- 1,159وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
یو ٹیوب پر کیا گیا سوال: جو لوگ قلب و لطائف کو روشن کرنے کے لیے ساری زندگی لگے رہتے ہیں اور پھر فوت ہو جاتے ہیں تو کیا اللہ ان کو قیامت میں معاف کر دے گا؟
قرآن کسے شہید کہتا ہے ؟
اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ قلب کی صفائی کرنے میں جو انکی ساری زندگی گزر گئی اور پھر فوت ہو گئے تو جاننا یہ ہے کہ کیا وہ روحانی تعلیم مرشد کی رہبری میں حاصل کر رہے تھے یا اپنےطور سے لگے ہوئے تھے، اگر مرشد کی نظر سے راہ ِسلوک میں چل رہے تھے اور موت آگئی تو انہی لوگوں کے لیے قرآن مجید نے کہا
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 154
ترجمہ : جو لوگ اللہ کی راستے میں منقسم ہو جائیں انکو مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں انکی حیات کا شعور نہیں ہے ۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ جو لوگ اللہ کی راہ میں مختلف حصوں میں منقسم ہو جائیں فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ پاکستان میں سبیل کا مطلب فری یعنی مفت لیا جاتا ہے جبکہ روحانیت میں سبیل کا مطلب راستہ ہے۔یعنی وہ راستہ جو اللہ تک لے جائے، اللہ کے لیے جو راستہ ہے اسکو راہ سلوک اور نور کا راستہ کہتے ہیں ، اسی راستے پر آگے چل کر پل صراط آتا ہے۔ تو اللہ نے کہا جو لوگ اللہ کے راستہ میں منقسم ہو جائیں۔ انکو یہ مت کہو وہ مر گئے ہیں ۔ بَلْ أَحْيَاءٌ اور وہ زندہ ہیں وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَلیکن تمہیں انکی حیات کا شعور نہیں ہے ۔
کسی ناگہانی آفت سے مرجانےوالےعام لوگوں کو بھی مسلمان شہید کہنے لگ جاتے ہیں اور تو اور انڈیا میں رہنے والے ہندوجو اسلام کو مانتے ہی نہیں ہیں وہ بھی اپنے فوجیوں کے مرنے پر انہیں شہید قرار دے دیتے ہیں جیسا کے شہید ادھم سنگھ۔
شہید کا حقیقی مطلب کیا ہے اور لوگ کیا اخذ کرتے ہیں :
شہید کا مطلب شاید لوگوں کومعلوم نہیں ہے ، آپ کی آسانی کے لیے ایسے حوالے دیتا ہوں جس سے شہید کا مطلب بآسانی آپ کو سمجھ آ جائیگا، جیسا کہ عدالت میں کوئی کیس چل رہا ہے اور کوئی بندہ ایسا ہے جس نے وہ سارا ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اسکو ہم کہیں گے عینی شاہد ۔عین عربی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے آنکھ اور عینی شاہد کا مطلب ہے وہ شخص جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،اسی طرح شہید کا مطلب ہے حاضر۔ اب یہ جوحاضرہے تو کہاں پر حاضر ہے؟ بندہ مارا گیا اور اللہ تعالی نے اسکو شہید کا مقام دیا ، تو کہاں؟ شہید سے کیا مراد ہے ؟
“شہید سے مراد اسکی ارضی ارواح اسکے جسم میں ہی رہتی ہیں اسکے لطائف اسکے جسم میں ہی رہتے ہیں ، وہ قبر میں دفنا دیا جاتا ہے تو اس کی مزیدتعلیم قبر میں بھی جاری رہتی ہے ،جب تک اسکی وہ تعلیم پوری نہیں ہوگی اس کے لطائف قبر میں ہی رہیں گے اور جب تعلیم پوری ہوگی تو قبر پر تجلی پڑے گی ”
حضور پاک کی ایک حدیث ہے کہ شکستہ قبر اور شکستہ دل پر اللہ کی رحمت برستی ہے۔اگر وہ زندہ ہوتا تو شکستہ قلب کہلاتا وہ مرگیا تو شکستہ قبر ہوگئی۔ وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ان لوگوں کو مردہ مت کہو جو فوت ہو گئے ہیں، مر گئے ہیں کن لوگوں کو ؟ کہ جو مختلف حصوں، ٹکڑوں میں بٹ گئے اللہ کے راستے میں چلتے چلتے۔مختلف ٹکڑوں میں بٹ جانا کیا ہے؟ جب انکو موت آ گئی تو جسم انکا قبر میں چلا گیا ، روح ان کی آسمانوں میں چلی گئی، اب یہ مختلف حصوں میں بٹ گئےآدھا وہ قبر میں ہے آدھا آسمانوں میں چلا گیا ۔ یعنی مختلف حصوں میں بٹ گیا ہے، اب جنہوں نے اپنی ساری زندگی قلب کو صاف اور روشن کرنے میں لگا دی اور فوت ہو گئے ، دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ واقعی صحیح طریقے سے روحانیت میں لگے ہوئے تھے اور کیا اُن کے کچھ لطائف روشن ہو گئے تھے یا نہیں ، اگر وہ بغیر مرشد کے لگے ہوئے تھے تو پھر تو انکا سارا وقت ضائع ہو گیا ،اور اگر آپ کہیں کہ اللہ کو کچھ نہ کچھ تورعایت دینا چاہیے ،نہیں ! اللہ کیوں رعایت دیگا ؟اللہ نے ایک طریقہ بنایا ہوا ہے کہ مرشد کامل کے بغیر اللہ تک نہیں پہنچ سکتے تو مرشد کامل کو ڈھونڈو ، بغیر مرشد کامل کے تم ساری زندگی لگا دو تو اللہ پر کیا دوش یا الزام ہے!! اگر صحیح طریقہ سے ہٹ کر اپنا کوئی منتخب کردہ طریقہ اختیار کرنے والا اللہ کو کوئی دوش نہیں دے سکتا اور وہ ساری زندگی بھی لگا رہے توکوئی فرق نہیں پڑے گا، ہاں اگر مرشد کی رہبری اور رہنمائی میں راہ سلوک میں چلتے چلتے روشنی حاصل ہوتی گئی مختلف لطائف روشن ہوتے گئے اور منزل ملنے سے پہلے ہی موت آ گئی تو خیر ہے۔
مہد سے لحد تک تعلیم کیا ہے ؟
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ “تعلیم مہد سے لحد تک ہے” یعنی ماں کے پیٹ سے قبر تک۔ اب جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ کہتے ہیں یہ کیسی بات ہےیعنی ماں کے پیٹ سے قبر تک تعلیم یہ وہ ایسے ہی کہہ دیتے ہیں سمجھتے نہیں ہیں ۔ ماں کے پیٹ سے تعلیم شروع ہو جاتی ہے اور قبر میں جا کے بھی تعلیم چلتی رہتی ہے لیکن سب کی نہیں ، اگر کسی کی تعلیم قبر میں جانے سے پہلے ہی ہو گئی تو قبر میں کیوں کریں گے۔
ماں کے پیٹ میں تعلیم کا ہم نے بھی سنا اور سب سے پہلے سیدنا گوھر شاہی نے جو بیان کیا ہے وہ بتا دیتے ہیں ۔سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ پچھلے وقتوں میں جب صوفی ازم کا دور دورہ تھا ، جب مختلف علاقوں میں ایک ہی وقت میں کئی کئی ولی ہوتے تھے یعنی روحانی تعلیم کا زور تھا تو اُس وقت عورتیں ذاکرہ ہوا کرتی تھیں اور جب وہ حاملہ ہوتیں اورجو بچہ اُس وقت اُن کے رحم میں پل رہا ہوتا تھا وہ ماں کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہونے والی “اللہ ھو” کی آوز کو نو مہینے تک سنتا رہتا اس طرح اس میں نور بھی جاتا رہتا تو ابھی وہ پیدا بھی نہیں ہوا ہے اور اس کی نسوں میں نور پہنچ جاتا تھا ۔ پھر فرمایا جب ایسا بچہ پیدا ہوتا تو ماں لوری میں بھی اسکو اللہ اللہ سناتی تھی، پانچ دس سال کا ہوا تو چپ کر کے مسجد کے حلقہ ذکر میں بیٹھ جاتا تھا ،اُسی سے اسکے نفس میں طہارت آنا شروع ہو جاتی تھی تو یہ ماں کے پیٹ سے تعلیم شروع ہو گئی نا ۔
دوسرا حوالہ یہ ہے کہ ہم سنتے آئے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی کے حوالے سے کہا جاتا کے کہ انہوں نے ماں کے پیٹ ہی میں سترہ سپارے حفظ کر لئے تھے ،اور جب رمضان کا مہینہ آتا تو وہ روزے کے دوران ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ تو ماں کے پیٹ سے قبر تک تعلیم کے ثبوت موجود ہیں ۔
سندھ میں ایک بزرگ بھٹ شاہ راہ سلوک میں چل رہے تھے تو انکی منزل کا وقت آ گیا ، انکے مرشد نے کہا کہ اب تمہارا امتحان ہو گا، انہوں نے کہا امتحان میں کیا ہوگا ، مرشد نے کہا میں چھپکلی کاٹ کر اس کا سالن بنا کر دونگا تم نے اس سالن کو کھا نا ہے، بھٹ شاہ نے دل کو مضبوط کر کےچھپکلی والے سالن کا نوالہ منہ کے قریب تک لے گئے اتنا قریب کے ذرا سا سالن ان کے ہونٹ کو لگا ہی تھا کہ انہوں نے نوالہ پھینک دیا ، اس وجہ سے انکی باطنی تعلیم روک دی گئی اور وہ جو ہلکا پھلکا سا چھپکلی کا سالن ان کے ہونٹوں کو لگ گیا تھاصرف اس بنیاد پر انہیں مکمل فیل نہیں کیا گیا اور ان کی ولائیت کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ،اگر وہ سالن کھا لیتے تو تجلی ان پر اسی وقت گر جاتی ۔ اصل میں سالن میں چھپکلیاں نہیں تھیں نظر آ رہی تھیں وہ بھنڈیاں تھیں ۔شریعت میں کہا جاتا ہے کہ جو اپنی آنکھ سے دیکھو اس پہ یقین کروسنی سنائی بات پر یقین نہیں کرو اور طریقت میں سب سے اہم ترین قانون کیا ہے؟
“طریقت میں کہتے ہیں جو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ بھی جھوٹ ہو سکتا ہے ، مرشد کی بات پر یقین کرو ”
تو امتحان اس بات کا تھا کہ اس کی آنکھ نے کیا دیکھا اور مرشد نے کیا کہا۔ مرشد نے کہا یہ کھاؤ اور اسکی آنکھ نے دیکھا چھپکلییاں ہیں ، تو انہوں نے مرشد کی بات کا یقین نہیں کیا ۔ کیونکہ وہاں امتحان اِس بات کا نہیں ہوتا کہ تمہاری داڑھی کتنی لمبی ہے، نہ ذکر ِقلب کا امتحان ہو گا ذکر بھی تو مرشد ہی چلاتا ہے تو وہ اسکا امتحان کیوں لے گا؟ کسی کے یقین کا امتحان ہوجاتا ہے تو کسی کی محبت کا امتحان ہوتا ہے۔
محبت کا امتحان کیا ہے؟
محبت کا امتحان یہ ہے کہ اس بندے کو دنیا میں سب سے زیادہ کون سی چیز عزیز ہے۔قرآن میں آیا
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
سورۃآل عمران آیت نمبر 92
تم نیکی اور حسنات کی معراج پر اس وقت تک نہیں پہنچو گے۔ یہاں بر سے مراد تمام اچھائیوں کی اعلی ترین اچھائی ، یعنی اچھائیوں کی معراج ،کہ اس سے بڑھ کر کوئی اچھا عمل نہیں ہے لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم بر اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے کہ جب تک تم اس چیز کو رب کے لیےقربان نہ کر دو جو تم کو سب سے زیادہ عزیز ہے ، کسی کو بیوی سے پیار ،کسی کو بچوں سے پیار،کسی کو دولت پیاری اور کسی کو اپنی انا پیاری ، تجھے جو بھی چیز پیاری ہو گی وہ قربان کرنا ہو گی تب رب اپنی محبت عطا کرے گا۔ تیرے اندر اگر بغض عناد تکبر انانیت ہے تو پھر تو رب والا نہیں بن سکتا ۔ایک حدیث میں ہے “اگر تیرے قلب میں رائی برابر بھی تکبر ہوا توجنت کے قابل نہیں ہے”۔یعنی دلوں میں تکبر اور بغض بھر جاتا ہے۔ وہی دل پاک اور صاف رہے گا کہ جس دل میں اللہ کا نور آ جاتا ہے اور مستقل اس میں دائمی ذکر الہی سرائیت کر جاتا ہے اور ہمہ وقت اسکا قلب اللہ کے قلب سے جاری ہے۔
اللہ کے جتنے بھی امتحان ہوتے ہیں وہ مرشد کامل کے ذریعے ہوتے ہیں اور مرشدوں کا امتحان مرشد بننے سے پہلے خضر علیہ السلام کے ذریعے ہوتا ہے۔ مرشد بننے کے بعد امتحان نہیں ہوتا۔پیار کرنے والے لوگ جب آ کر بتاتے ہیں کہ ایسا یا ویسا ہو گیا ہے کیونکہ یہ لوگ وہ ہی دیکھتے ہیں جو ظاہر میں ان کو نظر آ رہا ہوتا ہےلیکن روحانی لوگوں کو پتا ہوتا ہے کیا کہانی چل رہی ہے،وہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہے جو تم دیکھ رہے ہو، اس پر اُن کو وسوسے آتے ہیں شاید یہ کسی کو بچا رہے ہیں ، جبکہ ایسا نہیں ہے ، تمہاری آنکھ صرف وہی دیکھ سکتی ہے جو سامنے ہے ، اس کی حقیقت کیا ہے وہ تمہاری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی جب اس امتحان میں فیل ہو گئے اور ہلکے سالن کا ہونٹوں پر لگ جانے کی وجہ سے انہیں طریقت سے نکالا نہیں گیا لیکن پھر یہ ہوا کہ یہ جیتے جی امتحان نہیں دے سکتے ، جب یہ ہوگیا کہ یہ جسمانی طور پر امتحان نہیں دیں گے تو جب انکی موت واقع ہوئی ،دفنا دئیے گئے تو تعلیم مکمل ہونے میں ڈیڑھ دو سو سال کا عرصہ لگ گیا ، جو چیز چار پانچ سالوں میں مل جانی تھی وہ ملنے میں ڈیڑھ دوسو سال لگ گئے ۔ایک دن جب تجلی پڑی تو انکی قبر پر پڑی اور وہ کامل ممات ہو گئے۔
اگر کوئی ساری زندگی روحانیت میں لگا رہے اور اسکا کوئی ایک آدھ لطیفہ بھی جاری ہو جائے تو خیر ہے مرنے دو!محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا۔اگر رب کی محبت مل گئی ہے تو پھر فرق نہیں پڑتا کہ تو زندہ ہے یا مردہ ہے۔ زندہ ہے تو زندگی میں ولی بن جائیگا ، مر گیا تو اللہ قبر میں ولایت دی دے گا، اگر ذکر قلب جاری ہو گیا ہے تو۔
“جس کا بھی ذکر قلب چل گیا اس نے ولی بننا ہی بننا ہے زندگی میں بنے یا قبر میں جا کر بنے یوم محشر میں بطور ولی اٹھایا جائیگا ”
یہ کتنی بڑی خوش خبری ہو گئی!!! اب بھلے وہ زندگی میں ولی نا بنے۔ ایک حدیث میں آیا شکستہ قبر اور شکستہ دل پر اللہ کی رحمت یعنی تجلی پڑتی ہے، شکستہ قلب نہیں رہا تو شکستہ قبر پر تجلی پڑ جائیگی ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 18 جولائی 2017 کی یوٹیوب کی نشریات میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔