- 1,610وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
رب الارباب اورمرتبہ مہدی کے حوالے سےاُلجھنیں:
ہم سرکار گوہر شاہی کو امام مہدی مانتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ ہم سیدنا گوھر شاہی کو رب الارباب بھی مانتے ہیں بہت سے لوگوں کے لیے یہ باتیں الجھن کا باعث ہونگی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف کہہ رہے ہو وہ رب الارباب ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہو کہ ایک مرتبہ ایسا ہے جو اللہ کی طرف سے ہے تو یہ کیسے ممکن ہے ، ان باتوں سے لوگ اورخصوصی طور پر وہ لوگ جو نئے نئے اِس گفتگو کو سننے آتے ہیں انکا ذہن اِس چیز کو قبول نہیں کرتا ۔ہم نے کئی دفعہ اِس موضوع پر بات کی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ہم سرکار گوہر شاہی کو رب الارباب جو مانتے ہیں وہ ہمارا اپنا بنایا ہوا نظریہ یا ہمارے دماغ کا خلل ہے یا پھر اگر کوئی یوں سمجھتا ہو کہ سرکار گوہر شاہی نے ہم کو کہا ہو لہذا یہ سب بے چارے مان رہے ہیں ، ایسا بھی نہیں ہے۔اتنی بڑی بات ایک تو مان لینا اور پھر اتنی بڑی بات کا پوری دنیا میں بنا ءکسی ثبوت اور دلیل کے پرچار کرنا پاگل پن کہلائے گا ۔ اگر ہم اس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ یہ بات حق کے ساتھ ثبوت رکھتی ہے ،دلیل رکھتی ہے ، اتنی مشکل بات نہیں ہے کہ آپ سمجھ نہ سکیں ۔
جسطرح کسی ایک ملک میں ایک ہی پرائم منسٹر ہوتا ہے اور اگر اسکے بارے میں یہ کہا جائے پاکستان میں اِس وقت نواز شریف کے علاوہ اور کوئی پرائم منسٹر نہیں ، یہ بات صحیح ہے۔ لیکن اگر کل آپ آکر کہیں نہیں جی ہم نے زی ٹی وی پر سنا ہے کہ مودی کو بھی لوگ پرائم منسٹر کہہ رہے ہیں تو آپ کا جواب یہ ہوگا “بے وقوف تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ نواز شریف پاکستان کا پرائم منسٹر ہے اور مودی انڈیا کا پرائم منسٹر ہے ” ۔پھر یہ سن لیں کے ایک گوری ٹریسا مے کو بھی کچھ لوگ پرائم منسٹر کہتے ہیں کیونکہ وہ برطانیہ کی پرائم منسٹر ہے پھر اگرایک اور کہانی لے آئیں جسٹن ٹروڈو اسکو بھی لوگ پرائم منسٹر کہہ رہے ہیں ہاں تو اِس میں اچھنبے کی کیا بات ہے وہ کینیڈا کا پرائم منسٹر ہے۔لیکن اگر ایسا شخص جسکے پاس نہ انٹرنیٹ ہو، نہ ریڈیو، نہ ٹی ہو ، نہ اسکی اخبار تک رسائی ہو اور وہ کسی ملک کے گاؤں دیہات میں بستا ہو ، نہ اسکی کوئی تعلیم ہو نہ کسی نےاسکو کبھی بتایا ہو تو وہ یہ ہی سمجھے گا نواز شریف ہی ساری دنیا کا پرائم منسٹر ہے۔
اس جہان کے علاوہ بھی کئی اور جہان ہیں:
جب قرآن مجید پڑھتے ہیں تو آپ کا یہی گمان ہوتا ہے کہ اللہ نے جو کہہ دیا۔وَ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌۚۚ۔۔۔۔۔۔کہ تمہارا لٰہ میں ہوں ۔اس سے آپ یہ سمجھے کہ اِس دنیا، اِس جہان کے علاوہ کوئی اور جہان نہیں ہوگا کیونکہ آپ کی دسترس ہی نہیں ہے ۔ آپ کو کسی دوسرے جہان کی کوئی اطلاع ہی نہ ہو لہذا آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کوئی دوسرا جہان بھی ہو سکتا ہے ۔پھر جب یہ کہہ دیا گیا کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ نہیں بتایا گیا کہ معبودیت کا دائرہ کار کیا ہے اور یہ کہاں کہاں لاگو ہوتا ہے ، کیا اِس خطے کی کوئی حد ہے جہاں پر اُس کو معبود مانا جائے گا ۔ اِس کا تصور، اِس کا خیال تو آپ کو کبھی نہیں آیا ، بس یہ جو محرومی ہے یہ جاننے کی محرومی کہ جس جہان میں ہم رہتے ہیں اس جہان کے علاوہ کوئی اور جہان ہو سکتا ہے اور اسکا کوئی اور بنانے والا ہو سکتا ہے ؟ یہ علم نہ ہونے کی وجہ سے ہماری دنیا کے مذہبی لوگ بہت زیادہ سخت ہیں ۔
صرف مسلمان ہی یہ نہیں کہتے کہ اللہ ایک ہے ، یہودی کا بھی یہی عقیدہ ہے یہاں تک کہ عیسائی کا بھی یہی عقیدہ ہے اور سکھ بھی کہتے ہیں “اک اونکار” یعنی سب کا یہ ہی عقیدہ ہے لہذا آپ کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا ہے کہ بس ایک ہی بنانے والا ہے اور یہ ہی جہان سب کچھ ہے ۔ لیکن اگر آپکو کہا جائے یہ جو بھی کائنات بنی ہوئی ہے اس کائنات سے باہر کہیں نہ کہیں تو یہ کائنات قائم ہے۔جس طرح زمین سے اڑ کر خلائی جہاز اوپر جاتا ہے تو مختلف ستارے اورمختلف سیارےجیسے عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اور اسکے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے پتھر جنھیں اجرام فلکی بھی کہا جاتا ہےفضا میں گردش کررہے ہیں اسی کو آپ خلاء سمجھتے ہیں۔لیکن کیا کسی نے اسکی وسعت کا اندازہ لگایا ہے کہ یہ کتنا بڑا ہو گا؟ جو آپ اللہ تعالی کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اللہ کی لا انتہا طاقت ہے وہ قادرِ مطلق ہے تو کیا یہ جو جہان بنایا ہے اسکی آپ کوئی حد نہیں سمجھتے؟ یہ جو سات جنتیں بنائیں ہیں انکی بھی کوئی حد ہو گی ا ورنہ اللہ ایک ہی جنت میں سب کو فٹ کر دیتا ۔
فرض کیا جس طرح آپ یہ چاہیں کہ میں کوئی گھر بناؤں ، فرض کریں پوری دنیا کھلی زمین ہے اور اِس پوری دنیا میں کوئی گھر ،کئی عمارت نہیں ہے سوائے ایک گھر کے تو آپ کہیں گے اس گھر کے علاوہ پوری دنیا میں کوئی اور گھر نہیں ہے ، صحیح ہے مان لیتے ہیں لیکن وہ ایک گھر بھی تو کسی چیز پر بنا ہوا ہے ، اسی طرح یہ جوکائنات بنی ہوئی ہے یہ پورا نظام جو بنا ہوا ہے یہ کون سے نظام کے اندر بنا ہے؟ ہوگا نا! کسی نہ کسی نظام کے اندر تو یہ بنا ہو گا، ورنہ مسئلہ حل نہیں گا ۔جب ہم کہتے ہیں لا مَوْجُودَ الا الله۔۔۔۔ اسکے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا ۔
چلو اللہ کی بات بعد میں کر لیں گے ، اگر یہ کہاجائے کہ اللہ کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کہاں تھا ؟ اسکے علاوہ کوئی موجودنہیں تھا تو وہ کہاں تھا؟ اسکا مطلب ہے آپ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ اسکا مطلب کیا ہے۔لا مَوْجُودَ الا الله۔اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے سوا کچھ نہیں تھا تو پھر اللہ کہاں پرموجودتھا؟ کیا اللہ کے بارے میں ہم یہ گمان کر لیں کہ وہ عدمیت (جب کچھ موجود نہ تھا) میں تھا ۔
دنیا کے اِس وجود سے قبل اللہ ایک چھپے ہوئے خزانے میں تھا:
کنت کنزاً مخفیاًیعنی میں ایک چھپے خزانے میں پوشیدہ تھا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی یہ جو فرما رہے ہیں کہ وہ چھپے ہوئے خزانے میں تھاتو اس وقت تک ہم کو تو بنایا ہی نہیں تھا پھر یہ بھی کہا لا مَوْجُودَ الا اللهمیرے علاوہ کوئی تھا نہیں تو پھر وہ چھپا خزانہ کس سے مخفی تھا ؟
یہ سوالات آپکے ذہن میں آئیں گے لیکن آپکےمولویوں کےپاس کوئی جواب نہیں سوائے اسکے کہ چپ ہو جاؤ کفر بک رہے ہو۔ جب انسان کے پاس جواب نہیں ہوتا اور اسکو یہ بھی پتا ہوتا ہے میری غلطی ہے تو اُسکی انانیت اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کر لے لہذا وہ غصہ دکھاتا ہے ،گالی دیتا ہے۔ بے تکا غصہ کسی کو نہیں ہوتا، غصہ یا تو خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ کہیں وہ بے نقاب نہ ہو جائے پھر اسکو معافی مانگنی پڑے گی ، میں نیچا ہو جاؤں گا ، میں اتنا پارسا اور نیک ہوں ، یا پھر غصہ آپکو اپنی محرومی کی وجہ سے آتا ہے، آپ کے پاس فیض نہ ہو علم نہ ہو ، آپکی رسائی وہاں تک نہ ہو تو آپکو غصہ آئے گا، لیکن اگر آپ غور فرما لیں اور اپنا سارا علم یہاں صرف کر دیں اور دیکھیں کہ یہ جو حدیث قدسی ہےکنت کنزاً مخفیاً کہ میں چھپے ہوئے خزانے میں تھا ، تو جس وقت یہ خزانہ تھا اُس وقت“ میں اور آپ ”تو تھے نہیں کیونکہ اللہ نے تو اُس وقت کسی کو بنایا ہی نہیں تھا ، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ چھپے ہوئے خزانے میں تھا اور اس نے حکم دے کر رکھا تھا کہ کائنات بنا کر رکھو میں باہر آ رہا ہوں ۔تو کوئی تو ہو گا جس سے یہ مخفی تھا ، اگر آپکے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں تو اللہ مخفی کس سے تھا ؟
یہاں اللہ اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا ، میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو اور اسی لئے میں نے یہ سب جہان تخلیق فرمائے ۔ اگر اللہ چھپا ہوا خزانہ تھا تو یہ خزانہ کہیں کسی جگہ یا کسی عالم میں رکھا ہوا ہوگا ، یہ خزانہ خلاء میں تو لٹکا ہوا نہیں تھا ۔ یعنی ایک جہان پہلے سے موجود تھا جس میں وہ خزانہ رکھا ہوا تھا اور اس دنیا کا خالق اس خزانے کا ایک حصہ تھا ۔ دوسری بات کہ اللہ نے اپنے اس قول میں کسی ہیرے یا موتی کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ خزانے کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے ۔ خزانہ بیشمار لعل و جواہر اور ہیرے موتیوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یعنی اللہ اگر ایک موتی تھا تو اسکے ساتھ اس جیسے اور بھی کئی موتی تھے ۔ یہ سب عالمِ غیب کی طرف اشارہ ہے جہاں اس دنیا کے خالق سمیت ساڑھے تین کروڑ افراد پر مشتمل اللہ برادری رہتی ہے ۔ اس اللہ نے چاہا کہ اسکی الگ سے پہچان ہو اور رب الارباب کی طرح اسکی بھی عبادت کی جائے ۔ تب اس نے اپنے معبود سے اس خواہش کا اظہار کیا اور اسکے رب نے اسےامرِ کن کی طاقت عطا فرمائی ۔ پھر اس نے اپنے رب کی اجازت سے عالم غیب سے نکل کر امرِ کن کے ذریعے یہ تمام جہان اور اسکی مخلوقات کو بنایا تاکہ اسکی عبادت و بندگی کی جائے ۔
مثال کے طور پر آپ اپنے بیڈ روم ، باتھ روم میں ننگے گھومتے ہیں اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے ، کیونکہ کمرے نے آپکو چھپا رکھا ہے اگر باہر ننگے گھومیں گے تو لوگ آپکو پاگل کہیں گے۔ یعنی آپکو معلوم ہےکہ آپ کپڑے اس لیے پہن رہے ہیں کہ باہر لوگ ہیں یا موسم کی وجہ سے پہن رہے ہیں ، لیکن اگر موسم معتدل ہو نہ گرمی ہو نہ سردی ہو ، ٹھنڈ بھی نہ لگے بلکہ گرمی لگ رہی ہو تو ایسے موسم میں باہر کے ممالک میں لوگ ننگے ہو جاتے ہیں اسکے باوجود کچھ نہ کچھ پہنتے ہیں ، اسی طریقے سے اگر اللہ چھپا ہوا ہے تو وہ چھپا ہوا کہاں ہے؟
عالم غیب میں چھپا ہوا خزانہ کیا تھا؟
یہ کائنات کے وہ راز ہیں جنھیں کبھی منکشف نہیں کیا گیااور جب راز کھولے جاتے ہیں تو اُن کی قیمت بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔اب یہ راز کھولتے ہیں تو مصیبتیں آتی ہیں لیکن مصیبتیں تو پہلے ہی ہیں اب کیا ڈرنا ہے۔ یہ راز آج آپ جان لیں کہ
“عالم ِغیب جہاں اللہ کی برادری مقیم ہے ، جہاں سب کو بڑی بڑی جاگیر دی ہوئی ہے ،وہیں عالم غیب میں ایک خطہ ایسا بھی ہے کہ جہاں صرف اُن لوگوں کو جگہ دی ہوئی ہے جو مرتبہ ربوبیت پر فائز ہیں اور اللہ کی برادری میں کسی کو پتا نہیں کہ یہاں کیا ہے اورکون رہتا ہے، نہ انکو اجازت ہے کہ انکے ساتھ گھلیں ملیں ،تم کو دے دیا ہے امر ِکن بس اب تم الگ ہو جاؤ۔عالم غیب کا وہ جو خطہ ہے ضروری نہیں ہے کہ اُس خطے سےعیسیٰ ،ادریس اور الیاس (یہ تینوں اللہ برادری کے فرد ہیں )بھی واقف ہوں۔ عالم غیب میں ایک خاص جگہ ہے جہاں انکو رکھا گیا جو مرتبہ ربوبیت پر ہیں تاکہ دوسروں کو اشتباہ نہ ہو کہ ہمیں بھی دے دیں ۔اس حدیث قدسی میں اُس خطے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک مقام ہے میں تو“ یہاں ” تھا۔ اللہ کی برادری کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُس خطے میں کون ہے، اُس خطے میں انہی کو رکھا جن کو امر ِکن دیا گیا تھا ۔ لہذا کہا گیا کنت کنزاً مخفیاً کہ میں چھپے ہوئے خزانے میں تھا ،خزانہ کیوں کہا کہ وہاں پر وہ لوگ تھے جن کے پاس امر ِکن کی طاقت تھی ،امر کن کی طاقت کو خزانہ کہا گیا ہے۔ تو پھرچھپا ہوا یہ کیوں تھا تاکہ باقی اللہ برادری کے افراد کو اِس کا پتا نہ چلے اُن سے چھپا ہوا تھا ، یہ الگ خطہ ہے”
اللہ کی خصوصیات اور صفات کا اظہار حسب ضرورت:
اب یہ سمجھنا ہے کہ اللہ اُس چھپے ہوئے خزانے سے باہر نکلا اور پھرباہر نکل کے انہوں نے دو کام کئے، سب سے پہلے جو کام کیا وہ تھا“ اظہار” اظہار کیا ہوتا ہے؟
مثال:
آپ کسی سے شادی کرتے ہیں شروع شروع میں وہ عورت ٹھیک ہوتی ہے ، بات بھی سنتی ہے ،کھانا بھی بناتی ہے ، کپڑے بھی دھوتی ہے ، پھر جیسے جیسے اُسکو پتا چلتا ہے آپ شریف آدمی ہے تو اپنا اصل رنگ دکھاتی ہے، برتن توڑتی ہے غصہ اورفتنہ کرتی ہے ، یہ خصوصیات اُسکے اندر تھیں لیکن اُن خصوصیات کا اُنہوں نے اظہار نہیں فرمایا تھا ۔ دوسری مثال ، جیسا کہ لالچ ہے،جب تک ترغیب نہیں ہونگی تو لالچ آپکے اندر چھپا رہیگا ، تیسری مثال، فرض کیا آپ انتہائی درجہ کے شریف لوگ ہیں لیکن اگر آپکے سامنے بیلے ڈانسر آجائے اور بھڑکیلے لباس میں رقص شروع کر دے تو نتیجے کے طور پر آپکے نفس سے شہوت کی لہریں نکلنے لگ جائیں گی، لیکن اگر ابھی قرآن و حدیث پڑھتے ہوئے کہا جائے کہ چلو شہوت کا اظہارکروتو نہیں ہوگا۔ وہ موقع آئیگا جو شہوت کے اظہار پر مجبور کرتا ہے توپھر اُس کاا ظہار ہو گا۔ جب تک اُس لمحے میں داخل نہیں ہونگے اس کیفیت میں داخل نہیں ہونگے اُس وقت تک آپ میں کیا خصوصیات ہیں ان کا اظہار نہیں ہوگا۔
اُسی طرح اللہ تعالی نے چھپے ہوئے خزانے سے نکل کر سب سے پہلے” اظہار “کیا ہے۔جب گرمی ہوتی ہے آپ سے برداشت نہیں ہوتی تو آپ قمیض اتار دیتے ہیں تو آپکے جسم کا اظہار ہوتا ہے کہ کیسا ہے، اُسی طرح
“اللہ کے من میں یہ خواہش تھی کہ انکو پوجا جائے ،انکی تابعداری کی جائے اِس خواہش کے پیش نظر ربوبیت کا اظہار ہوا ”
جیسے گرمی لگی قمیض اتری تو آپکے حسن یا بھدے پن کا اظہار ہوا ،اُسی طرح انکی خواہش تھی کہ پوجا جائے پہچانا جائے لہذا ربوبیت کا اظہار ہوا۔ تو دو کام ہوئے ایک تو “ اظہار” ہوا اور ایک “نزول” ہوا جو اظہار ہوا وہ انکے اپنے لئے تھا اور جو نزول ہوا وہ مخلوق کے لئےتھا۔ پھر جس سے اللہ نے دوستی کرنا چاہی انکو وہ چیزیں دیں جو اظہار والی تھیں اور یہ جو اسم ذات ہے یہ نزول میں سے ہے ،ا گر کوئی اللہ کا دیدار بھی کر لے تب بھی اللہ سے بہت دور ہے ،کیونکہ وہ اُس چیز سے منسلک ہوا ہے جو نزول کے طور پر آئی تھی ، اسم ذات کے نور سے منور ہو کر دیدار تک گیا تو تیری منزل نزول کی وجہ سے قائم ہوئی اور اگر کوئی اظہار والی چیز تیرے اندر آ جاتی تو پھر تو واصلین میں سے ہوتا ۔ جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری یہ اظہار والی مخلوقیں ہیں ۔
اب کتنا اظہار انہوں نے کیا، کتنا اظہار انہوں نے نہیں کیا اس پر گفتگو کرتے ہیں ۔اللہ تعالی کو یہ خیال نہیں آیا کہ کوئی سامنے ہےمیرے اسکے اوپر میں ترس کھاؤں اور وہ میرے جیسا میں اسکے جیسا ہوں مساوات کا اظہار کروں ،وہ اظہار نہیں ہوا، اب اللہ کبھی بھی کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اظہار ہی نہیں ہوا ہے جو اظہار ہونا تھا وہ اظہار کرچکے اب اظہار نہیں ہوگا، لہذا قرآن مجید میں آیا ہے:
وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُواً أَحَدٌ
اور نہ ہی کوئی ایسا ہے کہ جو اُس کے جیسا ہو۔
یہ اُس لمحے کا کلام ہے کہ جس لمحے انہوں نے مخلوق بنائی ہے اور حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ جب انہوں نے مخلوق بنائی ہے اُس مخلوق میں کوئی بھی اُن جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن تم اِس کو حقیقت سمجھتے ہو کہ سارے حقائق کو یہ بات ڈھانپ رہی ہے کہ کوئی اُس جیسا نہیں ، حالانکہ وہ اُس لمحے کا کلام ہے کہ جب اللہ نے مخلوق بنائی اور کہا اُن میں سے کوئی میرے جیسا نہیں ہے ،یہاں اللہ کسی اور کا ذکر کر ہی نہیں کر رہا وہ تو آپ کا ذکر کر رہا ہے۔ کیا انسان اللہ جیسا ہے؟ انسان تو مٹی کا بنا ہوا ہے، تو یہ بات تو بہت بڑی ہو گئی وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُواً أَحَدٌ
تو اب یہ مسئلہ کیا ہے کہ وہ جو برابری اور مساوت کا اظہار ہوا نہیں ، اظہار ہوا ہے ربوبیت کا ، اظہار ہوا ہےعشق کا اظہار ہوا ہےمحبت کا ، اظہار ہوا ہے ربوبیت کا، مساوات کا اظہار نہیں ہوا کیونکہ اسکی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اظہار مساوات یا برابری کا ہوتا کہ ہم سب برابر ہیں تو اُس وقت ہوتا کہ جب اسکی ڈیمانڈ ہوتی اور ڈیمانڈ تب ہوتی جب اس کی ضرورت ہوتی ، مساوات کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سامنے مخلوق بنائی ہے اور مخلوق کے سامنے مساوات کا اظہار ہو نہیں سکتا۔ لہذا یہ اظہار ہوا نہیں جس قدر اظہار ہوا ہےاولیاء ، فقراء ، عشاق وہی خصوصیات اللہ کے ساتھ بطور الٰہ شامل کرتے ہیں ۔ جو میں آپ کو بتا رہا ہوں وہ بات اولیاء ، درویش، فقیر ، سلطان کی نہیں ہے وہ بات عالم غیب کی ہے وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں ،
“جو کچھ اسمائے الہی قرآن میں اللہ کے آئے ہیں ، جو صفات کا اظہار ہوا ہے اسی کو کُلی طور پر اللہ کا وجود نہ سمجھیں یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ابھی تو “بہت کچھ ” اللہ کی ذات میں ایسا ہے کہ جس کا اظہار ہوا نہیں ۔ لہذا آپ کیسے کہیں گے کہ میں اللہ کو جانتا ہوں ”
ھو الظاہر اور ھو الباطن کا راز:
جس طرح یہاں دو گھنٹے میری روحانیت پر گفتگو سنتے ہیں تو میرا ایک ہی رخ جانتے ہیں کہ میں روحانیت پر گفتگو کرتا ہوں اگر آپ نے کبھی مجھے کرکٹ کے موضوع پر بات کرتے نہیں سنا تو تصور میں بھی نہیں آئیگا اور اچانک دس بیس سال بعد آپ دیکھیں کہ میں کرکٹ گراؤنڈ میں بیٹھا ہوں اور صرف کرکٹ پر بات کر رہا ہوں تو آپ اچھنبے میں آ جائیں گے پریشان ہو جائیں گے کہ ارے ایسا تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا ۔ جس طرح اگر یہ کہا جائے کہ اللہ بھی زمین پر گھومتا پھرتا ہے تو کہیں گے یہ کیا بات ہوئی اللہ کیوں زمین پر گھومے گا یہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ آپ نے ایسی باتیں سنی نہیں ، اللہ کے گھومنے پھرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔
مثال:
1996میں جب سرکار گوہر شاہی امریکہ تشریف لے گئے تو میں امریکہ جا نہیں سکا مجھے انہوں ویزا نہیں دیا ۔ سیدنا گوھر شاہی امریکہ تشریف لے گئے دل اداس تھا ،تو ایک دن کیا ہوا کہ میں دو پہر میں سو رہا تھا اور خواب دیکھا ، خواب بھی بڑا عجیب و غریب ، دیکھا کہ میں نیو یارک میں ٹائمز اسکوائر پر پیدل چل رہا ہوں کبھی اِدھر کبھی اُدھر جا رہا ہوں اور وہاں بڑے بڑے سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں ،الٹے ہاتھ پر سینما ہال بھی ہے وہاں اندر گھسا، یہاں وہاں گیا ایک وہاں فارمیسی ہے جسکا نام رائٹ ایڈ ہے اس میں گیا، پھر ایک کارکرائے پر لی اور گاڑی چلائی۔ دوسرے دن جب یہ خواب سرکار کو سنایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے اب مجھے ویزے کی ضرورت نہیں ہے، سرکار نے فرمایا ، نہیں یار تمہیں ویزے کی ضرورت نہیں ہے آ جاؤ، جب 1999 میں پہلی مرتبہ امریکہ گیا تو جو میں نے خواب میں دیکھا تھا جب میں وہاں پہنچا تو جیسے میں نے اس وقت خواب میں دیکھا تھا ویسا ہی وہاں جا کر دیکھ رہا ہوں ، خواب میں رائٹ ایڈفارمیسی میں گیا تو وہاں جا کر دیکھا ، یعنی مجھے فرق محسوس نہیں ہوا کہ میں خواب میں آیا تھا یا جسمانی طور پر گیا تھا، پھر مسجد نبوی کابھی واقعہ ہوا، خانہ کعبہ کا واقع ہوا، ابتدائی دور میں ، میں سیدنا گوھر شاہی سے مل کر محفل میں چلا گیا جہاں دیر ہوگئی اور رات کے تین چار بجے گھر پہنچا اور دیوار پھاند کر نیچے آیا اور چارپائی پر لیٹ گیا، ابھی لیٹا ہی تھا ، غنودگی کا عالم تھا اور میں نے ظاہر میں دیکھا کہ کچھ لوگ سفید سفید لباس میں آئے ہیں اور چارپائی کو چاروں طرف سے اٹھا لیا میں نے کہا کہاں لے کر جا رہے ہووہ خاموش رہے اور چارپائی کو جہاز کیطرح اڑا کر آسمان پر لے گئے باقاعدہ دیکھا کہ کلفٹن آیا پھر سمندر سے گزرے پھر گرم ہوائیں آنے لگ گئیں پھر مکہ آیا پہاڑوں سے گزرے اور بالکل خانہ کعبہ کے اوپر چارپائی آ گئی تو فرشتوں نے کہا حکم ہوا تھا کہ تم کو یہاں لے کر آئیں تو میں نے کہا، میں نے دیکھ لیا ہے ، مجھے ڈر لگ رہا ہے واپس لے چلو۔وہاں طواف ہوتے دیکھا ، حجر اسود کا مقام ، اور سب کچھ دیکھا ، پھر وہ مجھے لے گئے، دو چار دن بعدمسجد نبوی لے گئے، مسجد نبوی کا سارا صحن اور محرابیں اور اندر جب جاتے ہیں تو جو گول گول سونے کی تختیاں لگی ہیں پتا نہیں اب ہیں یا نہیں پہلے تو تھیں ،جن پر ابو بکر صدیق ، عثمان غنی ،عمر بن خطاب اور محمد یہ سب لکھا ہوا ہے،وہ پلیٹیں گھومتی نظر آتی ہیں اور روضے کا وہ مقام اس پر جاتا ہوں ، میں نے سنا ہے وہاں ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں وہاں جا کر کھڑا ہوا معطر معطر ٹھنڈی ہوائیں آنے لگی، بعد میں لوگوں سے میں نے پوچھا کیا ایسی جگہ بھی ہے وہاں پر تو لوگوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔
جب انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو جاتا ہے تو پھر فرق نہیں پڑتا ، اسی طریقے سے اللہ تعالی وہاں بیٹھے بیٹھے یہاں خواجہ اور داتا کے روپ میں گھومتا ہے جیسے میں نیو یارک گھوم کے آیا ، جیسے میں مسجد نبوی گھوم کے آیا۔ کہتے ہیں حضور کے عاشق کو شوق ہوتاہے تو خواب میں مدینہ دیکھ لیا ، لیکن ادھر تو نیو یارک کی بھی مثال ہے ، ہر عاشق مصطفی کی نیو یارک جانے کی خواہش تو نہیں ہوتی نا ، ٹائمز اسکوائر پر کیوں جائے گا، تو اب ان کے ذریعے اللہ وہاں بیٹھا سب جانتا ہے ، یہ مکہ ہے یہ مدینہ ہے، یہ کوٹری ہے، پتا نہیں کس کس کے روپ میں وہ گھوم گیا اور دیکھ لیا، اور اسی طرح گھومنے پھرنے کواس نے قرآن میں کہا ہے ھو الظاہر،ھو الباطن اور جو اوپر بیٹھا ہے اسکو اس نے کہا ہے ھو الباطن ۔
“ایک نقطہ جو سمجھنا بہت اہم ہے کہ جو اللہ کی خصوصیات اور صفات کا اظہار ہوا ہے وہ حسب ضرورت ہوا ہے اِس پر اکتفا نہ کریں کہ جو کچھ اظہار ہوا ہے اللہ کی شخصیت اسی پر محدود ہے، حسب ضرورت اظہار ہوا ہے ۔ابھی تو بہت خصوصیات باقی ہیں جو ضرورت نہیں پڑی تو اظہار نہیں ہوا، لیکن جس دن تم کامل ضم ہو جاؤ گے اس کے بعد اگر کسی سے تم نے اللہ کا لفظ سن لیا تو اس کے جو مختلف رنگ ہیں جو اظہار میں نہیں آئے وہ تمہارے سامنے منکشف ہو جائیں گے”
مندرجہ بالا مضمون 10 مئی 2017 کی نشست سے ماخوز کیا گیا ہے۔