کیٹیگری: مضامین

حضورؐ کی پیدائش میں حضرت عبداللہ کا کوئی عمل دخل نہیں:

جب حضورؐ پیدا ہوئے تو آپؐ کی پیدائش سے دو سال پہلے ہی حضرت عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ کیا ابھی تک کوئی ایسا واقعہ ہو ا ہے کہ کوئی ماں دو سال تک حاملہ رہی ہو اور بچہ نہ ہوا ہو ۔جو کہ ممکن نہیں ہے ۔ اب جب آپؐ کی پیدائش سے دو سال قبل ہی حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عبداللہ آپ کے والد ہیں۔
مسلمان اس بات پر اس لئے خاموش رہتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس جواب نہیں ہے اور حقیقت سے نا آشنا ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اِس موضوع پر گفتگو کی تو لوگ یہ سوال کریں گے کہ آپؐ کے والد کون ہیں ؟ بلکہ بہت سے مولویوں نے شریعت میں یہ قانون بنا کر ڈال دیا ہے کہ والد کے انتقال کے دو سال بعد بھی بچہ پیدا ہو گا تو وہ اُسی باپ کا کہلائے گا ۔لیکن شریعت میں ایسا کچھ نہیں ہے بس شریعت میں عدّت کے ایام ہوتے ہیں وہ بھی اس لئے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہے تو پتہ چل جائے ۔طلاق کی صورت میں یا شوہر کے مر جانے کی صورت میں عورت جو چار ماہ کی عدّت کرتی ہے اُس عدّت کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے اگر کوئی حمل کا معاملہ ہو تو وہ پتہ چل جائے ، اُس عورت پر کوئی الزام نہ لگے ۔
اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ شریعت میں چار ماہ کی عدّت کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے ، تو یہ جو مولویوں نے دو سال کا عرصہ زبردستی بنا دیا یہ اسی بات کو چھپانے کے لئے بنا دیا کیونکہ اُن کے پاس علم نہیں تھا اگر لوگ سوال کرتے تو کیا جواب دیتے کہ حضورؐ کے والد کون ہیں ! لہذا انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ناموس مصطفی کی پاسداری کرتے ہیں ۔قرآن مجید میں آیا کہ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ ۔۔۔۔اللہ نے کہا کہ ہم نے اپنا نور تمھاری طرف بھیجا ہے ۔یہاں نور سے مراد حضورؐ کی ذات والا ہے ۔خود حضورؐ نے بھی فرمایا کہ انّا من نور اللہ و المومنین من نوری۔۔۔۔کہ میں اللہ کے نور سے ہوں اور مومنین میرے نور سے ہیں ۔

آدم ؑاور عیسیٰ کی پیدائش ایک جیسی ہے:

اب یہ تو بہت آسانی سے کہہ دیا کہ محمد ؐ نور ہیں لیکن اُس کا بھی تو کوئی طریقہ ہوتا ہے ۔جب بی بی مریم کے پا س جبرائیل آئے تھے تو اس واقعے کو اللہ نے قرآن میں آدم ؑ کے واقعے کے ساتھ جوڑ کر بتایا ہے کہ دونوں کی پیدائش ایسے ہی ہوئی تھی۔ یہ قرآن میں موجود ہے کہ عیسیٰ کی پیدائش آدم کی پیدائش جیسی ہےلیکن ہمیں یہ بات پتہ ہے کہ آدم ؑ کے جسم کو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا گیا اور عیسیٰ کا جسم بی بی مریم کے پیٹ میں بنا تو یہ دونوں پیدائش ایک جیسی کیسے ہو گئی ؟ قرآن میں آیا کہ

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
سورۃ آل عمران آیت نمبر 59

اس آیت میں اللہ کا اشارہ جسم کی بناوٹ کی طرف نہیں ہے بلکہ جسطرح امر کن کے زریعے آدم ؑ کے اندر روح آئی تھی اُسی طرح عیسیٰ کے جسم کے اندر روح آ گئی ۔ حضور ؐ کا یہ معاملہ ہے کہ جبرائیل امین آئے اور بی بی آمنہ کو سفید رنگ کا مادہ پلایا گیا ۔ اس مادے میں نوری ارضی ارواح ہیں شجرۃ النور کے بیج کو اس سفید مادے میں ملا کر بی بی آمنہ کو پلا دیا گیا جس کی وجہ سے وہ حاملہ ہوئیں تھیں ۔آپؐ کی پیدائش میں حضرت عبداللہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔
حضورؐ نور تھے جبھی تو اُن کی نسل نوری ہوئی ہے ۔امام حسن ، امام حسین ، امام جعفر صادق ، موسی کاظم یہ سب محمد ؐ کے نور سےہی نوری ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کے یہاں بہت ہی گھٹیا قسم کا تصور ہے کہ نا جانے کتنی نسلوں تک وہ نورِ نبوت چلتا ہوا آ رہا تھا اور حضرت عبداللہ کے ماتھے پر بھی وہ نور ِ نبوت چمکا تھا ۔اُ ن کا یہ خیال ہے کہ یہ نطفے کی صورت میں آتا رہا ہے ۔ یعنی کئی نطفوں سے گزرتا ہوا نور یہاں آیا ہے ۔اس طرح کے تصورات بنا لینا حضورؐ کی بارگاہ میں گستاخی ہے ۔

جسم ِ محمد کی تشکیل شجرۃ النور کے نوری بیج سے ہوئی :

عام لوگ سمجھتے ہیں روح اور جسم کا مرکب انسان کہلاتا ہے لیکن حضور کے یہاں معاملہ کچھ اور ہے یہاں پر تین چیزیں ہیں روح جسم اور ان کا اسم۔
جب حضور پاک کا جسم بنایاگیا تو روح ڈالنے سے پہلے اس میں اسم محمد کو داخل کیا گیا، یہ اسم ہی کشف کی حالت میں عرش کے پائے پر اللہ کے اسم کے ساتھ آدم علیہ اسلام کو لکھا ہوا نظر آیا تھا، یعنی اسم محمد پہلے سے موجود تھا۔محمد کا مطلب ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ۔
قرآن میں دوحوالے ہیں، ایک تو آدم علیہ اسلام کا اور ایک عیسی علیہ اسلام کا۔عیسی علیہ اسلام کی تخلیق ویسی ہی ہے جیسے ہم نے آدم صفی اللہ کی تھی۔ ہم نے کہا ہو جا ، یعنی امر کن سے ہے نطفہ انسانی سے نہیں ہے۔

“اسی طرح حضور نبی کریم کی اِس دنیا میں آمد امر کن کی وجہ سے ہے نطفہ انسانی کی وجہ سے نہیں ہے۔حضور ﷺکے جسم مبارک کو بنانے والی ارضی ارواح اِس عالم کی نہیں ہیں، بلکہ عالم بالا کے نوری درخت شجرۃ النور کے نوری بیج کو جبرائیل امین نے دودھ کی مانند سفید رنگ کےمادے میں گھول کر بی بی آمنہ کو پلایا تھاجس سے وہ حاملہ ہوئیں اور محمدؐ کے جسم کی تشکیل ہوئی”

کچھ بدبخت مولویوں نے شجرۃ النور کے بیج کو انگور کا نام دے کر سیدنا گوھر شاہی کی ذات والا پر فتوے لگائے ۔ حدیثوں میں لکھا ہے کہ ’’کلمہ بھی ایک درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں مومن کے قلب میں ہوتی ہیں اور شاخیں عرش الہی کو چھوتی ہیں‘‘۔
ہمارا کام حقیقت کو پھیلانا ہے جس کو رب کی طرف سے توفیق ہو گی وہ قبول کر لے گا۔اس دنیا میں آنے سے پہلے جہاں ارواح مقیم ہوتی ہیں اس کو عالم ارواح کہتے ہیں اور مرنے کے بعد ارواح کو جہاں رکھاجاتا ہے اس عالم کا نام عالم برزخ ہے۔لیکن حضور کی روح مبارک عالم ارواح سے نہیں ہے۔عالم احدیت میں اللہ کی کرسی کے سامنے کا جو علاقہ ہے اس کو حقیقت محمدی یا عالم وحدت بھی کہاجاتا ہے۔ حضور ﷺ کی روح اس علاقے کی ہے۔آپ کی روح کا نام احمد ہے، اس کے بعد ایک علاقہ ہے جس کا نام مقام محمود ہے وہاں حضور ﷺ کا لطیفہ انّا آباد ہے۔آپ ﷺ کے جسم مبارک میں ارضی ارواح عالم بالا کی ہیں، جسم کا نام محمد ہے، روح کا نام احمد ہے، لطیفہ انّا کا نام محمود ہے، لطیفہ اخفیٰ کا نام حامد ہے۔ آپ ؐ نے اللہ کا جسمانی طور پر دیدار کیاہے ۔

کیا حضور ﷺ کا سایہ تھا؟

کچھ مولویوں میں اس مسئلے پر جھگڑا ہے کے حضورؐکا سایہ تھا یا نہیں تھا؟ وہابی کہتے ہیں کے سایہ تھا اور سنی کہتے ہیں سایہ نہیں تھا، سرکار گوھر شاہی فرماتے ہیں کے معراج پر جانے سے پہلے سایہ تھا جب واپس آئے تو نہیں تھا۔

“جب جسم محمد ﷺ اوپر پہنچا تو اللہ کے ذاتی نور قدیم کی تجلیات حضور ﷺ کے جسم کے آر پار ہوگئیں۔ سرکار گوھر شاہی فرماتے ہیں، جب وہ نور قدیم کی تجلیات حضور ؐکے جسم سے آر پار ہوگئیں تو حضور اس طرح لافانی ہو گئے جس طرح اللہ ہے”

ہر مرسل کو ایک ہی لطیفے کا علم ملا، آدم کو قلب کا، ابراہیم کو روح کا موسی کو سری کا، عیسی کو خفی کا، حضور کو دو لطیفوں کا علم ملا۔ لطیفہ اخفی اور لطیفہ انّا کا علم ملا، لطیفہ انّا کا جو علم ہے وہ کوئی اور تعلیم ہے، لطیفہ اخفی کی تعلیم کچھ اور ہے یہ دین کا حصہ ہے، انّا کی تعلیم دین کا حصہ نہیں ہے محمد ﷺ کی صوابدید پر ہے جس کو چاہیں دے دیں۔ قرآن کے قوانین سے وہ علم باہر ہے، لطیفہ اخفیٰ کے علم کے لیے کہا إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ”۔لیکن جو لطیفہ انّا کا علم ہے اس کے لیے یہ قانون نہیں ہے جس کو محمد ﷺچاہیں عطا کر دیں، اسی لیے جنہوں نے محمد ﷺ کو اپنی منزل بنا لیا وہ اللہ تک پہنچ گئے۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں کہا ہے
بمصطفیٰ برساں خیشت راکے دیں ہمہ اوست
اگر بعو نہ رسیدی تمام بو لہبی ایست

مندرجہ بالا مضمون 22 مئی 2017 کو نمائندہ گوھر شاہی ، عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے یو ٹیوب پر سوالات و جوابات کے لائیو سیشن سے ماخوز کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس