کیٹیگری: مضامین

”مسلم کہتا ہے کہ ”میں سب سے اعلیٰ ہوں “ جبکہ یہودی کہتا ہے ”میرا مقام مسلم سے بھی اونچا ہے“، اور عیسائی کہتا ہے کہ” میں ان دونوں سے بلکہ سب مذاہب والوں سے بلند ہوں کیونکہ میں اللہ کے بیٹے کی اُمت ہوں ۔“لیکن سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں ” سب سے بہتر اور بلند وہی ہے جس کے دل میں اللہ کی محبت ہے خواہ وہ کسی مذہب سے نہ ہو ! زبان سے ذکر وصلوۃ اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت ہے جبکہ قلبی ذکر ، اللہ کی محبت اور رابطے کا وسیلہ ہے ۔“
(کتاب مقدس دین الہی )

عام طور پر ہم ان الفاظوں سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ رب کی محبت کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور مذہب کی اہمیت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مقصد رب کی محبت ہے ،مذہب نہیں ہے ۔اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رب کی محبت اصل مقصد ہےشاید اسی لئے مذہب کو اختیار کرتے ہیں ۔اگر آ پ رب کی محبت اپنے دل میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کسی مذہب پر عمل پیرا ہونے یا اُسے اختیا ر کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ رب کی محبت مذہب کا نچوڑ ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا آج کوئی ایسا مذہب موجود ہے جس کی مدد سے رب کی محبت حاصل کر لی جائے یا اُس مذہب کے ماننے والوں کے دلوں میں رب کی محبت بھی موجود ہو؟ اللہ نے رسول اور پیغمبروں کو جب بھیجا تو کیا اس کے ذہن میں رب کی محبت تھی کہ لوگ ان کی مدد سے میری محبت حاصل کریں گے؟
سیدنا گوھر شاہی کے اس پیغام کی روشنی میں صاف پتہ چلتا ہے کہ مذہب اختیار کرنےکی اہمیت کو بالکل ختم کر دیا ہے ۔اب آپ کسی مذہب میں نہیں ہیں اورعلم روحانیت کے زریعے رب کی محبت حاصل کرنا اصل مقصد ہے ۔کیا ہم نے کبھی سوچاہے کہ بناء مذہب کے آپ کی زندگی کیسی ہو گی ؟ مذہب کی پیروی نے ہمارے دل ودماغ پر مذہبی ازیت کی آلودگی کو طاری کر دیا ہے اور آج کے معاشرے میں ایسا نظر بھی آ رہا ہے کہ مذہبی لوگوں کے دوہرے معیار ہوتے ہیں ۔داڑھیاں بھی بڑھائیں گے اور غلط کاریوں میں بھی سب سے زیادہ مذہبی لوگ ہی نظر آتے ہیں ۔
مغربی ممالک میں لوگ عورتوں کے ساتھ بناء شادی کے رہتے ہیں اور وہ اسے سول پارٹنرشپ کہتے ہیں ۔لیکن اگر مذہب کے نظریے سے دیکھا جائے تو یہ زنا کہلاتا ہے ۔لیکن جو لوگ مذہب پر عمل پیرا ہیں وہ اس سول پارٹنر شپ کو حرام سمجھتے ہیں۔ایک شخص بناء شادی کئے اپنے پارٹنر کے ساتھ کئی سالوں سے رہ رہا ہے اور مذہبی شخص بھی وہ وہی کام شادی کے بعد کر رہا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ با وفا ہیں تو پھر فرق کیا ہے ؟ جب سیدنا گوھر شاہی نے یہ فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں رب کی محبت ہے خواہ وہ کسی مذہب میں نہ ہو ۔اب اگر کوئی شخص جو بناء شادی کئے اپنے پارٹنر کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ،لیکن مذہب ایسے لوگوں کو زانی سمجھتا ہے ۔مذہب نے لوگوں کا دماغ خراب کر دیا ہے ۔اگر دونوں پارٹنر ایک دوسرے کے ساتھ وفادار ہیں ، آپ بھی کسی دوسری عورت کے پاس نہیں جاتے ہیں اور آپ کا پارٹنر بھی آپ کے ساتھ بافا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی برائی ہے ۔ لیکن مذہبی لوگ اِسے حرام قرار دیتے ہیں ، آپ بتائیں اس میں کیا حرام ہے ؟ اگر ان کے اس آپسی رشتے کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوتی ہے لوگ اسے حرامی کہتے ہیں ۔ یہ کیسا معاشرہ ہے ،لوگوں کی کتنی ظالمانہ روش ہے کہ جو بچہ پیدا ہوا ہے اُسے حرام کہہ رہے ہیں اور جنھوں نے پیدا کیا ہے وہ آذادنہ گھوم سکتے ہیں ۔
اسی طرح کچھ لوگ رب سے محبت کرتے ہیں ، کچھ اپنے نبیوں سے محبت کرتے ہیں لیکن عبادت کے لئے عبادت گاہوں کا رخ نہیں کرتے ہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اس طرح کے لوگ انسانیت کو ایذا ء نہیں پہنچانتے بلکہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں ۔ مذہب کے مطابق ایسا شخص کافر ہےلیکن وہ آپ سے بہتر ہے ۔ اسطرح کے لوگ مذہبی لوگوں سے بہتر ہیں جنھوں نے مذہب تو اختیار کیا ہوا ہے ، رسومات بھی ادا کر رہے ہیں ، عبادتیں بھی کر رہے ہیں لیکن رب کی محبت سے عاری ہیں ۔مغربی ممالک میں بہت سی ایسی ویلفئیر کی تنظیمیں ہیں جو لوگوں کی مدد کر رہی ہیں اور اس سے انسانیت کو بہت فائدہ بھی ہو ر ہا ہے ۔مذہبی رہنما ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہاں وہ ویلفئیر کا کام کر تو رہے ہیں لیکن بناء ایمان کے کر رہے ہیں جبکہ اللہ نے قرآن میں کہا ہے کہ

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
سورة الزلزلۃ آیت نمبر 7 اور 8
ترجمہ : جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اس آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ رب نے نیک اعمال کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی ہے کہ وہ مذہب پر بھی عمل پیرا ہویا اگر وہ کوئی برا عمل کرے تو اسے سزا جب ہی ملے گی جب وہ مذہب پر عمل پیرا ہو!! کیا آپ کا خیال ہے کہ اگر کوئی برے اعمال میں ملوث ہے تو وہ جہنم میں نہیں جائے گا ؟ یہ ایک غلط نظریہ بنا ہوا ہے کہ اگر کوئی اچھے اعمال کر رہا ہے لیکن مذہب پر کاربند نہیں ہے تو وہ جنت میں جانے کا حقدار نہیں ہے ۔برے اعمال کرے گا تو جہنم میں جا سکتا ہے لیکن اچھے اعمال جنت میں جانے کی بنیاد نہیں ہیں۔؟
مذہب کہتا ہے کہ سُور نہ کھاؤ یہ حرام جانور ہے اگر آپ سُور کھاتے ہیں تو بہت بُرے انسان ہیں ۔لیکن ہم نے بہت سے امریکن ، برٹش ، اسپینش لوگوں کو دیکھا ہے کہ جو لوگ سُور کھاتے ہیں لیکن اُن کا کردار مذہبی لوگوں سےہزار درجہ بہتر ہوتا ہے جو خود کو سب سے بہتر ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔وہ سُور تو کھاتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے اُن کے دلوں میں منفیت نظر نہیں آتی ہے ۔ تم صرف اپنے مذہب کی وجہ سے سُور نہیں کھاتے ہو لیکن تمھارے کردار اور دل منفیت سے لبریز ہیں ۔مذہب نے لوگوں کو اپنا قیدی سا بنا لیا ہے ۔مذہب تو ایک غلامی یا قید سا معلوم ہوتا ہے اوریہ لوگوں کے لئے ایک فکر انگیز بات ہے ۔
اب حجاب کو ہی دیکھ لیں ، کیا حجاب واقعی مدد گار ہے ۔ لوگوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو جاننے کا زیادہ تجسس ہوتا ہے اگر آپ اپنا چہرہ چھپا رہی ہیں تو لوگوں میں مزید تجسس پیدا ہورہا ہے کہ اس میں کیا ہے ، اس کے پیچھے کیا چھپا ہے ۔وہ عورتیں جو مذہب پر عمل پیرا ہیں ، اسکی رسومات ادار کر رہی ہیں کیا وہ بہت اعلیٰ ہیں اُن کے کردار کا بُرا پن حجاب کے اندر نہیں چھپ سکتا بلکہ اُنکے چہروں پر یہ نقاب ایک دھوکہ ہے ۔ پھر ہم نے پاکستانی عورتوں کو بھی دیکھا ،کینیڈا میں بھی دیکھا انگلینڈ میں بھی دیکھا ،انہوں نے حجاب پہنا ہوا ہے اور سینہ اُن کا باہر نکلا ہوا ہے ،کپڑے ایسے پہنے ہوئے ہیں کہ نہ بھی پہنتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہ ڈبل سٹینڈرڈز کیوں ہیں ؟جو مذہب نے یہ سرحدیں بنا دی ہیں کیاانسانیت کے لئے یہ واقعی مدد گار ہیں ۔اگر آپ مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو ذہنی مریض بن جاتے ہیں ۔ یہ حدود جو مذہب نے رکھی ہے اگر آپ اس کو اختیار کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زنجیروں میں قید ہو گئے ہیں ۔ یہاں صرف ایک مذہب کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ تمام مذاہب کی بات ہو رہی ہے ۔ اگر آپ اسلام پر عمل پیرا ہیں تو محمد ؐ کے علاوہ کسی اور نبی کے بارے میں سننا نہیں چاہتے ہیں ۔اور اگر آپ عیسائی ہیں تو عیسیٰ ، موسی اور ابراھیم کے بارےمیں سننا نہیں چاہتے ہیں ۔ لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ یہ تما م انبیاء و مرسلین رب کی طرف سے ہی مامور کئے گئے تھے۔ مذہبی لوگوں کے پاس ذہن کہاں ہوتا ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب تو سجدے میں جاتا ہے تو گویا تو اللہ سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے۔ اللہ نے کبھی بات نہیں کی لوگوں سے لیکن وہ پھر بھی جا رہے ہیں ،داڑھی رکھو، داڑھی رکھ رہے ہیں ۔داڑھی رکھ کر کیا فائدہ ہوا کچھ ملا؟
اب یہ دیکھ لیں نکاح اور طلاق،پاکستان میں بڑے موضو ع پر ڈرامے لکھے جا رہے ہیں ،بہت سے ڈرامے حلالہ کے اوپر لکھے گئے کہ غصہ میں آکر طلاق ہو گئی۔ میاں بیوی بولائے بولائے پھر رہے ہیں کہ حلالے کے لئے کوئی بندہ مل جائے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف حلالے کے لیئے نکاح ہو گا تم ہاتھ نہیں لگانا ۔اب اتنا سخت قانون جو اللہ نے رکھ دیا کہ اگر طلاق ہو گئی تو اُسی آدمی سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتے تاوقت یہ کہ کسی اورآدمی سے شادی ہو ۔ حلالہ میں طلاق کے بعدآپ اگر دوبارہ آپ اسی عورت سے شادی کے خواہش مند ہیں تو اس کے لیئے ضروری ہے کہ وہ پہلے کہیں اور شادی کرے۔ ازدواجی تعلق فزیکل ریلیشن نہیں بنا تو وہ نکاح اللہ کی نظر میں ویلڈ نہیں ہے ۔ولیمہ یہی کنفرمیشن ہے کہ ان کا آپس میں ازدواجی تعلق جڑ گیا ہے ۔اس حلالہ کے قانون پر پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں وہاں پر مولویوں کے مزےہیں ۔انگلینڈ میں بہت سی ایسی مساجد کے مولوی ہیں جو باقاعدہ یہ کام کرتے ہیں اور حلالہ اسپیشلسٹ کہلاتے ہیں ۔کئی اخبارات میں اس سے متعلقہ کہانیاں شائع ہوئی ہیں غصے میں آکر شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی اور وہ مولوی کے پاس گئی انہوں نے حلالہ کی صورت بتا دی ۔ اور پھر اس حلالہ کی آڑ میں اس طرح روزانہ ان کے دن اور رات رنگین ہو جاتے ہیں اور پیسے بھی لیتے ہیں اور پھرجی چاہا تو طلاق دے دی جی چاہا تو نہیں دی۔

”لیکن سیدنا گوھر شاہی کے اس انقلابی پیغام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں ایسے لوگ بھی آئیں گے جن کو مذہب کے ترازو میں نہ تولنا ۔ وہ غلط کاریوں میں بھی ملوث ہوں گے اور رب کی محبت بھی اُن کے اندر ہو گی ۔ کتنا خوبصورت پیغام ہے کہ ان مذاہب کی رسومات سے آذاد کر کےرب کی محبت کی طرف بلا رہے ہیں“

اب یہ جو غلاظت پھیل گئی ہے دنیا میں ، مذہب نے انسان کو کتنا چھوٹا کر دیاہے ۔لیکن سیدنا گوھر شاہی کے انقلابی پیغام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو تم خرافات میں پڑے ہوئے ہو ، یہ شادی اور نکاح کا چکر ، یہ روزہ و نماز کا چکر ، آنے والے دور کے مومن کو اس پیمانے پر نہ تولنا۔کیونکہ آنے والے دور میں دین الہی قائم ہونے والا ہے جس کے دل میں رب کی محبت ہو گی اس پر مذہب پر عمل کرنے کی قید نہیں ہو گی ۔ اور قید نہیں ہو گی تو وہ یہ کام کرتا ہو گا جس کو مذہب نے منع کیا ہے ۔بہت سی چیزیں ہمیں مذہب نے کہی ہے کہ نہیں کرو لیکن اس کے کرنے سے یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ جو تمھاری ازلی تقدیر ہے وہ تمھیں مل رہی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جو ہماری بیٹیاں ،ہماری بہنیں ہم سے جو بغاوت پر مُصر ہوئیں ہیں وہ اس لئے ہوئیں ہیں کہ جو دین ہم نے اُن کو سکھایا ہے وہ منافقت آمیز ہے۔ اچھی بھلی لڑکی کو ہم پریشرائز کر کے اسکو خراب کر دیتے ہیں جینز پہن رہی ہے تو پہننے دو نہ بھئی کیا برائی ہے اس میں ۔ کیا ملا اس مذہب پر عمل کرنے سےسے لیکن اب سیدناگوھر شاہی نے جو کہہ دیاہے کہ سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں رب کی محبت ہے ۔یہ بندہ پورک بھی کھا رہا ہے اس نے نکاح بھی نہیں کیا اسی طرح رہ رہا ہے لیکن اسکے دل میں اللہ کی محبت ہے تو یہ جتنے بھی یہاں پر شریعت پر عمل کرنے والے ہیں اور اللہ کی محبت سے محروم جتنے بھی پارسا زاہد بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے شادیاں کی ہیں بیوی کو بھی دڑبے میں رکھا ہے خود بھی جانور بن کر رہے ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اللہ کی نظر میں ،وہ بھلے ڈسکو بھی جا رہا ہے لیکن دل میں اللہ کی محبت ہے تو وہ بہتر ہے اللہ کی نظر میں ۔آپ بیٹھے رہو ہاتھ میں لے کے ٹماٹر اور خنزیر ۔
آپ بتائیں کے مذہب نے جو پابندیا آپ پہ لگا رکھی ہیں ان کا آپ کا کیا فائدہ ہے اور جو سرکار کی تعلیم ہے وہ یہ کہتی ہے کہ اصل چیز دل میں رب کی محبت کا ہونا ہے اگر دل میں رب کی محبت آگئی ہے تو وہ مذہب میں نہ بھی ہو تو پھر بھی تم سے بہتر ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ عیسائی شراب پیتے ہیں خنزیر کھاتے ہیں تو پھر کیا ہوا بغیر مذہب کے رب کی محبت آئے گی یہ گوھر شاہی کا اعلان ہے سور کھانے والوں کو،شراب پینے والوں کو، بغیر نکاح کے عورتوں کے ساتھ رہنے والوں کو بھی رب کی محبت ملے گی یہ تعلیم گوھر شاہی ثابت کر رہی ہے قرآن شریف میں ہے کی غیبت کرنا زنا کرنے زیادہ شدت والا عیب ہے لیکن لوگ بلا وجہ غیبت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔تعلیم گوھر شاہی ہے کہ کوئی مذہب اختیار نہ بھی کرو پھر بھی رب کی محبت مل جائے ۔ان لوگوں کو بھی رب کی محبت مل جائے گی جو سور بھی کھا رہے ہیں،غلط کاریوں میں بھی ملوث ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مہدی فاؤنڈیشن ہر مذہب والوں کو رب کی محبت کی دعوت دے رہی ہےخواہ اُس کا کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق ہو۔

متعلقہ پوسٹس