کیٹیگری: مضامین

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ

سورة الاعراف آیت نمبر 11 تا 18
ترجمہ : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم نے تم کو تخلیق کیا پھر تمھیں صورت عطا کی اور پھر ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا کیونکہ وہ جھکنے والوں میں سے نہیں تھا۔پھر کہا کہ کس چیز نے تم کو روکا جب ہم نے تم کو سجدہ کرنے کیلئے کہا۔تو ابلیس نے کہا میں اِس سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے ۔پھر اللہ نے فرمایا کہ تو نیچے چلا جا تو نے بڑا بول بولا ہے ۔تُو چلا جا یہاں سے تو بڑا ہی نیچ ہے ۔پھر شیطان نے کہا کہ مجھے جب تک کی چھوٹ دےدیں جب دوبارہ انسانوں کو اُٹھائے گا۔پھر اللہ نے کہا کہ ہم نے تجھے مہلت دے دی۔پھر شیطان نے کہا کہ میں گمراہ کر دوں گا اوربیٹھ جاؤں گا اور صراط مستقیم پر نہیں چلنے دوں گا۔ پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور اُن میں سے کوئی تیری دوستی حاصل نہیں کر پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا۔
جسطرح کسی چیز کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے ہم قسم اُٹھاتے ہیں تاکہ کوئی شک و شبہ نہ رہے لیکن اللہ تعالی قسم نہیں اُٹھاتا ہے بلکہ اُسکو آواز کے ذریعےاُسکی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے ۔اسی طرح اس آیت میں بھی اللہ تعالی فرما رہا ہےوَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْاس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم نے تم کو تخلیق کیا ہے ۔ یہاں خلقنا سے مراد روح ہے ، جو ماں کے پیٹ میں آپکا جسم بنتا اس کو اللہ نے تخلیق نہیں کہا بلکہ فرمایا ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ پھر تمھیں صورت عطا کی۔صورت کا عربی اور اردو میں مطلب کچھ اور ہے ۔ اردو میں صورت سے مراد چہرہ ہوتا ہے لیکن عربی زبان میں پورا وجود ہوتا ہے ۔ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ پھر ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا۔ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَکیونکہ وہ جھکنے والوں میں سے نہیں تھا۔
یہاں ایک ایسا باریک نکتہ ہے جو توفیق گوھر شاہی مل جائے تو کھل کر سمجھ میں آ جاتا ہے ۔بات سمجھنا تو آسان ہے لیکن یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہر انسان کے یقین کے معیار جُدا جُدا ہے، کچھ علم الیقین، کچھ عین الیقین اور کچھ حق الیقین والے ہیں اگر علم الیقین والا قرآن پڑھے گاتو جو لکھا ہے اس کو وہی سمجھ میں آئے گا، عین الیقین والے کو علم الیقین والے کے مقابلے میں سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی اور جو حق الیقین پر فائز ہو گا وہ یہ بتائے گا جو ہم اب بتا رہے ہیں ۔اب اگر اس آیت میں اگر آپ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے ابلیس کو سجدہ کرنے کا کہا ہی نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہیں ہے بلکہ وہ تو قوم جنات میں سے ہے ۔ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ پھر ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا۔پھر ابلیس کے بارے میں آگے بیان کیا ہے کہلَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَوہ جھکنے والوں میں سے نہیں تھا۔ پھر فرمایاکہ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ کس چیز نے تم کو روکا جب ہم نے تم کو سجدہ کرنے کیلئے کہا۔قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُتو ابلیس نے کہا کہ میں اُس سے بہتر ہوں ۔خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے ۔قَالَ فَاهْبِطْ فاھبط کا مطلب تنزلی ہوتا ہے ۔ یہ لفظ قرآن مجید میں کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے ، کہیں اعمال کے ساتھ لگا کر کہا کہ تمھارے سارے اعمال ختم یعنی نیچے چلے جائیں گے۔تو یہاں پر بھی تنزلی کیلئے استعمال ہوا ۔ فرمایا کہ نیچے چلے جاؤ۔مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَکہ تم نے بڑا بول بولا ہے ۔ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ عربی زبان میں جو “صاغر ” ہے وہ نیچ کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔پھرکہا کہ تو چلا جا یہاں سے تو بڑا ہی نیچ ہے۔قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَپھر شیطان نے کہا کہ مجھے جب تک کی چھوٹ دے دے جب دوبارہ انسانوں کو اُٹھائے گا۔قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ پھر اللہ نے کہا ہم نے تجھے مہلت دے دی۔ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ پھر شیطان نے کہامیں گمراہ کر دوں گااوربیٹھ جاؤں گا اور انہیں صراط مستقیم پر نہیں چلنے دوں گا۔شیطان نے یہ نہیں کہا کہ میں خانہ کعبہ کے دروازے پر بیٹھ جاؤں گا حج نہیں کرنے دوں گا، بلکہ یہ کہا کہ وہ راستہ جو سیدھا تجھ تک جاتا ہے میں وہاں بیٹھ جاؤں گا۔ صراط مستقیم وہ نوری تار ہے جو بندے کے قلب سے سیدھا عرش الہی تک جاتی ہے ، اسی راستے پر گمراہ کرنے کیلئے بیٹھ جائے گا۔
اب ہماری اُمت میں تہتر فرقے بنے ہوئے ہیں کیا یہ صراط مستقیم پر ہیں ، اسکا مطلب ہے کہ شیطان نے روکا ہوا ہے اور ہر فرقے کا یہی گمان ہے وہ جنت میں جائے گا۔آپ نمازیں پڑھتے رہیں شیطان کبھی بھی حائل نہیں ہو گا لیکن جب صراط مستقیم کی طرف گامزن ہوں گے پھر شیطان روکے گا۔اب جو لوگ بغیر صراط مستقیم کے روزے رکھ رہے ہیں تو کیا اللہ نے شیطان کو بند کیا ہوا ہے ! روزہ تو تزکیہ نفس کیلئے رکھا جاتا ہے اگر شیطان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تزکیہ نفس کیسےہو گا۔شیطان کے بند ہونے سے مراد یہ ہے کہ تیرے نفس میں جو شیطان بیٹھا ہوا ہے اُسے وہیں پر بند کر دے۔ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی۔
وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ اب ہمارے علماء جو شاکرین کا مطلب سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ شکر کرنے والوں میں سے نہیں ہو گاجبکہ یہ ترجمہ غلط ہے ۔یعنی آپ خود اس بات کا اندازہ لگائیں کہ شیطان دائیں ، بائیں، آگے اور پیچھے سے حملہ کر رہا ہے اور اُسکا اثر صرف یہ ہو گا کہ آپ شکر گزار نہیں ہوں گےجبکہ

فرمان ِ گوھر شاہی ہے کہ لفظ “شکر” سریانی زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب دوستی کرنا ہے

جسطرح مشکور کا مطلب دوست ہوتا ہے اسی طرح شکر کا مطلب دوستی کرنا ہے اور شکور کا مطلب دوست بنانے والا ہے ۔جو معنی شکر کے سیدنا گوھر شاہی نے بیان فرمائے ہیں اگر وہ یہاں پر لے لیں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَاور اُن میں سے کوئی تیری دوستی حاصل نہیں کر پائے گا۔ یہاں تجدا سے مراد حاصل کرنا ہے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس نے مجھے طلب کیا اُس نے مجھے پا لیا۔

مَن طَلَبَنی وَجَدَنی، مَن وَجَدَنی عَرَفَنی وَ مَن عَرَفَنی اَحَبَّنی وَ مَن اَحَبَّنی عَشَقَنی وَ مَن عَشَقَنی عَشَقتَهُ وَ مَن عَشَقَتَهُ قَتَلتَهُ وَ مَن قَتَلتَهُ فَعَلی دِیَتَهُ وَ مَن عَلی دِیَتَهُ فَاِنّا دِیَت
حدیث ، کتاب بحار الانوار والیم 65 صفحہ نمبر 25

لطائف کے اصل مقامات:

اب غور طلب بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں جو شیطان نے بات کی ہے کہ میں دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے حملہ کروں گاتو اسکا کیا مطلب ہے ؟ مندرجہ ذیل تصویری خاکے میں ہمارے لطائف اور اُن کے مقامات دکھائے گئے ہیں لیکن یہ مقامات صرف دوران ذکرتصور میں مدد کرنے کیلئےہیں ، ہمارے جسم میں یہ انکا اصل مقام نہیں ہے۔اب یہ سینے کے جو پانچ لطائف ہیں یہ ہمارے سامنے سے پیچھے کی طرف ہوتے ہیں اور اس کے وسط میں لطیفہ اخفی ہوتا ہے ۔اگر ہم سائیڈ سے دیکھیں تو تصویر کچھ اسطرح ہو گی۔

سرکار سیدنا گوھر شاہی نے کتاب مقدس دین الہی میں فرمایا کہ عام آدمی کا قلب ، قلب صنوبر ہوتا ہے جس میں کوئی سدھ بدھ نہیں ہوتی ہے ۔ تمام لطائف اس قلب کے اندر بند ہوتے ہیں ۔ جب تک یہ لطائف اندر بند ہیں بظاہر تو انسان ہی ہوں گے لیکن آپ میں انسانوں والی کوئی بات نہیں ہو گی ۔جب لمحے ذکر الہی قلب کے اندرسرائیت کرتا ہے، شرح صدر ہوتی ہے پھر تو یہ لطائف پھر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اور دائرہ سا بنا لیتے ہیں ۔ مولا علی نے اسی موقع کیلئے فرمایا کہ “تیرے اندر ایک جہان پوشیدہ ہے لیکن اسکی خبر نہیں ہے ” ۔ اب جو سورة الاعراف کی آیت میں شیطان نے کہا کہ میں دائیں ، بائیں ، سامنے اور پیچھے سے حملہ کروں گا تو اس سے مراد یہ دل والا راستہ ہے کیونکہ اسی راستے سے ولائیت اور اللہ کی دوستی ملتی ہے اور یہ تشریح بتا کر ہم نے قرآن مکنون کا حق ادا کر دیا ہے ۔
قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا۔اب یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اور شیطان کے بیچ جو مکالمہ ہوا ہے وہ پہلے سے طے شدہ تھا ورنہ شیطان کی کیا مجال کےاللہ کے سامنے کہہ دے کہ میں نہیں جھک رہا ۔اب بات یہاں سے شروع ہوئی کہ ہم نے انسان کو تخلیق کیا پھر اُس کو جسم دیا ، پھر ملائکہ کو کہا کہ سجدہ کروسب نے کر لیا ابلیس نے نہیں کیا ۔ پھر اللہ نے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے منع کیا کہ تو سجدہ نہ کرے ، تو ابلیس نے کہا کہ میں اس سے بہترہوں کیونکہ مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے ۔ اب جب اللہ نے شیطان کو کہا کہ تم یہاں سے دفعہ ہو جاؤ تو شیطان نے جواباً کہا کہ مجھے مہلت دے دیں ۔ اب اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ عام زندگی میں اگر آپ کے گھر میں کوئی چوری کرے اور جب آپ چور کو پکڑ لیں تو وہ آپ سے یہ کہے کہ مجھے کچھ مہلت اور دے دیں تاکہ میں اور چوری کر لوں ۔ اور آپ یہ کہیں کہ چلو ٹھیک ہے ۔بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اللہ کا پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔اللہ تعالی نے شیطان کو مہلت اسی لئے دی کہ یہ ان کی ایک تدبیر تھی ورنہ ابلیس کی کیا اوقات ہے کہ اللہ کے سامنے اکڑ جائے ۔ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ سے آتی ہے ۔
شرح شریعت دے محل اُچیرے نیوی فقر دی موری ھو
عالم فاضل لنگن نئیں دیندے جو لنگیا سو چوری ھو

ایک اور آیت میں ابلیس کا اللہ سے مکالمہ ہے کہ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ اے مولیٰ تیری عزت کی قسم ! سب کو گمراہ کر دوں گا سوائے اُنکے جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔اب شیطان ہمارے دائیں ، بائیں آگے اور پیچھے بیٹھا ہوا ہے اور سارے لطائف پر حملے کئے ہوئے ہیں ۔اب آپ نماز پڑھیں یا روزے رکھیں ہر حالت میں شیطان پیچھے لگا ہوا ہے سرکا ر گوھر شاہی نے فرمایا کہ شیطان ایک کونے میں کھڑا ہو کر ہنستا رہتا ہے ، کہتا ہے لگا رہ تیرا دل تو میرے ہاتھ میں جب جی چاہا موڑ دوں گا۔ دل اسی طرح سے اُس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ہر جانب سے حملہ کرے گا ۔اب ہمارے دل کے اندر تو بیوی اور بچوں کا خیال ہے ، دنیا کا خیال ہے اور اسی حالت میں مسجدوں میں جاکر سجدے کر رہا ہے ۔اور پھر ایک دن آ ہی گیا کہ شیطان نے جب تیرا دل موڑ دیا ۔پہلے تو فرض نمازیں پڑھتا تھا اب ان سے بھی گیا ۔شیطان کو اللہ نے اصل صراط مستقیم کے راستے پر بٹھایا ہو ا ہے اور تم اُس اصل راستے کی طر ف جا ہی نہیں رہے ہو تو شیطان سے کیا مقابلہ ہو گا۔آپ تو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں تو شیطان اُس وقت مداخلت کیوں کرے گا وہ تو کھڑا مسکراتا رہے گا۔ابلیس اولاد آدم کو گمراہ کرے گا اور ستائے تو کہاں پر وہ بیٹھا ہو گا، وہ صراط مستقیم کے راستے پر بیٹھا ہوا ہے ۔آپ کے پاس تو جن سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے تو ابلیس آپ کو کہاں نظر آئے گا۔ابلیس تو آخری آدم ، آدم صفی اللہ کو خاطر میں نہیں لا رہا اور آپ اپنے آپکو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں کہ شیطان کو شکست دے لوں گا۔اللہ کے سامنے ابلیس کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں جو آپ نے بنایا ہے ۔اس لئے آپ لگے رہیں عبادتوں پر وہ وہاں بیٹھا ہوا ہی نہیں اسے نے ڈیرے تو صراط مستقیم پر لگائے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا گوھر شاہی نےجب حقیقت پر سے پردہ ہٹایا اور صراط مستقیم کا راز دیا ہے کہ تمھاری تار اللہ سے جوڑ دیں اور تمھارے قلب کو زندہ و آباد کر دیں تاکہ تمھارا قلب نوری تار کے ذریعے عرش الہی کے ذریعے جڑ جائے اور تم اللہ والے بن جاؤ۔یہاں پر ابلیس آئے گا، مولوی ، مفتی ، شیعہ ، سنی ، بریلوی سب کے اندر آ گیا اور سب ملکر سیدنا گوھر شاہی کے خلاف ہو گئے ۔خلاف اس وجہ سے ہوئے کہ وہ فرقوں والے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے اس لئے شیطان آرام سے بیٹھا ہوا تھا ۔ لیکن سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ تم یہ ذکر قلب لے لو جو کہ صراط مستقیم کا راستہ ہے ، شیطان اسی راستے پر بیٹھا ہوا ہے اگر وہ نہیں ہٹے تو مجھے بلانا اُس وقت تک تمھارا ساتھ دیں گے جب تک تمھارے اندر رحمان جاگ نہیں جاتا ، تیری تار اللہ سے جڑ نہیں جاتی ہم تیری مدد کرتے رہیں گے۔اب جب سیدنا گوھر شاہی نے صراط مستقیم پر بیٹھے ابلیس کو للکار دیا تو یہ تمام فرقے والے آپ کی مخالفت پر اُتر آئے۔

صراط مستقیم پر شیطان کا بیٹھنا:

جس طرز حیات پر ابلیس نہیں ہے وہاں سے آپ آرام سے گزر جائیں گے ۔ ایک راستہ شریعت کا ہے یہاں ابلیس نہیں بیٹھا ۔ داڑھی رکھو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، عمامہ باندھ لو کوئی مسئلہ نہیں ہے ، دورود بھی پڑھ لو کوئی مسئلہ نہیں ہے ، نمازیں اور روزے بھی رکھ لو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس راستے پر ابلیس بیٹھا ہی نہیں ہے کیونکہ یہ راستہ اللہ تک جاتا ہی نہیں ہے ۔ایک راستہ وہ ہے جس پر گامزن ہو کر بندہ اللہ تک پہنچتا ہے ، اس راستے پر ابلیس نے اپنے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں ۔شریعت کے راستے پر ابلیس اس لئے نہیں ہے کہ وہ راستہ اللہ تک جا ہی نہیں رہا ہے ایک مقام پر آگے جا کر شریعت کی پٹری تبدیل ہو کر طریقت میں منتقل ہوتی ہے جو کہ اللہ کی طرف جانے والی شاہراہ ہےاور اس صراط مستقیم پر ابلیس بیٹھا ہوا ہے جو اللہ کی طر ف جائے گا اور صراط مستقیم یہ ہے کہ صرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْوہ میرے دوستوں کا راستہ ہے جن کو میں نے اپنے دیدار کی نعمت سے نوازہ ہے اوراس راستے پر ابلیس بیٹھا ہوا ہے ۔ اب اُس راستے پر کامیابی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرشد کی ہمراہی مل جائے تو شیطان اس راستے سے ہٹ جائے گا۔میاں محمد بخش رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ
راہ دے راہ دے ہر کوئی آکھے میں بھی آکھا راددے
بنا مرشد تینوں راہ نیوں لبھنا رُل مرسی وچ راہ دے

” مجھے اُس راستے پر چلنا ہے ہر آدمی یہ کہہ رہا ہے اور میں بھی یہی کہہ رہا ہوں لیکن اگر مرشد کی ہمراہی حاصل نہیں ہے تو کبھی اس راستے پر چل نہیں سکتا ۔یہی بات مولانا روم نے بھی کہی ہے کہ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم ۔۔۔۔ تا غلام شمس تبریزی نہ شد ۔ کہ میں تو مولوی تھا مولانا روم اس وقت تک نہیں بنتا جبتک شمس تبریز کی غلام اختیار نہیں کرتا ۔آپ اپنی کوششوں سے ابلیس کو ہٹا نہیں سکتے ، ہر دعا میں یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ مجھے سیدھے راستے پر چلا لیکن آپ کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اسی صراط مستقیم کے راستےپر ابلیس ڈیرے لگا کر بیٹھا ہوا ہے اور یہ بات ہمارے علماء بتاتے نہیں ہے ۔ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْاُس راستے پر تو ابلیس بیٹھا ہوا ہے تو پھر آ پ کیسے جائیں گے ۔ یہاں اس موقع پر آپ کو اللہ کی مدد کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے اُس آیت میں کہا گیا کہإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُتیری مدد کے بغیر ہم اس راستے سے نہیں گزر سکتے کیونکہ جو ابلیس اس راستےپر بیٹھا ہے وہ آپ کے کہنے سے ہی ہٹے گا۔آپ اپنی کوشش کر لیں لیکن وہ اس راستے نہیں ہٹے گا اور یہی گمراہی ہے اور پھر سورة کہف میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ

وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة کہف آیت نمبر 17
ترجمہ : جس کو میں گمراہ کروں گا ہر گز نہ پائے گا ولی مرشد

یعنی اللہ کی طرف جانے والے راستے سے وہ ہٹ جائے گا ۔ دل والا راستہ وہ ہے جب نور دل سے نکل کر عرش تک جاتا ہے ۔ بچپن سےلے کر بڑھاپے تک شریعت میں ہیں ، طریقت میں کب داخل ہوں گے جب نور والی تار عرش الہی تک پہنچے ۔جو راستہ اللہ تک جاتا ہے اگر اس سے ہٹ کر کسی اور راستے پر چلا جائے تو یہ گمراہ ہونا ہے ۔ نمازیں اور دیگر عبادات چھوڑ دینا گمراہی نہیں ہے ، گمراہی یہ ہے کہ اپنی ذات تک پہنچنے کا راستہ جو اللہ نے بتایا ہے اُس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اپنا لینا ۔شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی کہا کہ ” `نماز روزہ کم سٹھو، اوہ رستہ کوئی دوجو” ، یعنی نماز روزہ کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن وہ راستہ جو رب کی طرف جاتا ہے وہ کوئی اور ہی ہے ۔جسطرح شریعت کا راستہ اللہ تک جاتا ہی نہیں ہے اور آپ اسی میں لگے ہوئے ہیں اور اسی کو دین سمجھ رہے ہیں ۔ لیکن طریقت ، طریق سے نکلا ہے جس کا معنی راستہ ہے اور شریعت کا مطلب قانون ہے ۔ آپ قانون کو ہی پکڑے ہوئے ہیں اور جو راستہ رب کی طرف جا رہا ہے اسےچھوڑ رکھا ہے ۔یہی وجہ سے کہ جو لوگ اس دل والے علم کو حاصل کرتے ہیں ان کے اوپر حملے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے ہوتے ہیں ۔بیوی بچے، ماں باپ ، دوست ، رشتے دار ہر طرف سے لوگ ٹوٹ پڑتےہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو نماز روزہ کرو۔وہ رشتے دار اور دوست احباب تو اس راستے پر چلے ہی نہیں پھر وہ اس راستے کو غلط کیسے کہہ سکتے ہیں ۔آج کے دور میں صرف مولوی نہیں بلکہ آپ کے اطراف میں موجود لوگ قرآن و حدیث کو استعمال کر کے صراط مستقیم سے روکتے ہیں ۔ابلیس سے اگر ملاقات ہوگی تو صراط مستقیم کے راستے پر ہی ہو گی اسکو رب کی طرف سے اجازت ہے اور جبتک صراط مستقیم نہیں ملے گی تو ہماری عبادات بھی منظور بارگاہ نہیں ہے ۔یہی بات سلطان باھو نے اپنے اشعار میں کہی تھی کہ
شرح شریعت دے محل اُچیرے نیوی فقر دی موری ھو
عالم فاضل لنگن نئیں دیندے جو لنگیا سو چوری ھو

آدم صفی اللہ کو جنت سے کیوں نکالا گیا ؟

پھر آگے آیت میں اللہ نے بیان کیاہے کہوَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ آدم اور حوا دونوں جنت میں رہیں اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کر دیاورنہ تمھارے اندر ظلمت داخل ہو جائے گی لیکن ابلیس اُنکے دلوں وسوسہ ڈال دیتا ہے کہ اس درخت کے پاس جاؤ یہ بہت خاص درخت ہے جو اسکا بیج کھا لیتا ہے وہ ملائکہ سے بھی افضل ہوجاتا ہے ۔حالانکہ ملائکہ نے آدم صفی اللہ کو سجدہ کیا تھا اس کے باوجود ابلیس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا ۔اسکے آدم ؑ نے وہ بیج کھا لیا اور قرآن مجید میں ہے کہ وہ ننگے ہو گئے لیکن کیسے ننگےہوئے یہ قرآن مجید میں نہیں آیا ہے بلکہ سیدنا گوھر شاہی نے اسکی تشریح فرمائی ہے ۔وہ بیج گیہوں کے درخت کا تھا اور وہ جنت کا نہیں تھا وہ درخت عالم ناسوت کا ہے اور اسکو اللہ نے جنت میں لگوایا ۔ اُس درخت میں زمین کی مٹی تھی جبکہ آدم صفی اللہ کو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا تھااسی لئے وہ درخت آدم صفی اللہ کیلئے مناسب نہیں تھا ۔آج تک انسان اسی لئے فضلہ اخراج کر رہا ہے کیونکہ وہ اس کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ اگر آپ جنت میں چلے جائیں اور وہاں کے پھل کھائیں تو آپ کو کبھی بھی فضلہ نہیں آئے گاکیونکہ اسکے اندر ساری توانائی ہے ۔یہاں زمین میں فروٹ میں مٹی بھی شامل ہے اس لئے وہ فضلے کی صورت میں باہر نکل جاتی ہے اور توانائی ہمارے جسم میں چلی جاتی ہے ۔اگر انسانوں کو بھی اسی دنیا کی مٹی سے بنایا جاتا تو پھر وہ ہمارے لئے مناسب ہو جاتا ۔لیکن ہم آدم صفی اللہ کی اولاد ہیں اور ہمیں جنت کی مٹی سے بنایا گیا ہے لہذا یہاں کی مٹی ہمارے جسم میں تحلیل نہیں ہوتی بلکہ فضلے کی صورت میں جسم سے خارج ہو جاتی ہے ۔
یہی معاملہ آدم صفی اللہ اور حوا کے ساتھ ہوا ، انہوں نے وہ گیہوں کا بیج کھا تو لیا لیکن اُن کو جنت کی مٹی سے بنایا تھا اور اُس بیج میں زمین کی مٹی تھی ۔ کچھ دیر بعد اُن کو رفع حاجت ہوئی کہ جسم میں سے کچھ نکلنے والا ہے ، جب وہ فضلہ جسم سے خارج ہوا ہے تو انہوں نے جو لباس پہنا ہوا تھا وہ ہٹا دیا ۔اللہ کے پورے وجود پر کہیں بال نہیں ہیں پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ خلقت آدم علیٰ صورتی کہ ہم نے آدم کو اپنی صورت پر بنا یا ہے۔ اسی طرح آدم صفی اللہ کے بھی بال نہیں تھے ۔جب فضلہ آدم صفی اللہ کے وجود سے باہر آیا تو اُن کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا چیز نکل رہی ہے اور انہوں نے اسکو اپنے جسم میں مل لیا ، کچھ بغلوں میں مل لیا اور کچھ اپنے چہرے پر مل لیا ۔ جہاں جہاں وہ فضلہ آدم صفی اللہ نے ملا ، وہاں بال نمودار ہو گئے ۔ آج عورت اور مرد جو مخصوص جگہ کے بال کاٹتے ہیں وہ وہی بال ہیں جو فضلہ لگنے کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے ، اس لئے یہ بال ناپاک ہیں ۔ہمارے سر میں بھی کتنے سارے بال ہوتے ہیں لیکن ان سے بدبو نہیں آتی ہے جبکہ اس کے برعکس بغل کے بال بڑھ جائیں تو اُن سے بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے ۔اسی طرح زیر ناف جوبال ہیں اگر وہ بھی بڑے ہو جائیں تو ان سے بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے ۔اب اللہ نے فرمایا کہ عالم ناسوت کی مٹی اب تمھارے جسم میں چلی گئی ہے اس لئے اب روز رفع حاجت ہو گی لہذا سی لئے اللہ نے انہیں نیچے بھیج دیا ۔کچھ لوگوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ وہاں ایک درخت تھا یا اور بھی درخت تھے۔اگر ان آیات کا غور سے مطالعہ کریں تو ایک ہی درخت کا تین مرتبہ ذکر آیا ہے ۔

مرشد کامل کی ضرورت کب ہوتی ہے ؟

جو انسان کا باطن ہے یہ ایک گول دائرے کی صورت میں غبارے میں بند ہے ، اسی قلب کے ذریعے انسان کا رابطہ اللہ سے جڑتا ہے ۔ دائیں ، بائیں ، اوپر اور نیچے سے حملہ کرکے شیطان نے آپ کے دل پر قبضہ کر لیا ہے ، دل پر قبضہ کر لینا ہی صراط مستقیم پر بیٹھنا ہے ۔اب آپ کا دل ابلیس کے قبضے میں ہے ۔ اب اگرکوئی حلقہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے دو جز ہیں پہلے جُز میںاقرار باللسّان یعنی زبان سے کلمے کا اقرار کرنا ہو گا اور دوسرے درجے میں تصدیق بالقلب یعنی تمھارا دل بھی اس کلمے کا اقرار کرے کیونکہ وہاں شیطان بیٹھا ہوا ہے اس لئے زبان اقرار کافی نہیں ہے ۔اب دل کی تصدیق حاصل کرنے کیلئے اس شیطان کو ہٹانا پڑتا ہے اور اس کیلئے مرشد کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس دل کو شیطان ، ابلیس کے قبضے سے آزاد کرانے کیلئے مرشد کی ضرورت پڑتی ہے ۔
اسلام کا پہلا رکن کلمہ ہے ، کلمے کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ افضل الذکر کلمہ طیب لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ ، اور قرآن مجید میں آیا ہے کہ اُٹھتے ، بیٹھتے حتی کے کروٹوں کے بل بھی اللہ کا ذکر کرو اور وہ صرف تبھی ممکن ہے جب آپکا دل اللہ اللہ کرے ۔اب جو دین اسلام کا پہلا رُکن تھا وہی پورا نہیں ہوا ا ور آپ نماز ادا کرنے میں لگ گئے جبکہ نبی کریم محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ “لا الصلوة الا بحضور القلب” قلب کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ آپ نماز بھی پڑھ رہے ہیں اور دیگر عبادات بھی کر رہے ہیں لیکن جن چیزوں کی مدد سے آپ کی عبادات اُوپر جانی ہے وہ آپ کر ہی نہیں رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ دین اسلام کی تبلیغ بھی کر رہے ہیں لیکن لوگ فرقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں ، مومن نہیں بن رہے ہیں ۔مومن اسی لئے نہیں بن رہے کیونکہ زبان سے ہی کلمہ ، نماز اور قرآن پڑھ رہے ہو اور دل کاتصدق حاصل ہی نہیں ہے جبکہ یہ دین اسلام کی شرط ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دل کے تصدق کے بغیر ادا کی گئی نمازیں بھی رائیگاں جا رہی ہیں اور روزے بھی ضائع ہو رہے ہیں ۔روزہ اور نماز تو مومنین پر فرض کئے گئے تھے اور پھر مومن کی تشریح بھی فرمائی کہ

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورة الحجرات آیت نمبر 14

یہ اعرابی کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ۔ فرمایا ان کو کہہ دئیجے یہ مومن نہیں ہیں بلکہ اسلام لائے ہیں ، ابھی نور تمھارے دلوں میں اُترا نہیں ہے ۔ابھی آپ اسلام کا جو پہلا ستون ہے اسی پر گامزن نہیں ہیں اور خود کو بڑے بڑے مفتی اور عالم کے درجے میں فائز کر دیا ہے ۔ حدیث نبوی بھی ہے کہ

و شک ان یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ، ولا یبقی من القرآن الا رسمہ ، علماوھم شر من تحت ادیم السماء ، من عندھم تخرج الفتنتہ و فیھم تعود
راوہ ابن عدی فی الکامل 4/227
ترجمہ : میری اُمت پر ایک وقت ایسا آئے گاکہ دین اسلام کا صرف نام رہ جائے گا اور قرآن بطور رسم رہ جائے گا ۔ فتنہ انہی میں سے نکلے گا اور انہی میں ختم ہو گا۔

ابلیس نے آدم صفی اللہ میں وسوسہ کیسے ڈالا؟

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شیطان نے آدم صفی اللہ کے دل میں وسوسہ کیسے ڈال دیا ؟ علماء کی تفاسیر دیکھیں تو انہوں نے لکھا ہے کہ شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر آیا تھا جو کہ صحیح نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ جہاں بھی بیٹھا ہو روحانی طور پر وسوسہ کسی کے بھی دل پر ڈال سکتا ہے ۔جسطرح مرشد کامل کا مرید کہیں بھی ہو ، وہ قلبی توجہ کے ذریعے مرید کے دل میں کہیں بھی نوراور القائے خیر داخل کر سکتا ہے ۔ اسی طرح ابلیس بھی القائے شر ڈال سکتا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 15 مئی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کے پروگرام میں کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیاہے۔

متعلقہ پوسٹس