کیٹیگری: مضامین

شیطان کا پہلا وار مرشد سے بد گمانی پیدا کرنا ہوتا ہے :

تصنیف “روحانی سفر ” سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی کی وہ تحریر ہے جس میں آپ نے دوران مجاہدہ ، دوران چلہ لال باغ سیہون شریف میں جو واقعات ، مشکلات پیش آئی ہیں اُن میں سے چیدہ چیدہ کا ذکر فرمایا ہے ۔روحانی سفر میں سرکار گوھر شاہی نے بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے وہ باتیں بھی تحریر فرما دی ہے کہ جن باتوں کے بیان کرنے کا حوصلہ دنیا میں شاید کسی کو بھی نہیں ہوتا اور اُس کے پیچھے جو خاص وجہ رہی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس راستے پر چلیں گے اُن کو انتہائی آسانی ہو جائے ۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تزکیۂ نفس کے مرحلے میں وہ وہ واقعات پیش آتے ہیں جن کا ذکر کسی بھی کتاب میں نہیں ہے ، کسی ولی یا صوفی نے اُن واقعات کا ذکر نہیں کیا ۔اب چونکہ صوفیاء کی کتابوں میں اُن واقعات کا ذکر نہیں ہے تو راہ حق کے طالب کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرا سفر ہی غلط جا رہا ہے ، کسی بھی صوفی کے ساتھ یہ چیز نہیں ہوئی جو میرے ساتھ ہو رہی ہے ۔دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں خواجہ غریب نواز، داتا علی ہجویری نے یا غوث اعظم نے اُن واقعات کو قلمبند کیا ہو جو اُن کے ساتھ جنگل میں پیش آئے اس وقت جب وہ تزکیۂ نفس کے مراحل سے گزر رہے تھے ۔ جسطرح نبی کریمؐ کی سنت کو قرآن مجید کی حقیقی تفسیر سمجھتے ہیں اور مثالی کردار کے طور پر حضوؐرکی ذات والا کو رکھتے ہیں لیکن جب تزکیۂ نفس کی بات آتی ہے تو پھر ہمارے سامنے کونسا مثالی کردار ہے !! جب تک سیدنا گوھر شاہی سے نہیں ملے تھے تو کوئی وسوسے نہیں آتے تھے لیکن جب ملاقات ہو گئی اور باقاعدہ تعلیم شروع ہو گئی تو پھر وسوسے آنے شروع ہو گئے ، شیطان اُس وقت انسان کو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ تیری پہلے زندگی اچھی تھی تو پہلے سکون سے تھا ۔ وسوسے جب آتے ہیں جب انسان کے دل میں ایمان اور نور موجود ہو تو شیطان حملہ کرتا ہے کہ اس کو میں نے زیر کرنا ہے ۔ سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں لکھی ہوئی ایک غزل کا ایک شعر ہے کہ
ایسی شریعت سے کیا فیض ہو گا ، جس میں مہکے نہ خوشبوئے گوھر
وہ طریقت کہاں ہے طریقت جس میں شامل نہیں رنگ گوھر

وسوسے یہ ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے جس سے فیض مل رہا ہے نفس اس سے تمھیں بدگمان کر دے ۔ روحانیت میں جو رہنما ہوتا ہے اُس کے خلاف وسوسے آتے ہیں تاکہ جو نوری تار جڑی ہے وہ کٹ جائے اور جب وہ نوری تار کٹ جاتی ہے تو پھر وسوسے نہیں آتے ہیں ۔ اگر روحانی رہنما ، رہبر کے خلاف وسوسے آئیں اور گھر کر جائیں تو وہ نور کی تار کٹ جاتی ہے ، اسی مقصد کے لئے شیطان وسوسے ڈالتا ہے ۔ اب وسوسوں کی شدت کیا ہوتی ہے جب یہ باتیں سیدنا گوھر شاہی نے روحانی سفر میں بیان کیں تو مولویوں نے ان جملوں میں تحریف کر کے کفر کے فتوے لگا دئیے۔ وسوسے اتنے شدیداور خطرناک بھی ہوتے ہیں کہ آدمی کانپ جاتا ہے کہ مجھے یہ خیال کیوں آیا ۔ جیسے روحانی سفر میں سرکار نے یہ لکھا ہے کہ ” ایک دفعہ پتھریلی جگہ پر پیشاب کرنے بیٹھے تھے تو اس پیشاب کے اندر ویسا ہی سایہ نظر آیا جس سائے کے حکم پر گھر بار چھوڑ کر جنگل آئے تھے ” اب یہاں دو چیزیں ہیں ایک تو یہ کہ ظاہر میں مرشد ہو اور دوسری یہ کہ باطن میں مرشد ہو تو ان دونوں حالتوں میں کیا فرق پڑتا ہے ۔ ظاہر میں اگر مرشد ہو تو فوراً غلط اور صحیح اور غلط کی تصدیق ہو جاتی ہے لیکن اگر مرشد باطن میں ہو اور اویسی فیض مل رہا ہو تو شیطان بھی باطن میں ہے اور مرشد میں باطن میں ہے ، تو باطن میں مرشد آیا ہے یا شیطان اس کی کوئی خاص پہچان نہیں رہتی ہے کیونکہ آپ تو ابتدائی مرحلے میں ہیں اور اُس وقت پہچاننے کی یہ کسوٹی نہیں ہوتی ہے ۔ پھر اس کے بعد سرکار اپنے جذبات کا اظہار فرماتے ہیں کہ ویسا ہی سایہ جب مجھے پیشاب میں نظر آیا تو میرے دل پر بڑی تباہی گزر گئی کہ جس سائے کےکہنے پر گھر بار، بیوی بچوں کو چھوڑا ، جنگل میں سکونت اختیار کی آج اُس سائے نے اپنا اصل رنگ دکھایا ہے ۔ اُس کے بعد پھر ایک آواز اور آتی ہے کہ جب سے وہاں سے آیا ہے اب دل بھی اللہ اللہ کرتا ہے ، غیر شرعی کاموں سے بالکل دور ہو گئے ہیں اسطرح کی موازناتی باتیں سرکار نے اُس کتاب میں رقم فرمائی ہیں ۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ راہ حق کی پیچیدگیاں ہیں ۔ کتاب روحانی سفر اُن کو سمجھ آئے گی جو روحانیت میں چل رہے ہیں اور وہ ہر سطر کے اوپر سو بار شکر ادا کریں گے کہ یہ تو آپ نےان واقعات کو قلمبند فرما کر بڑا کرم فرما دیا ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔جب راہ طریقت میں انسان چلتا ہے تو مختلف خیالات اور آوازیں اُس کے ذہن کو اتنا منتشر کر دیتی ہیں کہ اگر اُس دورانیے میں کوئی قاتل بھی کہہ دے تو وہ باآسانی تسلیم کر لیتا ہے ۔اگر کوئی زانی کہہ دے تو بھی اس دورانیے میں وہ تسلیم کر لیتا ہے کیونکہ دن رات ایسے فحش خیالات آرہے ہیں ۔آپ کے اندر سے نفس کی ایک آواز آتی چلی جائے گی اور وہ چپ نہیں ہو گا۔ تزکیۂ نفس کا راستہ بہت خطرناک ہے لیکن جب ایک دفعہ نفس پاک ہو جاتا ہے تو پھر رب مہربان ہو جاتا ہے کہ یہ مرد ہے اور مظلوم بھی ہے کہ جو کچھ اس نے نفس کے ہاتھوں سہا ہے یہ اب مستحق ہے کہ اس سے پیار کیا جائےاور جواس راستے پر داخل ہی نہ ہو وہ رب کی محبت سے نا آشنا ہے ۔ نفس کو پاک کرنا اپنے آپ سے دشمنی ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ مرشد کی نظروں سے نفس پاک ہو جاتا ہے لیکن پاک ہوتے ہوتے جان نکل جاتی ہے جو کچھ اس پر بیتی ہے تو وہ عاجز ہو جاتاہے ۔ عجز کا مطلب ہوتا ہے کسی قابل نہ ہونا ، معجزہ بھی اسی سے نکلا ہے یعنی وہ کام جسے انسان میں کرنے کی طاقت نہ ہو ۔ تزکیۂ نفس کے مرحلے میں انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جب اس کا اپنی ذات پر سے یقین اُٹھ جاتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھ سے بڑا کوئی مرتداور منافق کوئی نہیں ہے ، سب کے سامنے وہ زیر ہو جاتا ہے ۔ تزکیۂ نفس کے دوران سالک کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مرشد ہی رب ہے ، مرشدہی سب کچھ ہے ، دین ، نماز ، روزہ حج زکوة سب کچھ مرشد ہی بن جا تا ہے کیونکہ جب قرآن پڑھتا ہے تو اس کے اندر کچھ اور نظر آتا ہے ۔ اگر سیدنا گوھر شاہی روحانی سفر تحریرنہ فرماتے تو آپ کو کبھی بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس راہ کی کیا مشکلات ہیں۔

” رب کی قسم! اگر نفس پاک کرنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر زبان سے لفظ محبت ادا کرنے کا بھی حق نہیں ہے ،جو اپنے آپ سے دشمنی نہیں کر سکتا وہ اپنے مرشد سے محبت نہیں کر سکتا ہے۔جن کو اپنی ذات سے پیار ہے وہ رب سے محبت نہیں کرسکتے جبکہ روحانی طہارت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ سے دشمنی مول لینی پڑتی ہے ۔ جب تک اپنے آپ سے نفرت کرنا نہیں آئے گی اُس وقت تک تم رب سے محبت کرنا نہیں جان پاؤ گے”

روحانیت میں سب سے کٹھن مرحلہ تزکیۂ نفس ہے:

تزکیۂ نفس کے بغیر نہ ہی کوئی مراقبہ صحیح لگتا ہے ، نا ہی نماز ہوتی ہے ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس کو پاک لیا ہو گا جب وہ نماز میں کھڑے ہوں گے تو اِس بات کے مستحق ہوں گے کہ اُن کی نماز معراج کے درجے پر پہنچے ۔ نفس کے پاک کئی بغیر جو نماز ادا کی گئی وہ نماز دنیا کے خیالات سے لبریز ہے جہاں کبھی بیوی کے خیالات ہوں گے تو کبھی کاروبار کے خیالات ہوں گے اور ایسی نمازیں اللہ تمھارے منہ پر دے مارے گا۔ اس دنیا میں تزکیۂ نفس کی تعلیم معدوم ہے جب سیدنا گوھر شاہی کی رقم کی ہوئی یہ کتاب “روحانی سفر” منظر عام پر آئی تو مولویوں نے اس کتاب میں جو درج واقعات، مکاشفات تھے اُن کو اکھٹا کر کے اور تبدیلی کر کے کفر کے فتوے لگا دئیے۔ روحانی سفر کو پڑھ کر ایمان بیدار اور مضبوط ہوتا ہے ، یہ کتاب صحرا میں تپتی ریت پر کوئی بھٹک رہا ہو اور پیاسا ہو اور اس کو اچانک پانی میسر آ جائے اسی طرح کی آب حیات یہ کتاب ہے ۔ جو لوگ تزکیۂ نفس کے مراحل سے گزرتے ہیں یہ کتاب اُن لوگوں کے لئے جان بچانے والی ادویات کی مانند ہے ۔پوری روحانیت میں سب سے کٹھن مرحلہ تزکیۂ نفس ہے باقی سب ارواح تو لطیفہ قلب کے جاری ہونے کے بعد اللہ اللہ کرتی رہتی ہیں ۔ تزکیۂ نفس کے مراحل سے ایک بار گزریں تو سارے کس و بل نکل جاتے ہیں ، تزکیۂ نفس شریفوں کا کام نہیں ہے ۔ سفید پوش لوگوں کا کام نہیں ہے نفس پاک کرنا، جن کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا گیا ہو ، کھانے کے لئے روکھا سوکھا کچھ بھی اُٹھا کر کھا لیا ہو ، جن کا کوئی یار دوست نہیں ، والی و وارث نہیں وہ لوگ اگر تزکیۂ نفس میں لگ جائیں تو اُن کے لئے آسانی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی سمجھتے ہیں کہ میری کوئی اوقات ہی نہیں ہے اس لئے کیا نخرا کرنا ۔ یہ نخرے تو سارے شریف لوگوں کے ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت بہت اچھی ہوتی ہے ، ادب اور آپ جناب سے بات کرنا ہے ۔ جیسے بلھے شاہ نے کہا کہ نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبحا کھڑکایا ۔۔۔ بلھے نوں ملیا مرشد جو ایویں ہی جا بخشایا۔ جو تزکیۂ نفس کے مرحلے میں جو اُن پر بیتی ہے اس کے بعد انہوں نے اس کی اہمیت ختم کر دی کہ یہ میری کوئی نمازیں اور تسبیحات تھیں ۔ لوگ بلھے شاہ کو صبح شام گالی دیتے تھے کہ سید ہو کر آرائیں کے پیچھے لگ گیا ہے ، خاندان والے تہمت لگاتے تھے کہ تو نے آل محمد کو بدنام کر دیا تو تو ایک آرئیں کے پیچھے لگ گیا ہے ۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ جھیڑا سانوں سید آکھے ، دوزخ ملن سزائیں یعنی جو مجھے سید کہے گا وہ دوز میں جائے گا، تزکیۂ نفس کہیں کا نہیں چھوڑتا ۔
ایک دن بلھے شاہ کے مرشد اُن سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا ، وہ جب بھی ملنے کے لئے جاتے وہ انکار کر دیتے تھے ایک دفعہ بلھے شاہ کو پتہ چلا کہ مرشد کسی کے یہاں شادی میں گئے ہیں اور اُن کے مرشد کو رقص بہت پسند ہے ۔ بلھے شاہ نے یہ چال چلی کہ جو وہاں ناچنے والے آئے ہوئے تھے اُن کو بھیس بھرا ، پاؤ ں میں گھونگرو باندھے ، سرخی پاؤڈر لگایا اور ناچنے والوں کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا اور جب جب مرشد کے سامنے آتے تو بہت زیادہ شدت کے ساتھ ناچتے ، جب مرشد کے سامنے آئےتو پھر تھرکنا بند نہیں ہوا ۔ ناچ ناچ کر گھنگرو پاؤں میں لگتے زخم بن گئے ، خون نکلنا شروع ہو گیا اور وہ گر گئے ، بلھے شاہ ناچ ناچ کر گر گئے ۔ جب مرشد نے اُٹھایا تو کہا او تو بلیا ہے ، تو بلھے شاہ نے کہا بلیا نہیں بھُلیا۔ میں بھولا ہوا ہوں اور پھر انہوں نے اپنی شاعری میں بھی لکھا
نچ نچ کر یار منا لے پاویں کنجری بننا پے جاوے۔
بھلے ناچنے والے کا روپ اختیار کرنا پڑے ناچ ناچ کر اپنے یار، اپنے مرشد کو منا لے ۔ مرشد کو راضی کرنے اور منانے میں کوئی شریعت یا طریقت کی حد نہیں ہوتی ہے کہ اُس کو راضی کرنے کے لئے کس حد تک جانا ہے ، جیسے بھی وہ راضی ہو مرشد کو راضی کرنا پڑتا ہے ۔ جب نفس کی فطرت تبدیل ہوتی ہے نفس قوم جنات سے ہےاُس کی غذا نار ہے اور نفس کو نرمی سے نہیں برتنا چاہیے، سختی سے پیش آؤ گے تو نفس ٹھیک رہے گا زرا سی بھی ڈھیل دی تو یہ پھیل جاتا ہے اور اگر ڈھیل کے اوپر زرا اور ڈھیل دی تو پھر وہ بہانے بنائے گااور دلیلیں دے گا کہ تم تو پاک ہو چکے ہو محنت کی کیا ضرورت ہے ۔ پھر وہ قریب کے لوگوں میں بھی یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تجھے مشن پر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ نفس کو پاک کرنا واقعی ایک جہاد ہے جب نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ رَجَعْنَا مِنَالْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ ۔۔ تم میدان جنگ میں ایک دوسرے کے سر کاٹ رہے ہو اور نبی کریم اس کو چھوٹا جہاد کہہ رہے ہیں اور فرمایا کہ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹو، نفس سے جہاد کرنا بڑا جہاد ہے ۔ پتھر کے چنے چبانا آسان ہے لیکن نفس کو پاک کرنا آسان نہیں ہے ۔ نفس کی پاکی کے بغیر انسان کو انسان کہلوانے کا حق نہیں ہے ۔ جتنی تم لوگوں کو صحبت حاصل ہے (مہدی فاؤنڈیشن کے لوگوں سے مخاطب) اس میں 70 فیصد نفس کی طہارت ہو جاتی ہے اگر تیس فیصد تم بھی کنٹرول کر لو کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی نہ آ ئے ، غیبت سے باز آ جاؤں، ایک دوسرے پر بہتان طرازی نہ کروں تو پھر نفس کی طہارت کچھ مشکل نہیں ہو گی ۔ مر د ہو یا عورت اگر نفس پاک نہیں ہے تو شیطان اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ تزکیۂ نفس کے مرحلے میں سالک خود کو 360 مرتبہ مارنے کا سوچتا ہے ۔ فرمانے گوھر شاہی ہے کہ روحانیت میں 360 ایسے مقامات آتے ہیں سالک یہ سوچتا ہے کہ میں مر ہی جاتا ۔ مجھے ننگی ننگی تصویریں کیوں نظر آرہی ہیں ، یہ آوازیں کیوں آ رہی ہیں آدمی کا دماغ خراب ہو جاتا ہے ۔ جب تزکیۂ نفس ہو گیا تو پھر تمھاری عزتیں محفوظ ہیں۔ جب نفس پاک ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑا خوشی کا مرحلہ ہے اور اللہ کہتا ہے کہ اے نفس مطمئنہ ! اب میں تجھ سے راضی ہو گیا اب تو مجھ سے راضی ہو جا ، اس مقام پر اس کی اور رب کی رضا ایک ہو گئی ۔ جب تک نفس ناپاک ہے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ جو کچھ کر رہا ہے کس لئے کر رہا ہے ، نہ اس کے اعمال سچے ہوتے ہیں ، نہ گفتار اور نہ ہی کردار سچا ہوتا ہےکیونکہ ہر عمل کے پیچھے نفس لگا ہوا ہے ۔ قرآن مجید نے بھی فرمایا ہے کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاعلی آیت نمبر 14
ترجمہ : جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہو گا۔

تزکیۂ نفس کے مرحلے میں نفس کی نفی کرنا :

اولیاء کرام کی کتب میں لکھا ہے کہ کم کھاؤ، کم سواور کم بولو، لوگ اس پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن نفس اس سے بھی پاک نہیں ہوتا ہے ۔ ایک شخص ابو الحسن خرقانی کی شہرت سن کر ان سے ملنے گیااور دروازے پر دستک دے کر پوچھا کہ میں مرد قلندر سے ملنے آیاہوں تو اُس کی بیوی نے دروازہ کھول کر کہا کہ یہاں کوئی مرد قلندر نہیں رہتاہے یہاں تو میں اور میرا شوہر رہتے ہیں لیکن وہ مرد قلندر نہیں ہیں وہ تو بہت بڑے زندیق ہیں ۔ بیوی کی باتیں سن کر وہ بدگمان ہو کر جا رہا تھا کہ راستے میں کیا دیکھتا ہے کہ ابو الحسن خرقانی شیر کے اوپر بیٹھ کر آرہے ہیں اور انہیں دیکھ کر اس کے جذبات پھر بدل گئے اور ادب آ گیا ۔انسان کےجذبات کا کوئی اعتبار نہیں ، جذبات طوائفہ کی طرح ہوتے ہیں ۔ پھر ابو الحسن خرقانی کو بولا کہ میں آپ کے گھر گیا تھا لیکن آپ کی بیوی نے ایسا ایسا کہا تو ابولحسن خرقانی نے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو، تو اس نے معجزہ دیکھ کر جواب دیا کہ میں تو مرد قلندر سمجھتا ہوں ۔ تو اس نے پوچھا کہ آپ کی بیوی ایسا کیوں کہہ رہی تھی تو آپ نے فرمایا کہ اپنے نفس کے تزکیئے کے لئے ہم نے دربان بٹھایا ہوا ہے کیونکہ نفس پاک ہونے کے بعد بھی بہانے خور ہے ۔روحانیت میں بڑے بڑے امتحان نہیں ہوتے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے آزمایا جاتا ہے اور رد عمل دیکھا جاتا ہے کہ اس کے رد عمل میں ادب تھا یا نفرت کی ایک لہر اُٹھی، اس کو دیکھنے کے بعد باطنی تحفے اور نوازشات رکھ دئیے جاتے ہیں۔جس سے ہلکی سی چپت برداشت نہیں ہوئی وہ تزکیۂ نفس کیسے کرے گا۔ بندہ اپنے حساب سے سوچتا ہے اور روحانیت اپنے حساب سے دیکھ رہی ہے۔ ادب وہ ہے جو دل میں ہو اور سچا ہو۔نفس کو پاک کیے بغیر آپ سرکار گوھر شاہی کی نظروں میں نہیں آ سکتے۔چالیس ،پچاس ،سو سال تک لگے رہیں، پرچار مہدی کرتے رہیں ، نفس پاک ہونے کے بعد پرچار مہدی کرنا اور ہے اور اس طرح پرچار مہدی کرنا اور ہے، جب تک نفس پاک نہیں ہوجاتا اس وقت تک مرشد آپ کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرتا، آپ قابل اعتبار قابل بھروسہ نہیں ہیں۔اگر آپ مزاجاً خاموش طبع ہیں تو اپنی اس طبیعت کےخلاف کریں ، بیشک اس سے جان جاتی ہے لیکن بولیں۔اپنی خواہش کے خلاف جہاد کر ، اپنی طبیعت کے خلاف جہاد کر اور اللہ کی نصرت سے نا اُمید نہ ہو، وہ اس جہاد میں ضرور نصرت کرے گا۔جس وقت زبان مخلوق سے شکوہ کرے تو اُس وقت اِس کو روک لے اور اللہ کی طرف سے اِس زبان اور اس جہان کا مد مقابل بن۔نفس کی موافقت نہ کر، یعنی جیسا نفس چاہتا ہے ویسا نہ کر۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کمبل اوڑھ کر لیٹ جائیں اگر آپ نے ایسا ہی کر لیاتو یہ نفس کی حمایت ہو گی ،آپ نے اس کی مخالفت کرنی ہے۔نرم بستر کے بجائے ایسے بستر پر سوئیں جس میں کئی مرتبہ آپ کی آنکھ کھلے۔چادر اوڑھنے سے زیادہ نیند آئے تو آدھی چادر اوڑھ لیں ۔ آدھا جسم آرام میں اور آدھا جسم تکلیف میں رہے۔ کپڑے اچھے پہن لیں تو جوتے پرانے پہن لیں۔ مور کو دیکھیں کتنا حسین لگتا ہے لیکن جب وہ اپنے پائوں دیکھتا ہے تو اداس ہو جاتا ہے۔اگر آپ نے نفس کو طہارت کی طرف لے جانا ہے تو نفس جو چاہ رہا ہے اس کی موافقت نہیں کرنی۔اگر نفس یہ کہے کے کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی اب بیٹھ جائوں تو اس وقت کھڑے رہیں ، نفس کی پاکی فل ٹائم جاب ہے۔جیسا جیسا ہمیں نفس کہتا ہے ہم ویسا ہی کرتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آواز آئے گی، آواز نہیں آتی بلکہ ایسا لگتا ہے یہ ہم ہی چاہ رہے ہیں۔یہ باتیں روحانیت نہیں لگیں گی کیونکہ ہم یہ کب کہتے ہیں نفس کا جی چاہ رہا ہے سونے کو،ہم یہ ہی کہتے ہیں میرا جی چاہ رہا ہے سو جائوں، کیونکہ اُس وقت ہم میں اور نفس میں کوئی فرق نہیں ہے، نفس اور ہم ایک دوسرے میں ضم ہیں ۔کبھی کبھی جی چاہتا ہے مجھ سے کوئی بات نہ کرے تو آپ کہتے ہیں مجھے اکیلا چھوڑ دو مجھےاپنے ساتھ تنہائی میں کچھ وقت چاہیےاِس سے دو کام ہوئے ایک تو دل آزاری کی رب کی بارگاہ میں مجرم ہوگئے دوسرا نفس یہ نفس کی اطاعت ہوگئی جس سے نفس مزید طاقتور ہوگا۔نفس کی بات ماننے، نفس کی خواہش پورا کرنے اور نفس کی مواقفت کرنے میں آپ کو نقصان ہی نقصان ہے۔کوشش کرکہ تیری کوئی محبوب چیز تیرے پاس نہ رہے، تیرے حق میں یہ ہی بہتر ہے، تو ایک لحظہ کے لیے بھی اپنے نفس کے ساتھ نہ چھوڑا جائے۔
تصنیف لطیف “روحانی سفر” کا مطالعہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 1 اپریل 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس