کیٹیگری: مضامین

شانِ نزول:

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ
سورة النجم آیت 19-1
ترجمہ: جب وہ میری آنکھوں کا تارا زمین پر گیا ، تمھارا جو صاحب ہے وہ راہ سے نہ بھٹکا اور نہ بہکا۔اور آپ اپنی خواہش سے لب کشائی کب فرماتے ہیں صرف اسوقت کلام فرماتے ہیں جب ہماری طرف سے وحی آتی ہے۔ انکی بہت طاقتور شخص نے تربیت کی ہے اور پھر وہ دانا اوپر چلا گیا اور اُفقِ اعلی تک پہنچ گئے اور پھر اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانیں آپس میں جڑ گئیں۔ جو حضورؐ نے دیکھا دل اُسکو کیسے جھٹلا سکتا ہے ۔اب تم ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کر رہے ہو کہ انہوں نے وہاں کس کو دیکھا۔اور پھر اسکے بعد دوبارہ نیچے آتے ہوئے دیکھا سدرة المنتہی کے پاس۔ پھر جنت الماویٰ کے پاس دیکھا اوروہ نظارہ بھی دیکھا جب دیدار کو چھپایا جا رہا تھا اور آپکی نظریں اِدھر اُدھر نہیں بھٹکیں۔آپ نے اپنے رب کی بڑی نشانی کو دیکھا۔ کیا تم نے اِسطرح لات اور العزیٰ کو دیکھا تھا۔

یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اسلئے یہ مکی سورت کہلاتی ہے۔ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ یہ جو هَوَىٰ ہے عربی زبان میں اس کے معنی محبت بھی ہوتے ہیں اور عربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں اور کئی جگہ پر استعمال ہوتا ہے تو عربی زبان میں هَوَىٰ کا مطلب ایک طرف تو محبت ہے اور دوسری طرف اس کا ایک اورمعنی “نیچے جانا” بھی ہے۔اب اس آیت کے معنی یہاں “محبت” استعمال ہوئےہیں یا “نیچے جانا” استعمال ہوا ہے یہ جاننے کیلئے اسکا شان نزول دیکھنا پڑے گا۔
یہ معراج شریف سے متعلقہ ہے اور یہاں پر جو وَالنَّجْمِ کہا گیا ہے وہ حضورؐ کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ اگلی آیت میں لکھا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ اب یہاں پر اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو کہا ہے کہ تمھارا جو صاحب ہے نہ وہ راہ سے بھٹکا اورنہ بہکا۔ جب حضورؐ معراج شریف پر تشریف لے گئے اور معراج ختم ہوگئی آپ نے واپس زمین پر آنا ہے تو اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ کہ میری آنکھوں کا تارا جب زمین پرگیا ۔ یہاں پر اللہ تعالی نے نبی کریمؐ کی معراج سے رخصتی کا ذکر فرمایا ہے کہ میری آنکھوں کا تارا جب زمین پر گیا تو کون کہتا ہے کہ وہ بہکا۔ پھر آگے فرمایا کہ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ اس آیت میں يَنطِقُ کا زیادہ تر لوگ ترجمہ “بولنا” کرتے ہیں لیکن اگر آپکی عربی زبان سے واقفیت ہے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اسکا مطلب “بولنا” ہوتا نہیں ہے۔ یہ استعاراً استعمال ہوتا ہے اس کے معنی بولنا اخذ کیا گیا ہے لیکن اسکا معنی “نطق ” سے نکلا ہے جس کے معنی ہونٹ ہیں یعنی میرے محبوب کے لب رب کے کلام کے علاوہ کہاں کھلتے ہیں۔ لب محمد کے ہیں لیکن کلام اللہ کا ہے۔ پھر آگے فرمایا کہ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ صرف اسوقت کلام فرماتے ہیں جب ہماری طرف سے وحی آتی ہے۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ اور انکی بہت طاقتور شخص نے تربیت کی ہے۔ یہاں شَدِيدُ الْقُوَىٰ سے مراد جبرائیل امین ہے۔اب لوگ جو کہتے ہیں حضورؐ اُمی ہیں اور آپ کسی مدرسے میں نہیں گئے ۔ کیا کوئی مُدرس ایسا ہے جو جبرائیل سے بڑا ہو، کیا کوئی سکول ایسا ہے جو اللہ کے سکول سے بڑا ہو! ہمارے علماء یہ سکھا رہے کہ اُنکے مدارس بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اگر کوئی انکے اسکولوں سے پڑھا ہوا نہ ہو اور اُسکو اللہ پڑھا دے، اُسکو یہ پڑھا لکھا نہیں مانتے ۔ یہ جہالت ہے ان عالم اور مولویوں کی ۔انکا معیار اپنے مدرسوں پر ہے کہ جو مدرسے سے پڑھا ہو گا وہ عالم ہے۔ جسطرح محمدؐ کو مدرسے میں گئے بغیر باہر ہی باہر اللہ اور دین مل گیا ہمیں بھی اسی طرح مل جائےگا اور یہ سنتِ رسول ہے۔
سرکار سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں ایک عالم آیا اور اس نے اپنے علم کے مطابق سرکار گوھر شاہی کو حیران کرنے کی کوشش کی اور پوچھا کہ آپؐ معراج سے واپس کیسے آئےاسکا ذکر نہیں ہے؟ سرکار گوھر شاہی نے ایک توقف لیا ، آنکھیں بند کی اور پھر فرمایا کہ “حضورپاکؐ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنکھیں بند کی اور نیچے تھے” ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ وہی چیز یہاں اس آیت میں بیان ہو رہی ہے کہ وہ کسی اُلجھن شکار نہیں تھے کہ کیسے نیچے واپس جانا ہے اور نہ بھٹکے اور نہ بہکے۔ اگر راستہ نہ ملے تو بھٹکنے کا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بہکنے سے یہاں کیا مراد ہے؟ یہاں پر یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جنت الفردوس میں جو ستر ہزار سال بعد اللہ کا دیدار ہوگااور پھر وہ بیہوش ہو جائیں گے ، وہ معاملہ وہیں کیلئے ہیں لیکن میرا حبیب یہاں ملاقات کیلئے آیا ہے ، جسمانی دیدارِ الہی میرے محبوب نے کیا ہے اور جسمانی دیدار کے باوجود اُنکی باطنی ہمت کا عالم یہ ہے کہ وہ بہکے نہیں ۔ ہمارے عُروسی دیدارکا سارا کا سارا اثرانہوں نے اپنی روح میں جذب کر لیا ہے اور اُنکے وجودپر نشہ دیدارکے کوئی اثرات نظر نہیں آ رہے ۔ اتنی بڑے اولالعزم عاشق ہے ۔

تشریح کا حوالہ بطورِ ثبوت:

روح الامعنی کے مطابق امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ یہاں اس آیت میں ستارے سے مراد حضورؐ کی ذات ہے جو لیلتہ المعراج میں آسمانوں سے نیچے آیا تھا۔ صاحبکم سے مراد حضورؐ کی ذات ہے اور صاحب کا مطلب مالک بھی ہے جیسے کہتے ہیں صاحب البیعت یعنی گھر کا مالک۔
کتاب کتب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروبن آس کا یہ واقعہ منقول ہے کہ میں حضور کی زبان مبارک سے جو کچھ سنتا وہ لکھ لیا کرتا تھا ، قریش کے بعض احباب نے مجھے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضورؐ کا ہر قول لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضورؐ انسان ہیں کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں چناچہ میں نے لکھنا بند کر دیا ۔ بعد میں اسکا ذکر بارگاہ رسالت میں ہوا اور میں نے سلسلہ کتابت بند کرنے کی وجوہات بیان کیں تو حضورؐ نے فرمایا کہ ” اے عبداللہ تم میری ہر بات کو لکھ لیا کرو اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، میری زبان سے کوئی بات سوا حق کے نہیں نکلتی۔

آیت نمبر 6 سے 15 تک کی تشریح:

دیدار الہی کی اقسام:

ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ اور پھر وہ دانا اوپر چلا گیا۔ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ اور سب سے اوپر جو اعلٰی مقام ہے وہ وہاں پہنچ گئے۔

یہ عالم احدیت اور عالم وحدت ہے ۔ان دونوں عالموں کے بیچ میں جو لکیراور اونچائی ہے وہ اُفق اعلٰی ہے ۔ آپؐ اُفقِ اعلٰی تک پہنچ گئے ۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ اور پھر قریب ہوئے۔ سفر نہیں ہوا بلکہ اپنی جگہ کھڑے رہے اور قربتیں بڑھیں۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانیں آپس میں جڑ گئیں۔عالم احدیت اللہ کا مقام ہے وہاں پر کوئی داخل نہیں ہوسکتا اسلئے اللہ تعالی عالم احدیت کے کونے پر کھڑے ہیں اور محمد الرسول اللہ عالم وحدت کے کونے پر کھڑے ہیں اور پھر ایسے ملے کہ قربتیں بڑھیں۔ جسطرح یہ دو باڈر بنے ہوئے ہیں اسطرح وہ بھی آپس میں مل گئے، لکیریں تو اِتنا نہیں ملیں جتنا وہ آپس میں مل گئے۔ پھر آگے فرمایا کہ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ جوحضورؐ کی آنکھوں نے دیکھادل اُس کو کیسے جھٹلا جا سکتا ہے۔ اب یہاں اس آیت میں اللہ تعالی نے قلب کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ فواد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ عربی میں دل کو فواد کہتے ہیں اور جو اسکے اوپر باطنی مخلوق ہے اُسکو قلب کہتے ہیں ۔اب اگر اللہ تعالی یہاں فواد کی جگہ قلب کہہ دیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ شاید روحانی دیدار ہوا ہوگا لیکن اللہ نے گوشت کے لوتھڑے فواد کا نام لیا ۔ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ اب تم ایک دوسرے سے مجادلہ کر رہے ہو کہ حضورؐ نے وہاں جا کر کس کا دیدار کیا ۔ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ یہاں پر اللہ تعالی تاکید کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ اور جو ابھی دیکھا وہی دوبارہ نیچے آتے ہوئے دیکھا تاکہ کوئی شک نہ رہے ۔تویہاں پر دو دفعہ دیدار کی تذکرہ ہے کہ ایک دفعہ جب آپ اوپر گئے اسوقت دیدار ہوا اور دوسرے مرتبہ جب نیچے کی طرف آئے تو پھر دیدار ہوا۔ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَ سدرة المنتہی کے پاس ۔ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ اور وہیں قریب میں جنت الماوی ہے۔
یہاں جو اہم بات دیکھنے کی ہےوہ یہ ہے کہ سات جنتیں ہیں اور چار جنتیں ایسی ہیں جن میں اللہ کا دیدار زرا سا بھی نہیں ہے ۔ جنت الفردوس، جنت الماوی اور دارلنعیم تین جنتیں ایسی ہیں جہاں مختلف معیار کا دیدار ہوتا ہے۔ کُل مخلوقات کیلئے جتنی طرح کے دیدار اللہ نے رکھے ہیں وہ ہر طرح کا دیدار حضورؐ کو ہوا ہے۔ اسی کی مثال ایسی ہے کہ ایک دیدار ایسا ہے جس میں محبوب کا چہرہ آنچل میں چھپا ہوا ہے اور جب آنچل اُٹھتا ہے تو دیدار کے پردے بھی اُٹھ جاتے ہیں اور اُسکے بعد ایک ایسا بھی وقت آتا ہے مزید پردے ہٹ جاتے ہیں اور کوئی حجاب نہیں رہتا۔یہاں اس آیت میں بھی اللہ نے یہی بات فرمائی ہے کہ ایک دیدار وہ ہو گیا جو قاب قوسین کے مقام پر ہوا ، پھر سدرة المنتہی کے مقام پرواپسی پر دوبارہ دیدار ہوا اور پھر جنت الماویٰ کے پاس بھی دیدار ہوا لیکن وہ دیدارالہیٰ پردوں میں ہوگا لہذا شب معراج پر ہر طرح کا دیدار الہی ہوا ۔
درِ مصطفی سنگ موسیٰ نہیں ہے
تو پردے میں آ تجھ سے پردہ نہیں ہے

آیت نمبر 16 سے 19 کی تشریح:

إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَ سدرة عربی میں دیوار کو کہتے ہیں ۔ تو وہ نظارہ بھی دیکھا جب دیدار کو چھپایا جا رہا تھا۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ اور آپ کی نظریں اِدھر اُدھر نہیں بھٹکیں۔ جو دیکھنا تھا وہی نظر میں آیا ادھر اُدھر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔چشم مصطفی سے حسن الہیٰ مقنا طیس کی طرح جڑ گیا ۔ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ آپ نے اپنے رب کی بڑی نشانی کو دیکھا۔ اب یہ دیدار کا تیسرا مقام ہے جس کو علماء سمجھ نہیں پاتے ہیں جس کی وجہ سے حضورؐ کے دیدار ِ الہی کے منکر ہو جاتے ہیں ۔لیکن یہ تیسرا دیدار ہے اس سے پہلے بھی سدرة المنتہی اور جنت الماویٰ میں دیدار ہوا ہے ۔ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ کیا تم نےاس طرح لات اور العزیٰ کو دیکھا تھا جسطرح ہمارے محبوب نے ہمارے بڑی نشانی کو دیکھا تھا ۔ یہ لات اور العزیٰ بتوں کے نام ہیں جو کہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جن کو بعد میں توڑ دیا گیا ۔ یعنی جسطرح یہ بُت ہیں اور چھوئے جا سکتے ہیں اسی طرح محمدؐ نے بھی اللہ کا ایسا وجود دیکھا جس کو چھوا بھی جا سکتا ہے ۔تم نے لات العزیٰ کو اسطرح نہیں دیکھا جسطرح میرے محبوب نے میرا جسمانی پیکر دیکھا۔ آیات الکبری ، وجود ِ الہ کو کہتے ہیں ۔ہمارے علماء آیات الکبریٰ سے مراد جبرائیل لیتے ہیں جو کہ غلط ہے اگر آیات الکبری کا ہی دیدار معراج پر کرنا تھا تو جبرائیل تو نیچے بھی آتے تھے اس کیلئے اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ آیات الکبریٰ اللہ کی بڑی نشانی وجود الٰہ کی طرف اشارہ ہے جس کا دیدار نبی کریمؐ کو ہوا ۔

تشریح کا حوالہ بطور ثبوت:

امام حنبل سےمروی ایک حدیث میں ہے کہ جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ کیا حضورؐ نے اپنے رب کا دیدارکیا ؟ تو اتنی شدت سے فرماتے کہ ہاں محمدؐ نے اللہ کو دیکھا، ہاں محمدؐ نے اللہ کو دیکھا اور یہی جملہ بولتے رہتے یہاں تک کہ انکا سانس ٹوٹ جاتا ۔
ابنِ عباس نے ان آیات کے بارے میں فرمایا کہ حضورؐ نے اللہ کا دیدار اپنے سر کی آنکھوں اوردل سے دو دفعہ کیا۔ ابن عباس مستند ترین راویوں میں سے ہیں ۔
اب قرآن مجید میں واضح طور پر اللہ کے دیدار کا آیا ہے اسکے باوجود صحابہ کرام میں کشمکش ہے حضورؐ نے اللہ کا دیدار کیا یا نہیں کیا اور خاص طور پر عائشہ صدیقہؓ وہ اس معاملے میں بہت متشدد واقع ہوئی ہیں اور کہا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ حضورؐ نےمعراج شریف میں اللہ کا دیدار کیا گویا اُس نے اللہ پر بہتان باندھا لیکن امام جعفر صادق، حسن بصری اور ابن عباسؓ کی جو تفاسیر ہے اُن میں لکھا ہے کہ حضورؐ نے شب معراج میں اللہ کا دیدار دو دفعہ کیاہے ۔اب عائشہ صدیقہؓ کو صرف ایک مقام بطور زوجہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن حسن بصریؓ سلطان الفقراء ہیں اور سلطان الفقراء وہ ہوتا ہے جو جب چاہے اللہ کو دیکھ لے۔ اب حسن بصری تو حضورؐ کے غلام ہیں جب اُن کو دیدار الہی ہو سکتا ہے تو کیا آقا کو نہیں ہوا ہوگا۔ جن کو روحانیت سمجھ میں آتی ہے وہ مان لیتے ہیں کہ حضورؐ کو اللہ کا دیدار ہوا ہے اور جو روحانیت میں نکمے تھے، صحابہ کے دور میں ہوں یا اس دور میں ہوں اُن کیلئے یہ ماننا ممکن نہیں ہے کہ حضورؐ کی روئیت الہیٰ کے قائل ہو جائیں ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی سیدی یونس الگوھر سے 17 اپریل 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کی خصوصی تشریح سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس