کیٹیگری: مضامین

عالمِ غیب سے کیا مُراد ہے؟

اللہ کی نظروں سے کچھ اوجھل نہیں ہے تو اللہ کیلئے تو کوئی غیب نہیں ہے۔ آپ کیلئے وہ چیز غیب ہوسکتی ہے لیکن اللہ کیلئے نہیں۔ اللہ تعالی نے امرِکن سے مخلوق بنائی۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ

کنتُ کنزاً مخفیاً فاحببت اَن اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف
فیض کاشانی، 1342، ص 33
ترجمہ: میں ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاوٴں اسی لئے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔

اللہ تعالی نے مخلوق کو بنایا، اپنا عرش بنایا، چھ عالم بنائے، ساتواں عالم انسان کو بنایا، اپنی کرسی جمائی، اپنا تخت بچھایا، عرشِ الہی پر براجمان ہوا (اُس کو عالمِ احدیت کہا گیا)، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور اُن پیغمبروں کے زریعے مختلف انسانوں کو مختلف درجے کی ہدایت دی گئی۔ کسی کو عبادت کیلئے چُنا، کسی کو شہادت کیلئے چُنا، کسی کو محبت کیلئے چُنا اور کسی کو عشق کیلئے چُنا۔ آخر میں روحانی تعلیم بھیجی گئی۔ انسان کے سینے میں اللہ تعالی نے جو خزانہ روح کا رکھا ہے شرح صدر کی تعلیم کے زریعے انسان کو اپنی ذات تک رسائی عطا کی۔ کوئی اللہ کے جلوے دیکھنے میں کامیاب ہوا، کوئی اللہ کے قرب میں جانے میں کامیاب ہوا، کوئی اللہ تعالی کی محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آخری حد جو انسان کی بنائی وہ اللہ کا دیدار، روبرو اللہ کی بارگاہ میں ملاقات، لقاباللہ اللہ تعالی سے ملاقات کرنا اور یہ اُس کی آخری رسائی کہ یہ عالمِ احدیت میں اللہ تعالی کا دیدار ہوگا تو یہ اپنی خلق کی حد قائم کردی۔ اُس کے بعد وہ خزانہ جہاں سے وہ خود آیا ہے اُس کو عالمِ غیب کہا گیا یعنی کہ یہ شہُود میں نہیں آسکتا اُس پر حدود قائم کردی۔ غیب دو ہیں:
1۔ ایک تو وہ ہے جس میں آپ کے پاس چُھپی ہوئی چیز کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے، صلاحیت حاصل کریں اور دیکھ لیں۔ وہ غیب نہیں ہے۔
2۔ غیب وہ ہے کہ جہاں پر رسائی کی حدود قائم کردی گئی ہیں کہ یہ خلق پر راز کُھل نہیں سکتا کہ اِس لکیر کے بعد خطِ عدم کے بعد کیا ہے، وہ غیب ہے۔ جو غیب ہی رہے گا اور اُس کو آپ جان سکتے ہی نہیں ہیں۔
غیب دو ہوگئے تو ایک وہ غیب جو موجود ہے لیکن نظروں سے غائب ہے اور ایک وہ غیب جو غیر موجود ہے اور نظروں سے بھی غائب ہے۔

اصل غیب وہ عالمِ غیب ہے جہاں پر اللہ کا خزانہ ہے۔

رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی باطنی تشریح:

معراج پرنبی کریمؐ اُس آخری مقام (عالمِ احدیت) پر پہنچ گئے جہاں پر عالمِ خلق پہنچ سکتی ہے۔ اُس کے بعد آگے بڑھنا اللہ کیطرف سے خارج الاِمکان ہے۔ ممکنات میں سے نہیں ہے وہاں پر اللہ نے حدود قائم کردی ہیں۔ وہ مخلوق کیلئے ہوہی نہیں سکتا تو جب حضورؐ اُس مقام پرپہنچ گئے کہ جب نبی پاکؐ نے اپنے خالق کا سب سے ذیادہ نمایاں جلوہ دیکھ لیا تو حضورؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ “مولا تیرا ٹھکانہ کہاں ہے، تُو آیا کہاں سے ہے مجھے وہ جاننا ہے”۔ اللہ کو دیکھنے کے بعد حضورؐ نے پوچھا تھا کہ تُو آیا کہاں سے ہے! اُس کیلئے کہا کہ

رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
سورة طہ آیت نمبر 114

اِس کا عربی میں مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میرے علم میں اضافہ کریں۔ رَّبِّ میرے رب، زِدْنِي مجھ میں اضافہ کر عِلْمًا اُس علم کا۔ علم میں اضافے کی بات نہیں ہورہی ہے۔ ذات کی رسائی بڑھائی جائے یہ بات ہورہی ہے۔ علمِ غیب ہے ہی نہیں کچھ، رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا مجھ میں اضافہ کر میری ذات میں کمی رہ گئی ہے، ابھی میں پورا تجھے معانقہ نہیں کر پایا ہوں۔ تیرے ایک رُخ کو میں نے سینے سے لگایا ہے۔ وہ رُخ بھی منظرِعام پرلایا جائے جو تُو پیچھے چھوڑ کرآگیا ہے۔ اپنا پتہ دے کہ کہاں سے آیا ہے، اِس کا مطلب یہ ہے۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے وہاں پر ایک بند بنا دیا ہے۔ بند اُسے کہتے ہیں جو بہاوٴ کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے جیسے آپ لوگ ابھی ہیڈفون استعمال کرتے ہیں اُس کے اندر اُنہوں نے شور کو کم کرنے کا ایک نیا نظام نکالا ہوا ہے کہ بہت سارا شور اِدھر اُدھر سے آرہا ہے تو وہ جو نئے ہیڈ فون آئے ہیں اُن کے اندر یہ اُنہوں نے سافٹ وئیر کی مدد سے کیا ہے کہ جو آپ کے اردگرد کا شور ہے اُس کو وہ فلٹر کردیتا ہے۔ اِسی طریقے سے اللہ تعالی جب اپنی کرسی پر اپنے تخت پر کہیں سے چل کرآتا ہے تو جو اُس کے غیبی جلوئے ہیں اُس کو عالمِ احدیت فلٹر کردیتا ہے۔ جب اُس کو وہ فلٹر کردیتا ہے تو وہاں پر ایک حجم قائم ہوجاتا ہے ایک خلاء رہ جاتا ہے اور نظر آتا ہے کہ اللہ کے جلووٴں میں کچھ غائب ہے۔ حضورؐ نے جب قرب میں جاکر دیکھا کہ اللہ کا تو وجود یہ ہے اور یہ جو پیچھے کا حصہ ہے یہ خالی نظر آرہا ہے اُس کو دیکھ کرکہ کہا کہ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا کیونکہ وہ فلٹر ہوگیا۔

دیدارِالہی کی اقسام:

اب آپ اسکو اِسطرح سمجھ لیں ہم مثال کے طور پر کہہ رہے ہیں حالانکہ اُس پر یہ بات فٹ کردیں گے تو پوری اُترے گی مثال نہیں ہوگی۔ اِس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب ہم فوٹو گرافی وغیرہ کرتے ہیں تو پہلے جو تصاویر آتی تھیں اُس کی ایک سمت ہوتی تھی۔ پھر اُس کے بعد دہری سمت کی تصاویر بنائی گئی، پھر اُس کے بعد تین سمتی تصاویر بنائی گئی جس کو ہم 3D کہتے ہیں۔ اِسی طریقے سے اللہ تعالی کا دیدار ہے۔ جو یہاں اِس دنیا میں بیٹھ کے امام ابو حنیفہ اور بایزید بسطامیؒ نے دیدار کیا وہ یک سمتی دیدار تھا کیونکہ آپ صرف اللہ کا سامنے کا رُخ دیکھ رہے ہیں چونکہ صرف سامنے کا رُخ دیکھ رہے ہیں تو تصور میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ کچھ اور بھی دائیں بائیں ہوگا۔ یومِ ازل کا وقت یاد کریں کہ کچھ روحیں اللہ کے دائیں تھیں وہ اللہ کے چہرے کو نہ دیکھ سکیں کیونکہ یہاں پر اب سمت کی بات ہورہی ہے۔ وہ نظارہ کثیرالاطراف نہیں تھا۔ اب اگر یہ یہاں کھڑا ہے اور ہم دائیں پر ہیں تو ہم یُوں کرکے دیکھ لیں گے لیکن بات اِسکی نہیں ہورہی۔ تم عالمِ احدیت میں جاوٴ نظارہ کرو مشاہدہ کرو، خدا کرے تمہارا ایمان سیدنا گوھر شاہی پر قائم ہو اور پھر تم سیدنا گوھر شاہی کی نظرِکرم سے عالمِ احدیت پہنچ جاوٴ اور پھر تم دیکھو کہ دیدارِالہی کتنے سمتوں کا ہوتا ہے۔ جو اِن کو دیدار ہوا وہ یک سمتی تھا کہ سامنے نظرآرہا ہے جیسے اب یہ تصویر کے جو سامنے ہے وہ ہے لیکن دائیں اور بائیں دیکھیں گے تو کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ایک سمت ہے۔ اگر یہ 3D ہو تو ایک سمت سامنے کا ہے، ایک اوپر کا ہے اور ایک نیچے کا ہے۔ پھر اوپر کیا ہے وہ بھی نظرآئے گا، نیچے کیا ہے وہ بھی نظر آئے گا اور سامنے کیا ہے وہ بھی نظر آئے گا۔ جو کہا گیا کہ حدِ نگاہ سے دُور عورتوں کی روحیں بنائیں تو اب یہاں پر ہرسمت کا ایک فاصلہ بھی ہے۔ پیچھے کی سمت، آگے کی سمت، دائیں سمت اور بائیں سمت۔ تو اِس سمت کا فاصلہ کتنا ہے اور کتنے فاصلے تک یہ سمت رہے گی اور کتنے فاصلے کے بعد یہ سمت ختم ہوجائے گی۔

قرب اِسی لئے ضروری تھا کہ خدا کو اِتنے نزدیک سے دیکھو کہ اُس کی ہر جہت نظر آسکے۔

اگر دُور سے دیکھو گے تو وہ جہت نظر نہیں آئے گی وہ سمت بیکار ہوجائے گا تو جب حضورؐ اوپر پہنچے اور حضورؐ نے جب پہلی دفعہ اللہ تعالی کی کثیرالاطراف وجود دیکھا تو اُس کی جو پیچھے کی سمت ہے اُس کے بارے میں پوچھا ہے کہ وہ بھی مجھے دکھاوٴ۔ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًاٴ کہ میرے اندر اے مولا دائیں طرف کی جہت، بائیں کی جہت، اوپر کی جہت، نیچے کی جہت مجھ میں تیرا دیدار کرکے آگئی ہے وہ جو تیرے پیچھے والی جہت ہے اُس کا بھی اضافہ کر تاکہ پورا خدا میرے اندر آجائے، اُس کی ہرہر جہت میرے اندر چلی جائے اور میں تیری توحید میں کامل ہوجاوٴں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 نومبر 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں پیرانِ حرم کی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس