- 567وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
سورة توبہ آیت نمبر 111 کی تشریح:
إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اس آیت میں جو اجزاء ہیں وہ وہی ہیں جو ایک مرید اور مرشد کے مابین بیعت کا نظام ہوتا ہے ۔ کیونکہ لفظ بیعت بکنے سے نکلا ہے یعنی فروخت کرنا۔ جو لوگ تصوف اورقرآن مجید سے واقف نہیں ہوتے وہ بظاہر دعوی کرتے ہیں کہ ہم دین کے جاننے والے ہیں، عالم ہیں لیکن جب مرشد اور مرید کے مابین جو بیعت کے موضوع پر بات ہوتی ہے اس پر اعتراض کرتے ہیں اکثریت اس کو سمجھ نہیں پاتی ۔یوں تو ہندوستان پاکستان میں کڑوڑوں لوگ کسی نہ کسی پیر و مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں لیکن کتنے لوگوں کو پتہ ہے کہ بیعت کا کیا مطلب ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو لفظ بیعت سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ اللہ تعالی نے سورة توبہ کی آیت نمبر 111 میں جو بات فرمائی ہے وہ ایسی ہی ہے جو ایک مرید مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے ۔اب مرید اپنے آپ کو بیچتا ہے توخریدتا کون ہے؟ مرشد اس کو اللہ کی بنیاد پر خرید لیتا ہے اورجب وہ بندہ بک جاتا ہے تو اس کی اپنی زندگی اُس کی اپنی نہیں رہتی ہے۔اب وہ چون و چرا نہیں کر سکتا اسکی اپنی مرضی ختم ہو جاتی ہے ۔کتاب مقدس دین الہی کی جو تعلیمات ہیں اس میں سرکار گوھر شاہی نے لکھا ہے کہ” مرید کے جسم کا تعلق مرشد سے ہے”۔ مرشد اُس کے جسم کا مالک ہےیہ مرشد کی مرضی پر منحصر ہے کہ تم سے نمازیں پڑھوائے یا تم سے جھاڑو دلوائےکیونکہ تم اُس کا مال ہو اُس نے خرید لیا ہے۔قرآن مجید میں جو آیا ہے أَوْ مَا مَلَكَتْ یہ بھی اسی طرف اشارہ ہےیہی چیز اللہ تعالی نے سورة توبہ کی اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ
ترجمہ : اللہ تعالی نے مومنوں سے ان کے نفوس اور مال خرید لئے ہیں اور ان کو جنت عطا کرے گا۔
اب یہاں پر ایک فریق کا ذکر آیا ہے جسے اللہ نے خریدا ہے ، کسی نے بیچا ہو گا تو تبھی اللہ تعالی نے خریدا ۔اسی طرح سرکار گوھر شا ہی نے اپنے گاؤں ڈھوک گوھر شاہ میں گفتگو کے دوران فرمایا کہ ایک عورت نے ہم کو کہا تھا کہ تیرے گھر پر بازارِ مصطفی لگے گاجس میں خریدار خود اللہ ہو گا۔ جو قرآن اور اس کے علم سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کونسی خرید وفروخت کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ خریدو فروخت کا ذکر تو قرآن مجید کی اس آیت میں موجود ہےکہ اللہ تعالی نے مومنوں سے ان کے نفوس اور مال خرید لئے ہیں،اب جب اللہ نے خرید لیا ہے تو زندگی آپنے کیسے گزارنی ہے یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔لیکن یہ خریدوفروخت خود بخود نہیں ہوتی ہے ۔اللہ جب کسی کو خریدتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے مامور جو مرشد، اولیاء، فقراءو صالحین ہوتے ہیں تم اُس کے ہاتھوں اپنے آپ کو بیچتے ہویعنی بیعت کرتے ہو۔بیعت کرنا صرف زبانی کلامی عمل نہیں ہےبلکہ بیعت کرنے کے بعد آپ بک گئے۔ یہاں اس آیت میں مومنین کو خریدنے کی بات ہو رہی ہے مسلمانوں کی بات نہیں ہو رہی ہے کیونکہ بکنے کے لئے دل سے کلمہ پڑھنا پڑتا ہے ۔کوئی محمد الرسول اللہ کے ہاتھوں فروخت ہوا، کوئی مولی علی کے ہاتھوں فروخت ہوا ،کوئی بی بی فاطمتہ الزہرہ کے ہاتھوں فروخت ہوا ہو گا، کوئی حسن بصری کے ہاتھوں فروخت ہوا ہو گا، کوئی غوث الاعظم ؓ کے ہاتھوں فروخت ہوا ہو گااور کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں سرکار گوھر شاہی نے خرید لیا ہے کیونکہ بازار مصطفی تو سرکار گوھر شاہی کے درِ اقدس پر لگنا ہے۔وہ کون ہیں جو اپنے آپ کو بیچیں گے؟ پھر اس آیت میں آگے بیان فرمایا کہ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ
اب اللہ کی راہ میں قتل کیا ہوتا ہے؟ اسلام کی بالا دستی کے لئے ، اسلام اور اللہ کے دشمنوں سے مڈبھیڑ کرناتاکہ اسلام کی بقا ہو اور اُمت مصطفیﷺ کی بقا ہو اور یقیناً یہ قتل و غارت جب کی جائے گی جب واقعتاً اسلام خطرے میں ہوگا۔اسلام اُس وقت خطرے میں ہوتا ہے جب اُمت کے مسلمانوں پر مصیبت آ جائے۔فی نفسہی اسلام کسی عمارت یا خطے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام اُمت کا نام ہے ۔اگر اُمت مصطفیﷺ کو خطرات درپیش ہوں ، دشمنان الہی اور دشمنان اسلام اگر اُمت کو ختم کرنا چاہیں اُن پر حملے کریں ، اُن پر قتل و غارت طاری کردیں تو پھر اپنے دفاع میں تم نے بھی قتل و غارت کرنی ہےلیکن یہ جب ہو گا جب اللہ کا بھیجا ہوا اسلام خطرے میں ہو۔پھر اس آیت میں آگے ارشاد فرمایا کہ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ کہ وہ تمھیں قتل کرتے ہیں اور تم اُن کو قتل کرواور تم اللہ کی راہ میں اپنی زندگیاں نچھاور کر رہے ہوکیونکہ اللہ نے تمھیں خر یدا ہوا ہے۔اب الگ سے اس کی دعا نہ کرنا کہ ہم نےجان دی ہے اب اس کا اجر بھی دے۔اب جب اللہ نے خرید لیا تو اب یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے کہ چاہے تم سے جہاد کرائے ، چاہے وہ تم کو اذن و ارشاد دے کر مرشد کامل بنا کر ڈیوٹی پر مامور کر دے تاکہ تم لوگوں کا تذکیہ نفس اور تصفیہ قلب کرواور اللہ اگر چاہے تو تمھیں علم کی ترسیل پر لگا دے، علم و عرفان کی تقسیم پر لگا دے، اللہ چاہے تو تمھیں مولی بنا دے،جیسے علی کو مولی بنایا جو چاہے تمھیں بنا دے کیونکہ تم بک چکے ہو۔ چونکے اللہ نے تمھیں خرید لیا ہے اس لیے تم اللہ کا مال ہو۔
اللہ کے خریدے ہوئے لوگ کون ہوتے ہیں؟
اللہ کے خریدے ہوئے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی مرشد کامل کے ہاتھ بکے ہوتے ہیں اور خریدار اللہ تھا۔جو محمد الرسول اللہ نے بیعت کی وہ اللہ نے خریدا تھا، بکے مصطفی کے ہاتھوں لیکن خریدار اللہ تھا، بکے غوث الاعظم کے ہاتھوں لیکن خریدار اللہ تھا، بکے خواجہ غریب نواز کے ہاتھوں لیکن خریدار اللہ تھا۔ مرشد کی ملکیت میں گئے تو اللہ کی ملکیت میں چلے گئے۔ جب تم بک گئے تو نہ من تمھارا رہا اور نہ تن تمھارا رہا کیونکہ تم بک چکے ہو ، اب تمھارا اپنے اوپر کوئی اختیار نہیں رہا۔
وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ
اور یہ جو خریدو فروخت کی رسمیں اور باتیں ہیں یہ مت سمجھنا کہ یہ طریقہ صرف مسلمانوں میں ہم نے رائج کیا ہے جن پر ہم نے توریت نازل کی تھی اُن میں سے بھی بہت سوں کو خریدا تھااور جن پر انجیل نازل کی تھی اُن میں سے بہت سوں کو خریدا ہے تو یہ بات اللہ کے خرید و فروخت کی ہے۔ اب اللہ ایسے ہی کسی کو نہیں خرید لیتا ہے اللہ کی خرید و فروخت کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ کو پانے کے لئے مرشد کامل ڈھونڈتے ہو اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہو یعنی اپنے آپ کو بیچتے ہو ۔ جب تم بیعت کرتے ہو تو اُس وقت خریدار اللہ اور مرشد کے ہاتھوں میں مرید کا ہاتھ ہونا چاہیےورنہ بکے ہیں نہیں ۔جب تم نے مرشد کے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنے آپ کو بیچا تو مرشد کا ہاتھ وہ ہاتھ ہو جس مرشد میں رب بستا ہو ، جس کے ہاتھوں میں رب کا ہاتھ ہو ، جس کی زبان میں رب کی زبان ہو ، جس کی آنکھوں میں رب کی آنکھ ہو جیسے غوث الاعظم ؓ تھے ، جیسے بابا فرید تھے، جیسے نظام الدین اولیاء تھےاور پھر سرکار گوھر شاہی کی تو بات ہی نرالی ہے ۔ اس سے پہلے جسموں کی خریدو فروخت ہوتی تھی لیکن سرکار گوھر شاہی نے لوگوں کے دلوں کو خریدا ہے اور پھر اپنی کتاب مقدس دین الہی میں فرمایا کہ جب امام مہدی کی سلطنت قائم ہو جائے گی تو امام مہدی اور عیسی علیہ السلام لوگوں کے دلوں پر راج کریں گے ۔ امام مہدی اور عیسی کا لوگوں کے دلوں پر تسلط ہو گا۔وہ لوگ جو دل کی تعلیم سے واقف نہیں ہیں جن کے دل نہ اللہ اللہ کرتے ہیں نہ یا گوھر کرتے ہیں ، جن کے جسّے اُن جسموں سے نکل کر سرکار گوھر شاہی کا طواف نہیں جانتے اُن کو کیا خبر کے دلوں کا تسلط کیا ہوتا ہے ۔
اس خریدو فروخت کے سودے میں بکنا پڑتا ہے اور بکنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب تمھارا دل اللہ اللہ کرنا شروع ہو گیا اور تین سال تک اللہ اللہ کرتا رہا اور تین سال کے اندر کوئی جثّہ نکل گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اب اللہ نے تمھیں خرید لیا ہے ۔ اس سے قبل صرف نماز و روزہ فرض تھا ، اس سے قبل صرف حج فرض تھااس کے بعد جب خرید لیا تو مرشد کا ہر حکم ایسے فرض ہو گیا جیسے نماز فرض ہے ، جیسے کلمہ پڑھنا فرض ہے ، روزہ رکھنا فرض ہے ، حج کرنا فرض ہے ۔ جس دم غافل سو دم کافر۔ پھر نفس کی اپنی خواہش ختم ہو جاتی ہے اور نفس کو طلاق دینا پڑتی ہے اسی لئے یہ خرید و فروخت تب ہو تی ہے جب نفس پاک ہو جائے۔جب نفس ناپاک ہو گا تو گڑبڑ کرے گا۔ جن لوگوں نے سرکار گوھر شاہی سے سترہ سال پہلے جو وعدے کئے تھے وہ نہیں نبھاتے، اپنے گھروں میں بیٹھ کر تاویلات بناتے ہیں ۔کبھی سرکار گوھر شاہی کی ذات کو جھٹلاتے ہیں تو کبھی مرتبہ و تعلیم کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے نفس کی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہیں اپنے نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔لیکن جب نفس پاک ہو جائے گا، قلب کا تصفیہ ہو جائے گاتو پھر مرشد کامل اُسے خریدے گا۔ جب تک تجھے خریدا نہیں گیا ہے تو تُو محتاج اور بے بس ہےاور جب مرشد نے خرید لیا پھر تُو بے فکر ہو جا کیونکہ اب تو جس کی ملکیت ہے وہ تیری حفاظت کرے گا۔تو گوھر کا مال ہے ۔۔۔ پس تو گوھر کے ہاتھ ہے
اگر یہ سارے کے سارے لوگ سرکار گوھر شاہی کے ہاتھوں بکے ہوئے ہوتے تو پھر اتنے دھڑوں میں منقسم کیوں ہوتے ، کوٹری والے ڈھوک گوھر شاہ والوں سے کیوں لڑ رہے ہوتے ۔ کراچی اور کوٹری کے فرقے الگ کیوں ہوتے لیکن ایسا اس لیا ہوا کہ تم سرکار گوھر شاہی کے در سے منسلک نہیں تھے ۔ تم سائیں تھے لیکن غلام گوھر نہیں تھے ۔جو غلام گوھر ہو گا وہ گوھر کے ہاتھوں بکا ہو گا، غلام گوھر کی زندگی کی ابتداء اور انتہا گوھر ہے۔محمد الرسول ﷺ کے پاس بھی کچھ مسلمان آ کر کہتے تھے کہ اے محمد ! خدا سے ڈرو نماز کا وقت ہو گیا ہے اور تم گپیں لڑا رہے ہو ۔ایسی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو بکے نہیں ہوتے آوارہ ہوتے ہیں اور جو بک گیا اس کے کان سرکار گوھر شاہی کی ملکیت میں ، اسکی آنکھیں سرکار گوھر شاہی کی ملکیت میں ، اس کی زبان گوھر شاہی کی ملکیت میں ، اس کا جسم گوھر شاہی کی ملکیت میں ، اس کا قلب اور روح بھی گوھر شاہی کی ملکیت میں ہوتے ہیں ۔ چھوڑ دی کشتی ہم نے تیرے نام پر ۔۔۔۔ اب کنارے لگانا تیرا کام ہے
“وہ کاروبار کرو جس میں بکو مرشد کے ہاتھوں اور خریدار اللہ ہو جائے، ایسا مشن کرو جس میں بکو یونس کے ہاتھوں اور سر سے پاؤں تک رنگ گوھر شاہی کا چڑھ جائےپھر اگر کوئی کہے کہ یہ یونس والا ہے تو اُس کو کہنے دوکیونکہ یونس نے خریدا ہے لیکن ملکیت گوھر شاہی کی ہے ، سینہ چیر کر دیکھو جس کا چہرہ ہو گا وہی اُس کا رب ہو گا”
جس کا چہرہ سینے میں آ گیا تیرا رب وہی ہے ، خرید کوئی بھی لے لیکن جس نے قیمت ادا کی ہے ملکیت اس کی ہے۔ خریدا یونس نے ہے لیکن اس کو خریدنے کا اختیار گوھر نے دیا ہے کہ تُو خرید اور میرے قدموں پہ سجا میں اِن کے سینوں کو اپنے حسن سے منور کر دوں گا۔جب تم گوھر کے ہاتھوں بک گئے تو پھر تمھارا اعمال نامہ بند ہو جاتا ہے کیونکہ اعمال نامہ اُن کا ہوتا ہے جو بغیر ایجنٹ کے جاتے ہیں ۔ کرامن کاتبین اب کیا لکھیں گے اس کے اعمال میں ان کو تو اللہ نے خرید لیا ہے اب ان سے کیا سوال ہو گاکیونکہ اُن کی اپنی خواہش نہیں رہی تھی جب وہ بکے تھے۔ صرف یہ دیکھو کہ تم کس کی ملکیت میں ہو ۔ اگر بکنے کے بعد ڈیل ختم ہو گئی تو پھر سوال و جواب ہوں گے لیکن جب اس کا سانس رکا ، روح نکلی ، موت آئی اُس وقت اگر یہ گوھر کی ملکیت میں تھا تو پھر اعمال کی کتاب بند ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمان ہوا تھا کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گےکیونکہ اُن کو خریدا ہوا ہے۔ جب کوئی گوھر کا ہو گیا تو وہی یوم محشر لمحہ محشر تھا ۔ جس کو اللہ خرید لیتا ہے اس کو اپنے گروہ حزب اللہ میں شامل کر لیتا ہےاُس گروہ میں آج کے لوگ بھی شامل ہیں جو بکے ہوئے ہیں ، اس گروہ میں جن کو غوث الاعظمؓ نے خریدا وہ بھی شامل ہیں ، اس گروہ میں داتا نے جن کو خریدا وہ بھی شامل ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جن کو محمد مصطفی ﷺ نے خریدا۔مختلف ادوار میں بکے ہوئے لوگوں کا ایک ہی گروہ ہے جس کا نام حزب اللہ ہے۔جو جو بکتا گیا وہ اس گروہ میں شامل ہوتا گیا اور جس نے خریدا ہے وہی ہماری عظمت کا نشان ہے۔اور پھر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہ خریدو فروخت صرف مسلمانوں کے لئے ایجاد کی ہے ، توریت اور انجیل والوں کے لئے بھی یہی تھا جو قرآن والوں کے لئے ہےبس تم اپنے عہد سے نہ پھرنا ۔
جب تک بکا نہ تھا تو کوئی پوچھتا نہ تھا
تم نے خرید کر مجھے انمول کر دیا
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 22 جولائی 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ۔