کیٹیگری: مضامین

رضائے گوھر شاہی کے تقاضے:

سیدنا گوہر شاہی کا لوگوں کو ذکر قلب کی اجازت دینے کا بنیادی مقصد یہ ہی ہے کہ لوگوں کو پتا لگ جائے کہ اللہ کی طرف سے منظوری آ گئی ہے، بس! جن کی منظوری آگئی ہے پھر انہیں اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں، جب تک وہ راضی ہیں تو خیر ہے لیکن جب تم نے ان کو ناراض کر دیا تو پھر سب چلا گیا، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں ہم نے بیس سال مشن کا کام کیا، دوغلطیاں ہوئیں تو ہم سے منہ پھیر لیا، ہم یہ کہتے ہیں بیس سال مشن کیا تو ہم پہ احسان تو نہیں کیا اپنے لیے کیا تھا ، نہ کرو۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں خدا کے قوانین سے ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے۔ عیسی علیہ السلام نے زہد اختیار کیا اور ان کی پرہیز گاری کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے کوئی گھر نہیں بنایا لیکن ہم کتنا برا سمجھتے ہیں نا بے گھر ہونے اور سڑکوں پر سونے کو لیکن عیسی علیہ السلام تو بے گھر رہے، یہاں تک کہ انہوں نے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو بھی چھوڑ رکھا تھا۔ ایک دفعہ جنگل میں آرام کی خاطر ایک پتھر کو تکیہ کی طرح رکھ کر لیٹ گئے تو فوراً شیطان آ پہنچا کہا او ہو عیاشی ہو رہی ہے پوچھا کہ کیسی عیاشی تو شیطان بولا کہ پتھر کو تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ چھوٹی سی چیز بھی اس میں آ جائے تو معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔ یہ جو مشنِ گوہر شاہی ہے اس میں سرکار گوہر شاہی کو راضی رکھنا ہی ہمارا زہد ہے ، کچھ لوگوں کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ غلطی ہو بھی جائے تو خیر ہے وہ تو معاف کر دیتے ہیں ، یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ سرکار کی terminology نہیں ہے ۔

معاف گناہ ہوتے ہیں غداری معاف نہیں ہوتی ، بے وفائی معاف نہیں ہوتی لذت محبت گوہر شاہی سے ہٹ کرعیش و آرام پر یا کسی اور چیز پر نظر پڑ جائے تو یہ غداری ہے۔

اس راستے میں سب سے بڑی ہماری ریاضت، سب سے بڑی ہماری کوشش صرف اور صرف یہ رکھی گئی ہے کہ ہم اپنے مالک کو اپنے مرشد کو راضی رکھیں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو راضی رکھنا یہ ہے کہ ہم بس ان کے نام کی ضربیں لگاتے رہیں ؟ تو پھر سرکار گوہر شاہی کو راضی رکھنا کیا ہے؟ اتنا بڑا شہنشاہ اپنا تخت و تاج چھوڑ کر جہاں آرام سے بیٹھے تھےاس غلیظ دنیا میں آگئے، کسی عام آدمی کو کہا جائے کہ تم ایک مہینے کے لیے وزیر اعظم بن جاؤ تو اس کے تو مزے آ گئے لیکن اگر وزیرِ اعظم کو کہا جائے کہ تم ایک مہینے کے لیے عام انسان بن کر سڑکوں پر کام کرو تو یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا، انسان کو کہا جائے کہ ایک مہینے فرشتے بن کر رہو تو اس کے تو مزے آ جائیں گے لیکن فرشتے کو کہا جائے کہ ایک مہینہ انسان بن کر جیو اس کی تو ہوا نکل جائے گی۔ذرا غور کریں! وہ شہنشاہ یہاں آیا کس لیےآیا ہے؟ انسانوں کے لیے، بھولے بچھڑے بھٹکے انسانوں کو رب سے جوڑنا ،یہ ہے سیدنا گوہر شاہی کا مشن اور یہ ہی مشن ہے، اس خاطر سیدنا گوہر شاہی اس زمین پرتشریف لائے،اگر نہ آتے اور وہیں اپنےگھر پر رہتے تو ہمارا کیا ہوتا؟ آپ سمجھتے ہیں یہ چھوٹا سا مشن ہے؟ کتنا مقدس ہے یہ مشن۔

سیدنا گوہر شاہی نے فرمایا کہ ہمیں مشن سے عشق ہے۔

ایک دفعہ غوث اعظم کے پاس ابلیس بادل کا بھیس بھر کے آزمانے کی غرض سے آیا اور بادل سے آواز آئی کہ اے عبد القادر جیلانی ہم نے تم کو نماز معاف کر دی آپ نے کہا استغفراللہ اور جوتا اٹھا کراس کو دکھایا اور کہا شیطان مردود دفع ہوجا پھر شیطان دوبارہ بولا اے عبد القادر جیلانی !تجھے تیرے علم نے بچا لیا آپ نے دوبارہ کہا مردود تو باز نہیں آتا ،مجھے میرے علم نے نہیں مجھے میرے رب نے بچایا ہے۔کیا کوئی ایسا بندہ ہو گا جس نے اتنا مشن کا کام کرلیا ہو کہ اسے مشن کا کام معاف ہوگیا ہو اور میں ابھی تک کر رہا ہوں ،ایسی باتیں کرنے والا جھوٹا مکار ہے جو یہ کہے کہ میں نے بہت مشن کر لیا ، تو ہم اب تک کیوں کر رہے ہیں ، سرکار نے مشن کیوں کیا؟ انسان کو دھوکہ ہو جاتا ہے ، دھوکہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے، مارا وہ جاتا ہے جو اپنے رہنما سے دور ہو جاتا ہے جو اس سے مشورہ کرنا چھوڑ کر جو اس سے حسد کرنے لگ جائےوہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے لیکن جو اپنے رہنما کے ساتھ ہو رہنما سے محبت ہو تو جو وہ کرے گا وہ بھی وہی کرے گا ۔یہ جو راستہ ہے جس پر ہم چل رہے ہیں اس پہ سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ ہمارا مرشد ہم سے راضی ہواور یہ کام دعاؤں سے نہیں ہوتا ، ہمیں ہروہ کام کرنا ہوگا جس سے مرشد خوش ہوتا ہے اور ہر وہ کام چھوڑنا ہو گا جس سے مرشد ناراض ہوتا ہے۔ ہمارے مرشد کو عشق ہے اس بات سے کہ خالی دلوں میں اللہ آ جائے، یعنی اس پرچار کو اس مشن کو آگے لےکرجانا۔
آج جشن ریاض کے موقع پر اپنے گریبانوں کو جھنجھوڑیں اور پوچھیں کہ کیا واقعی مجھے خوشی ہے اس بات کی؟ اگرواقعی خوشی ہے نا تو جتنی محبت آپ کو 25 نومبر سے ہے اتنی محبت مشن سے ہونی چاہئیے، اور کیوں ہونی چاہئیے کیونکہ اس مشن کے لیے سرکار وہاں سے یہاں تشریف لائے ہیں اس سے بڑھ کر کون سا کام ہو گا ۔ اگر سرکار تشریف نہ لاتے تو ہمارا کیا ہوتا ، پاکستان میں سرکار نے کوئی گاؤں کوئی دیہات نہیں چھوڑا ، بیس بیس، تیس تیس گھنٹے کی ڈرائیو کرکے جاتے آرام بھی نہیں فرماتے۔ سرکار گوہر شاہی کو کتنا عشق ہے اس بات سے کہ اللہ کی مخلوق کو اللہ مل جائے، اگر ہمیں سرکار سے محبت ہے تو ہم کیا کریں گے؟ وہی کریں گے نا جس سے سرکار کو محبت ہے اور سرکار کو اس بات سے محبت ہے کہ خالی دلوں میں اللہ آ جائے، اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ اسی لئے سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ بس یہ ایک عمل پکڑ لو منزل تک ہم خود پہنچا دیں گے۔ اس مشن کی خاطر ہی سرکار گوھر شاہی نے ساری مصیبتیں برداشت کی ہیں اسی مشن کی خاطر اور ہم انسانوں کیلئے سرکار نے سارے دکھ سہے ہیں۔ آج جشنِ ریاض کے موقع پر سرکار گوہر شاہی کی نا ختم ہونے والی دائمی نسبت چاہئیے تو اپنے آپ سے وعدہ کر لیں کہ زندگی کی ہر چیز بھول جاؤں گا لیکن اس مشن کی خدمت نہیں بھولوں گا۔ جب مشن کی بات آ جائے گی تو اول ترجیح اس مشن کو دوں گا، اس سے بڑھ کر کوئی چیز زندگی میں نہ تھی، نہ ہے، نہ ہوگی۔ جس دن آپ کا ایمان اس درجے پر آجائے گا تو پھر سرکار آپ سے دور نہیں ہیں اور جب آپ نے مشن کو چھوڑ کر ذاتی مفادات کو گلے لگا لیا تو پھر آپ منافق ہیں، آپ کو سرکار سے محبت نہیں ہے کیونکہ حبیب ہر اس شے سے محبت کرتا ہے جس شے سے محبوب محبت کرتا ہے اور مجنوں کو تو لیلی کی گلی کے کتوں سے بھی محبت تھی۔ اس مشن پر سودے بازی نہیں کیونکہ یہ ایک ہی چیز تو ہے۔ سرکار گوھر شاہی نے شروع سے آخر تک فرمایا کہ تمہاری ترقی ذکر فکر میں نہیں ہے تمہاری ترقی اس پیغام کو آگے بڑھانے میں ہے ، جو تم ذکر فکر کرتے ہو وہ تم اپنے لیے کرتے ہو اور جو اس مشن پر جاتے ہو تو اللہ دیکھتا ہےکہ یہ میری خاطر میری مخلوق کے پاس جا رہا ہے تو وہ زیادہ خوش ہوتا ہے۔
اس مشن کا کام کرنا سرکار کی سنت ہے۔ محبت میں گنتی کہاں ہے! محبت میں صلہ کہاں مانگتے ہیں ، یہ مشن امام مہدی کا مشن ہے۔ کیا تم اللہ کا مشن صلے کے لیے کر رہے ہو؟ دنیا میں کوئی بھی انسان یہ مشن اپنے ایمان کے لیے کر رہا ہے تو پھر لوگوں سے یہ توقع کیوں رکھی کہ یہ مجھے صلہ دیں گے، میرا گریبان کیوں پکڑتے ہیں کہ مجھے یہ صلہ دے رہے ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے تم منافق ہو، منافق اس لیے کہا کیونکہ تم اللہ کے لیے تو مشن کر ہی نہیں رہے ہو۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ اگر اس کو راضی کرنا ہے تو اس کے بندوں کو اس سے ملانے کا کام کرنا ہے، باقی تمام چیزیں اتنی اہمیت نہیں رکھتیں ۔

تبلیغ افضل کیوں ہے اور تبلیغ کے لفظی معنی کیا ہیں ؟

تبلیغ کا مطلب ہے اپنی ذاتی عبادات کو ہٹا کے لوگوں کو اللہ سے ملانا ہم تبلیغ کے کام کو مشن کہتے ہیں ، تبلیغ لفظ نکلا ہے بلاغ سے ، بلاغ کا مطلب ہوتا ہے بیان کرنا ، تو تبلیغ کا مطلب ہو گیا بیان کرنا اور تبلیغ دین سے مراد دین کو بیان کرنا ،اور ہم اسی کو کہتے ہیں مشن بیان کرنا ۔کوئی چھوٹا یا کوئی بڑا نہیں ہے لیکن جو چھوٹا ہے ہمیشہ وہ خود کو بڑا سمجھتا ہے اور جو بڑا ہے وہ ہمیشہ خود کو چھوٹا سمجھتا ہے ، جو مومن ہے وہ ہمیشہ اپنے بارے میں مشکوک رہتا ہے کبھی اپنے آپ کو مومن نہیں سمجھتا اسی طرح منافق بھی کبھی اپنے آپ کو منافق نہیں سمجھتا ، اگر یہ بات پکی تیرے دل میں اتر گئی ہے تو پھر یہ خطرے کی گھنٹی ہے اس کا مطلب ہے کہ بیٹا تیری چھٹی ہو گئی ہے، یہ ہی سچ ہے۔
سیدنا گوہر شاہی نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا ، یونس تیرے قلب میں ہمارے بہت سارے جثے ہیں ، حق فرمایا ، لیکن مجھے آج تک یقین نہیں ہے کہ میں فنا فی الشیخ ہوں مجھے لگتا ہے یہ جھوٹ ہے دھوکہ ہے شاید ایک آدھ لمحے کے لیے بنا ہوں گا لیکن آج کا پتا نہیں ہے۔ اللہ کی پروگرامنگ ہی اس طرح کی ہے کہ مومن کو کبھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ میں مومن ہوں وہ ہمیشہ اپنے آپ کو گناہگار سمجھتا ہے اور جو منافق ہوتا ہے وہ کبھی اپنے آپ کو منافق نہیں سمجھتا ۔ بس یہیں پر احتیاط کی ضرورت ہے۔
مشن کا کام کرنا ہے اسی میں سرکار کی رضا پوشیدہ ہے اور مشن کیا ہے؟ دلو ں کو جوڑنا اگر آپ دلوں کو جوڑنے کا کام کر رہے ہو اور دل توڑ بھی رہے ہو تو اس کا مطلب ہے آپ کا سینہ خالی ہے آپ کو پتا ہی نہیں ہے آپ کیا مشن کر رہے ہو۔اگر آپ غیبت اور برائی کر نے کے بعد سوچتے ہیں میں معافی مانگ لوں گا، کیا آپ نے دین الہی پڑھی ہے؟سیدنا گوہر شاہی نے غیبت کے بارے میں لکھا ہےجو غیبتیں کرتا ہے وہ نفس امارہ رکھتا ہے، آج بھی اگر تم کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتے ہو تو پھر تمہارا تعلق نفس امارہ سے ہے اور اگر تیرا نفس امارہ ہے تو تیرے قلب پرقفل ہے کیونکہ قلب اور نفس دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔سرکار گوھر شاہی نے اپنےمنظوم کلام تریاق قلب میں بھی فرمایا
گر نفس کو شاد کیا تو قلب کو برباد کیا
گر قلب کو شاد کیا تو نفس کو برباد کیا

نفس اور قلب کی حالتیں:

قلب صنوبر ہے تو نفس امارہ ہے، قلب سلیم ہے تو نفس لوامہ ہے، قلب منیب ہے تو نفس ملہمہ ہے، قلب شہید ہے تو نفس مطمئنہ ہے۔ غیبت کی ہے تو نفس امارہ ہے اور اگر نفس امارہ ہےتو قلب سلیم کیسے ہو گا؟ قلب پر قفل پڑگیا ہوگا ، اب بتائیے یہ معافی کی بات ہے؟یہ تو بیڑا غرق کر لیا آپ نے، لوگ کہتے ہیں سرکار بڑے لجپال ہیں معاف فرما دیں گے سرکار معاف فرماتے ہیں گناہوں کو بے وفائی غداری معاف نہیں فرماتے، اللہ تعالی نافرمانوں کے لیے قہار بن جاتا ہے، اللہ تعالی کی صفت ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، کیا سب کو معاف کر دے گا؟ پھر جہنم کیوں بنایا؟ عورت انسان کو مروا دیتی ہے کئی کیسز ایسے ہوئے ہیں ، یہاں پر دیکھا گیا ہے کہ عورت نے انسان کو تباہ کر دیا کیونکہ اس کی زبان بہت چلتی ہے، باطن میں کیا کہتے ہیں عورت اگر ولی بھی بن جائے تو قابل بھروسہ نہیں ہے تو جو بھی عورتوں کی باتوں پر بھروسہ کرتا ہے دیکھ لو در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔راہ سلوک میں انسان جب چلتا ہے تو اس کی منزل اللہ ہوتی ہے اور اس راستے میں شیطان اور ابلیس سے بڑی مخالفت بندے کے لیے بیوی کی طرف سے آتی ہے۔ایک دور ایسا تھا جب ہر کوئی ذکر نہیں کروا سکتا تھا، ذکر کا حلقہ کروانے کے لیے اجازت ضروری تھی اور جو امیر حلقہ ہوتا اس کی شرط کا پیمانہ یہ تھا کہ کم سے کم تین سال پرانا ذاکر قلبی ہو، نماز پڑھتا ہے یا نہیں ، داڑھی رکھی ہے یا نہیں تب اُسے امیر حلقہ بننے کی اجازت ہوتی تھی شرط تھا۔اسی طرح ایک شخص کو اجازت ہو گئی اس نے داڑھی بھی رکھ لی کچھ عرصے بعد وہ سرکار گوہر شاہی کے پاس آیا اور کہا سرکار بیوی بڑی ناراض ہے کہتی ہے داڑھی کٹوا لو ورنہ میں طلاق لے لوں گی، میں کیا کروں فرمایا جو تیرا جی چاہے کر بس اتنا جان لے اللہ ایک ہے بیویاں بے شمار ۔یہ ہے ذہن میں رکھنے والی بات۔
بیویاں زبان سے کہتی نہیں ہیں مگر کروا لیتی ہیں ، حالات ایسے پیدا کر دیں گی کہ آدمی مارا جائے ، اس لیے بھائی آپ دیکھ لیں زندگی میں آپ کے لیے سب سے زیادہ ضروری کیا ہے؟ غیبت سے پہلے پاکستان میں کئی لاکھ لوگ تھے ، کیا وہ سرکار کو نہیں مانتے تھے؟ مانتے تھے لیکن پھر کیا ہوا؟ سرکار کے اپنے خاندان کے لوگوں کا کیا ہوا پھر! جن کے دل میں سرکار گوھر شاہی کے علاوہ کوئی اور خواہشات ہیں وہ گمراہ ہو گئے، جن کے دل میں سرکار کے علاوہ کوئی اور خواہش نہیں وہ آج بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی غلطی انسان یہ کرتا ہے کہ جب وہ کوئی غلط کام کر لے اور لوگ اسے پکڑ لیں تو وہ اپنا دفاع کرتا ہے، یہ بات اُسے سرکار سے اور دور لے جاتی ہے کیونکہ وہ غلطی ہو جانے کے بعد اپنے نفس کو جھکا نہیں رہا اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا ملامت کسے کہتے ہیں ، اکڑے جا رہا ہے، نفاق سے کام لے رہا ہے کہ یہ جو باتیں ہو رہی ہیں ان سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ معافی مانگ لو۔ اس نیت سے معافی مانگنا کہ باقی جو باتیں ہیں ان پر وہ خاموش ہو جائے یہ ہی تو نفاق ہے۔ باطن میں غلطی کی سزا جیل بھیجنا یا سر کاٹنا نہیں ہے بلکہ ملامت ہے اور ملامت سے ہم گھبراتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چل گیا تو کیا ہو گا ، ہماری عزت چلی جائے گی ۔عزت تو وہ ہے جو رب دیتا ہے، انسان کی دی ہوئی عزت کا کیا ہے! جب تک تُو اپنی عزت بچاتا رہے گا وہ سرکار سے دور اور دور جا رہا ہے۔ جو بھی تمہیں یہ مشورہ دیتا ہے کہ غلطی ہو جانے پر یہ کہہ دو ورنہ تم پر برائی نہ آ جائے پھر لوگ تمہیں برا سمجھیں گے وہ تمہارا دشمن ہے۔ جب غلطی ہو جائے تو ہاتھ جوڑ کر کہہ دو مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دیں، اپنا دفاع نہ کرو۔ کچھ نفس بڑے ہی ہٹ دھرم ہوتے ہیں جب انہیں برائی کی نشاندہی کی جاتی ہے تو فوراً سے پہلے اپنا دفاع کرتے ہیں ادھر ایک حدیث شریف میں آیا کہ

جب اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے عیوب اس پر عیاں کر دیتا ہے

جب کسی انسان کو اپنے عیوب کا پتہ چلتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ اگر کسی انسان میں کوئی عیب ہو جسے وہ چھپا کر پھرتا ہے اور وہ عیب کسی کو پتا لگ جائے وہ اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ وہ آج یہ نہ بتا دے یا کل نا بتا دے لیکن یہ بھلائی ہے اللہ کی طرف سے کہ وہ تیرے عیب عیاں کر دے۔نفس لوامہ کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ ایسا نفس جو ملامت کرے، نفس لوامہ والے سے غلطی ہو جائے تو اس کا نفس اس کو خود کہتا ہے ، تم سرکار کے اتنے قریب اور بیس تیس سالوں سے مشن کر رہے ہو اور ایسا کام کر رہے ہو تم کو شرم آنی چاہئیے لیکن آدمی اگر پے در پے غلطیاں کرتا جائے ، گناہ کرتا جائے ، حاسد بنتا جائے، مغرور بنتا جائے اور کا نفس اس کو نہ کہے تو معافی مانگنے کی ضرورت کیا ہے، قلب پر تیرے قفل پڑ گیا ،نفس تیرا امارہ ہو گیا تیرا تو سرکار گوہر شاہی سے تعلق ہی ختم ہو گیا اب معافی کس بات کی ہے؟ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آپ کو سرکار گوہر شاہی کی تعلیم سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے دین الہی میں سرکار نے لکھا ہے کہ جو پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے تو یہ برائیاں نفس امارہ میں ہیں تو تم اپنے اندر جھانک لو اگر آج بھی کسی کی غیبتیں کرتے ہو تو اپنے آپ کو ذاکر قلبی نہ کہنا ، جھوٹ ہے یہ۔ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا جب آدمی کوئی گناہ کرتا ہے تو کراماً کاتبین اس گناہ کو کتاب میں لکھتے ہیں اور دل پر ایک سیاہ دھبہ بھی لگا دیتے ہیں کیونکہ جب اس کے نبی کو ضرورت پڑی کے اس کی کیا کارکردگی ہے تو اس کی کتاب منگا لیں گے لیکن اللہ کو کتاب کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ دلوں کو دیکھتا ہے، اور گناہ کرنے پر دل پر سیاہ دھبہ لگانا اس گناہ کی سزا ہے تاکہ گناہوں سے دل سیاہ ہو جائے اور وہ اللہ کی نظر میں نہ آئےحضور نے بھی فرمایا کہ کہ گناہ کی کثرت دل کو سیاہ کر دیتی ہے اور جب دل سیاہ وہ جاتا ہے تو اس وقت نصیحت اثر نہیں کرتی۔
روزآنہ ہی گفتگو ہوتی ہے کہ کسی کا دل نہ توڑو ، جھوٹ نہ بولو، دھوکہ نہ دو، مشن کا کام کرو ، روز سننے کے باوجود بھی بات سمجھ اس لیے نہیں آ رہی کیونکہ دل کالا ہو گیا ہے۔
یہ تعلیم ایک مشعل کی طرح ہے اس تعلیم کی روشنی میں اپنے کردار کو نظر میں رکھنا ہے، یہ بھی دیکھنا ہے کہ میں لوگوں کو تو کہہ رہا ہوں دل پاک کرو کہیں میرا اپنا دل تو ناپاک نہیں ہے۔قرآن میں فرمان باری تعالی ہے کہ اللہ کو اس بات سے شدید ترین نفرت ہے کہ تم جو لوگوں کو کرنے کا کہتے ہو وہ خود نہیں کرتے۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے ہم لوگوں کو اگر مشن کرنے کا کہتے ہیں اور خود بھی مشن کر رہے ہیں ۔یہ زندگی چند دنوں کی ہے اس میں کسی چیز کے لیے کسی کا دل کیا دکھانا ، انانایت کا مسئلہ کیا بنانا، نفس کو پاک کرنا تھوڑی سے پاکی ہے بس، نفس پاک ہو نے کے بعد تو بس پانچ فیصدہی پاک ہوا ہے، اندر بیٹھے ہوئے انانیت کے بت کو توڑنا ابھی باقی ہے، اگر تجھے ابھی بھی اپنی عزت نفس کی پرواہ ہے تو ابھی تو انانیت سے پاک نہیں ہوا ۔ جو انانیت سے پاک ہو جاتے ہیں انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی ان کو کیا کہہ رہا ہے۔ بلھے شاہ نے کہا
لوکی تینوں کافر آکھن تُو آھو آھو آکھ
محبت و عقیدت کا ثبوت یہ ہے کہ جو بھی الزام لگے سر جھکا کر کہیں جی مجھ سے یہ ہو گیا ، یہاں تو مائیک لگا ہوا ہے ، جو تو نے کہا وہ اوپر چلا گیا ، اب کیا ہوگا ؟ کبھی بھی اپنا دفاع نہ کرو ، صفائیاں مت پیش کرو ، اس نفس کی وکالت مت کرو،گناہ کیا ہے تو کہو ہاں میں گناہگار ہوں جھٹلاؤ مت، اس نفس کی خاطر ان کو چھوڑ دو گے؟ یہاں روزآنہ بیٹھنے یا روزآنہ آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم نے رب کو پکڑا ہوا ہے، کعبے میں بیٹھ کر بھی کافر ہو سکتا ہے انسان اور بت خانے میں بیٹھ کر بھی مومن ہو سکتا ہے انسان ، سارا معاملہ دل کا ہے۔
کر لے دل دی صفائی جے دیدار چاہیدا
تُو جہان توں کی لینا تینوں یار چاہیدا

مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 25 نومبر 2020 کو جشن شاھی کے دن کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوز کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس