کیٹیگری: مضامین

نبوت اور رسالت میں بنیادی فرق:

نبی اور رسول میں فرق ہوتا ہے لیکن مرتبے کے اعتبار سے دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ رسول وہ ہے جو مکمل علم اللہ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور دین کی بنیاد رکھتا ہے ۔ نبی کا کام دین کی بنیاد ڈالنا نہیں ہے بلکہ رسول کے قائم کردہ دین میں جو بگاڑ پیدا ہو جائے اسے اللہ کی طرف سے بھیجے صحیفوں کی مدد سے درست کرنا ہے ۔ مذہب اسلام اور عیسائیت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عیسائی مذہب میں تجدید اُن کے اپنے مذہبی اسکالز کی طرف سے ہوتی ہے جبکہ دین اسلام میں تجدید انبیاء اللہ کی طرف سے بھیجے صحیفوں کی مدد سے کرتے ہیں ۔رسول کے قائم کردہ دین میں وقت کے ساتھ ساتھ بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور نبی اسی لئے بھیجے جاتے کہ اُن میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے یا آسمانی کتب میں جو ردوبدل ہوئی ہے اسے صحیفوں کی مدد سے درست کیا جا سکے۔

حضورؐ کے پاس رسالت اور نبوت دونوں مراتب تھے:

رسول نبی کریمؐ کے پاس نبوت اور رسالت دونوں مرتبے تھے۔یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نبی کریمؐ کا کام دین اسلام کےقائم ہونے سے پہلے یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت میں تجدید کرنا تھاکیونکہ وہ نبی بھی ہیں۔ محمدؐ نے دین اسلام قائم کرنے سے پہلے پچھلے مذاہب میں بحثیت نبی تجدید مکمل کی کیونکہ دین اسلام کی بنیاد ابھی پڑ رہی تھی۔ “نبی” کا مرتبہ محمدؐ کے پاس اس لئے تھا کہ جو دیگر ادیان جیسے عیسائیت ، یہودیت اور ہندو مت میں جو بگاڑ پیدا ہوا اسے درست کرنے کیلئے تجدید کی ضرورت تھی۔ان مذاہب کو محمد الرسول اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا کیسےہو سکتا ہے کہ محمد الرسول اللہ نے یہ بھی کہا کہ “عیسائی اور یہودی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے” جبکہ آپکی پہلی جاب ہی بحثیت نبی ان ادیان میں درستگی کرنا تھی۔ اگر آپ ہماری اس بات سے متفق نہیں ہیں تو مذہبی اسکالز یہ بتائیں کہ محمد الرسول اللہ نبی کیوں تھے جبکہ آپکو رسالت کا مرتبہ بھی دیا گیا تھا؟ اسلام کو تو آپ ؐ قائم کرنے کیلئے تشریف لائے ہیں اس لئے اس میں تجدید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتو پھر بطور نبی حضورؐ عیسائیت، یہودیت اور ہندو مت میں تجدید کر رہے ہیں۔ فرمان رسول اللہ بھی ہے کہ

میں کسی دین کو جھٹلانے نہیں آیا بلکہ اُن میں جو ردّ و بدل ہو گیا ہے اسے درست کرنے آیا ہوں

محمدؐ نے نبی کی حیثیت سے یہودیت اور عیسائی مذہب میں تجدید کی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں موسی علیہ السلام ، بی بی مریم اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کثرت کے ساتھ ذکر آیا ہے ۔ کیوں ؟ بحیثیت مسلمان آپکو موسیٰ اور عیسیٰ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد آیات ایسی ہیں جواُمت مسلمہ کیلئے نہیں ہیں بلکہ عیسائی اور یہودیوں کیلئے ہیں ، جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
سورة النساء آیت نمبر 157
ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا ہے ، نا ہی اُنکو قتل گیا اور نا ہی صلیب پر لٹکایا گیا بلکہ انکے لئے شبہ پیدا کیا گیا۔

مسلمانوں کو یہ بات جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ عیسیٰ کے ساتھ کیا ہوا تھا، اس کا مطلب ہے کہ یہ آیت یہودی اور عیسائیوں کے لئے ہے اور اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ عیسیٰ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا۔ لہذا یہ نہ سمجھیں کہ محمد الرسول اللہ صرف اُمتِ مسلمہ کے رسول ہیں بلکہ بحیثیت نبی آپؐ عیسائیت ، یہودیت اور ہندو مت کیلئے تجدید بھی فرما رہے ہیں ۔ اگر محمدؐ عیسائی مذاہب کے لوگوں کیلئے نبی ہیں تو پھر آپ اُمت مسلمہ کو یہ کیوں کہیں گے کہ عیسائی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ جو مسلم اسکالرز آپکو یہ کہانیاں بتاتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔دین اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ دین اسلام ہمیں مساوات سکھاتا ہے اور قتل و غارت گری کے خلاف ہے۔ قرآن کے مطابق

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا
سورة المائدة آیت نمبر 32
ترجمہ : ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔

جو لوگ اللہ اور محمدؐ کے نام پر، محمد الرسول اللہ کے ادب کے نام پر کسی دوسرے انسان کا قتل کر رہے ہیں تو یہ دین اسلام کی تعلیم نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اصل اسلام کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ ایسے مسلمان تو نظر آتے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ حقیقی اسلام سے آشنا نہیں ہیں ۔دین اسلام کسی سے نفرت نہیں سکھاتا ہے اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا بائبل کے مقابلے میں بی بی مریم کو زیادہ عزت قرآن میں دی گئ ہے ۔قرآن کے مطابق بی بی مریم تمام دنیا میں سب سے اعلیٰ خاتون ہیں ۔

ختمِ نبوت سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں:

اب جو فرقے ختمِ نبوت پر شور مچا رہے ہیں اُن سے سوال یہ ہے کہ حضورؐ کی ختمِ نبوت سے تو اُنکا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اگر یہ کہتے ہیں کہ ختم نبوت سے اُنکا تعلق ہے تو بتائیں کیسے تعلق ہے؟

ختم نبوت سے مسلمانوں کا اس لئے تعلق نہیں ہے کہ محمد الرسول اللہ نے بطور نبی ملتِ ابراہیمی کے مذاہب کی تجدید فرمائی ہے۔ مسلمانوں کا تعلق مرتبہ رسالت سے ہے جبھی کلمے میں رسالت کا ذکر ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ

محمد الرسول اللہ عیسائیوں، یہودیوں کیلئے نبی ہیں اور مسلمانوں کیلئے رسول اللہ ہیں ۔حضورؐ کو نبی ہونا ہی تھا کیونکہ ملت ابراہیم کے سارے ادیان میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا ۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر کسی ولی، مفتی اور عالم نے آج تک بات نہیں کی ہے کہ محمد الرسول اللہ کا ایک وہ رُخ دکھایا جائے جس سے پتہ چلے کہ محمد الرسول اللہ صرف مسلمانوں کیلئے معظم نہیں ہیں بلکہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کیلئے بھی معظم ہیں کیونکہ وہ رب کے محبوب ہیں ، کیونکہ انہوں نے سارے ادیان پر کرم فرمایا ہے ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔ جب حضورؐ نے فرمایا کہ انا خاتم النبین ، لا نبی بعدی ۔ آپ اس سے یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ میں نبیوں کا اختتام ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین میں تجدید کیلئے جن ہستیوں کو بھیجا جاتا تھا وہ اب روک دیا گیا ہے اب میرے شاگرد جو آئیں گے وہ اب دین میں تجدید کریں گے۔ پھر نبی کریمؐ نے ایک نئی پوسٹ بنائی اور فرمایا کہ “میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں کہ جیسے وہ انبیاء بنی اسرائیل کے دین میں تجدید کرنے کےلئے آیا کرتے تھے اب دین میں تجدید کا کام میں کسی نبی سے نہیں بلکہ اپنے شاگردوں سے لوں گا۔
محمد الرسول اللہ اگر مسلمانوں کے رسول ہیں تو یہودی اور عیسائیوں کے بھی نبی ہیں ۔ آپ نے اُن سے بھی رشتہ بنایا ہے اس لئے اُنکو کافر نہ کہواور نہ ہی ان کو ماروکیونکہ یہ بھی محمد الرسو ل اللہ سے فیض یافتہ ہیں ۔اور اُن فیض یافتہ لوگوں میں سب سے پہلے حضورؐ کے چچا ابو طالب کا نام سر فہرست ہے۔ابو طالب یہودی مذہب پر کاربند تھے اور حضورؐ اُنکو سمجھاتے تھے کہ چچا یہ عقیدہ یہودیوں کا ٹھیک نہیں ہے آپ ایسا نہ کیا کریں اور پھر ابو طالب وہی کیا کرتے تھے جو آپؐ بتاتے تھے۔آپ ؐ نے اپنے چچا ابو طالب سے پوچھا بھی کہ آپ میرے مذہب میں آ جائیں تو ابو طالب نے جواب دیا کہ میں بس ٹھیک ہوں تم اُسے ٹھیک کر رہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔جسطرح محمد ؐ نے اپنے چچا ابو طالب کو بطورِ نبی فیض دیا اسی طرح بطورِ رسول مولیٰ علی کو فیض دیا۔

تجدیدِ امام مہدی:

محمد الرسول اللہ نے ایک سے زیادہ دین کی تجدید فرمائی ہے۔ سنا ہے کہ امام مہدی علیہ الصلوة والسلام ہو بہو محمد الرسول اللہ کے ظاہر اور باطن میں نقشِ قدم پر ہوں گے۔ حضورؐ نے ملتِ ابراہیمی کے مذاہب کی تجدید کی اور ساتھ ہی نیا دین بھی بنایا۔ حضورؐ نے جن ادیان میں تجدید کی امام مہدی بھی اُن میں تجدید کریں گے اور جو مذہب دین اسلام نبی کریمؐ نے بنایا تھا اُس میں بھی بگاڑ آ گیا اسی لئے امام مہدی اسکی بھی تجدید کریں گے۔حضورؐ نے مختلف ادیان میں بطور نبی تجدید فرمائی تھی اور بطور رسول دین قائم کیا تھاتو پھر امام مہدی دین میں تجدید کیسے کریں گے جبکہ آپ نا نبی ہیں اور نا ہی رسول ہیں ۔جسطرح حضورؐ کے بعد اُن کے شاگردوں نے دین میں تجدید کی اور امام مہدی وہی تعلیم پوری دنیا کو دے رہے ہیں تو حضورؐ کے شاگرد اگر تجدید کر سکتے ہیں تو امام مہدی خود بھی تجدید کر سکتے ہیں ۔بہت سی کتب میں آیا ہے کہ امام مہدی تمام مذاہب کی تجدید کریں گے اور کچھ کتابوں میں یہ بھی آیا کہ وہ ایک نیا دین لائیں گے۔ قرآن مجید میں ہے کہ

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
سورة الروم آیت نمبر 30

آپؐ دین حنیف کی طرف اپنا چہرہ مبارک قائم کر لیجئے گا کیونکہ مستقبل میں وہی دین قائم ہونے والا ہے۔امام مہدی علیہ الصلوة والسلام نے تمام ادیان میں تجدید بھی کردی اور وہ تجدید یہ کہ جتنے بھی مذاہب ہیں وہ سب اپنی جگہ پر ہیں صرف ایک چھوٹی سی چیز یہ بدل رہے ہیں کہ سب کے اندررب کا نام ایک ہی جائے۔اگرہندو ہے تو بھی اللہ اللہ کرے، سکھ ہے تو بھی اللہ اللہ کرے، مسلم ہے تو وہ بھی اللہ اللہ ، عیسائی ہو یا یہودی ہو اس نے بھی اللہ اللہ کرنا ہے ۔جب سب کے دلوں میں اللہ آ جائے گا تو سب دل سے ایک ہو جائیں گےاور یہی امام مہدی کی تجدید ہے۔
پھر سورة الاحزاب کی ایک آیت ہے کہ

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا

اس آیت میں یرجو کا مطلب “جانا” ہے یعنی جو اللہ کے راستے پر جانا چاہےاور کثرت سے ذکر کرنے والا ہو ۔ یہ اشارہ صوفیوں کی طرف ہے کہ یارسول اللہ آپ پھر اُسکی مدد دیدار الہی کرنے میں کیجئے۔اس آیت میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے محمد! جب دین حنیف قائم ہو تو آپ اس کی طرف اپنا چہرہ کر لیجئے گا۔اور آپکو اُن لوگوں کیلئے مثال بنایا ہے جو کثرت سے ذکر کرتے ہیں اور دیدار الہی کی خواہش رکھتے ہیں اُنکی آپ نے رہنمائی فرمانی ہے ۔
اب امام مہدی علیہ الصلوة والسلام یہ دین لے کر لوگوں کے سامنے ظاہر ہو چکے ہیں ۔ حضورؐ کو کہا جارہا ہے کہ جب دین حنیف قائم ہو تو آپ اپنا چہرہ مبارک اُس طرف قائم کر لیجئے ۔ اسلام کو توجہات بہت دے چکے اب مستقبل میں ایک دوردین حنیف والوں کا آئے گا ۔ اب آپ کی ساری کی ساری وفاداریاں اُس دین کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اللہ نے انسانوں کی فطرت اپنی فطرت پر بنائی ہے ۔ اللہ کا دین حنیف ہے تو انسان کا دین بھی حنیف ہو گا۔اور پھر اس آیت میں فرمایا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔پھر ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ
سورة المائدة آیت نمبر 54

اے مومنوں جب تم اپنے دین سے پھر جاؤ گے تو عنقریب اللہ اپنی قوم کو لائے گا۔ اللہ اُن سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔اب اللہ نے جو ایک قوم کا مستقبل میں تصور دیا ہے وہ اِس دنیا کے حساب سے نہیں دیا ہے ۔ روز ازل میں روحوں کا ایک ٍمحلہ اللہ نے الگ سے ہٹا کر رکھا تھا کہ آخری دور میں جب دینِ حنیف قائم کرنے والا آئے گاتو پھر اُس محلے کی ساری روحوں کو اُس دور میں بھیجیں گے۔یہ بات شاید کسی کو سمجھ نہیں آئے۔ موسیٰ کے اُمتی بھی کہتے تھے موسیٰ تو ہمارے رسول ہیں لیکن خضر علیہ السلام کو وہ کچھ نہیں مانتے تھے۔جب لوگوں کو مرتبوں کو ادراک ہو اور حقیقت کا ادراک نہ ہو وہ ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں ۔آج کے دور میں بھی یہی ہوا ہے ۔ وہ قوم کسی جسمانی طرف اشارہ نہیں ہے کہ وہ بنگالی، ہندوستانی یا پاکستانی ہوں گے۔ وہ جس قوم کی اللہ بات کر رہاہے وہ روحوں کی قوم ہےاور وہ روحیں اللہ نے اتنی خوبصورتی سے مختلف قوموں میں ڈال دی ہیں کہ اب سارے مذہب والوں کا ملاپ ہو کر ہی رہے گا۔مثال کے طور پر اگر کسی کے پانچ بچے ہوں اور اُن کو الگ الگ ممالک بھیج کر وہاں کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔اب وہ پانچ ملکوں کے سربراہ آپس میں بھائی ہیں اور اُنکا باپ ایک ہی ہے۔ اسی طرح اللہ نے اس محلے سے ایک ایک روح ہر قوم میں ڈال دی ہے ۔ کسی کو ہندوؤں میں بھیج دیا، کسی کو سکھوں میں بھیج دیا ، کسی کو عیسائیوں میں بھیج دیا۔ درحقیقت وہ اُسی قوم کے بندے ہیں لیکن نیچے آنے کے بعد اُنکو الگ الگ مذاہب میں ڈال دیا ۔اب وہ بات وہی اپنی قوم کی کریں گے اور وہ بات رب سے پیار ہے۔ ہندو ہو ، سکھ ہو، مسلم ہو یا عیسائی ہے بس رب سے پیار کرو۔ اُس قوم کا یہی نعرہ ہے کہ تم اللہ سے محبت کرو اور اللہ تم سے محبت کرے۔سرکار گوھر شاہی نے یہ بات اپنی کتابِ مقدس دین الہی میں بھی درج فرمائی ہے کہ

جس طرح حضور پاکؐ کی ختم نبوت کے بعد مسلم میں مجدد آتے رہے اور ماحول کے مطابق دین میں تجدید کرتے رہے اُسی طرح امام مہدی علیہ السلام کے آنے کے بعد اُن (مجددوں) کی تجدید ختم ہو جائیگی اور سب مذاہب کے مطابق امام مہدی کی اپنی تجدید ہو گی۔ کچھ کتابوں میں ہے کہ وہ ایک نیا دین بنائیں گے
کتاب مقدس دین الہیٰ سے ایک اقتباس

مرکزی خیال:

اب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو مستقبل کا نقشہ کھینچا ہے اس میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایک وقت ایک آئے گا کہ تمام لوگ اپنے اپنے مذہب سے پھر جائیں گےتو اللہ ایک ایسی قوم کو متعارف کرائے گا جو اللہ سے محبت کرے گی اور اللہ اُن سے محبت کرے گا۔جس طرح سرکار گوھر شاہی کی جانب سے نیاری تعلیم آ رہی ہے تو قوم بھی نیاری ہو گی۔اور پھر آگے قرآن مجید میں حضورؐ کو بھی ہدایت دی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں آپ نے اپنا رخ دین حنیف کی طرف قائم کر لینا ہے کیونکہ دین حنیف ہی قائم ہونے والا دین ہے ۔ سارے دین فافی ہیں ، قائم ہونے والا دین صرف اللہ کا ہے جو کبھی فنا نہیں ہو گا۔یہ مستقبل کی ساری تیاریاں اللہ کی طرف سے ہے بس قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
کھول کر آنکھ میری آئینہ ادراک میں ، آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دیکھ
لو لاک لما دیکھ زمیں دیکھ فضا دیکھ ، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو زرا دیکھ
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کہ پیتے تھے پینے والے، بنے گا سارا جہاں میخانہ ، ہر ایک بادہ خوار ہو گا
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا، سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو پلٹ دیا تھا
سُنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

آئینہ ادراک یہی ہے کہ کوئی کھول کر بتا دے کہ آخر میں ہونا کیا ہے۔ کوئی سمجھا دے کہ اللہ کے منصوبے کیا ہیں ۔ جس نے روما کی سلطنت کو پلٹا تھا وہ جثہ توفیق الہیٰ محمد الرسول اللہ کا تھا اور اب امام مہدی کا باطنی شیر جثہ توفیق الہیٰ کائنات کو گھسیٹ کر لائے گا۔ اب سرکار گوھر شاہی یہ کر رہے ہیں کہ وہ جو نئی قوم اللہ نے متعارف کرائی ہے اس کے لوگ جو الگ الگ مذاہب میں ہیں اُن کو ڈھونڈ کر ایک جگہ جمع کر رہے ہیں ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 29 اکتوبر 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں علم لدنی گوھر شاہی کے خصوصی پروگرام میں کئی گئی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس