- 733وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
ہرفرقہ اپنے مسلک کی احادیث کو مستند کیوں مانتا ہے؟
آج کےدورمیں سب سےبڑا مسئلہ کسی بھی حدیث کی سند کاہے۔ جب ہم امام مہدیؑ کی بات کرتے ہیں توہم اپنے دائرےکو ایک خاص مسلک تک محدودنہیں کرسکتے۔ امام مہدیؑ نہ صرف یہ کہ عالمِ اسلام کیلئے ہیں جس میں تمام مسالک اورتمام عقائد کے پیروکارشامل ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں جن کو امام مہدیؑ سے فیوض وبرکات حاصل کرنے ہیں۔ اگرہمارے علمائےکرام اپنے اپنے مسالک کی حدود کھینچ کر امام مہدیؑ کا تصوربیان کریں گے تومیں نہیں سمجھتا کہ ہم دین کی خدمت کررہے ہیں بلکہ ہم دین کو فراموش کرکے اپنے مسلک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جبکہ امام مہدیؑ کسی خاص مسلک کیلئے نہیں ہیں بلکہ وہ احیائے دین اوراحیائے اُمت کیلئے تشریف فرماہورہےہیں۔ جہاں آپ اہلِ سنت والجماعت کے مطابق احادیث دیکھ رہے ہیں وہاں اہلِ تشیع کی احادیث بھی دیکھ لیں اوروہاں اُن لوگوں کی احادیث بھی دیکھ لیں کہ جواہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلکی اختلاف میں مبتلا ہیں جیسا کہ مسلک دیوبند، وہابی اوراہلحدیث کیونکہ ان میں بہت فرق ہے۔ فی الوقت اہلِ سنت والجماعت مسالک کی جنگ اوراختلاف میں اسی طرح منتشرہوگیا ہے جسطرح اُمت بہترتہتر فرقوں میں منتشر ہوگئی ہے۔ اب تو مسلکِ اہلِ سنت والجماعت بھی انتشارکا شکار ہے۔ ہم خود ہی اپنے مسالک سے حدیثوں کامجموعہ تیارکرلیں اوراُن کے اوپر انحصار کریں اوراہلِ تشیع اپنی سند خود تیارکرلیں اوراپنے نزدیک وہ ان احادیث کو مستند تسلیم کریں تو یہ تفاوت اوراختلاف کبھی بھی اجماعِ امت پرمبنی نہیں ہوگا اوریہ کبھی بھی ہمارے مسائل کو حل نہیں کرے گا۔ اگراہلِ تشیع کے نزدیک جو احادیث موجود ہیں اُن حدیث میں یہ حدیث اگر مستند ہوتی کہ امام مہدیؑ کے والد کا نام عبدااللہ اوروالدہ کا نام آمنہ ہوگا تو کبھی بھی اہلِ تشیع امام حسن عسکری کے بیٹےکوامام مہدی نہیں مانتے کیونکہ امام عسکری کا نام تو عبداللہ نہیں ہے اورنہ اُن کی زوجہ محترمہ کا نام آمنہ ہے بلکہ اُن کی زوجہ محترمہ کا نام نرگس خاتون ہے لیکن اہلِ تشیع اُن کےبیٹے کوامام مہدی مانتے ہیں۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ یہ حدیث جس کو آپ سند سے مزین فرماتے ہیں یہ حدیث اہلِ تشیع کے ہاں مستند نہیں ہے۔ کچھ احادیث آپ کے ہاں مستند نہیں ہیں اورکچھ احادیث اُن کے ہاں مستند نہیں ہیں تو پھر یہ اختلاف دورکیسےہوگا اورہم امام مہدی کو کیسے پہچانیں گے اور کون پہچانے گا۔ اگرامام مہدی میں وہ چیزیں موجود ہوئیں جوشیعہ کی حدیثوں میں ہیں تو سنّی کہیں گے کہ یہ شیعوں کاامام مہدی ہے اوراگر امام مہدی میں وہ چیزیں موجود ہوئیں جو سنیوں کی حدیثوں میں ہیں تواُس کو شیعہ نہیں مانیں گے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ احادیث میں اس قدراوراس پیمانے میں آمیزش ہوچکی ہے کہ لوگ بھی تمام تفاسیراورتمام احادیث کےہونےکےباوجود بھی اُس کے صحیح مفہوم سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہرفرقے نے اپنے مسلک کے اعتبارسے احادیث کا مجموعہ بنایا ہوا ہے اوراُس کووہ مستند سمجھتا ہے اورجودوسرے مسلک کی جمع کی ہوئیں احادیث ہیں وہ اُن کیلئے مستند ہیں اوردوسروں کیلئے ضعیف ہیں۔ بہت سے لوگ توضعیف کہتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اُن ضعیف حدیثوں کوموضوع قراردیتے ہیں۔
امام مہدیؑ کی پہچان کیسے ہوگی؟
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ امام مہدیؑ جوہونگے ان نشانیوں کے اندرہی ہم ان کوتلاش کر پائیں گے لیکن کیا وہ عام آدمی سے مختلف نہیں ہونگے! وہ ایسی شخصیت ہونگے کہ بغیرکسی نشانی کے بھی اُن کی ذاتِ والا،اُن کی ہستی معظم، اُن کاتقویٰ، اُن کااخلاص اوراُن کے پاس جوعرفانِ الہی ہوگا،اُن کےپاس جو قُربِ مصطفی ہوگا وہ اُن کی شخصیت، کرداراوراُن کی گفتارسے جھلکے گا۔ اگرصرف ان احادیث میں بیان کردہ نشانیوں پرہم انحصار کرلیں اورانہیں پر اکتفا کئے بیٹھے رہیں توشاید ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ امام مہدیؑ ایک عام انسان کی طرح ہونگے کہ صرف نشانی کی وجہ سے ہی اُن کوپہچانا جاسکے گا ورنہ اُن کا اپنا تو کوئی کردار نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اگرنبی پاکؐ آج تشریف لے آئیں تو کیا آپ میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ بغیر کسی نشانی کے آپ نبی پاکؐ کو پہچان لیں۔ اگرآپ بغیر نشانیوں کے نہیں پہچان سکتے تو پھرآپ اندھے ہیں کیونکہ کوئی بھی آپ کے برابرسے گزرجائے اورآپ کوخبر بھی نہ ہو، یہ اندھیرا ہے۔ آپ کی وہ بصیرت کہاں چلی گئی کیونکہ مؤمن کیلئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ
اتقوافراسۃالمؤمن فاِنہ ینظربنوراللہ
الترمذی (3127)
ترجمہ: مؤمن کی فراست سےڈروکیونکہ وہ اللہ کےنور سےدیکھتا ہے۔
اگرمؤمن اللہ کےنورسےدیکھتا ہے توکیاامام مہدی کوبغیر نشانی کے نہیں پہچان سکتا۔ اگرہم اللہ کے نورسےدیکھیں گےتوامام مہدی کی پہچان ہوجائے گی۔ امام مہدی کوپہچاننے کیلئےسب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ہم مؤمن بن جائیں اوریہ جھگڑا ہی ختم ہوجائے کہ یہ شیعہ کی حدیث ہے یا یہ سنی کی حدیث ہے۔ ہم اپنے دلوں کودائمی ذکرالہٰی سکھانے میں کامیاب ہوجائیں۔ مومنین کی نشانی توقرآن مجید میں یہی آئی ہے کہ
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
سورۃ آل عمران آیت نمبر191
ترجمہ: وہ اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کے بل بھی اللہ کے ذکر میں مشغول رہتےہیں۔
اس آیت کی مزید تشریح بیان کرتے ہیں کہ یہاں پرآپ اگرغورفرمائیں توآپ کومعلوم ہوگا کہ سونے کی جوطرزہے جس طرح ہم سوتے ہیں وہ لفظ سونا بیان نہیں ہوا لیکن” کروٹوں کے بل”بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی یہ بھی فرما سکتے تھے کہفی حالت نومکہ سونے کی حالت میں بھی ذکراللہ کرتے ہیں لیکن وہاں پرجو ایک بہت بڑی چیزتھی وہ اشارہ تھا۔ وہ اشارہ یہ ہے کہ جو لفظجُنُوبِهِمْاللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اپنی کروٹوں کے بل توفی نفسہییہ لفظ خود ایک اشارہ ہے کہ جب آپ سورہےہوتے ہیں تو کبھی آپ نے گنا ہے کہ آپ نے کتنی کروٹیں بدلی ہیں لیکن آپ کو یہ اس لئے نہیں پتہ چلتا کہ دماغ کو پیغام بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ جب جسم کا ایک حصہ تھک جاتا ہے تو دوسرے حصے پر کروٹ چلی جاتی ہے۔ یہ اتنا خودکار نظام ہے۔ اس میں اچھنمبے کی یہ بات ہے کہ آپ کوکچھ کرنا بھی نہ پڑے تو پھرآپ کےاندرایک ایسی چیز ہوجو اللہ اللہ کرتی رہے اورآپ سوتے رہیں۔ جس طرح آپ سوتے رہتے ہیں اسطرح کروٹیں لی جاتی رہتی ہیں اورآپ کوپتہ بھی نہیں چلتا۔الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًاکہ اُن کی نشانی یہ ہے کہ حالتِ قیام میں بھی وہ ذکراللہ میں ہوتے ہیں۔وَقُعُودًااور جب وہ بیٹھےہوئے ہوتے ہیں تو تب بھی وہ اللہ کے ذکرمیں ہوتے ہیں۔وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْاورجب وہ اپنی جنوب پرہوتے ہیں یعنی اپنی کروٹوں کے بل ہوتے ہیں اورسورہے ہوتے ہیں توتب بھی اللہ کے ذکرمیں ہوتے ہیں۔ اگرآپ کو یہ چیزحاصل ہو توپھرہی آپ مؤمن بنیں گے اورپھرہی آپ کی آنکھوں میں نورآئےگا۔ اگرآپ میں یہ چیز نہیں ہے توآج اس چیز کے نہ ہونے کی وجہ سے نہ آپ عالم اورنہ ہم اُمتی ہیں۔ یہ جوچیز ہے کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکرکریں تو اگریہ چیزآپ کوحاصل نہیں ہے توآپ عالمِ دین نہیں ہیں اوراگر یہ ہم کوحاصل نہیں تو ہم اُمتی نہیں ہیں۔ اُمتی کیلئے یہ شرط ہے کہ اُن کی پہچان یہ ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کے بل بھی اللہ کا ذکرکرتے ہیں۔ عالمِ دین کیلئے بھی قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورۃ الکھف آیت نمبر 28
ترجمہ: اورایسے لوگوں کی اطاعت مت کرنا جن کے قلب کوہم نے اپنےذکر سے غافل کررکھا ہے۔
ان حدیثوں کا ہم کیا کریں گے کہ جن میں اتنی دفعہ ملاوٹ ہوچکی ہے۔ زبان سے توسب اللہ کاذکر کرلیں گے کیونکہ زبان سے اللہ اللہ کرنا مشکل کام نہیں ہے اورزبان سے تو منافق بھی ذکر کرتا ہے۔ لیکن اللہ کی پیروی کی جب بات آتی ہے تو اس آیت کو شرط رکھ دیا ہے کہ ایسے شخص کی پیروی نہیں کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سےغافل کررکھا ہے اور نہ ایسا شخص مؤمن ہوسکتا ہے کہ جس کے قلب میں اللہ کا ذکرنہیں ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں جو سب سے پہلے ہدایت ہے وہ آپ کے قلب کو ہے اورآپ نے جسموں کوعبادت میں لگایا ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ
وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورۃ التغابن آیت نمبر11
ترجمہ: اور جس کوبھی اللہ مؤمن بناتا ہے اُس کے قلب کوہدایت دیتا ہے۔
آپ کا تو اس وقت نظام درہم برہم ہے کیونکہ قلب کی ہدایت کا تو کوئی مدرسہ ہی نہیں ہے۔ آپ نے جسموں کو داڑھی اورنمازمیں لگایا ہے لیکن تصدیقِ قلب کا توکوئی اہتمام ہی نہیں کیا گیا حالانکہ حدیث نبوی میں اسلام کا جوبنیادی فرض ہے وہ یہ ہے کہ
إقرار باللسان وتصديق بالقلب
ترجمہ: زبان اقرارکرے اورقلب اُس کی تصدیق کرے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مصداق کیسے ہوتا ہے؟
جو زبان سے اقرارکیا ہے اُس کاصدق قلب میں ہو۔ اب آپ امام مہدیؑ کوکیسے پہچانیں گے۔ کسی فرقے کے پاس یہ تعلیم نہیں ہے کہ تم کووہ اہلِ قرآن بنادے اورتم کووہ مؤمن بنادے کہ تم اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کےبل بھی اللہ کے ذکر میں لگے رہو۔ یہ چیز کسی فرقے کوحاصل نہیں ہے اور وہ ذات جو ایک نظروں سے تمہارے من کی کایا پلٹ دے اورتمہارے دل کی دھڑکنوں کو اللہ کےذکر سے آباد کردے اورعبدل آباد کردے اورذاکرِقلبی بنادے اورتمہارے دل میں نوربننا شروع ہوجائے اور پھریہ ایک ایسا باطنی نسخہ تمہیں میسرآجائے کہ قلب کےروشن ہونے سے وہاں سے تمہیںأمربالمعروفکامصداق مل جائے اورتزکیۃ النفس کی ثمرکےطورپرنھوعن المنکرکا مصداق مل جائے۔ یہ تعلیمِ امام مہدی سیدنا گوھر شاہی ہے اوریہ ڈنڈے کےزورپر امربالمعروف نہیں ہے اورنہ ڈنڈےکےزورپرشیطان تم سےکراتا ہے بلکہ شیطان نے تمہارے اندر اپنی مخلوق لطیفہ نفس بٹھائی ہوئی ہے۔ حضور پاکؐ نےفرمایا کہ” ہرانسان کے ساتھ ایک شیطان جن پیدا ہوتا ہے”۔ وہ شیطان جن ہمارے اندر موجود ہے۔ اُس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا کہ
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ
سورۃ یوسف آیت نمبر 53
ترجمہ: نفسِ امارہ برائی کا امرکرتا ہے۔
تمہارے اندربیٹھ کرشیطان تمہیں برائی کاحکم دیتا ہے۔ ہمارے رب نے ہمیں ایسی چیزبھی دی ہےجو کہ ہمارے اندربیٹھ کررب کا نورنیکی کاامرکرتا ہے لیکن ہم کواُس کاراستہ اورطریقہ معلوم نہیں رہا۔ اب ہم شیعہ، سنی، وہابی اور دیوبندی ہونے پرفخرکرتے ہیں لیکن اب ہم اُمتی نہیں بننا چاہتے اوراگرکوئی اپنے آپ کواُمتی کہتا بھی ہے تووہی اپنے مسالک میں لگا ہوا ہے اورزبانی قیل وقال کے ذریعے ہی اپنے آپ کواُمتی گردانتا ہے۔ اگر تم مؤمن ہوتو اللہ کا نورتمہاری آنکھوں میں کیوں نہیں ہے۔اتقوافراسۃالمؤمن فاِنہ ینظربنوراللہکہ مؤمن اللہ کے نورسے دیکھتا ہے لیکن تمہاری آنکھوں کے آگے پردے کیوں ہیں۔ یہ تمہاری آنکھیں چیرکرسینوں کے پیچھے کیا چھپا ہے یہ کیوں نہیں جان لیتی۔ اس لئے نہیں جانتی کہ یہ آنکھیں صرف آنکھیں ہیں، ان میں نورنہیں آیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان آنکھوں میں نورپہنچانے کیلئے کوئی وظیفہ ہویا دس دفعہ کوئی آیت پڑھ لوتوآنکھوں میں نورآئے گا۔ یہ آنکھوں میں نورتب آئے گا جب آپ کےقلب میں اللہ کا ذکرشروع ہوگا، اللہ ھوکا رگڑا لگے گا، نوربننا شروع ہوگا، نس نس کے ذریعے پورے جسم میں وہ نور سرائیت کرجائےگا، ساری روحوں کونور منورکردےگا، اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کے بل نوربنتا رہےگا، تمہارادل اللہ اللہ میں لگا رہےگا، اگرکوئی گناہ ہوبھی گیا تواُس گناہ کوجلاتا بھی رہےگا اورتمہارےدل کوچمکادےگا۔ ایک دفعہ نبی کریمؐ نےفرمایا کہ
عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن العبد إذا أخطأ خطيئة نكتت في قلبه نكتة سوداء فإذا هو نزع واستغفر وتاب سقل قلبه وإن عاد زيد فيها حتى تعلو قلبه وهو الران الذي ذكر الله كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون
سنن الترمذی: 3334، التفسیر- سنن ابن ماجہ: 4244، الزھد – مسند احمد: 2/297
جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو کراماً کاتبین اُس کی کتاب میں گناہ لکھ لیتے ہیں اوراُس کےساتھ ساتھ ایک سیاہ دھبہ اُس کے دل پربھی لگادیتے ہیں کیونکہ اگرکسی نبی ولی یا مرشد کوضرورت پڑی تو کتاب منگوالےگا لیکن اللہ کتابوں کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ دلوں کودیکھتا ہے۔ حضورپاک نےفرمایا کہ
ان اللہ لاینظرالٰی صورکم ولاینظرالی أعمالکم ولکن ینظرفی قلوبکم ونیاتکم
نورالہدی سفحہ 127
جب کثرتِ گناہ سے کتاب بھی گناہوں سے بھرگئی اوردل بھی سیاہ دھبوں سے بھرگیا توایک دن آیا کہ دل بالکل سیاہ ہوگیا۔ آپؐ نےفرمایا کہ جب دل بالکل سیاہ ہوجائے توپھرنصیحت بیکارہوجاتی ہے یعنی نصیحت کااثرنہیں ہوتا۔ صحابہ اکرام بہت پریشان ہوئے اورپوچھا کہ یارسول اللہ! اگرایسا معاملہ ہوجائے توپھرکیا کریں۔ آپؐ نےفرمایا کہ
لکل شیءِِصقلۃ وصقلۃ القلب ذکراللہ
عین الفقرصفحہ نمبر103
ترجمہ: ہرچیزکودھونے کیلئے کوئی دھونےوالی چیز ہے اوردلوں کو دھونےکاجوآلہ ہے وہ اللہ کاذکرہے۔
لیکن ہم سمجھتے غلط ہیں کیونکہ ہم اللہ کےذکرکوزبان سےکرتے ہیں اوردھونا ہم نے دل کوہے۔ اسی لئےزبان سےتسبیاں پڑھتے رہے اوردل میں شیطان بیٹھاہواہے جوکبھی نکلا ہی نہیں۔ ہماری تسبیح توجاری رہی لیکن شیطان کی وجہ سے ہمارا دھیان کہیں اورچلاگیا۔ تمہارادل پاک تب ہوگا اور تمہارے گناہ اُس وقت دُھلیں گے جب ذکراللہ تمہارے قلب میں ہوگا۔ اس قلب کوذکراللہ سکھانے والی جوتعلیم ہے وہ نہ کسی سنی کے پاس، نہ بریلوی کے پاس، نہ وہابی کے پاس، نہ شیعہ کے پاس، نہ دیوبندی کے پاس اورنہ اہلحدیث کے پاس ہے بلکہ وہ تعلیم امام مہدی لےکرآرہے ہیں۔ اسی لئے اُن کومہدی کہا گیا یعنی” ہدایت والوں کاامام” کہ وہ آپ کو صراطِ مستقیم پرڈال دے، نہ قبروں کوسجدے کرائے، نہ شرک میں مبتلا کرے اورنہ تمہیں کسی ہستی، نبی، ولی یا امام کا مرتبہ اتنا بلند کردے کہ تم مشرک بن جاؤ بلکہ سیدھی سیدھی بات بتائے اوراللہ کے ذکراورنورسےتمہارےدلوں کوزندہ کردے اورتمہاری آنکھوں میں اللہ کانورآجائے تاکہ تم اللہ کو بھی پہچان لواوراپنےآپ کوبھی پہچان لو۔ جب تم اللہ کوپہچان لوگے توپھرامام مہدی کو کیسے نہیں پہچان پاؤگے۔ کوئی بھی نشانی اتنی بڑی نہیں ہے جتنا بڑاااللہ کانورہے۔ اس لئےجب اللہ کانورتمہارے قلب میں آگیا تو پھرآپؐ نےفرمایا کہاتقو افراسۃ المؤمن فاِنہ ینظربنوراللہکہ مؤمن کی فراست سے ڈروکیونکہ وہ اللہ کے نورسےدیکھتا ہے۔ یہ ہمارے پاس نشانی ہے جس کا ہم ذکر کررہے ہیں اورلوگوں کوسکھا بھی رہے ہیں۔ ہم کویہ پتہ چل گیا ہے کہ جب تمہاری زبان کے اقرارکےساتھ قلب کی تصدیق بھی ہوگئی توپھراُس وقت نہ تم سُنی بنوگے، نہ شیعہ بنوگے، نہ وہابی بنوگے اورنہ دیوبندی بنوگے بلکہ اُس وقت تم بنوگے جسطرح امداداللہ مکی مہاجررحمۃاللہ نےفرمایا کہ بس متقی ہوں نہ پارسا بس اُمتی ہوں تمہارا یارسول اللہ۔ جب تمہارے دل میں بھی نورآجائے گا توپھرتم یہ نہیں کہوگے کہ میں شیعہ، سُنی، وہابی یا دیوبندی ہوں بلکہ تم بھی امدااللہ مکی مہاجرتھانوی کی طرح یہی کہوگے کہ میں تمہاراُمتی ہوں۔ یہ تب ہی ہوگا جب تمہارے دلوں میں اللہ کانورداخل کرنے کاطریقہ آجائےگا۔ زبان سے کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوتے ہولیکن مؤمن نہیں بنتے ہو۔ کچھ عربی جوتھے انہوں نے دینِ اسلام قبول کیا اوراپنے آپ کومؤمن کہنا شروع ہوگئے توفوراً اللہ تعالی نےآیت نازل فرمائی کہ
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورۃ الحجرات آیت نمبر 14
ترجمہ: اعرابی کہتے ہیں کہ ہم مؤمن ہیں۔ ان کوکہہ دوکہ تم مؤمن نہیں ہو بلکہ یہ کہوکہ ہم مسلمان ہوئے ہیں کیونکہ مؤمن تب بنوگے جب ایمان تمہارے قلب میں داخل ہوجائے گا۔
جنہوں نے اپنے قلب میں کلمہ اوراُس کانوراُتار دیا وہ تو صحابی یارسول اللہ کہلائے اورجن کے نہیں اُترا وہ عبداللہ ابن ابی جیسے منافق ہوگئے۔ جس کے قلب میں کلمے کا نوراورذکر اُترگیا کیونکہ کلمے کے بارےمیں حدیث نبوی ہے کہ
افضل الذکرلاالہ الااللہ محمد رسول اللہ
ابن ماجہ، ج 4، ص 247، حدیث:3800
جب نورکےساتھ افضل ذکرقلب میں اُترگیا تووہ مومن بن جائےگا اوریہ کلمہ جن کی زبانوں تک رہا وہ اُس دورمیں بھی منافق تھے اورآج بھی منافق ہیں۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے20 فروری 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔