ الہی جب لوگوں کو فیض دیتے تو عشق کا نہیں بلکہ نظرِ رحمت کا ہی ہوتاکیونکہ یہ خود توعشق میں ہیں لیکن یہ خودہی عشق میں رہیں گے۔اُس عشق کی وجہ سے ان پر تجلیاں گریں گی اور وہ تجلیوں سے لوگوں کو فیض ہوگا تو وہ نظرِرحمت میں ہی ہوگئے۔

2۔وجودِالہی:

ایک عشق اویس قرنیؓ کو حاصل ہوا،ایک عشق امام ابوحنیفہؓ کو حاصل ہوا،ایک عشق غوث پاکؓ کو بھی حاصل ہوا لیکن ان میں سے غوثِ اعظمؓ اور امام ابوحنیفہؓ نہیں ناچے بلکہ لال شہبازقلندر ناچے۔ اب عشق ، عشق میں فرق ہے۔جس عشق میں نماز روزے کا خیال رہا اُس نے تمہیں نہیں جلایا۔اس طرح عاشقوں کے دوگروہ ہوگئے۔جو اللہ کا اپنا عشق تھا وہ صرف لال شہباز قلندر کے حصے میں آیا۔یہ وجودِ الٰہی والا عشق تھا۔یہ عشق اللہ کو دیکھنے سے نہیں ہوا تھا بلکہ یہ عشق اللہ بننے سے ہوا تھا۔یہ عشق اللہ کے جواندر کا وجود ہے اُس سے وہ اپنا ایک قطرہِ ذات کامل صفات کے ساتھ کسی میں سما جاتا ہےاور وہ صرف عثمان مروندی اورلال شہباز قلندر میں ہی سمایا۔

ہر مرتبے اور معراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے:

جب جثہ توفیقِ الہی لال شہباز قلندر کے اندرآیا تو اس نے ان کے وجود پر قبضہ کرلیا۔جیسا کہ ایک قلم ہے جو اُڑ نہیں سکتا لیکن اگر اس قلم کو کوئی پرندہ دبوچ کر لے اُڑے تو پرندے کے ساتھ قلم بھی اُڑے گا۔مولاعلیؓ کو صرف “اسداللہ” یعنی شیرِخداکا لقب ملا لیکن لال شہباز قندر کو ذات مل گئی۔

جو لال شہباز قلندر کے اندرآیا وہ اصل تھا اور یہ وہ شیر تھا جو اُڑنا جانتا ہے،اس کو شہباز کہتے ہیں یعنی اُڑنے والا۔پھر جس کے اندر یہ آگیا وہ آنکھ بند کرے اورجسم سمیت عالمِ احدیت میں پہنچ جائے۔جب باطنی شیریعنی ذاتی جثہ توفیقِ الٰہی شہبازِ لامکانی کسی کے وجود میں ہو اورپھر اس کو گھر کی یاد آئے تو وہ اُڑ کے جاتا ہے اور جسم قلم کی طرح دبوچا ہوتا ہے۔جب یہ پرواز ہوتی ہے تو اس پرواز کو معراج کہتے ہیں

دنیا میں صرف ایک باطنی شیر آیا جو لال شہباز قلندر کو ملا۔باطنی شیرشہباز لامکانی کی صرف ایک مثال اس لئے ہے کہ اگرامام مہدیؑ کے آنے سے پہلے معراج کی کوئی ایک بھی مثال نہ ہوتی تو تم لوگوں کو کیسے سمجھاتے۔سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی کو اللہ نے جو جسمِ اطہر فراہم کیا ہے اُس کی ادنٰی سی مثال یہ ہے کہ اُس میں نبی پاکﷺکی ارضی ارواح موجود ہیں۔

نور کی حقیقت:

جو لوگ کہتے ہیں کہ حضورﷺکا سایہ نہیں تھا تو وہ اُسی بات کو دیکھ رہے ہیں کہ حضوؐرنور ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نور روشن ہے اور جب سورج کی روشنی حضوؐرکے نور پر پڑے گی تو اندھیرا نہیں ہے تو سایہ نہیں ہوگا۔وہابی یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ حضوؐربشر ہیں تو سایہ ہوگا۔لیکن سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ضروری نہیں ہے کہ نورروشنی کی صورت میں ہو لہٰذا اگر حضور کا سایہ ہے تو یہ اس بات کو غلط ثابت نہیں کرتا کہ حضورﷺنور ہیں کیونکہ سایہ اور عکس ایک ہی چیز ہے۔اسکی دلیل یہ ہے کہ اگر سورج نور ہے تو جھیل میں سورج کا عکس کیوں پڑتا ہےکیونکہ وہ تو روشنی ہے۔ قطعِ نظر اس کے کہ نورکی حقیقت کیا ہے سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی نے مزید ارشاد فرمایا کہ نبی پاکﷺمعراج پر جانے سے پہلےجب دھوپ میں چلتے تو سایہ پڑتا تھا لیکن جب معراج پر تشریف لے گئے تو سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ اللہ قسم!معراج شریف میں حضورﷺکا جو جسمِ مبارک ہے وہ اللہ تعالٰی کی ذاتِ قدیم کے جب سامنے آیا تو اللہ کی ذاتی نورِ قدیم کی تجلیات جسمِ محمد کےآرپار ہوگئیں۔پھر سرکارگوھر شاہی نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ قسم!حضور پاک ایسے لافانی ہوگئےجیسے اللہ ہے۔ہم نے سرکارگوھر شاہی سے عرض کیا کہ جو حضورکا لافانی جسمِ مبارک ہے وہ اوپر ساتھ جائے گا کیونکہ وہ تو لافانی ہوگیا ہے اور اسے یہاں نہیں ہونا چاہئیے تھا اور وہ مدینہ منورہ میں مدفون ہے۔سرکار نے فرمایا کہ لافانی کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ ارضی ارواح امام مہدیؑ کو دی جائیں گی تو اُن کے جلوے سے فنا نہ ہوجائیں تو اُن کے جلوے سے تاب آجائے۔جس نے حالتِ ایمان میں مرنا ہے وہ یہ سن لے کہ وہ جسم سیدنا گوھر شاہی کا ہے جس میں محمدﷺکی ارضی ارواح ہیں اور اس جسم نازنین کی آرائش کیلئے اُس جسم کو معراج دی گئی اور ذاتِ قدیم کی انواروتجلیات کا تڑکا لگایا گیا تاکہ امام مہدی کی جب ذات تشریف فرما ہوتو اُن کے جلوؤں کا متحمل ہوجائے۔

شہبازِلامکانی اور شہبازِاحدی کیاہوتا ہے؟

سرکارگوھر شاہی کی کتابِ مقدس دینِ الہی میں ہے کہ “سترہ سال کی عمر میں جثہ توفیق الٰہی کو پیچھے لگادیا گیا”.جو شہباز لامکانی لال شہباز قلندر کے پاس تھا اُس کا اثر یہ تھا کہ جب سے اُس کی صحبت روح کو اختیار ہوئی ہے اُس وقت سے وہ مستی میں ہے اور اُن کی مستی کا عالم یہ ہے کہ یومِ ازل میں جب اللہ نے فرمایا تھا کہالست بربکمتو انہوں نےسنا نہیں۔اس لئے ان کا لقب پڑگیا کہ یومِ الست سے مست ہیں اور جب زمین پر آگئے تو تب بھی مست ہی رہے۔جو اوپر لاہوت کا علاقہ ہے وہ شہبازِ لامکانی کی حد ہے اور وہاں تک اُُن کی پرواز ہوتی ہے۔شہبازِ احدی کی پرواز وجودِ الٰہی تک ہے یعنی احد تک پرواز ہے۔اس کے آنے سے اتنی مستی ہوئی کہ جثہ توفیقِ الٰہی کے اثر سے سرکارگوھر شاہی نے گلے میں قرآن ڈالا،دھوتی پہنی اور جنگل چلے گئے۔جب سرکار گوھرشاہی لال باغ گئے تو وہاں اس شہبازاحدی کو صحبت میں رکھنا تھا کیونکہ جس وقت حضورﷺکی ارضی ارواح کو روکا گیا ہے اُس وقت یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ کوئی بھی شہبازِ لامکانی دنیا میں آئے گا تواُسے بھی زمین پر روکا جائے گا۔جس طرح حضورﷺکی ارضی ارواح کو روکا گیا تھا اسی طرح لال شہباز قلندر میں جثہ توفیقِ الٰہی کو لال باغ میں روک لیا گیا تھا۔جب سیدنا امام مہدی گوھر شاہی تشریف لائے ہیں تو وہ اور شہبازِ احدی کو ایک دوسرے کی صحبت ملی اور پھر کہا کہ اب تمہاری چھٹی ہےتو تریاقِ قلب میں سرکارگوھر شاہی نے فرمایا ہے کہ
وہ تو کرگئے پرواز
ہماری انتظار گاہ ہے

امام مہدی گوھر شاہی کے جسمِ مبارک کی تزئین و آرائش:

جو جثہ توفیقِ الٰہی شہبازِاحدی تھا وہ سرکار گوھر شاہی کے جسمِ مبارک میں خون میں پھیل گیا اور نس نس میں دوڑا۔اسمِ اللہ کا خون میں دوڑنا فقر ہے اور جسمِ گوھر شاہی اللہ کا خون میں دوڑنا ہے۔ جب اللہ کا جثہ شہبازِاحدی خون میں شامل ہوا تو اس کا ظاہری نتیجہ یہ نکلا کہ جسمِ گوھر شاہی پر جابجا اسمِ ذات نقش ہوگیا۔جس جسم کے بال رقص کریں تو اسمِ ذات ظاہر ہو،جس جسم کے بال رقص کریں تو اسمِ محمد ثبت ہوجائے، جس جسم کے بال رقص کریں تولاالہ الااللہنقش ہو جائے،کبھی گھٹنوں پر اسمِ اللہ ظاہر ہو،کبھی ناخن پر ظاہر ہو،کبھی آنکھوں میں ظاہرہو،کبھی تالو پر ظاہر ہو تو وہ جسم نہیں بلکہ لوحِ قرآنی ہے۔جسمِ گوھر شاہی جسم نہیں ہے بلکہ وہ تو لوحِ قرآنی ہے اور لوحِ شہبازاحدی ہے۔وہ ارضی ارواح جو چودہ سو سال پہلے لافانی ہوگئیں تو وہ چودہ سو چالیس سال بعد فانی کیسے ہوسکتی ہیں اور وہ جسم قبر میں کیسے ڈالا جاسکتا ہے۔بلھے شاہ فرماتے ہیں کہ
بلھے شاہ اسی مرنا نا ہی
گور پیا کوئی ہور

امام مہدی کے انتظار میں نبی پاکﷺآنسو بہاتے رہے اور غوثِ اعظمؓ نے اپنے پوتے کو کہہ دیا کہ جب تک امام مہدی کومیرا سلام نہ کہہ دو مرنا مت اور وہ ساڑھے چھ سو سال تک زندہ رہے۔اس ذات کی شان کیا ہوگی۔سرکار گوھر شاہی لافانی کیسے نہیں ہونگے اور یہ کہنا بھی اُن کی شان کے مطابق نہیں ہے۔

اللہ کی برادری کیا ہے؟

اللہ کی اجازت سےعیسٰیؑ،ادریسؑ اور الیاسؑ نبیوںؓ کے بھیس میں عالمِ غیب سے دنیا میں تشریف فرما ہوئے۔عیسٰیؑ کا کلمہ ہے کہلاالہ الااللہ عیسٰی روح اللہ۔عیسٰیؑ اگر اللہ کی روح ہے تو جب عیسائیوں نے یہ کہا کہ عیسٰیؑ اللہ ہے تو قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس کی تردید کی کہ

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 72
ترجمہ:وہ یقیناً گمراہی میں ہیں جوکہتےہیں کہ جو مسیح ہے وہ اللہ ہے۔

یومِ محشر میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہم عیسٰیؑ کو بلائیں گےاورکہیں گے کہ کیا تم نے عیسائیوں کوکہا ہے کہ تم اللہ ہو۔عیسٰیؑ یہ جواب دیں گے کہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق ہی نہیں ہے۔لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہکا مطلب ہے کہ محمدﷺاللہ کے رسول ہیں اورلاالہ الااللہ عیسٰی روح اللہکا مطلب ہے کہ عیسٰیؑ اللہ کی روح ہے۔اگرعیسٰیؑ اللہ کی روح ہے اورکوئی اللہ کی روح کو اللہ کہہ دے تو قرآن مجید میں آیا ہے کہ عیسٰیؑ اللہ نہیں ہیں۔اگر عیسٰیؑ اللہ ہیں تو اللہ کی روح کو اللہ کہہ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ عیسٰیؑ اللہ نہیں ہیں۔اگر عیسی اللہ کی روح نہیں ہے تو پھرجو کلمہلاالہ الااللہ عیسٰی روح اللہہے اس کا مطلب کچھ اور ہے۔اس کلمے کا مطلب یہ ہے کہ عیسٰیؑ اللہ کی برادری کی روح ہیں یعنی یہ ذاتِ اللہ کی روح میں سے ہے۔یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ہم نے یہی سنا ہے کہ اللہ ایک ہے اس لئے ہم پریشان ہوجاتے ہیں اور غلط فہمی ہمیں اس لئے ہوجاتی ہے کہ ہم “اللہ” اور”الٰہ” کے فرق کو نہیں سمجھتے ہیں۔قرآن میں اللہ نے الٰہ کی نفی کی ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔کلمے کا مطلب ہے کہ الٰہ ایک ہے۔قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ

وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 163
ترجمہ: اور تمہارا الٰہ ایک ہے۔

تمہارا معبود،تمہیں بنانے والا اور تمہارا خالق ایک ہے۔یہی کلمے میں ہے کہلاالٰہ الااللہکہ اللہ کے علاوہ کوئی اورالٰہ نہیں ہے۔یہاں یہ نہیں لکھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اللہ نہیں ہے اور اس کلمے میں اللہ کی نفی نہیں ہوئی۔اگر اللہ کی نفی ہوتی تو کلمہ اس طرح ہوتا کہلااللہ الااللہلیکن یہ کلمہ نہیں ہے۔یہ نہیں کہا کہ اُس برادری میں کوئی اوراللہ نہیں ہے۔اس لئے “اللہ” برادری کا نام ہے۔

سرکار گوھر شاہی کی نسبت:

سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ گوہرشاہی بھی وہیں سے آئے ہیں ۔ہم نے سرکارگوھر شاہی سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا طرزِتخاطب ہے کہ آپ 3rd personمیں بات کررہے ہیں یا اس میں کوئی راز ہے۔جیسے قرآن مجید میں آپ کم ہی دیکھیں گے کہ اللہ تعالٰی اپنے لئے”میں”کا لفظ استعمال کرے اور زیادہ تر اللہ تعالٰی حضورﷺکو مخاطب کرتے ہوئے یہی فرماتے ہیں کہ تمہارے رب نے یہ کیا۔جب سرکارگوھر شاہی نے فرمایا کہ گوھرشاہی وہیں سے آئے ہیں تو سرکارگوھر شاہی یہ بھی فرما سکتے تھے کہ میں وہیں سے آیا ہوں۔پھر سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بولنے والا گوھرشاہی نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بولنے والا کوئی اور ہویا بولنے والا وہ ہو جو عالمِ غیب سے نہیں بلکہ لال باغ سے آیا تھا۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب لوگ لال باغ میں درخت کو چومتے ہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سرکارگوھرشاہی کا آستانہ ہے اس کا ادب کرو لیکن وہ تو مٹی اور گارے سے بنا ہے۔ہم تو کہتے رہے ہیں کہ
دل بدست آور کہ حج اکبراست
از ھزاران کعبہ یک دل بہتراست
کعبہ بنیادِ خلیلِ آخراست
دل گزرگاہِ جلیل اکبراست

کعبے کو مٹی سے حضرت ابراہیمؑ نے بنایا تھا اور تم اس کو اپنے دل میں بساؤلیکن جب سرکار گوھرشاہی کے گھر کی بات آگئی تو سرکار کے گھر کو آپ کعبے سے افضل صرف اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اس کو سرکارگوھر شاہی سے نسبت حاصل ہے۔وہ نسبت تو آپ کو بھی حاصل ہونی چاہئیے۔اگر نسبتِ الٰہی سے مومن کا قلب کعبے سے افضل ہے تو نسبتِ گوھرشاہی کا کمال یہ ہونا چاہئیے کہ تم نہ لال باغ کے محتاج رہواور نہ کوٹری کے محتاج رہواور نہ اُس درخت کے محتاج رہو بلکہ تمہارے اندر ریاض الجنہ بن جائےاور تمہارے اندر ذاتِ ریاض منعکس ہو۔اگر تمہارے ناخن پرسرکارگوھرشاہی کا چہرہ،تمہاری آنکھوں پر سرکارگوھرشاہی کی آنکھیں اور تمہارے وجود میں سرکارگوھرشاہی کا وجود نہ سمایاتوتمہیں نسبتِ گوھرشاہی حاصل نہیں ہوئی۔درخت افضل اس لئے ہوا کہ سرکارگوھرشاہی وہاں بیٹھے لیکن سرکار گوھرشاہی تمہارے دل میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔تمہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں سرکارگوھرشاہی کو اپنے اندر بلالیتاہوں۔اگر کسی انسان کے اندر سرکار کے جلوے جاں گزیں ہوجائیں اورپھر اس انسان کے ہاتھ چومیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ شرک ہے اور درخت کو سجدہ کرلیں گے تو خیر ہے،یہ جہالت اور باطنی علم سے ناواقفیت ہے۔اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ دینِ الٰہی میں لکھا ہے کہ “یہ وہ گوھرشاہی ہیں جولال باغ گئے ہیں”تو کوئی اور بھی گوھرشاہی ہیں جو لال باغ نہیں گئے۔جو عالمِ غیب سے آیا ہے اور اُس سے نسبت جڑ جائے گی تو تمہارا قبلہ تمہیں اُدھر کھینچے گا لیکن کوٹری کی طرف نہیں کرے گا۔یہ بات صرف اُن کو سمجھ آتی ہے جن میں سرکار گوھرشاہی کا نور آگیا ہے۔اللہ ھو کا ذکر کرنے سے جو کوٹری شریف میں سرکار گوھرشاہی کا جلوہ دیکھا ہے اور جو جلوہ لال باغ سے آیا ہے اُس سے نسبت ہوجاتی ہے۔لیکن وہ جو عالمِ غیب سے آئے ہیں اُن سے شناسائی کا ایک بہت بڑا معمہ ہے۔اُس جلوے کو نہ اولاد جانتی ہے اور نہ باپ جانتا ہے بلکہ اُس سے نسبت اُس کو ہوتی ہے جس کو کوئی ایسا مل جائے جو اُن سے جڑاہوا ہو۔

روح کی معراج:

سرکار گوھر شاہی نے دینِ الٰہی میں رقم فرمایا کہ” آخری زمانے میں رب کسی ایک خاص روح کو بھیجے گا اور وہ روح رب کا ایک خاص نام عطا کرے گی اور پھر دوبارہ تمہارا تعلق رب سے جڑ جائے گا۔ وہ خاص نام ایک نیا جوش،نیاولولہ اور ایک نئی محبت عطا کرے گا۔وہ نام تمہارے دلوں سے گزرتا ہواتمہاری روحوں تک پہنچ جائے گا”۔ وہ خاص نام الرٰ میں چھپا ہوا ہے۔جب الرٰ والا نام تمہاری روح میں چلا گیا تو تمہارا رب سے تعلق جڑ جائے گا اور یہ تمہاری روح کی معراج ہوگئی۔

مرتبہ کیا ہے؟

ایک دن اللہ کو خیال آیا کہ میں اپنے آپ کو دیکھوں تو اُس کا عکس پڑا اور اللہ اُس کے اوپر عاشق ہوگیا۔سات دفعہ جنبش کھائی اور ہر جنبش پر جو نور نکلا وہ مجسم ہو کے ایک روح کی شکل اختیار کرگیا اور وہ طفلِ نوری کہلایا۔اُس کو عکس اول کہتے ہیں اوراُس عکس اول کے اوپر ہی اللہ تعالٰی شیدا ہواتھا۔جو سات سلطان ہیں وہ ان سات روحوں سے متعلقہ ہیں اور ان کو طفلِ نوری کہا گیا ہے۔جو عکسِ اول ہے مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ حضورﷺکے اندر ہے اور عیسائی ولیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ عکسِ اول عیسٰیؑ میں ہے اور ہندو ولیوں کا خیال ہے کہ وہ عکسِ اول کرشن مہاراج میں ہے۔قرآن مجید میں اس کے بارے میں آیا ہے کہ

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِوَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرلَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
سورۃ القدر آیت 1تا4

لیلۃلیل سے نکلا ہے اور عربی میں لیل کا مطلب ہے رات، اندھیرا اور چھپی ہوئی چیز۔لیلۃ القدر کا مطلب ہے چھپی ہوئی طاقت۔إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِکہ اُس کو بڑی چھپی ہوئی طاقت کے پردے میں ہم بھیجتے ہیں اور بڑے بڑے پردے ڈال کر بھیجتے ہیں کہ کوئی اسے پہچان نہ لے۔وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرکہ تمہیں ادراک ہی کیسے ہوسکتا ہے لیلۃ القدر کیا ہے۔لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍکہ لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍکہ ملائکہ کے جھرمٹ میں وہ خاص روح نیچے آتی ہے۔
یہ کلام حضورﷺکےاوپر نازل ہوا تو اگرحضورﷺوہ روح ہیں تو اُس روح کے زمین پرآنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ پہلے نیچے نہ ہو کیونکہ وہ اوپر سے آئے گی۔اس لئے وہ حضورﷺنہیں ہیں۔ایک دن رمضان میں میرے پاس سرکارگوھر شاہی کی امانت تھی تو میں واپس دینے گیا تو سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ تم بیٹھو میں آتا ہوں اور جاتے جاتے فرمایا کہ ڈرنا مت میں ابھی آتاہوں۔جب سرکارگوھرشاہی کمرے سے باہر گئے تو سرکارگوھرشاہی کے بسترپر تازہ تازہ گلااب کی پتیاں تھیں۔میں ان پتیوں پراپنی اُنگلی پھیر رہا تھا تو مجھے جھٹکا لگا۔ پھر میں نے دیکھا کہ نور کا ایک گولہ آہستہ آہستہ نمودار ہوا جیسے پھول کھلتا ہے اور اُس میں سے شعائیں نکلتی رہیں اور جب نور کا گولہ کھل گیا تو وہاں سرکارگوھرشاہی بیٹھے ہوئے تھے۔یہ خواب نہیں ہے بلکہ ظاہر میں ہے۔جو سرکارگوھرشاہی نور کے گولے سے ظاہر ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ایک اور نور کا گولہ تھا۔سرکارگوھرشاہی نےفرمایا کہ اسے دیکھو لیکن اُسے دیکھا ہی نہیں جارہاتھا اور میں رونے لگ گیا۔جب میں رویا تو پیچھے سے سرکار گوھرشاہی واپس آچکے تھے۔سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ کیوں ڈررہے ہو تو میں نے وہ واقعہ بیان کردیا۔پھر سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ وہ ہمارا ہی بندہ ہے اس سے پردہ نہیں ہے تو وہ منظر دوبارہ سامنے آگیا۔جو دوسرا نور کا گولہ تھا وہ پھلجری کی طرح کھلنے لگا اور اُس میں سے ایک اور وجود برآمد ہوا۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اُس نے اسے دیکھ کر سات دفعہ جنبش لی تھی۔جس نے اسے دیکھ لیا وہ امر ہوگیا۔جو پہلا گولہ تھا وہ سرکارگوھرشاہی کا لطیفہ قلب تھا جس میں سے وہ دوسرا گولہ برآمد ہوا۔جو ہم نے دستارِ فضیلت کا معاملہ شروع کیا وہ اُسی گولے سے ہم نسبت جوڑ رہے ہیں۔جس سے سرکارگوھرشاہی راضی ہونگے اُسی کیلئے دستارِ فضیلت ہے۔راضی ہونے کی شرائط یہ ہیں کہ وہ دل و جان سے سرکار گوھر شاہی کا غلام ہو،سرکار کو امام مہدی تسلیم کرتا ہو،اُس کا سرکار کے مزار سے کوئی تعلق و رشتہ وتعظیم نہ ہو،وہ زندہ گوھرشاہی کا غلام ہو،وہ ابوالحیات گوھرشاہی کا غلام ہو، وہ سرکار کے دوبارہ آنے کا منتظر ہو، پرچارِمہدی کرے،یہ سب کچھ کرنا اُس کیلئے سعادت مندی ہو اور موت کے حوالے سے اُس کا گمان یہ ہو کہ جب مروں تو سرکارگوھرشاہی کا جلوہ سامنے ہو۔اس سے بہتر موت نہیں ہوسکتی۔ دستارِفضیلت اُس جلوے سے جوڑنے کا نام ہے اور جوامام مہدی والا اسمِ ذات الگ سے عطا کیا تھا وہ بھی وہیں سے ہے۔اُسی گولے کے بارے میں سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ جس کے دل میں نور ہوگا وہی امام مہدی کو پہچانے گا کیونکہ امام مہدیؑ نور کا گولہ ہیں۔جس کے دل میں نور ہوگا وہ گولہ اُس کو اپنی طرف کھینچ لےگا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے20 مئی 2019 پندرہ رمضان یومِ مہدی جشن شاہی پریو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس