کیٹیگری: مضامین

گناہ ، شیطانی اور ابلیسی افعال میں فرق:

ایک زمانے سے یہ باتیں لوگوں کے اذہان میں گھر کر چکی ہیں کہ غلط کام شیطانی اور ابلیسی افعال ہیں اور اسی وجہ سے ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اصل شیطان کون ہے۔جب کوئی غلط کام کرتا ہے تولوگ اسے شیطانی عمل سمجھتے ہیں جیسا کہ شراب پینا یا زنا کرنا ،اب سوال یہ ہے کہ اگر شراب پینا شیطانی عمل ہے!توکیا شیطان نے کبھی شراب پی ہے؟ کیا شیطان نے کبھی زنا کیا ہے؟ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کم تولنا شیطانی فعل ہے لیکن کیا شیطان نے کبھی کم تولا ہے؟ فلمیں دیکھنا، ڈسکومیں جانا ،کیا شیطان نےکبھی یہ کام کئے ہیں ؟
تو پھر یہ سب کیا ہیں ؟ یہ وہ کام ہیں جن کو کرنے سے آپکو آپکا مذہب روکتا ہے، ضروری نہیں کہ جس کام کو کرنے سے مذہب روک رہا ہے وہ شیطانی عمل ہی ہو بس یہ مذہب کی ایک پالیسی ہے۔ اللہ کی طرف سے دنیا میں تین سو تیرہ دین بنائے گئے تھے ایسا بھی نہیں تھا کے تمام مذاہب کے قوانین ایک ہی جیسے تھے یہ بھی ہوا ہے کہ ایک مذہب میں جو چیز جائز ہے تو دوسرے مذہب میں ناجائز ہے ،اسکا مطلب یہ ہے وہ کام غلط نہیں آپ کا مذہب اسکی اجازت نہیں دے رہا ۔
اس بات کوایک آسان سی مثال سے سمجھاتے ہیں جیسا کہ انگلینڈ میں تھری کا نیٹ ورک ہے اس کمپنی نے گزشتہ چند سالوں سےاپنے صارفین کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے بیس پچیس ممالک میں (Feel at home) کے نام سے ایک سروس شروع کر رکھی ہے ،اگر کسی کے پاس تھری نیٹ ورک کا سم کارڈ ہے تو ان ممالک میں جانے پر بھی وہ اس پیکیج کی رعایت کو استعمال کر سکتا ہے ،لیکن اگر کوئی دوسری کمپنی یہ آفرنہیں دیتی تو آپ انکو چوربھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر کمپنی کی اپنی اپنی پالیسی ہے ۔آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کون سے کام ہیں جن کوگناہ کہتے ہیں اور وہ کون سے کام ہیں جو شیطانی عمل ہیں اور وہ اعمال کیا ہیں جنہیں ابلیسی فعل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

شیطان کون ہے؟

سب سے پہلے یہ فرق سمجھ لیں کے شیطان اور ابلیس کے کام الگ الگ ہیں ۔ ابلیسی ٹولے میں قوم جنات کےایک اسپیشل گروہ کا نام شیطان ہے ان جنات کی فطرت میں شر ہے،شیطان کا ایک اور گروہ ہے جس میں خبیث جنات ہوتے ہیں ، انسان کا نفس بھی اسی قوم جنات میں سے ایک شیطان جن ہے۔

ابلیس کون ہے؟

ابلیس وہ ہے جسے رب کے حکم کی نافرمانی کرنے پر راندہ درگاہ کر دیا گیا اور قیامت تک کے لیے لعنت کا طوق اسکی گردن میں ڈال دیا گیا۔ ابلیس کا نام عزازیل تھا جو کہ ایک عبادت گزار تھا اور اس کو بنانے کا مقصد شرارت نہیں تھی لیکن شیطان کو با مقصد بنایا گیا تھا ،شرارت اسکی فطرت میں ہے،زیادہ تر لوگ شیطان کے بہکاوے میں آتے ہیں ۔

گناہ کیا ہیں؟

موج مستی کرنا اور غیر اخلاقی اور غیر شرع حرکات و سکنات دین میں منع ہیں اس کے علاوہ اسلام میں ناچ گانے کی بھی سخت ممانعت ہے ،عورتوں کو تو چھوڑیں مردوں کو بھی ناچنے سے منع کیا جاتا ہے، کیا مرد کو ناچتا دیکھ کر کیا کسی کا ایمان خراب ہو سکتا ہے؟ لیکن لوگ ناچتےتوپھر بھی ہیں پٹھانوں کے یہاں بھی روایتی رقص ہے اس کے علاوہ تمام عربی سعودی ناچتے ہیں اور آپ دیکھیں دنیا میں سب سے زیادہ میوزک چینلزعرب ممالک کے ہیں ،ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف شریعت ہے جو انہوں نے لوگوں کے لیےرکھی ہے۔ابلیس اور شیطان کا صرف ایک کام ہے۔ ابلیس عبادت گزار تھا اس نے چپہ چپہ پر عبادت کر رکھی تھی ،پھر اللہ نے اسکو ترقی دی اور عالم ملکوت میں لے آیا ۔

ابلیس کو عالم ملکوت میں ترقی کیوں دی گئی؟

خاص وضاحت:

اللہ نے ابلیس کی عبادت سے خوش ہو کر اسکو عالم ملکوت میں نہیں بھیجا تھا بلکہ ابلیس کو عالم ملکوت میں پہنچانے کی وجہ اللہ کا ایک سیٹ اپ تھا،اللہ کا مزاج یہ ہے کہ وہ ایک تیر سے کئی شکار کرتا ہے ۔ابلیس کی ترقی کا ایک مقصد تو فرشتوں کو ڈرانا ، دھمکانا اور کھینچ کر رکھنا تھا کیونکہ وہ بہت بے باک اور نڈر ہوگئے تھے۔ دوسرا اہم ترین مقصد یہ بھی تھا کہ اب اللہ زمین پر آدم صفی اللہ کو بھیجنے والا تھا ، اس سے پہلے اللہ کوابلیس کی ضرورت ہی نہیں تھی نہ ہی اللہ نےابلیس کو کسی جگہ مقرر کیا تھا ،ابلیس کو دنیا میں آئے چھ ہزار سال ہی ہوئے ہیں اس سے پہلے تو وہ آرام سے سجدے کر رہا تھا ، تو بنیادی طور پر تو ابلیس عابد ہے۔آدم صفی اللہ سے پہلے نہ تو ابلیس کو بہکانے کی ڈیوٹی ملی تھی نہ ہی ابلیس زمین پر آیا تھا ،جب اللہ تعالی آدم صفی اللہ کوعظمت والا علم دے کر زمین پر بھیج رہا تھا وہ ایسا علم تھا جسکی وجہ سے اسکی عظمت ہی عظمت ہو جائے گی یہاں تک کے وہ خدا تک پہنچ جائے گا ۔ اتنی بڑی عظمت والی چیز اللہ نے آدم کو دی لہذا اب اللہ نےاس عظمت والی تعلیم پر چلنے والوں کے امتحان کی خاطر اس راستے کی رکاوٹ اور سختیاں بھی بنائیں۔

ابلیس ،آدم صفی اللہ کا دشمن کیوں ہوا؟

اس بات کو سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں بس تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آدم صفی اللہ کو اس عظمت والی تعلیم کے ساتھ زمین پر بھیجا جارہا تھا اور اگر اس کو روکنے والی کوئی قوت نہ ہوتی توایک دن انسان خدا ہوجاتا ۔ آپکو حیرت ہوئی ہوگی کہ ابلیس کا منظر عام پر آنا اور اسکی آدم سے دشمنی در حقیقت ایک خدائی منصوبہ تھا ۔ اسوقت ہوا یہ تھا کہ جب اللہ نے تمام فرشتوں کو آدم صفی اللہ کے بت کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب نے سجدہ کرلیا سوائے عزازیل کے اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اسکو آدم صفی اللہ سے حسد محسوس ہوا ، اس نے اللہ سے کہا

اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ
سورۃ الاعراف آیت نمبر 12
ترجمہ : میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ اسکو مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھے آگ سے۔

میں اس کو سجدہ کیوں کروں میں تو اس سے بہتر ہوں ، اسکو تو نے مٹی سے بنایا اور مجھے آگ سے۔یہ تکبر یہ حسد اُس عظمت والی تعلیم کی وجہ سے تھا اگروہ عظمت والی تعلیم نہ ہوتی تو یہ نوبت کبھی نہ ہوتی ، تو اب جن لوگوں کے پاس وہ عظمت والی تعلیم ہوگی شیطان اور ابلیس کی دشمنی انہی سے ہوگی ،جسطرح چور وہیں جاتا ہے جہاں سے مال ملنے کی امید ہواسی طرح ابلیس وہیں جائے گا جہاں عظمت والی تعلیم ہو گی ۔

ابلیس کا واحد کام عظمت والی تعلیم حاصل کرنے سے روکنا ہے :

ابلیس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے آدم کو اللہ نے صفی اللہ بنایا تھا انسان کے اندر ان چیزوں کو چلنے نہ دے۔ جس طرح دوسروں کی چیزوں سے حسد َکرنے والےانکو خراب اور تباہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ساری زندگی بھی پیسہ کمائیں توبھی ان جیسی چیز حاصل نہیں کر سکیں گے تو انکی یہ مایوسی دائمی ہوگئی ۔اسی طرح آپکو ابلیس کا کام سمجھنے کی ضرورت ہے ،ابلیس کا کام فلموں ،ناچ گانوں ،شرابوں ،زناکاریوں میں لگانا نہیں ہے ،جن میں نفس اور شیطان نہیں ہیں تو پھروہ کیسےان کاموں میں لگے؟ یا حضور پاک کا نفس انہی کی صحبت میں پاک ہو گیا تھا تو پھر انہوں نے شادیاں کیوں کیں ،کنیزیں کیوں بنائیں ؟تو اسکا مطلب ہوا یہ کام شیطانی نہیں ہیں ، تم کو تعلیم غلط ملی ہے تم نے ان چیزوں کو افسانہ بنا رکھا ہے؟ کوئی لڑکی کسی لڑکے سے مل لے تو کہتے ہیں یہ اب پلیت ہوگئی ، جان لیں کے یہ شیطانیت اور ابلیسیت نہیں ہے ، اسی طرح جوا کھیلنے اور کسینو جانے کوتم حرام کہتے ہو ، کیا شیطان جوا کھیلتا تھا ؟ کہتے ہیں ڈسکو نہ جاؤ یہ شیطانی عمل ہے کیا شیطان نے بھی کوئی ڈسکو کلب بنا رکھا تھا؟ یا شیطان شراب پیتا تھا؟ سن لیں یہ تمام کام شیطانی اور ابلیسی نہیں ہیں۔

”سیدنا گوہر شاہی نے فرمایا:”یہ جو تم ناچتے گاتے ہو شراب پیتے ہو یہ سب نقلی شیطان ہے اصلی شیطان کی تشریح یہ ہے کہ جو جتنا بڑا عابد ہوگا وہ اتنا ہی بڑا حاسد بھی ہوگا اور یہ ہی اصل شیطان ہے“

جسطرح غریبوں کو امیروں سے بلا وجہ کا بغض وعداوت ہوجاتی ہے اس لیے وہ امیروں کی کوٹھیوں اور کاروں پر نشانات لگا کر انہیں بدنما بنا دیتے ہیں ،اسی طرح ابلیس جو کہ بہت بڑا عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا متکبر اور بہت بڑا حاسد ہے ، ابلیس کا کام یہ ہے کہ اب تو اللہ نے آدم صفی اللہ کو اعلیٰ علم دے دیا ہے، اب اسے اللہ سے شکوہ یہ نہیں ہے کہ یہ علم مجھے کیوں نہیں دیا بلکہ اسے مایوسی اس بات کی ہے کہ میرے اندر تو اللہ نے کوئی لطیفہ ہی نہیں رکھا لہذا میرے لیے تو یہ علم بیکار ہی ہے ، میری تو اب عظمت ہو ہی نہیں سکتی لہذا اب وہ مایوس ہوگیا۔ اس لیے اس کو ابلیس کہا جاتا ہے۔ ابلیس ابلس سے نکلا ہے اور ابلس کا معنی ہے”مایوسی“۔اللہ میاں نے بڑی شان سےقرآن میں یہ کہا ہے

لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ
سورۃ الزمر آیت نمبر 53
ترجمہ :میری رحمت سے مایوس نہ ہو

لیکن کیا ابلیس کی یہ مایوسی ختم ہوسکتی ہے؟ وہ جن ہے اور اللہ نےجنات میں لطائف ہی نہیں رکھے جبکہ یہ عظمت والا علم لطائف کا ہے، اس لیےیہ علم تو کبھی بھی اسکے کام نہیں آ سکتا لہذااُسکی یہ مایوسی دائمی ہوگئی۔ابلیس کو بھی یہ بات لگ گئی کہ آدم صفی اللہ کو عظمت والا جو علم اللہ نے دیا ہے یہ میں حاصل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ میرے اندر تو کوئی لطیفہ ہی نہیں ہے۔
آج ہم نے ابلیس سے پوچھا کہ بہت سے ولی کہتے ہیں کے تم اللہ کے بہت بڑے عاشق اور وفا دار ہو ، تو کہنے لگا اجی کہاں کا عاشق، عاشق تو تم لوگ ہو، گوہر شاہی کی صحبت میں بیٹھے ہو، جن کیسے عاشق بن سکتا ہے اس میں نہ لطیفہ قلب ہے نہ دوسرے لطائف ہیں ایسی باتیں لوگوں نے اڑا رکھی ہیں ۔ابلیس بانجھ ہے اسکو اس بات کا حسد ہے کہ میرے اندر وہ چیز ہی نہیں ہے کہ وہ علم حاصل کر کے عظیم بن جاؤں اس بات پر اُسے اللہ پر غصہ ہے کہ اُس نے مجھے جن کیوں بنایا ہے! ہم نے ابلیس کو کہا” اب تو تمہارا کام ہو گیا ہے،کیونکہ سیدنا گوہر شاہی تو وہ تعلیم لائے ہیں جنکا لطیفوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے”۔آپ نے سنا ہو گا کہ

” ابلیس امام مہدی علیہ السلام کے قدموں کو بوسہ دے گا جس سے لعنت کا طوق ٹوٹ جائے گا۔ وہ لعنت کا طوق ایسا تھا جسے نہ کوئی نبی توڑ سکتا تھا نہ کوئی ولی توڑ سکتا تھا، اس طوق کے ٹوٹنے کا مطلب تھا مایوسی کا ختم ہونا اور مایوسی کیسے ختم ہوگی جب کہ اسے پتا ہے میرے اندر وہ چیزیں ہی نہیں ہیں جنکی وجہ سے میرے اندر عظمت قائم ہو۔ اب گوہر شاہی کے در پر وہ اس لئے جھکا کہ سیدنا گوہر شاہی جو علم لائے ہیں وہ اِن لطائف کاعلم ہی نہیں ہے ، اب اسکو یہ سوچنا نہیں ہے کہ قلب میرے اندر ہے یا نہیں ۔ یہ کرم نوازی سرکار گوہر شاہی کی ہوئی کہ یہ علم آیا۔“

ابلیس کی مایوسی اور شکایات بالکل ٹھیک تھی۔ اِس میں اسکا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔اب وہ لوگ جن کے لطائف ضائع ہو گئے اُن میں اور شیطان میں کیا فرق ہوا؟ ایک تو وہ ہیں جن لوگوں کے لطائف جاہل مولویوں کے پیچھے لگنے سے ضائع ہوئے اور ایک ابلیس ہے جس میں لطائف ہی نہیں ڈالے گئے تو وہ عظمت والے علم کو حاصل نہ کرنے پر دائمی مایوس ہوگیا تھا جسکا کوئی علاج ہی نہیں تھا ، لہذا اس نے ٹھان لی اور کہا

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
سورۃ ص آیت نمبر 82 اور 83
ترجمہ :تیری عزت کی قسم انکے اندر کی چیزوں کو اغوا کر لوں گا، سوائے انکےجن پر تیرا پہرا ہے ۔

ابلیس کا کام یہ ہے کہ جن پر اللہ کا پہرہ نہیں ہے یا تو انکے لطائف کو مار دے یا پھر انکو کوئی فتنہ پھیلا کر فرقوں میں لگا کر اُس تعلیم سے دور رکھے یہ ابلیسی کام ہے ، بہت بڑا مولانا بننا اور انسانوں کا ایک بہت بڑا گروہ لیکر امت سے خارج ہوجانا ابلیسیت ہےاحمد رضا خان بریلوی بہت بڑا ابلیس تھا اس نے امام مہدی کے دور کی شروعات میں اُس نےایسا بیج بویا کہ جو اولیاء عزام کے ماننے والے تھے وہ سب کے سب پھسل گئے، عورتوں کو مزارات پر جانے سے اُس نے منع کر دیا، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی اپنی کتاب کنز الایمان میں اس نے ذکر الہی کوچرچا لکھ دیا ۔قرآن میں ہےفَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا ، اس نے یہ ترجمہ کیا کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا آگے بریکٹ میں لکھا آسمانوں اور فرشتوں میں کروں گا۔ یہ تعلیم تصوف کو بند کرنے کے مترادف ہے ، پھر اس کے بعد ساری ولائیت درود و سلام اور داڑھیوں اور حلوہ کھانے عمامہ باندھنے میں رہ گئی۔ یہ سارے ابلیسی کام ہیں ۔

”ہر وہ عمل جس سے تُو اپنی روحوں اور لطائف سے یا وہ تعلیم جو ان روحوں اور لطائف کو منورکرتی ہے دور ہو جائے وہ ابلیسی فعل ہے اورجو عمل اِن لطائف کو بیمار کر دے وہ شیطانی فعل ہے۔ یعنی حسد تکبر بغض و عناد ،عداوت ، بہتان یہ سب باطنی گناہ اور شیطانی افعال ہیں “

ابلیسی اور شیطانی افعال دو ہیں ایک تم کو لطائف کی تعلیم سے دور کرنا دوسرا کام شیطانی ہے کہ ان لطائف کو بیمار کرنا ،اس پہچان کو تم نے بھلا دیا اورجب جب کوئی ڈسکو گیا تو تم نے کہا شیطانی کام ہے، جب کسی نے شراب پی تو کہا یہ شیطان ہے ، جب کوئی عورت کے ساتھ بیٹھ گیا تو کہا یہ شیطانی کام ہے، جب کسی نے کم تولا تو کہا یہ شیطان ہے ، کسی نے داڑھی منڈھوا دی تو کہا یہ شیطان ہے،جبکہ یہ سارے تو نقلی شیطان ہیں ،اصلی شیطان تو یہ ہے کے آدم صفی اللہ کو جوعظمت والا علم دیا گیا تھا اس تک تجھے پہنچنے نہ دیں ۔
کیونکہ اگر وہ عظمت والی بات تجھے نہیں ملی تواس سے پہلے جتنے بھی آدم آئے اور اللہ ان سے مایوس ہوگیا تو تجھ میں اور ان میں کیا فرق ہوا ؟ تو بھی ویسا ہی ہو گیا نا!
اللہ نے فرشتوں کا اعتراض مول لیا لیکن پھر بھی آدم صفی اللہ کو بنایا، فرشتوں نے کہا یہ پھر جا کرجنگ و جدل کرے گا ،پھر خون خرابہ کرے گا اللہ نے کہا میں اِسکو علم دے رہا ہوں تم دیکھتے جاؤ۔ جب وہ علم انکو دے دیا تو ابلیس کو آگ لگ گئی کہ یہ تو اللہ نے ایسی چال چل دی ہے جو میرے اختیار میں نہیں ہے ، میں تو کبھی بھی اِس مقام پر پہنچ ہی نہیں سکتا۔ عزازیل کو جب یہ پتا چلا کے اِس تعلیم کا مجھ سے تعلق ہی نہیں ہے میں اس عظمت والی راہ پر چل ہی نہیں سکتا تو پھراسکی دشمنی بھی کتنی خالص ہوگی۔اُس نے اللہ سے کہاإِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ جن پر تو نے لکھ دیا ہے کہ انکو ہرحال میں تیرا بننا ہے ان پر میرا ہاتھ نہیں پڑے گا، لیکن وہ جن پر تیرا ہاتھ نہیں ہے یا وہ جو تقدیر معلق والے ہیں انکو میں برباد کردونگا۔ لہذا اس نے کہا کوئی روحانیت نہیں ہے کوئی باطنی تعلیم نہیں ہے۔ آپ اپنےارد گرد غور کریں کہ

” جب وہابی یہ کہتا ہے کہ کوئی باطنی علم نہیں ہے کوئی تصوف نہیں ہے ، سب شرک ہے تو وہ اسکے اندر بیٹھا ابلیس بول رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ دائمی مایوسی کا شکار ہے وہ کبھی بھی اس عظمت کو پہنچ ہی نہیں سکتا۔ “

تمام باطنی لشکر کاسپہ سالار سیدنا گوھر شاہی کا ایک جسہ ہے :

اکثر بزرگان دین کو یہ مغالطہ رہا کہ یہ اللہ اور ابلیس کی ملی بھگت ہے چلو ٹھیک ہے یہ ملی بھگت ہے لیکن ذرا غور تو کرواس عظمت کی تعلیم کو دیکھو اور ابلیس کو دیکھو اس میں تو لطیفے ہی نہیں ہیں وہ جتنا چاہے بڑا عابد بن جائے وہ جن ہے وہ جنت میں جا ہی نہیں سکتا اور انسانوں کے لیے اللہ نے عظمت کا دروازہ کھولا ہے، تم اپنی قدر ہی نہیں کر رہے۔ ابلیس تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے کہ میں اسکو آگے نہیں بڑھنے دونگا ۔یہی وجہ ہے کہ سرکار گوہر شاہی نے فرمایا” تم جب کوئی صفاتی کام کرتے ہو یا روزے نماز کرتے ہو وہ ایک کونے میں کھڑا ہنستا رہتا ہے کہ پڑھتا رہ کیا کھاڑ لے گا، اس کو پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی اسم ذات کو دل میں بسانے کی کوشش کرتا ہے کہ نہیں یہ تو میں نہیں جانے دونگا اگر اس کے دل میں اللہ ھو چلا گیا تو میرا ہاتھ کہاں پڑے گا یہ تو ساری عمر کے لیے میرے ہاتھ سے چلا جائےگا”۔اسی لیے جب ذکر قلب چلانے کی بات ہوتی ہے تو ابلیس پورا ننگا ہو کر سامنے آ جاتا ہے ، پھر کوئی ولی کام آ نہیں آتا کیونکہ ابلیس اپنی پوری فوج کے ساتھ آتا ہے اسکی فوج کا نام ہنود ہے، وہ ابلیسی فوج سالک پر ہی نہیں مرشد پر بھی حملہ کرتی ہے۔

”یہ بات دنیا بہت اچھی طرح سے سن لے کہ دنیا میں جتنے بھی باطنی لشکر ہیں جس میں علوی موئکلات اور فرشتے ہوتے ہیں اس تمام لشکرکا سپہ سالار سرکار گوہر شاہی کا ایک جسہ مبارک ہے، جب سے یہ عظمت کی تعلیم شروع ہوئی ہے خواہ وہ آدم صفی اللہ کا دورہو یا حضور پاک کا دور ہو حفاظت اگر ہوئی ہے تو سیدنا گوہر شاہی کے اس باطنی لشکر کے زریعےہوئی ہےیعنی چھ ہزار سالوں سے ذکر قلب کو دوام بخشنے کے لیے سرکار گوہر شاہی کی یہ مخلوقیں حفاظت کرتی آئی ہیں “۔

ابلیس کی دوہری مایوسی اور سیدنا گوھر شاہی کا کائنات پر کرم :

اب ابلیس کیسے پنگا لیگا ،اور تاریخ اٹھا کر دیکھیں سرکار گوہر شاہی نے ذکر قلب اس ارزانی سے بانٹا کے کوئی ریوڑیاں بھی ایسے نہیں بانٹتا ہوگا، یہ صرف دور گوہر شاہی میں ہوا ہے، جبکہ اس سے پہلے اکِا دُکا کا ذکر چلا کرتا تھا، بلکہ جب کسی کا ذکر چل جاتا تو مرشد کو بھی جھٹکا لگتا تھا کہ ارے واہ میں نے اسکا ذکر چلا دیا !پھر وہ مرشد مٹھائی بانٹتے، دھمال کرواتے، کیونکہ ذکر قلب کا چلنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ چودہ طبق پھٹتے ہیں تو ایک قلب جاری ہوتا ہے کچھ اور بھی فلسفے لوگوں نے بنا رکھے ہیں کہ ذکر قلب تو لوگوں کو پاگل کر دیتا ہے ، جنات آ جاتے ہیں ، ہاں بالکل ایسا ہوتا ہے، شیطان سے ابلیس سے پنگا لینا پڑتا ہے ، مرشدوں کو بھی پریشانی ہوتی ہے، اسی لیے ذکر قلب کا کوئی اکا دکا واقعہ ہی ہوتا تھا۔ لیکن یہاں سرکارگوہر شاہی کی شان دیکھیں ایسی بہت سی وڈیو آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گی جن میں بیشترمواقعوں پر لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایک لائن بنا کرسیدنا گوہر شاہی کے سامنے سے اللہ اللہ کہتے ہوئے گزر تے ہوئے نظر آئینگے ، سرکار گوہر شاہی کے صرف سامنے سے گزرنے اور زبان سے اللہ اللہ کہنے سے انکو اجازت ذکر قلب ملتی گئی۔

”ابلیس کو دو مرتبہ شدید مایوسی ہوئی ہے ایک تو وہ وقت تھا جب اللہ نے ابلیس کو بتایا کہ آدم صفی اللہ کو عظمت والا علم دیا ہے تو اسکو کتنی مرچیں لگی ہونگی جو اس کا لقب ہی ابلیس پڑگیا یعنی دائمی مایوس، لیکن اس نے اپنی دشمنی ایسی نکالی کہ تصوف کی کھٹیا کھڑی کردی ، لیکن جو مرچیں اسے اب لگی ہوں کہ اب سرکار گوہر شاہی سب کو ذاکر قلبی بنا رہے ہیں اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا، یہ اسکی دوسری دائمی مایوسی تھی۔“

ابلیس نے آدم و محمد سب کو تنگ کیا ، لیکن اب گوہر شاہی کو کون تنگ کرے گا؟ بے بس کھڑا ہو گیا، اسکو پتا چل گیا کہ یہ اللہ کا دربار نہیں ہے، اسکو یہ بھی پتا چل گیا کہ اللہ جو انیس بیس کرتا ہے اپنی بات سے آسگے پیچھے بھی کوتا ہے لیکن یہ جو گوہر شاہی ہیں یہ اپنی بات سے آگے پیچھے نہیں ہوتے، اگر گوہرشاہی نے کہہ دیا ہے اسکو تنگ مت کرنا تو پھر وہ پنگا نہیں لیتا، اگر گوہر کہیں اس سے دور چلے جائو تو وہ گوہر شاہی کی بات مان کے دور جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اسکو معلوم ہے سیدنا گوہر شاہی بہت سنجیدہ مزاج ہیں بلا وجہ نہیں کہہ رہے۔ابلیس نے جو بے بسی دیکھی وہ تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھی ہوگی کہ وہ ابلیس جس نے کھلے عام اِس عظمت والی تعلیم سے مخالفت کی، جتنا اس نے بند باندھا جتنا اس نے کوشش کی کہ یہ علم نہ پھیلے اور اس میں کامیاب بھی ہوا لیکن اب سیدنا گوہرشاہی نے یہ علم ایسا بانٹ دیا ایسا پھیلا دیا کہ ابلیس بے بسی کی تصویر بنا ہاتھ ملتا رہ گیا اور پھر گوہر شاہی کے آگے سرنگوں ہوگیا ۔

”طاقت دیکھنی ہے تو گوہر شاہی کی طاقت دیکھو ، حضور پاک پر تئیس سال میں قرآن اترا اور آپ نے تئیس سال کےعرصے میں صرف نوعدد ذاکر قلبی بنائے اورسیدنا گوہر شاہی نے ایک ہی وقت میں ہزاروں لوگوں کو اپنی نظروں کے سامنے سے گزار کر ایک اشارے سے اذن ذکر قلب عطا فرما دیا ۔“

اب یہ حقائق جان لینے کے بعد یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ابلیس کی دشمنی آدم و محمد کے دور میں کتنی شدت والی رہی ہوگی اور اب دور گوہر شاہی میں اسکی دشمنی کا لیول کیا ہوگا! اور پھر جب اس دور میں اسکی دشمنی ہاتھ ملتی رہ گئی ہوگی تو اسکی مایوسی کا کا عالم کیا ہو گا!!جو لوگ بھی آج اس عظمت والی تعلیم سے تصوف و باطنی علم سے دور کر رہے ہیں وہ ابلیس کے خلیفہ ہیں ۔

متعلقہ پوسٹس