کیٹیگری: مضامین

سائنسی وضاحت:

دل گوشت کا لوتھڑا ہے جو جانور میں بھی ہے ، دل پمپنگ اسٹیشن کا کام کرتا ہے، خون کو صاف کرنے کے بعد جسم میں دھکیلتا ہے۔انسان کے جسم میں دو طرح کی نسیں ہوتی ہیں جن کو شریان اور ورید کہا جاتا ہے۔سب کو معلوم ہے اگر کولیسٹرول لیول بڑھ جائے تو دل کے والو بند ہو جاتے ہیں پھر ایسے مریض کا بائی پاس کروایا جاتا ہے۔دل کے والو کس طرح بند ہوتے ہیں ؟ کھانا کھانے کے بعد دو کام ہوتے ہیں ، کھانے کی انرجی مسلز اور خون بنانے کے کام آتی ہے، خون اور مسلز میں کیا فرق ہے؟ ان کی مثال بالکل دودھ اور دودھ کی بالائی کی طرح ہے ۔ خون کے بہاؤ سے باریک باریک ریشہ بنتا ہے جو جمع ہو کر گوشت بنتا ہے ۔ہمارے جگر اور دیگر اعضا میں غذا سے جو تازہ تازہ خون بنتا ہے شریانیں اس خون کو صاف کرنے کے لیے دل تک لے کر جاتی ہیں ، دل کا کام خون کو صاف کرنا ،خون میں آکسیجن پہنچانا اور خون کی گندگی کو صاف کرنا ہے۔ آپ نےدیکھا ہو گا کسی بیماری کے ٹیسٹ کے لیےشریانوں سے خون نہیں نکالتے ہمیشہ وریدسے نکالتے ہیں ۔شریانوں میں تو صاف خون ہوتا ہے اس سے بیماری کا پتا نہیں چلے گا۔
دل میں کبھی بھی صاف خون والی blood vessels بلاک نہیں ہوں گی۔ جب خون کےغیر خالص یا چکنائی کی وجہ سے شریانیں بالکل بندہو جاتی ہیں تب دل کا دورہ پڑتا ہے۔پمپنگ کا یہ کام انسان کا دل بھی کرتا ہے اور جانور کا بھی۔
دل اردو زبان کا لفظ ہے اوردل کو عربی میں ’’ فواد‘‘ کہتے ہیں لیکن یہ جو ’’قلب‘‘ ہے یہ دل کی جانب اشارہ نہیں ہے اللہ نے دل پر ایک فرشتہ بٹھایا ہوا ہے ، وہ فرشتہ بیدار ہو کر اللہ اللہ کرتا ہے ۔ فرشتے کے اللہ اللہ کرنے سے پہلے دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگایا جاتا ہے اس اللہ اللہ کرنے سے دل میں نور بنتا ہے اور قلب پر بیٹھی مخلوق اورخون میں جو مخلوقیں ہیں ان تک جا کر ان کو بیدار کرے گا۔تین سال تک دل کی دھڑکنوں سے اللہ اللہ کرنا ہوتی ہے جس سے قلب پر بیٹھی مخلوق طاقت ور اورجوان ہو جاتی ہے اور اپنے عالم تک پہنچ سکتی ہے اس کا تعلق عالم ملکوت سےہے اسی مخلوق کو فقہہ عطا ہوتی ہے۔قرآن میں ارشاد ہوا

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن ، آیت 11
ترجمہ: جو مجھ پر ایمان لایا میں اس کے قلب کو ہدایت دیتا ہوں

جس نے اللہ سے ہدایت لینا ہو وہ اپنے قلب کو بیدار کر لے جس کو اللہ نے ہدایت دینا ہے ۔لیکن جو اس تعلیم کی طرف نہ آئے، نہ جستجو کرے جس نے قلب بیدار نہیں کیا جس کی مخلوق بے سدھ پڑی ہےوہ اللہ کو یہ ہی تاثر دے رہے ہیں میں ہدایت نہیں لینا چاہتا۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں کہا
دل ِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیرے ضرب ہے کاری ، نہ میری ضرب ہے کاری

اللہ نے قرآن میں بتا دیا کہ ایسے کہو

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
سورۃ الفاتحہ ، آیت 5
ترجمہ : ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت دے، ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے نعمت کی ہے

لوگوں نے أَنْعَمْتَ۔ کا ترجمہ انعام کیا ہے ، انعام سے مراد تحفہ ہی لیتے ہیں جبکہ انعام کا مطلب ہے نعمت الہی ، یعنی اللہ کی طرف سے دی ہوئی نعمت ۔ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ،یعنی اللہ نے جن کو نعمت سے نوازا ۔کیا آپ کومعلوم ہے وہ نعمت کیا ہے ، اللہ تعالی کس چیز کو نعمت قرار دے رہے ہیں ؟ کیا آنکھیں اللہ کی نعمت ہیں ؟ نہیں وہ تو برابر والے کے پاس بھی ہیں۔ ہندو ،سکھ، عیسائی ،یہودی سب کے پاس ہیں جو سب کو دیا وہ نعمت نہیں ہے۔اللہ اگر کسی کو اپنا دیدار دے اس کو وہ اپنی نعمت کہے گا ۔نعمت سے مراد دیدار الہی ہے کیونکہ یہ نعمت عظمی ہے۔وہ نعمت ہے،میں تجھے دیکھ لوں تو مجھے دیکھ لے ۔ میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے چلتا ہے ،میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے چلتا ہے، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے یوم محشر میں بولے گا۔
جو یہ چاہتا ہے اللہ اس کے قلب کو ہدایت دے تو وہ اپنے قلب کو بیدار کر لےجب قلب بیدار ہو جائے گا تو خود بخود اللہ کی نظروں میں آ جائے گا۔

متعلقہ پوسٹس