- 501وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
شرحِ جذبات کا ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں میں سے کتنے ایسے ہیں جو خود کو جاننا اور یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ جذبات کی ہماری زندگیوں میں کتنی اہمیت ہے! جذبات کا ہماری زندگیوں میں کیا کردار ہے اور یہ کس طرح ہماری دماغوں سے کھیلتے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس خود کو جاننے، جذبات اور احساسات کی اتنی تعلیم ہی نہیں ہے کہ ہم جان سکیں کہ ہماری اوردوسروں کی حدیں اور آزادی کیا ہے اور ہم خود کو کس طرح پرکھتے ہیں کیونکہ ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں ۔لوگوں کی اکثریت اس بات نے نا آشنا ہے کہ جذبات کسطرح کام کرتے ہیں ۔کبھی جذبات کی وجہ سے ہم پرجوش ہو جاتے ہیں اور کبھی بہت مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
حتکہ شرح جذبات کےاس موضوع پر جو ماہر پروفیسرز ہیں انہوں نے بھی اتنی تفصیل سے بات نہیں کی ہے اُن کی تشریحات میں بہت کمیاں واضح طور پرنظر آتی ہیں ۔مگر شرح جذبات کی جو تشریح ہم نے بیان کی ہے وہ اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ لوگوں نے یونیورسٹی میں کیا پڑھا ہے ، شرح جذبات کے اِس موضوع پر جو ہماری تشریحات ہیں وہ روحانی زرائع سے آر ہی ہیں اور وہ روحانی زریعہ سیدنا گوھر شاہی کی ذاتِ والا ہے ۔روزانہ ہمیں روحانیت کے بارے میں کچھ نا کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے ، سیدنا گوھر شاہی کی مدد کے بغیر جذبات اور احساسات کو سمجھنا ناممکن تھاہم سیدنا گوھر شاہی کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہی معلوم ہوتا ہے ۔ بڑے بڑے صوفیاء کرام کو بھی یہ تعلیم نہیں ملی جتنی تعلیم ہمیں سیدنا گوھر شاہی نے عطا کی ہے ہمارے قلوب اور دماغوں کو سرشار کیا ہے ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ ناکافی ہے۔
جذباتی اُلجھنیں اور اِس کے اثرات:
جذبات سمندر کی لہروں کے مانند ہوتے ہیں جن میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ہم خود کو بہت کچھ سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جن پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔اپنے بارے میں سب کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم بہت مضبوط ہیں لیکن یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔جب ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو بھلے ہم کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ہم بچے کی طرح روتے اور بلکتے ہیں ۔ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ لوگ جذبات کی پیچیدگیوں میں اُلجھ جائیں ۔نفسیاتی سائنس کے مطابق بنیادی طور پر دو طرح کے جذباتی اُلجھاؤ ہوتے ہیں ۔ایک احساس برتری اور دوسرا احساس کمتری ہوتا ہے ۔
“ سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ احساس برتری اور احساس کمتری دونوں غلط ہیں کیونکہ احساس برتری کی وجہ سے انسان کچھ سیکھنا نہیں چاہتا اور احساس کمتری میں مبتلا انسان یہ سمجھتا ہے میں کچھ سیکھ نہیں سکتا دونوں حالتوں میں نتیجہ یکساں ہی ہوتا ہے ”
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کیوں احساس ِبرتری اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔علم ِ نفسیات کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔ بسا اوقات یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جن لوگوں میں انانیت بہت زیادہ ہوتی ہے وہی لوگ احساس برتری کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ہمیں یہ جاننا ہے کہ ہمارے جذبات کسطرح اُلجھن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ ہمارے جذبات میں اُلجھاؤ ایک سے زائد اجزا پر مشتمل ہے جیسے کچھ حاصل ہو جانے پر پُرجوش ہو جانا اور ناکامی پر مایوسی اور اُداسی کا غالب آ جانا ۔لیکن کچھ لوگ جب بار بارزندگی میں ناکام ہوتے ہیں تو صرف مایوسی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ایسی حالت میں چلے جاتے ہیں جہاں رد کئے جانے کا احساس مزید تکلیف اور مایوسی کو بڑھا دیتا ہے ۔یہ تمام مایوسی اور تکالیف مل کر جذباتی اُلجھنوں میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔جو لوگ احساسِ برتری کا شکار ہوتے ہیں وہ لوگ ہمیشہ خوش نہیں ہوتے بلکہ اُن کی احساسِ برتری صرف لفاظی تک محدود ہے۔احساس برتری کا شکار لوگ ہمیشہ آپ کو یہ تاثر دیں گے کہ وہ آپ سے بہتر ہیں لیکن اُن کے دل کے اندرونی گوشے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہارے ہوئے ہیں ۔لیکن سیدنا گوھر شاہی نے جو فرمایا ہے وہ بہت ہی سادہ ہے کہ نہ ہی احساس برتری تمھارے لئے اچھا ہے اور نہ ہی احساس کمتری تمھارے لئے بہتر ہے ۔سیدنا گوھر شاہی چاہتے ہیں کہ ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں ۔جب کوئی اچھا کام کرے تو اُس کا شکریہ ادا کریں اور غلطی ہو جانے پر معافی مانگ لیں اور یہی حقیقت بھی ہے ۔
میرا یہ خیال ہے کہ رب نےہر انسان کویکساں عقل عطا کی ہے ۔ کسی کا بھی دماغ چودہ یا پندرہ فیصد سے زیادہ کام نہیں کرتا ہے لیکن چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کا دماغ بیس فیصد بھی کام کرتا ہے ۔ اگر کسی کا دماغ پچیس فیصد کام کرنا شروع ہو جائے تو آپ تمام سائنسدانوں کو پیچھے چھوڑ دیں ۔لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ دماغ کی کارکردگی کو کیسے بڑھا یا جائے۔جب ماں کے پیٹ میں بچہ بڑھ رہا ہوتا ہے تو اُس وقت ایک ہرے رنگ کے مادے کا اخراج ہوتا ہے جو سائنسی اصلاح میں (CH4 P)کہلاتا ہے ۔جب یہ مادہ جسم میں داخل ہوتا ہے تو دماغ کے سیل کو ضرب دے کر بڑھا دیتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر آپ کا دماغ پندرہ فیصد کام کرتا ہے ، جب سائنس پڑھتے ہیں تو یہ ہمارے دماغ کی قوت کو بڑھا دیتی ہے اور جنہوں نے سائنس نہیں پڑھی ہو سکتا ہے اُن کا دماغ صرف پانچ فیصد کام کرتا ہو ۔تو جن کا دماغ پندرہ فیصد کام کرتا ہے اگر اُن میں سبز مادہ داخل کیا جائے تو یہ دماغی قوت کو بڑھا کر پینتالیس فیصد تک بڑھا سکتا ہے ۔اگر آپ کا دماغ بیس فیصد کام کرے تو آپ دماغ سے تمام چیزوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ آپ نے (Hypnotism)تنویم کار ی کے بارے میں سنا ہو گا۔تنویم کاری میں نیلی موم بتی یا سورج کی شعاعوں کو آنکھوں میں جذب کیا جاتا ہے ۔ ابتداء میں کم دورانیے کے لئے دیکھا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ دیکھنے کا دورانیہ بڑھایا جاتا ہے جس سے یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ گلاس کی طرف دیکھیں تو اُسے توڑ دیں ۔اگر آپ کا دماغ بیس فیصد کام کرنا شروع کر دے تو آپ اللہ کے ولی بن جائیں اور بہت سے طاقتیں آپ کو مل جائیں ۔کیا وجہ ہے کہ دماغ سو فیصد کام نہیں کرتا ہے؟ دماغ کی روح لطیفہ اناّ پر تین طرح کی پرتیں ہوتی ہیں اگر آپ کا لطیفہ انا منور ہو جائے اور آپ اللہ کا دیدار کر لیں تو اُن لوگوں کا دماغ سو فیصد کام کرتا ہے پھر انہیں احماقانہ کام کر کے اسے کنٹرول کرنا پڑتا ہے ، اُن کے لئے عام انسان کی طرح برتاؤ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے اور جب وہ دماغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تواُن سےاحماقانہ کام سرزد ہوتے ہیں جسے عام لوگ دیکھ کر یہ کہتےہیں کہ یہ بےوقوف ہے۔
ہر انسان دماغ کا بیس فیصد حصّہ ہی استعمال کر پاتا ہے:
اپنے اندر اِس احساس کو جگہ نہ دیں کہ آپ کسی سے کمتر ہیں سوائے رب تک رسائی کے اللہ نے سب کو یکساں چیزیں عطا کی ہیں۔کیونکہ رب تک رسائی رب کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ آپ کو کتنی قربت دینا چاہتا ہے ۔آپ رب کی مرضی سے زائد اُس کی قربت میں نہیں جا سکتے ہیں ،بہرحال جسمانی اعتبار سے سب انسان برابر ہیں جب تک آپ اندر موجود اضافی ارواح کو بیدار نہ کر لیں۔کسی سے برتر یا کمتر ہونا صرف دماغی کھیل ہے جو کہ معاشرے سے آتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں جو درجہ بندی ہے یہ برتری اور کمتری کا احساس وہیں سے جنم لیتا ہے ۔جیسے انڈیا میں ذات پات کا فرق ہے کوئی شودراور کوئی برہمن کہلاتا ہے۔اسی طرح یورپین ممالک میں بھی درجہ بندیاں موجود ہیں جہاں کام کرنے والا طبقہ موجود ہےاور دوسرا پڑھا لکھا طبقہ موجود ہے۔ جو کام کرنے والا طبقہ ہے اس کے بارے میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس طبقے کے لوگوں کے پاس اتنے زرائع موجود نہیں ہیں کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالجز اور یونیورسٹی جا سکیں لہذا اُن کی سمجھ اور ذہانت کا لیول اُتنا نہیں ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھی کسی کا دماغ بیس فیصد سے زیادہ استعمال نہیں ہوتا ہے ۔کوئی بھی انسان بیس فیصدسے زیادہ نہیں جا سکتا کیونکہ بیس فیصد کے بعد رب نے ایک تہہ رکھی ہےلیکن جب آپ رب کا دیدار کر لیتے ہیں تو وہ تہہ ہٹ جاتی ہے ۔ روحانیت کو چھوڑیں اگر وہ صرف اپنا دماغ ہی استعمال کرے تو وہ تمام دُنیا کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔
لیکن سو فیصد دماغ کا حصہ استعمال کرنے سے پہلے رب چاہتا ہے کہ وہ آپ کو اچھی طرح رگڑے ۔آپ خود کو ردّ کرنے کے مراحل سے گزریں اور آخر میں جب آپ اس روحانی خزانے کو جان لیں تو وہ خزانہ آپ کا نہیں رہتا ۔ خودی کو ردّ کرنے کے مراحل سے گزرنے کی وجہ سے آپ یہی کہیں گے کہ میں کچھ نہیں ہوں یہ تو سب رب کی عطا ہے اور میں تو حقیر ہوں۔یہی وجہ ہے جو اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں وہ زمین پر بھی بیٹھ جاتے ہیں اور عام دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ بے وقوف ہےاگر اِس کے پاس اتنی طاقت ہوتی تو وہ پھر زمین پر کیوں بیٹھتا ۔مثال کے طور پر اگر کہیں کہ میرے پاس ہزار ڈالر ہیں اور آپ بھوکے مر رہے ہیں تو کوئی بھی آپ پر یقین نہیں کرے گا کیونکہ ہمارا دماغ صرف جذبات کے چند خاکوں کو ہی جانتا ہے کہ اگر اِس کے پاس پیسے ہیں تو پھر یہ بھوکا کیوں مر رہا ہے ۔
اگر آپ نے سائنس پڑھی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ نیوٹرون، پروٹان اور الیکڑون ہوتے ہیں اُسی طرح روشنی میں فوٹان موجود ہوتے ہیں ۔ایک فوٹان کا جسم ہوتا ہے اور ایک فوٹان کی روح ہوتی ہے ۔ جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں وہ فوٹان کا جسم ہے اور جو فوٹان کی روح ہے وہ نور ہے جو کہ قلب میں داخل ہوتا ہے ۔جب یہی نور دماغ تک پہنچتا ہے تو نٹ شیل کے کھلنے جیسے آواز آتی ہے وہ نور کے نکلنے کی آواز ہے اور پھر اس طرح تیسری آنکھ کھل جاتی ہے ۔پھر آپ کی آنکھوں کے سامنے دومناظر ہوتے ہیں ایک لوگوں کا ظاہر اور ایک باطن ۔جو لوگ کہہ رہے ہیں اور جو اُن کے دل کے اندر ہے وہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ایک ہی وقت میں یہ دونوں مناظر نظر آرہےہوتے ہیں ۔
“جذبات کی اُلجھنوں کو صحیح سمت میں موڑنا ضروری ہے اور وہ صحیح سمت رب کا شکر گزار ہونا ہے ۔جو بھی اچھا ئی ہے اُس کو خود سے منسوب نہ کریں کیونکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس سے وہ رب کی ہی عطا اور صفت ہے ۔اِسی لئے اپنے اندر کی تمام اچھائی کو رب سے منسوب کرنا چاہیے۔ہمارے جذبات کا رُخ اِس نقطے پر مرکوزہو نا چاہیے کہ ہمارے اندر آج جو کچھ بھی اچھائی ہے اورجو کچھ بھی موجود ہے وہ صرف اور صرف میرے مالک کی عطا ہے ۔جب آپ کے یہ جذبات ہوں گے تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہے”
نمائندہ امام مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے خود آگاہی کے مضمون پر گفتگو سے ماخوز