- 781وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
معاشرے میں عورتوں کے طبقے میں سدھار ضروری ہے:
معاشرے میں سب سے زیادہ سدھار جس طبقہ میں آنا چاہیے وہ طبقہ عورتوں کا ہے، ایک حدیث شریف میں آیا کہ ایک عورت پانچ مردوں کو جہنم میں لے کرجائےگی۔ مردوں کو سدھارنے سے زیادہ توجہ عورتوں پر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ایک عورت سدھر جائے گی تو اسکی اولاد کو صحیح تربیت مل سکتی ہے اور اگر ایک مرد سدھر جائے تو وہ اکیلا ہی سدھرا رہے گا۔
سرکار گوھر شاہی نے فرمایا ، عورت کو قابو میں رکھنے کے لیے صرف ایک ہی دوائی ہے وہ ہے اسم ذات “اللہ ھو ” کا ذکر اس کے قلب میں داخل ہوجائے تو وہ عورت کو قابو میں رکھے گا اور کوئی چیز اسکو قابو میں نہیں کر سکتی، جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ذکر اور نور چلا جاتا ہے تو پھر وہ براہ راست اللہ کی نظروں میں آ جاتے ہیں ۔ ایک حدیث شریف میں ہے جس کے دل میں اللہ کا نور چلا جائے پھر اللہ خود اسکی رہنمائی کرتا رہتاہے، باقی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اگر ذکر قلب عطا ہو گیا ہے ،اگر دل میں اللہ اللہ شروع ہو گئی ہے تو اِسی کو پختہ کرنے کی کوششیں کریں کسی اور تدبیر کی ضرورت نہیں ہے ، ہم سمجھتے ہیں مردوں سے زیادہ ذکر قلب کی عورتوں کو ضرورت ہے کیونکہ عورتیں ہر مہینے میں سات دن نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ کوئی اور عبادت کرسکتی ہے تو ایسی صورت میں تو انکے لیے بڑا مسئلہ ہے اور اگر عورت کے قلب میں اللہ اللہ ہونا شروع ہو گئی تو ان سات دنوں میں بھی قلب میں اللہ اللہ ہوتی رہے گی اور وہ اللہ سے دور نہیں ہونگی ، لہذا مردوں سے زیادہ تو عورتوں کو“ اللہ ھو” کی ضرورت ہو گئی۔
پریشانی اس وقت شروع ہوتی ہے کہ جب ہم چاہیں کہ یہ قابل اعتبار بھی بن جائیں ! عورتوں میں ہمت نہیں ہوتی یہ کان کی کچی ہوتی ہیں لوگوں کی باتوں میں آ جاتی ہیں ، نصیحت کرنے والا انکو اچھا نہیں لگتا لہذا پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ انہیں نور سے ہدایت مل جائے اس میں نصیحت نہیں ہوتی نور خود ہی اندر کی صفائی کرتا رہتا ہے لیکن اگر نور بھی عورت کے قلب میں داخل نہ ہو تو پھر اسکو کوئی بچا نہیں سکتا۔ جن عورتوں کو ذکر قلبی عطا ہو گیا جن کے قلب بیدار ہو گئے انکو اللہ نےبچا لیا ہے، جب تک اللہ ھو چل رہا ہے وہ محفوظ ہیں ۔عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:اپنی زبان کو غیبت سے بچائیں ، کسی پر بہتان نہ لگائیں ۔
غیبت کرنا، زنا سے بھی بڑا گناہ ہے:
ہمارے معاشرے میں چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بڑے بڑے گناہ تصور کیا جاتا ہے اور جو بڑے بڑے کبیرہ گناہ ہیں ان کو گناہ صغیرہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسا کہ انس بن مالک سے مروی ایک حدیث شریف میں آیا الغيبة أشد من الزنا ۔ کہ غیبت کرنا ارتکاب زنا سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ زنا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑا لیبل ہے جس میں بڑی حقارت ہے لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ غیبت زنا سے بھی بڑا گناہ ہے لیکن غیبت کرنے پر کوئی سنگسار نہیں کرتا ! کوئی پکڑ نہیں کرتا اس لیے صبح شام آسانی سے غیبت ہوتی رہتی ہے، غیبت تو ایک طرف رہ گئی لوگ تو بہتان لگانے سے بھی باز نہیں آتے ۔
غیبت کیا ہے؟
آپ میں کوئی عیب ہو جو چھپا ہوا ہو اور کوئی یہ عیب جا کر دسروں کو بتائے تو یہ غیبت کہلائے گی۔ قرآن میں دو اورگناہوں کا ذکر بھی ہے، قرآن میں اللہ نے کہا کسی کو ٹوہ میں نہ رہو اور کسی سے بدگمان نہ ہو، یہ بھی کہا کہ بہت سی بدگمانیاں کفر ہیں ، اب بدگمانی تو ایک ہی قسم کی ہوتی ہے کہ کسی کے بارے میں برا گمان قائم ہو جائے ۔تو بہت سی بدگمانیاں کفر ہیں سے اللہ کی کیا مراد ہے؟
ایک بدگمانی وہ ہے جس کا تعلق عام آدمی سے ہے اور ایک بدگمانی وہ ہے جو رب کے بندے سے ہوتی ہے ، عام آدمی تو آپکو کچھ دے بھی نہیں سکتا اگر اس سے بدگمان ہو بھی گئے تو خیر ہے لیکن اگر مرشد سے اللہ والے سے بدگمان ہو گئے تو فیض نہیں ملے گا اور اگر اُس سے فیض نہیں ملے گا تو پھر کہیں سے نہیں ملے گا تو یہ کفر ہی ہو گیا !
ہمارے معاشرے میں یہ تمام برائیاں بہت عام ہیں ، غیبتیں کرنا بہتان لگانا ، بدگمانیاں پیدا کرنا، اب کسی کی پیٹھ پیچھے اسکی برائی کرنا اسکے خلاف بدگمانی پیدا کرنا ہی تو ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا وقار لوگوں کی نظروں میں خراب ہو جائے۔
اگر تو اپنے گھر میں چھپ کر کوئی گناہ کر رہا اور کوئی تیری ٹوہ میں لگ کر تیرا یہ گناہ جا کر لوگوں کو بتا دے تو لوگوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ کیا ہوا ہے لوگ برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے کہ اچھا یہ اپنے گھر میں یہ کام کر رہا تھا ! لیکن اگر اِس کو مذہب کی نظر سے دیکھیں کہ اگر کوئی شخص چھپ کر کوئی گناہ کر رہا تھا کہ جس میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں تھا تو وہ گناہ اللہ اور اسکے بیچ میں تھا اللہ چاہتا تو اسکو معاف کر دیتا لیکن کسی نے اسکو ٹوہ لی اور اسکا وہ گناہ جا کر لوگوں میں مشتہر کر دیا جس کی وجہ سے وہ بدنام ہو گیا اب اللہ کی طرف سے اسکی ذمہ داری اُس بندے کے اوپر ہوگی جس نے اسکو چھپ کر گناہ کرتے ہوئے دیکھا اور لوگوں میں بیان کر دیا، اسی لیے اللہ نے فرمایا کسی کو ٹوہ میں نہ لگو۔
“اللہ کا ایک صفاتی نام “ستار ”بھی ہے، ستر بھی ستار سے نکلا ہے ستر کا معنی پردہ ہے اور “ستار” کا معنی پردہ ڈالنے والا ہے، یعنی اللہ عیب چھپاتا ہے اور اللہ عیب کب چھپائے گا کہ جب صرف اللہ وہ عیب جانتا ہو ،اگر تم چوک پر کھڑے ہو کر کوئی گناہ کرو گے تو اللہ اس گناہ کو کیوں چھپائے گا وہ تو سب نے دیکھ لیا ، اگر کوئی چھپ کر گناہ کرتا ہے تو اللہ اسکے لیے “ستار” ہے ہوسکتا ہے اسے معاف کر دے مگر تو نے اسکا گناہ مشتہر کر کےاللہ کی اُس صفت سے اُس بندے کو محروم کر دیا ، تو یہ کتنا بڑا گناہ ہے”
اور ان گناہوں کا براہ راست معاشرے سے تعلق ہے،جن گناہوں سے معاشرے میں برائی پھیلے ایسے آدمی کو فاجر کہتے ہیں اور اس عمل کو فجور کہتے ہیں ۔جن کے ذکرِ قلب جاری ہو جائیں خاص طور پر خواتین انکو چاہیے کہ پھر وہ اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں ایسا نہ ہو کہ ذکر چلنے کے بعد تم نے کسی اللہ کے دوست یا کسی مومن کی غیبت کر دی، بہتان لگا دیا تو چلتا ہوا ذکر قلب بند ہوجائے گا۔ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کو مذہب غیبت کہتا ہے اور ماڈرن سوسائٹی میں اسے گوسپ کہتے ہیں ، بندے کو پورے معاشرے میں بدنام کر دیا اور کہتے ہیں ہم نے کیا کیا ہے۔
غیبت اور بہتان میں ملوث شخص نفسِ امارہ کا حامل ہے:
مصیبت یہ ہے کہ یہ جو غیبت اور بہتان لگانے کے گناہ ہیں اگر یہ آپ سے سرزد ہو رہے ہیں تو اسکا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ آپکا نفس ابھی تک نفس امارہ ہے کیونکہ جسکا نفس لوامہ بن جاتا ہے پھر وہ غیبتیں نہیں کرسکتا، بہتان نہیں لگا سکتا ، تو ان چیزوں پر آپ کو کنٹرول کرنا ہو گا،
1۔ گفتگو ایسے کریں کہ جس سے کسی کی تحقیر نہ ہو ،
2۔ اپنی شخصیت کوایسا بنائیں کہ آپ کے آنے سے لوگوں کے دل پریشان نہ ہو جائیں ، آپ کا وجود لوگوں کے لیے باعث شفقت و محبت ہو، ایسا نہ ہو کہ آپ کے آنے سے ماحول شدید بے چین ہو جائے، بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو بلا وجہ نحوست پھیلا کر رکھتے ہیں، آپ کا کردار ایسا ہو کہ ہر آدمی آپکے سامنے مطمئن ہو۔ جو اسکا جی چاہ رہا ہے وہ کرسکے ، بہت سے لوگوں کی عادت ہے وہ نحوست پھیلا کر رکھتے ہیں تو انکے سامنے لوگ سنجیدہ ہو کر رہتے ہیں، اپنا جائزہ لیں اگر آپ کے آنے سے ایسا ہوتا ہے تو پھر لعنت ہے آپ کی زندگی پر. مومن کی آمد لوگوں کے لیے باعث رحمت ہوتی ہے ، مومن کے آنے سے لوگ خوش ہوں گے، انکے دل چہچہائیں گے اور اگر کوئی بد بخت غصہ والا، لوگوں میں میخیں نکالنے والا، لوگوں کو بدنام کرنے والا ، فتنہ پھیلانے والا پاس آجائے گا تو پہلے تو لوگ خاموش ہو جائیں گے اور پھر ایک ایک کر کے اٹھ کر وہاں سے چلے جائیں گے ۔تو آپ ایسا نہ کریں ۔
حساب کتاب کے لیے اللہ نے ایک دن یوم محشر کا مقرر کر دیا ہے لہذا آپ کو کسی کا حساب کتاب لینے کی ضرورت نہیں ہے! ایک بات جو ہم نے بہت سے معاشروں میں دیکھ رہے ہیں ، پہلےمغربی ممالک کی بات کر لیتے ہیں ، یہاں پرخود کو جو روحانی کہلانے والا طبقہ ہے وہ ایک جملہ استعمال کرتا ہے ، Don’t be Judgmental , یہ دوسروں کو کہنے کے لیے ہے لیکن خود یہ judgmental ہوتے ہیں ، لوگوں کی نیتوں پر شک کرتے ہیں ، تو آپ کسی پر شک نہ کریں ۔اس لیے کہ آپکو پتا ہی نہیں ہے کہ ظاہری طور پر جو کام کوئی کر رہا ہے اسکے باطنی طور پر کیا محرکات ہیں ۔حضور پاک نے فرمایا انما اعمال و بالنیات ، لیکن کم سے کم سرکار گوھر شاہی کا پیرو کار ہونے کے ناطے آپکو یہ سوچنا چاہیے کہ مجھے جب پتا ہی نہیں اس بندے کی نیت کیا ہے تو اس کے عمل پر میں فتوی کیوں لگاؤں ۔کم سے کم سرکار کے ماننے والوں کو judgmental نہیں ہونا چاہیے! ہاں، اگر اللہ تعالی نے آپکو کسی کے دل میں جھانکنے کی اجازت دے دی ہے اور آاپ لوگوں کے دل پڑھنے لگ گئے ہیں تو پھر الگ بات ہے ، لیکن اگر آپکو اپنے دل کی نیت کی ہی خبر نہیں ہے تو سامنے والے کے دل میں کیا ہے وہ آپکو کیا پتا چلے گا۔
اولیاء کرام بھی، نیتوں پر شک کرنےسے محفوظ نہ رہ سکے:
بایزید بسطامی رحمت اللہ کے امتحان کا وقت آیا تو خضر علیہ السلام نے عام آدمی کا بہروپ بھرا اور دریا فراط کے کنارے اپنے برابرایک عورت اور ہاتھ میں بوتل لیکر بیٹھ گئے ، اب یہ بایزید کا امتحان تھا اور جب بایزید نے یہ منظر دیکھا کہ ہاتھ میں بوتل اور بغل میں لڑکی ہے تو وہ judgmental ہو گئے، انہوں نے سوچا کتنا بے غیرت آدمی ہے عورت کو بغل میں بٹھا کر شراب پی رہا ہے ۔یہ نہیں سوچا کہ وہ خضر ہے۔اب آپ نے صرف دیکھا ہی ہے نا کہ ہاتھ میں بوتل ہے، یہ تو نہیں دیکھا اس بوتل میں کیا ہے، انسان کے نفس میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر لوگوں کے گناہ کا ذرا سا اشارہ بھی مل جائے تو وہ پوری کہانی خود بنا لیتا ہے۔ اپنے خیالات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی ضرورت ہے، لوگوں کو دیکھ کر خود ہی اندازے لگا لیں کہ فلاں بندہ ایسا ہی ہوگا ۔یہی لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کچھ دیکھنے کے بعد خود ہی فیصلہ بھی کر لیتے ہیں کے اچھا !یہ کہانی ہے اور یہاں ہی بس نہیں پھر اس کو نافذ بھی کر دیتے ہیں ، تو آپ ایسا نہ کریں۔
داتا علی ہجویری کے ساتھ بھی ایک واقعہ ہوا، آپ ایک بازار سے گزر رہے تھے اور آپ کی نظر ایک کپڑا فروش پر پڑی اسکو دیکھ کر داتا صاحب کو خیال آیا کہ یہ کاربار میں کتنا مست ہے کہ یہ اللہ کی یاد بھی بھول گیا ہے ، تھوڑی دیر بعد ہی اسکے سر پر کہیں سے پتھرآلگا جس سے خون کا فوارا چھوٹ کر دیوار پر پڑا اوردیوار پر خون سے لفظ اللہ نقش ہوگیا ۔بڑی بڑی ہستیاں، اولیاء کرام بھی judgmental ہونےسے محفوظ نہیں رہ سکے ، یہ بڑا پیچیدہ ہے لیکن سرکار گوھر شاہی کے غلام ہونے کی حیثیت سے آپ کو اُن سے بہتر ہونا چاہیے۔
مجدد الف ثانی کے دور کا بھی ایک واقعہ ہے کہ مجدد صاحب ظہر کی نماز کے لیےمسجد گئے اور دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں سو رہا ہے ،خیال آیا کہ ہو سکتا ہے نماز ادا کر کے سویا ہو وہ بھی نماز ادا کر کے چلے گئے ، پھر عصر کی نماز کے لیے مسجد آئے پھر دیکھا کہ وہ شخص سو رہا ہے تو انہوں نے اپنے دل کو پھر سمجھایا کہ ہو سکتا ہے کہ نماز ادا کر کے سویا ہو، مجدد الف ثانی عصر سے مغرب تک کا وقت مسجد میں ہی گزارتے تھے ، اس دوران دیکھتے رہے کہ وہ بندہ مسلسل سو رہا ہے جب مغرب کا وقت آیا اور وہ ابھی تک سو رہا تھا تو اسکو جھنجھوڑ کر اٹھایا کہ یا تو مسجد سے نکل جا یا پھر نماز پڑھ، تو وہ وضو کر کے آیا ادھر امام صاحب مغرب کی نماز کی نیت باندھ رہے تھے اس شخص نے زور سے کہا امام صاحب ٹھہر جائیں، پھر اس شخص نے فجر کی نیت باندھی تو وہاں فجر کا سماں ہو گیا ، پھر ظہر کی نماز پڑھنے کی نیت کی تو سورج واپس آ گیا ، پھر عصر کی نماز پڑھنا شروع کی تو وہاں عصر کا وقت ہو گیا اور اسکے بعد کہا امام صاحب اب آپ مغرب کی نماز پڑھائیں ، نماز کے بعد اس شخص نے مجدد صاحب کو کہا آپ تو اہل نظر تھے ، مجھے اٹھانے سے پہلے میرا حال ہی دیکھ لیتے! میں تو اُسی کے پاس تھا جس کی تم نمازیں پڑھ رہےہو۔ تو اندازے لگانا ایسی چیز ہے جو انسان کی فطرت میں ہے کسی دوسرے کی حرکت کو دیکھ کرانسان کا نفس فورا چھلانگیں لگاتا ہے لیکن اپنے گناہ اسکو نظر ہی نہیں آتے، خود سو، چوہے کھا لےگا ، لیکن سامنے والے کو اگر چوہے کی بو بھی آ جائیگی تو کہے گا دیکھو یہ کتنا بڑا کافر ہے۔
فطرت انسانی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو نظر انداز کر دیتا ہے:
بالخصوص مسلمانوں کی اور بالعموم ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور سامنے والے کے اشارے کو بھی معاف نہیں کرتا۔ کسی نہ کسی درجے میں ہر آدمی کے اندرشدت پسندہونے کی صلاحیت موجود ہے، کوئی معاشرتی دہشت گرد ہے کوئی گھریلو دہشت گرد ہے ۔بہت سے بیوی یا شوہرایسے ہوتے ہیں کہ اپنے گھر پر ایسا خوف طاری کر رکھا ہوتا ہے کہ سارے گھر والے سہم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔اگر شوہر ایسا کرے تو جیسے ہی وہ گھر سے کام پر جاتا ہے تو سارے گھر والے سکھ کا سانس لیتے ہیں ، بیوی اگر ایسا کرے تو بچے بیچارے کہاں جائیں گے؟ جومعاشرتی دہشت گرد ہیں وہ کسی بندے کو خاطر میں ہی نہیں لاتے ہر ایک کو مجرم سمجھتے ہیں ، یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ آپ کے نفس کی فطرت میں ایک چیز موجود ہے کہ سامنے والا کوئی غلطی نہ کرے بھلے ہی میں کتنی غلطیاں کیوں نہ کرلوں۔سیدنا گوھر شاہی کے بندے کو judgmental ہونا زیب نہیں دیتا ۔ ہمیں سرکار کا حکم ہے کہ آخر تک معاف کرنا ، جب تک کہ کوئی خود نہ بھاگ جائے۔ دوسری بات یہ کہ پوری دنیا کے معاشرہ میں اب کوئی فرق نہیں رہا اسکی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا گلوبل ولیج ، Global Village بن گئی ہے، انٹرنیٹ اور ٹی وی کی وجہ سے ہر ملک میں ایک ہی جیسا ماحول ہو گیا ہے۔معاشرے کا حال یہ ہے کہ آپ ساری زندگی کسی کے ساتھ بھلا کریں اور ایک مرتبہ کچھ اونچ نیچ رہ جائے تو نہ وہ بندہ آپ کو بخشتا ہے اور نہ ہی معاشرہ کوئی کسر رہنے دیگا، معاشرے کو اسکی ساری زندگی کی بھلائیاں نظر نہیں آئیں گی ایک بار کی گالی ریکارڈ پر آ جائیگی، جتنی بھی اچھائیاں آپ نے کی ہونگی وہ سب بھلا دی جائیں گی، آپ دس بیس سال تک کسی پر احسان چڑھائیں اور ایک مرتبہ گالی دے دی تو بارہ سال کا احسان یاد نہیں رہے گا وہ ایک گالی یاد رہ جائیگی یہ ہے معاشرہ۔
“سرکار گوھر شاہی کی تعلیم کہتی ہےکہ لوگوں کی برائیاں بھلا دو اور لوگوں کی اچھائیاں یاد رکھو”
سیدنا گوھر شاہی کے حلقہ میں مذہبی اور زاہد و پارسا قسم کے لوگ بھی تھے اور گناہ گار بھی، سرکار گوھر شاہی کا فرمان ہے کہ مستقبل میں گناہ گار قسم کے لوگ ہی امام مہدی کا ساتھ دیں گے ، یہ تو وہ خوبی تھی کہ جسکی توقع امام مہدی نے لگا لی جو مستقبل میں سامنے آئیگی ۔اچھا انسان بننا ہے تو نفس کو قابو میں کرنا پڑے گا ،قلب کو صاف کرنا پڑے گا۔اچھا باپ وہی بنتا ہے کہ جو اچھا انسان ہو۔اچھا آفیسر بھی وہی بنے گا کہ جو اچھا انسان ہو گا۔اچھا مولوی بھی وہی ہوگا جو اچھا انسان ہو گا۔اچھی ماں بھی وہی ہو گی کہ جو اچھی عورت ہو گی۔اگر فی نفسہی بذات خود آپ اچھے نہیں ہیں توماں ، بہن، بیوی ، بیٹی کسی بھی رشتہ میں آپکا روپ اچھا نہیں آئیگا ۔ایک اچھی عورت ہی اچھی بیوی ثابت ہوگی، ایک اچھی عورت ہی ایک اچھی ماں ثابت ہوگی، ایک اچھا مرد ہی ایک اچھا بھائی ثابت ہو گا، ایک اچھا مرد ہی ایک اچھا باپ ثابت ہو گا۔اگر آپ خود اچھے نہیں ہیں تو کسی بھی رشتے میں آپ اچھے ثابت نہیں ہونگے۔یہ ہمارا معاشرہ ہے جس میں مسجدیں مندر کلیسا چرچ سب کچھ ہیں لیکن ایمان و ہدایت سے خالی ہیں ، نہ چرچ میں ہدایت ، نہ مسجد و مندر میں اور نہ ہی انسان کے دل میں ہدایت ہے!
کیا کار چلاتے وقت آپ اپنا دھیان ہٹا سکتے ہیں ؟کیا ایسا کرتے ہیں کہ چلتی کار کا اسٹیرنگ چھوڑ کر کھانا کھا لیں ، جب بھی کسی سےڈرائیونگ میں غلطی ہوئی وہ مارا گیا ،یا کرکٹ کھیلتے وقت دھیان کہیں اور ہوا تو ایک ہی گیند میں آؤٹ ہو جائیں گے۔ کسی کو کرکٹ کھیلتے وقت گیند لگ جانے سے ڈر لگتا ہے، انسان میں نفسیات کی چیزیں بڑا اثر رکھتی ہیں ،گیندچھوٹی سی چیز ہے اور آپ کے ہاتھ میں پورا ایک بیٹ ہے اگر دس بارہ بال ایکدوسرے پر رکھ دیں تب بھی بیٹ ان سے بڑا ہے پھر بھی گیند سے ڈر لگ رہا ہے تو اسکا مطلب ہے آپ میں ہمت کی کمی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جن میں ہمت نہیں ہوتی وہ ہاتھ میں بندوق ہونے کے باوجود ڈر کے بھاگنے لگ جاتے ہیں ۔اگر آپ کو رب چاہیے تو رب کو حاصل کرنے کے لیے کم سے کم اتنی توجہ دے دیں جتنی ڈرائیونگ کرتے وقت آپ گاڑی پر دیتے ہیں ، اگر ایک ہاتھ رب کی اور ایک ہاتھ دنیا کی طرف ہے تو آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔
گاڑی چلانا کتنی چھوٹی سی چیز ہے جس میں عدم توجہی کی گنجائش نہیں تواگر دھیان یہاں اور وہاں بھی ہے تو اللہ کے راستے میں تم کیسے چلو گے ؟ یا تو اللہ والے بن جاؤ یا اللہ کو بھول جاؤ! ایک ہاتھ دنیا کی طرف اور ایک اللہ کی طرف ہے توکامیابی نہیں ہوسکتی۔بلھے شاہ نے بالکل صحیح کہا ہے
تیرا دل کھلاندا منڈے کڑیاں،توں سجدے کریں مسیتی۔۔۔۔۔۔۔دنیا دارا اللہ نال چارسو وی کیتی
دل میں تم نے بچوں کو پالا ہوا ہے تو مسجد میں تمہارے سجدے بیکار ہی ہیں ،تم اللہ کے ساتھ بھی چار سو بیسی کر رہے ہو۔ اب دل میں بچے بھرے ہوں یا بیوی یا شوہر جو بھی اللہ کی راہ میں آگیا رکاوٹ تو ہوگئی ،بیوی بچے شوہر سب صحیح ہیں یہ رشتے نبھاؤ ، پیار بھی کرو، خیال بھی رکھو لیکن انکو دل سے باہر باہر رکھو دل میں صرف رب ہو۔جب تک آپ لوگ بغض و عناد، بہتان ، غیبتوں کی احتیاط نہیں کریں گے جو بھی نور آپکے اندر بن رہا ہے وہ ضائع ہوتا رہے گا۔لوگوں میں ایک عادت یہ بھی ہے وہ جسطرح چاہے دوسروں سےمذاق کریں لیکن اگر کوئی ان سے مذاق کرے تو برداشت نہیں کرتے، اگر آپ کو مذاق پسند نہیں ہے تو آپ بھی کسی سے نہ کریں عزت تو سب کی سانجھی ہوتی ہے آپ معزز ہیں تو وہ بھی معزز ہے ۔
آپ کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ کسی کو آپ کے وجود سے آپ کی موجودگی سے تکلیف اور پریشانی نہ ہو، کوئی آپکے وجود کی وجہ سے ڈرا اور سہما ہوا نہ رہے۔ اگر آپ کے اٹھنے بیٹھنے سے کسی کو کوئی خوف نہیں تو اسکا مطلب ہے آپ مومن ہیں ۔ مومن کی شان یہ ہے کہ اگر آپ کوئی گناہ بھی کر دیں گے تو وہ آپ کو بدنام نہیں کرے گا معاف کر دے گا کہ چلو اللہ خیر کریگا، نہ ہی مومن فتنہ فساد کرے گا۔اس گفتگو کا ایک سبق یہ ہے کہ کم سے کم اس فرمان گوھر شاہی کو اپنی زندگی میں فورا داخل کر لیں۔
“ میں لوگوں کی برائیوں کو بھلا دوں گا اور انکی اچھائیوں پر نظر رکھونگا” اس ایک چیز کو اگر اپنی زندگی میں شامل کرلیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپکی شخصیت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا ہو جائیگا”
یہ کام مشکل نہیں ہے ، کوئی کام مشکل اُس وقت ہوتا ہے جب آپ منافق ہوں اور حیل و حجت کریں، جو کام کرنا ہے وہ کرنا ہے ،جیسا کہ کبھی آپ نے یہ کہا میرا مثانہ بھرا ہوا ہے کوشش کرتا ہوں پیشاب کر لوں ، کوشش کہاں کرتے ہیں پیشاب رکتا ہی نہیں ہے ، کبھی کہا بہت زور کی حاجت لگی ہے لیکن میں رفع حاجت کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔حاجت زور دار ہے تو کوشش کی کیا ضرورت ہے ، مثال بہت گندی ہے لیکن ہے کوئی مرد کا بچہ جو کہے کہ حاجت تو زوروں پر ہے لیکن میں روک لوں گا! آپ روکتے رہ جائیں گے اور حاجت رفع ہو جائیگی۔جب ہمارا نفس پاکی کے آخری مراحل میں تھا تب یہ بات مجھ پر الہام ہوئی تھی ، ہم نے سرکار کی بارگاہ میں عرض کی کہ سرکار میں اپنے نفس کو کیسے سمجھاؤں کہ اس کی کوئی وقعت نہیں ہے، میرے نفس سے انانیت اور اکڑ نہیں جاتی، تو سیدنا گوھر شاہی کی طرف سے الہام آیا ، اس کو الہام کیوں کہا کیونکہ بار بار یہ جملہ اندر گونجنے لگا” کہ اگر تو اتنا افضل ہے تو اپنے پیشاب پر کنٹرول کر کے دکھا” ۔ جب بار بار یہ جملہ گونجا تومجھے سمجھ آ گیا کہ میں کتنا بڑا تیس مار خاں ہوں ، ساری طاقت دھری کی دھری رہ گئی۔بڑی بڑی ڈینگیں مارنے سے پہلے دیکھ لیں کیا معمولی سے پیشاب کو روکنا آپ کے کنٹرول میں ہو گیا ہے؟ باتھ روم نہ ملے تو بولائے بولائے پھرتے ہیں اس ایک ذرا سی بات سے اپنی ساری حقیقت واضح ہو تی ہے ایک پیشاب کی دھار تک تو ہمارے بس میں نہیں ہے۔
حاصل کلام:
انسان کی کوئی اوقات نہیں وہ اپنی ہستی میں زیرو ہے،انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حقیقت سے آشنا ہو اور زمین پر دھیرے چلے اور مندرجہ ذیل چیزوں سے اجتناب کرے۔
1۔ غیبت اور بہتان سے اجتناب کریں۔
2۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے بات کریں ۔اسکے وجود کی وجہ سے نحوست نہ ٹپکے ، کوئی اس لیے اٹھ کر نہ چلا جائے کہ اب یہ آ گیا ہے پتا نہیں کیا کیا بکواس کریگا۔
3۔ لوگوں کا ادب و لحاظ رکھیں۔
4۔ کسی کے بارے میں برا گمان نہ رکھیں۔
5۔ کسی پر غلط الزام نہ لگائیں۔
6۔ کسی کا عیب مشتہر نہ کریں، اگر وہ کوئی کام چوری چھپے کر رہا ہے تو یہ اسکا اور رب کا معاملہ ہے انسان کو اس میں بولنے کا کوئی حق نہیں ۔
7۔ اگر کوئی شخص کوئی کام چھپ کر کر رہا ہے تو اسکی ٹوہ میں نہ لگے کیونکہ تم کو اختیار نہیں کہ اس کا پردہ ہٹا کر اسکے گناہ کو دیکھو اب یہ اسکے اور اسکے رب کے بیچ میں ہے ، رب کی مرضی ہے اسکو معاف کرے یا نہ کرے، کیونکہ اس نے تمہارے خلاف تو کوئی گناہ نہیں کیا۔، کسی کی ٹوہ میں نہ لگو!
8۔ کسی کے عیب دیکھ کر آگے بیان نہ کرومعاشرہ خراب ہوگا۔
9۔ نئی نئی کہانیاں بنا کر لوگوں پر مت تھوپو۔
10۔ دل آزاری نہ کرو۔
بلھے شاہ نے کہا
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے۔ ڈھا دے جے کجھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
دل نہ توڑو ، دل آزاری نہ کرو، حدیث میں لکھا ہے کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ کسی کی دل آزاری کرنا ہے، ان چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں ، خاص طور پر عورتوں کو اس پر کنٹرول کرنا ہے کہ وہ غیبت و بہتان سے باز رہیں ، یہ جو Gossip کرنا ہے کہ دو چار عورتیں مل بیٹھ جائیں گی تو لیلی مجنوں کی کہانی شروع ہو جائیگی جو ختم ہی نہیں ہوگی ، اب تو WhatsApp اور پتا نہیں کیا کیا آگیا ہے ، پہلے تو Gossip کے لیے دوچار عورتوں کا آنا ضروری تھا اب آنے کی بھی ضرورت نہیں فون اُٹھا کر Gossip کی جارہی ہیں ،بہتان لگائے جا رہے ہیں ، iMessage پرغیبتیں ہو رہی ہیں ۔بلکہ غیبت بہتان کے فورم بنائے جا چکے ہیں ۔غیبتوں کے لیےگروپ چاٹ بنے ہوئے ہیں کہ چلو فلاں کی غیبت کرتے ہیں یہ نہ کریں ورنہ روحانیت میں چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مندرجہ بالا مضمون نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 29 جون 2017 کی اصلاحی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے۔