کیٹیگری: مضامین

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں80 ہزار کے قریب خواجہ سرا موجود ہیں۔اسلامی شریعت میں ان کے بارے میں براہ راست نہ قرآن میں کوئی حکم ہے نہ حدیث میں۔ البتہ ان کے بارے میں اجتہادی آراء ضرور بیان ہوئیں ہیں۔ ان میں بھی سب سے بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ ان کی بطور تیسری جنس کوئی شناخت نہیں ہے۔خواجہ سرا (ہیجڑا ) جس حالت یا بغیر جنس کے پیدا ہوئے ہیں کیا اِس میں اِن کا اپنا کوئی قصور ہے ؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر کس کا قصور ہے ۔پاکستان میں ایک ڈرامہ چل رہا تھا اس حوالے سے “خدا میرا بھی ہے”۔ پاکستان میں اِس طرح کی حامل جنس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ بڑا المناک ہے ۔اور جو سلوک کیا جاتا ہے اسے دیکھنے کے بعد یہ خیال آتا ہے کہ یہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے بلکہ کوئی خبیث شیطانی معاشرہ ہے ۔ اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ خواجہ سر¬ا کو برا سمجھتا ہے تو پھر وہ یہ بتائے کہ یہ جو خواجہ سرا پیدا ہوا ہے اِس میں اُس کا قصور ہے یا اُس کے ماں باپ کا قصور ہے ؟ اگر ان دونوں کا قصور نہیں ہے تو پھر کس کا قصور ہے ؟

خواجہ سرا فرشتوں کی غلطی سے ہوتا ہے:

ہمارے ذہن میں یہ آیا کہ اللہ نے ہی ایسا پیدا کیا ہے تو ہم نے اللہ سے اعتراض کر دیا ۔ تو اللہ کی طرف سے جواب یہ ملا کہ“ کیا بندوں کو میں بناتا ہوں ! یہ تو فرشتوں سے غلطی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔” اب اُس کی جنس کو بنانے میں فرشتوں سے جو غلطی ہوئی ہے اس سے ایمان پر کیا فرق پڑے گا اس بات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

خواجہ سرا کےلئے روحانیت کا راستہ بہت آسان ہے:

اگر اُس نے یوم ازل میں ایمان پسند کیا تھا اور اُس کی روح ازلی مومن ہے تو اِس دنیا میں آ کر بھی ازلی مومن بن کر رہے گا ۔عورت ہو ، مرد ہو یا خواجہ سرا ہو سات روحیں یا لطائف تو ہر انسان میں ہوتے ہیں ۔جس طرح سے مرد یا عورت کا ذکر قلب چلے گا بلکل اسی طرح خواجہ سرا کا بھی ذکر قلب چلے گا۔وہ بھی رب سے محبت کر سکے گا اگر اس نے اپنے قلب و روح کو منور کر لیا لیکن مرد یا عورت کو اپنے نفس کو طہارت کی طرف لے جانے میں بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی اور خواجہ سرا کو بہت ہی ہلکی پھلکی محنت کرنا پڑے گی کیونکہ لوگوں کی ملامت سن سن کر اُس کے نفس میں پہلے ہی کمزوری آ جاتی ہے ۔لوگوں کی گالیاں ، دھتکار سہہ سہہ کر اُس کا نفس پہلے ہی کمزور ہو چکا ہوتا ہے ہلکی سی بھی نظر مرشد ڈالے تو اُس کا نفس پاک ہو جاتا ہے ۔

“سرکار گوھر شاہی کا در فیض کے لئے ہر انسان پر کھلا ہے لہذا روحانی اور ایمانی طور پر خواجہ سرا کسی مرد یا عورت سے کم نہیں ہے”

خواجہ سرا میں روحیں تو موجود ہیں اس لئے وہ روحانی یا ایمانی طور پر کسی سے بھی کم نہیں ہے ہاں البتہ معاشرتی طور پر اُس کے اندر کمی ہے کہ وہ مرد ہونے کے مزے نہیں چکھ سکتا یاعورت ہونے کے مزے نہیں اُٹھا سکتا ۔یعنی جنسی شہوت کی تسکیں اُسے حاصل نہیں ہو سکتی اور اِس کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہی اُس کے نفس کے اندر کمزوری آتی ہے ۔ رب کا راستہ خواجہ سرا کے لئے آسان ہے ۔ اگر خواجہ سرا روحانیت میں لگ جائے تو بہت جلدی اُس کی ترقی ہوتی ہے ۔
جو لوگ خواجہ سرا سے نفرت کرتے ہیں اور اُنھیں دھتکارتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قابل نہیں ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اُن پر رحم نہیں کرے گا کیونکہ وہ فرشتوں کی غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور اللہ اُن کو اِس کے بدلے یہ رعایت دے رہا ہے کہ اُنھیں اپنے تذکیہ نفس میں دشواری نہیں ہو گی ورنہ نفس کو پاک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔تاریخ شاہد کے جن بڑے بڑے اولیاء کرام کے نام آج ہم سنتے ہیں انہوں نے نفس کو پاک کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی لگا دی تھی۔اگر عورت ہو گی تو کسی بوائے فرینڈ کے چکر میں لگی سکتی ہے اور مرد ہے تو گرل فرینڈ کے چکر میں لگ سکتا ہے لیکن خواجہ سرا کے لئے یہ چیزیں معنی نہیں رکھتی ہیں اس لئے وہ صراط مستقیم پر دوڑ کر جائے گا۔لہذا خواجہ سرا کے لئے روحانیت کا راستہ آسان ہے ۔

مندرجہ بالا مضمون نمائندہ مہدی کے 12 مئی 2017 کے خصوصی خطاب سے ماخوز کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس