کیٹیگری: مضامین

کیا محبت میں عقل کا عمل دخل ہے؟

آج یوم عاشورہ دس محرم الحرام کا دن ہے جو کہ مذاہب سے قطع نظر عالم انسانیت کیلئے ایک یادگار دن ہے کیونکہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس جذبہ ایثار و قربانی کو سراہتے ہیں۔ جو لوگ معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے اور ظلم کو ختم کرنے کیلئے اپنی قربانی دے دیتے ہیں ایسی بے لوث قربانیاں شازو نادر ہی دیکھنے میں آتی ہیں ۔ سرکار سیدنا گوھرشاہی کا فرمان ذیشان ہے کہ صوفی ہر انسان سے محبت کرتا ہے اور اسے تہہ دل سے قبول کرتا ہے ۔صوفی تحمل و برداشت ، بھائی چارہ اور امن کے پیکر ہوتے ہیں ۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا ہے کہ اگر اس دنیا میں کوئی صوفی نہ ہوں تو یہ مذہبی لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔ اجمیر کے خواجہ غریب نواز ، محبوب الہی نظام الدین اولیاء ، بنگللور کے ستیا سائےبابا، شرڈی کے سائیں بابا ، بابا گرونانک دیو جی ہوں یا پانی پت کے بابابو علی شاہ قلند ریہ تمام صوفی عالمی امن و محبت کی ایک مثال ہیں جس میں کوئی حد اور شرط حائل نہیں ہے ۔اگر آپ عیسائی ہیں اور اپنے ہی مذہب کے کسی دوسرے بندے سےمحبت کرتے ہیں تو اس میں شرط حائل ہے کیونکہ یہ محبت مذہب کی وجہ سے کی جارہی ہے لیکن جب آپ ہر انسان سے بنا کسی رنگ و نسل اور مذہب کی شرط کے بغیرمحبت کرتے ہیں تو یہی تصوف ہے ۔ یہاں ایک چیز بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یہ تصوف کی راہ بہت خوبصورت ہے ۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کیلئے نفرت ہے وہ تصوف کی اِس تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے بدنام کرنے کی وجوہات ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔
علم تصوف کی راہ میں کوئی چیز آپ بناوٹی طور پرنہیں پیش کر سکتےلیکن مذہبی رسومات میں آپ بناوٹ کر سکتے ہیں ۔آپ مسجد یا چرچ میں کھڑے ہوکر اپنی عبادات کر سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا رب سے تعلق نہ ہو ، آپکا دل اُن دعاؤں کے صدق سے عاری ہولیکن روحانیت ایک ایسی تعلیم ہے جسے بناوٹی طور پر اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اسکا صدق آپکے دل میں موجود ہے ۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صوفیاء کی تعلیمات کسی پر بھی زبردستی لاگو کی جا سکتی ہیں تو یہ بہت بڑ اجھوٹ ہو گا۔ محبت ایک انوکھا جذبہ ہے جو کہ غیر منطقی ہےاور انسانی عقل کا اسمیں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے کیونکہ اگر آپ کسی سے محبت کسی وجہ سے کرتے ہیں تو وہ محبت نہیں ہے اور اگر اُس محبت میں کوئی وجہ یا منطق شامل ہے تو وہ محبت نہیں ہے۔ محبت معقول(Rational) نہیں ہوتی ہے اور اگر حقیقی محبت ہے تو وہ غیرمعقول (Irrational) ہوگی۔ مثال کے طور اگر آپ کسی سے اُس کی خوبصورتی کی وجہ سے محبت کرتے ہیں تو یہ حقیقی محبت نہیں ہے کیونکہ جس دن وہ خوبصورتی ختم ہو جائے گی تو محبت بھی اختتام پذیر ہو جائے گی۔اگر آپ کسی سے اُس کی دولت کی وجہ سے پیار کرتے ہیں تو جس دن وہ دولت ختم ہو جائے گی تو وہ پیار بھی ختم ہو جائے گا۔

لہذا محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس میں عقل کی آمیزش نہیں ہوسکتی

اگر محبت میں عقل کو شامل کر دیا جائے تو محبت ختم ہو جاتی ہےاور صرف بناوٹ ہی رہ جاتی ہے۔ (Rationalism) معقولیت یہی ہے کہ آپ ہر کام کسی وجہ سے کرتےہیں جیسے اگر پنکھا چلایا گیا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ کسی کو گرمی لگ رہی ہے ۔اگر آپکو گرمی نہیں لگ رہی ہے تو پھر آپ پنکھا نہیں چلائیں گے ۔جب آپ رات میں سوتے ہیں تو پھر بلب بند کر دیتے ہیں کیونکہ اس وقت روشنی ضرورت نہیں ہے ، لہذا ہر کام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے ۔آپ پانی جب پیتے ہیں جب آپ کو پیاس لگتی ہے۔ زندگی میں ہر کام کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور اسی کو شعور کہتے ہیں ، اور اگر آپ کوئی بھی کام بغیر وجہ کہ کریں گے تو لوگ آپکو احمق کہیں گے۔ لیکن کائنات میں محبت ہی ایک چیز ایسی ہے جس کے اُصول بالکل جدا ہیں ، اگر محبت عقل پر مبنی ہے تو وہ جھوٹی ہے ۔

محبت کیلئے شرط ہے کہ اُس میں عقل کا عمل دخل نہ ہو۔

حقیقی محبت عقل سے ماورا ، غیر منطقی اور بے سبب ہوتی ہے ۔عقل محبت کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ محبت ، عقل کے برخلاف ہے ۔جب آپ منطق، عقل اور شعورسے محبت اور مذہب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ناکام ہو جاتے ہو۔مثال کے طور پر آپ کسی روحانی سلاسل سے ایک لمبے عرصے سے جڑے ہوئے ہیں اور کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کو اتنے عرصے میں کیا حاصل ہوا ! لیکن اس سوال کے جواب سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عیسیٰ نے کیا پایا ، محمدؐ نے کیا پایا۔ محمد الرسول اللہ کو تین تین دن فاقہ کرنے کی حاجت کیوں ہوئی، اُنہوں نے کیا پایا کیا اللہ نے اُن کے ساتھ ہیرہ پھیری کی تھی۔ تمھاری سمجھ میں یہ باتیں اس لئے نہیں آتی کیونکہ تمھاری عقل موٹی ہے اور تمھیں صرف منطق سمجھ میں آتی ہے۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ تمھیں کیا ملا لیکن اس سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ سے لوگوں کو کیا ملا ہے ۔ تمھارا یہ خیال ہے کہ صوفی اپنی زندگی اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔ تمھاری یہ سوچ ہے کہ ہر چیز ذی شعور ہونی چاہیےلیکن محبت کا قانون الگ ہے ۔پوری دنیا میں سے کوئی ایک شخص ایسا لاؤ جو یہ ثابت کردے کہ محبت منطق اور وجہ پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ اگر محبت میں عقل شامل ہے تو وہ محبت نہیں ہے ۔محبت کی دیوانگی کیا ہے ؟ آسان الفاط میں یہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ محبت جذبات کی حکمرانی ہے جو کہ بے قابو ہوں، جس میں یہ خیال نہ ہو کہ فائدہ اور نقصان کیا ہو گا۔ محبت حالات کی سنگینی سے بے پرواہ ہوتی ہے ۔ہم رب سے اس لئے محبت نہیں کرتے کہ وہ قادر مطلق ہے ۔ اگر تم رب سے اس لئے محبت کرتے ہو کہ اُسکے پاس قدرت ہے تو وہ محبت جھوٹی ہے کیونکہ اگر کسی اور کے پاس یہ طاقت و قدرت ہوتی توپھر اُس سے محبت کرتے۔جب شعور کی بات آتی ہے تو تم وہاں غیر معقول ہو جاتے ہو اور محبت کے معاملے میں تمھیں عقل یاد آ جاتی ہے ، اسی وجہ سے تم ناکام ہو۔ وقت سب سے بڑا اُستاد ہے ، وقت سے زیادہ واضح کوئی آئینہ نہیں ہے جو تمھیں تمھارا بد صورت چہرہ دکھائے۔

محبت کیلئے لازم ہے کہ وہ عقل پر مبنی نہ ہو ، جب تم کسی سے کسی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ مخلص اور حقیقی محبت نہیں ہوتی ہے بلکہ سراب ہے۔

اگر تم نے صرف یہی دیکھا ہے کہ عیسی کو سولی پر چڑھایا گیا تو کیا اُس منظر کو دیکھ کر عیسیٰ کیلئے محبت محسوس ہو گی اور پھر شاید تم یہی کہو کہ عیسیٰ تمھیں اس سے کیا ملا ۔اور تم یہ نہیں دیکھ پائے کہ عیسیٰ مٹی کے پرندے بناتے اور انہیں پھونک مار کر زندہ کر دیتے تھے لیکن تم یہ نہیں دیکھ پائے ، تم نے صرف یہ دیکھا کہ عیسیٰ کو سولی پر چڑھایا گیا ۔ قربانی دینے کیلئے بے غرض کردار کی ضرورت ہوتی ہے،ہمدردی کا نشان بننے کیلئے زندہ مثال بننا پڑتا ہے ۔اگر تم صرف اپنی زندگی اور آسائش کے بارے میں سوچتے ہو تو تم آدمی تو بن سکتے ہو لیکن فخر آدم نہیں بن سکتے۔لاکھوں لوگ اس دنیا میں آئے جو اپنے آرام او آسائش کی زندگی جی کر رخصت ہو گئے لیکن ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے لیکن جو بے غرضی کا مظاہرہ کیا اور دوسرے لوگوں کیلئے قربانیاں دیں ہزاروں سال بعد بھی لوگ انہیں سلام کرتے ہیں اور اپنی قربانی سے انہوں نے یہی حاصل کیا ہے ۔

یوم عاشورہ عظیم قربانی کی مثال:

یوم عاشورہ دس محرم الحرام محمد الرسول اللہ کے نواسے کےبے لوث کردار کی علامت ہے ۔ جن لوگوں کی زندگی اپنی آسائشوں کے گرد گھومتی ہے ایسے خود غرض لوگ اللہ اورمحمدؐ کو بھی سمجھنے میں ناکام رہیں گے کیونکہ رب کو عقل سے نہیں سمجھا جا سکتا۔محبت تو قربانی کا نام ہے ، یوسف علیہ السلام کوغلاموں کی طرح مصر کے بازاروں میں فروخت کیا گیا ، یحیی کے والد ذکریا کے پیچھے دشمن لگے ہوئے تھے تو وہ ایک درخت کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے بچاؤ درخت کھل گیا اور وہ اُسکے اندر چھپ گئے لیکن ان کے لباس کا ایک کونا درخت سے باہر نظر آرہا تھا۔ شیطان نے دشمنوں کو با خبر کر دیا کہ وہ درخت کے اندر چھپے ہوئے ہیں ۔ دشمنوں سے آرے سے درخت کے دو ٹکڑے کرنے کا ارادہ کیا اس وقت ذکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ میری مدد فرما ۔ اللہ نے جواب دیا کہ اس سے پہلے تم نے درخت سے مدد مانگی تھی اب مجھ سے مدد کیوں مانگ رہے ہو اب یا تو زندگی بچ سکتی ہے یا پھر نبوت ، تم بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔ تو یہ قربانیوں کی تاریخ میں مثالیں ہیں ۔مذہب میں عقل کا عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ اگر اچھے اعمال کرو گے تو جنت ملے گی اور اگر برے اعمال کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے۔ میاں محمد بخش نے بھی اپنے شعر میں ایک بات کہی ہے کہ
شرع عشق دا بیر پرانا اے ۔۔۔۔ گل سچ سیانیا کہی ہوئی اے
جو لوگ اپنے دماغ سے ہر چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں ان کو سرکار سیدنا گوھر شاہی کی تعلیمات سمجھ میں نہیں آ سکتی ہیں ۔ وہ لوگ جو ہر کام میں فائدہ سوچتے ہیں وہ کسی سے بھی وفا دار نہیں ہو سکتے کیونکہ جب وہ یہ دیکھیں گے اس میں تو میرا نقصان ہو رہا ہے تو پھر وہ بھاگ جائیں گے ۔وفاداری کا تقاضہ ہے کہ اس میں کوئی غرض نہ ہو ۔ حقیقی رشتے کیلئے وفاداری ضروری ہے اور وفاداری میں کوئی وجہ اور غرض نہیں ہوتی ہے ۔امام حسینؓ نے اپنا گھر مدینے میں کیوں چھوڑا ، مسلمانوں کے عقائد کے مطابق آپ کسی کو بھی مسجد الحرام میں نہیں مار سکتے ہیں اوراللہ نے اُمن کا شہر قرار دیا ہے ۔اگر امام حسین خانہ کعبہ میں چلے جاتے تو یزید کی فوج انہیں نہیں مار سکتی تھی کیونکہ وہ بھی مسلمان تھے لیکن کئی ہزار لوگ مارے جاتے یہی وجہ تھی کہ امام حسینؓ مکے اور مدینے میں نہیں رکے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یزید کی فوج کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کی جانیں جائیں ۔ دراصل وہ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دے کر مکے اور مدینے کے ہزاروں لوگوں کو بچا رہے تھے ۔ امام حسینؓ کا یہ عمل عقل سے ماورا تھا۔جو لوگ ایثارو قربانی کے جذبے کو نہیں سمجھتے وہ وفاداری سے بھی آشنا نہیں ہیں ۔امام حسینؓ نے ہزاروں لوگوں کی زندگی بچانے کیلئے شہادت کو ترجیح دی ۔یوم عاشورہ دس محرم الحرام قربانی کی ایک عظیم مثال ہے اور اسی طرح کی قربانی عیسیٰ نے بھی دی ۔ اگر آپ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو پھر آپ اندھے ہو جائیں گے ، آپ ہر رشتے میں فائدے تلاش کریں گے اور جب اُس رشتے میں فائدہ نظر نہیں آئے گاتو پھر آپ وہاں سے بھاگ جائیں گے ۔سچی محبت بہت سی قربانیاں مانگتی ہے جب محمد الرسول اللہ طائف کے شہر میں گئے تو لوگوں نے پاگل کتے آپ پر چھوڑ دئیےاور پتھر بھی برسائے آپ خون میں لہو لہان ہو گئے اور جوتے خون سے بھر گئے ۔ اسی اثنا میں جبرائیل آ گئے اور محمد الرسول اللہ کو کہا اگر آپ کہیں تو میں طائف کے پہاڑوں کو ملا کر ان سب کو مار دوں لیکن آپ ؐ نے فرمایا کہ نہیں جبرائیل میں دنیا پر رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں میں ان کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا ۔کیا محمد الرسول اللہ کا یہ کردار عقل سے ماورا نہیں ہے جبکہ طائف کے لوگوں نے آپ کو لہو لہان کر دیا ۔مجھے اس پر فخر ہے کہ میں نے قربانی والا راستہ اور روحانیت اختیار کی ہے۔ ہمارے دروازے مسلمان، سکھ، عیسائی اور یہودیوں سب کیلئے کھلے ہوئے ہیں ، ہم بین الاقوامی یک جہتی کی دعوت دیتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ مذہب اختیار کرنے کیلئے کسی کو مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن محبت کیلئے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے ۔روحانیت ایک ایسی چیز ہے جس میں زبردستی نہیں ہے بلکہ اس کا اجراء تو دل سے ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 30 اگست 2020 کو دس محرم الحرام کے موقع پریو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس