کیٹیگری: مضامین

دنیا کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پیٹ ہے:

ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں یہاں جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے ہم اسی کو حقیقت سمجھتے ہیں ، مسجد ، مندر میں جاتے ہیں تو ملا پنڈت ، پریسٹ ہم کو بتاتے ہیں آخرت میں تمہارے پاس بہت مال آئے گا بہت بڑے بڑے محل ہونگے، نوکر چاکر ہونگے تو ایک غریب آدمی جو تین وقت کا کھانا کھانے کے لیے سارا دن جدو جہد کرتا ہے وہ ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے کہ مرنے کے بعد میری زندگی بہت اعلی ہو جائے گی لیکن دنیا کی مشکلات اُس کے یقین کو متزلزل کرتی رہتی ہیں اور یقین متزلزل اس لیے ہو جاتا ہے کہ وہ یقین سنی سنائی بات پر قائم ہوا ہے کسی نے کہا ہے کہ ایسا ہو گا اور کوئی ثبوت اس کے پاس نہیں ہے، زیادہ تر لوگوں کا یقین اس دنیا میں ہی جو کچھ مل جائے اُس پر ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے بڑی طاقت پیسے کی ہے، پیسے سے اگر سب کچھ نہیں تو بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے، پیسہ اتنا بڑا خدا ہے کہ لوگ خدا کو بھی پیسے کی وجہ سے مانتے ہیں ۔ جب بابا فرید گنج شکر نے یہ کہا کہ اسلام کے پانچ نہیں چھ رکن ہیں تو مولویوں نے فتوی لگا دیا اور پوچھا کہ چھٹا رکن کونسا ہے؟ ہمیں تو پانچ رکن پتا ہیں کلمہ ، نماز ، روزہ، حج، زکوةیہ چھٹا رکن کیا ہے ، تو انہوں نے فرمایا چھٹا رکن “پیٹ” ہے اس کے بغیر کوئی بھی رکن سلامت نہیں رہے گا ۔ غریب آدمی جس کے تن پر کپڑا اور پیٹ میں روٹی نہیں اس کو دین سمجھ نہیں آسکتا کیونکہ اُسکی اولین کوشش پیٹ بھرنا ہوگی۔آپ نے میر تقی میر کا نام سنا ہو گا، غالب بھی انکے معتقد تھے ان کا ایک شعر عرض ہے
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر۔۔۔۔۔مذہبِ عشق اختیار کیا!
پتاپتابوٹابوٹاحال ہماراجانےہے۔۔۔۔ جانےنہ جانےگل ہی نہ جانےباغ تو ساراجانے ہے!

ڈیڑھ دوسو سال پہلے کی بات ہے جب ٹرانسپوٹیشن نہیں تھی تو میر تقی میر بیل گاڑی پر کہیں جا رہے تھے ، بیل گاڑی والے نے جب دیکھا میر تقی میر آکر بیٹھے ہیں تو اس نے تازہ کلام کی فرمائش کر دی میر تقی میر نے ٹال دیا اسی طرح آپ اس کو ٹالتے رہے ، اترتے وقت فرمایا تازہ کلام تو ہے لیکن بیل گاڑی والے کی سمجھ میں کہاں آئے گا تمہیں تو روٹی سمجھ آتی ہے یہ شاعری تو ان کا کام ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں ۔ یہ جو دنیا ہے اس دنیا کے کچھ مسائل ہیں ، سب سے بڑا مسئلہ اس دنیا کا پیٹ ہے؟ مذہبی لوگ ، اہل دانش اہل خرد ، اہل عقل اس حقیقت سے آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں ۔وہ حقیقت کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ انسان کو پیٹ کے لیے جدو جہد کرنی چاہئیے یا وہ کسی مذہب پر عمل پیرا ہونے کے لیے جدو جہد کرے؟ دنیا میں ایسے لوگوں کی کتنی بڑی تعداد ہو گی جو صاحب ثروت ہیں ؟ کتنے افراد ایسے ہیں جو دنیا کا مال کمانے کی دوڑ میں نہیں لگے؟ نواز شریف جیسے لوگ جن کے ہاں بے پناہ پیسہ ہے لیکن وہ بھی پیسہ جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں تو پھر غریب آدمی کو تو آپ الزام نہیں دے سکتے کہ وہ دنیا داری میں کیوں لگا ہے ۔ ہمارے مذہبی لوگ رزق کمانے کو بھی دنیا داری سمجھتے ہیں ، جس کے گھر میں چولہا نہیں جل رہا، جس نے بچوں کے اسکول کی فیس دینی ہے، جس کے پاس بچوں کے کپڑے خریدنے کا بندو بست نہیں ہے اس کے پاس جا کر آپ تصوف کی تعلیم کا اعلان کریں ، قرآن مجید کی تفاسیرکا بیان کریں تو سننے کے باوجود بھی یہ بات اس پر اثر نہیں کرے گی، مسلمان قوم ایک ایسی قوم ہے جس نے دین کی بات کوسنجیدگی سے نہیں لیا، سوچے سمجھے بنا ہر کام کرتے ہیں ،کسی نے کہا فلاں گستاخ ہے اس کو مار دو تو وہ مار دیتے ہیں ، کسی نے کہا یہ حق ہے تو بس اُسی کو پوجنا شروع کر دیا ، اپنا ذہن استعمال نہیں کیا، کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ حقیقت کیا ہے۔
اگر ہم مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالیں کہ کیا مسلمانوں کے پاس پیسہ ہے! تو پیسہ ان کے پاس نہیں ہے ، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودیہ عرب والوں کے پاس بہت پیسہ ہے تو وہ تو ایک خاندان کے پاس ہی ہے مسلمانوں کے پاس تو نہیں ہے،کہیں بھی چلے جائیں مسلمانوں کا برا حال ہے، ترکی ، سریا، سب جگہ برا حال ہے۔ایک وقت تھا جب اسپین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا، انڈیا میں آٹھ سوسال تک مغلیہ حکومت رہی اللہ نے موقع دیا، ایک ہی وقت میں تین تین اسلامی سلطنتیں تھیں ، مغلیہ سلطنت، سلطنت عثمانیہ ،سلطنت عباسیہ جس کی سیٹ بغداد میں تھی، لیکن وہ سارے خود ہی عیاشی کر کے چلے گئے مسلمانوں کا کیا بنا؟ کسی کو اپنی بیگم سے عشق ہوا تو تاج محل بنوا دیا ۔اک شہنشاہ نے بنوا کرحسیں تاج محل ۔۔۔۔ہم فقیروں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق! کتنے دل جلے پیدا ہو گئے ۔مسلمان قوم کا حال تو ویسے کا ویسا رہا۔پیسہ میں سب کچھ نہیں ہوتا، لیکن پیسہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ ہم سمجھتے ہیں پیسہ کمانا اللہ حرام قرار نہیں دے سکتا ، اگر پیسہ کمانا حرام ہے تو پھر اللہ کو چاہئیے کے DHL,USP کے ذریعے نہاری ، چاول ،روٹی ، کپڑے فرشتوں کے ساتھ بھیج دیتا۔ہم یہ بھی کہتے ہیں اللہ رازق ہے تو پھر وہ رزق کہاں ہے؟ پاکستان میں لاکھوں لوگ بھیک مانگنے پر کیوں مجبور ہیں ؟کچھ لوگ کسی وجہ سے اپاہج ہو گئے وہ الگ بات ہے لیکن ایک رونا یہ بھی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغوا کرنے کے بعد ہاتھ پاؤں توڑ کر ان کو اپاہج بنا دیتے ہیں تاکہ ان سے بھیک منگوانے کا کام لیا جا سکے۔ ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے بھیک مانگنے کو ایک انڈسٹری بنا دیا ہے ،کسی کے پاس ایک ہزار بھکاری ، کسی کے پاس دو ہزار بھکاری ہیں اور کسی علاقہ میں کوئی انچارج بنا کران سےوہاں بھیک منگواتے ہیں اور خود وہ لینڈ کروزر میں گھومتے ہیں ۔مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ اللہ رازق ہے بڑا ہی کھوکھلا ہے جانتے بھی ہیں لیکن کوئی اس کو ثابت نہیں کر سکتا ، کوئی عالم کوئی مائی کا لال، کوئی سائنسدان یہ ثابت کر دے کہ اللہ رازق ہے، اگر اللہ رازق ہے تو نواز شریف کرپشن کیوں کرتا ہے ؟ اللہ رازق ہے تو تم کاروبار میں جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ ملاوٹ کیوں کرتے ہو ، کم کیوں تولتے ہو؟ اللہ رازق ہے نا تو کرپشن کیوں کرتے ہو؟ دونوں چیزیں چل رہی ہیں ، کرپشن والا عقیدہ درست ہے یا اللہ دینے والا ہے یہ درست ہے؟ ہر چیز گڈ مڈ ہے۔اللہ اور مذہب کے معاملے میں پٹھان ہونا بڑا ضروری ہے، پٹھان کی فطرت میں ہے کہ اگر اسکی سوئی کسی جگہ اٹک گئی تو بس پھر اٹک گئی، اگر اللہ رازق ہے تو تو نے کرپشن کیوں کی؟ یا تو کہہ دے تم مسلمان نہیں ہو، اگر کرپشن کی تو اسکا مطلب ہے اللہ پر یقین نہیں ہے۔اگر ڈاکٹر یہ کہتا ہے کہ اے اللہ میرے کاروبار میں برکت دے تو در پردہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ اپنے بندوں کو بیمار کر، اب اللہ اس کی دعا سنے گا یا نہیں ؟ طوائفہ اگر یہ دعا مانگے اے اللہ ہمارے کاروبار میں برکت دے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ اس کے کاروبارکی طرف آئیں ، تو اب سوال یہ ہے کہ ان سب کو رزق کون دے رہا ہے؟ یہ رزق جو نواز شریف کے زرداری کے پاس ہے یہ کہاں سے آیا ہے؟ کیا ان کو اللہ نے رزق دیا ہے؟اسمگلر کو رزق کس نے دیا؟ حرام کی کمائی سے بنگلہ بنایا اور اس پر لکھ دیا ماشا اللہ، حرام کی کمائی سے حج و عمرہ پر گئے تو کیا وہ حج قبول ہو جائے گا؟ فراڈ سے پیسہ اکھٹا کرنے والا سمجھتا ہے کہ اللہ دیکھ نہیں رہا یہ تو اسلام نہیں ہے۔ سارا کام غلط ہو اور اللہ سے توقع ہو کہ وہ تم کو وہی مقام و مرتبہ دے جو اس نے امام حسین کو ، مولا علی کو دیا تھا تو ایسا تو نہیں ہو سکتا ۔

آج کا مسلمان عبادات بھی فائدے کے لئے کرتا ہے:

کسی مسلمان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اسلام ہے کیا! وہابی ہے تو یا اللہ مدد، شیعہ ہے تو یا علی مدد، سنی ہے تو یا رسول اللہ، یعنی سب کے رزق کی فراہمی کے ڈپارٹمنٹس الگ الگ ہیں ، یہ طنز نہیں ہے حالات کو دیکھ کر ان پر تبصرہ ہے۔

“اگر کوئی اللہ والا بن جائے تو اس کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کے مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا، یعنی اللہ کو اپنے فائدے کے لیے گوارا کر لیں گے،آج اگر ہراس شخص کے پاس پیسہ آ جائے جس جس کے قلب میں اللہ کا نور آجائے تو دنیا سے کفر ختم ہو جائے “

آج اگر ہم ایسی ویڈیو اپلوڈ کر دیں کہ اگر تم دل میں اللہ اللہ بساؤ گے کروڑ پتی بن جاؤ گے تو لوگ کہیں گے ہاں ہاں ضرور مجھے ذکر دے دیں، جیسے ہی گھر پہنچیں ایک ملین کا چیک آ جائے تو وہ تو کہے گا مجھے تو اللہ اللہ ماں کے پیٹ سے ہی شروع کر دینا چاہئیے تھی اتنے دن میں نے غربت میں گزارے۔اگر اللہ اللہ کرنے سے کوئی مالی فوائد نہ ہو تو لوگ بدگمان ہو جاتے ہیں اللہ اللہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، اللہ کا مزاج ایسا ہے کہ اگر کسی کے دل میں اللہ اپنا نام بساتا ہے تو پھر اُس کی آزمائش بھی ہوتی ہے کسی کی آزمائش شروع میں اور کسی کی آزمائش بعد میں لیتا ہے لیکن آزمائش تو ہوتی ہے۔ جس وقت قرآن مجید نازل ہوا تھا اُس وقت رزق اتنا عام نہیں تھا اس لیے اللہ اس وقت بھوک سے آزماتا تھا ، آج اللہ بھوک سےنہیں آزمائے گا کیونکہ جگہ جگہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں جو کبھی بند نہیں ہوتے،آج کے دور میں اللہ کے آزمائش کے طریقے مختلف ہو گئے ہیں ، وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا میری خاطر اِس بندے کو سب کچھ گوارا ہے یا نہیں ، کیونکہ محبت میں یہی ہوتا ہے ، ایک انسان اگر دوسرے انسان سے محبت میں مبتلا ہو جائے تو پھر وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے ، محبت کا دستور ہے کہ کسی چیز کی پرواہ نہیں رہتی، مولانا روم نے کہا عشق آمد عقل آوارہ شد۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ بندہ عاشق بھی ہو اور عاقل بھی ہو ۔اللہ صرف اس لیے آزماتا ہے کہ وہ دیکھ لے کہ یہ میری طرف کیوں راغب ہوا ہے کل اگر کوئی مسئلہ ہو جائے گا تو کس کو ترجیح دے گا۔آج کے مسلمان کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے حالانکہ حضورنبی کریم نے بھی اپنی محبت کے حوالے سے مسلمانوں پر ایک بہت بڑی شرط رکھی ہوئی ہے

لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ
حدیث متفق علیہ
ترجمہ : تم میں سے ایک شخص بھی مومن نہیں بن سکتا تاوقتیکہ میں محمد اس کو سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ،

اسکے والدین یہاں تک کے ساری انسانیت میں سے میں محبوب نہ ہو جاؤں ۔ ہم تو کہیں اور ہی لگے ہوئے ہیں ، اسلامی ممالک میں کتنے علما ایسے ہیں جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بیٹا سب سے زیادہ محبت حضور پاک سے کرنی ہے، والدین سےبھی زیادہ اور والدین کے بعد اللہ نے کسی رشتے کو اہمیت نہیں دی باقی سب کو انسانیت میں شامل کر دی ۔ ہمارے مسلمانوں کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ماں اور باپ سے زیادہ اللہ کے رسول سے محبت کرنی ہے وہ تو یہ ہے سبق دیتے ہیں کہ ماں کی حکم عدولی کی تو جہنم میں جائے گا اور باپ کا غصہ اللہ کا غصہ ہے، ہمارے یہاں تو فلسفہ ہی بگڑا ہوا ہے ، ادھر ادھر کی کہانیوں میں الجھ گئے ہیں۔

علم ِتصوف میں دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے:

ایک بہت بڑے ولی غوث علی شاہ جن کا مزار پانی پت میں ہے انہوں نے تصوف پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے” تذکرہ غوثیہ” اس کتاب میں علم تصوف پر چھلی چھلی باتیں تھی تو عالم اسلام نے اس کو بین کر دیا اور کہا جس کے پاس یہ کتاب ہو اس کو جلا دے ، پاکستان میں بھی یہ کتاب بین ہے انڈیا میں بھی بین ہے ۔اس کتاب میں ایک واقعہ انہوں نے بیان کیا کہ جب اللہ نے انکی تیسری آنکھ کھولی اور انہوں نے حقیقت حال دیکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع یا حسین کے نعرے لگاتا ہوا آ رہا ہے پوچھا یہ کون ہیں تو کہا یہ حسین کے متوالے ہیں ، پھر دیکھا ایک چھوٹا جلوس آ رہا ہے پوچھا یہ کس کا جلوس ہے کہا مولا علی کا جلوس ہے حیران ہوئے کے مولا علی کا جلوس چھوٹا سا ہے، پھر دیکھا دو چار آدمیوں کا گروپ آ رہا ہے پوچھا یہ کون ہیں کہا کہ جی یہ محمد رسول اللہ کے ماننے والے ہیں ، پھر دیکھا کہ ایک مریل گدھے پر نیم بیہوشی کے عالم میں ایک شخص سوار ہے کہا کہ یہ کون ہے تو جواب آیا یہ اللہ کا ماننے والا ہے، تو اللہ کا ماننے والا کوئی ایک آدھ ہی ہو گا۔جس دور میں ہم رہ رہے ہیں یہاں امام حسین کے ماننے والے بھی ہیں ، مولا علی کے ماننے والے بھی ہیں لیکن اللہ کو ماننے والا شاید کوئی اکا دکا ہی ہو۔ کوئی یہاں کھو گیا کوئی وہاں لگ گیا ۔ یہ امت خرافات میں کھو گئی یہ ہی حال ہےجو ایک تلخ حقیقت ہے۔

“ہم بڑی ذمہ داری سے یہ بات بتا رہے ہیں کہ تصوف ایک ایسا علم ہے کہ جس کے ذریعے انسان ہر وہ شے حاصل کر لیتا ہے کہ جس کو کوئی دنیا دار کرپشن کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔نماز روزہ حج زکوة کا فیصلہ اللہ یوم محشر میں کرے گا لیکن یہ جو تصوف ہے یہ اِسی دنیا میں تم کو کچھ نہ کچھ طاقت ، کچھ نہ کچھ دولت عطا کر دیتا ہے، ایسی دولت کہ جس دولت میں اللہ خود بھی شامل ہے، ساری دنیا بھی اس کی ہو گئی اور اللہ بھی اس کا ہو گیا”

آسمان کو حکم دیتا ہے کہ بارش برسا تو بارش ہو جاتی ہے، اگر نواز شریف یہ چاہے کہ میکائیل کو دو چار ارب کی رشوت دے کر بارش کروا دے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کو میکائیل کا پتا ہی نہیں ہے اگر پتا چل بھی جائے گا تو کیا میکائیل علیہ السلام رشوت لے لیں گے؟ صوفی کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ایک حدیث قدسی میں اللہ نے فرمایا کہ” ایک وقت آتا ہے جب میں اپنے بندے کو اتنا قرب عطا کر دیتا ہوں کہ میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، میں اس کی ٹانگیں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا کرتا ہے۔
اسی بات کو مولانا روم نےبھی فارسی میں بیان کیا۔۔گفتہ او گفتہ اللہ بود گر چہ از حلقوم عبد اللہ بود۔۔۔اس کی گفتگو اللہ کی گفتگو ہوتی ہے باوجود اس کے کہ آواز بندے کے حلق سے آرہی ہے لیکن بول اللہ رہا ہے۔جب کسی کے ساتھ یہ حال ہو جائے کہ اس کے ہاتھ پاؤں میں اللہ کی طاقت آ جائے تو پھر وہ انسان اللہ کی طاقت کے زریعے امر کن کی طاقت حاصل کر لے گا۔

شمس تبریراور مولانا روم کا مشہور واقعہ :

شمس تبریز ایک بہت بڑے بزرگ اور درویش گزرے ہیں ترکی کے شہر کونیہ میں ان کا مزار ہے ، مولانا روم بہت بڑے عالم مولوی تھے ، شمس تبریز اُسی علاقے میں رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ مولانا روم اپنی کتابیں لکھ رہے تھے پہلے زمانے میں قلم اور دوات کی سیاہی سے لکھا جاتا تھا ،شمس تبریز اس علاقے سے گزر ے جہاں وہ کتابیں لکھ رہے تھے انہوں نے آنکھیں بند کر کے مولانا روم کا حال دیکھا تو معلوم ہوا اس کے اندر اللہ والا بننے کی صلاحیت ہے تو وہ اُن کے پاس چلے گئے اب درویشوں کا حلیہ دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے ۔کبھی پھٹے پرانے کپڑے توکبھی بہت اعلی لباس پہنا ہوتا ہے تو اس وقت شمس تبریز بوسیدہ حال بوسیدہ لباس میں مولانا روم کے پاس آئے جو کہ کتابیں لکھ رہے تھے اور پوچھا “ایں چیست” کہ یہ کیا ہے جو تم کر رہے ہو تو مولانا روم نے ایک نظر اٹھا کر ان کا بوسیدہ حال دیکھا اور کہا” ایں آں علم اسست کہ تو نمی دانم” کہ بابا جی یہ وہ علم ہے جو تمہارے پلے نہیں پڑے گا۔ اب وہ تو بزرگ تھے انہوں نے سوچا اِس کو کچھ کر کے دکھانا چاہیے تاکہ یہ چونک کر متوجہ ہو جائے انہوں نے اُس کے پیٹ پر نظر ڈالی جس سے وہ رفع حاجت کے لیے بھاگے ، ان کے جانے کے بعد شمس تبریز نے ان کی ساری کتابیں اٹھا کر پانی میں ڈال دیں،جب مولانا روم واپس آئے تو بہت غصہ کیا ناراض ہوئے کہ اے جاہل آدمی! میرا سارا علم میری ساری کتابیں تم نے پانی میں ڈال کر ضائع کر دیا ،تو شمس تبریز نے انگلی کا اشارہ کیا اور تمام کتابیں اڑتی ہوئی پانی سے باہر نکل آئیں جو کہ بالکل خشک تھیں یہ دیکھ کر جلال الدین رومی چونک گئے اور پوچھا” ایں چیست؟ شمس تبریز نے بھی وہی جواب دیا کہ ایں آں علم است کے تو نمی دانم۔ اس کے بعد مولانا روم نے شمس تبریز کی غلامی اختیار کی اور یہ دلوں میں اللہ کو بسانے کا سلسلہ شروع کیا بعد میں جب انہوں نے مثنوی لکھی تو کہا
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نہ شد
کہ مولوی کبھی بھی مولانا روم نہیں بنتا اگر یہ شمس تبریز کا غلام نہ بنتا ، تو بزگوں کی غلامی اختیار کرنا پڑتی ہے لیکن اس کے بعد جو طاقت انسان کے پاس آ جاتی ہے اس کے مقابلے میں پیسہ کچھ بھی نہیں ہے ،بارش برسانا، مردوں کو زندہ کرنا، پتھر کو سونا بنانا تو کچھ بھی نہیں اس کے ہاتھ میں تو اللہ ساری طاقت دے دیتا ہے وہ بھکاری پر نظر ڈالے تو بادشاہ بنا دیتا ہے۔

ابراہیم بن ادھم کا واقعہ :

ابراہیم بن ادھم بہت بڑے بادشاہ تھے جب اُن کا وقت آیا تو اللہ نے خضر علیہ السلام کو بھیجا ،ایک رات جب وہ اپنے محل میں سوئے ہوئے تھے تو خضر علیہ السلام اُن کے محل کی چھت پر پہنچ گئے ابراہیم بن ادہم کومحسوس ہوا چھت پر کوئی ہے انہوں نے آواز دی چھت پر کون ہے تو انہوں نے کہا میری گائے کھو گئی ہے وہ ڈھونڈ رہا ہوں تو انہوں نے کہا گائے کا چھت پر کیا کام تو خضر علیہ السلام نے کہا میں تو چھت پر گائے ڈھونڈ رہا ہوں تم نرم بستر پر رب کو ڈھونڈ رہے ہو اللہ بستر پر کہاں ملے گا؟ یہ سنتے ہی وہ بادشاہت چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں کی طرف نکل گئے ۔

“یہ جو تعلیم تصوف ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ جنگلوں میں جاتے تھے لیکن سیدنا گوھر شاہی نے اس تعلیم کو از سر نو جدت دی ہے کہ شہر میں ہی رہو جو کھانا پینا ہے وہ کرتے رہو ،بیوی بچوں کے ساتھ رہومگر یہ ایک راز ہےذکر قلب اللہ سے دوستی کرنےکا اسے بھی حاصل کرو۔ کسی کو مذہب تبدیل کرنے کا نہیں کہتے، ہندو ،سکھ، یہودی اور عیسائی سب کے لیے ایک پیغام ہے کہ صوفی بن جاؤ،مسلمان کو بھی ایک ہی پیغام دیتے ہیں کہ صوفی بن جاؤ”

بارہ سال جنگلوں میں چلہ کشی مجاہدہ کرنا پڑتا تھا اس کے بعد کہیں جا کر نفس میں طہارت محسوس ہوتی تھی ، سیدنا عبد القادر جیلانی پندرہ سال تک عراق کے جنگلوں میں ساری رات ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھتےرہے، غوث اعظم نے جنگلوں میں چالیس سال گزارے، آج کا مولوی کتنی بد تمیزی سے ان کا نام لیتا ہے۔ انہوں نے گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑا جنگلوں میں چلے گئے ،پتے کھائے اور چالیس سال گزر گئے پھر اللہ نے اُن کو اپنا محبوب بنا لیا ۔آج ہم بزرگوں کا نام تو بڑی عزت سے لیتے ہیں کہ یہ غازی بابا ہیں ، یہ مصری بابا ہیں ، یہ خواجہ صاحب ہیں یہ داتا علی ہجویری ہیں ، یہ معین الدین چشتی ہیں یہ غوث پاک ہیں ان کو مانتے بھی ہیں لیکن کیا ہم ساری زندگی ان کو سلام کرتے گزار دیں گے؟لیکن اب سرکار گوھر شاہی نے یہ پیغام دیا کہ آؤ داتا اور خواجہ بننے کا علم آ گیا ہے کہ اب ہر عام شخص داتا اور خواجہ کے ایمان والا بن جائے، کیا اللہ کی طاقت میں کوئی کمی ہے، یا کہیں لکھا ہوا ہے کہ ایک ہی داتا علی ہجویری بنے گا، یا ایک ہی خواجہ اجمیر بنے گا؟ وہ علم نہیں رہا جس سے داتا اور خواجہ بنتے تھے وہ علم چیدہ چیدہ ہستیوں تک تھوڑا تھوڑا پہنچا اور انہوں نے بڑی کنجوسی سے کام لیا ، خود اس علم پر عمل پیرا ہو کر صوفی تو بن گئے لیکن کسی کے ساتھ اس علم کو بانٹا نہیں ، لوگوں کو تسبیح درود وظائف میں الجھائے رکھا۔علامہ اقبال نے کہا
سراپا حسن بن جاتا ہے ان کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل حسین ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں !

آج کااسلام محمؐدکی محبت کے نشے سے محروم ہے:

حسن پرست ہونا اللہ کی سنت ہے لیکن اللہ کا حسن نظر آئے گا تو ملاحظہ فرمائیں گے نا۔ آج کا اسلام تو وہ ہے جس میں حضور کی محبت کا نشہ نہیں پلایا جاتا ، آج کا اسلام وہ ہے جس میں مسلمانوں کے دلوں میں حضور کی محبت کا نشہ ، حضور کا چہرہ نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی عورت ایسی نہیں ہے کہ جس کی زلفیں محمد رسول اللہ کی زلفوں سے زیادہ حسین ہوں ، کوئی چہرہ ایسا نہیں ہے کہ جو حضور کے چہرے سے زیادہ خوبصورت ہو۔ اگر ان لوگوں کو حضور کا چہرہ دکھا دیا جائے تو کیا یہ کسی اور نشے میں پڑیں گے؟ جب انہوں نے دیکھا کہ مسجد اور مندروں میں لڑائی جھگڑا اور فتنہ فساد ہے ، ان کے عمل اور ان کے علم میں کوئی تعلق نہیں ہے، داڑھیاں ہیں لیکن عزت زمانے میں کھو گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب علماء حق کی طرف پیٹھ کرنے کو بھی گناہ سمجھتے تھے، ایک آج کا دور ہے جب کوئی مولوی جاتا ہے تو کہتے ہیں ملا جا رہا ہے ،کیوں ؟ عالم حق کے خلاف آج بھی کوئی نہیں ہے ، جنہوں نے محمد رسول اللہ کے دین کو تقویت پہنچائی جنہوں نے اسلام کا صحیح تصور مسلمانوں کو پیش کیا، فرقہ واریت اور ہر قسم کے فتنہ سے امت مسلمہ کو محفوظ کیا ان کی آج بھی دل و جان سے عزت کی جاتی ہے ان کی تعظیم میں سر جھکتے ہیں لیکن جن لوگوں نے دین ِاسلام کو بیچ دیا، قرآن مجید کی عزت پائمال کر دی، اللہ کے گھروں ، مسجدوں کے تقدس کو پامال کر دیا اور وہاں اغلام بازی شروع کر دی، وہاں دین کو بیچنا شروع کر دیا اور کسی کو وہابی ، کسی کو شیعہ ، کسی کو بریلوی بنا کر پورے کا پورا شیرازہ اسلام بکھیر دیا، اور آج ہم اس حال میں ہیں کہ ہمارے پاس صرف یہ تصور ہے کہ ہم سب سے بہترین اُمت ہیں ۔لیکن ہم تو سب سے بہترین انسان بھی نہیں بچے، مسلمان مسلمان کا گوشت کھا رہا ہے، سریا ،سعودیہ عرب سے کتنا دور ہے، کیا مدد کی؟ جب حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ایک مسلمان بھائی کو دوسرے مسلمان بھائی کا درد محسوس ہوتا ہے ، کیا یہ حدیث غلط ہے؟ تو پھر سریا میں مسلمانوں پر جو بھی کیفیت بیت رہی ہے اس کے لیے کلب میں ناچنے والا ایک شخص پاکستان سے سریا پہنچ گیا لیکن سریا کا پڑوسی جو کہ خادمین حرمین ہیں وہ سریا کی مدد کو کیوں نہیں پہنچے؟ ان حرام زادوں کو اسلام سمجھ نہیں آیا جن کے ٹوائلٹ بھی سونے کے بنے ہوئے ہیں ، کیا یہ وہی اسلام ہے جو محمد رسول اللہ نے پیش کیا تھا؟ عرب قوم لسانیت کا شکار تھی، ہر قبیلے کو اپنے قبیلے پر فخر تھا ، میں بنی امیہ کا ہوں ، میں نبی قریش ، بنی ہاشم ہوں ، لیکن جب حضور پاک صئے تو آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر کہا آج کے بعد کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت حاصل نہیں ، میں عرب اور عجم کے مابین تمام تفرقات کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں ، اللہ کے نزدیک معیار عرب ہونا نہیں بلکہ متقی ہونا ہے، اللہ کے سب سے نزدیک وہ ہے جو متقی ہے بھلے وہ عرب ہو یا عجم ہو ۔لیکن ہم تو ابھی تک عربیوں کو افضل سمجھتے ہیں جبکہ ان کا حال دیکھیں کیا ہے وہ قرآن کو عام کتاب کی طرح رکھتے ہیں جبکہ پاکستانی مسلمان تو فرشتے ہیں وہ تو قرآن پر مخمل کا غلاف چڑھا کر اونچے مقام پر رکھتا ہے ، عربی لوگ قرآن پڑھتے پڑھتے نیند آ جائے تو اسی قرآن کا تکیہ بنا لیتے ہیں کیا یہ ادب ہے؟ ، خانہ کعبہ میں ڈیوٹی پر موجود شرطہ کعبہ کی دیوار پر جوتے لگا کر کھڑے ہوتے ہیں کیا یہ ادب ہے؟ پاکستان میں چپل مسجد سے باہر اتارتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا ہے کہ کعبہ میں اکثر لوگ اپنی قیمتی چپل ساتھ لے جاتے ہیں اور جائے نماز کے سامنے رکھ کر نماز ادا کرتے ہیں، جہاں چپلیں رکھتے ہیں وہیں قرآن رکھ دیتے ہیں کہاں چلا گیا ہے ادب؟ تقدس کا کوئی خیال ہی نہیں ہے ۔یہ جو پاکستان میں مختلف لوگوں پر توہین اسلام ، توہین قرآن کے مقدمات لگاتے ہیں ان کے والدین شاہ فہد اور شاہ سلیمان ہی ہیں ،کیا ان کو کعبہ میں ہونے والی توہین نظر نہیں آتی؟

تصوف کیا ہے؟

خدا اور بندے کا ایک ہوجانا تصوف ہے، جو طاقت خدا کے پاس ہوتی ہے وہ خدا اس بندے میں بھی آ جاتا ہے اور وہ طاقت اس بندے کے پاس بھی ہوتی ہے ۔ یعنی پہلے جسطرح کسی نے امریکہ جانے کے لیے ٹکٹ خریدی توپہلے کراچی سے دبئی ایمریٹس میں لاتے تھے پھر دبئی سے کوئی امریکن ائیر لائن لے کر جاتی تھی جسکو کوڈ شیئرنگ کہتے تھے ۔ تصوف اس بات کا نام ہے کے آدمی لا الہ الا اللہ کی طاقت سے غیر اللہ کو اپنے قلب و قالب سے نکال دے۔ قلب مومن عرش اللہ قلب مومن بیت الرب ، کہ مومن کا قلب اللہ کا عرش اللہ کا گھر ہے، لا الہ الا اللہ کی تلوار سے غیر اللہ کو نکال دے اور پھر اللہ دل میں آ کر بیٹھ جائے، جب اللہ دل میں آ جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس بندے کے ساتھ کوڈ شیئرنگ کرتا ہے کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی ۔ قرآن میں لکھا ہےراضیہ مرضیہ۔۔۔ اے نفس مطمئنہ والے میں تجھ سے راضی ہو گیا تو مجھ سے راضی ہو جا یعنی جب اللہ مطمئن ہو جاتا ہے کہ اب اس میں غیر اللہ باقی نہیں بچا صرف میں ہی میں رہ گیا ہوں تو اللہ کہتا ہے جو تو کہے گا سمجھ میں نے کہا ہے جو میں کہوں گا سمجھ تو نے کہا ہے، جن کے ساتھ اللہ کی کوڈ شیئرنگ ہو ایسے ہی لوگوں کے پاس لوگ تقدیر بدلوانے جاتے تھے ۔ تیری عبادت، تیری دعا اللہ تک نہیں پہنچ رہی تو کسی خواجہ کسی داتا کے پاس چلا جا ، کسی بلھے شاہ کے پاس چلا جا، ان کے پاس چلا گیا تو اللہ کے پاس چلا گیا، اس کو مک مکا کہتے ہیں ، دنیا میں کوئی اتنا امیر نہیں ہوسکتا جتنا امیر ایک درویش ہوتا ہے ، جب اُس کا من پاک صاف ہو جاتا ہے تو ساری دنیا کی دولت اُس کے قدموں میں ہوتی ہے ، کوئی فقیر ایسا نہیں گزرا کہ جس کے پاس لامتناہی طاقت نہ ہو ، فقیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسانی صورت میں سامنے رب بیٹھا ہوا ہے۔

اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ
حدیث نبویؐ
ترجمہ: جب تو فقر میں کا مل ہوگیا تو پھر تجھ میں اللہ ہی رہ گیا ۔

جب قلب و قالب میں اللہ کا نقش آ گیا ، نس نس میں اللہ کا نور پہنچ گیا ،سر سے پاؤں تک نور ہی نور پہنچ گیا تو کہیں گے اذا تم الفقر یہ فقر میں کامل ہو گیا فھو اللہ اب یہ اللہ ہی ہو گیا اورلوگ کہیں گے یہ بندہ ہے، یہ حضور کے الفاظ ہیں۔حضور نے یہ بھی کہامن راعنی فقد را الحق۔۔۔۔ جس نے مجھے دیکھا اس نے اسی کو دیکھا ۔اللہ نے قرآن مجید میں نبی کریمؐ کے لئے ارشاد فرمایا کہ

وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
سورة الذریات آیت نمبر 21
ترجمہ : میں تو تمہارے نفس کے پردے میں چھپا ہوں ۔

اندر تو جھانکوتمہارے پاس بصیرت نہیں ہے ، وہ بصیرت تصوف سکھاتا ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ جو بڑے بڑے درندے نواز شریف، زرداری جیسے بیٹھے ہیں ان کے پاس تو بڑے بڑے محل ہوں ، اور جو رب سے محبت کرنے والا ہو وہ فٹ پاتھ پر رہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا نام چلا جاتا ہے تو پھر اللہ کی یہ چڑ اور ضد بن جائے گی کہ میں اس کو اتنا نواز دوں کہ کوئی اس کے ہم پلہ نہ رہے کیونکہ اس میں اُس کی بڑائی ہے ۔غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ چالیس سال جنگل میں گزار کر آئے تو کوئی کاروبار تو نہیں تھا لیکن اتنے امیر و کبیر ہوگئے کہ آج سے آٹھ نو سو سال پہلے ان کے لیے روزآنہ چالیس ہزار درہم کا کرتا بنایا جاتا تھا ایک مرتبہ پہننے کے بعد دوبارہ اسے نہیں پہنتے تھے پھر وہ کرتا غریبوں میں بانٹ دیا جاتا تھا۔ مولویوں نے ان سے سوال کیا آپ اتنا اصراف کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہا اللہ روزآنہ پانچ سو مرتبہ کہتا ہے اے عبد القادر جیلانی تو نے چالیس ہزار درہم سے کم کا کرتا نہیں پہننا تو میں اللہ کی بات ٹال نہیں سکتا۔ہمارے یہاں کیا ہے لوگ اسلام کی مثال کے لیے حضور پاک کے تین پتھر باندھنے کا حوالہ دیتے ہیں ، وہ فاقے نہیں تھے بلکہ وہ ان کی مرضی تھی وہ اپنی مرضی سے نہیں کھاتے تھے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی ذات کو اللہ اپنا محبوب بنا کر بھیجے اور کھانے کے لیے ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہ ہو؟ وہ تو ساری دنیا کے بادشاہ تھے ، یہ ان کا اپنا ایک طرزِ حیات ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رزق سے دور رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا جسم ہلکا پھلکا رہے ، ان کے پاس غربت نہیں تھی، وہ تو سارے خزانوں کے بادشاہ و مالک ہیں ، اعلی حضرت نے کہا میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہیں محبوب و محب کیونکہ مالک و محب میں تیرا میرا نہیں ہوتا ،اللہ یہ تھوڑی کہے گا تیرا الگ ہے میرا الگ ہے۔
غوث پاک کے پاس اعلی ترین نسل کے گھوڑے تھے، ان کے ایک ماننے اور چاہنے والے کے ذہن میں خیال آتا تھا کہ یہ اللہ کے ولی ہیں انہوں نے اتنے اعلی نسل کے قیمتی گھوڑے کیوں رکھے ہیں ، اچانک اس کو ایک ایسی بیماری لگ گئی کہ اس دور کے حکما نے کہا کہ اس کے علاج کے لیے تین اعلی ترین نسل کے گھوڑے ملیں جن کے خون میں معجون ملا کر دوا تیار ہو اور پھر اس دوا سے اسکا علاج ہوگا ، وہ تین اعلی نسل کے گھوڑے دنیا میں کہیں نہیں تھے صرف غوث پاک کے پاس تھے جب وہ اس کو کہیں نہیں۔ ملے تو وہ پریشانی کے عالم میں ان کے پاس گیا تو آپ نے کہا وہ گھوڑے لے جاؤ ہم نے تمہارے لیے ہی تو رکھے تھے کتنے امیر و کبیر تھے۔ اب ایک طرف ہم غوث اعظم کا حال دیکھتے ہیں کہ چالیس ہزار درہم کا کرتا زیب تن فرماتے تھے دوسری طرف ہم حضور کا حال بھی دیکھتے ہیں کہ آپ نے تین پتھر باندھے ہوئے ہیں اور تین دن تک کچھ کھایا نہیں ہے ،آپ کی چہیتی بیٹی فاطمہ الزہرا کے یہاں بھی فاقہ کشی کا دور دورہ ہے تو ذہن بڑا پریشان ہوتا ہے کہ غوث پاک زیادہ اللہ والے ہیں یا حضور پاک زیادہ اللہ والے ہیں ، لوگوں کے ذہن اس لیے خراب ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے ، یہ جو فقر ہے یہ دو طرح کا ہے، فقر بالفقر ، اور دوسرا فقر بالغنی ہے۔ فقر بالفقرکا مطلب یہ ہے کہ اس پر عشق الہی کا دور دورہ ایسا ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر رہنا چاہتا ہے ۔ جیسے حضور نبی پاکؐ کی ذاتِ اطہر ہے کیونکہ آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہوجانے کے بعد زیادہ تر مراقبے میں اپنا وقت گزارتے، انکا مراقبہ کیا تھا کہ آپ جب اپنے قلب کی طرف توجہ فرماتے تو آپ کی ارواح نکل جاتیں اور عرش الہی پہنچ جاتیں ، قرآن مجید میں آیا

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب
سورة الشرح آیت نمبر 7 تا 8
ترجمہ : یا رسول اللہ جب آپ فرائض نبوت سے فارغ ہو جائیں تو اپنے رب کی طرف راغب ہو جایا کریں۔

یا رسول اللہ دن بھر جو منصب نبوت آپ کو عطا کیا ہے دن بھر آپ اس منصب پر دعوت کا کام کرتے ہیں اسلام کی دعوت ، اللہ کی محبت کی دعوت دیتے ہیں دن بھر سارا اس منصب کی فراغت میں گزاریں لیکن جب اس کام سے فارغ ہو جائیں تو پھر وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب تو پھر رب کی طرف راغب ہو جائیں وہی کیف اورنظارہ ہو گا جو شب معراج میں تھا۔ اب حضور کا زیادہ وقت اُن مراقبوں میں گزرتا ، انکا دل کہیں اور لگتا ہی نہیں تھا ، اوڑھنا ، بچھونا ، کھانا پینا، ان چیزوں میں اُن کا دل نہیں تھا اس لیے انہوں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے زیادہ تر تو میں اللہ کے دیدار میں رہتا ہوں ۔ غوث اعظم حضوؐر کے زمانے کے پانچ سو سال بعد آئے ہیں جب لوگوں کے پاس پیسہ تھا ، اللہ کا ایک قانون آپ کو سمجھنا ہو گا ، حضور نے ایک بات بتائی کہ متکبر سے کبھی بھی عاجزی سے نہیں ملنا، جو تکبر سے ملے ضروری ہے تم اس سے تکبر سے ملو، جو عاجزی سے ملے تم اس سے عاجزی سے ملو ۔اگر کوئی تکبر سے ملے اور تم اس سے عاجزی سے ملو گے تو وہ تمہارے منہ پر ٹھوکر مارے گا ۔متکبر سے عاجزی سے ملیں گے تو دو طرح کے نقصان ہو ں گے ایک تو وہ عزت نہیں کرے گا اور اگر آپ اللہ والے ہیں تو یہ اللہ کی شان میں توہین ہے، لہذا تکبر کرنے والونکے ساتھ تکبر کرنا ضروری ہے۔لہذا جب غوث پاک کا زمانہ آیا تو لوگوں کے پاس بے شمار مال و دولت تھی اتنے بڑے بڑے اژدہے بیٹھے ہوئے تھے کہ اگر آپ یہ تمام دھن دولت ان کو نہ دکھاتے تو لوگ اللہ کی راہ میں نہیں لگتے ، وہ یہ ہی کہتے کہ اگر ہم نے بھی اللہ اللہ کی تو ہم بھی بھکاری بن جائیں گے۔
لیکن مجھے سرکار گوھر شاہی نے ایک دن یہ سمجھایا کہ اگر پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اس مشن کے بارے میں لوگوں کو بتایا تو لوگ سوچیں گے کہ اللہ ھو کرنے سے ہم بھی اس حال کو پہنچ جائیں گے۔ تو دنیا کو دیکھتے ہوئے بہت سے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں ، کیونکہ لوگوں کا معیار ہی یہی ہے، اس دنیا میں صرف ان لوگوں کو متاثر کرنا ہے جو ازلی مومن ہیں۔ ازلی مومن کو اس مشن اور تصوف کی راہ پر لگانے کے لیے آپ لوگوں کو ہر قسم کی پالیسی اختیار کرنا پڑے گی، جو تصوف میں آ جاتا ہے ، تو یہ تصوف اس کو یوم محشر کا لارا لپا نہیں دیتا ہے، ٹرخاتا نہیں ہے کہ سب کچھ یوم محشر میں ملے گا اسے اسی دنیا میں رہتے ہوئے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ہمارے گھر کے باہر سات برینڈ نیو کاریں کھڑی ہیں اس کے باوجود کبھی کبھی دوسروں کی کار میں جاتے ہیں ، کیوں ؟ یہ ہوس نہیں ہے ، جب کوئی یہ دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں بھی یہ خیال آتا ہے کہ یار اگر میں بھی اللہ اللہ کرنے لگ گیا تو چلو سات نہیں تو ایک آدھ گاڑی تو آجائے گی، دنیا کا دستور یہی ہے۔

اب تصوف کی قیمت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں جس کے دل میں اللہ اللہ شروع ہو گیا وہ لکھ پتی تو بن کر رہے گا، کیونکہ ہم نہیں سمجھتے کہ اللہ کی جس سے دوستی ہو گئی اور اللہ اس کو بھوکا مارے ، جب اللہ نے نواز شریف، زرداری جیسے کنجروں ، کتوں کو دیا ہے جن کی کوئی وقعت نہیں ہے ،لوگوں کے گلے گھونٹ کر پارک لین پر جائیدادیں بنا لیں تم کو شرم نہیں آتی؟ اپنی محنت کی کمائی سے کچھ لو تب تو مزا بھی ہے ، غبن اور کرپشن کر کےعمرے کرنا ، ادھر جانا ادھر جانا کیا زیب دیتا ہے ، انسان تو اپنی نظروں میں ہی گر جاتا ہے اگر ضمیر زندہ ہو تو! اللہ ھو اگر دل میں چلا جائے تو ایسی ایسی جگہوں سے آئے گا کہ آپ رکھ رکھ کر بھولیں گے ، گنا نہیں جائے گا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 11 نومبر2017 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے خطاب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس