کیٹیگری: مضامین

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
آیت نمبر1 تا 14

دنیا کے آخری لمحات کیا ہونگے؟

سورة واقعہ میں جو لفظ واقعہ ہے اس کا مطلب ہے وقوع پذیر ہونا یعنی کسی عمل کا ہونا، کچھ ہوجائےاورانگریزی میں اس کو (Occurrence) کہیں گے۔

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا
سورة الواقعہ آیت نمبر 1 تا 6
ترجمہ:جب وہ واقعہ وقوع پذیر ہوگا۔یہ جو خاص واقعہ ہونےوالاہےاس کوکوئی جھٹلا نہیں سکے گا۔جو اوپر ہیں وہ نیچےلائے جائیں گےاور پھراوپرجائینگے۔زمین کانپنے لگ جائے گےاور پہاڑ چکنا چور ہوجائینگے۔یہ سب کچھ راکھ بن کر منتشر ہوجائے گا۔

سورۃالواقعہ میں تین قسم کی ارواح سے کیامرادہے؟

وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً
سورۃالواقعہ آیت نمبر7
ترجمہ:اورپھر تم تین تین جوڑوں میں آجاؤ گے۔

امرِکن سے پہلےاللہ تعالٰی نے تین قسم کی روحیں بنائی تھیں جو قرب،محبت اور جلوے والی ارواح ہیں اور باقی روحیں امرِکن سےبنائی گئیں۔امرِکن والی روحیں بھی تین اقسام پر مشتمل ہوئیں۔پہلی قسم والی ارواح نے دنیا کی آسائشات کو طلب کیا اوراُن کا ایک گروہ بن گیا۔دوسرے گروہ میں وہ روحیں شامل ہوئیں جنھوں نے جنت کو مانگا لیکن تیسرے گروہ میں وہ روحیں تھیں جو کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پائیں کہ جنت کو مانگیں یا دنیا کو۔آخرت کےدن اللہ مذاہب کی بنیا د پر آپ کو تقسیم نہیں کرے گابلکہ آپ کے تین گروہ بنائےگا۔عربی زبان میں زوج جوڑے کو کہتے ہیں لیکن اللہ کی زبان میں ایک سے زیادہ کو زوج کہتے ہیں۔یہ دو بھی ہوسکتے ہیں اور ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ سریانی زبان میں انسانی نسل کو “زوج الانسان” کہتے ہیں۔

فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
سورۃالواقعہ آیت نمبر8
ترجمہ:پھرسیدھے ہاتھ والےہیں لیکن تمہیں نہیں معلوم کہ سیدھے ہاتھ والے کون ہیں؟

وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ
سورۃالواقعہ آیت نمبر9
ترجمہ:اور بائیں ہاتھ والےہیں لیکن تمھیں نہیں معلوم بائیں ہاتھ والے کون ہیں؟

بائیں ہاتھ والے وہ ہیں جو شیطانیت اختیار کرچکے ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ازواج ثلاثہ کہا گیا ہےکہ تین وہاں سے تین یہاں کے تو ایک ایک کو جوڑ دیا ہے۔ شرعی معنوں میں دائیں ہاتھ والے کا مطلب ہے جنتی اور بائیں ہاتھ والے کا مطلب ہے جہنمی۔ لیکن طریقت میں دائیں ہاتھ والے کا مطلب ہےدینِ الٰہی والا اور بائیں ہاتھ والے کا مطلب ہے کسی ایک دین میں مومن ،یا تو عیسائیت میں مومن یا یہودیت میں مومن یا اسلام میں مومن کیونکہ دائیں ہاتھ پر روح ہےاور بائیں ہاتھ پر قلب ہے۔

اوّلین اورآخرین سے کیا مراد ہے؟

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ
سورۃالواقعہ آیت نمبر10

سابقون کےبنیادی معنیٰ ہیں کہ جو سب سے پہلے بنا، یا جو سب سے پہلے ظاہر ہوا۔ سب سے زیادہ پہلےوہ لوگ بنے یا ظاہر ہوئےجو قرب،محبت اور جلوے والی ارواح میں سے تھے۔اب ان ارواح کیلئے اللہ تعالٰی نے فرمایاکہ

أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
سورۃالواقعہ آیت نمبر11
ترجمہ:یہ وہی لوگ ہیں جو یہاں آکر مقرب بنیں گے۔

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
سورۃالواقعہ آیت نمبر12

اب ان کا مقام بتادیا ہے کہ وہ چھٹے درجے کی جنت میں ہونگے۔ جنتِ نعیم چھٹے درجے کی جنت ہےجس میں سارے نبی ،مقربین اورصالحین ہونگے ۔اللہ نے جنت الفردوس سب کیلئے نہیں بنائی بلکہ صرف عاشقین اورواصلین کیلئے بنائی ہے۔ دار النعیم سے نیچے پانچ جنتیں ہیں اور اولوالعزم مرسلین بھی پانچ آئے ۔ پانچ اولوالعزم پیغمبرسینےکے پانچ لطیفوں کا علم لائے ہیں ۔ پانچ جنتوں کے نام یہ ہیں: (۱) دارالخلد(۲) دار السلام (۳) دار القرار (۴) دارا لعدن (۵) دار الماویٰ ۔ یہ پانچ جنتیں صرف دین داروں کے لئے ہیں ۔دارالنعیم اور دارالفردوس کا تعلق ادیان سے نہیں ہے۔آخرین کا مقصد صرف یہ پانچ جنتوں میں سے ایک جنت کو حاصل کرنا ہے اور وہ صرف پانچ لطیفوں کا علم ہی حاصل کرتے ہیں لیکن ان پانچ جنتوں میں اللہ کا دیدار نہیں ہوتا ہے۔ ان پانچ جنتوں کا علم اور تعلیم آخرین کیلئے ہے۔

ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ
سورۃالواقعہ آیت نمبر13

جو زمین پرزیادہ ترمقربین آئینگے وہ اولین میں سے ہونگے جو اللہ نے امرِکن سے پہلے ارواح بنائیں ۔

وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
سورۃالواقعہ آیت نمبر14

اور دوسرے گروہ میں سے انتہائی قلیل ہونگے۔قلیل کا لفظ قلت سے نکلا ہے۔ اُردو میں قلت کا مطلب ہے کسی چیز کا کم ہونا یا کسی چیز کی کمی ہونا جبکہ عربی میں اس کا مطلب ہے کسی چیز کا نہ ہونا جیسے قلت الادب کا مطلب ہے اس کو بالکل ادب نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جب ”نہ” کہنا چاہتا ہے تو وہ قلیل کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
مقربین کی اکثریت قرب،محبت اور جلوے والی روحوں سےہوگی جن کو اولین کہتےہیں اورجوروحیں امرِ کُن سے بنی ہیں اُن کو آخرین کہا گیا ہے جن میں جنت والی،دنیا والی اورمعلق تقدیر والی ارواح شامل ہیں۔ مقربین والی ارواح آخرین میں سے نہیں ہونگی حالانکہ آخرین کیلئے قلیل کا لفظ استعمال ہواہےلیکن اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں مومنوں کی صفت بیان کی ہےکہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّـهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
سورۃالاحزاب آیت نمبر41
ترجمہ:جو ایمان لے آئےوہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔

اور منافقین کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا
سورۃالنساءآیت نمبر142
ترجمہ:منافقین سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کو دھوکہ دےرہےہیں لیکن وہ خودکودھوکہ دےرہےہیں اور جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتےہیں تو لوگوں کودکھانے کیلئے اور اللہ کا ذکر قلیل کرتےہیں۔

اولوالعزم پیغمبروں کےادوار:

آدم صفی اللہ کے دور میں پہلی جنت(دارالخلد) میں جانے کی تعلیم آئی ۔ اُس دور میں اگر تم اس تعلیم پر عمل کرکےاپنے لطیفےکوبیدار نہیں کرپائے تو تمہاری زندگی کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کے دور میں جو آیا اور دونوں لطیفوں کو منور نہیں کرسکا تو اُس کا اس دور میں آنا بیکار ہوگیا حالانکہ ابراہیم علیہ السلام کا دور افضل ہے کیونکہ اس میں دو لطیفوں کی تعلیم ہے لیکن اگرتم نے ایک لطیفہ بھی جاری نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام کے دور میں آنے کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔موسیٰ ؑ کے دورمیں تین لطیفوں کی تعلیم آچکی تھی اورتم تینوں لطیفوں کومنور کر کے دارالقرار کےحقدار ہوسکتے تھےاوراگرتم نے اس تعلیم کی طرف رجوع ہی نہیں کیا تو پھر موسیٰ ؑکے دَور میں آنے کا کیا فائدہ ہوا ۔عیسٰیؑ کے دور میں چوتھے درجے والی جنت کی تعلیم آئی اور محمدﷺکے دور میں پانچوں لطیفوں کی تعلیم آئی ۔اسی طرح جو محمد ؐرسول اللہ کے دَور میں پیدا ہوا اور پانچوں میں سے کسی ایک لطیفے کا علم نہیں جانتاتھا اور خالی خشک عبادتیں کر تا رہا تو افضل ترین نبی کے دَور میں آنے کا پھر تمہارا مقصد تو فوت ہوگیا ۔جس نے بھی دارالخلد کو مانگا تھا وہ صرف آدم صفی اللہ کے دور میں ہی آیا کیونکہ آدم صفی اللہ صرف پہلے لطیفے کی تعلیم لے کر آئے ۔

حضورﷺکا دورسب سے افضل کیسے ہے؟

اللہ تعالیٰ نے حضورپاک ﷺ کی اُمت کو سب سے اعلیٰ اُمت اس لئے کہا کہ اس دَور میں ایسے لوگ بھیجے گئے جنہوں نے پانچویں درجے کی جنت کے لذات پسند کئے تھے اس لئے افضل اُمت کہلائے اورتو اُن کے دَور میں پید اہو کے بھی وہ چیز حاصل نہیں کرسکا تو پھر تم افضل کیسے ہو۔ تم سے بہتر تو وہ تھا جو آدم علیہ السلام کے دَور میں آیا اورایک لطیفے کی تعلیم تھی وہی حاصل کرکے دار الخلد میں چلا گیا ۔ تجھ سے تو بہتروہ ہوگیا جو عیسیٰ علیہ السلام کے دَور میں آیا چار لطیفوں کا علم حاصل کرکے چوتھے درجے کی جنت میں پہنچ گیا تم اِدھر ہی بیٹھا ہوا ہےکہ کبھی سُنی ،شیعہ،وہابی ،دیو بندی اوراہلِ حدیث بن جاتے ہو۔ تم اس علم سے ہی دُور ہو جس علم کی وجہ سے تم اپنی تقدیر کو حاصل کرسکتےتھے ۔ان پانچ جنتوں والی ارواح کو متاثر کرنے کیلئے اوپر سےمقربین روحوں میں سے بھی کوئی اکا دکا روح آجاتی تھی۔ اُس کو دیکھ کر وہ کہتے کہ یہ اللہ کے اتنے قرب میں ہے تو وہ بھی قرب کی تلاش میں لگ جاتے اوراپنی تقدیر تک پہنچ جاتے تھے ۔وہ مقرب نہیں بن سکتے تھے لیکن مقربین کو دیکھ کے مقرب بننے کی کوشش کرتے ۔ اُس کوشش میں وہ اپنی تقدیر کو پا لیتے ۔حضور پاک ﷺ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو لوگ حضورپاک ﷺ کی اُمت میں داخل ہوگئے لیکن اپنی جنت میں نہیں پہنچ سکے وہ حضورﷺ کی شفاعت سے پہلے درجے والی جنت یعنی دارالخلد میں چلےجائیں گے لیکن یہ شفاعت کے ذریعے جائیں گے۔ اب اولین یعنی سابقون بھی جب زمین پر آئے تو کوئی عیسیٰ علیہ السلام کے اُمتی کے طور پہ آیا کوئی موسیٰ علیہ السلام اور کوئی حضو ر پاک ﷺ کے اُمتی کے طور پر آیا۔ بظاہر وہ اُمتی تھے لیکن وہ اُمتی نہیں تھے جیسے خواجہ اویس قرنی ، فضیل بن عیاضؓ ، لعل شہباز قلندرؓیہ سب اُمتی نہیں تھے بلکہ اولین یعنی سابقون میں سے تھے ۔ ان اولین کے بھی تین گروہ ہیں: واصلین یعنی جلوے والی ارواح،عاشقین یعنی محبت والی ارواح اور مقربین یعنی قرب والی ارواح۔ حضورﷺ کے دَورمیں کثرت اُن لوگوں کی ہوگی جنہوں نے پانچویں درجے کی جنت کے لذات کو پسند کیا تھا اورحضورﷺکی اُمت میں ایک سےچار درجے کی جنتوں کےطلبگارنہیں ہونگے کیونکہ انھوں نے پانچویں جنت کو طلب ہی نہیں کیا تھا۔ حضورپاک ﷺ کی اُمت میں بہت اعلیٰ لوگ ہونگے لیکن منافق بھی ہونگے جیساکہ شیعہ،سنی،وہابی یا دیوبندی۔ آپﷺکی اُمت میں یا تو پانچوں درجے والے ہونگے یا شفاعت کے ذریعے خلد میں جانے والے ہونگے ۔ آپﷺکی اُمت میں عام جنتی یعنی پہلی چار جنتوں والے نہیں ہوسکتےہیں کیونکہ یہ افضل ترین اُمت ہے۔ افضل ترین اُمت اس لئے ہے کیونکہ اِن کو پانچویں درجے تک کا راشن ملا ہے کہ تم وہاں تک جاسکتے ہو۔

دورِمہدیؑ:

پانچ درجے والے جتنے بھی تھے غوث پاکؓ کے دور تک اِکا دُکا آتے رہے لیکن جب سیدنا گوہر شاہی تشریف لائے تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ سرکار ہمارے کچھ ازلی مومن ہیں جو غوث پاکؓ کے دور میں بھی فارغ نہیں ہوئے وہ ابھی باقی ہیں۔ سرکار نے فرمایا کہ چلو پھر ہم اُن کو نبٹا دیتے ہیں اور جو باقی رہے اُن کو پھر سرکار نے لے لیا۔ آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ سرکار امام مہدی گوہر شاہی فرماتے ہیں: ’’اِس کو اللہ نے بھیجا ‘‘، ’’یہ اللہ والے ہیں‘‘لہٰذا پانچ درجے والوں میں سے جو رہ گئے تھے اُن کو امام مہدی علیہ السلام نے جلدی جلدی فارغ کردیا۔ ۔ اب سابقون اور مقربون آئیں گےیا جہنمی آئیں گے۔پانچوں جنتوں کے لذات والے اپنی منزلوں تک پہنچ گئے ہیں اسی لئےسرکارامام مہدی گوھر شاہی نے فرمایاکہ ہم تم کو جنتوں کے لئے تیار نہیں کر رہے ۔ آپ پانچ جنتوں تک روحانیت کے ذریعے جا سکتے ہو لیکن پانچ سےآگے روحانیت کےذریعے نہیں جاسکتے۔ وہاں جانے کیلئے روحانیت کام آتی ضرور ہے لیکن جو اولین میں سے ہو۔امام مہدی علیہ السلام کے دور میں آپ دار النعیم اور دار الفردوس جاسکتے ہیں جوکہ چھٹی اورساتویں جنت ہے۔ دورِمہدی میں جو ارواح آئی ہیں وہ آخرین نہیں بلکہ اولین کے ٹولے میں سے آئی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سابقین بھی کہا ہے۔ یہ پہلے اس لئے نہیں آئیں کہ پانچ لطیفوں والی تعلیم کے دور میں اِن کو آنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔ نبیوں کے پاس صرف پہلے پانچ درجے والی جنتوں کے دروازے تھے لیکن چھٹے اور ساتویں درجے والی جنت کے دروازے امام مہدیؑ کے پاس ہیں اور امام مہد یؑ جس کو چاہیں بھیج دیں۔ جس کو چاہیں بھیجنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی جہنمی آجائے۔ جنت والے آکے چلے گئے ۔ اب اس دور میں پہلی پانچ جنتوں والے نہیں آئیں گے، ایک سے لے کر پانچ جنتوں تک کسی کا حقدار باقی نہیں بچا سب اپنے اپنے ادوار میں آ کے چلے گئے ۔ اب اولین آئیں گے یا نار حامیہ کہ جہنمی آئیں گے ۔ سرکارگوھر شاہی کا فرمان ذیشان ہے : آر یا پار بیچ میں نہیں ۔ دارالنعیم اور دارالفردوس صرف اولین کیلئے ہیں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے25جنوری 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس