- 949وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
ذکر کی مشق اور سیدنا گوھر شاہی کا وضع کردہ طریقہ :
ذکر قلب کی مشق کے کئی طریقے ہیں سرکار سیدنا گوھر شاہی نے جو عوامی سطح اور نجی محافل میں ذکر قلب کی مشق بیان فرمائی ہے ا سمیں کئی طریقے بیان فرمائے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم وہ بات لوگوں کو بتاتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول اور مہذب ہو ورنہ دیگر صوفیا کرام نے دھمال بھی کروایا ہے جیسے بلھے شاہ نے کہا نچ نچ کہ یار منا لے ، پاویں کنجری بننا پے جاوے۔ کچھ ولیوں نے دیواریں چنوائیں یعنی محنت کا کام کرنا آج کی زبان میں کوئی ایسا کام کرنا جو کہ (Cardio Vascular) ہو جس میں دل کی دھڑکنیں ابھریں ۔سیدنا گوھر شاہی نے مسلمانوں کی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر کرنے کا آسان اور مہذب طریقہ ایجاد فرمایا ہے۔ ذکر کرنے کے لیے لائٹ بند کرکے دائرے کی شکل میں بیٹھ کر” اللہ ھو” کی ضربیں لگاتے ہیں اس سے بھی دل کی دھڑکنیں ابھرتی ہیں لیکن اس میں نفس کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے لہذا لوگ اس کی طرف اتنے زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔نفس کی مرغوب غذا ساز و آواز ہے، ہم خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن سن کر کہتے ہیں مزا آرہا ہے تو وہ مزا آپ کو نہیں آتا بلکہ آپ کے لطیفہ نفس کو مزا آ رہا ہوتا ہے ۔ جب اچھے سُر اور تال والا گانا سنتے ہیں تو بھی مزا آتا ہے اور پائوں خود بخود تھرکنے لگ جاتے ہیں ۔اہم ترین قابل توجہ بات جو کہ ایک راز ہےدل میں اللہ ھو کا داخل ہو جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے نہ اس کا اس میں کوئی عمل دخل ہے کہ جو اس کام کاوسیلہ بنا ہوا ہے یہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی کسی کو پسند کر لے۔ اگر دل نے اللہ کے ذکر کو قبول کر لیا تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ اللہ نے تجھے اپنی بارگاہ میں دوستی کے لیے قبول کر لیا ہے۔
اللہ کی دوستی کی باطنی مراعات کیا ہیں؟
جب اللہ کسی کو دوستی کے لئے قبول کر لیتا ہے توسب سے پہلے اس کے قلب کو بالکل دھو دیتا ہے یعنی اس کے جتنے بھی پچھلے گناہ ہیں ان سب کو اللہ دھو دیتا ہے اور وہ بندہ ایسا ہو جاتا ہے کہ جیسے نوزائیدہ بچہ گناہوں کے بغیر ہوتا ہے ، اب جو گناہ اس کے مستقبل میں ہوں گے ان کا کیا بنے گا؟ وہ جو اللہ اللہ دل میں شروع ہو گئی ہے مستقبل کے گناہوں کو اس اللہ اللہ کا نور دھوتا رہے گا تو اب وہ بندہ اب اللہ کی نظر میں ہمیشہ صاف اور پاک رہے گا۔اگر آپ ڈسکو یا کلب جاتے ہیں، گرل فرینڈ بناتے ہیں تو کیا یہ بات اللہ کو نہیں معلوم؟ اللہ کو سب معلوم ہے صرف آپ کے آج کے گناہ ہی نہیں اللہ تعالی انسان کے ماضی حال اور مستقبل تینوں کو جانتے ہوئے اگر کسی کو اپنی دوستی میں قبول کر لیتا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ اگر مستقبل میں آپ سے کوئی اونچ نیچ ہو جائے گی تو وہ آپ کو چھوڑے گا نہیں کیونکہ”اگر اللہ نے کسی کو چھوڑنا ہو تو وہ پکڑتا نہیں اور جس کو پکڑ لے اس کو چھوڑتا نہیں “۔اگر ایک دفعہ اللہ دل میں آ گیا تو بس یوں سمجھ لیں لاٹری نکل آئی اب اللہ بے وفائی نہیں کرتا ، اگر بہت زیادہ گناہوں کی طرف جائیں گے تو آنکھوں میں لفظ اللہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور آدمی گناہ سے باز آ جاتا ہے ، یہ اللہ کی دوستی کا راز ہے۔دلوں میں اللہ کے ذکر اور نور کا داخل ہوجانا یہ ایسی عجیب بات ہے جو صرف ان لوگوں کو سمجھ آتی ہے کہ جن لوگوں نے یوم ازل میں رب کی گواہی میں کلمہ پڑھا تھا اور جنہوں نے وہاں دنیا پسند کی تھی بھلے وہ یہاں پر مولانا و عالم کیوں نہ ہوں ان کے پلے یہ باتیں نہیں پڑتیں وہ یہ ہی کہیں گے دل میں اللہ اللہ کا جانا شرک ہے کیونکہ یہ نماز کی تو بات ہی نہیں کر رہے، اس طرح کے بیہودہ کلمات ان کی زبان سے جب نکلتے ہیں تو اللہ کو بہت برا لگتا ہے اور اللہ ان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
اللہ کی توجہ حاصل کرنے کا گرُ:
در حقیقت انسان کی ہدایت اور جس صراط مستقیم کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے وہ دل میں اللہ کے نور کا داخل ہونا ہے۔ دل میں اللہ اللہ آجانے کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے کا ہم نے کبھی نہیں کہا لوگ خود ہی ایسی باتیں اڑا دیتے ہیں ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو وقت آیا ہے کہ آپ نماز پڑھیں کیونکہ ذکر قلب جاری ہونے سے پہلے آپ کی نمازیں یہیں پر گردش کر رہی تھیں دل میں نور آجانے کے بعد روزوں کا اور تلاوت قرآن کا مزا ہے۔ دل میں نور آنے کے بعد ہی تونماز آپ کو برائیوں بے حیائیوں سے روکے گی ۔کیا نماز بھی کسی چیز کی محتاج ہے؟ اصل بات جو ہے وہ ہے ایمان ، اگر ایمان نہیں ہے تو نماز کیا کچھ بھی کرتے رہو اللہ کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ اس کے لیے اللہ کے پاس رجسٹر ہونا بڑا ضروری ہے، جب دل میں اللہ کا نور بننا شروع ہو جاتا ہے تو دھیرے دھیرے وہ نور خود بخود انسان کو مختلف کاموں میں لگا دےگا کہ بڑا مزا آرہا ہے چلو اب نماز ادا کر لوں ،اور وہ ایسی نماز ہوتی ہے کہ جس نمازمیں دنیا یا بیوی بچوں یا پیسوں کے خیالات آنے کے بجائے ایک مستی ہوتی ہے دل کی دھڑکنیں اللہ کے نام سے تیز تیز گونج رہی ہوتی ہیں ،دل پسلیوں کے دائیں بائیں ٹکرا رہا ہوتا ہے کیف و سرور کی انتہا ہوتی ہے جذبات کا بحر بیکراں کا تلاطم عشق بپا ہوتا ہے وہ ایسی نماز ہوتی ہے۔اللہ کے نور کا دل میں داخل ہونا دراصل اللہ سے جڑ جانے کا نام ہے، اب اگر اللہ کی نظروں میں آ گئے اللہ نے اپنے کھونٹے سے باندھ لیا اب وہ آپ کو پکڑ کر رکھے گا اور یہ بہت ہی بڑی بات ہے۔فرمان گوھر شاہی ہے کہ”چھوٹا سا انسان اتنے بڑے اللہ کو دل میں نہیں لاتا بلکہ وہ اللہ میں داخل ہو جاتا ہے”
“اگر اللہ کی روح ایک سمندر ہے تو آپ کی روح اس بحرسے نکلا ہوا ایک قطرہ ہے ، اُس قطرے کا بحر میں واپس جانا انسان کی حقیقت ہے”
نماز ِحقیقت کیا ہے ؟
فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ
سورة النسا٫ آیت نمبر 103
ترجمہ: جب تمہاری نمازیں قضا ہونے لگ جائیں تو پھر ایسا ذکر سیکھ لینا کہ جو کھڑے بیٹھے حتی کے کروٹوں کے بل بھی ہوتا ہواور جب قلب میں دوبارہ اطمینان داخل ہو جائے تو پھر نماز پڑھ لینا۔
نماز وہ ہوتی ہے جو اللہ تک پہنچےاور یہ نمازیں تحفہ ہیں جو معراج میں اللہ نے اپنے حبیب کو دیا۔نماز کسی اور امت کو عطا نہیں ہوئی نماز صرف نبی پاکؐ کی امت کو عطا ہوئی ۔نماز کی حقیقت کیا ہے؟ اللہ تعالی نے کچھ خاص ملائکہ اور کچھ خاص فرشتے ایسے بنائے کہ جو ہر وقت اس کو سجدہ کرتے، کچھ فرشتے ایسے بنائے جو ہر وقت قیام میں ہیں اور کچھ فرشتے اللہ نے ایسے بنائے جو ہر وقت رکوع میں ہیں قرآن میں ہے
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 43
رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو لیکن آپ مطلب جانے بغیر آگے نکل جاتے ہیں اور جو باجماعت نماز آپ پڑھ رہے ہیں کیا قرآن میں ان ہی کے ساتھ نماز پڑھنے کا کہا گیا ہے؟ باجماعت والے تو پوری نماز پڑھ رہے ہیں لیکن اللہ تو کہہ رہا ہے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔وہ رکوع کرنے والے کون ہیں ؟وہ ان ملائکہ کی طرف اشارہ ہے جنہیں اللہ نے صرف رکوع کرنے کے لیے بنایا ہے۔ کچھ ملائکہ اور فرشتے ایسے ہیں جنہیں قعد میں دو زانو بیٹھ کر عبادت کرنےکے لیے بنایا ہے۔نبی پاکؐ کو اللہ نے عبادت کا وہ طریقہ بنا کر دیاہے جس میں تمام ملائکہ کا طرز عبادت اللہ نے مکس کر دیا ۔ عرش کی مخلوق کی عبادت بھی اس میں آگئی ، قیام کرنے والوں کی عبادت بھی اس میں آگئی، قعد کرنے والوں کی عبادت بھی اس میں آ گئی ،جو رکوع میں ہیں ان کی عبادت بھی آ گئی۔
قعد میں دوزانوبیٹھ کر التحیات پڑھنے کا واقعہ :
جب حضور پاکؐ شب معراج میں پہنچے تو وہاں اللہ اور محمد رسول اللہ کے مابین ہونے والی گفتگو التحیات ہے جس میں کہا جاتا ہے سلام ہے صالحین پر،سلام ہے ان کے نبی پر اور یہ الفاظ جبرائیل امین کہہ رہے ہیں ۔ اللہ تعالی نے شب معراج میں ہونے والی اس گفتگو کو نماز کا حصہ بنا دیا تاکہ ہر مسلمان روزآنہ پانچ مرتبہ ان الفاظ کو دہرائے، تو نماز کتنی افضل چیز ہے اس کو ادا کرنے میں کتنا مزا آنا چاہیےکہ نماز میں التحیات اس گفتگو کی یادگار ہے اور آپ نماز میں اس گفتگو کو دہرا رہے ہیں ۔ اگر یہ بات عام ہو تو ہر نمازی اسی لمحے اس تصور میں چلا جائے گا کہ یہ وہ گفتگو ہے جو اللہ اور اس کے محبوب کے مابین شب معراج میں ہوئی۔ جو لوگ کہتے ہیں صالحین کا ذکر کرنا شرک ہے ان کا کیا بنے گا؟ اور تم جو نماز پڑھ رہے ہو اس نماز میں اللہ اپنے صالحین پر سلام بھیج رہا ہے کیا ان کی صحبت میں بیٹھنا شرک ہو گا؟
اللہ اور حضوؐر کی گفتگو ہو رہی ہے اور یہ جملہ جبرائیل امین نے کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان رسول اللہ۔۔۔۔میں شہادت دیتا ہوں کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ اللہ کے عبد اور رسول ہیں ۔نماز ادا کرنے والے کو پتا ہی نہیں وہ کیا پڑھ رہا ہے اور نماز کہاں تک پہنچ سکتی ہے ،اگر التحیات پڑھنے والے کو پتا ہو وہ کیا پڑھ رہا ہے تو نماز پڑھتے ہوئے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے کہ یہ الفاظ جو میں دہرا رہا ہوں یہ الفاظ تو اللہ نے کہے تھے ، اور یہ الفاظ اللہ کے رسول نے کہے تھے اور یہ الفاظ جبرائیل امین نے دہرائے تھے، کیا مدہوشی اور سرشاری کا عالم ہو گا اور اس کیف و سرور میں ڈوبی ہوئی نماز جب اللہ تک پہنچے گی تو اللہ کو کتنی خوشی ہو گی۔جس بندے کی نماز اللہ تک نہیں پہنچتی وہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے وہ بے نمازی ہے، کچھ لوگ نماز نہیں پڑھتے اور بہت سے لوگ بے نمازی اس لیے ہیں کہ وہ نماز صحیح نہیں پڑھ رہے کیونکہ حدیث نبوی ہے کہ ۔۔۔ لاالصلوة الا بحضور القلب۔۔۔ ، قلب کے حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، تو ایسی نماز تو درست ہی نہیں کیونکہ وہ اللہ تک تو جا ہی نہیں رہی۔دو بے نمازیوں میں سے کون بہتر ہے؟ایک وہ جو نماز پڑھ رہا ہے لیکن قلب حاضر نہیں اور اس کو پتا ہی نہیں وہ نماز پڑھنے کے باوجود بے نمازی ہے اور نماز پڑھنے کا نمازی ہونے کا تکبر اس میں پیدا ہو رہا ہےاور بے نمازی کو حقارت سے دیکھ رہا ہے ۔دوسرا وہ جو نماز نہیں پڑھ رہا لیکن اندر ایک احساس ندامت ہے کہ میں نماز نہیں پڑھ رہا میں تو بڑا گناہ گار ہوں تو ایسا بے نمازی بہتر رہے گا۔نماز حقیقت کی تلاش کرنی چاہئیے نماز بہت بڑی چیز ہے ، یہاں تک کہ حضور پاک نے نماز کے لیے فرمایا ۔۔۔الصلوة معراج المومنین ۔۔۔۔۔نماز مومنین کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے ۔
لیکن اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ نماز معراج کو جا بھی رہی ہے! کیونکہ ہم تو یہیں ٹکریں مار رہے ہیں ، ہم کو نماز حقیقت سیکھنی چاہیے، نماز عظیم ترین عبادتوں میں سے ایک ہے ، اس زمین پر رہتے ہوئے اس سے بڑھ کر عبادت انسان نہیں کر سکتا لیکن نماز وہ جو اللہ تک پہنچ رہی ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 21 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔