کیٹیگری: مضامین

اب وقت آگیا ہے اب تم اس چیز کو چھوڑ دو کہ تم پاکستانی ، تم ہندوستانی، تم بنگلہ دیشی ہو اب تم امت واحدہ بن جاؤ ، امت واحدہ قرآن مجید کا تصور ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کہتا ہے

وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلاَّ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُواْ وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْْنَہُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ وَيَقُولُونَ لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ
سورۃ یونس ، آیت نمبر 19, 20
ترجمہ:اور انسانیت تو پہلے امت واحدہ تھی پھر ان کو گروہوں میں منقسم کردیا گیا اوراگر اللہ کو کلمہ سبقت کا انتظار نہ ہوتا تو یہ انسانیت مختلف، مذاہب مختلف ادیان مختلف گروہوں میں منقسم نہ ہوتی، تمام انسان امت واحدہ ہوتے۔

تشریح: آدم علیہ السلام کی اولاد امت واحدہ تھی اور جب امام مہدی علیہ السلام آئیں گے تو پھر دوبارہ سے تمام انسان امت واحدہ ہوجائیں گے ،ایک امت یعنی سب اللہ والے ہوجائیں گے۔اللہ نےاسی آیت میں آگے کہا وَيَقُولُونَ لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ اور جب وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی طرف سے کوئی نشانی اتاری گئی ہے ، فَقُلْ تو اللہ نے کہا آپ کہہ دینا ۔اب یہاں ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے۔اللہ کا ایک حکم ایسا ہوتا ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات کی اس آیت کو ملاحظہ کریں اس میں فوری حکم تھا

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورۃ الحجرات آیت نمبر 14

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖاعراب والے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ، قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا اب یہاں اللہ نے کہا کہقُل ان سے ابھی کہہ دیجئیے کہ لَّمْ تُؤْمِنُوا تم ابھی مومن نہیں کیونکہ ابھی تم کلمہ پڑھ کر اسلام لائے ہو، لیکن اگرقُلیا کسی اور قرآنی لفظ کے ساتھ“ ف ” لگ جائے اورقُل کی جگہفَقُلْ ہو تو اس بات کا مستقبل کی طرف اشارہ ہوگا۔ سورۃ الحجرات کی اس آیت میں جو بات کہی جا رہی ہے وہ اسی دور کے لوگوں کے لیے کہی جا رہی ہے لیکن فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ اب یہ بات حضورکے دور کے لیے نہیں بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ہوگی۔فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ
فَقُلْ ۔۔۔۔۔تو پھر کہہ دینا اس نے تو غیب سے آنا ہے
إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ ۔۔۔۔۔اور غیب تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے ۔
فَانْتَظِرُوا ۔۔۔۔۔اور پھر انتظار کر لینا۔
إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں بھی انتظار کرنے والوں میں شامل ہوں۔
اب قرآن میں اللہ کی طرف سے کلمہ سبقت کے بارے میں صاف صاف لکھا ہوا ہے اور ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہےکہ پوری انسانیت کا مستقبل “امت واحدہ ” میں ڈھلنا ہے۔ اگر پوری دنیا گلوبل ولیج بن سکتی ہے تو گلوبل نیشن کیوں نہیں بن سکتی؟ ٹھیک ہے تم انڈیا ، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا یا امریکہ میں رہولیکن ہو تو تم بھائی بھائی ،تیرے دل میں بھی اللہ اور اسکے دل میں بھی اللہ اورایسا ہو کر رہے گا۔مندرجہ ذیل آیت میں اللہ نے اسی مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ*وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً*فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً
سورہ النصر آیت نمبر 1 تا 3

إِذَا کا لفظ عربی زبان میں اسی طرح استعمال میں آتا ہے جیسا اردو میں لفظ “جب “استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ نے کہا، إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ ۔۔۔اورجب اللہ کا مدد گارآئےگا۔جولوگ اعتراض کرتے ہیں نَصْرُ اللَّه کا مطلب اللہ کا مدد گارکیسے ہو سکتا ہے،وہ یہ بتائیں کہ جب رسول اللہ کا معنی اللہ کا رسول اور خلیل اللہ کا معنی اللہ کا دوست ہے تو نَصْرُ اللَّه کا مطلب اللہ کا مددگار کیوں نہیں ہوسکتا۔ نصر کے معنی ہی مدد کرنے والے کے ہیں اور نَصْرُ اللَّه کا مطلب ہوگیا اللہ کی مدد کرنے والا۔
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِاورجب اللہ کا مدد گارآئے گا۔ عربی میں” ل” کسی خاص چیزکے لیے لگتا ہے،عربی زبان میں فتح سے مراد “کھلنا “ہے اور وَالْفَتْحُ سے مراد ایک خاص فتح ہےکہ جس میں سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ وَالْفَتْحُ کی تشریح سیدنا گوھرشاہی امام مہدی نے کی ہے کہ
رازچھپا کےکریں گےکیا اب تودنیافانی ہے
تھا انتظارجس قیامت کا عنقریب آنی ہے

وَالْفَتْحُ کہ ابھی تک جوراز چھپائے جاتے رہے تھے وہ سارے بھید کھل جائیں گے۔اب یہ دیکھیے، وَرَأَيْتَ النَّاسَ کہ آپ دیکھنا۔ حضور پاک کے لیے کچھ لوگ معاذ اللہ کہتے ہیں کہ انکا انتقال ہوگیا، اب وہ سن نہیں سکتےاب وہ بول نہیں سکتے۔ یہ سب بکواس اور کفر ہے، اللہ کی عزت کی قسم محمد رسول اللہ سن بھی سکتے ہیں بول بھی سکتے ہیں،جو اس بات کو نہیں مانتا وہ گستاخ رسول ہے۔اللہ کے نور میں سننے کی طاقت ہے تو حضورﷺ نےاپنے لیے فرمایا انا من نور اللہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا نورہوں اب یہاں دیکھیے کہ قرآن اللہ نے حضور کے قلب پر نازل فرمایا اور قرآن میں اللہ نےآنے والےمستقبل کے لیے حضور کوکہا وَرَأَيْتَ النَّاسَ ، یہ بات حضور کے دور کے ساڑھے چودہ سو سال بعد کےمستقبل میں وقوع پذیر ہونےکی ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالی حضورؐ کو دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں کہ وَرَأَيْتَ النَّاسَ یا رسول اللہ آپ ملاحظہ فرمائیے گا، آپ دیکھیے گا انسانوں کو۔

اہم نکتہ:

غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے پوتے کو فرمائیں کہ میرا سلام امام مہدی کو پہنچائے بغیرمرنا نہیں اور وہ چھ سو سال تک نہ مریں اور اللہ حضور کو کہیں کہ دیکھنا اس دور کو کہ جب دین الہی آ جائے گا اور حضور پاک نہ دیکھ پائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً*فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً ۔۔۔۔اس لفظ “توبہ ” کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ توبہ سے مراد “رجوع کرنا” ہے۔ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً وہ تورجوع کرنے والا ہے یعنی کہ اللہ مایوس نہیں ہے انسانوں سے وہ رجوع کرتا رہے گا، نبوت ختم ہوئی ہے اللہ کا عشق باقی ہے، نبوت کے ختم ہونے کے بعد بھی وہ امام مہدی کے ذریعے انسانوں سے رجوع کرے گا ۔ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً وہ تو رجوع کرنے والا ہے۔
ایک ہوتی ہے سیویلین گورنمنٹ جس میں پارلیمینٹ کے ممبر منتخب ہونے کے بعد ایک کیبنٹ بنتی ہے جو ڈیموکریسی کے ذریعے حکومت سنبھالتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے ملٹری رول۔اسی طرح اس سےپہلے چھوٹی چھوٹی امتیں بنتی رہی ہیں اور اللہ کے مختلف پیغامات مختلف مذہبوں میں چلتے رہے ہیں لیکن اب اللہ تعالی ملٹری رول ڈکٹیٹر شپ لانا چاہتا ہے۔اب سارا کا سارا نظام اللہ کے ہاتھ میں ہو گا اب مذاہب کی جگہ اللہ نے لے لی ہے، کہ اب باقی سب چیزیں چھوڑو اب اللہ کی طرف آؤ۔ ففرو الی اللہجب اللہ کی بات آئے تو چل کر نہیں دوڑ کر آؤ۔

کلمہ سبقت کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر ڈھالنا ہو گا:

اللہ کی طرف دوڑ کرجانے سے کیا مراد ہے؟چھوٹی چھوٹی نیکیاں کر کے کراماً کاتبین سے کتاب میں لکھوانا دوڑنا نہیں رینگنا ہے، دوڑنا یہ ہے کہ جب تو سو جائے تو اس وقت بھی قلبی ذکر چلتا رہے۔کام کاج میں بھی ہو اس وقت بھی چلتا رہے، ہتھ کار ول دل یار ول۔۔۔۔ ہاتھ کام کاج میں اوردل یار میں۔ یعنی ہاتھ کام کاج میں اور دل اللہ کی یاد میں، یہ ہے دوڑنا اس میں جسم کی ٹانگیں نہیں دل کی دھڑکنیں تیرے قدم بن جائیں اور تو نور کی رسی پر دوڑتا ہوا اللہ کی طرف جائے۔ اب یہ وہی زمانہ آ گیا ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دوڑ کر جاؤ۔سورۃ مزمل میں اللہ نے ایک چھوٹی سی خاص بات بڑی چھپا کر کہی ہے۔

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
سورۃ المزمل آیت نمبر 8
ترجمہ : اور اب ذکر کر اپنے رب کے اسم کا، اور سارے رشتے ناطے توڑ کے صرف اس کا ہوجا۔

یہ وہ دور ہے کہ اب کوئی ہندو ہے سکھ ہے عیسائی ہے اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اگر تو عیسائی ہے تو کیا تیرا اللہ کوئی اور ہے؟ تو ہندو ہے تو کیا تیرا اللہ کوئی اور ہے؟ اب آپ کی مرضی ہے ،ہے وہ ایک ہی، ہندو اس کو کہتے ہیں نیلی چھتری والا، ہے وہ ایک ہی ایشور اللہ تیرو نام ، رام بھی تو رحیم بھی تو۔یہ جوامتِ واحدہ کا تصور قرآن سے آ رہا ہے اب اس تصوراوراس نظریہ کو ہمیں اپنی زندگیوں میں عملی طور پرڈھالنا ہو گا۔امت واحدہ پہلے ہی ہوتی لیکن اللہ نے وہاں ایک چیز کا ذکر کردیا کہ کلمہ سبقت اس وقت موجود نہیں تھا اس لیے ان سب کو علیحدہ علیحدہ کرنا پڑا۔
مثال: دو آدمی کھانا کھانے جائیں تو ایک کھانے کا بل دے دیتا ہے تو خیر ہے لیکن اگر پندرہ بیس افراد جائیں تو وہ کہہ دے گا کہ اگر دو چار لوگ ہوتے تو میں بل دے دیتا اب افراد زیادہ ہیں تو کھانے کا بل سب میں تقسیم کر لیتے ہیں کیونکہ پورا بل بھرنے کی مجھ میں تاب نہیں ہے۔ فَاخْتَلَفُواْ یہی وہاں ہوا کچھ کو اسم اللہ دے دیا کچھ کو اسم رحمان دے دیا، کچھ کو اسم رحیم، کچھ کو اسم ودود دے دیا، کچھ کو اسم حفیظ دے دیا تو کسی کو اسم رشید دے دیا،اسماء کو بانٹنا پڑا کیونکہ اگر کسی ایک اسم پر زور ڈالو گے تو پھر وہ اسم پوری انسانیت کو سیراب نہیں کر پائے گا ۔ ہاں اگر کلمہ سبقت ہوتا تو انسانیت کو ٹکڑوں میں کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جن کو صفاتی نام ملا وہ اس کی صفات تک ہی پہنچے اور ذاتی نام تھوڑوں کو ملا۔اللہ نے کہا إنّ الله علی کلّ شیءٍ قدیرٌ کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے تو پھر پوری کائنات اورتمام مذاہب کو اسم ذات دیتا تاکہ سب تیرے متوالے بن جاتے، سب تیرے عاشق بن جاتے، سب تیرے جلوے دیکھ لیتے، سب تیرے مکھڑے سےسرفراز ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا،کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود ۔۔۔۔۔۔پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
کلمہ سبقت پوری انسانیت کو سیراب کرنے کا متحمل ہے تب ہی تو اس کا انتظار ہو رہا ہے، جب لوگ پوچھیں کہ وَيَقُولُونَ لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ کیا اس کی کوئی نشانی اتری ہے فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ تو کہنا کیونکہ غیب صرف اللہ کے لیے ہے فَانْتَظِرُوا تو انتظار کرو إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ میں بھی تو انتظار کر رہا ہوں۔کچھ تو دم ہو گا اس چیز میں کہ جس کا رب بھِی منتظر ہے، شاید اسی لیے ان کو امام مہدی المنتظر کہتے ہیں کہ جس کا انتظاراللہ کوبھی ہو رہا ہے۔اس بات سے باہر نکل آؤ کہ یہ انڈین ہے ،یہ پاکستانی ہے سب اللہ والے بن جاؤ ، سب سے پیار کرو، سب سے محبت کرو، انسانیت کو اپنانا ضروری ہے اور یہ تب ہی ہو سکے گا جب سب کے دل میں اللہ آ جائے گا۔ایک کے دل میں اللہ اور دوسرے کے دل میں شیطان ، بھلے ظاہر میں دونوں مسلمان ہوں تو لڑتے رہیں گے اور لڑ ہی تو رہے ہیں۔

مندرجہ بالا مضمون نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 06 اگست 2017 کو یو ٹیوب کے لائیو سیشن میں کئے گئے سوال سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس