کیٹیگری: مضامین

سیدنا گوھر شاہی کے جلوۂ خاص کا دنیا میں متعارف ہونا:

یوم ریاض کوئی تہوار نہیں ہے بلکہ یہ رب کی عطاؤں کے باب رحمت کا کھلنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یوم ریاض دنیا کے اختتام کا ایک منفرد تحفہ ہے ۔ سرکار امام مہدی سیدنا گوھر شاہی نے ارشاد فرمایا ۹ محرم الحرام کے دن ایک غیر معمولی جنبش سیدنا گوھر شاہی کے وجود مبارک میں نمودار ہوئی اور اس جنبشِ خاص کے نتیجے میں کچھ معاملات وقوع پذیر ہوئے۔ پہلا تو یہ کہ سرکار گوھر شاہی اس دورانیے میں وہ زبان بول رہے ہیں جو اللہ کی زبان ہے جس زبان میں اللہ جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل سے کلام کرتا ہے اور اس زبان کو “سریانی زبان” کہا جاتا ہے ۔ یوم ریاض کی خصوصیت یہ ہے کہ جب اس غیر معمولی جنبش خاص کی بابت دوسرے دن سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں سوال کی گیا تو آپ نے فرمایا کہ

اب ہم اپنی ذات سے متعلقہ اپنے اُن وجود ہائے خاصہ کو متعارف کروا رہے ہیں جن کا اس جہان سے تعلق نہیں ہے، وہ ہمارے وجود کے ایسے جلوئے ہیں جنکا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہے.

نہ اُنکا کوئی بھائی ہے ، نہ اُنکی کوئی بہن اور نہ ہی کوئی اولاد ہے کیونکہ یہ جلوئے باطن کے ہیں اور باطن کے جلوؤں کے ظاہری رشتے نہیں ہوتے ہیں ۔جسطرح سے آپکے ظاہر میں رشتے ہوتے ہیں کوئی بھائی ہے ، کوئی بہن ہے ، کوئی اولاداور کوئی باپ تو وہ آپکے جسم سے متلعقہ ہے لیکن اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کی روح کے باپ کا نام بتائیں تو آپ کیا نام بتائیں گے۔انسان کے اندر جو ارواح ہیں وہ ان ظاہری رشتوں سے ماورا ہے اسی طرح سرکار سیدنا گوھر شاہی کی ذات مبارکہ سے متعلقہ جو جلوؤ خاص ہیں ، ایسے جلوئے جنکو سرکار نے اس دن سے پہلے متعارف نہیں کروایا تھا اور ۹ محرم الحرام کو جب وہ جنبش خاص کی کیفیت ہوئی ہے تو پھر آپ نے فرمایا کہ اب ہم اپنے خاص جلوئے دنیا میں متعارف کروا رہے ہیں ۔ اب وہ جو جلوئے ہیں اُنکا اس دنیا سے تعلق نہیں ہے اسی لئے وہ اِس دنیا کے رشتوں کو نہیں پہچانیں گے ۔ سرکار گوھر شاہی کا جو ایک پہلو غالب رہا ہے وہ یہ ہے کہ آپکا تعلق گجر خان سے قریب ڈھوک گوھر شاہ سے ہے ، والد کا نام فضل حسین شاہ، شادی بھی کی ہے، بچے ہوئے ہیں اور پھر جنگل گئے ہیں اور پھر وہاں سے لوٹ کر واپس آئے ہیں ، بیوی بچوں کو پنڈی سے بلوا لیا ہے ۔ ابتدائی دنوں میں لطیف آباد ، حیدر آباد میں سکونت اختیار فرمائی اور پھر کوٹری منتقل ہوگئے اور وہاں سے مشن کا آغاز کیا ہے ۔ اُس مشن کے آغاز میں بیوی ، بچے اور رشتے دار بھی ہیں ۔گیارہویں شریف کی محفل کے دوران کئی خاندان کے لوگ بھی نظر آتے تھے لیکن پھر بیس سال کا وقت گزر گیا اور پھر ایک 1994 میں نو محرم الحرام کا دن بھی آ گیا کہ جس میں ایک جنبشِ خاص وقوع پذیر ہوئی ہے اور اس جنبش کی وجہ سرکار خود ارشاد فرما رہے ہیں کہ ہم اپنے اُن خاص جلوؤں کو اپنے اِس وجود میں متعارف کروا رہے ہیں اور اُن جلوؤں کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور مستقبل میں انہوں نے ہی آ کر بیٹھنا ہے ۔

قرب کی منزلیں :

جب وہ خاص جلوہ مبارک آیا ہے تو پھر اُس سے خاص تعلیم کا اجراء بھی ہوا ہے ۔ اب یوم ریاض کے دن جو خاص الخاص تعلیم آئی ہے وہ یہی ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایسا قرب عطا ہو جائے کہ جسکی تاریخ میں کوئی نظیر نہ ہو ۔اب وہ جو خاص تعلیم آئی ہے وہ ایک خاص قرب کی بات کر رہی ہے ۔قرب کا مطلب قریب ہونا ہوتا ہے اور یہ ایک اشارہ ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر ہمارے سامنے ٹیبل پر لیپ ٹاپ ہے اور اس کے قریب میں آئی فون ، گلاس اورچشمہ ہے ، لیپ ٹاپ سے کوئی کتنا قرب میں ہے اس کا اندازہ فاصلے سے ہوگا۔ کچھ چیزوں کا فاصلہ لیپ ٹاپ سے زیادہ ہو گا اور کچھ کا کم ہو گا، جتنا فاصلہ کم ہو گا اُتنا قرب کہلائے گا لیکن اگر کوئی چیز دور ہے اسکا ذکر مقربین میں نہیں ہوگا کیونکہ وہ دور ہے لیکن اگر وہ جڑا ہوا ہے اور پھر دور ہے تو پھر فاصلہ نہیں بلکہ تعلق دیکھا جائے گااور اس تعلق کی وجہ سے دور ہونے کے باوجود قرب میں آ گیا ۔قرب کی پہلی منزل یہ ہے کہ آپکا دل اللہ کے ذکراور اسکے نور سے آباد ہو جائےاور وہ نوری تعلق جڑ جائے تو آپ قرب والوں میں کہلائیں گے اور اگر نوری تعلق قائم نہیں ہوا ہے تو پھر قرب والے نہیں کہلائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ کی صحبت میں جو بغیر ایمان کے بیٹھتے تھے حقیقتاً وہ کبھی بھی صحابی رسول کے درجے پر نہیں پہنچے گو کہ عامتہ الناس کی نظر میں اُنکو صحابی رسول سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اب ہمارے علماء یہ کہتے ہیں کہ جو ایمان کی حالت میں حضورؐ کی صحبت میں وقت گزار لے تو وہ صحابی رسول ہے لیکن اسکا فیصلہ کرے گا کہ کون کرے گا کہ کون ایمان کے ساتھ صحبت رسول میں بیٹھا تھا ۔ انہی بیٹھنے والوں میں سے کچھ منافق بھی ہو گئے تھے کیا اُنکو بھی صحابی رسول کہا جائے گااور اسکی کسوٹی کیا ہو گی ! لہذا اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مومنوں کی نشانی بھی درج فرما دی ، منافقین کی نشانیاں بھی درج فرما دیں۔ اس دور کا منافق ہو یا حضورؐ کے دور کا منافق ہو قرآن مجید کی ان نشانیوں کی روشنی میں پرکھ کر دیکھیں تو آپکو پتہ چل جائے گاکہ اگر وہ تعلق بالرسول قائم نہ ہو تو صحبت رسول میں بیٹھنے والے بھی منافق ہو سکتے ہیں لیکن اگر تعلق جڑا ہواہے تو فاصلے کی اہمیت نہیں ہے اور وہ قرب میں شمار کیا جائے گا۔جنکے دلوں میں اللہ کا نور آ گیا اور اللہ اور اُسکے رسول سے تعلق جڑ گیا تو وہ بھی قرب میں آ گئے۔اب قرب کی منزلیں ہیں اگر قلب سے تعلق جڑا تو قرب کی ادنی ترین منزل ہو گئی۔ ایک بندہ ایسا ہے جسکا قلب اور روح دونوں جڑ ے ہوئے ہیں تو وہ بندہ زیادہ قرب میں ہو گیا۔ جس کی تین روحیں جڑیں وہ اس سے بھی زیادہ مقرب اور جسکی چار جڑی ہیں وہ اس سے بھی زیادہ مقرب ہےاور جسکی ساتوں روحیں جڑ گئیں ہیں وہ اس سے بھی زیادہ مقرب ہو گیا ۔کچھ ایسے بھی ہوئے جن کو اس دنیا میں ہی جیتے جی اللہ کا دیدار ہو گیا ، اب دیدار دور سے ہوا ہے اور حقیقی قرب میں جانا ہے تو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تین جنتیں ایسی رکھی ہیں جن میں اللہ کا دیدار تین مختلف نوعیت کا اللہ کی بارگاہ سے عطا ہوا ہے ۔پانچویں درجے کی جنت (الماویٰ)، چھٹے درجے کی جنت (نعیم)، ساتویں درجے کی جنت (فردوس) میں بسنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔اب دیدارالہیٰ کی کوالٹی کا فرق ہر جنت میں ہو گا۔ جو دیدار پانچویں درجے کی جنت میں ہو گاوہ دُور سے ہوگا کیونکہ چھٹے درجے کی جنت اُس سے آگے ہے۔ جو چھٹے درجے کی جنت میں ہوں گے اُن کو اللہ کا دیدار اور زیادہ واضح ہوگا۔ پھر ساتویں درجے کی جنت، جنت الفردوس میں دونوں جنتوں کی بنسبت دیدار اور زیادہ واضح ہو گا۔
جنت الفردوس میں اللہ تعالیٰ اپنا دیدار کرائے گااور پھر اسکے بعد دیدار والے ستّر ہزار سال کیلئے بیہوش ہو جائیں گے، ستّر ہزار سال کے بعد جب دوبارہ ہوش آئے گاتو پھر وہ کہیں گے ھل من مزید (اور دیدار دے)، پھر دیدار دیا جائے گااور اسکے بعد ستّر ہزار سال کیلئے بیہوش ہو جائیں گے ۔اب سوچنے کی بعد یہ ہے کہ جب ستّر ہزار سال بیہوش رہے تو اُس وقت تو قرب نہیں تھا ۔ اب ان تین جنتوں میں پہنچنے والے بھی قرب میں تو ہیں لیکن یہ دائمی قرب نہیں ہے ۔جب تک رب کے دیدار میں سامنے کھڑے ہیں تو مقرب ہیں لیکن جب وہ دیدار ختم ہوا اور ستّر ہزار سال کیلئے بیہوش ہو گئے تو پھر اُس وقت تو قرب نہیں ہوا نا۔غوث پاک نے فرمایا کہ ہم نے اللہ سےستّر بار وعدہ لیا ہے کہ میرا مرید بغیر ایمان کے نہیں مرے گا، اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر کوئی غوث پاک کا مرید ہے تو وہ ذاکر قلبی ہو گا اور جب وہ مرے گا تو مومن ہی ہو گاتو پھر اللہ سے ستّر بار وعدہ لینے کی کیا ضرورت تھی! پھر سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ سے اس کی تشریح عنایت ہوئی کہ مومن کے ذکر کی تعداد ہے کسی کا ذکر چالیس ہزار روزآنہ ، کسی کا پچاس ہزار اور کسی کا پچپن ہزار ذکر اور اگر کوئی فقیر کے درجے پر پہنچ گیا تو اسکا ذکر بہتّر ہزار ہو گیا اور جو عشق کے درجے پر پہنچ جائے اسکا ذکر روزآنہ سوا لاکھ کا ہے ۔ہر وقت ذکر تو اسی کا ہو گا جو سوا لاکھ کا ذاکر ہو گااور جو فقیر کے درجے پر ہے اسکا ذکر بہتّر ہزار ہے اور وہ تعدار مکمل ہونے کے بعد دل خاموش ہو جائے گااور اگر اُس خاموشی کے دوران موت آ گئی تو پھر ایمان کے اوپر تو خاتمہ نہیں ہوا ۔مومن کے درجے پر تو فائز تھا لیکن خاتمہ ایمان پر نہیں تھا کیونکہ دل اپنے ذکر کی تعدار مکمل کر چکا تھا اور وہ ذکر الہی سے غافل تھا۔غوث پاک نے یہ دعا کی کہ جو میرا مرید ہو جب اُس کا وقتِ نزع آئے بھلے اسکے ذکر کی تعدار پوری ہو چکی ہو تو اپنی رحمت خاص سے اُسوقت بھی اسکے دل کو اپنے ذکر میں لگا دینا کہ وہ مر بھی رہا ہو اور دل اللہ اللہ بھی کر رہا ہو ۔جب یہ تشریح سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ سے عطا ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہر وقت اللہ اللہ کرنا کیوں ضروری ہے ۔پھر سلطان باہو نے بھی کہا کہ “جو دم غافل سو دم کافر ” یہ باتیں فقیر کی ہیں عام آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ مومن بن گیا تو ہر وقت کا مومن ہے لیکن مومن کے بعد بھی تو چیزیں ہیں کہ کتنی دیر کا مومن ہےاس لئے مومنوں میں بھی فرق ہے ۔
اب جسطرح مومنوں میں ذکر کی تعداد کی وجہ سے فرق ہے اسی طرح ولیوں کا بھی ہے ۔ عام ولی پر روزآنہ تین سو ساٹھ (360) تجلیاں پڑتی ہیں ، جب اُس ولی کا وقتِ نزع آئے اور وہ تین سو ساٹھ تجلیاں پہلے ہی پڑ چکی ہیں تو اُس وقت اسکا شمار کافروں میں ہو گااسی بات کو سلطان باہو نے کہا تھا “جو دم غافل سو دم کافر”۔صرف غوث پاک تھے جن پر اللہ تعالی روزآنہ پانچ سو تجلیاں گراتا تھا۔ اب یہاں دو چیزیں ہو گئیں ایک تو رب کی یاد سے غافل ہوناجو کہ مومن پر آتا ہے اور دوسرا رب کے جلوئے سے غافل ہونا جو کہ ولیوں پر آتا ہے ۔ اب گمراہی بھی کئی طرح کی ہوتی ہے ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ رب سے تعلق تو ہے لیکن آگے کا رستہ نہیں مل رہا ۔اسی گمراہی کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ

الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِ ۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 2-1
ترجمہ: وہ کتاب متقیوں کو ہدایت دیتی ہے

اب وہ متقی کیسے بنے گااور متقی بن جائے تو پھر ہدایت کی کیوں ضرورت ہے ! اسکا مطلب ہے کہ یہاں پھر کسی خاص ہدایت کی بات ہو رہی ہے ۔ اسی طرح ایک کفر ہوتا ہے رب کے نام سے دوری، ایک ذاکر ہوتا ہے جس کا دل اللہ کے ذکر میں ہے جب تک تو ذکوریت میں ہے تو مومن ہے ۔ طریقت کے چار باب ہیں ایک ذکوریت ، دوسرا قشیت، تیسرا خشیت اور چوتھا باب حریت ہے۔ طریقت کا پہلا باب ایمان کیلئے ہے ، طریقت کا دوسرا باب ولیوں کیلئے ہے ، طریقت کا تیسرا باب اصفیاء کیلئے ہے اور جو چوتھا باب ہے وہ مقربین کیلئے ہے۔اب عام ولی پر روزآنہ تین سو ساٹھ تجلیاں گر رہی ہیں ، غوث پاک پر روزآنہ پانچ سو تجلیاں گر تی تھی اور محمد الرسول اللہ کی ذات ایسی ہے کہ اُن پر تجلیوں کی تعداد ہی نہیں ہے ، ہر وقت تجلیاں گرتی ہیں خواہ آپکا جسم مدینے میں ہو یا قبر انور میں لیٹا ہوا ہو ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ اُنکے جیسا کوئی آیا نہیں ۔موسی علیہ السلام پر صرف ایک بار صفاتی تجلی گری تو بیہوش ہو گئے اور پہاڑ ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا جو ستّر سردار اُن کے ساتھ آئے تھے وہ سب مر گئے۔جب موسی علیہ السلام کو ہوش آیا تو پھر اللہ سے پوچھا کہ کسی کو تیرا دیدار ہو گا ؟ اللہ نے فرمایا کہ ایک میرا حبیب اور انکی اُمت۔تو پھر موسیؑ نے کہا کہ میں ایک نبی ہو کر محمد الرسول اللہ کے اُمتی کے برابر بھی نہیں ، جلوہ دے دیکھی جائے گی اور جب جلوہ پڑا تو وہ بیہوش ہو گئے۔کیا وجہ ہے کہ موسی ؑ ایک نبی ہو کر کوہ طور پر بیہوش ہو گئے اور حضورؐ شب معراج میں اللہ کے سامنے جا کر مسکرا رہے ہیں؟ موسی ؑ میں صفاتی نور تھا جو ذات کی تاب نہ لا سکا اور محمد الرسول اللہ میں اللہ کا ذاتی نور تھا ، ذات ذات کے سامنے مسکرایااور پھر حضور کے وسیلےسے وہ ذاتی اسم اُمت محمد کو بھی ملا جسکی وجہ سے تم افضل ترین اُمت بنے۔اب اگر تم اسم ذات سے ہی محروم ہو تو پھر آپکو کس بات کی فضیلت ہے۔اسم ذات کی وجہ سے تمھارا اللہ سے تعلق جڑتا تھا اب جب تم سے قلب کی تعلیم اور باطنی علم چھن گیا تو تم شیعہ، سنی اور وہابی بنتے چلے گئے اور تمھارا حال خراب ہو گیا ۔ اللہ تعالی نے تمھارے لئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا تھا تم ہی غالب رہو گے دنیا پر اگر تم مومن رہے۔

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
سورة آل عمران آیت نمبر 139

آج مولوی یہ تو بتاتے ہیں کہ ہم افضل اُمت ہیں لیکن پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں ، ہم شیعہ ہیں ، وہابی ہیں اور دیوبندی ہیں ۔ اب یہ سارے فرقے حضورؐ کے دور میں موجود نہیں تھے ، حضورؐ کے دور میں صرف اُمتی تھے۔ پھر حدیث شریف میں آیا کہ

اَنا مِن نُورّ اللہ وَالمُومِنین مِنّ نُوری
حوالہ: مدارج النبوة
ترجمہ: کہ مجھے اللہ نے اپنے نور سے بنایا ہے اور مومن میرا نور ہے ۔

آج کے مسلمان سے پوچھو تو اُسے نور کا معلوم ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے نبی کو ہی نور ماننے سے قاصر ہے ۔اگر تمھارے اندر محمد الرسول اللہ کا نور ہوتا تو کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ میں سنی ہوں، شیعہ ہوں یا وہابی ہوں بلکہ کہتے کہ بس اُمتی ہوں تمھارا یا رسول اللہ۔

دائمی قرب کی تعلیم از سیدنا گوھر شاہی :

اب حضورؐ پر ہر وقت تجلی کی برسات ہوتی تھی ولیوں کا بھی ہے کہ جب نزع کا وقت آئے تو اُس وقت تجلی پڑے ، اب اللہ نے یہ قانون کیوں بنایا ہے ۔ اللہ ولیوں کی یہ والی دعا آسانی سے نہیں مانتا ہے کہ عالم نزع کے وقت مجھ پر تجلی ڈالیں، یہ چیزکسی کسی کو عطا ہوتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ولی پر مرتے وقت تجلی پڑ گئی تو پھر وہ کامل ذات بن جائے گااور اُسکا فیض حیات اور ممات میں یکساں ہو گااور اللہ ہر کسی کو کامل ذات تو نہیں بناتا اس لئے اس کی دعا سنتا ہے جس کو کامل بنانا ہوتا ہے ۔اب جسطرح سے ذکر کی تعداد ہے ، تجلیات کی تعداد ہے اسی طرح دیدار کی بھی تعداد ہے کہ جنت الفردوس میں دیدار ہو گا اور اسکے بعد پھرستّر ہزار سال کیلئے بیہوش ہو جائیں گے، جس دورانیے میں وہ بیہوش ہوں گے تو وہ غافل ہی ہوں گے ۔
اب ہم کو کوئی ایسا راز پتہ چلے کہ ہم ہر وقت دیدار اور قرب میں رہیں وہ راز امام مہدی گوھر شاہی لے کر آئے ہیں ۔جسطرح حضورؐ پر ہر وقت تجلی پڑتی تھی اسی طرح ہر وقت دیدار والا علم بھی آگیا۔ وہ علم یہ ہے کہ حدیث قدسی میں ہے کہ

کُنتُ کَنزاً مخفیا ً فَاجِبتَ اِن اَعّرفَ ، فَخلقّتَ الخَلقَ لکی اَعرفَ
ترجمہ : میں ایک چھپے خزانے میں تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اسلئے مخلوق کو پیدا کیا۔

پھر قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ
سورة الانعام آیت نمبر 59
ترجمہ: اور اللہ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ۔

پھر اللہ نے یہ بھی قرآن مجید میں فرمایا کہ وہ غیب کا علم اللہ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو دیا ہے۔

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
سورة الجن آیت نمبر 27

اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ اُن پسندیدہ رسولوں میں ہمارے نبی کا نام بھی ہے ۔ کیونکہ ہمارے نبی تو امام الانبیاء ہیں ، ہمارے نبی کے علاوہ کسی کو اللہ کا دیدار ہی نہیں ہوا تو پھر ہم یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ محمد الرسول اللہ کو غیب کا علم نہ دیا گیا ہو ۔پھر قرآن مجید میں اللہ نے غیب کی کنجیوں کا ذکر بھی فرمایا ہے تاکہ اگر کسی کو وہ کنجی عطا کرنی ہوئی تو اسے جستجو دیں گے ۔ اگر کوئی اُدھر کا ارادہ کرنا چاہے تو وہ یہ پڑھے اور پھر جستجو میں لگے کہ میں کیسے وہاں پہنچوں گا۔ جنت الفردوس میں ہر وقت کا ذکر تو نہیں ہے اگر ہر وقت کا ذکر ہو گا تو وہ اُس خزانے تک رسائی سے ہوگا۔ جہاں اللہ رہتا ہے اُدھر تمھیں بھی اپنے ساتھ رکھے ، ایک لمحے کا بھی درمیان میں وقفہ نہ آئے۔ہر وقت تو میرے سامنے ، تو مجھے دیکھ لے اور میں تجھے دیکھ لوں۔اس سے زیادہ کوئی راحت ولی چیز نہیں ہے ۔مزا تو جب ہی کہ ایک لمحہ بھی آنکھ رب کے دیدار سے ہٹے نا۔اس چیز کیلئے بھی امام مہدی علیہ الصلوة و السلام کو بھیجا کہ یہ خاص تعلیم لے کر جاؤاور اللہ کے عشق کے خزانے کھول دو اور اللہ کا عشق عام کر دو۔عام و خاص سب کیلئے اللہ کے عشق کا دروازہ کھول دو۔اللہ کا دین عشق ہے اس کیلئے قرآن پاک میں اللہ نے حضورؐ کو بھی فرمایا تھا کہ یا رسول اللہ جب دین حنیف قائم ہو تو آپ اپنا چہرہ اُس دین حنیف کی طرف کر لینا ۔

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
سورة الروم آیت نمبر 30

اس آیت میں مستقبل کا ذکر ہے کہ مستقبل میں دین حنیف قائم ہوگا اور دین حنیف یہ ہے کہ تو رب کو دیکھے اور رب تجھے دیکھے۔اسی لئے حضورؐ کو فرمایا کہ جب وہ دین حنیف قائم ہو تو آپ اپنا رخ اسی طرف رکھیں تاکہ امام مہدی کیلئے آسانی ہو ۔اب یہ جو علم وہ سیدنا گوھر شاہی کی ذاتِ والا کا جو خاص جلوہ مبارک ہے اس کی طرف سے ہم کو ملا ہے اور اسی کا اظہار تشکر کرنے کیلئے ہم یوم ِ ریاض مناتے ہیں ۔اب جو جنت الفردوس میں ہوں گے اُن کو صرف دیدار ہوگا اور جس کو اُس خزانے تک رسائی ہو گئی تو ہر وقت رب کے ساتھ ہوں گے۔اور پھر سرکار سیدنا گوھر شاہی نے ہماری توجہ جنت کیلئے نہیں کرائی اور دین الہی میں رقم بھی فرمایا کہ جو اللہ کے طلب گار ہیں اور اسکا قرب اور وصال چاہتے ہیں یہ تعلیم اُنکے لئے ہےعام لوگوں کیلئے نہیں ہے ۔امیر خسرو کا شعر بھی ہے کہ
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

میرا وجود تیرے وجود میں کھو جائے، میری روح تیری روح میں کھو جائے ۔ اس وصال کی دینی اصطلاح “توحید” ہے۔توحید کا حقیقی مطلب ایک اللہ میں ضم ہو جانا ، اپنا وجود اُس ایک اللہ میں مٹا دینا۔تو اپنا سارا باطن نکال دے اور اس میں رب بھر جائے۔ اذا تم الفقر فھو اللہ ۔ یہی فقر ہے ، یہی وصال ہے اور یہی توحید ہے۔مرزا غالب نے بھی اس کی عکاسی اپنے ایک شعر میں کی ہے کہ
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تُنک ظرفی منصورمنظور نہیں

یہ جو اللہ کی ذات کا بحر وحدت ہے ہماری روح بھی اسی بحر کا ایک قطرہ ہے ، إنّا لله وإنّا إليه راجعون ، تو اللہ کا ہے اور اسی کی طرف لوٹ جا ۔لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو پھر یہ پڑھتے ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ تو اللہ کا ہے اور اسی کی طرف لوٹ جا ۔ جب کوئی مرتا ہے تو اس کا جسم تو قبر میں گیا پھر وہ اللہ کی طرف کہاں لوٹا ۔ جب تمھاری روح کا قطرہ بحر وحدت میں ضم ہو جائے گا، تمھاری شناخت مٹ جائے گی پھر اُس وقت پڑھا جائے گا ، إنّا لله وإنّا إليه راجعون اپنا نشان مٹا دواور صرف رب رہ جائے ۔ اور یہ بحر وحدت میں ضم فقر کی تعلیم کے ذریعے ہی ہو گا کیونکہ یہ تعلیم وصل کی طرف لے کر جاتی ہے ۔ وصل کی تعلیم ایک مقام پر ٹھہر جاتی ہے ۔

ذات قدیم اور حادث :

ایک مرتبہ الہٰ ہوتا ہے جس کے معنی معبودیعنی خالق ہونا ہے ۔جب اللہ نے کوئی بھی مخلوق نہیں بنائی تھی کیا اُس وقت وہ خالق تھا؟ مثال کے طور پر آپ باپ تب بنتے ہیں جب آپ کے یہاں اولاد ہوتی ہے ۔باپ کا مرتبہ اُسی وقت جنم لیتا ہے جب آپ کے یہاں اولاد ہوتی ہے ۔ اگر اولاد نہ ہو اور آپ کہتے رہیں کہ میں تو باپ ہوں تو لوگ پاگل کہیں گے۔ بالکل اسی طرح رب خالق اُسوقت بنا جب اُس نے مخلوق بنائی ، پھر جو مخلوق بنائی ہے اس کی انتہا مرتبہ الہٰ یعنی خالق تک ہی ہے ۔ لیکن خالق ہونے سے پہلے جو چیز ہے وہ ذاتِ قدیم ہے ۔یہ جو مرتبہ الہٰ ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ تمھارا الہٰ ایک ہے۔تمھارا تمھارے باپ سے تعلق جسم تک ہو گا، جب باپ مر گیا اور جسم قبر میں گیا اور روح اوپر چلی گئی تو پھر روح کو نہیں کہہ سکتے کہ یہ میرا باپ ہے کیونکہ روح کاجسم سے پہلے کا معاملہ ہے جسم تو ابھی دنیا میں آ کر بنا ہے لہذا تمھارا تمھارے باپ سےتعلق پیدا ہونے سے پہلے نہیں تھا۔یہ تعلیمات فقر و ولائت صرف مرتبہ الہٰ تک ہی محدود ہے إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ آپ کی رسائی بتا رہےہیں کہ تمھارا الہٰ سے تعلق ہے اور وہ ایک ہی ہے ۔

غیب کی کنجی کیا ہے؟

اللہ رب العزت کا وہ جلوہ جو خالق بننے سے پہلے کا ہے وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ یہ تمام کی تمام صفات حادث ہیں اسمیں کہیں اسمِ ذات نظر نہیں آئے گاکیونکہ اللہ قدیم ہے اُسکی صفت رحمان قدیم نہیں ہے، صفت رحیم قدیم نہیں ہے ، صفت واحد قدیم نہیں ہے یہاں تک کہ صفت ِ الہٰ بھی قدیم نہیں ہے ۔ مرتبہ الہٰ تو تب وجود میں آیا جب مخلوق بنائی ، جب مخلوق نہیں بنائی تھی تو الہٰ بھی نہیں تھا ۔

یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے الہٰ ذات نہیں ہے بلکہ الہٰ صفت ہے اور خزانے میں ذات تھی صفت نہیں تھی ۔ذات کا کوئی جلوۂ حادث کو پار کر کے آئے اور ذاتِ قدیم سے جوڑ دے تو پھر خزانے تک رسائی حاصل ہوگی۔ وہ قدیم ذات کے جلوئے غیب کی کنجیاں ہیں ۔ اگر وہ جلوۂ 9 محرم الحرام کو آگیا تو بات بن جائے گی۔

ہم سے محبتوں کی نمائش نہ ہو سکی
بس اتنا جانتے ہیں کہ انہیں چاہتے ہیں ہم

لوگوں کو ہم سےیہی شکایت رہی کہ یہ ہم سے محبت نہیں کرتا لیکن جو رب سے محبت کر لیتا ہے وہ کسی اور سے محبت کر نہیں سکتا ۔اور اگر تو رب سے محبت کرتا ہے اور کسی اور کو پیار کر لے تو رب اُسے چھین لیتا ہے کیونکہ تو رب سے محبت کرتا ہے ، محبت میں بھی توحید ہے ۔ جو رب کا ہو گیا وہ کسی کا نہیں ہوتا ہے۔جو رب سے عشق کرتا ہے وہ کسی کے قابل نہیں رہتا ہے ۔ یہی یوم عاشورہ کا بھی راز ہے ۔ کربلا میں کیا ہوا یہ تو سب جانتے ہیں لیکن کربلا میں کیوں ہوا یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ بات عشق کی ہے ۔اس لئے رب جس کو چاہتا ہے اُس کی نگاہوں سے دور دور رہو، اُس کو یہ مت کہو کہ مجھ سے پیار کرو اگر اُس نے تجھ سے پیار کر لیا تو کر بلا ہو جائے گی ۔کربلا کے تو کئی رنگ ہیں یہ بھی کربلا کا ایک رنگ ہے، اس لئے رب کا بندہ جتاتا نہیں ہے کہ وہ تم سے پیار کرتا ہے کیونکہ اگر اُس نے جتا دیا تو رب تجھے اور تیرے ایمان کو بھی لے لے گا۔
لکھ دیا اپنے در پر کسی نے اس جگہ پیار کرنا منع ہے
پیار اگر ہو بھی جائے کسی کو اُس کا اظہار کرنا منع ہے

قرآن مجید میں ہے کہ اپنے رب کے اسم میں مستغرق ہوجا اور سارے رشتے ناطے توڑ کر صرف اُس کا ہو جا۔اللہ والے سے کبھی نہ کہنا کہ مجھے پیار کر اگر وہ پیار کرے گا تو تُو مٹ جائے گا۔ چوری چوری چپکے چپکے بہانے سے وہ تجھے پیار کرے گا کہ یہ تو مشن کا کام کرتا ہے اس لئے اسے قریب بٹھایا ہوا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 محرم الحرام یوم ریاض کے موقع پر یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس