کیٹیگری: مضامین

موجودہ معاشرے کا مکروہ چہرہ:

پاکستان میں انسانی زندگیوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی، لاتعدادطریقوں سے انسان مر رہے ہیں جسے گنا نہیں جا سکتا ۔ ملاوٹ شدہ اجزائے خوردونوش ، ملاوٹ شدہ دوائیاں ،اسپتال چلے جائیں تو کہیں آکسیجن ہے اور کہیں نہیں ہے ۔بجلی نہیں ہے ۔لوگ گندا پانی پی رہے ہیں جس کی وجہ سے ہپاٹائیٹس اے، بی،سی ہو رہا ہے۔پھر دہشت گردی کا بھی وبال ہے ۔پھر مذہبی تنظیموں کے اندر آپس میں ٹسل اور ان کی ٹارگٹ کلینگ۔سیاسی پارٹیوں کی آپس میں ٹسل ہے، حکمرانوں نے الگ لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ ان کی جو لالچ ہے اس سے بھی اموات واقع ہو رہی ہے ۔جیسے نواز شریف نے پی آئی اے کے جہازوں کی مرمت اس لیے نہیں کرواتے کہ جب جہاز سارے خراب ہو جائیں تو پھر ان کو اونے پونے میں خود خرید لیں۔ جہاز کے عملے کو خطرہ الگ اور مسافروں کا الگ جانی نقصان۔اگر آپ حکومت میں ہیں تو اب پاکستان میں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ، اندھی نگری چوپٹ راج۔انسانی جان کا ضیاع بہت تکلیف دہ بات ہے۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جب اللہ چاہتا ہے بچا لیتا ہے۔اور جب چاہتا ہے مار دیتا ہے ۔ لیکن اس طرح کے جو واقعات سے پتہ چلتا ہے پتہ نہیں موت کب لکھی تھی لیکن لوگوں نے پہلے ہی مار دیا۔اس بات کا بڑا دکھ ہے کہ اس بات کو کرنے کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ اس ملک میں کسی کی شنوائی نہیں ہے، جو پاور میں ہے وہ خدا ہے۔
جس کا دل اللہ اللہ کر رہا ہےاس کو دعائوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرتے وقت جس کی زبان پر کلمہ ہوگا وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائے گا۔ اور جب کسی کا دل اللہ اللہ میں لگ جاتا ہے تو سوتے میں تو اللہ اللہ کرتا ہی ہے جب قبر میں جائے گا تب بھی اللہ اللہ کرے گا تو جنت کی تو گارنٹی ہو گی اور یہ گارنٹی اس لیے ہے کہ جس کو اللہ چاہتا ہے اسی کا دل اللہ اللہ کرتا ہے،اگر یہ انسان کے ہاتھ میں ہوتا تو سب ہی ولی بن جاتے۔ دل اللہ کی مرضی سے اللہ اللہ میں لگتا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اللہ جن لوگوں کو منظور کرتا ہےکہ ان کے دل میں میرا نام داخل ہو جائے تو ا س منظوری کا اللہ کی طرف سے مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ میں نے اب اس کو اپنا ولی دوست خواجہ قطب بنانا ہے۔ دل کا اللہ اللہ کرنا بھی ایک چھوٹی سی ولائیت ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جو رک نہیں رہی ہے ، ہر وقت چل رہی ہے۔ تسبیح جب تک پڑھیں گے تب تک ہی ہے چوبیس گھنٹے تو نہیں کر سکتے۔ کھانا کھانا ہے ، اور کام بھی کرنے ہیں تب تسبیح رک جاتی ہے۔ لیکن دل کی تسبیح جب اللہ اللہ کرنا شروع ہو جاتی ہے تو رکتی نہیں کچھ بھی کرلیں۔

اللہ دوست کیوں بنائے گا؟

جسطرح امریکہ کے صدر کی تنخواہ صدر ہونے پر جو ہوگی لیکن جب وہ ریٹائرڈ ہونے پر صدر نہیں رہے گا تب بھی اس کی تنخواہ آدھی ملتی رہتی ہے۔تاکہ اس کا جو معیار بن گیا ہے وہ برقرار رہے۔ دس سال بعد بھی وہ خوشحال ہو۔یہی کام اللہ بھی کرتا ہے کہ اللہ جب بندے کو دوست بناتا ہے تو نور کا سسٹم لگا دیتا ہے تاکہ وہ غفلت میں نہ جائے۔ میں اس کو ہر وقت یاد رہوں ۔ انسان پر کبھی کبھی مذہب کا جوش چڑھتا ہےپھر وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہے سب کچھ کرتا ہے ۔پھر اچانک دیکھتے ہیں کہ دو چار سال بعد کرنے کے بعد پھر ویسے ہی گناہ کار زندگی میں لگ گیا وہ ۔پھر غافل ہو جاتا ہے،۔ غافل کیوں ہو گیا ؟ غافل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب گنا ہ کرتے ہیں تو دل پر سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے ، دل کی سیاھی جیسے جیسے بڑھتی ہے غفلت بھی بڑھتی جاتی ہے دل رب کی طرف مائل نہیں ہوتا۔کبھی اچھائی کا خیال نہیں آتا ۔ چمکتا دل ہی رب کی طرف مائل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ امر بالمعروفیعنی اچھائی کی ترغیب دو ۔ اچھائی کی ترغیب یہ ہے جو دل دیتا ہے ۔ اور ترغیب کیا ہے کہ اگر چاہتے ہو کہ تمھار ا دھیان اللہ کی طرف رہے تو اپنے دل کو نور سے چمکاتے رہو۔ اس میں اللہ کا نام بساتے رہو اس میں ذکر اللہ ہوتا رہے ۔جب تک اس میں ذکر اللہ ہوتا رہے گا وہ دل تم کو اللہ کی طرف کھینچتا رہے گا۔جب وہ کالا ہو گیا ہے گناہوں کی وجہ سے تو پھر آپ کو اللہ کا خیال بھی نہیں آئے گا۔قرآن مجید کی ایک اور آیت میں لکھا ہے

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورۃ الکھف آیت نمبر 28
ترجمہ : ان لوگوں کی پیروی نہ کرنا جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے۔

یعنی اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ غفلت کا براہ راست تعلق قلب کا ذکر نہ کرنے سے ہے۔ انسان کا بھروسہ نہیں آج نمازی ہے کل چور بن جائے۔ لیکن جب اللہ کیطرف سے منظوری ہو جاتی ہے تو منظوری کے وقت ہی اللہ ایسا بندوبست کر دیتا ہے کہ اب یہ غفلت کی طرف نہ جائے۔غفلت سے دور رہنے کا ایک ہی طریقہ ہےکہ اس پر سیاہ دھبے لگتے جاتے ہیں۔ تو دل کو اللہ اللہ میں لگا کر رکھو اس سے سیاہ دھبے دور ہوں گے اور دل اللہ سے کبھی غافل نہیں ہو گا۔یہ راز تو اللہ کی طرف سے ملا ہے کہ اگر غفلت سے دور رہنا ہے تو دل کو اللہ اللہ میں لگا کر رکھو۔جس کا قلب ایک دفعہ جاری ہو گیا اس کو ولیوں میں شمار اس لئے کیا جاسکتا ہے کہ اب اس پر غفلت آ نہیں سکتی ۔کیونکہ اگر ا س کے دل پر سیاہی آئے گی بھی تو وہ دل کا ذکر اس کو دھوتا رہے گا اس طرح رب سے غافل نہیں ہو گا۔ اسی لیے ذاکر قلبی کا شمار ولائیت میں ہوتا ہے۔ولی وہ ہوتا ہے وہ خود تو خود بلکہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی اللہ سے غافل نہیں ہونے دے گا۔جب دل ایک مرتبہ اللہ کرتا ہے تو اللہ بہتر ہزار قرآان شریف پڑھنے کا ثواب دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے کہا
ساڑھے تین کروڑاللہ اللہ کہنے کا ثواب اور ملے گا

وہ کیسے ؟ کہ یہ جسم میں ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں ۔ ایک دفعہ دل نے اللہ اللہ کہا ساڑھے تین کروڑ آوازیں وہاں سے بھی گونجیں ۔انسان ساری زندگی بھی قرآن پڑھتا رہے ،ساڑھے تین کروڑ قرآن نہیں پڑھ سکتا۔اور یہاں دل نے ایک دفعہ اللہ ھو کہا تو اللہ تعالی نے بہتر ہزار قرآن پڑھنے کا ثواب اور نور دیا ۔یہ جو دل ہے یہ ایک گھنٹے میں ساڑھے تین ہزار سے چھ ہزار دفعہ تک اللہ اللہ کر سکتا ہے ۔پھر چوبیس گھنٹے میں تو سوا لاکھ سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ فرض کرواگر تمھارے دل نے پچاس ہزار دفعہ بھی اللہ اللہ کیا تو پچاس ہزار کو بہتر ہزار قرآن سے ضرب کر کے دیکھو۔ بہتر ہزارقرآن پڑھنے کا ثواب کیسے ملتا ہے؟ حضرت علی نے فرمایا
پوراقرآن سورہ فاتحہ میں بند ہے اور سورہ فاتحہ کی جو چابی ہے وہ سورۃ اخلاص میں بند ہے۔اور اس کا جو مغز ہے وہ اسم اللہ میں بند ہے۔ جب اسم اللہ کا رگڑا لگے گا تواس سےنورکی شعائیں نکلیں گی۔قرآن ،تورایت، زبور، انجیل یہ سب اللہ کے ناموں سے نکلی ہیں ۔جیسے یہ انجیل ہے ، عیسیٰ کو ’’یا قدوس‘‘ کا نام عطا ہوا یہ انجیل وہاں سے نکلی جو یا قدوس کا ذکر کرنے لگ جائے گا تو خود بخود انجیل کی آیتیں تمھارے اوپر نازل ہونا شروع ہو جائیں گیں۔’’ یا رحمان‘‘ کا ذکر کرنے لگ جائو گے تو خود بخود موسی کے دین کی سمجھ آنے لگ جائے گی۔

حدیث کے سچے یا جھوٹے ہونے کی کسوٹی:

ابھی تو محمدؐ کا نام زبان سے کہہ رہے ہیں ، جب کسی کو یا محمدؐ کا اسم عطا ہو گیا تب وہ حدیث پڑھے ۔ پھر تصورکرو حدیث کا، اگر حدیث کے الفاظوں میں نور جانا شروع ہو گیا تو سمجھ جائو سچی حدیث ہے ۔اور اگر نہیں جانا شروع ہوا تو سمجھ لینا جھوٹی حدیث ہے اب یہ جو اسم ذات اللہ ہے جب جبرائیل امین آئے حضور پاک کے پاس پہلی دفعہ تو پہلی آیت کیا تھا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
سورۃ العلق آیت 1

میں اقرار کرتا ہوں جو رب کا اسم تم نے دیا ہے مجھے ۔اب جب وہ رب کا اسم اندر آ گیا اُسی اسم کے اندر سے یہ قرآن کی آیتیں نکلتی ہیں۔ جب دل بالکل پاک صاف ہو گیا، منور ہو گیا مکمل تو پھر دل سے ایک فرشتہ نکلے گا، وہ آپ جیسا ہی ہوگا۔ اس فرشتے کے پاس اللہ کی طرف سے ایک پرندہ ہے جس کے بہتر ہزار منہ ہیں وہ ان بہتر ہزار منہ سے اسم اللہ بولے گا تو اسطرح تم کو بہتر ہزار قرآن کا ثواب ملے گا۔ زبان سے کہنے سے بہتر ہزار کا ثواب کیوں نہیں ملا ؟ زبان سے اگر تم نے اللہ اسم اللہ کہا تو قرآن تو پھر بھی سمجھ نہیں آیا تمھارے ۔جب دل اللہ کہے گا تو پورے دل کیسے شعاعیں نکلیں گی ۔جب اسم اللہ کہو اور قرآن کا نور نکلنے لگے توپھر وہ قرآن پڑھنا ہی ہوا ۔جب دل اللہ کرے گا تو اس کے رگڑے سے نور نکلے گا وہی جو قرآن کی تلاوت سے نکلتا ہے ۔یعنی جب لطیفہ قلب اسم اللہ کا ورد کرے گا تو وہ عام اسم نہیں ہو گا۔ وہ وہی اسم ہو گا جو جبرائیل نے قلب محمد ؐ میں رکھا تھا۔ جب وہ اسم اندر آگیا تو سارا قرآن تمھارے سینے میں آ جائے گا۔ کیونکہ قرآن کا نور اسم ذات اللہ سے ہی آتا ہے، الگ نہیں ہے ۔تو علامہ اقبال نے کہا کہ
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

جب اللہ اللہ کا ذکر اس کے قلب میں ٹکراتا ہے توپھر وہ پھول کی طرح کھلتا ہے جیسے کونپلیں نکلتیں ہیں پھول کی ۔وہی نور جو سورۃ رحمان کا ہے ، سورۃ یاسین کا ہے،سورۃ مزمل کا ہے ، سورۃ مدثر کا ہے ۔ تمام سورتوں کے نور اسم ذات اللہ سےنکلاہے ۔اسم ذات سےوہ صفات نکل رہی ہیں جس میں قرآن بھی شامل ہے۔جیسے بلھے شاہ نے کہا
اکو الف تیرے درکار۔۔۔ ب توں بس کریں او یار
یعنی تجھے صرف الف درکار ہے ، ب کو چھوڑ دے ۔ جب الف سے اللہ اللہ دل میں چلا گیا تو پھر اللہ اللہ سے قرآن کا نور بھی دل میں چلا گیا۔اسلیئےپھر اعمال کا حساب کتاب کیسے کرے گا۔ یہ تومومن کا مقام ہے۔ کئی ملین قرآن پڑھو تو کیا عالم ہو گا آپ کی نورانیت کا !!! عام مسلمان نے تو کوشش کی کہ اس سے غلط کام نہ ہوں۔ کبھی اعضاء اس کے تابع ہو گئے کبھی نہیں ہوئے۔ ایک حدیث میں آیا کہ

اتَّقُوا فِراسَةَ المؤمنِ ؛ فإنّهُ يَنظُرُ بنورِ اللّه
ترجمہ : مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

مومن کی آنکھوں میں نور کہاں سے آیا ؟ مومن ہے وہی جس کے دل میں اللہ کا نور آ گیا اور پھر دل سے وہ نور نکل کار نس نس میں دوڑا توتمام جسم تابع ہو گیا۔ ابھی تو آپ نے چاہا کہ اپنے جسم کو اللہ کے احکام کا تابع کر لیں۔کبھی آپ نے کیا اور کبھی آپ نے نہیں کیا ۔ جسطرح حدیث شریف میں ہے کہ عورتوں کا جب پتہ چلے تو اپنی نگاہیں نیچی کر لو ۔کبھی آپ نے اپنے اعضا کو تابع کیا اور کبھی نہیں کیا ۔جھوٹ نہ بولو، کبھی آپ نے اپنی زبان کو تابع کیا اور کبھی نہیں کیا ۔آپ اپنے جسم کومکمل قابو نہیں کروا سکے کیونکہ یہ طریقہ ہی نہیں ہے وہ کونسا طریقہ ہے جس سے انسان کا وجود مکمل اللہ کے تابع ہو جاتاہے ۔وہ طریقہ نور کا ہے کہ جب نس نس میں نور پہنچ گیا تو تمام جسم نور کے تابع ہو گیا ۔اب جسم وہی کرے گا جو اللہ چاہے گا۔جب آپ نے خود کو اللہ کے ہاتھوں میں دے دیا ، اسلام کا تو مطلب ہی سپردگی ہے ۔صرف یہی طریقہ ہے جب نس نس میں نور جائے گا تو ہر چیز اللہ کے تابع ہو جائے گی۔ یہ مومن کا مقام ہے۔
ولی کیا ہے؟ ولی وہ ہے جو اپنی تمام روحوں کو تیار کرے اور حضور کے وسیلہ سے مقام محمود پر جائے اور اللہ کا دیدار اسے میسر ہو جائے۔جب اللہ تعالی کا دیدار ہو جائے گاتو اس کا نقش آپ کے دل پر آکر بیٹھ جائےگا ۔پھر اللہ اس قلب کو جس پر اس کا نقش آکر بیٹھ گیا ہے وہ تین سو ساٹھ مرتبہ روزانہ دیکھے گا۔انوارو تجلیات تین سو ساٹھ پڑیں گی۔ان تین سو ساٹھ میں سے ایک نظر رحمت سات کبیرہ گناہوں کو جلا دیتی ہے۔اب وہ ولی تو نور اعلی نور ہو جاتا ہے اس کے کیا گناہ ہوں گے۔ جو اس کے قریب بیٹھنے والے ہیں ان کے گناہ اس تجلی کی زد میں آنے سے جل جاتے ہیں، ان کے دل چمکنا شروع ہو جاتے ہیں اور گناہ دھلتے رہتے ہیں ۔خود بخود لوگوں کا دل نیک کا م کرنے کو چاہتا ہے کیونکہ نور کی بارش میں آ گئے۔ یہ ہے امر بالمعروف۔
ابنہی عن المنکر کیا ہے؟ منکر کا مطلب وہ چیزیں جن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ نہی عن المنکر برائی سے روکنا اور برائی کی جڑ آپ کے اندر آپ کا لطیفہ نفس ہے ۔ اس کی نار روک کر اس کو کلمہ پڑھانا ، اس کو نور فراہم کرنا یہنہی عن المنکر ہو گیا ۔ اب جب شیطان کو کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا دیا تو اب برائی کون کرے گا؟

مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوہر کی لائیو گفتگو سے ماخوز

متعلقہ پوسٹس