کیٹیگری: مضامین

مذہب ذاتی نوعیت کی چیز ہے اور کسی دوسرے کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے :

جب ہماری نوجوان نسل کو تصوف کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو وہ اس کے بارے میں بڑے مشکوک ہوتے ہیں اور مشکوک اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ تصوف کی تعلیم ناپید ہوچکی ہے اور پیری فقیری کے نام پر جو کچھ انہوں نے پاکستان میں دیکھا وہ قابل نفرت اور کراہیت آمیز ہے ، شیطان صفت جاہل پیروں اور فقیروں سے نوجوان متنفر ہو گیا ہے۔ ایک سچے صوفی کامل مرشد کی صحبت اگر لوگوں کو ملتی تو ان کو پتا ہوتا کہ صوفی کیا ہوتا ہے۔آئے دن اطلاعات ملتی ہیں کہ نوجوان سیدنا گوھر شاہی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر روحانیت میں لگ جاتے ہیں اور ان کے والدین اس بات پر ان سے خفا ہو جاتے ہیں کہتے ہیں کہ تم نے کفر کا راستہ اختیار کر لیا ہے تم گمراہ ہو گئے ہو۔ اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے ہر آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اس کے نقش قدم پر چلے لیکن صرف وہی والدین اس سوچ میں حق بجانب ہوں گے کہ جو خود ہدایت پر ہوں لیکن اگر والدین خود فرقہ واریت میں بٹے ہوئے ہیں ، اللہ سے دور ہیں ، دین کی معلومات نہیں ہے اور فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہوں تو پھر ایسی خواہش ظلم اور زیادتی کہلائے گی۔ ماں باپ کا ادب کرنا چاہئیے رشتہ داروں کا ادب کرنا چاہئیے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ، والدین ہونے کے ناطے آپ اتنا حق رکھتے ہیں لیکن جب بات رب کی آ جاتی ہے اس وقت والدین کو چاہئے کہ وہ بڑی ہی نزاکت سے اس معاملے کو سلجھائیں کیونکہ والدین کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو رب کو پانے سے روکے۔ کیا کوئی ایسا ماں باپ ہے اس دنیا میں جو یہ بتا دے کہ وہ اپنی اولاد کو رب کے راستے سے روک دے گی تو جب وہ قبر میں جائے گا تو وہ اس کی جگہ جواب دیں گےکہ یہ میرے کہنے پر گمراہ ہو گا؟دن بدن یہی واقعات سننے کو ملتے ہیں ، شادی ہوجانے کے بعد بھی والدین اپنے بچوں کو چھوٹا سمجھتے ہیں چالیس سال عمر ہو گئی وہ خود باپ بن گیا اس کے بعد بھی والد ین اس کو چھوٹا بچہ ہی سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں یہ تم کہاں لگے ہو ؟ یہ گمراہی کی بات ہے حالات سازگار نہیں ہیں، باہر اگر کامل مرشد کو ڈھونڈنے نکلیں تو کہ کوئی سچا مرد قلندر کوئی صوفی مل جائے تو کوئی ملتا نہیں ہے ، دعوے دار تو بہت ہیں ، پاکستان میں بے شمار لوگ اس دھندے میں لگ گئے ہیں ۔پاکستان میں ہر چیز برائے فروخت ہے دین بھی بک رہا ہے، لیکن میں یہ سوچ دینا چاہتا ہوں کہ جب آپ مریں گے تو آپ اکیلے قبر میں جائیں گے اس وقت یہ عذر اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہو گا کہ مجھے میرےوالدین نے روک دیا تھا۔ مذہب ایک ایسی ذاتی نوعیت کی شے ہے کہ جس میں کسی دوسسرے کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔

قرآن کے تراجم میں بگاڑ کی وجہ سے فرقہ واریت نے جنم لیا ہے :

ہم جب سیدنا گوھر شاہی سے وابستہ ہوئے تو اس وقت معاشرے میں مذہب کے نام پر ،عشق رسول کے نام پرجو کھچڑی پکی ہوئی تھی ، فرقہ واریت کا تڑکا لگا ہوا تھا اس سے اتنا دل برداشتہ اورمتنفر ہو گئے کہ عملی طور پردنیا داری میں لگ گئے۔ جو بات سب سے زیادہ تنگ کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سنی کچھ اور کہتا ہے وہابی کچھ اور کہتا ہے شیعہ کچھ اور کہتا ہےاور ہر ایک اپنے آپ کو اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن کا حوالہ دیتا ہے اور یہ بڑی پریشان کرنے والی بات تھی کہ اگرہر ایک اپنی بات کو قرآن کے حوالے سے ثابت کر رہا ہے تو یہ سارےغلط کیوں ہے؟
قرآن مجید تو حق کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر یہ سب قرآن سے اپنے آپ کو صحیح ثابت کیسے کرتے ہیں؟ اپنا من پسند مفہوم لے کر۔ ہم کوئی خواب و خیال کی بات نہیں کر رہے ،آپ ایک ترجمہ کسی وہابی کا اٹھا لیں ،ایک کسی بریلوی کا اٹھا لیں آپ کو دونوں کے تراجم میں زمین آسمان کا فرق ملے گا، جس نے وہابی کا ترجمہ پڑھا اس کے عقائد اسی پر قائم ہو جائیں گے جس نے بریلوی کا ترجمہ پڑھا اس کے عقائد اس پر قائم ہو جائیں گے جس نے شیعہ کا ترجمہ پڑھا اس کے عقائد اس پر قائم ہو جائیں گےاور پھر سب یہ ہی سمجھیں گے کہ ہم تو قرآن مجید پر عمل پیرا ہیں یہ ذہن میں آئے گا ہی نہیں کہ ہم قرآن مجید کی پیروی نہیں کر رہے جو قرآن کی تاویلات پیش کی گئی ہیں جو متراجم کیے گئے ہیں ہم توان کو فالو کر رہے ہیں ۔ نہ جانے قرآن مجید کا مطلب کیا ہے سچ کون بول رہا ہے۔پہلے بریلوی کے پاس چلے جائیں وہ کہتا ہے کہ پورا قرآن حضور پاک کی نعت شریف ہے، وہابی کے پاس چلے جائیں وہ کہتا ہے کہ قرآن توحید کا درس ہے، شیعہ کے پاس چلے جائیں وہ کہتا ہے پورا قرآان اہل بیت کا قصیدہ ہے، ایسے حالات جب پیدا ہو جائیں گے تو ان حالات میں صراط مستقیم حاصل کرنے کے لیے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ، خاص راستہ اختیار کرنے کے لیے بندہ کیا کرے کہاں جائے؟
دنیا میں دو راستے آئے ہیں ایک تو آسمانی کتابوں کے ذریعے ہدایت ہوتی ہےاور وہ جو دوسری خاص قسم کی ہدایت اللہ کے نور سے ہوتی ہے، آسمانی کتاب سے ہدایت لینے کے لوازمات بہت سے ہیں آسمانی کتاب آپ کو صحیح سمجھ میں آئے تو ہدایت ہوگی۔آپ ایک چھوٹی سے آیت لے لیں

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11

جب ہمیں پہلی مرتبہ لوح محفوظ پر سیدنا گوھر شاہی لے کر گئے تولوح محفوظ میں جو قرآن مجید کا مفہوم اور ترجمہ ہے وہ سامنے آنے لگ گئےوَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُکا ترجمہ وہاں یہ لکھا ہے کہ اللہ جس کو مومن بنانا چاہے اس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔ بالکل صاف بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ اللہ کی زبان کا یہ اسلوب مولوی کی سمجھ میں نہیں آسکتا جس طرح قرآن مجید کی یہ آیت ہے

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورة الزمر آیت نمبر 22

کہ اور اللہ نے جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔ مولوی اس کا یہ ترجمہ کرتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کا سینہ اللہ نے ہدایت کے لیے کھول دیا اس کی تو لاٹری نکل آئی لیکن جس کا نہیں کھولا اس کا کیا قصور ہے؟أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ کا یہ ترجمہ نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں لفظ اللہ کہیں اپنےاسم کے لیے استعمال فرمایا ہےاور کہیں لفظ اللہ اپنی ذات کے لیے استعمال کیا ہے۔افمن شرح اللہ صدر للاسلام کا جو مفہوم لوح محفوظ سے عطا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اور وہ شخص جس کا سینہ اسلام کے لیے اسم اللہ سے کھل گیا فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ تو پھر اس شخص کو اللہ کا نور عطا ہوگا ۔ذہن نشین رہے کہ ہم اس گفتگو میں ذکر کر چکے ہیں کہ ہدایت دو طرح کی ہے ،اور یہ آیتأَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُنور والی ہدایت کے بارے میں ہے اور لوح محفوظ پر جو ترجمہ اور مفہوم ہے وہ کیا ہے؟ افمن یہ جو آگے الف لگا ہے اس الف کو سمجھنا بڑا اہم ہے ۔ مثال کے طور پر انگریزی میں اسپیچ پڑھنے والا جانتا ہے کہ اسپیچ دو طرح کی ہیں ایک (Direct speech) اور ایک (Indirect speech) ہے، (Direct speech) کیا ہے یہ سمجھنے کے لیے پہلے جملےکو سمجھتے ہیں ، ایک لفظ ہے (Subject)پھر ہے (verb) پھر (object)۔ (Subject) کام کرنے والا ہے اور جو کام ہو رہا ہے وہ ( verb ) ہے اور جس پر کام ہو رہا ہے وہ ( object ) ہے توڈائیریکٹ اسپیچ کیا ہوتی ہے جس میں سارے کا سارا زور کام کرنے والے پر ہو ۔مثلا اگر گلاس ٹوٹ گیا ہو اور میں کہوں ندیم نے گلاس توڑ دیا یہاں اس جملے میں سارا زور ندیم پر ہے، Nadeem brook the) (glass، تو یہاں سارا زور ہے( subject ) پرہےلیکن اگر ہم کو گلاس ٹوٹا ہوا ملے تو کس پر الزام دھریں گے، تو کہا جائے گا (Glass has broken ) اس میں سارا زور ہے object پر،اگر انگلش گرامر آپ نے پڑھی ہے تو میری بات توجہ سے سنیں ۔
اسی طرح عربی زبان میں اگر الف لگ جائے تو اب یہ( Indirect speech) ہو گئی ہے۔ اب یہاں بات سینہ کھلنے کی ہوری ہے کس نے کھولا ہے اس کی بات نہیں ہو رہی۔أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ ھو کا ترجمہ لوح محفوظ پر یہ ہے کہ جس کا سینہ اسم اللہ سے کھل گیا ، کسی کا بھی کھلے اس پر زور نہیں ہے ۔ اب دیکھیں کھلنے کے لیے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے شرح اور شرح کے فورا بعد ،جس سے کھلا ہے وہ چیز ہے شرح اللہ أَفَمَناور جس کا شَرَحَ اللَّـهُ اللہ نے کھول دیاصَدْرَهُجس کا سینہلِلْإِسْلَامِاسلام کے لیے فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ تو وہ اپنے رب کے نور پر ہے۔ یہاں سارا زور سینے کے کھلنے پر ہے، سینہ کھلے گا تو پھر ُاس کو اللہ کا نور مل جائے گا یہ نور کی ہدایت کی تشریحات ہیں وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَه یعنی اللہ جس کو مومن بنانا چاہے گا تو ُاس کے قلب کو ہدایت دے گا، لفظ ہدایت فی نفسہی کوئی روحانی دینی یا مذہبی لفظ نہیں ہے اس کا مطلب وہی ہے جو روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہوتا ہے
مثال کے طور پر اگر آپ کو کسی مقام پر جانا ہو تو اس کے لیے آپ کو راستے کا نقشہ چاہئیے جس میں راستے کی تمام ہدایات درج ہوں یا پھر کوئی ہو جو آپ کو راستے کے بارے میں رہنمائی کر سکے کہ کہاں پر دائیں مڑنا ہے کہاں سیدھا چلنا ہے۔اسی طرح ہدایت ہے ، اللہ قلب کو ہدایت کرے گا اور اللہ قلب کو ہدایت کب کرتا ہے؟ جب قلب میں اللہ ہو گا گاڑی کب چلے گی ؟ جب اس میں ڈرائیور ہوگا۔یہ تصور غلط ہے کہ اللہ دل میں نہ ہو اور اللہ باہر سے بیٹھ کر رہنمائی کرے گا ۔ ذکر قلب جاری ہونا فی نفسہی ہدایت نہیں ہے، ابھی تو شرح صدر ہوئی ہے دل میں نور آیا ہے ابھی تین سال قلب کو جوان ہونے دو اس کے بعد اللہ قلب کو ہدایت دے گا کہ اب ایسا کرو اب یوں کرو اب ایسا نہ کرو، اس کے قلب کو القا الہام ہو گا نور اس کی رہنمائی کرے گا۔

موجودہ دور دورِفتن ہے:

یہ جو زمانہ ہےجس میں ہم رہ رہے ہیں یہ دورِفتن ہے۔ فتنہ کے معنی لوگ نہ جانے کیا لیتے ہیں لیکن عربی زبان میں فتنہ سے مراد ہے آزمائش انگریزی میں اس کو( Trial) کہتے ہیں تو دورِفتن سے مراد آزمائش اور امتحان کا وقت، آزمائش کیا ہوتی ہے کہ آپ کی کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں ہے اور آپ نے ہدایت پر قائم رہنا ہے۔جیسا کہ کمرہ امتحان میں سوالنامے کے جواب دینا پڑتے ہیں لیکن جس نے سارا سال پڑھا ہی نہ ہو وہ کیا جواب دے گا، کلاس روم میں سبق پڑھتے ہوئے کوئی غلطی ہوئی تو استاد نے فورا بتایا کہ یہ غلط ہے یہ صحیح ہے لیکن کمرہ امتحان میں کوئی بتائے گا نہیں بھلے آپ صحیح لکھیں یا غلط ۔آپ کا نتیجہ بتائے گا کہ آپ نے صحیح لکھا تھا یا غلط۔اسی طرح یہ دورِفتن ہے اس میں آپ عاشق ِرسول سمجھ کر ساری زندگی جیتے رہیں غلط راستے پر ہیں صحیح راستے پر ہیں کوئی نہیں بتائے گا ، آپ توحید پرستی کا نعرہ لگا کر فرقہ واریت کو فروغ دیتے رہیں کوئی قرآن سے آپ کو غلط ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کمرہ امتحان ہے یہ دورِفتن ہے اس میں آپ مولی علی کے نام کی آڑ میں جو جی چاہے تبلیغ کرتے رہیں اپنے فرقہ کو بڑھاتے رہیں کبھی بھی آگہی نہیں ملے گی کہ صحیح جا رہے ہو یا غلط جا رہے ہو، صوفی ہونے کے دعویدار ہو نعرہ سرفروشی کا ذکر اللہ ھو کا، طواف کوٹری شریف کا ، صحیح جا رہے ہو غلط جا رہے ہو کوئی بتائے گا نہیں قبر میں پتا چلے گا کہ وہ ایک بندہ جو اپنے آپ کو نمائندہ گوھر شاہی کہتا ہے وہ صحیح بتا رہا تھا اس کی بات مان لیتے تو آج قبر میں بادشاہ بن کر بیٹھے ہوتے۔

” دورِفتن کا دوسرا معنی یہ ہےایسا دور کہ جس میں امت کی باگ دوڑ کسی مامور من اللہ کے ہاتھ میں نہ ہواورانتشار فی الارض پھیل گیا ہو”

حضور کے دور میں تو ایک مسجد ضرار تھی آج تو ہر مسجد مسجد ضرار ہے، مسجد ضرار ان لوگوں نے بنوائی تھی جو حضور پاکﷺ سے حسد کرتے تھے، جو محمد رسول اللہ کو دل سے تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دلوں میں نفاق تھا ، ان کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے لیے بغض تھا کہ اگر مسجد نبوی میں جا کر نماز پڑھیں گے تو حضور پاکؐ کی تعظیم کرنی پڑے گی اوریہ اُن کو گوارا نہیں تھا لہذا انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی اور آج کے دور میں تو ہر مسجد مسجد ضرار ہے ۔ وہ مسجد ضرار اس لیے تھی کہ اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والوں کا تعلق حضوؐر سے نہیں تھا اور آج کے دور کی ہر مسجد مسجد ضرار اس لیے ہے کہ الصلوةوسلام علیک یا رسول اللہ کی تبلیغ کرنے والوں کا تعلق بھی حضور سے نہیں ہے بلکہ یہ وہ فرقہ بن چکا ہے کہ جس نے اُس ہستی کا دل دکھایا جس کی یاد میں محمد رسول اللہ آنسو بہایا کرتے تھے۔
یہ دورِفتن ہے جس میں کوئی آگاہی نہیں ملے گی صحیح جا رہے ہو غلط جا رہے ہو۔ تمہارے اوپر کرم ہے تم کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ غلط ہے یہ صحیح ہے۔ اگر تمہیں صحیح بات کی آگاہی ہو اور غلط بات سے روکا جائے تو تم دورِفتن سے باہر ہولیکن عوام دورِفتن کا شکار ہے، تو اب اس دورِفتن میں جب مامور من اللہ کوئی ہستی آپ کے سامنے نہیں ہے آپ سوچیں گے کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں سرکار تو ہیں لیکن سیدنا گوھر شاہی تو غیبت میں ہیں اُنکا توسیدی یونس الگوھر سے رابطہ ہے آپ سے توبراہ راست ہے ہی نہیں ، آپ کا رابطہ نہیں ہے تو آپ دورِفتن میں ہیں نا ! میرے ذریعے اگر تم سرکار سے رابطے میں آ گئے تو تم بھی دورِفتن سے باہر ہو۔اگر تعلق جڑ گیا تو آگاہی ملے گی نا ، دور رہ کر بھی خبر گیری کریں گے۔اب اس دورِفتن جس میں فرقہ واریت عام ہے وہابی کو اگر پتا چل جائے کہ اس کا فرقہ غلط ہے تو وہ وہابی کیوں رہے، لیکن وہابی وہابی ہے تو اس کا مطلب کیا ہوا اسے پتا نہیں چل رہا کہ وہ غلط ہے۔ یہ بات وہابی ، سنی شیعہ ،بریلوی ،اہل حدیث سب کو معلوم ہے کہ ہمیں امتی ہونا چاہئے پھر بھی سب وہابی سنی شیعہ ہیں امتی کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ سمجھ میں نہیں آرہا ، حق کیا ہے باطل کیا ہے کچھ پتا نہیں چل رہا۔ قرآن مجید میں اگر لکھا ہے ایاک نعبدو و ایاک نستعین تو اس کا مطلب کیا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ وہابی اس کا کچھ اور مطلب بتاتے ہیں سنی اس کا کچھ اور مطلب بتاتےہیں اور شیعہ اس کا مطلب کچھ اور بتاتے ہیں اور سرکار گوھر شاہی نے اس کا کیا مطلب بیان فرمایاإِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ ہم تیرے بندے بننا چاہتے ہیں کیسے بنیں ؟ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُاور تیری مدد چاہئے تاکہ تیرے بندے بن جائیں ۔اللہ کی بارگاہ میں استدعا ہے کہ ہم تیرے بندے بننا چاہتے ہیں اوریہ تیری مدد سے ہی بنیں گے ۔ وہ مدد کیا ہے؟ سلسلہ اولیاء سلسلہ فقر، یہ مرشدوں کا سلسلہ یہ اللہ کی مدد ہے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ہے۔ اب یہ وہ دور ہے کہ جس میں امت کی باگ دوڑکسی مامور من اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے جس کا جی چاہا اس نے بیس پچیس آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک فرقہ بنا لیا ، پھر وہ بڑھتے بڑھتے ہزاروں لاکھوں ہو گئے۔ابن تیمیہ وہ آدمی ہے کہ جب اس نے قرآن کی تفاسیر اور تشریحات بیان کیں تو اس کے باپ اور بھائی نے اس کو بہت مارا کہ یہ کیا خرافات ہیں اور اس کو شہر بدر کر دیا اس کا حقہ پانی بند کر دیا اور اس کے بعد ڈیڑھ سو سال گزر گئے کسی نے ابن تیمیہ کی تفاسیر اور تشریحات کو تھوکا تک نہیں ، قبول نہیں کیا اس کے بعد اچانک عبد بن عبدالوہاب نجدی نے ابن تیمیہ کو فالو کرنا شروع کر دیا اور اس کی تشریحات کو فروغ دینا شروع کر دیا یہاں سے وہابی ازم کی ابتداء ہوئی۔
اب یہ وہ دور ہے آپ تو قرآن ،قرآن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ قرآن سے ثبوت دو قرآن سے حوالہ دو ارے قرآن کا حوالہ لے کر کیا کرو گے؟ جس کو دیکھو یہ ہی کہتا ہے قرآن سے حوالہ دو۔ چلو دے دیتے ہیں لیکن تم کرو گے کیا؟پورا قران وہابیوں کے پاس ہے کیا ہدایت مل گئی؟ پورا قرآن بریلویوں کے پاس کیا ہدایت مل گئے؟ پورا قرآن شیعہ کے پاس کیا ہدایت مل گئی تو حوالہ لے کر کیا کرو گے؟ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن قرآن مجید کا وہ معنی جو اللہ چاہتا ہے کہ تم سمجھو کیا تم نے وہ سمجھ لیا ہے؟

خلاصہ کلام:

یہ وہ دور ہے دورِفتن کا کہ جس میں آسمانی کتب کے ذریعے ہدایت نہیں ہو سکتی اب ہدایت کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے وہ ہے “طریقہ خاص” ۔ تو اللہ نے سیدنا سرکار گوھر شاہی کو بھیجا کہ آپ وہ جو طریقہ خاص ہے نور سے ہدایت والا وہ طریقہ خاص عام کریں ، کیونکہ اب کتب آسمانی کے ذریعے ہدایت مل نہیں رہی کیونکہ مفہوم بگڑ گیا ہے۔ ازلی مومن تو بہت ہیں آسمانی کتب کا مفہوم بگاڑ دیا گیا ہے اب ہدایت مل نہیں رہی اور ہدایت دینا اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے یہ بڑا اچھا کیا جو قرآن میں فرمایاإِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ کہ اللہ تعالی نے ہدایت کا بوجھ اپنے حبیب پر سے ہٹا دیا کہ ہدایت کی ذمہ داری میری ہے یہ بوجھ آپ پر نہیں ہے اب یہ اللہ کی ذمہ داری ہے اور ظاہر ہے اللہ ہی اس ذمہ داری کو نبھا سکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔ اگر یہ ذمہ داری حضوؐر کو دی ہوتی تو آپ نبی ہیں رسول ہیں اور ہدایت ایسے لوگوں کودینا ہو جو دین میں ہی نہیں تو وہ اللہ سے مشورہ لیں گے کے اے اللہ یہ تو دین میں ہی نہیں ہے اس کو میں کیسے ہدایت دوں توپھر اگر اللہ ہی سے مشورہ لینا ہے تو ہدایت اللہ کے پاس ہی رہے تو اچھا ہے۔لہذا اللہ ہدایت کا ذمہ دار ہے، اب آسمانی کتب کے ذریعے جو ہدایت مل رہی تھی انسانی مداخلت سے اس کا مفہوم بگاڑ دیا گیا تو اب وہ راستہ بند ہو گیا لیکن ہدایت تو پھر بھی اللہ ہی نے دینا ہے تو اللہ نے انسانیت پر یہ کرم فرمایا کہ سیدنا گوھر شاہی کو بھیج دیا کہ وہ دروازہ بند ہو گیا ہے اور جو نور سے ہدایت والا دروازہ ہےوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے تو آپ چلے جائیں اور آپ ہر کس و ناکس کو اسی طریقے پر ہدایت فرمائیں کہ جس خاص طریقے پر نبی و مرسل کو ہدایت ملی، اب چونکہ یہ نور کی ہدایت والا طریقہ خاص طریقہ ہے۔ زمانہ قدیم میں خانقاہوں میں لوگ چھپ چھپ کراللہ ھو کی ضربیں لگاتے ،تزکیہ نفس کرتے تخیلہ سر ، تجلیہ روح ہوتا، سر عام تو نہیں ہوتا تھا یہ، لہذا اس کا سراغ بھی کسی کے پاس نہیں ہے، لوگ جانتے ہی نہیں اب جب ان لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگا لو اس سے سارے کام بہتر ہو جائیں گے تو کہتے ہیں لو صرف ذکر اللہ سے سب ہو جائے گا، بدبخت لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کے رسول نے بھی یہی فرمایا ہے

ان فی جسد بنی آدم مضغتہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ الا وھی القلب
( بحوالہ مشکوٰة شریف)
ترجمہ : اے بنی آدم تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اسکی اصلاح ہو جائے تو پورے جسم کی اصلاح ہو جائے گی ، یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے۔

یہی ہم کہہ رہے ہیں کہ دل میں اللہ اللہ بسا لو پھر سارا راستہ آسان ہو جائے گا۔اور اگروہی فساد میں مبتلا ہو تو سارا فساد میں مبتلا ہے، پڑھتے رہو نمازیں ایک بھی اوپر نہیں پہنچے گی ، کیونکہ دل میں فساد ہے تو پورے جسم میں فساد ہے اور اگر جسم میں فساد ہے تو نہ وضو ہو گا نہ غسل ہو گا نہ نماز ہو گی۔ اب واحد یہ ایک طریقہ نور کی ہدایت کا رہ گیا ہے

يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ
سورة النور آیت نمبر 35

اللہ تعالی جس کو چاہے اسے ہدایت نور کے ذریعے ملے گی۔اب میں شیعہ حضرات کو مخاطب ہو کر کہوں گا کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کے فلاں میرا پسندیدہ ہے میں اس کو ہدایت دوں گا اللہ نے کہا ہے کہ جس کو بھی وہ چاہے اس کو وہ نور کی ہدایت دیتا ہے۔ لیکن یہ بات ساڑھے چودہ سو سال پرانی ہو گئی ہے اب اللہ تعالی نے اپنا ارادہ تبدیل کیا ہے کہ پہلے تھا یہدی اللہ لنور من یشاء جسے چاہے میں نور کی ہدایت دوں گا اور اب یہ ہے کہ جو چاہے وہ نور کی ہدایت لے۔ پہلے اللہ نے کہا جس کو میں چاہوں گا اس کو نور کی ہدایت ملے گی اور اب کیا ہو گیا ہے کہ جو چاہے نور کی ہدایت اسے مل جائے تو وہ آ جائے ، اب یہ نور کی ہدایت والا جو سلسلہ ہے یہ سلسلہ مہدی ہے یہ سیدنا امام مہدی کی زکوةو خیرات کا فیضان ہے، آپ کی نعلین مقدسہ کا فیضان ہے۔
اور نور کی ہدایت والا یہ وہ طریقہ ہے کہ جس میں گارنٹی ہی گارنٹی ہے۔یہ نور کی ہدایت ہےاگر دل میں اللہ کا نام چلا گیا تو یہیں فیصلہ ہو گیا کہ تو نے جنت میں جانا ہے، آسمانی کتب کے ذریعے اگر تو لگا ہوا تھا توابھی کچھ پتا نہیں ہے کہ کیا ہو گا، اور یوم محشر میں تو کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اور گناہ کم ہوں گے، یہ توصرف کہنے کی باتیں ہیں کہ جب میزان پر کلمہ رکھیں گے تو سارے گناہ نیچے اگر ایک بار کلمہ پڑھنے سے ایسا ہو گا تو بار بار کلمہ کیوں پڑھ رہے ہو؟ جس طرح شب قدر آتی ہے اور وہ رات ہزار راتوں سے افضل رات ہے ۔یعنی ایک ہزار مہینوں سے زیادہ افضل وہ رات ہے اب وہ رات مل گئی تو اب نمازیں کیوں پڑھ رہے ہو کیونکہ تم کو پتا ہے نا کوئی بھی قبول نہیں ہوئی، مانچسٹر میں ایک بندے نےسرکارسے میری شکایت کی کہ یہ نماز نہیں پڑھتا توقع یہ تھی کہ ڈانٹ پڑے گی لیکن توقع کے برخلاف ہوا ،فرمایا اس کو یقین ہے کہ اس نے جو بھی پڑھی ہے وہ قبول ہو گئی ہے تو ابھی تک اس لیے پڑھ رہا ہے کہ پتا نہیں قبول ہوئی ہے یا نہیں ، اب یہ جو دور ہے اس دور میں آسمانی کتب سے ہدایت نہیں ہو سکتی ، دوسرے سسٹم سے ہو رہی ہے اور اس سسٹم میں نور ہے عبادتیں نہیں ہیں ۔ یہ جو راستہ ہے یہ دل کا سودا ہے دل کا سودا کیا ہوتا ہے؟ تیرے دل میں رب کی چاہت ہو گی تو رب ملے گا نہ میرے سمجھانے سے ملے گا نہ زبردستی کرنے سے ملے گا اور اگر میں زبردستی مار کر تم کو ذکر میں بٹھائوں تو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ دل کا سودا ہے، کیا کسی کو چماٹا مار کر زور زبردستی کر کےمحبت کرائی جا سکتی ہے؟ محبت تو دل کا سودا ہےاسی طرح یہ راستہ بھی دل کا سودا ہے۔ ہمارے حلقے میں بھی ہوکر گناہ کرتے ہیں کیونکہ زبردستی کسی کو پارساء نہیں بنایا جا سکتا ، جو کر رہا ہے کرے ہم کسی کے ذمہ دارتو نہیں ہیں ۔کیونکہ قبر میں ہر ایک سے سوال اس کے اپنے بارے میں ہو گا کہ آپ نے کیا کیا ہےکسی دوسرے کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں نے اتنے گناہ کیوں کیے۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں زبردستی نہیں ہے، اس میں ڈنڈا نہیں ہے کہ ڈنڈے مار مار کر نمازیں پڑھائی جائیں جس کا جی چاہتا ہے نماز پڑھے اس کو پتا ہے فرض ہے، تو پھر پڑھو، لیکن یہ جو نور کے ذریعے ہدایت والا راستہ ہے یہ آسمانی کتابوں اور ان میں جو قوانین آئے ہیں اس سے ہٹ کر ہے اس راستے میں ترقی نظر گوھر شاہی سے ہے ، نمازپڑحو اچھی بات ہے روزہ رکھو اچھی بات ہے حج کرو اچھی بات ہے لیکن ترقی نہیں ہو گی اس سے ترقی نظر گوھر شاہی سے ہو گی، گوھر کی غلامی سے ہو گی ،سرکار گوھر شاہی کی نعلین مقدسہ میں آپ کی ترقی کا راز مضمر ہے۔
روزہ فرض ہے نماز فرض ہے یہ تو کتاب میں لکھا ہے لیکن کتاب کی ہدایت اب منسوخ ہو گئی ہے جس طرح جہاز میں عام طور پر جہاز میں دوانجن ہوتے ہیں اگر ایک انجن خراب ہو جائے تو دوسرا انجن بھی جہاز کو لے جاتا ہے لیکن اس کی پرواز محدود ہوتی ہے بہت ساری چیزیں کر سکتے ہیں بہت ساری چیزیں نہیں کر سکتے اسی طرح دین کے بھی دو پر ہیں ایک کتاب کے ذریعے ہدایت کا طریقہ ہے اور دوسرا کتاب کا جو نور ہے اس کے ذریعے ہدایت والا طریقہ ہے تو آج کے دور میں کتاب کے الفاظ میں بگاڑ ہے اورکتاب کا جو نور ہے اس میں ہدایت ہے آج کتاب تو ہے لیکن کتاب کا نورکتاب میں نہیں صاحب کتاب میں ہے، اب صرف یہ ہی ایک طریقہ رہ گیا ہے نور کی ہدایت والا،اس کی مخالفت اس لیےہو رہی ہے کہ جو مخالفت کرنے والے ہیں ان کو صرف کتاب سے ہدایت کا پتا ہے نور کی ہدایت کا پتا نہیں ہے جب کہ کتاب میں لکھا ہوا ہےکہ جس کو اللہ چاہے اس کو نور سے بھی ہدایت دے سکتا ہے۔ لیکن اس کی تعلیم نہیں ہے اب نور سے ہدایت کیسے ہوتی ہے اس کی تشریح قرآن میں موجود ہے کہ نور سے ہدایت شرح صدر سے ہوگی سینہ کو کھولو! کھولو گے تو پتا چلے گا نا کہ اس میں پانچ روحیں موجود ہیں ہر روح کا ذکر علیحدہ ہے، دل اللہ ھو کرے گا روح یا اللہ کرے گی، لطیفہ سری یا حیی یا قیوم کرے گا ، کسی کا ذکر یا احد کسی روح کا ذکر یا واحد ہو گا اس طرح اندر ایک روحانی میوزک بجنے لگ جائے گا کیونکہ اگر ایک ہی وقت میں تیرے سینے کےاندر سےمختلف اذکار کی آوازیں آرہی ہوں گی تو کیا حال ہو گا؟ جب پانچ صدائیں اندر سے بلند ہو رہی ہوں تو پھرکہاں مسجد جانے کا ہوش ہو گا ، مسجد اور مسجد والے تیرے آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے۔
لوگ مخالف صرف اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں نور سے ہدایت کا پتا نہیں ہے وہ صرف یہ ہی ہدایت جانتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھا ، کلمہ پڑھا ، نمازیں پڑھیں ، حج کیا ،زکوةدی، شادی کی، طلاق دی، حلال کمایا یا حرام کھایا، یہ ساری چیزیں معلوم ہیں ،لیکن سینوں کے اندر نور جائے دل اللہ اللہ کرے روحیں بیدار ہوں اور اس کے ذریعے انسان اللہ تک پہنچ جائے یہ والی ہدایت یہ والی تعلیم لوگوں کے پاس ہے نہیں ، عام آدمی بھی سنتا ہے ویسے تو سمجھ آ جائے گی کہ اتنے لطائف ہیں ان کے یہ یہ کام ہیں لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں تعلیم عام کی سمجھ میں نہیں آئے گی اس سے مراد یہ ہےکہ اس کو اس پر یقین نہیں ہوگا کہ پتا نہیں ایسا ہو گا بھی کہ نہیں اورخاص کے دل میں اس تعلیم کے لیے یقین داخل کیا جاتا ہے سمجھ اسی کو آئے گی جس کو اللہ تعالی یقین عطا کرے گا اور وہ یقین تب ہوگا جب آپ کے دل میں اللہ ھو شروع ہو گا جیسے جیسے نور بنے گا یقین آتا چلا جائے گا، اب تمہارا کام یہ ہے کہ جب تمہارے رشتہ دار تمہارے والدین تمہاری مخالفت کریں اس تعلیم کی وجہ سے تو ان سے غصہ نہ کرو ان کو پیار محبت سے یہ باتیں سمجھائو کہ ہم کو کچھ ملا ہے یہاں سے ،دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ میں لگ گئی ہیں ، گناہوں سے دور ہو رہے ہیں ، وہ دین جو ناپید ہو گیا تھا، وہ امت جس کا نام و نشان مٹ گیا تھا اب دوبارہ ہمارے سینے میں وہی محبت کی گرمائش محسوس ہو رہی ہے جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے حضور کی نظروں سے عطا ہوئی اس طرح سمجھائیں گے تو اگر ان میں کوئی ازلی مومن ہوا تو وہ آپ کے ساتھ لگ جائے گااور یہ بات سننے کے بعد بھی اگر کوئی مخالفت ہی کرتا ہے تو اس کو کہتے ہیں لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ تمہارا دین تمہارے ساتھ میرا دین میرے ساتھ ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 13 اگست 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس