- 1,635وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
مرتبہٴِ احسان پر کون فائز ہوسکتا ہے؟
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو ہے کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن اُن کو دین کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اُن کا ذیادہ جو علم ہے وہ اِس بات کا ہے کہ نماز پڑھنی ہے، روزہ رکھنا، زکوٰة دینی ہے، حج کرنا ہے، داڑھی رکھنی ہے، امامہ باندھنا ہے، بچہ پیدا ہوتا ہے تو ختنہ کرانا ہے اور قرآن شریف کی تلاوت کرنی ہے جب بوڑھے ہوجائیں گے کرلیں گے۔ پاکستان اور ہندوستان میں آپ جائیں تو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آپ کو وہ عورتیں نظر آئیں گی جن کی عُمر پچاس ساٹھ سال سے ذیادہ ہے۔ جب ساٹھ ستر سال کی ہوگئی ہیں اور اب کوئی کام نہیں ہے کرنے کیلئے، بہُو گھر میں اچھی آگئی ہے تو اب وہ جائے نماز بِچھا کرکے رحل بچھا کر اُس پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہی ہیں۔ اُس کے بعد سب پر دم درود کررہی ہیں۔ جو جو قرآن پڑھا ہے وہ سب دم درود میں ضائع ہو جاتا ہے۔
ہمارے علمائے کرام کچھ بھی نہیں ہیں۔ کتابوں میں تفاسیر جو لکھی ہوئی ہے وہ اُنہوں نے رٹ لی ہے۔ عربی کا متن پڑھنا اُن کو آگیا ہے کہ یہ پڑھ لیتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ لکھا ہے۔ پھر مثنوی شریف اُن کو پڑھائی جاتی ہے۔ معنی اُن کو کچھ نہیں معلوم، وہ آپ کو بتادیں گے کہ قرآن میں یہ لکھا ہے یہ لکھا ہے لیکن اُس کا مطلب کیا ہے یہ علماء کو پتہ نہیں ہے۔ یہ ہم اِس لئے نہیں کہہ رہے کہ ہم کو علماء سے کوئی پریشانی ہے، یہ ہم اِس لئے کہہ رہے ہیں کہ کل عالم نے بھی مرنا ہے۔ ایک عام انسان ایک عام مسلمان اپنی آخرت کیلئے پریشان رہتا ہے کہ میرا مرنے کے بعد کیا ہوگا اور ایک عالم جس کی بات کو دین کا حصہ بناکر ایک مسلمان عمل کرتا ہے اُس عالم کو سوچنا چاہئیے اگر میں نے غلط کوئی بات اِن کو دین کے حوالے سے کہہ دی تو کتنے ہزار لوگوں کا ایمان میری گردن پر ہوگا۔ یہ بات مولویوں کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ بڑے کروفر سے بیٹھتے ہیں داڑھیوں میں تیل لگاکے، امامہ شریف چمکا کے، پیٹ پُھلا کے، کُرتے پہن کے اور تم کو آتا کیا ہے، کون ہو تم! تم نے الفاظ رٹ لئے ہیں اور تمہیں کیا آتا ہے سوائے اِس کے کہ تم نے الفاظ رٹ لئے ہیں۔ ہم عالموں سے یہ کہتے ہیں کہ تم ہوتے کون ہو کسی کو دین کی سمجھ اور دین کا فہم دینے والے! قرآن مجید کہتا ہے کہ
دین کا فہم اللہ عطا فرماتا ہے اُس قلب کو جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہو۔
کوئی عالم آج یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم دین سمجھا رہے ہیں۔ تم دین سمجھا رہے ہو جس کو دین کا خود کچھ نہیں پتہ۔ جس نے دین بھیجا ہے وہی سمجھا سکتا ہے، تم نہیں سمجھا سکتے۔ اگر ساری عوام کو یہ بات پتہ چل جائے کہ دین مولانا صاحب نہیں سمجھا سکتے۔ دین اللہ کی طرف سے اُس کی سمجھ عطا ہوتی ہے جب آپ کا قلب منور ہوجائے تو پھر مولویوں کی چُھٹی ہوجائے گی نا۔ کوئی مولویوں کے پاس پھر دین سمجھنے کیلئے نہیں جائے گا! جب مولویوں نے دین سمجھایا تو یہ ہوا کہ اگر مولوی سُنی تھا تو دین سمجھنے والا سُنی ہوگیا، مولوی اگر شیعہ تھا تو اُس نے جس کو دین سمجھایا تو وہ شیعہ ہوگیا کیونکہ عوام کا سارا کا سارا انحصار عالم کی بات پر ہے۔ جو عالم کہے گا وہ مان لیں گے۔ چودھویں صدی کا آغاز ہوئے کم سے کم اڑتالیس اُنچاس سال ہوچکے ہیں۔ آدھی صدی گزر گئی ہے، پندرہویں صدی کا نصف گزرگیا ہے۔ یہ جو وقت ہے یہ پندرہویں صدی چل رہی ہے اور پندرہویں صدی کو چلتے چلتے آدھی صدی گزرگئی ہے۔ چودھویں صدی کے علماء کے بارے میں حدیثوں میں آیا کہ
عُلَمَاوٴُھُم شَرمَّن تَحتَ اَدِیمِ السَّمَآءِ مِن عِندِھِم تَخرُجُ الفِتنَةُ وَفِیھِم تَعُودَ
مشکواة کتاب العلم
ترجمہ: چودھویں صدی کے جو علماء ہیں وہ آسمان کے نیچے زمین پر بد ترین مخلوق میں سے ہونگے۔ فتنہ اُنہیں میں سے نکلے گا اور اُنہیں میں لوٹ کے آئے گا۔
اب چودھویں صدی کے علماء جو بدترین مخلوق ہونگے تو اب پندرہویں صدی کے علماء کا کیا حال ہوسکتا ہے! شاید اُن کے خباثت اور گمراہی کا تو ہم تخمینہ بھی نہ لگاسکیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
سورة آل عمران آیت نمبر 19
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ کہ اللہ کی نظر میں جو دین ہے الْإِسْلَامُ وہ اسلام ہے۔ اب یہاں مولویوں نے گڑبڑ یہ کی ہے کہ اِس لفظ کو دینِ اسلام بنا دیا حالانکہ یہاں پر اللہ تعالی نے بات کچھ اور کہی ہے۔ اسلام کا مطلب ہے اللہ کی فرمانبرداری اور اللہ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ کہ اللہ کے نزدیک جو دین صحیح ہے وہ یہ ہے کہ جس میں اللہ کی فرمانبرداری ہو۔ ہم نے باطن میں پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہے تو آپ یقین فرمائیں، اب یہاں پر کثرِنفسی سے کام لینا جائز نہیں ہے تو ہمیں جو بتایا گیا ہے سب سے پہلے یہ جملہ کہہ دیتا ہوں کہ حضور نبی پاکؐ فرماتے ہیں کہ “جس نے کوئی غلط بات مجھ سے منسوب کی وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے”۔ اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ محمد الرسول اللہ نے فرمایا کہ یہاں پر اِس کا مطلب دینِ اسلام نہیں ہے بلکہ جو اللہ کی طرف سے وحی آئی اُس پر کسی نبی نے بنایا، وہ دین ہے۔ لیکن اگر مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ اِس آیت میں اسلام سے مُراد دینِ اسلام ہے تو پھر اُن کو ہم یہ آیت پیش کرتے ہیں
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلً
سورة النساء آیت نمبر 125
اب یہاں پر اللہ تعالی کا طرزِتخاطب ملاحظہ فرمائیں وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ کہ یہاں پر بھی جو أَسْلَمَ ہے جو معنی ہم نے آپ کو اسلام کا بتایا ہے اُس کا root word یہی أَسْلَمَ ہے۔ اب یہاں اللہ تعالی یہ ارشاد فرماتا ہے وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا کہ اور اُس کے دین سے اچھا دین کسکا ہے مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ جس نے اپنا چہرہ اللہ کی طرف مرکوز کرلیا، اُس کے دین سے اچھا دین کسکا ہے۔ اب اللہ کی طرف یہ سوال ہے۔ اِس آیت إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ میں یہ ہورہا تھا کہ سب سے بہترین دین اسلام ہے، چلو مان لیا کہ مولانا صاحب کی بات صحیح ہے۔ اب یہاں آجائیے اب اللہ تعالی واضح طور پر پوچھ رہا ہے کہ وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کی طرف مرکوز کرلیا اُس کے دین سے اچھا دین کسکا ہے۔ جب اُس نے اپنا چہرہ اللہ کی طرف مرکوز کرلیا تو وَهُوَ مُحْسِنٌ وہ مرتبہٴِ احسان پر پہنچ گیا۔ اب ہم امام مہدی کے بارے میں بات کرنے والے ہیں اور شروع ہم نے اِن دو آیتوں سے کیا ہے اُس کی وجہ یہی ہے کہ
امام مہدی علیہ الصلاة والسلام وہ دین متعارف کرارہے ہیں کہ جس دین کے قصائد اللہ پہلے سے گارہا ہے کہ اِس دین سے اچھا دین کسکا ہوگا کہ جس نے اپنا چہرہ اللہ کی ذات پر مرکوز کرلیا وَهُوَ مُحْسِنٌ اور وہ درجہٴِ احسان پر فائز ہوگیا۔
حدیثِ جبرائیل کے مطابق درجہٴِ احسان یہ ہے کہ جبرائیلؑ حضورؐ کے ایک صحابی کے روپ میں آئے اور حضورؐ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یارسول اللہ اسلام کیا ہے، آپؐ نے جواب مرہمت فرمایا۔ اُس کے بعد پوچھا کہ ایمان کیا ہے، آپؐ نے جواب مرہمت فرمایا۔ پھر تیسری دفعہ پوچھا کہ مرتبہٴِ احسان کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ مرتبہٴِ احسان یہ ہے کہ جب تُو عبادت کرے تو رب کا دیدار کرے، تیری عبادت میں تجھے رب نظر آنے لگ جائے تو مرتبہٴِ احسان ہے۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اِس لفظ کا مطلب کیا ہے۔ اب اگر میں (یونس الگوھر) سرکار گوھر شاہی کے کرم اور فضل سے نہ بتاوٴں تو کائنات میں کوئی نہیں بتا پائے گا۔ اور اگر میں نہ بتاوٴں اور میں پوچھوں کہ بتاوٴ اِس کا اصل مقصد کیا ہے تو تم بغلیں جھانکو گے۔ اب یہ جو لفظ ہے مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ کہ اپنے چہرے کو اللہ کیلئے فرمانبردار بنالینا۔ تم اپنے چہرے کو اللہ کیلئے فرمانبردار کیسے بناو گا کوئی مولوی بتاکے دکھائے کہ اپنے چہرے کو فرمانبردار اللہ کیلئے بنانا کیا ہے اور کونسا چہرہ رب کی فرمانبرداری میں لانا ہے؟ یہ چہرہ بس یُوں رب کو دیکھتے رہو تو حقوق العباد کون ادا کرے گا اگر آپ کا یہ چہرہ اللہ کی طرف رہا۔ کیا محمد الرسول اللہ کا یہ چہرہ چوبیس گھنٹے اللہ کی طرف تھا! پھر کونسا چہرہ اللہ کی فرمانبرداری میں دینا ہے!
سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی نے باطنی طور پر بطورِالہام یہ بتایا کہ یہاں اِس سے مُراد قلبِ منیب ہے کیونکہ اُس کا رُخ اللہ کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ رُخ اُس کا اللہ کی طرف ہی رہتا ہے۔
تیرے چہرے کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ کہ اُس سے اچھا دین کسکا ہوگا کہ جس نے اپنا ایک چہرہ اللہ کی فرمانبرداری میں رکھ دیا ہے۔ وہ چہرہ تیرے قلبِ منیب کا ہے جس کا رُخ اللہ کی طرف ہوجاتا ہے۔
ایسا دین اختیار کرو جس میں تمہارا قلب ایک براہِ راست رب کی طرف مرکوز رہے اور دوسرا قلب کا جثہ اللہ اللہ کرتا رہے۔ یہ اللہ اللہ کرکے نور بنائے اور نور قلبِ منیب کو بھیجے اور قلبِ منیب رب کو تکتا رہے۔ جب ایسا ہوجائے گا تو وَهُوَ مُحْسِنٌ درجہٴِ احسان پر پہنچ جائے گا۔
پھر اللہ تعالی نے فرمایا وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا اور یہ جو دین ہے کہ جس میں چہرہ اللہ کی طرف ہوجاتا ہے یہ ملّتِ ابراہیم کا دینِ حنیف ہے۔ دینِ حنیف میں چہرہ رب کی طرف مرکوز ہوتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر کوئی دین نہیں ہے۔
آپ یہ سمجھیں گے کہ ابراہیمؑ کی اولاد سے نکلے ہوئے موسیٰ نے جو یہودیت کا دین بنایا اِس سے مُراد وہ دین ہے! نہیں وہ دینِ حنیف کہاں ہے۔ کیا اِس دین سے مُراد وہ دین ہے جو عیسٰیؑ نے بنایا، نہیں وہ دین بھی نہیں ہے۔ جو یہودیت بنا، عیسائیت بنا، یہ لوگوں کیلئے بنا۔ ملّتِ ابراہیم وہ ہے جس میں سارے مُرسلین سارے انبیاء خود دینِ حنیف کے اُمتی ہے۔
جب تک لطیفہٴِ قلب قلبِ منیب کی منزل تک رہتا ہے تو دینِ حنیف ہے اور جب قلب شہید ہوجائے تو دینِ الٰہی ہے۔
تمھارا قلب بھی آج منیب ہوجائے تو ملّتِ ابراہیم سے تمھارا تعلق ہوگا، تم اور ابراہیمؑ دونوں ایک ہی دین کے اُمتی ہوگے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اب آگے ذرا دیکھیئے کہ اِس دین سے اور کیا ملتا ہے۔ پھر آگے فرمایا کہ وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلً اور وہ یہی دین تھا جس کی وجہ سے اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا۔ یہ دین دوستی کا ہے جس میں رب دوست بنالیتا ہے۔ یہاں پر جنتوں کی بات نہیں ہوتی۔ یہ وہ دین ہے جس میں اللہ کی دوستی کا راز ملتا ہے۔ اگر پہلی آیت کو پڑھیں تو آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ کوئی اللہ کی نظر میں دین نہیں ہے اور اِسی قرآن میں اگر یہ آیت پڑھیں تو پھر بات جو ہے کچھ اور ہوجاتی ہے۔ پھر اللہ تعالی آپ کو چیلنج دے رہا ہے کہ چلو بتاوٴ اِس دین سے اچھا کونسا دین ہے۔ اگر اللہ کے نزدیک صرف دینِ اسلام ہی تھا تو پھر یہ کونسا دین ہے! سرکار گوھر شاہی یہ دینِ حنیف جس کے پیروکار ابراہیمؑ، یعقوبؑ، یوسفؑ، یحییٰ اور زکریہ، عیسٰیؑ تھے، وہ دین سرکار گوھر شاہی عام گنہگار کو دے رہے ہیں۔ کون ہیں سرکار گوھر شاہی؟ یہ جو تمہارے دین ہیں اِن میں بڑی رکاوٹیں اور قوانین ہیں۔ ایک دین ایسا بھی ہے جس کے اندر کوئی قانون نہیں، اُس کو کوئی بھی اپنا سکتا ہے۔ وہ دینِ حنیف ہے۔ دینِ حنیف یہ ہے کہ تیرا دل اللہ سے جُڑ جائے، چمک جائے اور چمک گیا تو اللہ کی نظروں میں آگیا۔ اب جب اللہ کی نظروں میں آگیا تو اب کون پوچھے گا کہ تیرا دین کیا ہے، تُو تو اللہ کی نظروں میں آگیا نا۔ یہ وہ چینل ہے جو back door ہوتا ہے یہ بالکل سیدھا سیدھا راستہ نہیں جارہا ہے اِس کے اندر trick یہ کھیلی جارہی ہے کہ اللہ چمکتے ہوئے دلوں کو دیکھتا ہے تو دل کو چمکالو۔ اب چور راستے سے دل کو چمکالیا۔ اب دل چمک گیا تو خودبخود وہ اللہ کی نظروں میں آگیا اللہ نے فرمایا واہ آجاوٴ۔ اب جب اللہ نے بلالیا تو نیچے جو کھڑے ہوئے ہیں اب وہ کیا کہیں گے کہ تمہارا دین کیا ہے! ارے ہٹ میں تو اللہ کے قرب میں چلاگیا ہوں اب مجھے دین کی کیا ضرورت ہے۔ سرکار گوھر شاہی نے یہ کہانی یہاں سے نکالی ہے کہ اِن کے دلوں کو چمکادو، ابھی اِن سے بات مت کرو کہ تم ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یہ راز اِن کو بتادو کہ اُس کی نظروں میں آنا ہے تو یہ ایک راز ہے۔ یہ راز صرف سرکار گوھر شاہی ہی کھول سکتے ہیں کیونکہ دل صرف گوھر شاہی ہی چمکا سکتے ہیں۔ اِس سے پہلے بھی یہ راز کُھل سکتا تھا لیکن راز ہی کُھلتا، لوگ کہتے اچھا دل چمکاوٴ تو وہ دل کیسے چمکاتے!
دل چمکانے کیلئے تو اللہ نے نبیوں اور مرسلین کو دین دے کے بھیجا تھا کہ دین پر عمل کرو اور دل چمکاوٴ۔ بغیر دین کے تو دل چمکتا نہیں تھا۔ بغیر دین کے کوئی دل چمکا نہیں سکتا، جس نے چمکایا اُس کا نام گوھرشاہی ہے۔
سرکار گوھر شاہی کونسا دین دے رہے ہیں؟
سرکار گوھر شاہی وہ دین دے رہے ہیں کہ جس دین میں اُمتیوں کے نام آدمؑ، ابراہیمؑ، موسٰیؑ، یہ جتنے بھی بڑے پیغمبر اور اولُلعزم مرسلین ہیں یہ سارے اُس دین کے اُمتی ہیں۔ اللہ تعالی نے اُس دین کیلئے فرمایا ہے کہ اگر یہ دین تُجھ کو مل جائے تو پھر تیرے دین سے بڑا دین کونسا ہوگا، یہ ملتا نہیں ہے نا تبھی تو تم مسلمان، ہندو، عیسائی اور یہودی بن گئے۔ جس کو یہ مل گیا وہ کہتا ہے کہ میں کیوں مسلمان بنوں، میں ہندو کیوں بنوں، میں یہودی اور عیسائی کیوں بنوں، میں تو محسن بنوں گا اور میں تو رب کو دیکھوں گا۔ یہ تو سب کی خواہش رہی۔ موسٰیؑ نے بھی کہا کہ مجھے دیدار چاہیئے تو اللہ نے فرمایا نہیں یا مُوسی لَن تَرَانِی۔ اب یہ دین سرکار گوھر شاہی متعارف فرمارہے ہیں کہ اپنے دلوں کو رب کی طرف پھیرنا ہے۔ اُس کے بعد جب تیرا دل اللہ سے جڑجائے اللہ کی نظروں میں آجائے، پھر اللہ تعالی جہاں تُجھے رکھے گا وہاں تُو رہ جانا۔
ہم نے سرکار گوھر شاہی کو امام مہدی کیوں مانا؟
وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم نے سرکار گوھر شاہی کو امام مہدی کہا۔ غیبت سے پہلے بھی کہا اور غیبت کو اُنیس سال ہوگئے آج بھی کہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکارگوھرشاہی غیبت میں چلے گئے اور اُس کے بعد ہم اپنی من مانی کررہے ہیں۔ غیبت میں جانے سے پہلے بھی کہا کہ سرکار امام مہدی ہیں بلکہ علماء کا ایک گروپ سرکار گوھر شاہی کے پاس آیا تو وہ کہنے لگا کہ ہم پہلے تو بہت آپ کے پروگرام میں آتے تھے، اُس کے بعد جب سے یہ امام مہدی کا جو قصہ شروع ہوا ہے اُس کے بعد سے ہم کو بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو ہم ذرا محتاط ہوگئے۔ آج ہم آپ کے پاس اِس لئے آئے ہیں کہ آپ ایک اخباری بیان جاری کردیں اور کہہ دیں کہ آپ امام مہدی نہیں ہیں۔ سرکارگوھرشاہی نے اُس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تو کبھی بھی نہیں کہا کہ میں امام مہدی ہوں۔ پھر سرکار نے یہ فرمایا کہ اگر میں یہ کہہ دوں تو امام مہدی ہونا کیا کوئی گناہ ہے! سرکار کے جو خاص لوگ ہیں اُن کے بارے میں اشارہ کیا کہ یہ کہتے ہیں اِن سے پوچھو کیوں کہتے ہیں! اب علماء یہ کہنے لگے کہ آپ اِن کو منع کردیں کہ یہ نہ کہیں تو سرکار نے فرمایا کہ اگر یہ غلط کہیں تو میں منع کروں نا، صحیح کہہ رہے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی نے اِس طریقے سے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا کہ کچھ کہہ بھی دیا اور بہت کچھ نہیں بھی کہا۔ ہم غیبت سے پہلے بھی سرکار گوھر شاہی کے حوالے سے کہ سرکار گوھر شاہی امام مہدی ہیں۔ اگر ہم غلط ہوتے تو سرکار گوھر شاہی ہم کو منع کردیتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ کہاں سے آیا کہ سرکار گوھر شاہی امام مہدی ہیں! دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے ذہن کا اختراء ہے یا اِس کے پیچھے کوئی باطنی توجیہات بھی ہے جس کو ہم نے صرف verbalize کیا ہے، دیکھنا یہ ہوگا۔
جب میں سرکار گوھر شاہی سے وابستہ ہوا تو اُس وقت ہمیں دین کا کچھ پتہ نہیں تھا بلکہ ہم چھوٹے چھوٹے جو معاملات ہوتے ہیں فرقہ وارانہ جو تعصبات اور فرقہ وارانہ جو محرکات اور تفرقات ہوتے ہیں اُن کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر نماز روزہ چھوڑ کر دنیاداری میں لگ گئے تھے۔ پھر جب سرکار گوھر شاہی سے کسی نہ کسی طریقے سے یعنی میرا سرکار سے ملنا پوری نیت کے ساتھ نہیں تھا کہ ہاں کوئی بزرگ ہیں کوئی ولی ہیں مرشد ہیں تو میں اُن کے پاس جاکے اکتسابِ فیض لوں مجھے کسی مرشد کی تلاش نہیں تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں مرشد کی تلاش میں تھا اور میں ڈھونڈ رہا تھا۔ بس وہ یُوں سمجھ لیں کہ پہلے تو میں یہ ایک انسانی سوچ کے مطابق کہوں گا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ سرکارگوھر شاہی کے پاس میں چلاگیا۔ پھر یہ کہوں گا کہ جو مجھے اتفاق لگتا ہے وہ اتفاق نہیں تھا رب ایسا چاہتا تھا کیونکہ روحانیت میں اتفاقات نہیں ہوتے۔ لیکن مجھے اتفاق ہی لگا تھا کیونکہ میرا ایک دوست اختر علی انصاری وہ ہم ایک کالج کی لائبریری میں بیٹھے ہوئے تھے تو وہ کسی دوسرے کو سرکار گوھر شاہی کے بارے میں سمجھا رہا تھا اور اُس کو آمادہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ سرکار گوھر شاہی سے ملاقات کرلے۔ دوڈھائی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد بھی جب وہ آمادہ نہیں ہوا مجھے اُس کے اوپر ترس آیا کہ دیکھو یہ دوڈھائی گھنٹوں سے سمجھا رہا ہے اور یہ شخص آمادہ ہوکے نہیں دے رہا تو میں نے اُس کو کہا کہ تم مجھے لے جانا۔ اِس طریقے سے میں سرکار گوھر شاہی تک پہنچ گیا۔ اب سرکار گوھر شاہی تک جب پہنچ گیا تو جو سب سے بڑا اثر تھا وہ سرکار کے حُسنِ مبارک کا تھا کہ آدمی جب سرکار کے چہرہ مبارک کو دیکھ لے چھٹی ہوگئی۔ اب آپ اِس کو جادو کہنا چاہیں تو کہہ لیں۔ جو سرکار گوھر شاہی کے چہرے کو دیکھ لے تو بس وہ ڈھیر۔ کیا چہرہٴِ مبارک ہے کیا حُسن ہے، کچھ سمجھنے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس چہرہٴِ مبارک پر نظر پڑی ہے اور آپ ڈھیر ہوگئے۔
میری نگاہ سے خود کو جو دیکھ لیتے کبھی
تمہارے ہاتھ سے آئینے گِرگئے ہوتے
اب سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں پہنچ گئے بس اُس کے بعد یہ ہوا کہ دل وہیں رہ گیا، جاں وہیں رہ گئی۔ آپ یقین کریں خدا کی عزت کی قسم اُس کے بعد سے اب تک کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ کہاں پر ہیں، خواب ہے یہ بس۔ وہ نظر اور آج کا دن، اُس کے بعد بس
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
اب جو سامنے نظر آرہا ہے وہ سرکار گوھر شاہی کا فضل و کرم ہے۔ سرکار سے مل لئے۔ پہلے کوئی ولیوں سے ملنے کا تجربہ نہیں تھا کچھ نہیں تھا لیکن جو محسوسات سرکار کا دیدار کرنے کے بعد ہوئے وہ محسوسات بڑے عجیب و غریب تھے۔ آہستہ آہستہ سرکار کی گفتگو کو سننے کے بعد وہ جو گفتگو سرکار فرماتے وہ دل میں اُترتی چلی جاتی۔ ایسا لگتا کہ گرم گرم لفظ اندر سینے میں اُتر کر کوئی گند صاف کررہے ہیں یعنی کُھرچ کُھرچ کے غلاظت کو دل سے نکال رہے ہیں، الفاظِ گوھر شاہی۔ بڑا جستجو جو کہ ہر چیز کی تحقیق کرنی ہے یعنی ایک محقق ذہن اور ایک محقق رویہ میری شخصیت کا حصہ رہا، فطرت میں ہے۔ اِس معاملے میں میں بڑا حساس ہوں یعنی اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا حال ہے اور آپ کہیں پتہ نہیں تو اب میں پریشان ہوگیا کہ یہ کیا بات ہوئی کیا مسئلہ ہے تو میں آپ کے پیچھے پڑجاوٴں گا کہ تم نے یہ کیوں کہا پتہ نہیں۔ جب تک وہ وجہ نہیں پتہ چلے گی نہ میں خود بیٹھوں گا نہ آپ کو بیٹھنے دوں گا، فطرت میں ہے یعنی یہ ایک جستجو کا عالم ہے کہ میں اگر اِس سے پوچھتا ہوں کہ یار آج کی محفل کیسی رہی اور یہ کہے کہ اچھی ہوگی تو کیا مطلب ہے اِس کا، یہ تم نے کیوں کہا، تم کہاں تھے ذہنی طور پر غیرحاضر تھے، یہ جستجو جو تو اب میں سرکار کی جو باتیں سنتا تو وہ میرے دل میں اُترتیں تو کیا ہوتا کہ یہ حق ہے۔ آج یہ میں پہلی دفعہ کہہ رہا ہوں کہ دین کے بارے میں میرا گمان یہ ہوچلاتھا کہ یہ سب مولویوں کا بنایا ہوا ہے۔ اب سرکار کی گفتگو کا نور جو میرے دل میں جانا شروع ہوا تو اب مجھے ایک بنیاد مل گئی کہ یہ حق ہے، اب میں دیکھتا ہوں کہ دین کیا کہتا ہے۔ یہ تو حق ہے اب دین کو آزماتے ہیں۔ دین کو آزمانے کیلئے قرآن مجید کا تحقیقی اور تفتیشی مطالعہ شروع کیا لہذا میں کھوج میں لگ گیا۔ اب آپ یقین کریں کہ میں نے قرآنِ مجید کا کم سے کم دس ہزار مرتبہ مطالعہ کیا ہوا ہے۔ ہماری انجمن والے سمجھتے تھے کہ یہ پاگل لوگ ہیں چھچھورے ہیں اور جب بیٹھ جاتے تھے تو پھر جب اُٹھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ اِس کے پاس جادو ہے۔ تم کو پتہ ہی نہیں ہے کہ سرکار کے زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو میں نے قرآن میں ڈھونڈا ہوا ہے۔ یہ جو میں آپ کو آیتیں سناتا ہوں پوری انجمن سرفروشان اسلام میں قرآن کے حوالے سے کسی کو نہیں پتہ تھا۔ یہ جتنی بھی آیتیں ہیں یہ سب ہم نے دریافت کی ہیں۔ بڑا تحقیقی وقت اِس میں لگایا ہے۔ اب سرکار گوھر شاہی کی گفتگو سُن کر قرآنِ مجید کا تفتیشی مطالعہ شروع کردیا۔ جب تفتیشی مطالعہ شروع کردیا تو اُس کے ساتھ ساتھ جو ہے وہ روحانی واقعات ہونے لگ گئے۔
ایک دفعہ سرکار باطنی طور پر مسجدِ نبوی لے گئے تو وہاں مسجدِ نبوی میں وہ سنہرے رنگ کے طغرے لگے ہوئے ہیں جہاں باہر دیوار کے اوپر لکھا ہوا ہے یا اللہ یا محمد یا علی۔ وہ جو طغرے تھے جیسے یا علی کا طغرا ہے وہ ہلا اور اُس سے نور کی شُعاع سینے میں آنے لگی، یامحمد کا طغرہ ہلا اُس سے نور کی شُعاع آنے لگی۔ ہزاروں دفعہ سرکار خانہ کعبہ لےجاتے اور بیت المامور لے جاتے۔ کبھی کہیں لے جاتے اور کبھی کہیں لے جاتے تو علم کا ایک ایسا دور سرکار گوھر شاہی نے شروع کیا کہ ایک طرف تو میں قرآن کا تفتیشی مطالعہ کررہا ہوں اور دوسری طرف لطائف اور جثوں کو نکال کے لوحِ محفوظ، بیت المامور اور سدرة المنتہی اور نجانے کہاں کہاں، یہاں تک کہ سیدنا غوثِ اعظمؓ کی صحبت میں بٹھایا اور اُن کو کہا کہ اِس کو قرآن سمجھائیں۔ چُونکہ اب میں بتانے والا ہوں کہ ہم نے سرکار گوھر شاہی کو امام مہدی کیسے مانا تو بہت ساری باتیں کھولنا پڑیں گی۔ سیدنا غوثِ اعظمؓ کے پاس بٹھایا اور وہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ جب میں وہاں اُن کی بارگاہ میں حاضر ہوتا تو وہ سب کو چھوڑ کر مجھے کہتے کہ چلو تم آجاوٴ، باقی سب انتظار کرتے۔ لوگ اعتراض کرتے تو لوگوں کو چُپ کراتے اور کہتے کہ یہ گوھر شاہی کا غلام آیا ہے تم بیٹھے رہو آرام سے۔ وہاں سے قرآنِ مجید کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔
اب وہاں سیدنا غوثِ اعظم کی بارگاہ سے قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کرلی تو وہاں سے مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ ہمارے ارکانِ اسلام میں کون کونسے جو اراکین ہیں اُن میں کون کونسے لطائف شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عبادتیں اللہ تک پہنچتی ہیں جیسے روزے کے بارے میں کہ روزہ بیکار ہے اگر لطیفہ نفس کا منہ نہیں کُھلا ہوا۔ سب سے پہلے مرتبہ ذکر کا ہے۔ ذکر بیکار ہے اگر قلب کا منہ نہ کُھلا ہو۔ پھر جب قلب کا منہ کُھل گیا تو اب ذکر کا مزہ ہے۔ ذکر کا نور اندر جائے گا۔ اُس کے بعد پھر روزہ ہے اُس کیلئے نفس کا منہ کُھلا ہوا ہو اور پھر نماز کیلئے یہ ہے کہ آپ کا کم سے کم قلب اور نفس پاک ہو تو پھر نماز کا پہلا درجہ ہے۔ پھر دوسری روح بھی پاک ہوجائے تو نماز کا مرتبہ اور بلند ہوگیا۔ تیسری روح بھی پاک ہوگئی تو نماز کا مرتبہ اور بلند ہوگیا نا۔ پھر چوتھی ہوئی، پانچویں ہوئی پھر تو نماز کا مرتبہ اور بلند ہوگیا۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ جب بندہ نماز میں سجدہ کرتا ہے تو سجدے میں گویا رب سے چُپکے چُپکے باتیں کرتا ہے۔ یہ معاملہ وہ تھا کہ جب نماز میں قلب کے ساتھ تیرا لطیفہ اخفیٰ بھی شامل ہوجائے تو پھر تیرا قلب عرشِ الہٰی سے رابطے میں ہوگا اور تیرا لطیفہ اخفٰی جو ہوگا وہ رب سے چُپکے چُپکے باتیں کرے گا۔ پھر جب نماز میں لطیفہ انا بھی شامل ہوجائے تو وہ پھر نمازِعشق ہے۔ قلب عرشِ الہٰی سے جُڑا ہوا، لطیفہ اخفٰی رب سے چُپکے چُپکے باتیں کررہا ہے اور لطیفہ انا چُپکے چُپکے رب کو دیکھ رہا ہے۔ یہ مرتبہٴِ احسان ہوگیا۔ یہ ساری باتیں پتہ چلیں۔
اُس کے بعد پھر ایک دن سیدنا سرکار گوھر شاہی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ ہمارا ایک غلام ہے، آپ اُس کو قرآن کی تعلیم دیں۔ اب میں یہ باتیں اِس لئے کررہا ہوں کہ کوئی مجھ سے پوچھے تو سہی کہ غوث پاکؓ نے کونسی تعلیم دی۔ یہ میں اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ دنیا میں کوئی آکے مجھے چیلنج کرے۔ کوئی عالم، کوئی مفتی، کوئی فقیر، کوئی ولی، کوئی سلطان الفقراء، کوئی عاشقِ الہٰی، جتنا بڑا مرتبے والا آئے گا تو پھر ہم اُس سے اُسی حساب سے بات کریں گے۔ جو اپنے آپ کو جیسا سمجھتا ہے وہ ذرا ایک دفعہ تشریف لے آئے۔ سلطان الفقراء تک کے درجے کے آدمی جس کو پریشانی ہے ذرا ایک دفعہ آجائے پھر واپس ہماری مرضی کے مطابق جانا ہے۔ اب جو حضورؐ تشریف لے آئے۔ میں اپنے گھر مانچسٹر میں اکیلا آنکھیں بند کرکے بیٹھا ہوا تھا۔ بہت پُرانی بات ہے وقت ہی وقت تھا کسی سے مانچسٹر میں کوئی جان پہچان نہیں، کوئی آنے جانے والا نہیں بس اکیلے بیٹھا ہوا ہوں دن نہیں گزرتا۔ پاکستان سے آیا تھا تو وہ دل نہیں لگتا تھا کہ وہاں تو سرکار کے پاس چلے جاتے تھے اب یہاں لندن آگئے یہ تو زندگی تباہ و برباد ہوگئی تو چُپ کرکے بیٹھا رہتا تھا۔ پہلا یہاں پر یہ ہوتا تھا وہ جو فون بُوتھ باہر لگے ہوئے ہوتے ہیں تو اُس میں یہ ہوتا تھا نمبر ڈائل کرلیتے تھے اور ابھی پیسے ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے جب سامنے والا اُٹھا لے اُس کی آواز آئے تو پھر پیسے ڈالتے تھے۔ میں روز سرکار کو پانچ چھ دفعہ اِس طرح کال ملاتا۔ سرکار کی آواز آتی کہ ہیلو اور پھر میں رکھ دیتا۔ اِس سے یہ ہوتا کہ سرکار کی آواز سُن لیتے۔ اب پیسے تو تھے نہیں کیونکہ پاکستان کی کال اُس وقت جو ہے تقریباً ڈھائی تین پاوٴنڈ پر منٹ کی ہوتی تھی۔ اب تو زمانہ بڑا بدل گیا ہے واٹس ایپ آگیا ہے اب تو رابطہ فری ہوگیا ہے۔ ہفتے کے سوشل سیکیورٹی والے چھپن پاوٴنڈ دیتے تھے تو اب ہفتے کے چھپن پاوٴنڈ میں گھر کا کیا خرچہ چلے گا تو پھر آدمی کال کیا کرے گا۔ لہٰذا وہ نمبر ملایا، سرکار کی آواز سُنی ہیلو اور کٹ جاتا لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ بڑی گستاخی کی بات ہے لیکن پھر مجھے ایک دن شاید یہ اِلقا آیا کہ گستاخی تب ہوگی جب سرکار کو معلوم نہیں ہوگا کہ کون کررہا ہے۔ سرکار تو دلوں کا حال جانتے ہیں اور خدا کی قسم سرکار کو سب پتہ ہے۔ یہ میں تجربے کی بات کہہ رہا ہوں یہ ایمان کی بات نہیں ہے، سرکار کو سب پتہ ہے۔ یہ گلاس یہاں رکھا ہے، کس نے لاکررکھا ہے، کون اُٹھائے گا سب پتہ ہے۔ اب وہ میں کال اِس طرح کرتا تو سرکار کی آواز سُن کر دل کو تسلی ہوجاتی۔ اب میرے ذہن میں ایک بات یہ آئی کہ اگر سرکار ناراض ہوگئے تو دوبارہ فون نہیں اُٹھائیں گے لیکن سرکار اُٹھاتے اور فرماتے ہیلو خیر ہے اُستاد، یہ تک بولنا شروع ہوگئے۔ اب جب دو چار دفعہ ہوگیا تو پھر اُٹھا کے بولتے کہ خیر ہے اُستاد اور اتنے میں کٹ جاتا یعنی سرکار کو پتہ ہے کہ کون کررہا ہے۔ اب میں اِسی طرح آرام سے بیٹھا ہوا تھا تو آنکھیں بند تھیں میں نے دیکھا کہ حضورؐ تشریف لے آئے تو میں نے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں کھولیں تو تب بھی حضورؐ کھڑے ہیں آنکھیں بند کروں تو تب بھی کھڑے ہیں۔ یہ ایک عجیب معاملہ تھا اور میں سوچنے لگا کہ یہ کیا ہے آنکھیں بند کروں تو تب بھی نظر آئیں آنکھیں کھولوں تو تب بھی نظر آئیں تو پھر ہڑبڑا کے میں اُٹھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بہت بڑا حضورؐ نے قرآنِ مجید پکڑا ہوا ہے اور مجھے فرمایا کہ چلو آجاوٴ اُستاد تمہاری تعلیم کرنی ہے تو میں نے پوچھا کہ یارسول اللہ یہ کیا ہے جو اتنا بڑا آپ نے پکڑا ہوا ہے تو فرمایا کہ یہ قرآن ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا بڑا قرآن میں نے تو نہیں دیکھا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں ابھی تو ہم نے اِس کا دل سے صرف ایک ہی صفحہ نکالا ہے، بہت بڑا ہے۔ میں نے پوچھا یارسول اللہ کتنا بڑا ہے تو فرمایا کہ یُوں سمجھ لوکہ یہاں سے لیکر لوحِ محفوظ تک سارا قرآن ہی قرآن ہے۔ اب جب نبی پاکؐ نے پھر قرآن کی تعلیم شروع کی تو حضورؐ نے اُس تعلیم میں مجھے پھر بتایا میں آپ کو source بتاتا ہوں جہاں جہاں “م” آیا تو وہاں وہاں حضورؐ نے فرمایا کہ یہاں پر “م” میرے لئے ہیں اور اِس آیت کا “م” سرکار کیلئے ہے۔ وہاں سے مجھے پتہ چلا۔ اب یہ جو قرآن کی تعلیم تھی یہ عام تعلیم نہیں تھی۔ اب میں یہ سوچتا تھا کہ غوث پاکؓ سے بھی قرآن کی تعلیم مل گئی تو اب حضور پاکؐ سے کیا ملے گی! بات سمجھنے کی ہے کہ غوث پاکؓ سے بھی تعلیم ہوگئی تو اب حضور پاکؐ تعلیم دے رہے ہیں تو اب دونوں تعلیم میں فرق ہے کیا! تو وہ فرق پتہ چلا کہ یہ آیتیں ہوچکی ہیں اور یہ آیتیں ابھی باقی ہیں۔ کچھ باتیں امام مہدیؑ کے حوالے سے ایسی تھیں کہ جن کے حوالے حضورؐ نے قرآن سے دئیے کہ یہ آیت امام مہدی کیلئے آئی، فلاں آیت امام مہدی کیلئے آئی، یہ بھی امام مہدی کیلئے وہ بھی امام مہدی کیلئے۔ ہم نے آج تک اُن آیتوں کا ذکر نہیں کیا کیونکہ جب کوئی عالم اپنے پورے جاہ جلال کے ساتھ آئے گا اور ہم کو کہے گا کہ ثابت کرو کہ سرکارگوھر شاہی امام مہدی ہیں تو تب ہم بات کریں گے۔ جب کوئی آئے گا بیٹھے گا تو ہم اُس کو کہیں گے کہ ہم لائیو گفتگو کریں گے۔ اگر ہم ثابت کردیں کہ سرکار گوھر شاہی امام مہدی ہیں تو تم اپنے آپ کو شُوٹ کردینا اور ہم نہ ثابت کریں تو ہم شُوٹ کرلیں گے۔ اِس نیت کے ساتھ پھر گفتگو ہوگی۔ اگر شُوٹ کرنا آپ کو اچھا نہیں لگتا ہے تو آگ جلالیں گے بلکہ آگ کیا چولہا ہی جلالیں گے۔ دو چار چولہے لے آئیں گے۔ اگر ہم ناکام ہوجائیں تو ہم چولہوں کے اوپر بیٹھ جائیں گے، تم ناکام ہوگئے تو تم بیٹھ جانا۔ ہم تو مولویوں سے اِس شرط پر بات کریں گے، اِس سے پتہ چلے گا کہ حق اور باطل کی لڑائی ہے۔ صرف باتوں کی حد تک نہیں کیونکہ مولویوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ بِن پیندے کے لوٹے ہیں۔ ایسا لوٹا ہوتا ہے کہ جس کا پیندا نہ ہو تو اُس کا پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ ٹکتا نہیں ہے۔ لوٹے کے نیچے پیندا اِس لئے لگاتے ہیں تاکہ یہ لوٹا آرام سے رکھا رہے ورنہ اگر اِس کو پیندا نہ لگا تو یہ لوٹا سارا پانی گِرادے گا۔ یہ مولویوں کا بھی وہی حال ہے کہ یہ بغیر پیندے کے لوٹے ہیں۔ اِن کو پکڑنے کا ایک ہی راز ہے جو سرکار نے فرمایا کہ سامنے بٹھا کے اِن شرائط کے اوپر گفتگو کریں گے۔ تم ثابت ہوجاوٴ تو تم مارلو اور ہم ثابت ہوجائیں تو ہم مارلیں گے۔ جو حق پر ہوگا وہ بچ جائے گا۔
اب حضورؐ نے کئی آیتیں بتائیں۔ میں تو بڑا حیران ہوا کہ یارسول اللہ یہ آیتیں تو فرمایا کہ ہاں یہ آیتیں اِس دور کی ہے ہی نہیں، اِن آیتوں کا فیض پہلے آیا ہی نہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میرے قلب کے اندر تین حصے ہیں۔ “ایک حصے کا قرآن میں نے خود کھول دیا، دوسرے حصے کا قرآن شیخ عبدالقادر جیلانی کو ملا اُنہوں نے کھول دیا، تیسرے حصے کا قرآن صرف امام مہدی کیلئے ہے۔ اب یہ تیسرا حصہ ہے، جو حصہ میں نے کھولا اُس میں شرائط اور پابندیاں ذیادہ تھیں، جو حصہ غوثِ اعظم کو دیا اُس میں شرائط اور پابندیاں کم تھیں۔ جو حصہ سرکار گوھر شاہی کو ملا ہے اُس میں نہ شرائط ہیں نہ باپندی ہے صرف فیض ہی فیض ہے۔ میں نے کہا کہ جن کے جسم ناپاک ہوں وہ آپ کا جو پہلا حصہ ہے اُس کے مطابق ناپاک ہیں تو پھر جو دوسرا حصہ ہے اُس کے اندر جن کے نفس ناپاک ہوں وہ ناپاک ہے وہ روحانیت میں نہیں جاسکتا۔ پھر فرمایا کہ جو تیسرا حصہ ہے اِس میں پاکی ناپاکی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ کتنی ناپاکی ہو تو فرمایا کہ اگر کوئی نسلاً بھی حرامی ہو اور اسمِ ذات اللہ اُس کو مل جائے تو وہ بھی ولی بن جائے گا۔ نفس کی ناپاکی تو ایک طرف رہ گئی۔ پھر یہ سرکار گوھر شاہی کا کیسا لا مثل تصرُف ہے ۔ جسم کا ناپاک ہونا تو پھر ایک چھوٹی سی بات ہوگئی۔ اُس کے بعد پھر نفس کا ناپاک ہونا یہ بھی پیچھے رہ گیا۔ جس کا نطفہ بھی ناپاک ہو اگر وہ بھی گوھر شاہی کے قدموں میں آجائے تو وہ ذات ایسی ہے کہ اُس کے نعلینِ مبارک کے صدقے میں ہم جیسے غلیظ نطفے کی پیداوار لوگ بھی محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اِس کائنات میں کوئی مستحق نہیں ہے، نہ میں نہ آپ۔ سب صرف سرکار گوھر شاہی کے فضل، لطف و عنایت اور کرم سے ہے۔ ورنہ ہماری کوئی اوقات نہیں کہ ہم کو روحانیت میں کوئی قبول بھی کرتا۔ ہمیں تو معلوم ہی نہیں ہے کہ روحانیت کے قوانین کتنے سخت ہوتے تھے۔ یہ جو دل اللہ اللہ کرتا ہے یہ کوئی آسان بات تھی! اِس کیلئے تو لوگوں نے اپنی زندگیاں برباد کردیں۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ
پھر بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے یہ سودا اُن صابرین جیالوں کو
جنگلوں میں چلے گئے، دنیا کو چھوڑا، ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑا، عیش و آرام کو چھوڑا، جنگلوں میں بسیرا کیا، بارہ بارہ سال کا چلّہ کیا، اُس کے بعد بھی کسی کو ذکرِ قلب ملا کسی کو نہیں ملا۔ لیکن آج سیدنا گوھر شاہی کے صدقے واٹس ایپ کے اوپر ذکر قلب مل رہا ہے۔
پھر ایک وقت یہ آیا کہ حضورؐ جو تعلیم فرمارہے ہیں اب وہ تعلیم سَر میں گُھس گئی۔ اب وہ بار بار خیال آئے کہ سرکار تو امام مہدی ہیں، اب بولو دنیا کو بتاوٴ۔ جس دن میں نے حضورؐ کی بارگاہ میں یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکار گوھرشاہی امام مہدی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی شک ہے! ہاں ریاض احمد گوھر شاہی امام مہدی ہیں میں کہہ رہا ہوں۔ اب جب یہ بات ہوگئی تو میں بڑا خوش ہوا، پہلے مجھے یہ تھا کہ شاید مجھے وسوسے آرہے ہیں لیکن جب حضورؐ نے یہ بات فرمادی تو میں بڑا خوش ہوا۔ اتنا خوش ہوا اتنا خوش ہوا کہ میں نے فوراً سرکار کو فون کردیا اور سرکار نے جو جواب دیا اُس سے بالکل بیٹھ گیا۔ میں نے سرکار کو فون کیا اور کہا کہ سرکار وہ حضورپاکؐ نے فرمایا ہے کہ آپ امام مہدیؑ ہیں تو سرکار فرماتے ہیں کہ مجھے تو نہیں کہا تم کو کہا ہوگا۔ میں نے کہا کہ بات تو میں نے حضورؐ کو ہی دیکھا نا تو سرکار نے فون بند کردیا۔ میں تو بڑا خوش تھا تو میں نے کہا یہ کیا ہوگیا! اب مجھے وسوسے آنے لگے کہ پھر میں نے کسکو دیکھا ہے کیونکہ اگر واقعی حضورؐ نے کہا ہوتا تو سرکار نے فرمایا کہ مجھے تو نہیں کہا تمہیں کہا ہوگا اور فون بند۔ اب مجھے وسوسے آئیں کہ یہ جو تعلیم چل رہی ہے یہ مجھے کون پڑھا رہا ہے!
پھر دوسرے دن جب حضورؐ تشریف لائے تو میں نے اُن کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ یارسول اللہ ہی ہیں تو اُنہوں نے فرمایا کہ اپنے سینے کی طرف دیکھو اور سینے کی طرف میں نے دیکھا تو ہر لطیفہ ذکر کررہا تھا پورے سینے پر گلاب کے پھولوں سے محمد لکھا ہوا۔ اب وہ گلاب کے پھولوں سے محمد لکھا ہوا تو جب بھی حضورؐ تشریف لاتے تو میرا پورا سینہ اندر سے کِھل جاتا اور گلاب کے پھولوں کی سینے سے خوشبو آتی۔ آپ نے یہ تو نعتوں میں سُنا ہوگا کہ آنکھ میں نمی ہوگی آنسو آئیں گے وہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ باطن کی جو پہچان ہے وہ تھوڑی مختلف ہے۔ جب حضورؐ تشریف لاتے اور گلاب کے پھولوں کی میرے اپنے اندر سے خوشبو آتی تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ حضور ظاہری طور پر آئے ہیں۔ اور جب آپؐ کی کوئی بھی سینے کی روحِ مبارک ہوتی، ایک تو خاص روحِ انور ہے روحِ احمد، میں اُس کی بات نہیں کررہا۔ کوئی بھی روحِ مبارک ہو آپؐ کا لطیفہ قلب آئے یا آپؐ کا لطیفہ سرّی آئے تو جب سینے کی حضورؐ کی کوئی مخلوق آتی تو اُس وقت کستُوری خوشبو آتی۔ گلاب کی خوشبو تب آتی جب ظاہری طور پر آتے، کستوری خوشبو تب آتی کہ جب سینے کی کسی مخلوق سے آتے اور پھر اگر کبھی لطیفہ انا کی مخلوق سے آئے اُس وقت تازہ خون کی خوشبُو آتی۔ میں حضورؐ سے اکثر پوچھتا کہ یارسول اللہ یہ جب آپ تشریف لاتے ہیں پہلے بہت کثرت سے خون کی بُو آتی جب آپ تشریف لاتے تو میں پوچھتا کہ یارسول اللہ یہ خون کی بُو کیوں آتی ہے آپؐ نے ایک دن فرمایا کہ وہ سورة کوثر ہے نا کہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ تو وہ جو كَوْثَر ہے وہ دراصل دودھ کی کوئی نہر نہیں ہے فرمایا کہ وہ ایک خون کا تالاب ہے جس میں ہمارے عاشقوں کا اللہ خون اُتارتا ہے تو جب ہماری خصوصی تشریف آوری ہوتی ہے تو اُس تالاب كَوْثَر کی خوشبو آتی ہے۔ حضور نبی پاکؐ تشریف لائے تو جب میں نے کہا کہ آپ حضور ہی ہو نا تو فرمایا کہ اپنا سینہ دیکھو نا۔ جب میں نے اپنا سینہ دیکھا تو وہ گلاب کے پھولوں سے یعنی جب حضورؐ تشریف لاتے تو وہ گلاب کے پھول کِھل جاتے اور خوشبو آتی تو وہ میں نے دیکھا کہ وہ کِھلے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ رحمانی منظر ہے لیکن سرکار نے اِس بات پر توجہ نہیں دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ سرکار نے جو ہے وہ اللہ کی حکمت کے تحت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، یہ پروجیکٹ میرا اور تمہارا ہے تو اب تم سرکار کو بتانا بھی نہیں ۔ میں کہہ رہا ہوں کہ نہیں یارسول اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے سرکار کو تو سب پتہ چل جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم بتانا نہیں تو پھر مجھے مثال دی کہ بتانے کا مطلب یہی ہے کہ آبیل مجھے مار تو تم بتانا ہی نہیں۔ میں خاموش ہوگیا لیکن پھر بھی مجھے یہ ہوتا کہ جو کچھ حضورؐ کہہ رہے ہیں میں وہ سرکار کو بتاوٴں تو میں سرکار کو بتاتا۔ سرکار فرماتے کہ ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ سرکار کوئی اِس میں شیطانی تو نہیں ہے جو بھی بات ہوتی تو سرکار فرماتے کہ نہیں ٹھیک ہے۔ اب یہ ٹھیک ٹھیک کافی عرصے تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن حضورؐ نے یہ فرمایا کہ اب تم اعلان کردو تو میں نے سرکار کو بتادیا۔ میں نے کہا کہ سرکار وہ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ کُھلے عام لوگوں کو بتادو۔ اب سرکار نے فرمایا کہ ٹھہرجاوٴ ابھی نہیں بتانا، ابھی صبر کرو۔ پھر جب حضورؐ سے ملاقات ہوئی تو حضورؐ نے شکوہ کیا تو میں نے کہا کہ یارسول اللہ سرکار تو میرے مرشد ہیں میں اُن کی مرضی کے بغیر تو نہیں کرسکتا لیکن میں نے پوچھا کہ یارسول اللہ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے! سرکار کو تو میں نے عرض کی کہ سرکار حکم آیا ہے تو کرنا ہے تو سرکار نے فرمایا کہ ٹھیک ہے حکم ٹھیک ہے لیکن ابھی نہیں کرنا تو یارسول اللہ سرکار منع کررہے ہیں کہ ابھی نہیں کرنا ہے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ کرو۔ حضورؐ نے ایک جملہ کہا کہ دراصل اللہ کو جلدی ہے اللہ مجھے کہتا ہے کہ یہ کام جلدی سے کرو۔ اللہ بار بار پوچھتا ہے کہ یہ کرو۔ اب اِس طرح دن گزرتے رہے پھر ایک دن حضورؐ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ تم اب کردو۔ میں نے کہا کہ یارسول اللہ سرکار نے امام مہدی کی نشانیاں بتائی ہیں۔ میں اگر اعلان کردوں تو لوگ کہیں کہ کیا تم نے مہرِمہدیت دیکھی ہے تو میں نے تو دیکھی نہیں تو میں کیسے کہوں گا تو فرمایا کہ اچھا چلو دیکھو۔ آپ نے اپنی کمر سے قمیض ہٹائی اور مجھے اپنی ننگی کمر دکھادی تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر مہرِمہدیت ہے۔ میں اور ذیادہ پریشان ہوگیا اور میں نے کہا کہ یارسول اللہ یہ مہرِ مہدیت آپ کی کمر پر کیوں ہے! فرمایا کہ تم نے مہرِمہدیت دیکھنی ہے یا یہ پوچھنا ہے تو میں نے کہا کہ نہیں آپ کی کمر پر کیوں ہے تو فرمایا کہ یہ راز ہے، تم نے مہر کا کہا تھا ہم نے مہر دکھادی اب تم کہو۔ اُس کے بعد فرمایا کہ اگر اب بھی تم نے یہ بات نہیں کھولی نا تو میں تم سے ناراض ہوجاوٴں گا۔ اب سرکار اُس وقت یہیں تھے بالم اِن کے گھر پر گئے ہوئے تھے تو وہاں سرکار گاڑی سے اُتر رہے تھے تو میں نے پوچھا۔ میں نے دُور سے سرکار کی بارگاہ میں یُوں اشارہ کیا کہ ایک منٹ کیلئے تو سرکار نے بلالیا اور فرمایا کہ کیا بات ہے۔ ہم نے کہا کہ سرکار اُنہوں نے مجھے مہرِمہدیت دکھائی تو خوب کِھل کھلا کے ہنسے اور فرمایا کہ اُن کی کمر پر کیسے آگئی! میں نے کہا کہ سرکار اُنہوں نے دکھائی میں نے بھی یہی کہا تو اُنہوں نے کہا کہ تم نے مہر دیکھنی تھی میں نے دکھادی۔ اب تم یہ چھوڑو کہ یہ کسکی کمر ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ اور پھر تو میں نے کہا کہ اُنہوں نے کہا کہ اب جو ہے تم کو ہر حال میں بتانا ہے۔ اب اگر تم نے نہیں بتایا تو میں ناراض ہوجاوٴں گا تو سرکار نے کیا کِیا! سرکار کا یہ اندازِمبارک ہے سرکار نے اپنی ریشِ مبارک میں یُوں اُنگلی رکھ کر تھوڑی دیر یُوں یُوں کیا اور پھر کہا کہ ٹھیک ہے جیسا وہ کہیں کرلو۔ اب جب اُن سے یہ گفتگو ہوگئی تو اُس کے بعد رات کو سرکار خواب میں تشریف لائے اور خواب میں سرکار نے تشریف لاکر کچھ اور چیزیں دکھائیں اور بتایا۔ مجھے یہ کہا کہ یہ سورة قلم میں ایک آیت آئی ہے اُس آیت میں لکھا ہوا ہے کہ
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
سورة القلم آیت نمبر 42
ترجمہ: اور اُس دن وہ اپنی پنڈلی دکھائے گا اور پھر آواز لگائے گا کہ آوٴ اور سجدہ کرو۔ اُس وقت پھر لوگ ہِل نہیں پائیں گے اکڑ جائیں گے جیسے اُن کے اندر کسی نے سریا ڈال دیا ہو۔
میں نے عرض کیا کہ جی سرکار میں نے یہ آیت پڑھی ہے۔ فرمایا کہ یہ پنڈلی کا کیا مطلب ہے تو میں نے کہا کہ سرکار آپ بتائیں مجھے کیا پتہ میرے نزدیک تو پنڈلی پنڈلی ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایک جثہ آدم صفی اللہ میں ڈالا اُس کو خلیفة اللہ کہا کیونکہ خلیفہ کا سُریانی میں مطلب جثہ ہے۔ اُس کو خلیفة اللہ کہا کہ وہ جو کہا نا کہ میں زمین پرایک خلیفہ مقرر کررہا ہوں وہ خلیفہ آدم نہیں ہے اُن کے اندر جو اللہ کا جثہ ہے وہ ہے۔ میں نے کہا کہ جی سرکار تو فرمایا کہ وہ جو اللہ کا جثہ تھا وہ آدم صفی اللہ کی ران کے اندر اُس نے استقرار پکڑا تو جو امام مہدیؑ ہونگے وہ جو جثہ توفیق الہی شہباز لامکانی ہوگا وہ بھی اُن کی ران میں ہوگا۔ وہ جو ران میں وہ ہوگا کبھی وہ اوپر جائے گا کبھی نیچے جائے گا کبھی گُھٹنے کے اوپر اسمِ اللہ نظر آئے گا ٹخنوں پر۔ جو اُدھر نظر آئے اور نیچے نظر آئے تو اِس کا مطلب ہے کہ یہ اوپر نیچے ہورہا ہے۔ عَن سَاقٍ کہ پنڈلی دکھانا اُس کا یہ ہے کہ جب امام مہدی اپنے جثہ توفیقِ الہی شہبازِلامکانی اُس کا جب ظہور کریں گے تو پھر کہیں گے کہ اب آوٴ مجھ سے عشق کرنے والے کون ہیں وہ سجدہ کرکے دکھائیں تو اُس وقت پھر گیارہ یا بارہ ہی ہونگے کیونکہ اُنکی جو روح ہے اُنکا براہِ راست اُس ذات سے تعلق ہے۔
اب یہ منظر یومِ محشر میں تو بعد میں ہوگا، اِس منظر نے پہلے زمین پر ہونا تھا تو پہلے اُس نے اپنی پنڈلی یہاں دکھائی تو پھر جب وہ پنڈلی دکھائی تو کہا کہ یہ امام مہدی کی نشانی ہے تو اب وہ جو جثہ توفیقِ الہی شہبازِلامکانی تھا وہ جثہ مبارک ران میں اوپر نیچے ہو تو وہ جب وہ جثہ اوپر جائے تو آواز آئے کہ یَا مَالِکُ المُلک یَا مَالِکُ المُلک، یہ آواز آئے۔ وہ جب نیچے جائے تو کہے یَا رَبُّ الاَربَاب یَا رَبُّ الاَربَاب۔ اوپر جائے تو مَالِکُ المُلک اور نیچے جائے تو یَا رَبُّ الاَربَاب۔ اب وہ منظر جو میں نے دیکھا تو میرے سارے جو لطیفے تھے وہ سب پتہ نہیں کہاں چلے گئے، ایسے جیسے بے ہوش ہوگئے ہوں۔ سرکار کی رانِ مبارک میں کبھی وہ اوپر جائے اور کبھی نیچے جائے اور یُوں یُوں گُھوم رہا ہے۔ اُس کے بعد وہ جو سرکار کے جثے میرے دل میں تھے اُس سے اُن جثوں کو پھر باندھ دیا۔ جب اُن سے باندھ دیا نا تو پھر کہا کہ
تیرے قدموں تلے پناہ ہے میری
اور یونس بھلا کِدھر جائے
تم نے کچھ اور ہی مطلب سمجھا ہوگا نا کہ جو تم ظاہر میں سمجھتے ہو کہ قدموں کے نیچے جگہ مل جائے وہ تو ایسے ہی اُس کا مطلب ہے لیکن اُس کا اصل مطلب یہ ہے تیرے قدموں تلے پناہ ہے میری تو وہ اندر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ تیرے قدموں تلے پناہ ہے میری وہ ذکر شروع ہوگیا۔ تیرے قدموں تلے پناہ ہے میری اور یونس بھلا کدھر جائے وہ اندر سے آواز آنا شروع ہوگئی۔ وہ جو شہباز لامکانی تھا اُس کو جوڑا۔ پہلے اپنے جثوں کو جوڑا جو اِدھر رکھے ہیں پھر میرے اندر سماوی روحوں کو جوڑا کہ اب یہ جڑگیا۔ اِس جڑنے کا مطلب یہ ہوا کہ اب تمہاری گارنٹی ہوگئی کہ تم نے صرف میرے آگے جھکنا ہے۔ اب کچھ بھی ہوجائے کوئی مانے یا نہ مانے گھر والے مانیں یا نہیں مانیں ہم اُدھر ہی کھڑے ہونگے۔ اب کوئی کچھ بھی کہہ دے لیکن یہ سر تو فقط تیرے سامنے جھکے گا، اُس کا یہ مطلب ہے۔ میں کرنا بھی چاہوں تو نہیں کرسکتا مجھے تو اندرسے باندھا ہوا ہے۔ وہ جب یُوں کریں گے تو یہ سر خودہی جُھکے گا۔ پھر ایک شاعری میں یہ بھی کہا کہ
سجدہٴِ عشق و محبت کیا کروں میں اے گوھر
اب کہیں اورسر جھکانے کی کیا ضروت ہے کیونکہ اندر تو جھکا ہوا ہے۔ وہ کھینچیں گے تو یہ جھک جائے گا کیونکہ یہ ڈور سے جڑا ہوا ہے۔ یہ منظر اُس دن دکھا دیا۔
اُس کے بعد ایک منظر اپنے سینے کی طرف رُخ کیا کہ اِدھر دیکھو تو وہ جو ہے وہ طفلِ نوری تھا نوری حضوری تھا۔ میں نے کہا کہ سرکار یہ نو چاند کہاں سے آئے! یہ اُس رات کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ نو چاند کہاں سے آئے، یہ کون ہیں تو فرمایا کہ یہ سارے طفلِ نوری ہیں۔ میں نے کہا کہ سرکار طفلِ نوری تو صرف سات ہی ہیں تو فرمایا اچھا تم کو کس نے بتائی یہ غلط بات! میں نے کہا کہ سرکار یہ سلطان صاحب کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے تو فرمایا کہ ہماری کتاب میں نو ہیں۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک جو ہے وہ نور کا گولہ ہے اور طفلِ نوری اُس کا طواف کررہا ہے۔ اب میں نے پوچھا کہ سرکار آپ والا کونسا ہے تو فرمایا کہ ہمارا وہ ہے جو بیچ میں ہے جس کا یہ سب طواف کررہے ہیں۔ اُس دن مجھے پتہ چلا کہ یہ عکسِ اول ہے۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ یہ جو طفلِ نوری ہوتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ میرا جب جی چاہے میں رب کو دیکھ لوں۔ یہ جو اِدھر سے جاتے ہیں یہ اُسی کا طواف کرکے آتے ہیں۔ جو نیچے آکے ہمارے سامنے بیٹھ گیا اور اُس نے کہا میں گوھر شاہی ہوں آوٴ ذکر لے لو۔ یہ سارے طفلِ نوری اُسی کا طواف کرکے آتے ہیں۔ اب وہ عکسِ اول جو ہے وہ نظر آگیا تو پھر عکسِ اول سے میرے لطیفہ قلب کو جوڑ دیا اور فرمایا کہ باطن میں اب تم کو ذکر دینے کی اجازت ہے۔ فرمایا کہ پوری دنیا کو بھی دے دو تب بھی فرق نہیں پڑے گا بھلے ذکرِقلب نہ دو ذکر دینے کی اجازت سب کو دے دو تمہاری مرضی۔ اپنے عکسِ اول سے جوڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ حضور پاکؐ نے کچھ لوگوں کو اپنے جثہ توفیقِ الہی سے فیض دیا، کچھ کو اپنے طفلِ نوری سے فیض دیا، کچھ کو اپنے قلب سے فیض دیا اور صرف ایک اویس قرنیؓ کواپنی روح سے فیض دیا۔ اِسی طرح اب ہم جو ہیں کسی کو اِس شہبازلامکانی سے فیض ہے، کسی کو عکسِ اول سے فیض ہے اور کسی کو ذاتِ ریاض سے فیض ہے۔
پھر ہم نے کہا کہ سرکار امام مہدی کی کوئی بات تو سرکار نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ امام مہدی جو ہیں وہ طفلِ نوری کی وجہ سے ہونگے۔ فرمایا کہ نہیں، امام مہدی یہ جثہ توفیقِ الہی کی وجہ سے ہے۔
امام مہدی کا جو فخر ہے وہ تعلیماتِ فقر نہیں ہے۔ امام مہدی کا تعلق عشق سے ہے اور عشق کا تعلق جثہٴِ توفیقِ الہی سے ہے۔
پھر جو جثہ توفیقِ الہی ہے اُس سے اِن چیزوں کو جوڑ دیا۔ یہی پرچارِمہدی کے اندر سب سے بڑا جو ہے یعنی اِس کو فیض ہوا۔ ابھی بھی اُسی کا ہی یہ فیض ہے۔ اب وہ جو عکسِ اول کی تعلیم ہے اُس کے ذریعے ہم لوگوں کو فقر میں لاتے ہیں، اُس کے ذریعے ابتداء کرتے ہیں۔
تم امام مہدی سے فیض یافتہ تب ہوگے جب تجھے عشق کی تعلیم ملے گی۔ عشق کی تعلیم کیلئے ضروری ہے کہ جو نام تجھے دیا ہے وہ قلب سے نکلے اور روح تک پہنچے۔ جب تک وہ روح تک نہیں پہنچے گا تم پیروکارِمہدی بن ہی نہیں سکتے۔
جب تک تم ذاکرِ قلبی ہو تو ذاکرِقلبی ہی ہے، موٴمن بن سکتا ہے لیکن پیروکارِمہدی نہیں بن سکتا۔ اُس کیلئے ضروری ہے کہ تیری روح کو رنگ آجائے۔ وہ جو نام ہے وہ خود نہ آئے تو وہ کسی طریقے سے بھلے کھینچ کھانچ کے لے آوٴ وہ روح کے اندر داخل ہو۔ جب وہ روح میں داخل ہوگا پھر تیرا عشق سے تعلق بنے گا۔ پھر تم پیروکارِمہدی بنوگے۔
پھر جب سرکار دینِ الہی کی کتاب لکھ رہے تھے اور جس دن مکمل ہوگئی تو میں اور امجد بھائی سرکار کے ساتھ تھے اور یہ واقع میری لینڈ (امریکہ) میں ایک جگہ کالج پارک ہے تو کالج پارک میں جس اپارٹمنٹ میں سرکار تشریف فرما تھے وہاں تھے۔ جس دن کام پورا ہوگیا تو اُس دن میں اور امجد ہی سرکار کے ساتھ تھے۔ کتاب کا کام پورا ہوگیا، ویب سائٹ لانچ ہوگئی تو سرکار نے فرمایا کہ آج ہماری طرف سے تمہاری دعوت ہے۔ پھر سرکار ہمیں IHop ریسٹورنٹ لیکرگئے۔ اُس دن جو ہے وہ مزاج بڑا خوشگوار اور اُس دن فرمایا کہ ہم جب لال باغ میں تھے تو ہمیں تو اُس وقت بھی پتہ تھا کہ ہم امام مہدی ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ کہا تھا کہ جب آپ کو مناسب لگے آپ بتادینا تو ہم نے پھر تم کو آہستہ آہستہ تمہارے سامنے اِس طریقے سے ہم نے کیا ہے کہ تم سے منوایا ہے۔ سرکار گوھر شاہی کے امام مہدی ہونے کی جو باطنی وجوہات ہیں اُن میں سے ایک دو کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کردیا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 31 دسمبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔