کیٹیگری: مضامین

اللہ نے نور کو بنانے کے لئے دل کو منتخب کیاہے:

سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو گا یہ جو گوشت کا لوتھڑا دل جو کہ سینے میں بائیں ہاتھ پر لٹکا ہوا ہے اور دھڑک رہا ہے اس کا جو ظاہری کام ہے وہ کیا ہے ؟ بنیادی طور پر دل کا کام خون کو صاف کرنا ہے ، ہمارے جسم میں دو طرح کی خون کی ویسلز ہیں ایک شریان اور دوسری ورید کہلاتی ہیں۔شریانیں شفاف خون کو لے کر جاتی ہیں اور ورید میں غیر شفاف خون ہوتا ہے ۔جب ہمارے معدے میں کھانا جا کر ہضم ہوتا ہے اور اس سے جو اینزائمز (غدود)نکلتے ہیں وہ کھانے کو ٹکڑوں میں توڑ دیتے ہیں جس میں سے کچھ چیزیں جگر کی طرف چلی جاتی ہیں جہاں سے خون بنتا ہے۔ جگر میں جوتازہ تازہ خون بنتا ہے وہ غیر شفاف ہے اسے شفاف ہونا ہے جو کہ ورید کے ذریعے دل میں جاتا ہے ۔ دل کے چار والو (خانے) ہوتے ہیں ایک وینٹریکل اور دوسرا آرٹیریکل کہلاتا ہے ۔وینٹریکل ورید سے جڑا ہوتا ہے اور آرٹیریکل شریانوں سے جڑا ہوتا ہے ، اس طرح دل میں دو بڑے خانے ہوتے ہیں۔ جہاں ورید خون کو لے کر آتی ہیں وہیں دل کے اوپر ایک پلمونری والو ہے وہ خون کے قطرے کو دل میں دھکیلتا ہے اس دھکیلنے کی وجہ سے ٹک ٹک ہوتی ہے اسی کو ہم دھڑکن کہتے ہیں ۔دل کا ایک کام تو یہ ہے کہ یہ خون کو صاف کر رہا ہے اور اس کے لئے ایک پلمونری والو لگا ہوا ہے جو خون کو دھکیل رہا ہے ، یہ جتنا زیادہ خون کو دھکیلے گا اتنا ہی انسان کے لئے اچھا ہوتا ہے کیونکہ اُس دھڑکن کی وجہ سے انسان میں کائنیٹک انرجی (حرکاتی توانائی ) بن رہی ہے ۔ہر انسان کے اندر ڈیڑھ والٹ بجلی موجود ہوتی ہے اور وہ بجلی دل کی دھڑکن کی وجہ سے بنتی ہے ۔جو دل کی دھڑکنوں کی وجہ سےجو ڈیڑھ والٹ بجلی بن رہی ہے اس کی وجہ سے جسم میں چستی رہتی ہے ۔عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دھڑکنیں کم ہوتی جاتی ہیں اورانسان سست ہوتا جاتا ہے اور جن میں یہ بجلی موجود رہتی ہے اس کی وجہ سے وہ چُست رہتے ہیں

اب چونکہ وہ کائنیٹک انرجی (حرکاتی توانائی)دل کی دھڑکنوں کی وجہ سے بن رہی ہے لیکن اس کی چستی تو پورے جسم میں محسوس کی جاتی ہے لہذا اللہ تعالی نے بھی انسان کو روحانی طور پر ُچست رکھنے کے لئے اس ہی عضو کو منتخب کر لیا ۔اب اس بات کو ہم بغیر کسی دلیل کے تسلیم کرتے ہیں کہ جو دل میں توانائی بن رہی ہے وہ پورے جسم میں محسوس ہوتی ہے اگر نور بھی دل میں بننا شروع ہو جائے تو پھر اللہ کا نور بھی پورے جسم میں چلا جائے گا۔ذکر اللہ کو دل کی دھڑکنوں میں ملانا اس لئے ضروری ہے کہ وہاں پہلے سے ہی توانائی کا بہاؤ موجود ہے ۔اب ہمارے جسم میں جو نسوں کا نظام ہے یہ بہت حساس ہوتا ہے ، حرکاتی توانائی ان نسوں کے اوپر ہی سفر کرتی ہیں اور درد بھی انہی کے اوپر سفر کرتا ہے۔انسان کے اندر جذبات، درداور خوشی انہی نسوں کے زریعے سفر کرتی ہے اب ہم اکثر سنتے ہیں کہ نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے وہ بھی یہی ہے کہ جذبات کا اتنا زیادہ بہاؤ ہوتا ہے کہ انرجی وہاں سے سفر نہیں کر پاتی ہے اور انسان بہکی بہکی حرکتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ایک حضوؐرکی حدیث بھی ہے کہ

أَلا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, أَلا وَهِيَ الْقَلْبُ
راوی البخاری و مسلم ( متفقہ علیہ)
ترجمہ : اے بنی آدم تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے اگر اُس کی اصلاح ہو جائے تو پورے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر اُسی میں فساد ہے تو پورا جسم فساد میں مبتلا رہے گا یا د رکھ وہ تیرا قلب ہے۔

یہ کتنی سائنٹفک حدیث ہے جو بالکل پورا اُترتی ہے جسطرح وہ حرکاتی توانائی پورے جسم میں پھیل گئی تو آپ کا پورا جسم ہشاش بشاش ہو گیا اسی لئے حضوؐرنے فرمایا کہ تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اُس کی اصلاح ہو جائے تو پورے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے ۔اسی طرح اگر قلب میں نور چلا جائے تو وہ نور بھی پورے جسم میں چلا جاتا ہے اور وہ مصلح ہو جاتا ہے اور اگر اُسی میں فساد ہے تو پورا جسم فساد میں مبتلا رہے گا۔

اسلام کی عمارت شریعت اور طریقت پر قائم ہے:

ایک عبادت ہوتی ہے اور ایک روحانیت ہوتی ہے ۔ عبادت یہ ہے کہ بغیر ترتیب کے اللہ کا نام لیں جس سے نور نہ بنے ، ہر آدمی یہ کہتا ہے کہ قرآن مجید میں نور موجود ہے لیکن کئی ایسے انڈیا کے جاسوس پاکستان میں پکڑے گئے جنھوں نے تیس تیس سال کسی مسجد میں خطابت کی تھی ، نماز پڑھائی تھی ، اگر قرآن مجید میں نور موجود ہے تو وہ جاسوس جو تیس سال نمازیں پڑھاتا رہا وہ نوری کیوں نہیں بنا !!! اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ تو کافر تھا اس نے دل سے نہیں پڑھا اس لئے نوری نہیں بنا لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کافر تھا لیکن تم تو کافر نہیں تھے لیکن پھر تم نوری کیوں نہیں ہوئے ، شیعہ ، سنی ، وہابی اور دیو بندی بن گئے تویہ کیا ماجرا ہے؟ سرکار گوھر شاہی نے اس معمہ کو بڑی آسانی سے سلجھا دیا کہ قرآن کی جو آیتیں ہیں یہ اللہ کا نور بنانے کے لئے خام مال ہے اب اس کے ساتھ تمھیں طریقہ یعنی علم طریقت بھی درکار ہے ۔ اسلام کی عمارت دو چیزوں پر قائم ہے ایک علم شریعت ہے اور دوسرا علم طریقت ہے۔شریعت کا مطلب قانون ہے اور طریقت کا مطلب طریقہ کار ہے۔
مثال: جیسے اگر کسی ایک اسٹیٹ سے دوسری اسٹیٹ میں جانا ہے تو موٹر وے لینا ہو گا اور وہاں پھر اُس اسٹیٹ کا سائن فالو کرنا ہو گاتو یہ رہنمائی ہو گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قانون بھی ہے کہ کتنی رفتار سے چلانا ہے ، کسی دوسری گاڑی کے بالکل قریب نہیں چلانا ہے ۔ اگرآپ صرف قانون ہی پڑھ لیں اور وہ طریقہ اس اسٹیٹ میں جانے کا نہ ہو تو کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچیں گے ۔آج مسلمانوں کو میں یہی بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ شریعت ایک قانون کی مانندہے کہ یہ کام کرنا ہے اور اس کام کی ممانعت ہے ۔آج کا مسلمان اپنی منزل سے بے خبر ہے ۔فرض کیا آپ کو پتہ چل گیا کہ دوسری اسٹیٹ میں کسطرح جانا ہے ، گاڑی بھی آپ کے پاس موجود ہے لیکن اگر قانون کی پاسداری نہیں کریں گے تو پولیس آپ کو پکڑ لے گی ۔اسی طرح اسلام میں شریعت قانون کی مانند ہے اور طریقت اللہ تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے ۔ اگر شریعت کی پاسداری نہیں کریں گے تو شیطان پکڑ لے گا۔ شریعت کے مسائل کہ نہانا ہے ، جنابت کے بعد نہانا ہے اسطرح وضو کرنا ہے یہ سب قانون ہیں لیکن منزل نہیں ہے ۔شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت بھی بہت ضروری ہے اور یہ جو تعلیم میں بیان کر رہا ہوں یہ طریقت کی تعلیم ہے شریعت کی تعلیم نہیں ہے ، شریعت تو سب کو معلوم ہےجو کہ کتابوں میں موجود ہے لیکن یہ جو طریقت کی تعلیم ہے یہ کتابوں میں مفقود یا ناپید ہے۔جو چیز دستیاب نہیں ہے اسی کی طرف دعوت دینا ضروری ہے ۔ طریقت یعنی اللہ تک پہنچنے کا راستہ “قلب” سے شروع ہوتا ہے اور اللہ کی ذات تک جاتا ہے ۔

اللہ اور اُسکے رسول کی نظر میں ہدایت اور گمراہی کیا ہے؟

اگر مسلمانوں کو فتوے لگانے سے فرصت ہوتو قرآن مجید کو کھنگال کر دیکھیں کہ قرآن مجید نے ہدایت اور گمراہی کس کو کہا ہے ۔ قرآن ، اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں ہدایت کا جو معیار ہے وہ اتنا آسان ہے کہ لوگ اسے سن کر ہی رّ د کر دیتے ہیں ۔جیسے بلھے شاہ نے فرمایا کہ
اک نقطے و چ گل مکد ی اے۔۔۔۔۔۔۔۔پھڑ نقطہ چھو ڑ کتاباں نوں
چھڈ دو ز خ گو ر عذ ا با ں نو ں۔۔۔۔کر صا ف د لےد یا ں خو ا با ں نو ں
گل ا یسے گھر و چ ڈھکد ی اے۔۔۔۔اک نقطے وچ گل مکد ی ا ے

کہ یہ جو تیرا سینہ ہے اس میں جو اللہ نے روحیں رکھیں ہیں اُن کو اسم ذات اللہ سے منور کر لے ، اللہ کے نور اور نام شرح صدر ہو جائے اگر ایسا ہو گیا تو اللہ کی نظر میں تو مومن ہے، بھلے کوئی تجھے کافر، منافق کہےاس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اللہ کے نزدیک گمراہی بھی ایک چھوٹا سا نقطہ ہے۔ہمارا معاشرہ ایسا ہو گیا ہے کہ ہمیں صرف اُلجھایا گیا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئی ہے ۔اب اس آیت کو دیکھیں قرآن مجید ہدایت اور گمراہی کس کو سمجھتا ہے اس آیت میں اللہ نے بھی بتا دیا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ بنا سوچے سمجھے کسی کو کافر کہنا ہو اور اللہ کی بھی حمایت شامل کرنی ہو تو اس آیت میں چیز بتائی گئی ہے اگر وہ موجود ہے تو وہ کافر ہے۔

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورة الزمر آیت نمبر 22
ترجمہ : وہ شخص جس نے اپنا سینہ اسم اللہ سے کھول لیا تو پھر اُس کو اپنے رب کا نور میسر آ جائے گااور تباہی ہے اُن کے لئے جن کے دل اللہ کے ذکر کے لئے سخت ہو گئے۔ ایسے لوگ سخت ترین گمراہی میں ہیں ۔

اب یہ آیت اور اس کا ترجمہ تو آپ لوگوں کے پاس موجود ہے لیکن اس آیت میں ایک ایسی چیز ہے جس سے بات مزید کھل جائے گی ۔قرآن مجید ہم کو حضوؐرکے بجائے مولوی نے پڑھایا ہے اور مولوی کو کسی دوسرے مولوی نے پڑھایا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے لہذا اُن سب کی تفسیر غلط ہے۔قرآن مجید کی کچھ آیتوں میں رمز ہے اور وہ رمز یہ ہے کہ لفظ اللہ کہیں پر اپنی ذات کے لئے استعمال کیا ہے اور کہیں پر وہ اپنے اسم کے لئے استعمال کیا ہے ۔جیسے اگر املا کروائی جائے کہ “لکھو ندیم” تو آپ فوراً سمجھ جائیں کہ “ندیم “نام لکھنا ہےپھر اگر یہ کہا جائے کہ ندیم کو بلاؤ، تو کیا ایسا ہو گا کہ آپ کاغذ میں سے ندیم نام کاٹ کر لے آئیں ۔ایسا تو نہیں ہو گا بلکہ آپ خود سمجھ جائیں گے کہ ندیم کو بلایا جا رہا ہے ۔اسی طرح قرآن میں لفظ اللہ اسم اور ذات کے لئے جو استعمال ہوا ہے وہ ایک بہت اہم نقطہ ہے ۔اگر اس آیت میں بھی اگر ہم یہ مراد لے لیں گے لفظ اللہ یہاں پر اللہ کی ذات کے لئے استعمال ہوا ہے تو اس کا مطلب وہی ہو گاجو جاہل علما نے اس کا ترجمہ کیا ہے جو کہ غلط ہے اور غلط اس لئے ہے کہ “وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور پر ہے” ۔۔ اللہ نے اس کا سینہ کھول دیا اور اس کو نور میسر آ گیا اور جس کا سینہ اللہ نے نہیں کھولا اُس کا کیا قصور ہے ؟ یہ ترجمہ کر کے آپ تو سارا قصور اللہ پر ڈال رہے ہیں اس لئے یہاں اِس آیت کا یہ ترجمہ غلط ہے ۔یہاں اس آیت میں اللہ نے “اسم اللہ” اپنے نام کے لئے استعمال کیا ہے ۔أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ اسکا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ اسم اللہ سے کھول لیا تو پھر اُس کو اپنے رب کا نور میسر آ جائے گا۔پہلے جملے میں اگر اللہ اپنی ذات استعمال کرتا تو دوسرے جملے میں اللہ خود کو تھرڈ پرسن کیوں ظاہر کرتا، پہلے جملے میں اللہ کا نام ہی استعمال ہوا ہے۔یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قلب میں جو اللہ کا نام داخل ہوتا ہے وہ اللہ کی نظر میں ہدایت ہےلہذا سینوں میں اللہ کا نور آ جانا ہی ہدایت ہے۔فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ تباہی ہے اُن کے لئے جن کے دل اللہ کے ذکر کے لئے سخت ہو گئے۔یہاں “فا” مستقبل کا سیغہ ہےاور ویل کا مطلب تباہی ہے ۔تباہی کیا ہے ؟ ایک ایسا شخص جس کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اُس کے سینے میں اللہ کا نور جا سکتا ہے یا نہیں اور وہ عبادتوں میں لگا ہوا ہے ، روزہ ، نماز، حج ، زکوة سب کرتا ہے، سارے فرائض بھی پورے کرتا ہے اور اللہ کے نام کو اپنے دل میں لانے کے لئے وہ کسی کامل مرشد کے سامنے گیا اوراُس کے دل میں اسم اللہ داخل نہیں ہوا تو اُس کی جتنی بھی عبادات ہیں وہ سب تباہ ہو جائیں گی اور اگر اسم اللہ دل میں جاگزیں ہو گیا تو جتنے بھی گناہ کئے ہیں وہ ساری دھل جائیں گے ۔پھر فرمایا کہ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍاور ایسے لوگ سخت ترین گمراہی میں ہیں ۔
گمراہی دل کا اللہ سے غافل ہونا ہے ، جسم تو اللہ نے اپنے لئے بنایا نہیں تھا، جسم تو بیوی ، بچوں ، ماں باپ کے لئے بنایا اور نہ ہی یہ جسم اللہ تک جائے گاکیونکہ یہ جسم اللہ کی طرف سے نہیں آیا ہے۔اس جسم کا اللہ کی یاد سے غافل ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔جو چیزیں اللہ کی طرف سے آئیں ہیں وہ تمھاری روحیں ہیں اُن روحوں میں نور کا داخل ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ انہی روحوں نے لوٹ کر واپس رب کی طرف جانا ہے ۔یہ اتنی چھوٹی سی بات ہے اور اسلام کو اتنا اُلجھا دیا ہے کہ آج کوئی فرقہ وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ عمل ہدایت ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ اللہ کی محبت بھی کسی کے دل میں ہو اور وہ گمراہ بھی ہو ، ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ ایک حدیث بھی ہے کہ ایک صحابی زید بن حارث بار بار شراب نوشی کے جرم میں پکڑا جاتا تھا، تیسری دفعہ جب پکڑا گیا تو صحابہ کرام نے بہت لعن طعن کی تو آپؐ نے صحابہ کو فوراً منع کیا کہ اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ اس کے دل میں اللہ اور اُسکے رسول کی محبت ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے مومن یا ہدایت یافتہ ہونے کا دارومداراُس کے اعمال پر نہیں ہے بلکہ کسی کی نظر پر ہے ۔
مکتب کی کرامت تھی کہ فیضانِ نظر تھا ۔۔۔۔۔سکھلائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر برکت سے زید بن حارث کے دل میں اللہ اور اُس کے رسول کی محبت جاگزیں ہو گئی۔ہدایت دلوں کا منور ہونا ہے۔گمراہی یہ ہے کہ اللہ کا نور تیرے دل میں داخل نہ ہو ۔جب اللہ کا نور دل میں داخل ہو جائے گاتو اب تجھے چاہیے کہ اب قوانین کی بھی پاسداری کرکیونکہ اب نماز پڑھے گاتو قبول ہو گی اور تیری نماز عرش پر پہنچے گی ۔نبی کریمؐ کی ایک حدیث ہے کہ دل میں نور جانے کے بعدپوری زندگی میں دو رکعت نماز بھی پڑھ لی تو تیری بخشش کے وہی کافی ہے اور اگر مستقل نماز پڑھتا رہے گاتو دل کا نور بڑھتا رہے گا اور ایک دن تجھے اللہ کا دوست بنا دے گا۔نمازیں اور دیگر عبادات اس میں تیزی لے آتے ہیں لیکن اگر اللہ کا نام دل میں چلا گیا تو کوئی گناہ اس سے بڑا نہیں ہے ۔دل میں جو اللہ اللہ ہو گی وہ تمھارے گناہوں کو دھوتا رہے گااور تجھے پاک رکھے گااور اگر تو گناہ کم کر دے گا تو اسے دھونا نہیں پڑے گاتو پھر وہ نور دل کو چمکائے گااور اللہ کی طرف جانا شروع ہو جائے گا۔اگر نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزہ بھی رکھتے ہو تو اللہ تک پہنچنے کا جو عمل ہے اس میں تیزی آ جائے گی لیکن اگر وہ نہیں کیا تو پھر بھی تم کو گمراہ کوئی نہیں کہہ سکتا ، تم جہنم میں نہیں جا سکتےاس لئے کہ حضوؐرکی ایک حدیث ہے”جس میں رائی برابر بھی نور کی کرن ہو گی وہ اگر جہنم کے پانچ سو میل دور کی مسافت سے گزر گیا تو وہ جہنم کی آگ بجھ جائے گی”۔ یہ گارنٹی اللہ نے دے دی ہے کہ جس کے دل میں اللہ کا نام داخل ہو گیا وہ جہنم میں نہیں جا سکتا۔
اگر آپ خلامیں چلے جائیں اور کسی چیز کو پانچ میل کی رفتار سے چھوڑا ہے تو عام گمان یہ ہے کہ وہ اُسی رفتار سے گھومتا رہے گا۔اسی طرح یہ جو دل دھڑک رہا ہے اور اس دھڑکن میں اللہ کا نام آگیا تو جب تک یہ دل دھڑکتا رہے گا یہ اللہ اللہ رکے گی نہیں۔اور میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسان کا دل موت واقع ہونے کے بعد بھی ڈیڑھ منٹ تک دھڑکتا ہے۔اب وہ حدیث بھی ہے کہ” مرتے وقت جس کی زبان پر کلمہ ہو گاوہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائےگا”۔اگر دل کی دھڑکنوں میں اللہ کا نام چلا گیا تو مرتے وقت بھی دل اللہ اللہ کر رہا تھااور مرنے کے بعد بھی ڈیڑھ منٹ تک اللہ اللہ ہوتی رہے گی ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذکر اللہ کو بھی بدعت سمجھتے ہیں جبکہ اسم اللہ قرآن کا ماخذ ہے ، اللہ کے نام سے بڑی تو کوئی چیز نہیں ہےپھر اس نام کو دل کی دھڑکنوں میں بسا رہے ہیں تو اس میں کیا بدعت ہے۔اللہ کے نام کو دل میں اُتارنے سے اللہ کی کیا گستاخی ہے۔یہاں تو اللہ کو پانے اور اس سے محبت کرنے کی بات ہو رہی ہے ، اپنے سینے میں نورِ توحید جاگزیں کرنے کی بات ہورہی ہے ۔اللہ کا نام جب دل میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے بہت سے فوائد ہیں لیکن ایک خاص فائدہ جو ہے وہ یہ کہ کم از کم 101 دفعہ وہ اللہ کا نام ٹکرائے رکے بغیر تو پھر نور بننا شروع ہو جائےگا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 13 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کی گئی ہے۔

متعلقہ پوسٹس