کیٹیگری: مضامین

یہ علم صرف عاشقوں پر یا ازلی جہنمیوں پر آزمایا جاسکتا ہے :

فرمایا کہ ہم نے جنتیوں کے اوپر یہ علم نہیں آزمایا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسا علم ہے کہ یا تو ازلی عاشقوں پر استعمال ہوسکتا ہے یا جہنمیوں پر ۔ عاشق اسکو پانے کیلئے سب کچھ لٹانے کیلئے تیار ہوتے ہیں لیکن جو جنتی ، اہل ولایت یا اہل ایمان ہیں انکی مانگ بہت چھوٹی ہوتی ہے ۔ انکا ذہن بہت چھوٹا ہوتا ہے ، وہ خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ عاشق خطرہ مول لے سکتا ہے کیونکہ مولانا روم نے فرمایا کہ ”عشق آمد عقل آوارہ شد “ کہ جب عشق آتا ہے تو عقل چلی جاتی ہے ، عقل چلی جاتی ہے تو پھر یہ لوگ خطرہ مول لے لیتے ہیں ۔
جتنی بھی تعلیمات آئیں آپ اسکو سن کر جو مان رہے ہیں یہ سب عقل کا کھیل ہے ۔ مزہ تو تب ہے جب بغیر علم کے مانو ، وہ ہوگا ایمان ۔ اگر آپکو یہاں رب الارباب کا ثبوت مل جائے پھر آپ مان لیں تو کیا فائدہ ؟ ایک دفعہ سیدنا گوھر شاہی سے گفتگو کرتے کرتے اچانک پتا نہیں مجھے کیا ہوا تو میں نے عرض کیا ۔ اُس وقت سرکار کا مزاج مبارک بڑا ہی آزادانہ تھا ۔ ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ سرکار بیٹھے ہیں یعنی وہ جو رعب و دبدبہ تھا اسکو سرکار نے تھوڑی دیر کیلئے ہٹا دیا اور ایک بے باکانہ جرات و بے باکی عطا فرمائی اور شوخی مچلنے لگی تو میں نے عرض کیا سرکار ایک بات ہے ویسے ۔ تو سرکار فرماتے ہیں وہ کیا ؟ میں نے کہا سرکار ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ۔ فرمایا اچھا پھر ۔ تو میں نے کہا ان سب نے اللہ کی تعلیم دی ، جنکی تقدیر میں اللہ تھا انکو اللہ مل گیا اور جنکی تقدیر میں جنت تھی انکو جنت مل گئی ، پھر اتنے ولی آئے انہوں نے بھی لوگوں کو اللہ کی تلقین کی ، جنکی تقدیر میں تھا انکو اللہ مل گیا اور پھر سرکار آپ آگئے ۔ آپ نے بھی یہی کیا ، لوگوں کو اللہ کا بتایا اور بہت سے لوگ اللہ سے واصل بھی ہوگئے ۔ آپ نے ہم کو بھی اللہ کا بتایا لیکن سرکار پتہ ہے کیا ہوا کہ آپ نے ہم کو لگایا تو اللہ کی طرف لیکن ہمارے اندر کچھ ایسا ہوگیا کہ ہمارا رخ اللہ کی طرف نہیں بلکہ آپکی طرف ہوگیا ۔ اچھا اسکے بعد میرا ذاتی خیال تھا کہ اب جو بات میں کہنے والا ہوں اس سے سرکار چونک جائینگے ۔ تو میں نے عرض کیا کہ سرکار اب جو ہمارا رخ آپکی طرف ہوگیا ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ خود بھی اگر چاہیں کہ انکا رخ اللہ کی طرف رہے میری طرف نہ ہو تو ایسا نہیں ہوسکتا ۔ میرا جملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ سرکار نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ ہم کیوں چاہیں گے ؟ سرکار کی ذات گواہ ہے جھوٹ بولنے والے پر لعنت ۔ سرکار نے فرمایا کہ ہم کیوں چاہیں گے ۔ پھر سرکار نے اپنا مزاج بتاتے ہوئے فرمایا کہ

”جسکو جو عطا کرنا ہوتا ہے تو ہم اسکو علم نہیں بلکہ جستجو عطا کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ جس طرح تم لوگوں نے انجینئر بننا ہے تو اسکا علم حاصل کرو ، ڈاکٹر بننا ہے تو ڈاکٹری کا علم حاصل کرو ، مکینک بننا ہے تو گاڑیوں کا علم حاصل کرو لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے جسکو جو چیز عطا کرنا ہوتی ہے اسکو علم نہیں دیا جاتا بلکہ جستجو دے دی جاتی ہے ۔ علم جاہلوں کیلئے ہے ۔ بھئی اگر یہ کہیں کہ تم علم حاصل کرو تو اسکا مطلب ہے کہ تم جاہل ہو تبھی تو علم حاصل کروگے ۔ تو فرمایا کہ ہمارے ہاں علم نہیں جستجو دی جاتی ہے ۔“

پھر یہ فرمایا کہ جب ہم نے تم کو اپنی جستجو دی ہے تو ہم کیوں ہٹائیں گے ، یہ جستجو تمہیں ہم نے ہی تو دی ہے ۔ جب ہم نے دی ہے تو ہم کیوں ہٹائیں گے ؟

سیدنا گوھر شاہی کا فرمان ہے کہ ہمارے پاس اللہ سے کچھ کم نہیں :

امریکہ میں ایک شخص تھا نظام الدین ۔ جب سیدناگوھر شاہی چیری ہل ، نیو جرسی میں رہتے تھے ۔ وہ ایک اچھا گھر تھا اور اسکا کرایہ شاید بھی خاصہ زیادہ تھا۔ کرایہ دینے کی تاریخ آچکی تھی اور نظام الدیں کی تنخواہ کا چیک ابھی تک نہیں آیا تھا تو وہ ذرا پریشان تھا اور اسی میں مگن تھا ۔ اسکو یہ خیالات آرہے تھے کہ بی بی فاطمہ کے آنسو گرے تو موتی بن گئے ، عیسیٰ علیہ السلام نے ہاتھ ڈالا تو یہ ہوگیا ، فلاں بزرگ نے یہ کیا ، انہوں نے یہ کرامات دکھا دی انہوں نے یہ کرکے دکھا دیا ، انہوں نے وہ کردیا ۔ وہ یہ سوچ رہا ہے کہ فلاں نے یہ کردیا فلاں نے وہ کردیا ، کرائے کو دیر ہوگئی ہے کوئی کرامت ہی ہوجائے ۔ تو سیدنا گوھر شاہی اُسکی طرف مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نظام الدین تم یہ نہیں سمجھنا کہ ہمارے پاس اللہ سے کچھ کم ہے۔ وہ کرامتوں کا سوچ رہا ہے ، ولیوں اور نبیوں کا سوچ رہا ہے اور سرکار نے نبیوں ولیوں کی بات نہیں کہی فرمایا کہ

”یہ مت سوچنا کہ ہمارے پاس اللہ سے کچھ کم ہے ، وہاں عالم غیب میں ہمارا جہان ہے ریاض الجنۃ ۔ ہماری مرضی ہم وہاں ایک کو لے جائیں یا کروڑوں کو ہماری مرضی ہے “

جو بات سیدنا گوھر شاہی نے اسے براہ راست فرمائی تھی اسکا مجھے پتا نہیں تھی ۔ غیبت کے بعد جب میں امریکہ گیا تو معلوم ہوا کہ نظام الدین کلیو لینڈ ، اوہائیو کیساتھ ہی ایک علاقہ ہے ایکرن وہاں رہ رہا تھا ، تو میں وہاں چلا گیا ۔ ملاقات کی تو وقت ہی وقت تھا ۔ اُس نے کہا کہ یونس کلیولینڈ چلوگے وہاں شامی کباب کھائیں گے ؟میں نے کہا ہاں چلو ۔ وہاں میں نے دیکھا کہ بڑی دیر سے وہ سگریٹ پی رہا ہے ، بجھا رہا ہے ، ایک کش لیکر بجھا دے اور دوسری نکال لے اور اس طرح اُس نے ایک پیکٹ ختم کردیا ۔ میرے لئے وہ بڑے خاص دن تھے ۔ تو میں نے سوچا کہ یہ پریشان ہے میں ہی کچھ کہہ دوں ۔ وہ خاص دن تھے ، سارے پردے ہٹے ہوئے تھے ، اُن دنوں میں مجھے ایسا نظر آتا تھا جیسے عرش الہی یہ تھورنٹن ہیتھ(لندن کا ایک علاقے) میں ہے کہ پیدل ہی چلے جاؤ ۔ میں یہ سوچتا کہ موسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں ، مڑ کے دیکھتا تو برابر میں بیٹھے نظر آتے ، عیسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں ، وہ رہے ، ابراہیم علیہ السلام کہاں ہیں ، وہ کنگھی کر رہے ہیں یعنی اس طرح سب نظر آتا ہے ۔ تو میں نے نظام الدین کو کہا نظام الدین تم پریشان نہ ہو مجھے بتاؤ کیا معاملہ ہے ، سرکارگوھر شاہی نے بہت سارے راز میرے ساتھ شیئر کئے ہیں تم بھی بتادو ، تم نے سگریٹ کا ایک پیکٹ ختم کردیا ہے ، ہچکچاہٹ کی ضرورت نہیں ۔ تو اسکو جرات ہوئی اور اس نے کہا کہ یار وہ ایسا ایسا ہوا تھا ، میں سرکار کے برابر بیٹھا یہ سوچ رہا تھا تو سرکار نے اچانک سر انور اٹھایا اورفرمایا کہ نظام الدین یہ مت سوچنا کہ ہمارے پاس اللہ سے کچھ کم ہے ، ہمارے پاس اللہ سے کچھ کم نہیں اور پھر فرمایا کہ ہم ایک کو لے جائیں یا کروڑوں کو ہماری مرضی ۔ اُس نے مجھے کہا کہ یہ باتیں اگر سرکار نے براہ راست مجھے نہ کہی ہوتیں تو یہ ماننے والی تھوڑی تھیں۔ اگر میں یہ باتیں سرکار سے براہ راست نہ سنتا تو کبھی بھی اِن پر ایمان نہ لاتا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ وہ جو سرکار نے اللہ برادری کے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اُسکو بھی امر کن دیا ، اِسکو بھی امر کن دیا ، اسکو بھی دیا ہوگا ، تو پھر اسکو بھی دیا ہوگا ۔ تو اب یہ خیال آتا ہے کہ جن جن کو امر کن ملا ہے یا تو سرکار اُن میں سے ایک ہیں یا پھر دینے والے ہیں کیونکہ اُنکے علاوہ تو کسی کو خبر ہی نہیں ہے اس میں کوئی تیسرا فریق تو شامل ہی نہیں ہے تو پھر آپ کن میں سے ہونگے ؟ کیا آپ اُن میں سے ہیں جنکو امر کن ملا ہے یا پھر وہ جنہوں نے سب کو دیا ہے ، تمہارا کیا گمان ہے ؟ تو میں نے اُسکو کہا کہ سرکار وہاں پر ریوڑیاں تو نہیں بانٹ رہے تھے کہ سب کو ایک لائن میں بٹھا کر ایک ہی وقت میں امر کن دیا تھا ؟ کہنے لگا نہیں تو ۔ پھر تو پتہ نہیں کس کو کب ملا کس کو کب ملا ؟ اگر سرکار لینے والوں میں سے ہوتے تو سرکار کو کیسے پتہ چلتا کہ کس کس کو ملا ہے ؟ اور پھر اس طرح کہنا کہ اسکو دیا ، تو اسکو دیا ، تو پھر اسکو بھی دیا ہوگا ۔ اب یہ بات انسانوں کیلئے تو نہیں ہورہی ۔ یہ جو الفاظ سرکار نے استعمال فرمائے کہ اِسکو دیا تو پھر اِسکو بھی دیا ہوگا یہ جو سرکار کے لہجے میں رعب و دبدبہ ہے یہ جو سرکار کے لہجے میں تحکمانہ مزاج ہے یہ بتا رہا ہے اور یہ مزاج صرف تحکمانہ ہی نہیں رہتا بلکہ ولولہ انگیز بھی ہوجاتا ہے ، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ وہ دینے والے ہیں ، دینے والے کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ کس کس کو کیا کیا دیا ہے ۔ یہ ساری باتیں سیدنا گوھر شاہی کے حوالے سے ہوچکی تھیں ، پہلے بھی ہوچکی تھیں بعد میں بھی ہوئیں ۔ غیبت سے ڈھائی تین سال پہلےمیری (نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوھر) اللہ سے جب گفتگو ہوئی تو سب سے پہلے مجھے اللہ ہی کی طرف سے اس بات کا پتہ چلا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں اللہ تمہیں جہنم میں ڈال دیگا ۔ اب اللہ نے مجھے خود بتایا ہے ۔ اس نے مجھے کیوں بتایا ؟ اب اگر اس نے خود بتایا ہے تو بتانے کے بعد کیا اللہ میاں کا یہ خیال تھا کہ یہ اس بات کو اپنے تئیں رکھے گا ؟ اور یہ بھی نہیں کہا کہ تم کسی اور کو نہیں بتانا ۔ اگر کہہ بھی دیتے تو کیا ہوتا ؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس دنیا کے سامنے ہم بیٹھے ہیں انکو اگر یہ کہہ دیں کہ جی یہ باتیں اللہ تعالی نے مجھے بتائی ہیں تو لوگ کہیں گے اسکا دماغ خراب ہوگیا ہے ، کیا اللہ کسی سے باتیں کرتا ہے ؟ قرآن اور حدیث میں سن لیں گے کہ اللہ چپکے چپکے سجدے میں ہر مومن سے باتیں کرتا ہے یعنی پڑھنے کی حد تک اسکو مانتے ہیں لیکن جب عمل کی بات آئے اور کوئی کہہ دے کہ جی کل میری اللہ سے بات ہوئی ہے ، تو ہنسیں گے کہ دیکھو یار یہ کیا کہہ رہا ہے ، دیوانہ ہوگیا ہے یعنی اس وقت کا جو انسان ہے وہ ایک مثال یا نمونہ ہے ایک فہم و ادراک کے انکار اور حق سے محرومی کے حصار میں ہے اور یہ حصار ابلیس کا قائم کیا ہوا ہے ، اسکو مایوسی کا حصار کہہ سکتے ہیں ۔ آگے نہ بڑھنے کی جستجو ۔

جتنی سختی کے ساتھ توحید کا ذکر اسلام میں آیا ہے یہودیت اور عیسائیت سمیت پچھلے کسی آسمانی مذہب میں اسکی مثال نہیں ملتی :

جس طریقے سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں توحید اور شرک کا ذکر کیا ہے اِس طرح کسی اور مذہب میں نہیں کیا ۔ یہودیت کے اندر سرسری طور پر توحید کا ذکر ہے، اِسی طرح عیسائیت میں بھی سرسری طور پر اِسکا ذکر ہے ۔ تینوں توحید پرست مذاہب ہیں لیکن توحید پر جس قدر زور اسلام میں ہے گزشتہ دو مذاہب میں نہیں ملتا ۔ اِن مذاہب میں سرسری طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ ایک ہے اور آگے بڑھ گئے یہاں تو بار بار توحید کا سر پہ تاج سجا لیا ہے ۔ یعنی اگر اسلام ، یہودیت اور عیسائیت کا موازنہ کیا جائے اور آپ یہ دیکھنا چاہیں کہ توحید پر زور کس مذہب میں زیادہ ہے ، تو اسلام عظیم الشان جیت کیساتھ بازی لے جائیگا ۔ اسلام میں ہر دو منٹ کے بعد اللہ میاں توحید کی بات کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات آپ نے اِس سے پہلے کے مذاہب میں کیوں نہیں کی ؟ اسلام میں یہ بات اسلئے ہوئی ہے کہ اسلام کے بعد رب الارباب نے اِس دنیا میں آنا ہے تو اتنی آسانی سے کسی کو اُنکا سراغ نہ مل جائے اور آپکے امتحان کیلئے راستے میں اتنی بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردیں ۔ جس طرح اللہ میاں ہر شے پر قادر ہیں تو اس طرح قرآن کی یہ جو بات ہے کہ اے محمد الرسول اللہ شرک نہ کر بیٹھنا ، یہ بات صرف لوگوں کیلئے ایک رکاوٹ بنانے کیلئے کہی گئی ہے ۔ اگر حضور کو یہ کہہ دیا تو اب ہماری کیا اوقات ہے ؟

ایک جائزہ کہ شرک عملی طور پر ممکن نہیں ہے :

آج تک نہ تو کسی کو یہ پتہ ہے کہ توحید کیا ہے اور نہ کسی کو یہ پتہ ہے کہ شرک کیا ہے ؟ شرک ایسے ہی ہے جیسے ہم گالی دے دیتے ہیں ۔ گالی میں بُری بات یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسی بات کہتے ہیں جو حقیقت نہیں ہوتی ۔ اِسی طرح شرک عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔ اب چونکہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے تو وہ گالی ہی ہوگئی ۔

”شرک عملی طور پر اسلئے ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس کائنات کے واحد خالق ہیں اور تخلیق کا کام انہوں نے کرلیا ہے ، اب اگر کوئی کہہ بھی دے تو شراکت کیسے ہوگی ؟“

مثال:

جیسے آپکی اولاد ہے اب وہ پیدا ہوچکی ہے اب اگر کوئی کہہ بھی دے کہ اسکے دو باپ ہیں تو یہ عملی طور پر ممکن نہیں ، یہ صرف الفاظ ہی ہونگے کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی ایک باپ کے ذریعے پیدا ہوچکا ہے ، اب ایسا کہنا کہ اسکی پیدائش میں دو باپ شامل ہیں صرف ایک گالی ہوگی عملی طور پر وہ کئی سال پہلے پیدا ہوچکا ہے اب اسکے دو باپ ہو ہی نہیں سکتے ۔ اسی طرح اکیلے اللہ تعالیٰ اس دنیا اور مخلوق کو بنا کر فارغ ہوچکا ہے ، اب اگر کوئی کہہ بھی دے کہ اس دنیا کو بنانے میں اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی شریک یا شامل ہے تو وہ اس کیلئے صرف گالی ہے عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ دنیا کو کب کا بنا کر فارغ ہوچکا ہے ۔

توحید کا مطلب دو چیزوں کو یکجا کرنا ہے :

اِسی طرح توحید کی بات کریں ۔ لفظ توحید کا مطلب ہے دو کو یکجا کرنا ۔ یکجا فارسی کا لفظ ہے جس میں ”یک“ کا مطلب ایک اور ”جا “کا مطلب ہے جگہہ یعنی ایک جگہ کرنا ۔ اسکو آسان اردو میں سمجھنے کیلئے “ملانا” کہہ سکتے ہیں ، اور جب وہ مل جائیگا تو کیا ہوگا ؟ وحدت ۔ اسی طرح واحد کا مطلب ایک ہوجانا یعنی جو رب سے مل کر ایک ہوگیا لیکن مولوی کہتے ہیں کہ واحد کا مطلب “ایک” ہے ۔ ایک نہیں بلکہ “ایک ہوگئے” ۔ یاد رہے کہ یہاں لفظ واحد گنتی (جس طرح ایک ، دو ، تین ، چار) والا نہیں ہے بلکہ بطور فعل استعمال ہوا ہے یعنی ایک ہوگئے ۔ کوئی عمل ایسا ہوا ہے جس سے دو چیزیں مل کر ایک ہوگئی ہیں ۔ جیسے دو کونے مل جائیں ، جیسے پُل کا ایک کونا اِدھر اور ایک کونا اُدھر ، دونوں مل گئے تو اب یہ ایک ہوگئے ۔ توحید کا مطلب یہ ہوگیا کہ تم رب کیساتھ مل کر متحد ہوجاؤ یعنی وہ اتصال ایسا ہو جس میں قیام وحدت ہو ۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ؛
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں

یعنی میں تب تک تھا جب تک تو میرے اندر جلوہ فرما نہیں ہوا تھا ، اُس وقت میں ہی تھا لیکن جب تُو میرے اندر جلوہ فرما ہوگیا تو پھر میں ایک ایسا باطل بن گیا جو آمد حق سے مٹ گیا ۔ یہ توحید ہے۔ لیکن لوگ توحید کو کہاں سمجھتے ہیں ، کس کو آتی ہے توحید ۔ اللہ کے بعد جن ہستیوں نے انسانوں کو اللہ سے ملانے کا بیڑا اٹھایا انہی کو غیر اللہ قرار دے دیا ۔

تما م کائنات اللہ نے بنائی ہے اور ابلیس سمیت کچھ بھی غیر اللہ نہیں ہے :

جو انبیاء اور اولیاء آئے ہیں یہ سب رب کے وجود کا حصہ ہیں ۔ انکو رب نہ کہو لیکن انکو رب سے جدا بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اسکا حصہ ہیں ۔ اللہ نے کہا ہے ” لَاموجود اِلا ھُو “ یعنی اسکے علاوہ کسی کا وجود نہیں تھا ۔ اگر اسکے علاوہ کسی اور کا وجود نہیں تھا تو یہ سب (دنیا ) کہاں سے آیا ؟ جی اس نے بنایا ہے ۔ اچھا جی اگر اس نے بنایا ہے تو کہاں سے بنایا ہے ؟ اپنی طاقت سے – چلو مان لیتے ہیں کہ اس نے اپنی طاقت سے بنایا ہے تو کیا اللہ کی طاقت اسکی ذات کا حصہ نہیں ہے ؟ کیا خالق ہونا اسکی ذات کا حصہ نہیں ہے ؟ اگر ہے تو پھر ہم اسکے ہیں ، ہمارا پوچھنا کیا ۔ پھر ہمیں غیر اللہ کیوں کہہ رہے ہو ، کون ہے غیر اللہ ؟ دنیا میں کوئی مائی کا لعل ایسا ہے جو ابلیس کو بھی غیر اللہ کہہ دے ۔ جب ” لَاموجود اِلا ھُو “ اسکے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا تو غیر اللہ کہاں سے آیا ہے ؟ ابلیس کون ہے ؟ ابلیس اسکے غصے کا نام ہے ، اسکے غضب کا نام ہے اور اسی طرح محمؐد اسکے پیار کا نام ہے ۔ ایک طرف پیار سے دیکھا تو محمؐد کی روح بن گئی دوسری طرف غصے سے دیکھا تو ابلیس کی روح بن گئی لیکن دونوں ہیں تو وہیں سے ۔ جس طرح اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہوں اور جب وہ پیار کرے تو آپ بڑے حلیم ہوجائیں ، اس پر فریفتہ رہیں اور جب وہ غصہ دکھائے تو آپ چھوڑ کر بھاگ جائیں ایسا تو نہیں ہوتا ۔ پیار اور غصہ دونوں اُسی کا حصہ ہے لہذا آپ برداشت کرتے ہیں ۔ تو جب ابلیس غیر اللہ نہیں ہے تو پھر میں اور آپ کیسے غیر اللہ ہوسکتے ہیں ؟ اگر کوئی غیر اللہ ہے تو پھر اللہ کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں ، وہ خود بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ انہوں نے تو کہا ہے” لَاموجود اِلا ھُو “ کہ انکے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں ۔ انہوں نے بنایا ہے تو ابلیس بنا ہے ، انہوں نے بنایا ہے تو آدم و موسیٰ بنے ہیں ، انہوں نے بنایا ہے تو محمؐد بنے ہیں ، انہوں نے بنایا ہے تو میں اور آپ بنے ہیں ، ہم غیر اللہ کہاں ہیں ؟ غیر اللہ تو ہم تب ہوتے کہ وہ اپنی ذات میں رہتا اور کچھ نہ بناتا اور ہم کہیں سے آ ٹپکتے اور وہ کہتا کہ جی یہ کہاں سے آگئے میں نے تو انہیں نہیں بنایا ، تب ہم غیر اللہ ہوجاتے ۔ آپ خود ہی بنا رہے ہیں اور خود ہی مکر رہے ہیں ، یہ کیا بات ہوگئی یار ۔ یہ تو وہی بات ہوگئی جیسے آپ نے کوئی غلطی کی اور پھر اسکو مان نہیں رہے ۔ یہی مسئلہ وہاں پر ہے کہ اللہ کے علاوہ تو کوئی تھا ہی نہیں تو یہ پھر یہ سب کچھ کہاں سے آیا ؟ ” لَاموجود اِلا ھُو “ ۔ سب کچھ آپ نے خود ہی بنایا ہے ۔

گمراہی کی حقیقت :

قرآن مجید میں گمراہی کے حوالے سے آیا ہے کہ

اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ
سورۃ الفاتحہ آیت نمبر 6 اور 7
ترجمہ : ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا نہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔

یعنی صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے اور گمراہی وہ ہے جن سے ناراض ہے ، جنکے اوپر اس نے غضب کیا ہے ۔اب آپ کہیں گے کہ انہوں نے کوئی الٹی سیدھی حرکتیں کی ہونگی اسلئے اللہ اِن سے ناراض ہے ۔ کیونکہ ترجمہ میں لفظ ناراض استعمال کیا گیا ہے تو کہیں گے جی انہوں نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی ہوگی تب اللہ ناراض ہوا ۔ اچھا تو یہ بتائیے کہ انہوں نے یہ الٹی سیدھی حرکتیں کب کی تھیں جو اللہ ان سے ناراض ہوگئے ، یوم ازل میں کی تھیں یا اب دنیا میں آکر کی ہیں ؟ ۔ اب اس آیت کے الفاظ پر ذرا غور فرمائیے ۔ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ میں ان میں سے نہیں ہونا چاہتا جن پر غضب ہوا ۔ یہاں ناراضگی کی بات ہی نہیں ہورہی غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْیعنی جن پر اس نے اپنا غضب کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان پر غضب کب کیا تھا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ انکو بنایا ہی غضب سے ہے لہذا غضب ہی غضب ہے انکے اندر اور وہ بھی اللہ کا حصہ ہیں ۔

اسلام میں توحید اور شرک کا سختی سے بیان کرنے کا مقصد :

لوگوں کے پاس علم نہیں ہے لہذا وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ یہ توحید اور شرک کیا ہے ۔ اور خاص طور پر اسلام میں اور قرآن مجید میں توحید کی جو انہوں نے تکرار فرمائی ہے اسکا سارا کا سار پس منظر یہ ہے کہ توحید کا اتنا بڑا پہاڑ بنا دو کہ کوئی یہاں تک نہ پہنچ جائے ۔ اگر توحید کے یہی مسائل یہودیت اور عیسائیت میں ہوتے تو کیا وہ اتنے آرام سے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور یہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہہ دیتے ؟ اِسکا مطلب کہ اِن مذاہب میں سرسری طور پر توحید کا ذکر ہے لیکن یہاں تو انہوں نے چن چن کے توحید کی اینٹیں لگائی ہیں کیونکہ سیدنا گوھر شاہی نے جو آنا تھا ۔ لگا دو اینٹیں توحید توحید توحید ۔ کیا توحید پر یہی زور آپکو عیسائیت میں ملتا ہے ؟ آپ انجیل پڑھ کے دیکھیں۔ یہ انہوں نے امام مہدی کی آمد کیلئے روڑے اٹکائے ہیں ۔ اللہ میاں نے بھی توحید کی ایک دیوار کھڑی کردی ہے تاکہ کوئی کود کر ریاض الجنۃ نہ چلا جائے ۔ اور پھر کہہ بھی رہے ہیں کہ یہ جو مشرکین ہیں یہ نجس ہیں حالانکہ شرک ہو ہی نہیں سکتا ۔ کیا شرک ہوسکتا ہے ؟ آپکے خیالات ہی بدلیں گے اور آپکے ذہن میں ہی کہانی پکے گی کہ ہوسکتا ہے میرے دو خدا ہوں ، ہوسکتا ہے میرے تین خدا ہوں لیکن یہ آپکے خیالات ہی بدلے ہیں ۔ ان خیالات کے اس طرح ہوجانے میں بھی کس کا قصور ہے ؟ رنگ رنگ کے مذاہب بھیج دئیے آپ نے ، کسی میں کچھ کہا ہے ، کسی میں کچھ کہا ہے ۔ لوگ پریشان ہوگئے ہیں ۔ پھر قرآن مجید کے بارے میں کہہ دیا کہ اسکو سمجھنا تو سب سے آسان ہے ۔ بتائیے یہ تو لطیفہ ہوگیا ۔

قرآن کو سمجھنے کیلئے قلب کی فقہ ضروری ہے یا کہ عربی زبان کا جاننا ؟

قرآن مجید کے حوالے سے ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ مشکل اور پیچیدہ (Abstract Art) ہے ۔ لکیریں لگی ہوئی ہیں کوئی ادھر سے آرہی ہے کوئی ادھر سے آرہی ہے ۔ چونکہ سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آرہا تو پھر لکیریں ہی رہ گئیں ، پتہ نہیں کیا فرما رہے ہیں ۔ ایک طرف یہ فرما رہے ہیں کہ دین کی فقہ قلب کو عطا ہوتی ہے دوسری جگہ فرما رہے ہیں کہ قرآن ہم نے عربی میں اسلئے نازل کیا ہے تاکہ تمہاری سمجھ میں آجائے ۔ یعنی ایک جگہ یہ کہا جارہا ہے کہ قرآن کو اور دین کو سمجھنے کیلئے قلب کی فقہ ضروری ہے زبان چاہے کچھ بھی ہو لیکن دوسری جگہ کہا جارہا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کیلئے عربی زبان کا جاننا کافی ہے ۔ عربی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ قرآن ہمارے سمجھنے کیلئے اترا ہے ، ہم کو سمجھ میں آگیا ہے ، پاکستانیوں کو کیا پتہ ، انکو تو عربی نہیں آتی ؟ عرب لوگ قرآن مجید کے الفاظ کا وہی معنی لیتے ہیں جو ان الفاظ کا مطلب انکی روزمرہ کی زندگی میں ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سریانی زبان کے کئی الفاظ استعمال کئے ہیں جنکا مطلب کچھ اور ہے ۔ یہی وجہ ہے کافی ساری آیتوں کا مطلب صحابہ کی بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا حالانکہ وہ سب عربی زبان ہی بولتے تھے لہذا وہ حضور پاک سے پوچھتے کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے ، اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ پھر حضور پاک انکو ان آیات کا مطلب سمجھاتے ۔ یعنی عربی زبان بولنے کے باوجود صحابہ کو قرآن کی آیتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔

عالم غیب کے رازوں کے کھلنے میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے اسلام میں توحید اور شرک پر سختی کی گئی :

جو اہم بات ہے وہ یہ کہ نہ یہودیت میں توحید کا اتنا چرچہ ہے ، نہ عیسائیت میں تو پھر اسلام میں کیوں ہے ؟ کیونکہ اسلام کے بعد امام مہدی نے آنا ہے اور وہ راز کھلنے ہیں لہذا یہ دیواریں بنا دیں ۔ اس توحید کے ذکر سے کتنے موحد ہوگئے ؟ بس وہابیوں کو موقع مل گیا ۔ اس توحید کے باب یا سبق سے کتنے لوگ اللہ سے واصل ہوگئے ؟ کوئی سمجھا ہی نہیں ہے ، لوگ زبانی اقرار کو توحید سمجھتے ہیں کہ کہہ دو اللہ ایک ہے ۔ ہاں جی اللہ ایک ہے ۔ زبان سے ایک ہے کہہ رہے ہیں اور عملی طور پر سب تین تین یا چار چار کیساتھ مصروف ہیں ۔ زبان سے کہہ رہے ہیں اللہ ایک ہے اور دل کے اندر پتہ نہیں کس کس کو بٹھا رکھا ہے ۔
یہ توحید کہاں ہے ؟ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں بھڑاس نکال رہا ہوں بلکہ میں تو آہستہ آہستہ یہ حقائق بتا رہا ہوں ۔ یہ آہستہ آہستہ لیکن دیرپا طاقت پہچانے والے وٹامن ہیں ۔ دو چار آیتیں ایسی نازل کردیں جو بالکل عام سی تھیں جو کہ کسی عام آدمی کو بھی سمجھ میں آجائے تو ان کیلئے کہا کہ جی یہ آیات البینات ہیں جیسا کہ ھٰذا گٹرن ، ھٰذا ٹیبلن ، یہ آیات البینات ہیں ، اسکے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے ، بالکل صاف شفاف معنی ہیں اور آسانی سے سمجھ میں آجائیں گی ۔ لیکن باقی قرآن کا مطالعہ کریں تو تضادات، پہلیاں اور پیچیدگیاں پڑھ کر دماغ ہی گھوم جائیگا ۔ اسی لئے اسکو پڑھ کر امت تہتر (73) سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی ۔ انسان کی دنیا میں آمد کے حوالے سے فرمایا کہ وہ پیدا نہیں ہورہا ، نہ اسکی تخلیق ہورہی ہے ، یہ سب عمل تو یوم ازل میں ہوچکا ہے ، اب تو صرف روحوں کی اوپر کے عالم سے نیچے اس دنیا میں ترسیل ہورہی ہے اور بچوں کی پیدائش پر یہی لفظ ڈلیوری استعمال ہوتا ہے ۔

چاروں آسمانی کتب پڑھیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہ ایک ہی مصنف کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں :

جس طرح قرآن مجید میں ذکر آیا ہے کہ عذیر کو یہودیوں نے خدا بنا لیا اور عیسائیوں نے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا لیا ۔ عزیر علیہ السلام کے حوالے سے یہی بات انجیل میں بھی آنا چاہئے تھی کہ یہودیوں نے اسکو خدا بنا لیا کیونکہ بائبل قرآن سے پہلے آئی تھی ۔ لیکن بائبل میں اسکا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بائبل میں کہاں لکھا ہے کہ انہوں نے عزیر کو خدا بنا لیا ؟ عزیر علیہ السلام یہودیوں کے نبی تھے اور جب عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو یہ واقعات ہوچکے تھے لہذا اسی ترتیب سے بائبل میں بھی اسکا ذکر ہونا چاہئے تھا اور اگر آپ اسکے اوپر اتنا مصر ہیں تو آپ نے بائبل میں اسکا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ قرآن میں ہی سب کا ذکر کیوں ڈال دیا ؟ بائبل میں بھی مذمت ہونا چاہئے تھی تاکہ عیسائی غلط راہ پر نہ پڑجائیں لیکن ایسا ہوا نہیں ۔
آپ لوگوں کو چاہئے کہ آپ توریت اور بائبل بھی پڑھا کریں تاکہ آپکو معلوم ہو ان میں اللہ نے کیا کہا ہے ۔ آپ نے صرف قرآن شریف پڑھا ہے اور یہ مانتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ تین اور بھی آسمانی کتابیں ہیں لیکن آپ نے پڑھی تو نہیں ہیں ۔ جب وہ پڑھی نہیں ہیں تو آپکو یہی لگے گا کہ جو کچھ یہاں پر ہے ویسا ہی وہاں پر ہوگا لیکن جب پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ لگتا نہیں ہے کہ یہ چاروں کتابیں ایک ہی مصنف (Author) کی لکھی ہوئی ہیں ۔ بائبل میں اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں لکھا کہ جنت میں حوریں ہونگی جنکے سینے سیب کی مانند ہونگے ، ایسا کچھ نہیں لکھا ۔ وہاں ذکر ہی نہیں کیا کہ جنت میں کیا کیا دینگے ۔ جنت میں یہ بھی دینگے ، وہ بھی دینگے ، یہ تو لالچی کتوں کیلئے لکھا ہے ۔ وہ جو قرآن میں لکھا ہے کہ بہت سوں کو اس کتاب سے ہدایت دیتا ہوں اور بہت سوں کو اس سے گمراہ کرتا ہوں ، تو یہ گمراہی کی باتیں ہیں ، یہ پڑھ پڑھ کے آدمی مدہوش رہتے ہیں ۔ کسی اور کتاب میں تو نہیں ہے یہ ، اس میں کیوں ہے ؟

متعلقہ پوسٹس