کیٹیگری: مضامین

انبیاء و اولیاء کا ایام منانے کی وجوہات:

جشن شاہی منانے کی وجوہات کوجاننا بڑا ضروری ہے، پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ایام منائے جاتے ہیں ، پہلے تو صرف مذہبی لوگ ایام مناتے تھے اب Atheist and Secular مائنڈ لوگوں نے بھی ایام بنا لئے، جیسے مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلینٹائن ڈے، سب اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ان ایام کو مناتے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان ایام کو منانا کوئی روحانی عمل ہے یا صرف ایک رسم ہے، یہ جو ہم ایام مناتے ہیں ان ایام کومنانے سے ہمیں کوئی روحانی فائدہ یا روحانی فیض ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اور اگر ایام منانے سے روحانی فیض ہوتا ہے تو کیا سارے ایام منانے سے ایسا ہوتا ہے، مدرز اور فادرز ڈے منایا جائے تو کیا اس سے ماں اور باپ کی محبت میں اضافہ ہوجاتا ہے؟
جب سے آنکھ کھولی ہے یہ ہی دیکھا ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی کا دن منا یا جاتا ہے اسکو غوث پاک کی گیارہویں شریف کہتے ہیں ، 22رجب کو پاکستان میں کونڈے کرتے ہیں تو وہ دن مناتے ہیں ، اسکے علاوہ خواجہ غریب نواز کے حوالے سے چھ تاریخ کودن منایا جاتا ہے اسکو چھٹی شریف کہتے ہیں ۔ بارہ ربیع الاول کا دن منایا جاتا ہے ، اس دن لوگ چراغاں کرتے ہی مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ، نعت شریف پڑھتے ہیں لیکن تاریخی طور پر دیکھا یہ ہے کہ جو لوگ برسوں سے گیارہویں شریف منا رہے ہیں انکے اِس عمل سے وہ غوث اعظم کے قریب نہیں ہو پائے ، اور جو انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ بارہ ربیع الاول منا رہے ہیں ، اس دن ہرے ہرے جھنڈوں پر الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ لکھ کر گلیوں میں جلوس کی شکل میں مارچ کرتے ہیں ، کیا اُس سےانکے دلوں میں عشق مصطفی آ گیا؟
دوسری طرف وہابی فرقہ کے نزدیک ایام وغیرہ منانا ایک فضول سی بات ہے، اور جو ان ایام کو مناتے ہیں انکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے ۔لیکن جب سیدنا گوہر شاہی اس دنیا میں تشریف لائے اور یہ مشن شروع کیا اور لوگوں کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اور وہ ولیوں کی تعلیم بھی عام کر دی کہ جو جنگلوں میں ملتی تھی، غوث اعظم کی تعلیم بھی عام کر دی جوکہ غوث اعظم سے ملتی تھی اور غوث اعظم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ محروم تھے ۔

“سرکار گوہر شاہی نے ربیع الاول منانے والوں کو عظمت ِمصطفی کے وہ گوشے واقف راز کئے کہ اگر انکے دلوں میں محمد رسول اللہ کی محبت کی ہلکی سی چنگاری بھی ہوتی تو وہ سیدنا گوہر شاہی کے پاؤں دھو دھو کر پیتے”

نہ تو گیارہویں منانے والے غوث اعظم سے دلچسپی رکھتے ہیں نہ تو بارہ ربیع الاول منانے والے محمد رسول اللہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ایک رسم سی رہ گئی ہے، کچھ لوگ یوم علی بھی مناتے ہیں مولا علی کی شجاعت کے واقعات بھی سناتے ہیں ، واقعہ کربلا میں جب محمد رسول اللہ کے گھر کے مرد حضرات شہید کر دیےگئے اور خیموں میں صرف خواتین رہ گئیں اور بی بی زینب خیمے کے باہر تکوار لے کر کھڑی پہرا دے رہی تھیں تو حضرت علی گھوڑے پر سوار وہاں ان کی حفاظت کے لیےآ گئے ، یہ قصے کہانیاں جو سنائی جاتی ہیں یہ سب سچ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن قصے کہانیاں سننے سنانے والے نہ تو مولا علی سے کبھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ مولا علی سے نسبت قائم ہونے کا ان کو کبھی خیال آتا ہے ۔ مولا علی کے چاہنے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے وہ تو پیدائشی طور پر مولا علی کے عاشق ہیں لیکن یہی عاشق در بدر کی ٹھوکریں بھی کھا رہے ہیں ۔

سیدنا گوھر شاہی کی پناہ بڑی پناہ ہے:

ایک صاحب تھے محمد یوسف جو فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھے ، ان پر توہین رسالت کا مقدمہ بنا دیا، تو انہوں نے جیل سے سرکار کی بارگاہ میں پیغام بھیجا کہ حضور پاک نے انکو فرمایا ہے کہ تو گوہر شاہی کی غلامی اختیار کر لے، سرکار گوہر شاہی نے مجھے کہا اسکو یہ پیغام بھیجو کہ فکر مت کرو ہم تمہیں کتے کی موت مرنے نہیں دیں گے۔

“تاریخ گواہ ہے جس شخص کاسرکار گوہر شاہی سے سچا قلبی رشتہ جڑ گیا اسکو سرکار گوہر شاہی نے اسی دنیا میں بڑی عزت اوراحترام سے نوازا۔ اور جو کتے کی موت مر جائے وہ گوہر شاہی کا کتا نہیں ہو گا”

مجھے یاد ہے، 1986 میں جب کراچی میں فسادات شروع ہوئے فائرنگ ہوتی گولیاں آنکھوں کے سامنے چلتی نظر آتیں لیکن مجھے کچھ نہیں ہوا ، کبھی ساتھ چلتے چلتے کسی کو گولی لگ جاتی جس سے وہ مر جاتا کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے کو گولی لگ جاتی، لیکن مجھے کبھی کچھ نہیں ہوا۔اس واقعے نے مجھے آبدیدہ کر دیا ۔
ایک برف والے کا گھوڑا تھا اکثرمیرے قریب آتا مجھےسونگھتا اور چلا جاتا ، ایک دن سخت گرمی کا دن تھا وہ گھوڑا اپنے دانتوں میں برف کے ٹکڑے دبا کر لایا اور میرے اوپر ڈال دیے کے شاید مجھے گرمی لگ رہی ہو گی۔ مجھے اس دن بڑا رونا آیا کہ جب وہ گھوڑا انہی ہنگاموں کے دنوں میں کسی کی چار پانچ گولیاں لگنے کی وجہ سے مرگیا اگر وہ گھوڑا نہ ہوتا تو گولیاں مجھے لگ جاتیں۔ سرکار گوہر شاہی نے ہمیشہ اپنے بندوں اپنے غلاموں کو بچایا ہے محفوظ رکھا ہے۔
مولا علی کے نعرے لگانے والوں کا تو قتل عام ہو رہا ہےاگر مولا علی کی ان میں نسبت ہوتی تو کیا مولا علی انہیں نہ بچاتے؟ اس طرح آج کے دور میں ایک رسم سی رہ گئی ہے اور بہت سے ایام ایسے ہیں کہ جنکو منانا چاہیے اور کیسے منانا چاہیے اسکو سمجھنے کی ضرورت ہے، بہت سے ایام ایسے ہیں جیسا کہ ویک اینڈ مغربی ممالک کے حساب سے بات کرتے ہیں گوروں کو ہر ویک اینڈ کی بڑی خوشی ہوتی ہے ،کیوں خوشی ہوتی ہے کہ آج فرائی ڈے ہے اس کے بعد دو دن کام نہیں کرنا لہذا کوئی گھومنے پھرنے نکل جاتے ہے، کوئی لوگوں سے ملتا جلتا ہے ،کوئی شراب نوشی اور پارٹی کرتا ہے یعنی وہ ان دو دنوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے ویک اینڈ کا انتظار کرتے ہیں۔
اب مسلمان ہر سال جو بارہ ربیع الاول کا انتظار کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں انکو کیا ملتا ہے؟ کیا یہ دن نعتیں پڑھنے کے لیےہے ؟ نعتیں تووہ عام دنوں بلکہ روز بھی پڑھ سکتے ہیں ، روز ہی جھنڈے اٹھا کر بیٹھ سکتے ہیں ،کوئی ایسی چیز تو ہونی چاہیےجو بارہ ربیع الاول کے روز تم کو ملے تاکہ آپ کے پاس اس دن کو منانے کا جواز ہو اور انتظار رہے۔ بہت سے دن زندہ دن ہوتے ہیں اور بہت سے دن بس دن ہی ہوتے ہیں ۔

کچھ ایام زندہ ہوتے ہیں اور کچھ یادگار ہوتے ہیں :

جیسا کہ قرآن مجید میں لیلتہ القدر کے حوالے سے جو بات آئی ہے، اللہ نے اس رات کی پوری تشریح بیان کی ہے کہ اس رات کیا ہوتا ہے۔

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ
سورۃ القدر آیت نمبر 1تا 5
ترجمہ : کہ ہم نے اسے لیلہ القدر میں بھیجا۔پھر تعجب سے کہاتمہیں کیا خبر لیلہ القدر کیا ہے ۔ لیلہ القدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہ زندہ رات ہے اور ایک ہزار مہینوں سے بہتر اس لیے ہے کہ اس میں ملائکہ نیچے آتے ہیں اور وہ خاص روح بھی نیچےآتی ہے۔اور رحمت اور سلامتی کا ایک دور دورہ رہتا ہے یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوجائے ۔

یہ زندہ رات ہے اس کے اندرباہمی تعامل ہوتا ہے ملائکہ آتے ہیں ،یہ اللہ کے ملائکہ ہیں ،ہم نے تحقیق کی کہ اسکے ملائکہ کون ہیں ، یعنی قرآن مجید میں جو آیاتَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ۔۔۔۔۔اس سے مراد جو بڑی بڑی ہستیاں اس دنیا سے گزر گئیں ہیں انکے لطائف کو اس رات کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے ، انکے لطائف کو بھی بھیجا جاتا ہے اور اُس روح کو بھی بھیجا جاتا ہے اور اب یہ زندہ رات ہے،یہ زندہ رات تو ہے برا نہ ماننا ! اب لیلہ القدر کا ذکر تو قرآن شریف میں آ گیا کہ اس میں یہ ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ہم ایک دن اور بھی مناتے ہیں جس کو لیلتہ المعراج کہتے ہیں ، اب لیلتہ المعراج تو ایک قصہ ہے، جب حضور پاک گئے تب گئے تھے نا ہر سال اس روز تو حضور معراج پر نہیں جاتے ، اب تو وہ بیٹھے ہی وہیں پرہیں ، پشاور ، لاہور ، مکہ ، مدینہ ، کراچی تک کا قرآن اٹھا لیں کہیں نہیں لکھا معراج شریف جب ہوئی تب ہی ہوئی تھی، ہر سال شب معراج مناتے ہیں حضور ہر سال معراج پر تو نہیں گئے اگر اپنی محبت کا اظہار ہی کرنا ہے تو بھلے سارا سال اظہار کرلیں لیکن شب معراج منانے سے حاصل کچھ نہیں ہوگا ،کیونکہ وہ ایک دفعہ کا سفر تھا جو ہو چکاہے۔ایک تو زندہ دن ہو گئے جن میں کوئی سرگرمیاںہوتی ہےاور ایک وہ دن ہیں جو صرف یادگار کے طور پر ہم مناتے ہیں تاکہ یاد رہے کہ اس دن ایسا ہوا تھا ، ان ایام کو منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر فیض کی نیت سے مناتے ہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں ۔

زندہ ایام کون سے ہیں ؟

جیسا کہ لیلتہ القدر اس رات کی اللہ خود تعریف کر رہا ہے کہ اسکے دن اس کے ملائکہ اور لطائف آتے ہیں ، فرض کیا اس دن آدم صفی اللہ کا لطیفہ قلب زمین پر آگیا ، اب یہ خوشخبری کی بات ہوتی ہے مرشدوں کے لیے، فقیروں کے لیے، کہ آج لیلتہ القدر کی رات آدم صفی اللہ کا لطیفہ قلب زمین پر آیا ہوا ہے تو سب اپنے اپنے مریدوں کی عرضیاں لگا دیتے ہیں کہ میرے مرید کا قلب نہیں چلا ،اس رات اُن کی سنی جاتی ہے، ہوسکتا ہے لیلتہ القدر کی کسی شب ایسا بھی ہوتا ہو کہ حضور پاک کے لطائف آتے ہوں ۔اب یہ سب برحق تو ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لیلتہ القدر کی رات کی جو یہ ساری سرگرمیاںہوتی ہیں اُن تک ہماری رسائی کیسے ہوگی!! اتنے لوگ اوپر سے نیچے آ رہے ہیں لیکن ہمیں تو کوئی نظر ہی نہیں آ رہا۔ جیسی نماز ہم روز پڑھتے ہیں اگراس دن بھی ویسی ہی نماز پڑھیں گے تو وہ نماز ایک ہزار مہینوں سے افضل کیسے ہوگی ؟جیسی کل پڑھی تھی ویسی ہی نماز آج پڑھی ہے تو آج ایسی کیا بات ہوگئی کہ ہماری نماز ایک ہزار مہینوں سے افضل ہوجائے گی!
جسکے دل پر حضور کا روضہ آ جائے وہ کہیں بھی نماز پڑھے تو پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور جس کے دل پر خانہ کعبہ آجائے وہ کہیں بھی نماز پڑھے ایک لاکھ نماز پڑھنےکا ثواب ہے اور اگر اس روح کی معیت میں ایک لمحہ اس لیلتہ القدر کی رات مل جائے تو ایک ہزار مہینوں کی ان تمام نمازوں کہ ایک پڑھی تو پچاس ہزار دوسری پڑھی تو ایک لاکھ ثواب ہے تیسری پڑھی تو ڈیڑھ لاکھ ، گنبد خضرا دل پر آ گیا تو پانچ نمازیں پڑھیں توڈھائی لاکھ نمازوں کا ثواب روز ملے گا، ایسے ایک ہزار مہینوں سے بہتر وہ لمحہ ہوجائے گا اور وہ صحبت کسی کی ہے! وہ صحبت اُن انبیاء کے لطائف کی ہے کبھی آدم صفی اللہ کا لطیفہ قلب، کبھی موسی کلیم اللہ کا لطیفہ سری آ گیا، کبھی عیسی علیہ السلام کی کوئی چیز آ گئی، کبھی محمد رسول اللہ کی کوئی چیز آ گئی ، اور اِن لطائف کے ساتھ ساتھ وہ آ گیا کہ جسکو جب اللہ نے دیکھا تھا تو سات دفعہ جنبشیں لی تھیں ، وہ عکس اول آ گیا۔
ایک دن اللہ نے سوچا کہ دیکھوں میں کتنا خوبصورت ہوں تو اسکا حسن مجسم ہو کر اسکے سامنے ظاہر ہوگیا ، اسکو عکس اول کہا ،جب اللہ نے اس کا مظاہرہ کیا تو وارفتگی کا عالم پیدا ہوگیا اور وہ وارفتگی اللہ پر طاری ہوئی کہ وہ تھر تھر ناچنے لگ گیا۔بلھے شاہ نے جو کہا “تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا ”وہ اللہ ہی کو کہا کہ اللہ کے عشق میں وہ تھر تھر ناچ رہے ہیں ۔یہ تو بلھے شاہ تھا جو اللہ کو دیکھ کے تھر تھر ناچ رہا تھا اور اُس عکس کو دیکھ کرا للہ تھر تھر ناچ رہا تھا نا، اگر وہ عکس لیلتہ القدر کی رات میں نیچے آ جائے اور تجھے اسکا ایک لمحہ مل جائے تو پھر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہی ہو گا نا، کون سے ایک ہزار مہینے ، ایسے ہزار مہینے کہ جس کے ایک مہینے کا جو ایک دن ہے اس دن کی پانچ نمازوں کا ثواب ڈھائی لاکھ نمازوں کا ملتا ہے۔ یہ لیلتہ القدر ہو گئی۔
اب لیلہ القدر کی رات کو اللہ نے طے نہیں کیا ہوا ، پاکستان میں یہ بات اڑی ہوئی ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب ہی لیلتہ القدر ہوگی، یہ اللہ کی مرضی ہے، اللہ تعالی اس رات کوتبدیل کرتا رہتا ہے، لیکن حضور پاک کا فرمان یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی ایک چھوڑ کر دوسری ،اکیس ،تئیس، پچیس، ستائیس انتیس رمضان میں اس رات کو تلاش کرو، اس رات کو پانا اتنا ضروری سمجھا گیا ہے کہ حضور پاک نے اس رات کو حاصل کرنے کے لیے اعتکاف کا اعلان کر دیا کہ طاق راتوں کو چھوڑو دس دنوں کے لیے یہاں بیٹھ جاؤ تاکہ یہ رات مس ہی نہ ہو۔

لیلتہ القدرکو حاصل کرنے کے لیےاعتکاف کیا جاتا ہے:

اب مسئلہ یہ ہے کہ اعتکاف میں بھی بیٹھ گئے آخری عشرہ مل بھی گیا لیکن اندر ناپاک، اندر کالا سیاہ ہے تو وہ راتیں تو ضائع ہوتی رہیں گی ۔ جب تیری نماز جو چھوٹی سی چیز ہے وہ روزانہ ضائع ہوتی رہتی ہے ، روزہ چھوٹی سی چیز ہے وہ روز ضائع ہوتا ہے ، تو اتنی بڑی اللہ کی نعمت تجھے بغیر قلب کی روشنی کے کیسے ملے گی؟ نہیں مل سکتی نا ، یہ انہی کو ملتی ہے جن کے دلوں سینوں میں اللہ کا نور آ جائے۔ تو اللہ کی اتنی بڑی نعمت کہ جس کے بارے میں وہ خود کہہ رہا ہے۔ کہ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ۔۔۔۔کہ تم کو ادراک ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ کیا چیز ہے، ادراک کا لفظ ایک تو اللہ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے ، کہ لا تدرک الابصار کہ تمہاری آنکھوں کو ادراک نہیں ہے کہ میں کیسا ہوں اور پھر جس کو دیکھ کے وہ خود لٹو ہو گیا اب وہ کیا چیز ہے تمہیں کیا پتا!! وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
بنکاک کے دورے کے دوران ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام تشریف لائے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ جو تم کر رہے ہو یہ سب کیا ہے، ہم نے کہا کہ ہم لا الہ الا ریاض کا ذکر دیتے ہیں ، پھر وہ دین الہی کی بابت پوچھنے لگ گئے، چونکہ دین الہی کا تعلق لطیفہ روح سے ہے، ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے روح کی نبوت دے کر نیچے زمین بھیجا لیکن نبوت کا فیض نہیں دیا ، اللہ نے انکو اسی میں لگائے رکھا کہ تیری ساری اولاد نبی ہوگی وہ اسی میں لگے رہے۔ ہم نے بھی ایک دن اللہ سے پوچھا کہ یار یہ بتاؤ کہ بنی اسرائیل تمہاری پسندیدہ قوم کیسے بنی، انہوں نے کہا پسندیدہ تو کوئی ہے نہیں بس لارا لپا لائی دا اے ۔ یعنی انکو نبوت کا فیض نہیں دیا اس لیے انکی ظاہری چیزیں پوری کرتا رہا ۔“بنی اسرائیل اللہ کی پسندیدہ قوم نہیں ہے، اللہ کی پسندیدہ قوم وہی ہوئی جو محمد مصطفی ﷺکے قدموں میں آ گئی”۔میں سچ کہہ رہا ہوں بنی اسرائیل پسندیدہ قوم نہیں تھی کبھی من و سلوی بھیج دیا کبھی کچھ بھیج دیا ، ظاہری چیزیں بھیجتے تھے اگر تجھے بھی سرکار گوہر شاہی کہیں چلو جی اس کو مرسڈیز دلا دو ، اسکو بی ایم ڈبلیو دلا دو ، اسکا کاروبار چمکا دو ، اور کسی کو اپنی محبت اور عشق نہ دیں تو پھر معاذ اللہ یہ تو فراڈ ہو جائیگا ، یہ مرسڈیز ، یہ گاڑیاں یہ اسائلم کے کیس ، یہ چیزیں ساری تو اس دنیا کے لئے ہیں ۔

“سب سے بڑی نعمت تو سرکار گوہر شاہی کی نسبت و غلامی ہے، وہ غلامی ہے کہ جس میں آ قا کہے تو میرا غلام ہے ، اب غلام کے کہنے کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے ، آقا کہہ دے کہ تو غلام ہے اور وہ تب ہی ہوگا جب نسبت قائم ہوجائے ”

پندرہ رمضان، جشن شاہی کی شان :

لیلتہ القدر وہ رات ہے کہ جس میں وہ عکس اول وہ روح زمین ہر آتی ہے کہ جسکو دیکھ کے اللہ نے سات جنبشیں لیں اب یہ تو ہو گئی شان لیلتہ القدرکی، اب جناب کیا ہوا لیلتہ القدرآتی گئی جاتی گئی ، پھر ہوا کیا؟ پھر آخر میں سرکار گوہر شاہی تشریف لے آئے اب وہ جوعکس لیلتہ القدر میں آتا تھا اب اس کے ساتھ دو چار چیزیں اور بھی لگا دیں ، ہم یہ کہنا نہیں چاہتے تھے لیکن کہہ دیتے ہیں ، جس طرح ، پوچھو کس طرح ! حضور پاک نماز میں کھڑے تھے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے اور پھر انکے دل میں خیال آیا کہ ہمیں تو یہ کعبہ اپنا قبلہ چاہیےتواللہ تعالی نے آیت بھیج دی کہ یا رسول اللہ “بار بار ہم نے آسمان کی طرف اٹھتا ہوا تیرا چہرہ دیکھ لیا ہے اب تو اپنی مرضی کے قبلہ کی طرف رخ کر لے ”۔اسی طرح کا ایک واقعہ وہاں لال باغ میں ہوگیا گنبد خضرا اڑتا ہوا آیا اور بات یہ طے پائی کہ اب طاق راتوں کوڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے اب اس سے بڑی چیز ستائیس کو نہیں پندرہ رمضان کو ہوا کرے گی۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ایک روح کا جلوہ نیچے آتا تھا تو اسکا ادراک نہیں اور پندرہ رمضان سے بارہ دن پہلے ، اب وہ جلوہ بھی آتا ہے ، اسکے عکوس بھی آتے ہیں اور ان پر ریاضین پلیٹ لگی ہوتی ہے، اُسکا ادراک نہیں ہے اِسکا ادراک کیا ہوگا!!!! جھولیاں روح اور دل کی پھیلا لواور جبین نیاز سرکار گوہر شاہی کے قدموں میں جھکا دو اور کہو آپ کے قدموں میں آگئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ کیا چاہیے صرف اتنا سکھایا ہے کسی نے“ مجھکو گوہر چاہیے، مجھکو گوہر چاہیے ، مجھکو گوہر چاہیے ” موڈ ہو تو ریاض بھی دے دو ۔

لیلتہ القدر کو صرف وہ عکسِ اول آتا جھلک دکھا کے رفو چکر اور پھر پندرہ رمضان یعنی اگر اُس دن اِس سے زیادہ چیزوں نے چکر لگانا ہے تو اب پھر لیلتہ القدر میں کیوں آنا ہے؟ جب یہ گنبد خضرا اُڑ کر آیا ، لیلتہ القدر ختم ہو گئی اب اس سے زیادہ طاقت ور چیز پندرہ رمضان کو آتی ہے۔ (یہ راز اب کھول دیا) ایک تو وہ تھا کہ ڈھونڈو رات دوسری طرف یہ سرکار کا کرم دیکھو، کہ پتا نہیں انہوں نے رمضان صحیح شروع کیا ہے یا نہیں تو ایک ہفتہ پہلے سے ہی چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ آج یہ آیا ہے تو چلو اسکو بھی مل جائے ، کل وہ آیا ہے تو اسکو بھی مل جائے ، پرسوں وہ آئیگا تو اسکو بھی مل جائے ، وہاں ڈھونڈنے کو کہا ہے یعنی اللہ میاں اتنے سست ہیں کہ خود ڈھونڈنے کا کہہ رہے ہیں اور یہاں سرکار گوھر شاہی خود چکر لگا رہے ہیں ، سرکارکتنا خیال کرتے ہیں ، یہاں بات ختم ہو گئی ہے، یہ جو سرکار کی کرم نوازی کا عالم ہے میں دیکھتا ہوں کے سرکار ایک ہفتے سے چکر لگا رہے ہیں ، اس دن بھی تشریف لے آئے پھر دوسرے دن بھی تشریف لے آئے ، اب ذہن میں سوال آیا کہ شاید آج جشن شاہی ہوگی ، فرمایا چپ کر کے بیٹھا رہ ، اور پھر آج یہ فرما دیا ، کہ یہ تو ہم اس لیے آتے ہیں کہ کسی نے پتا نہیں کب شروع کیا ہے تو کسی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو ، کہاں ملے گا ایسا لجپال!
پندرہ رمضان کے بارے میں سرکار خود اپنی زبان افشاں سے فرماتے ہیں کہ ہر مرتبے اور ہر معراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے، وہ عکس اول بھی پندرہ رمضان کو آیا ، وہ جسہ توفیق الہی بھی پندرہ رمضان کو ہی آیا، جب وہ آیا تو پہلے تو پیچھے لگا رہا اور پھر جب وہ آیا کہ مجھے جگہ دے دیں تو اسکو ظاہری جسم میں داخل فرما دیا ۔آپ کو پتا نہیں ہے کہ اسکا کیا مطلب ہے، اسکا چھوٹا سا مطلب سنو پریشان نہیں ہونا ، کہ جو حضور کو جسمانی معراج ہوا اسکے دو حصے ہیں ایک تو جسمانی طور پر اللہ کے پاس جانا اور دوسرا حصہ ہے فیض لینا، اب اللہ سے حضور نے وہاں جا کے کیا فیض لیا ہوگا ، ایسا فیض مجھے یا آپکو تو ہو نہیں سکتا لیکن جسمانی طور ہر اللہ کے روبرو ہونا ہر اس شخص کے لیےہوگیا جو سیدنا گوہر شاہی کے دور میں پیدا ہوا ۔

“سیدنا گوہر شاہی کوٹری والے انکے پاس جا کر اُنکو چھونا اُنکو دیکھنا ایسا ہے جیسا شب معراج۔ جسمانی طور پر اللہ کے پاس گئے کیونکہ وہ جسّہ توفیق الہی جو بغل گیر ہوا تھا وہ سرکار گوہر شاہی کے خون میں سرائیت کر گیا ہے، سرکار گوہر شاہی کو ظاہری طور پر سامنے بیٹھ کر دیکھنا جسمانی شب معراج کی طرح ہے”

اب یہ نا کہنا کہ میں نے اس کو شب معراج کہہ دیا ہے یا اسکے برابر کردیا ہے ، میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ایک تو جانے کا عمل ہے کہ جس میں جسمانی طور پر جانا ، اور دوسرا پھر جا کے اللہ سے فیض لیا، تو وہ حصہ الگ ہے کہ حضور نے جسمانی طور پرسفر کیا اور اللہ کے رو برو گئے ، اور اللہ سے کیا فیض لیا ، وہ چیز الگ ہے وہ فیض کس مقدار میں ہوا وہ کسی امتی کو تو نہیں ہو سکتا ، لیکن جو پہلا حصہ ہے جسمانی طور ہر وہاں پہنچنے کا وہ یہاں پر آپکو حاصل ہوگیا ، اب اسکا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اب آپ کا مقدر کیا ہے نصیب کیسے ہیں کہ وہاں جا کہ آپکوملتا کیا ہے ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو معراج والوں کو اُس دن ملا تھا اِس انسان کو اتنا مل جائے کہ وہ فیض شرما جائے، ایسا بھی ہوا ہے کہ شب معراج میں امام الانبیاء کو جو فیض ملا تھا ، انکے در پر مل جائے یہ مسکرا کر اسے دیکھ لیں ،زلفیں بکھرائیں اور اس سے بڑھ کر فیض دے دیں جو اُس نے شب معراج کو دیا۔معراج پر تو حضورؐ نے کہا “ رب زدنی علما” اور پردہ پڑ گیا یہاں اگر سوال کرتا تو علم نہ دیتے اٹھا کر وہاں بٹھا دیتے جہاں کا اشارہ تھا ۔
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اِس دعا کے بعد
سب کچھ تو اُن سے مانگ لیا اُن کو مانگ کر

مندرجہ بالا مضمون 10 جون 2017 جشن شاہی کی خصوصی محفل کے خطاب سے لیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس