- 638وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
عبد اور معبود کا فرق:
جن لوگوں کو اُردو زبان سے واقفیت ہے یعنی کسی زبان کا جو نثر اور ادب ہے اُس کو سمجھنا واقفیت ہے۔ اُردو زبان میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمارا یہ گمان رہا کہ شاید اِس کی جو بنیاد ہے وہ فارسی زبان سے نکلتی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نہیں اُس کے جو roots ہیں وہ عربی زبان سے ملتے ہیں اور وہ اُردو کا لفظ “اسیر” ہے۔ ذیادہ تر یہ لفظ اُردو کی شاعری میں استعمال ہوتا ہے اور پُرانے ادوار میں جب اچھی اُردو بولنے والے ابھی بھی زندہ تھے وہ بولا کرتے تھے۔ پھر شاعری میں جب استعمال ہوا تو اِس کے جو معنی ہیں وہ تھوڑا سا اصنافِ شاعری میں منتقل ہوگئے۔ پھر اِس لفظ “اسیر” کو محدود طریقے سے استعمال کیا جانے لگا۔ جب یہ لفظ شاعری میں آیا تو پھر اِس کو زلفوں کا اسیر لگا دیا اور اگر اِس کا اِسم بنایا گیا تو اِس کو کہا اسیری تو یہ لفظ اسیر ہوا اور یہ اسرا سے نکلا ہے۔ اسیر کا جو لفظی معنی ہے جو اردو اور فارسی میں اخذ کیا گیا ہے وہ قیدی ہے تو اسیر کا معنی ہوگیا زلفوں کا اسیر یعنی کسی کی زلفوں کا قیدی۔ اب یہاں پر زلفوں کا قیدی ہونا استعارہ ہے۔ انگریزی زبان میں قیدی کو Prisoner کہیں گے اور انگریزی زبان میں اگر کسی کا Metaphor استعمال کیا جائے گا تو پھر اُس کو قیدی Prisoner نہیں کہیں گے بلکہ پھر Captive کہیں گے۔ یہ شاعرانہ لفظ ہے کہ اُس کے حُسن کا اسیر، اُس کی دلیری کا اسیر، اونچے ماوٴنٹ ایورسٹ کی شان کا اسیر۔ اب یہ اِس کا استعاراً استعمال ہوگیا۔ اب یہی چیز اللہ نے یہاں اس آیت میں فرمائی ہے کہ
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
سورة الاسراء آیت نمبر 1
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ جس نے اپنے بندے کو اپنی ذات کا اسیر بنالیا تو اسراء کا معنیٰ یہ ہوا کہ کسی کو اپنی آغوش میں لے لینا یعنی کسی کو گود میں اُٹھا لینا۔ ہم نے اِس کی بہت تفاسیر پڑھی ہیں اور آج ہم آپ کو کہتے ہیں کہ یہ جو تفسیر لکھنے والے لکھ گئے اِن میں زیادہ ترلوگ آپ کو گمراہ کرکے گئے۔ یہ جتنے بھی علماء اِس دور میں موجود ہیں ہم اُن سے پوچھتے ہیں اِن تفاسیر کو پڑھنے سے پہلے تم لوگوں نے عربی زبان بھی تو پڑھی ہے، ذرا اِس لفظ پرغور کرو بِعَبْدِهِ تو “عبد” جسم اور روح کے ملاپ کو کہتے ہیں یعنی اُس وقت آپ کو عبد کہا جائے گا جب آپ کی روح آپ کے جسم میں ہوگی آپ زندہ اِس زمین پر چل پِھر رہے، کھا پی رہے، شادی کررہے، بچے پیدا کررہے ہونگے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ حضورؐ کی معراج شریف کا جو واقعہ ہے یہ روحانی ہے وہ آپ کو گمراہ کررہے ہیں کیونکہ حضورؐ کیلئے یہاں اللہ تعالی نے لفظ “عبد” استعمال فرمایا ہے۔
باریک نکتہ:
روح اور جسم کا مرکب “عبد” کہلاتا ہے۔ روح اور جسم کا مرکب عبد ہے تو پھر معبود کیا ہے؟ یہ ہم آج آپ کو بتا رہے ہیں یہ اتنا بڑا راز ہے کہ آپ کا سوا لاکھ کا ذکر روزانہ ہو اور آپ ایک لاکھ سال جیئیں، تب بھی اتنا نور نہیں بنے گا جو اِس ایک نُکتے کو سمجھنے سے بن جائے گا۔ اگر عبد کا معنیٰ جسم اور روح کا مرکب ہے وہ عبد ہے تو پھر معبود کا کیا مطلب ہوگا؟
معبود کا بھی مطلب یہی ہوگا کہ روح اور جسم کا مرکب خالق۔ عبد کا مطلب روح اور جسم کا مرکب اور معبود روح اور جسم کا خالق۔ ھُوَ الظَاہر ھُوَالبَاطن۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پہلے کہتا ھُوَالبَاطن وَ ھُوَ الظَاہر لیکن اُس نے کہا ھُوَ الظَاہر کیونکہ پہلے جو تُو میری صورت دیکھے گا ظاہر میں مرشد کی صورت میں دیکھے گا۔ ھُوَ الظَاہر جو تم ظاہر میں دیکھ رہے ہو خوبصورت چہرے پر ریشِ مبارک لگائے، ایک تِل یہاں، ایک تِل یہاں، سرِانور پر سفید پَرنا باندھے، کبھی کبھی شہادت کی اُنگلی اپنے لبوں پر پھیرے، جب شِدّتِ عشق سے کوئی راز مخلوق پر ظاہر کرے تو بولتے وقت اپنی رَان پر ہاتھ مارنے والا۔ ھُوَ الظَاہر وہ جو ظاہر میں نظر آرہا ہے پرنے والا یہ میں ہی ہوں۔ ھُوَ الظَاہر ھُوَالبَاطن پہلے تُو مجھے وہاں دیکھ، پھر وہ جو میرا ظاہر ہے تُجھے میرے باطن تک لے آئے گا۔ نیچے بیٹھا ہوا مرشد اور اوپر بیٹھا ہوا اللہ دونوں ملے تو معبود بنتا ہے۔ جسطرح جسم اِس دنیا کا روح وہاں سے آئے تو عبد بنتا ہے، اِسی طرح یہاں زمین پر بیٹھا مرشد اور عرشِ الہی پر بیٹھا اللہ جب دونوں یکجا ہوجائیں تو معبود بنتا ہے۔
ہم نے کہا نا کہ اگر یہ نُکتہ سمجھ میں آگیا تو سوا لاکھ تک جیو، روز سوا لاکھ ذکرہو پھر بھی اِتنا نور نہیں بنے گا جتنا اِس نُکتے کو سمجھنے میں آجائے گا۔ اب پڑھ کردیکھو لا اله الا الله۔ معبود یہ ہے کہ ھُوَ الظَاہر ھُوَالبَاطن ھُوَالاَوَّل وَھُوَالآخر اپنے ساتھ ساتھ مرشد کا ذکر کیا ہے۔ آپ لوگ یہی کہتے ہو نا کہ قرآنِ مجید کی کوئی باطنی تفسیر بیان کرو، اب باطنی ہورہی ہے۔ ھُوَ الظَاہر ھُوَالبَاطن ھُوَالاَوَّل ھُوَالآخر کہ اول بھی اور آخر دوسرا بھی دونوں یکجا ہونگے تو تُو اللہ والا بنے گا۔ ھُوَ الظَاہر وَ ھُوَالبَاطن جب تک ظاہر میں رب نہیں ملے گا تو باطن تک کیسے پہنچے گا! جو یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا ہوگا۔
حضورؐ کی معراج کا سفر:
ایک مولوی امام ابوحنیفہ کے پاس آیا، جو قرآنِ مجید میں سورتیں ہیں جن کو متشابہات کہا جاتا ہے اُن کے بارے میں کہ تم لوگ یہ جو تفسیر قرآن کی بیان کرتے ہو یہ غلط ہے۔ وہ نابینا عالم تھا اور امام ابوحنیفہ کو کہہ رہا تھا کہ یہ لو قرآن اور کوئی بھی آیت نکال کراُس کا لفظی ترجمہ کرنا اور مجھے غلط ثابت کرکے بتاوٴ تو امام ابوحنیفہ نے قرآن کی وہ آیت نکالی کہ جو یہاں بھی اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا ہوگا تو کہنے لگا کہ یہ لفظی ترجمہ کیوں کررہے ہو! اُنہوں نے کہا یہ تم نے ہی تو کہا تھا کہ لفظی ترجمہ کرو تب قرآن سمجھ میں آئے گا۔ وہ مولوی ذلیل ہوکرچلاگیا یعنی جو یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا ہوگا۔ یہ باتیں ہم آپ کو اِس لئے بتا رہے ہیں کہ آپ کو درحقیقت سمجھ میں آئے کہ دینِ اسلام ہے کیا، قرآن ہے کیا، ذاتِ مصطفٰیؐ ہے کیا۔ اگر یہ لیلة المعراج آپ کو سمجھ میں نہیں آیا، لیلة المعراج میں ہوا کیا ہے وہ سمجھ میں نہیں آیا تو پھر آپ کو روحانیت میں کبھی بھی دلچسپی پیدا نہیں ہوگی۔ آپ سمجھیں گے کہ روحانیت تصوف الگ ہے اسلام الگ ہے کیونکہ جب صوفی کہتے ہیں کہ ہم آسمانوں کی سیر کو جاتے ہیں، جب صوفی کہتے ہیں کہ ہم ملکوت، جبروت، بیت المامور تک جاتے ہیں تو یہ مولوی مُلا مزاق اُڑاتے ہیں۔ اِن سے تو پوچھا جائے کہ شبِ معراج میں جو کچھ ہوا جو سفر حضورؐ نے کیا جہاں جہاں گئے، کیا اُمتی پر وہ سفر سُنتِ مصطفٰیؐ نہیں بنتا! اب اگر بنتا ہے سُنتِ مصطفٰیؐ یہ سفر تو ذرا کرکے دکھاوٴ اپنی نمازوں کے زریعے، اپنی تلاوت کے زریعے، اپنے علم اور داڑھی کے زریعے کرکے دکھاوٴ نا۔
دوسرا یہ کہ یہ دو چیزیں مکے سے یروشلم تک کا سفر جو ہے وہ اسرا کہلائے گا۔ اُس کو معراج اِس لئے نہیں کہہ سکتے کیونکہ معراج کا مطلب ہے اوپر جانا لیکن اِس میں تو یُوں گئے تھے مکے سے یروشلم، اوپر کہاں گئے تھے تو یہ معراج کا حصہ نہیں ہے کیونکہ معراج کا مطلب ہے اوپرجانا تو مکے سے یروشلم تک کا جوسفر ہے وہ اوپر جانے کا تو نہیں ہے، وہ تو اِسی دنیا میں ہے تو اُس کو معراج میں شامل نہیں کریں گے۔ معراج کی ابتداء یروشلم سے ہوئی ہے، مکے سے تو نہیں ہوئی۔ پھر بہت سے حدیثوں میں آیا کہ بی بی عائشہ صدیقہؓ نے شبِ معراج کی توجیحات میں سے یہ مقدمہ پیش کیا کہ حضورؐ کا جسم تو یہیں تھا تو یہ روحانی سفر ہوا ہوگا جسمانی نہیں تھا۔ ایک آدھ اور بھی صحابی ہیں اُنہوں نے بھی یہی کہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس رات کو شبِ معراج ہوئی ہے اُس رات کو حضورؐ اپنے حُجرے میں نہیں تھے۔ اُس رات کو کفارِمکہ نے بڑا تنگ کیا تو آپؐ بہت رنجیدہ خاطر تھے بہت ذیادہ دل آپ کا اُداس تھا تو آپؐ مولا علی کی جو بہن ہیں حضرت ابوطالب کی بیٹی اُم ہانی تو اُنہوں نے وہ رات اپنی چچا ذات بہن اُم ہانی کے گھر گزاری ہے۔ بی بی عائشہ تو وہاں تھی نہیں تو اب جب بی بی عائشہ وہاں تھی نہیں تو پھر آپ کی قولِ مبارک کو تو بڑی آسانی سے رد کیا جاسکتا ہے کہ آپ تو وہاں تھی نہیں جو آپ یہ کہیں کہ حضورؐ کہاں تھے؟ اُس کے بعد ہم آپ کو ایک آیت پیش کرتے ہیں کہ
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ
سورة الاسراء آیت نمبر 60
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ اور جب ہم نے آپ کے حوالے سے کہا إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ کہ آپ کے رب نے تمام انسانوں کو اپنی مُٹھی میں رکھا ہوا ہے سب کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اب اللہ تعالی حضورؐ سے مخاطب ہوئے کہ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ جو ہم نے اپنا دیدار آپ کوعطا کیا تھا نا جو ہم نے رُّؤْيَا اور رُّؤْيَا کا مطلب ہوتا ہے دیدار، دیکھنا۔ وہ جو دیدار ہم نے آپ کو عطا کیا تھا وہ انسانیت کیلئے ہم نے۔ یہاں پر اب دو لفظ ہیں اور دونوں لفظوں میں اِس کے معنٰی بڑے ہی خوبصورت نکلتے ہیں۔ لفظ جو “فتنہ” ہے اِس کا جو اصل معنٰی ہے وہ ہے آزمائش اور انگریزی میں Trial کہیں گے تو اب اِس کو ذرا سمجھیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اسلم ہم نے جو اپنا دیدار آپ کو عطا کیا تھا اب وہ جو دیدار ہے جو آپ کو ہم نے عطا کیا اب دنیا کیلئے وہ آزمائش بن گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کیا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے نہیں کیا۔ اب دوسری بات کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ جسمانی دیدار نہیں ہوا روحانی دیدار ہوا اُن لوگوں نے استدلال کے طور پر قرآنِ مجید کی وہ آیت بیان کی ہے جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ کے “فواد” نے رب کو دیکھا۔ عربی زبان میں فواد جسمانی دل کو بولتے ہیں اور روحانی دل کو قلب بولتے ہیں۔ فواد جو ہے وہ جسمانی لوتھڑے دل کو کہتے ہیں تو اللہ تعالی قرآنِ مجید میں اشاروں میں بات کرتا ہے۔ اب یہاں سے اگر آپ عقل مند ہیں تو سمجھ جائیں۔ اچھا بھئی جسمانی دل نے دیکھا تو جسم کے اندر دل کے ساتھ آنکھیں بھی تو ہوتی ہیں، کان بھی تو ہوتے ہیں، سُنا کِس سے تھا! اب اگر روحانی بات کی جاتی تو پھر وہاں دل کا ذکر نہیں ہوتا، روح دیکھتی۔ اگر دیدار روحانی ہوتا تو روح جاتی۔ اب اگر جسمانی دل نے رب کو دیکھا ہے تو پھر جسم میں دل لگا ہوا ہے وہ جسم ساتھ گیا ہوگا۔ کیا فواد روح میں لگا ہوتا ہے یا جسم میں! آج ہم صرف علماء سے مخاطب ہیں جن کو اپنے علم پر ناز ہے۔ اگر روحانی دیدار ہوتا تو جسمانی دل کا نام قرآنِ مجید میں کیوں لیا جاتا! روح کا کہا جاتا کہ روح نے دیکھا۔ اگر فواد نے دیکھا ہے تو فواد وہاں ہوگا یا نہیں اور فواد تو جسم میں لگا ہے یا صرف جسمانی دل نکال کے لے گئے تھے روح کے ساتھ!
ایک تو لفظ فتنے کا یہ ہوگیا Trial۔ اب چونکہ ہمارا تعلق شاعری سے بھی ہے لہذا جب بھی ہم قرآنِ مجید کے الفاظ پر تحقیق کرتے ہیں تو اُس کو دو نظریوں کے ساتھ تحقیق کرتے ہیں۔ ایک تو اُس کا پس منظر، وہ جو اُس کے Roots ہیں اور دوسرا اُس کا Adopted Meaning جو کہ Poetical زبان کہلاتی ہے۔ لہٰذا اِس کیلئے بھی ہمارے پاس جو ہے وہ تحقیق موجود ہے ایک اور لفظ بھی یہاں پر اِس کا معنٰی روحانی حلقوں میں اخذ کیا جاتا ہے۔ چچا غالب نے اِسی لفظ کو اپنی شاعری میں استعمال کیا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنہٴ محشر نہ ہوا تھا
اگر فتنہ کوئی بُری چیز ہوتی تو آپ اُس کے معتقد کیسے ہوتے! معتقد اُسے کہتے ہیں جو عقیدت مند ہوتا ہے۔ جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم، جب تک یار کی عظمت مجھ پر آشکارہ نہیں ہوئی تھی مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یومِ محشر میں جب میرا یار کھڑا ہوگا تو شہوتِ عشق کا عالم کیا ہوگا۔ جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم، کتنی عظمت والا ہے میرا یار۔ میں معتقدِ فتنہٴ محشر نہ ہوا تھا، اب یہاں پر فتنہ جو چچا غالب نے لفظ استعمال کیا ہے فتنے سے مُراد یہاں پر Temptation ہے۔ یہی لفظ کیونکہ یہ قرآن میں کہیں کہیں اللہ تعالی جو ہے وہ آیات کو بڑا Romanticized کرتا ہے۔ کئی مقامات ہیں جیسے سورة المزمل کی آیت نمبر ایک میں يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، یہ کیا رومانوی انداز نہیں ہے! اب جب Romanticism ہوگا اللہ رومانوی انداز میں مخاطب کرے گا تو پھر مزاج بھی شاعرانہ ہوگا۔ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ اے چادر میں لپٹے ہوئے محبوب تو یہ رومانوی انداز ہے نا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا گھوڑا دوڑا، اُس گھوڑے کے پاوٴں سے جو ریت اُڑی اُس ریت کی قسم، یہ رومانوی انداز ہے، یہ اپنے حبیب کو مخاطب کرنے کا اللہ کا رومانوی انداز ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے جو اپنا دیدارآپ کو کرایا تھا وہ دیدار ہم نے انسانیت کیلئے ایک Temptation کے طور پر رکھا ہے کہ تیرا دیدار کا ذکر ہو اور لوگوں کے دلوں میں بھی اپنے رب کو دیکھنے کی اُمنگ جاگے۔ تم نے جو اپنے رب کا دیدار کیا اُس کو کوئی بتانے والا آکربتائے، لوگوں آوٴ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بشری صورت میں پیدا کیا۔ چلتا، پھرتا ، بولتا، سوتا، شادیاں کرتا، بچے پیدا کرتا، ایسا پیدا اور پھر ایک رات سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا کوئی ذکر کرے گا، تمہارے اندر بھی اُمنگ جاگے گی ساری انسانیت میں اُمنگ جاگے گی۔
جبروتی تفسیر:
ظاہری تفسیر میں تو یہ ہے کہ مسجد الحرام سے لے گئے اور مسجدِ اقصی تک گئے اور جبروتی تفسیر میں اقصٰی کا مطلب ہے آخری کونہ اور انگریزی زبان میں کہیں گے The Farthest. اُس مسجد میں لے گئے جو یعنی بالکل آخری مسجد ہے اُس کے بعد کوئی مسجد ہے نہیں، وہاں لے گئے۔ اب جبروتی جو تفسیر ہے اُس کے مطابق یہاں مسجدِ اقصٰی سے مراد مسجدِ اقصی نہیں ہے بلکہ دُور افتادا مسجد آخری مسجد اور انگریزی میں اِس کو Remotest کہیں گے۔ اِس کو ٹیلی ویژن والا ریموٹ نہ سمجھیں، Remote کا مطلب ہے بہت دُور تو Remotest کا مطلب ہے کہ سب سے ذیادہ دُور۔ سب سے ذیادہ دُور والی مسجد وہ ہے جس کے بعد کوئی اور مسجد نہیں، بیت المامور۔ اب یہ جو لفظ مسجدِ اقصٰی ہے یہ اسراء میں بھی ہے اور معراج میں بھی ہے۔ خدا کی عزت کی قسم! اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ ہم (یونس الگوھر) تمہیں کیا دے رہے ہیں قبر میں جاوٴ نا جھولیاں پھیلا پھیلا کرکے دعائیں دو۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم تمہیں کیا دے رہے ہیں تمہیں اندازہ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ قرآنِ مکنون ہے کہ جس کو سمجھنے کو انبیاء ترستے رہے ہیں۔ اُس کے بعد اب فرمایا کہ الَّذِي اب یہ مسجدِ اقصٰی کی تعریف ہورہی ہے جیسے ہم انگریزی میں Adjective استعمال کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے بھی یہاں Adjective phrase clause ایک استعمال کیا ہے مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي اب وہ جو مسجد ہے بَارَكْنَا حَوْلَهُ ہم نے برکت دی حَوْلَهُ اُس کے چاروں اطراف کو برکت سے بھرا ہوا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ مسجدِ اقصٰی کے چاروں طرف اللہ کی برکت اور رحمت نے اُس کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور وہاں قتلِ غارت ہورہی ہے۔ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ وہ مسجد کہ جس کو ہماری برکتوں نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ اگر وہ یہی مسجدِ اقصٰی ہے تو یہاں روزانہ لاشیں کیوں گِررہی ہیں، وہاں قدم رکھنے والے برکت آلودہ کیوں نہیں، برکت سے مستفیض کیوں نہیں ہیں! پھر فرمایا کہ مسجدِ اقصٰی اِس لئے لے کرگئے تاکہ دکھائیں مِنْ آيَاتِنَا ہم اپنی نشانیاں دکھائیں۔ حضورؐ نے یروشلم جاکرکونسی نشانیاں دیکھیں! آپ کیوں نہیں جاتے اسرائیل اللہ کی نشانیاں دیکھنے؟ مسلمان تو کہتے ہیں کہ وہ یہودیوں کا ملک ہے، تم اسرائیل گئے تھے یہودی ہوگئے ہو۔ حضور پاکؐ بھی تو گئے تھے اور اللہ لیکر گئے تھے۔ وہ تو اُس وقت لیکرگئے تھے تم توآج گئے ہو۔ اچھا بھئی مسجدِ اقصٰی سے آج اللہ کی وہ برکتیں ختم ہوگئی ہیں جو اللہ نے وہاں پر اپنی نشانیاں رکھی ہیں اب وہ ختم ہوگئی ہیں! کیونکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ تاکہ ہم دکھائیں مِنْ آيَاتِنَا اپنی نشانیاں۔ اب یہ جو مسجدِ اقصٰی یہاں پر ہے ہم تو دیکھ کرآئے ہیں وہاں پر تو کوئی طہارت کا بھی اہتمام کوئی نہیں کرتا۔ سیاح آتے ہیں جوتے پہن کر اِدھر اُدھر جاتے ہیں۔ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ کہ ہماری برکت نے پوری جگہ کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ہم لیکر اِس لئے جارہے ہیں وہاں پر تاکہ اپنی نشانیاں آپ کو دکھادیں تو یہاں پر ایک پتھر سے دو پرندوں کو مارنے والی بات ہے۔ ایک تفسیر تاویل کے مطابق تو یہ بات مسجدِ اقصٰی کیلئے ہی ہے لیکن ذیادہ مفید جو اِس کی تاویل ہے وہ بیت المامور ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 11 مارچ 2021 کو لیلة المعراج کے دن کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوز کیا گیا ہے۔