کیٹیگری: مضامین

حضورؐ کن لوگوں سے اپنا چہرہ مبارک پھیرلیں گے؟

فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
سورة النجم آیت نمبر 29

اِس آیت میں اللہ تعالی حضورؐ سے مخاطب ہیں اور نبی کریمؐ کو نصیحت کی جا رہی ہے۔ فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جس نے ہمارے ذکر کو چھوڑ دیا بُھلا دیا اُس سے اپنا چہرہٴِ مبارک پھیرلیں۔ اُس کو چھوڑدیں، دیدار سے محروم کردیں اور اپنی محبت سے اُسے محروم کردیں۔ یا رسول اللہؐ! جو ہمارے ذکر سے پِھرگیا اُس کو حسنِ مصطفوی ، رُخِ محبوب سے محروم کردیں۔ یہ حکم آیا ہے کہ اُس کو اپنے دیدار، تبسم، توجہ اور لطف وعنایت سے محروم کردیں، آپ اُس کواپنا دیدار ہی نہ عطا فرمائیں اور آپ اُس سے اپنا چہرہ پھیرلیں، جوہمارے ذکر سے پِھرگیا۔ اگرآپ ذکرمیں لگ گئے تواُس کا اُلٹ یہ ہوگا کہ چہرہ مصطفیؐ آپ کے سامنے آجائے گا۔ اگر تم ذکرِالٰہی سے پِھرگئے توحضورؐ کو اللہ کا حکم ہے کہ یا رسول اللہ! یہ میرے ذکرسے پِھرگیا توآپ اپنا چہرہ اِس سے پھیرلیں۔ اگر چاہتے ہوکہ رُخِ زیبائے مصطفیؐ آپ کی نظروں کے سامنے آجائے تو اپنے دلوں کوذکرِاللہ سے آباد کرلو۔ پھرفرمایا وَلَمْ يُرِدْ اور اُس نے اِرادہ ہی نہیں کیا إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا کہ سوائے جو اِس دنیا کی زندگی گزررہی ہے، اُس نے ہمارے ذکر کو چھوڑ کر آخرت کا سوچا ہی نہیں۔ اگر آخرت کا سوچتا توہمارے ذکرکواپنا لیتا۔ اگرکہیں کہ وہ نماز اور قرآن شریف توپڑھ رہا تھا، صبح شام الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ بھی بول رہا تھا، ہری، لال اور سفید پگڑی بھی باندھی ہوئی تھی لیکن قرآنِ مجید میں کہیں لکھا ہے کہ جس نے نماز قضا کردی یا بے نمازی ہوگیا تو یا رسول اللہ اُس سے اپنا چہرہ پھیرلیں اور کہیں قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ روزہ چُھوٹ گیا تو یا رسول اللہ اِس سے اپنا چہرہ پھیرلیں؟ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں تاکہ آپ کی غلط فہمی دُور ہوجائے کیونکہ آپ صبح شام یہی بولتے رہتے ہیں کہ نمازکا پہلا سوال ہوگا۔ ہم توایسے ہی ایک طالب علم کے طورپرآپ کے گوشِ گزار کررہے ہیں کہ سوال توپہلا نماز کا ہی ہوگا لیکن یہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ اگرتم نے ذکر چھوڑ دیا توچہرہٴِ مصطفی چِھن گیا اور تم نمازپڑھ رہے ہو۔ پھرایسی نماز کا کیا فائدہ ہوا کہ نماز تو پڑھ رہے ہو لیکن تم سے چہرہٴِ مصطفی پِھرگیا۔ روزہ تورکھ رہے ہو، قرآن تو پڑھ رہے ہو، داڑھی تورکھی ہے، عمامہ توباندھا ہے، سب کچھ کرلیا اورحضورؐ کا چہرہ مبارک توپِھرگیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرکوئی نماز بھی پڑھ رہا ہے، تلاوت بھی کررہا ہے، روزے بھی رکھ رہا ہے، حج کو بھی جارہا ہے، عمرہ بھی کررہا ہے تو اُس کو ذکرکرنے میں بھی کیا مضائقہ ہوگا کیونکہ اگروہ یہ سارے کام کررہا ہے تووہ ذکربھی کرلے گا تو ایسا حضورؐ کے دور میں کوئی واقعہ تو ہوا ہوگا کہ جہاں کوئی بندہ سارے کام کررہا تھا لیکن ذکرنہیں کررہا تھا۔ اگراللہ اپنے حبیب کویہ حکم دے کہ اِس بندے نے میرا ذکرچھوڑدیا ہے اور آپ اِس سے اپنا چہرہ پھیرلیں تواگرحضورؐ نے کسی سے اپنا چہرہ پھیرلیا توکیا وہ شفاعت کی آرزوکرسکتا ہے! جب چہرہ ہی پھیرلیا تواب تو آپ کچھ بھی آرزونہیں کرسکتے کہ میں یومِ محشرمیں جاکرحضورؐ کے پاوٴں میں پڑجاوٴں گا، امام حسینؓ اور بی بی فاطمہ کا واسطہ دوں گا کہ مجھے کوبخشوا دو لیکن حضورؐ توتمہای طرف چہرہ ہی نہیں کررہے۔ فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! اپنے دیدار، تبسم، اپنی نظرِالتفات اور اپنی توجہ باطن سے ایسے شخص کومحروم کردیجیئے جس نے ہمارے ذکرکو چھوڑ دیا ہے۔ اگریہ ظاہری ذکرہوتا توکیا اِس بات کا امکان تھا کہ کوئی نمازبھی پڑھے، تلاوت بھی کرے لیکن اُس کوذکرکرنے سے موت آتی ہو! لوگ تسبیح لے کرگھوم رہے ہیں، ذکرکرتورہے ہیں۔ لیکن یہ ایسا ذکرہے جس کا تعلق اِس زندگی سے نہیں ہے، تبھی تواللہ نے فرمایا ہے کہ یا رسول اللہ! اِس نے میرا ذکرچھوڑدیا ہے تواِس نے جوذکرچھوڑا ہے اِس کا فیصلہ میرے پاس یہ ہے کہ اِس کا ایمان ہی نہیں ہے کہ اِس زندگی کے علاوہ اِس نے کوئی اور بھی زندگی جینی ہے۔ اِس کوعلم ہی نہیں ہے کہ یہاں کے علاوہ زندگی کی کوئی اوربھی شکل اور صورت ہوگی۔ اگرایمان ہی نہیں ہے تو نمازیں پڑھتے رہو اور اُدھراللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں فرمایا کہ

مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا
سورة البقرة آیت نمبر 62

اللہ تعالی نے فرمایا کہ تین چیزیں ضروری ہیں: یومِ آخرت پرایمان، اللہ کی ذات پرایمان اور عملِ صالح۔ اب تم نے جوذکرچھوڑدیا تواُن میں سے ایک چیزکواللہ نے ہٹا دیا کہ یومِ آخرت پرتوتمہارا ایمان ہی نہیں ہے۔ وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا کہ اُس نے توصرف اِس زندگی کے علاوہ کسی اور شے کو جانا ہی نہیں اور ارادہ ہی نہیں کیا، اگراُس زندگی کا ارادہ کرنا ہوتا تویہ میرے ذکرکواپنا لیتا چونکہ اِس نے میرے ذکرکوچھوڑدیا ہے تواللہ کا یہ سمجھنا ہے کہ اِس کا یومِ آخرت کی زندگی پر ارادہ نہیں ہے کہ وہ اچھی ہوجائے۔ وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا تواِس کا کسی اور طرف کوئی ارادہ ہی نہیں ہے سوائے کہ یہاں پیدا ہوا ہے، ستراسّی سال جی لے گا، عیاشی کرے گا، مرجائے گا اور اِسی کو زندگی سمجھتا ہے، اِسی لئے اِس نے ذکرچھوڑدیا۔ یہ جوذکرہے یہ باطن کا ذکرہے جوروحوں کے اندرسماتا ہے اور دل میں جاکرسماتا ہے۔ جب یہ روح اور دلوں میں جاکرذکرسماتا ہے وہ جواُدھرکی زندگی ہے اُس کواچھا بنانے کا تم نے ارادہ کیا تبھی توتم اُس کوسنوار رہے ہو۔ اُس روح کے ساتھ تم نے اُس زندگی میں جینا ہے۔ وہاں توتم نے روح کے ساتھ رہنا ہے اور اِس نے ذکرکواپنایا نہیں کیونکہ اِس کا ارادہ نہیں کہ وہاں کی روح کوبہترکرے۔ وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا کہ سوائے اِس زندگی کے اِس کا تو کوئی اور ارادہ ہی نہیں ہے جو یہ اِس وقت جی رہا ہے۔ وہ جو ذکر ہے وہ باطن کا ذکرہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ

جنت والوں کو جنت میں جانے کے بعد دنیا کی کسی چیز کا افسوس نہیں ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ تعالی کے ذکر کے بغیر گزری۔
برانی، بیہقی، الجامع الصغیر ۲/468

اِس کا مطلب ہے کہ اگرجنتی تھوڑا اور ذکرکرلیتے کیونکہ ابھی دل کوذکرمیں لگایا ہے تو خلد میں چلے گئے۔ اگراپنی روح کوبھی ذکراللہ میں لگالیتے توخلد سے اگلے درجے والی جنت (دارالسلام) میں چلے جاتے۔ اگرتیسری روح کوبھی ذکراللہ میں لگالیتے تو دارالقرار میں چلے جاتے اور چوتھی روح کو بھی لگالیتے تو دارالعدن میں چلے جاتے اور آگے بھی روحوں کوذکرمیں لگاتے تو دارالماویٰ میں چلے جاتے، دارالنعیم میں چلے جاتے اور جنت الفردوس تک جاسکتے تھے۔ وہاں جاکرکہانی سمجھ میں آئے گی۔ تم کو مولویوں نے چھوٹی سی عبادت نماز میں باندھ دیا ہے۔

اگر تمہارے مولویوں کو معلوم ہے توبتاوٴ کہ نماز سب پڑھو گے توجنت میں جانے کا فیصلہ کہ کونسی جنت میں جائے گا، کیسے ہوگا! اگرتم سب نے نمازیں پڑھی ہیں تویہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ اِس کوپہلے درجے کی جنت میں ڈالا جانا ہے، اِس کودوسرے درجے کی جنت میں ڈالا جائے اور اِس کوتیسرے درجے کی جنت میں ڈالا جائے!

وہ فیصلہ کہ سات جنتیں یعنی تمہارے اندر سات لطیفے ہیں، جب تم نے ایک ایک لطیفے کومنورکیا تواُسی حساب سے تم جنتوں میں چلے جاوٴ گے۔ پہلا لطیفہ منورکیا تو بس پہلے درجے کی جنت میں چلے گئے اور پھروہاں جاکرافسوس ہوگا کہ تمہارے اندر تو دوسرا لطیفہ بھی تھا، کاش اُس کوبھی ذکراللہ میں لگالیتا، جودوسرے درجے کی جنت میں ہونگے اُن کواِس بات پر افسوس ہوگا کہ میرے اندر تو تیسرا لطیفہ بھی ہے اور اگرمیں اِس کوبھی لگالیتا توآج تیسرے درجے کی جنت میں ہوتا۔ جوتیسرے درجے والی جنت میں ہونگے وہ سوچیں گے کہ میرے اندرتوچوتھا لطیفہ بھی ہے، میرے اندر پانچواں بھی ہے، چھٹا بھی ہے اور ساتواں بھی ہے توکاش میں ذکراللہ پر توجہ دیتا اور اِن روحوں کوذکراللہ میں لگادیتا۔ تم عبادتوں میں لگ گئے اور اِن روحوں کوتم نے ذکراللہ میں لگانا چھوڑدیا، اِس لئے تم ذلیل وخوارہوئے۔ یہاں تک کہ تم موٴمن بھی نہیں بن سکے۔

ذکراللہ کو چھوڑنے سے کیا مراد ہے؟

یہ ذکر ظاہر کا نہیں ہے کیونکہ وہ تو سب ہی کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس نے میرے ذکر کو چھوڑ دیا یعنی میرے ذکر سے پِھرگیا۔ اگرذکرسے کوئی پِھرا توپھرسارے دین سے پِھرے گا تو وہ کافرہوگیا لیکن کافروں کی تویہاں بات ہی نہیں ہورہی کیونکہ کافروں کی طرف حضورؐ کا رُخِ انور ہی نہیں تھا۔ حضورؐ کا رُخِ انوراُن کی طرف تھا کہ جوماننے والے تھے۔ اگرتم کہو کہ یہ آیت کافروں کیلئے آئی ہے توکافروں کی طرف حضور پاکؐ کہاں دیکھ رہے ہیں۔ آپؐ کا چہرہ مبارک، نظرِالتفات، آپؐ کی محبتیں اور نوازشات، آپؐ کے لطف و کرم اور توجہات، یہ ساری کی ساری تومسلمانوں کیلئے تھی، تبھی تواللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ جواِس کودیکھ رہے ہیں اِس کودیکھنا چھوڑدیں کیونکہ یہ ہمارے ذکرسے پِھرگیا ہے۔ ذکرسے پِھرنا یہ نہیں ہے کہ آپ ذکرکرتے تھے اور اب آپ نے ذکرچھوڑ دیا۔ ذکرسے پِھرنا یہ ہے کہ وہ جودل کے اندرذکرداخل ہوتا ہے اُس ذکرکی وجہ سے جوامتحانات انسان پرآتے ہیں اُن امتحانوں میں وہ ثابت قدم نہ رہے کیونکہ جب بھی آپ باطنی اور روحانی علم اور تصوّف کو اپنائیں گے توآپ کے اردگرد جتنے شدتی مسلمان ہونگے وہ آپ کویہی کہیں گے کہ تم کہاں گمراہی میں لگ گئے ہو اور کِن کے ہتھے چڑھ گئے ہو اور کہیں گے کہ قرآن پڑھو ہدایت قرآن میں ہے، روزانہ پانچ نمازیں پڑھا کرو، داڑھی رکھو، عمامہ باندھو، سنتوں پرعمل کرو اور بس۔ نماز کیلئے کہا ہے کہ پہلا سوال یومِ محشر میں نماز کے بارے میں ہوگا، آپ کوہزاروں حدیثیں بھی سنا دیں گے کہ جس نے ایک نمازقضا کی اُس کے اوپراتنا عذاب ہوگا، جس نے دوکیں اُس پراتنا عذاب ہوگا اور جو بے نمازی تھا مرگیا تواُس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرو اور یہی قصے اور کہانیاں آپ کوسناتے رہیں گے۔ پھریہ ہوگا کہ آپ کووسوسے آنے لگیں گے کہ ہاں میں اچھا بھلا تو تھا قرآن بھی پڑھتا تھا، اللہ کا حکم ہے نماز کا تومیں نمازیں بھی پڑھ رہا ہوں، اللہ رسول کا حکم ہے تو میں نے داڑھی بھی رکھی تھی لیکن صوفیوں میں آکے میں پھنس گیا کیونکہ یہ صرف زیادہ تر ذکر کی بات کرتے ہیں، اگرنماز کی بھی بات کرتے ہیں توکہتے ہیں کہ بغیرذکرکے نماز ہی نہیں ہے اور انہوں نے ذکرکواتنی اہمیت دے دی ہے۔ پھروہ تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ جوتمہارا ذکرہوگا اور جب تم وہاں سے بدگمان ہوگئے تویہ ذکرچھوڑکے چلا جائے گا اورتم پھر سے اپنی دنیاداری میں لگ جاوٴ گے تو یہ ذکرکوچھوڑنا ہے۔ یہ جوذکرِقلب آپ کوحاصل ہوگیا اور کسی کے بہکاوے میں آکراِس روحانی راستے کوترک کردینا ذکرکوچھوڑنا ہے۔ ورنہ جونمازیں روزے رکھتا ہے وہ تسبیح کرنا کہاں چھوڑتا ہے! ایک تسبیح دل کے اندربھی ہوتی ہے۔ سلطان حق باھو نے کہا ہے کہ
تسبیح پِھری پردل نہ پِھریا
کی لینا تسبی ہتھ پَھڑ کے ھو

ہاتھوں میں تسبیح لے کرتوسب ہی گھوم رہے ہیں توانہوں نے ذکرتونہیں چھوڑا۔ یہ وہ ذکر ہے کہ جس کے ذکرکرنے سے پوری دنیا تیری دشمن ہوجاتی ہے۔ مسلمان مسلمان کا دشمن ہوجائے گا۔ اب ہم نے کسی کی زندگی میں کونسی تباہی پھیلائی ہے یا کسی کوکونسا نقصان پہنچایا ہے جواتنے لوگ اِس محفل میں آکربھی گالیاں دیتے ہیں، کوئی کافرکہتا ہے اور کوئی منافق کہتا ہے کیونکہ یہ وہی ذکروالا علم ہے جس کیلئے ابوہریرہؓ نے فرمایا تھا کہ

حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَائَ يْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ قَالَ أبَُو عَبْدِاللهِ الْبُلْعُومُ مَجْرِیْ الطَّعَامِ
صحیح بخاری، جلد اول، علم کا بیان، حدیث 123
ترجمہ: حضور پاکؐ سے دو طرح کا علم عطا ہوا، ایک تم کو بتا دیا اور دوسرا بتاوٴں تو تم مجھے قتل کردو۔

انہوں یہ جو کہا کہ قتل کردو تواس لئے کہا کیونکہ اُس زمانے میں کوئی قانون نہیں تھا، سب کے پاس تلواریں تھیں اور جس کا میٹرگھوما اُس نے جاکے تلوارچلادی اور ماردیا۔ آج ہم جس ترقی پذیر معاشرے میں رہتے ہیں، یہاں پر شہری قوانین ہیں اور یہاں ایسے ہی کسی کومارنا آسان نہیں ہے توپھراُس کا متبادل یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر بیٹھے بیٹھے لوگ گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم پاکستان آوٴ توپھر تمہیں دیکھیں گے۔ وہی بات ہوگئی کہ دوسرا علم تم کوبتاوٴں تو تم مجھے قتل کردو۔ یہ قتل اِس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ اِن کے اندر شیطان بیٹھا ہوا ہے۔ جب بھی تم رحمٰن کے صحیح راستے پرلگوگے تو شیطان تیرے پاس ایسا لبادہ اوڑھ کرآئے گا کہ تم کوگمراہ کرکے چھوڑے گا۔ شیطان اگرشیطان بن کر آیا تو تم پہچان لو گے کہ یہ مجھے شیطان بھڑکا رہا ہے تو وہ تمہارے پاس رحمٰن کی صورت میں آئے گا، ایک دین دارعالم کی صورت میں آئے گا، کبھی ماں اور باپ کی صورت میں اور جس کی بھی تم سب سے ذیادہ بات مانتے ہو اُسی کی صورت میں شیطان آکرتجھے گمراہ کرے گا۔ اِس راستے کوچھوڑنا کہ جس کے اندرتم ذکرکی سیڑھیاں چڑھتے ہو۔
آج تجھے ذکرِقلب ملا اور پھرجب یہ طاقتور ہوگیا اور آگے جاکے پھرتجھے ذکرروح میں بھی بسانا ہے۔ پھرروح میں بھی ذکربسادیا تو تجھے کہا گیا کہ ابھی تولطیفہ سرّی بھی ہے اور پھرتم اِس میں بھی ذکربسانے لگے۔ پھرپتہ چلا کہ لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ، لطیفہ انا اور نفس بھی ہے توساری زندگی تمہاری ذکربسانے میں ہی گزر جائے گی۔ اسی لئے یہ ذکر بسانے کا راستہ کہلاتا ہے۔ پے در پے جب اب تم اپنی روحوں کو ذکر میں بساتے جاوٴ گے تو چہرہ مصطفی تجھ سے قریب تر ہوتا جائے گا۔ جیسے جیسے تم ذکر میں مستغرق ہوگے ویسے ویسے چہرہ مصطفیٰ تجھ پرسایہ فگن ہوجائے گا۔ فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا کہ یارسول اللہ! اُسے اپنے دیدارسے محروم کردے جس نے ہمارے ذکرسے منہ پھیرلیا۔ وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا اور اُس نے صرف ظاہری زندگی توظاہری زندگی میں سب کچھ آجاتا ہے جیسے روزے رکھنا ظاہری زندگی میں ہے۔ جب تمہاری روحیں عالمِ ارواح میں تھیں توکیا تم روزے رکھتے تھے، یہ توظاہری زندگی میں ہی ہے۔

اللہ تعالی نے کِن گھروں کو رفعت عطا کردی؟

جنت میں جانے کے بعد کیا تم نمازیں پڑھوگے لیکن ذکرتوکرو گے کیونکہ اللہ تعالی نے جوجنت میں محلات بنائے ہیں وہ محلات اُن پتھروں سے بنائے ہیں جوپتھر اللہ کا ذکرکرتے ہیں۔ تم اِدھرسے وہاں رہنے کیلئے گئے تو وہ درودیوار ذکراللہ کرتے ہیں لیکن تم ذکراللہ نہیں کرتے تووہ درودیوارتم سے افضل ہوجائیں گے اور تمہیں مارکے باہرنکال دیں گے۔ اللہ تعالی نے جنت میں جوتمہارے لئے گھر بنائے ہیں اُن میں جوپتھر لگے ہوئے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے پتھراِدھرتمہارے پاس مثال کیلئے آئے تاکہ تمہارا ایمان قائم ہو کہ یہ پتھربھی اللہ کا ذکرکرتے ہیں جیسے یہ عقیق، فیروزہ، زمرد، نیلم اور یاقوت پتھر ہیں۔ اللہ نے یہ پتھر اِس لئے بھیجے کیونکہ یہ سارے پتھراللہ کا ذکرکرتے ہیں تویہ خاص پتھرہیں۔ آدم صفی اللہ یہ پتھر جنت سے لیکرآئے تھے تاکہ تم کویہ پتہ ہوکہ یہ جنت سے پتھرآیا ہے تو یہ اللہ کا ذکرکرتا ہے تو ہمارے جب وہاں پرگھربنائے جائیں گے تووہ انہیں پتھروں سے بنائے جائیں گے جوپتھراللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ پھرقرآن مجید میں ایک اور بات آئی کہ

فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
سورة النور آیت نمبر 36

اور وہ گھر جن کو اللہ کا اِذن حاصل ہے۔ اِذن اِس بات کا کہ اُن گھروں میں ذکراللہ بلند کیا جائے۔ ایسے گھر بھی اللہ نے بنائے کہ جن گھروں کو اللہ کا اِذن حاصل ہوگیا کہ یہاں اللہ کا ذکر بلند ہو۔ اِن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ کہ اُن گھروں میں جہاں اِذن اللہ ہے، أَن تُرْفَعَ کہ جن کواللہ تعالی نے رفعت عطا کی، وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ کہ اُن گھروں میں رب کے اِسم کا ذکر کیا جائے۔ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ کہ وہ جوگھرہیں وہاں پر صبح سے شام تک رب کی تسبیح ہوتی رہتی ہے۔ وہ گھر دو طرح کے ہیں:
1. ایک تو وہ گھر جو تمہاری روحوں کا گھر تمہارا جسم ہے کیونکہ تمہاری روحیں اِس جسم میں رہتی ہیں تو یہ تمہارا جسم اُن کا گھر ہوگیا۔
2۔ ایک وہ گھر جہاں ایسا جسم رہتا ہے جیسے مصطفٰیؐ کا گھر۔ وہ درودیوارجہاں آقا علیہ الصلوة والسلام نے شب وروزگزارے، وہ دیواریں جن کوحضورؐ کا ہاتھ لگا، نظریں پڑیں، سانس وہاں سے جاکر ٹکرایا اور حضورؐ اپنے نازک قدموں سے جہاں چہل قدمی فرمایا کرتے تو کیا وہ پتھر وہ دیواریں ذکراللہ سے آباد نہ ہوگئی ہونگی جن کوحضورؐ کی آنکھوں نے دیکھا تھا، جن کوحضورؐ کے لمس نے چُھوا تھا تو ایک تووہ گھرہے۔ اُن کا مقام اور مرتبہ اللہ تعالی نے بڑھا دیا۔
اُس کی پھرایک مثال بھی آئی کہ جہاں حضورؐ کی قبرِانور ہے روزہ مبارک ہے اُس روزہ مبارک کا جو علاقہ ہے وہ سارے پتھر ساری فضا ذکراللہ سے مامور ہے۔ اِس لئے حضورپاکؐ نے فرمایا کہ یہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے کیونکہ جنت میں جو گھر ہیں وہ ذکراللہ کرتے ہیں۔ جہاں حضورؐ کی قبرِانور ہے وہ سارا حصہ بھی جو حضورؐ کا وجودِ مسعود ہے اُس کی برکت سے وہ سارا علاقہ بھی ذکراللہ میں مشغول ہے۔ فاطمة الزہرہؓ کا گھر، مولیٰ علی کا گھر، امامِ حسینؓ کا گھر، غوثِ اعظمؓ کا گھراور گوھرشاہی کا گھر جہاں پرآپ چلے، جن دیواروں کودیکھا، جن دیواروں کوچُھوا اور جن درختوں کے پاس بیٹھے وہ بھی رقص میں مشغول ہوگئے۔ انسان ہی نہیں بلکہ پتھر، درخت، جانور جو اِن ہستیوں کے آگے پیچھے دوڑے گھومے پِھرے وہ سب اللہ کے ذاکربن گئے۔ اگرپتھراللہ کا ذکرکرسکتا ہے توجانورتواُس سے افضل شے ہے۔ پتھر سے افضل درخت ہیں کیونکہ درختوں میں روحِ جمادی اور روحِ نباتی ہیں۔ اگر پتھرکرسکتا ہے توپھردرخت میں دو روحیں ہیں، وہ کیسے محروم رہے گا! اگردرخت بھی کرسکتا ہے اور جانور نہ کرے جس میں تین روحیں ہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے یہ اللہ کی شان کے خلاف ہے۔ پھر جانور جس میں تین روحیں ہیں وہ ذکراللہ کرے اور انسان جس میں سات روحیں اور تین یہ دس اور اُن کے نوخلیفہ تووہ اگرذکراللہ سے محروم رہے گا تواللہ یہی فرمائے گا کہ یارسول اللہ! اِس سے اپنا چہرہ پھیرلو کیونکہ پتھر، درخت اور جانورذکراللہ کررہے ہیں لیکن انسان کیوں نہیں کررہا جس کے اندر ہم نے اتنی روحیں ڈالیں۔ اِسی دنیا میں اللہ نے آپ کومثال بھی دی کہ اِس دنیا میں بھی ایسے گھر ہیں کہ اللہ تعالی نے اُن گھروں کی عظمت کوبلندکردیا ہے اورسُنو ہوسکتا ہے کہ محمدالرسول اللہ کا ہجرہ اللہ کے نزدیک کعبے سے افضل ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہاں محمد الرسول اللہ نے قدم رکھے وہ جگہ خانہ کعبہ سے بھی افضل ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں علیؓ رہتے ہوں وہ جگہ کعبے سے افضل ہو، جہاں غوثِ اعظم رہتے ہوں وہ کعبے سے افضل ہو۔ اللہ تعالی تو یہاں گھروں کا فرمارہے ہیں کہ اُن کی عظمت بڑھا دو کہ اُن گھروں کی رفعت بڑھا دی ہے کیونکہ اُن میں اسمِ ذات اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ مٹی کے گھر اور پتھر کے بنے ہوئے گھر اِن کی عظمتوں اور رفعتوں کواللہ بڑھا دے لیکن تم انسان ہوکراِن گھروں کے برابربھی نہ ہوسکے توتیری انسانیت پرتُف ہے۔ جب اِس دنیا میں اللہ نے تمہارے لئے ایسے گھربنائے، اُن جسموں کیلئے جن جسموں میں اسمِ ذات گُھٹنوں پرلکھا ہے، تلووں پرلکھا ہے، تالُو پرلکھا ہے، ہاتھوں پرلکھا ہے اور جن جسموں پراللہ کا نام تیررہا ہے، چیخ چیخ کروہ جسم کہہ رہا ہے پہچانومیں کون ہوں! کیا اُن جسموں کواللہ ایسے گھروں میں رکھے گا جو پتھراللہ کے ذکرسے غافل ہوں تواِس دنیا میں ہی ایسی ہستیوں کیلئے جوگھرہیں اُن کیلئے فرمایا کہ اِن کواسمِ ذات عطا کردیا گیا ہے کیونکہ اِن گھروں کی رفعتوں کوبلند کیا ہے۔ جب وہ ہستیاں جنت میں جائیں گی توپھراُن کے گھرکا کیا عالم ہوگا۔ جب دنیا کے گھرجو عارضی طورپربنائے گئے ہیں اُن گھروں پتھروں کوبھی اللہ نے اُن کی رفعت بلند کرنے کیلئے ذکراللہ سکھادیا۔ آج کا مسلمان اہلحدیث اور وہابی تومصطفیٰ کے ذکرپراعتراض کرتا ہے، اللہ نے توگھروں کورفعت دے دی اُن کے ذکرکو رفعت دے دی۔ اللہ نے تومٹی اور گارے کے بنے ہوئے گھروں کورفعت دے دی کہ اِس گھرمیں میرا محبوب رہتا ہے۔ جس کے جسم کا رُوآں رُوآں اللہ کا ذکرکرتا ہے اگرایسے گھرمیں میں نے اِسے رکھا کہ جس کی درودیوار میں ذکراللہ نہ گھونجتا ہوتومیرے محبوب کا جو وجود اسمِ ذات سے مُونس پکڑ گیا ہے اُس کی اُنسیت ختم ہوجائے گی۔ ایسے گھروں کورفعت عطا کردی جن میں اسمِ ذات کا ذکر گُھونجنے لگے جن گھروں میں ایسے وجودِ مسعود رہتے ہیں۔ ہمارے مسلمان توذکرِمصطفی پربھی اعتراض کرتے ہیں۔

ذکرِمصطفٰیؐ کو رفعت:

قرآنِ مجید نے ذکرِمصطفیٰ کے بارے میں کہا ہے کہ

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
سورة الشرح آیت نمبر 4

آپ اِس آیت کا یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ہم نے تیرے ذکر کو رفعت دے دی، اس ترجمے پر (لا حول ولا قوة الا باللہ)۔ اللہ نے محمد الرسول اللہ کے ذکرکورفعت عطا کی لیکن کب عطا کی! محمد الرسول اللہ تویہاں آنے سے پہلے بھی نبی تھے۔ جب اُن کوبنایا نہیں تھا اور صرف نورتھا تواُس وقت بھی اُن کے صدقے آدمؑ کوبخشا تھا تورفت کہاں عطا ہوئی! بغیررفعت، اونچائی اور بڑھائی کے اسمِ مصطفیٰ کب تھا! ذکرِمصطفیٰ بغیررفعت کے تھا ہی کب! وَرَفَعْنَا کہ ہم رفعت دے دیں گے، لَكَ ذِكْرَكَ اُس کوجو تیرا ذکرکرے گا۔ وَرَفَعْنَا ہم رفعت عطا کردیں گے، لَكَ ذِكْرَكَ تیری خاطر تیری نسبت کی خاطر جوتیرا ذکرکرے گا۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کہ یا رسول اللہ! ہم تیری خاطر اُسے رفعت عطا کردیں گے کہ وہ تیرا غلام ہے، تیرا نام لیوا ہے، تیرے نام پرشب و روز گزارتا ہے اور تیرے نام پر جیتا مرتا ہے۔ ہم اُسے تیری خاطر رفعت دے دیں گے جب وہ تیرے ذکر میں مستغرق ہوگا۔

ذکرِاللہ کی فضیلت:

اللہ رب العزت نے ایسی ہستیاں اور اُن کے گھروں کوبھی رفعت عطا کی اور اُن کے درودیوار بھی اسمِ ذات کا ذکرکرتے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے أَن تُرْفَعَ کہ بلند کردیا جائے، وَيُذْكَرَ کہ جہاں ذکرہو، فِيهَا کہ جن کے اندر۔ پھرجنت میں جوتمہارے محلات ہونگے وہ ذکرکریں گے۔ ذاکروں کواِس دنیا میں جوگھر دیئے اُن گھروں کوبھی ذکراللہ میں لگایا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جہاں بیٹھیں وہ علاقہ بھی ذکراللہ میں مشغول ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تم بابا فرید کے دربارپرجائے توسرکوجھکا کرچوکھٹ کو چومتا ہے کیونکہ تیرے اندرذکرنہیں، اُس چوکھٹ میں اللہ کا ذکرگھونج رہا ہے۔ تم اپنے گھرپرجھاڑو نہیں لگا سکتا لیکن جب اُن کے درباروں اورگھروں پرجاتا ہے توجھاڑولگانے میں تجھے مزہ آتا ہے کیونکہ وہ چوکھٹیں، چوکھٹِ فرید ذکراللہ سے مامور ہے، نظام الدین اولیا کے دروازے، چھتیں، گھر اور صحن ذکراللہ سے مامورہیں۔ تم وہاں بیٹھ جاوٴ توتمہارا دل لگ جائے گا اور تمہیں مزہ آئے گا کیونکہ اُس احاطے میں ذکراللہ گھونج رہا ہے باوجود اِس کے کہ تیرے کانوں میں آوازنہیں پڑرہی لیکن جوتیرے دل میں نظرِگوھرشاہی سے زندگی قائم ہوگئی ہے وہ تجھے نورکیطرف کھینچ رہی ہے۔ ایسا شخص جس کی کوئی بھی روح ذکراللہ نہ کرے توکیا وہ جنت کے مکانوں میں رہنے کے قابل ہے؟ وہاں کے درودیوارتجھے ذلیل کردیں گے کہ ہم پتھر ہوکر ذکر کررہے ہیں۔ تم خود شرمندہ ہوجاوٴ گے۔ یہی وجہ ہے کہ ادنیٰ ترین جنت میں داخلہ اُن کوملے گا جو کم سے کم ذاکرِقلبی ہونگے۔ اللہ تعالی نے بھی فرمایا کہ

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ۔ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورة الشعراء آیت نمبر 89-88
ترجمہ: اُس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے کام آئیں گے۔ کامیاب وہی ہوگا جوقلبِ سلیم لایا۔

بات یہ ہے کہ کیا آپ وہاں مال لے کرجائیں گے جوکام آنے اورنہ آنے کی بات ہورہی ہے! جب نہیں لے کرجائیں گے تو یہ بات ہورہی ہے کہ جواللہ کے نام پرتم نے یہاں مال دان کیا تھا وہ کام نہیں آئے گا، اگر قلبِ سلیم نہیں ہوا تووہ بیکارجائے گا۔ اگرقلبِ سلیم ہوا تواُس سے چارچاند لگ جائیں گے۔ جو تم اللہ کے نام پرزکوٰة خیرات کرتے ہو تو یہ تب کام آئے گی اگرتم موٴمن ہوئے یعنی ذکرِقلب اگرتیرا جاری ہوا توپھرزکوٰة خیرات کام آئے گی ورنہ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ۔ تم وہاں کہہ رہے ہو کہ میں نے اتنا دان کیا، میں نے اتنے صدقے اور خیرات دیئے اور اتنے غریبوں کی مدد کی۔ آپ جیسے کسی ملک کا ٹکٹ بُک کرالیں اور آپ کووہاں جانے کا ویزہ نہ ملے تو آپ کے پاس جانے کا ٹکٹ تو ہے لیکن ویزہ نہیں ہے تو وہ ٹکٹ بیکار ہوگیا۔ وہ ٹکٹ تب کام آئے گا جب تمہارے پاس ویزہ ہوگا۔ اِسی طرح یہ نمازیں، روزے، حج اور زکوٰة تب کام آئیں گے جب جنت میں داخلے کیلئے تمہارے پاس ویزہ ہوگا۔ پھروہ چیزیں چارچاند لگادیں گی۔ پھریہ جوتمہارے دیگراعمال ہیں پھرداڑھیاں تھوڑا اور نور بڑھا دیں گی، عمامہ شریف تمہارا اور درجہ بڑھا دے گا، زکوٰة خیرات تیرا اور درجہ بڑھا دے گا لیکن اگرقلبِ سلیم ہی نہیں ہوا توتمہاری ٹکٹ بیکارجائے گی کیونکہ تمہارے پاس جانے کیلئے ویزہ ہی نہیں ہے۔ ذکر کو اختیار کرنے کا یہ طریقہ ہے یہ راستہ ہے راہِ سلوک (تصوف کا راستہ) جس میں تُو ذکر کو آغوش میں لیتا ہے۔ جب ذکرکوآغوش میں لیتا ہے توذکرتمہیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ پہلے تم اپنی ایک روح کو ذکرمیں لگاوٴ، پھر دوسری، پھر تیسری، پھرچوتھی اور پھرسب کوذکر میں لگا دے۔

ارضی ارواح اور سماوی ارواح کو ذکرمیں لگانے کا باطنی راز:

ہم (یونس الگوھر) کوہڈیوں کے ذکرکا راز ایسے پتہ چلا کہ جب اندرسارا منورہوگیا اور سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ کھیتی تیارہوگئی ہے۔ ایک دن سرکارگوھرشاہی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میرا دل نہیں لگتا اور اندرسے جی چاہتا ہے کہ اِس جسم سے بھاگ جاوٴں تاکہ میں اپنی منزل کو پہنچ سکوں۔ سرکار نے فرمایا کہ بیٹھ جاوٴ۔ سرکار نے فرمایا کہ ایسے جواحساس ہیں تمہیں اِس لئے ہورہا ہے کہ تیری روحیں توذکرمیں لگ گئی ہیں لیکن تیرا جسم توروحوں کا ہے اور وہ روحیں اب اُس سے مانوس نہیں ہیں تواب تم ارضی ارواح کوبھی ذکرمیں لگاوٴ۔ پھرجب ارضی ارواح بھی اللہ اللہ میں لگ جائیں گی توسماوی روحوں کی اور ارضی روحوں کے درمیان اُنسیت پیدا پوجائے گی، پھر تیرا دل لگنے لگے گا۔ اُس کیلئے پھرہڈیوں کوبھی ذکرمیں لگایا اور پورے ڈھانچے کوبھی ذکرمیں لگایا۔ اُس کوایسے ذکرمیں لگایا کہ سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو اور جب آنکھیں بند کیں تواندرنظرڈالی توپھرجیسے نظرڈالی تووہ ایک ہڈیوں میں آگ سی گُھس گئی اور اتنی آگ ہوگئی کہ ایسا لگا جیسے ہڈیوں کوکسی نے بھٹی میں رکھ دیا ہو۔ پھریہ ہوا کہ وہ جتنا بھی فاسفورس ہوتا ہے اُس نورنے پہلے فاسفورس کوہڈیوں سے نکالا تاکہ اب اندرکوئی جِن نہ آسکے۔ اُس فاسفورس کی جگہ پھرنوربھرا اور پھرجب نوربھرا توپھرہڈیوں سے یارحمٰن یا رحمٰن کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پھر نباتی، حیوانی اور جمادی روح کوبھی ذکرمیں لگادیا۔ جب یہ تینوں ارواح کوبھی ذکرمیں لگا دیا توپھر یہ ہوا کہ اب وہ جوتینوں ہیں وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی روحِ جمادی بہت ذیادہ ذکرکرتی ہے اور ہمارا پورا جسم پتھرکیطرح سخت ہوجاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتنا سخت ہے اور پٹھوں میں درد ہونا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ روحِ جمادی مستی میں ہے تو سارے پٹھے اکڑگئے۔ پھرروحِ نباتی آئی اور جب روحِ نباتی آئی توپھرسارے پٹھے کُھل گئے۔ جب روحِ نباتی آئی توبڑا اُچھلنے کُودنے کوجی چاہا۔ جب روحِ حیوانی میں ذیادہ ذکرہوا توپھرقد بڑا ہوگیا اور کبھی قد چھوٹا ہوگیا۔ جب روحِ حیوانی میں اُن دو کے مقبلے ذیادہ ذکرکی مستی آئے گی توتیری انگلیاں، پاوٴں اور چہرہ بھی بڑھ جائے گا۔ اُس کے بعد جب روحِ حیوانی نے روحِ نباتی کوکہا کہ چلواب تمہاری باری ہے توپھرقد یُوں ہوجائے گا۔ جسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہوجائیں گی، کبھی موٹا، کبھی لمبا، کبھی چھوٹا اور کبھی رنگ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ کبھی لگے کا کہ بہت سانولا رنگ ہے۔

یہ باطن کا قانون ہے کہ جب زبان ذکرکرے گی یعنی جب تیرا ظاہرذکرکرے گا تو وہ جو جتنے بھی غلاظت، گند، نار، سیاہی ہے وہ اندرجائے گی۔ تم جتنی ظاہری عبادتیں ذیادہ کرو گے وہ ظاہر کی سیاہی اندردل میں جائے گی۔ جب تیرا اندرذکرکرے گا وہ اندرکی کالک باہرآجائے گی۔

صوفیوں کا یہ ہوا کہ مجذوبوں نے سارا باطن کے ذکر پر ذور دیا اور اندرکی سیاہی ساری باہرآگئی تو دیکھیں کہ کالے کالے چہرے ہوگئے کیونکہ اِن کوسیدنا گوھر شاہی نہیں ملے، ورنہ پھرپتہ چلتا کہ اب یہ اندرکی سیاہی باہرآگئی ہے اور اب باہرکی سیاہی کوظاہرذکرفکرسے دورکرنا پڑے گا۔ اِس کیلئے پھرنمازیں پڑھنا پڑیں گی، روزے رکھنے پڑیں گے، تلاوت کرنی پڑے گی اور دُرودشریف پڑھنا پڑے گا کیونکہ تم یہی چاہتے ہوکہ دنیا بھی دیکھے۔ تم مولویوں کودیکھ لوکہ جودن رات امام بارگاہوں میں شیعوں کے جو ذاکر ہوتے ہیں کتنی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں تواِن کے چہرے کے اوپر نورآجاتا ہے، اِن کی زبان میں مٹھاس آجاتی ہے، آپ اِن کی تقریریں سُنیں توعش عش کراُٹھتے ہیں کیونکہ ظاہری زبان سے اُن کا ذکرکیا، مولٰی علی، بی بی فاطمہ، حسن حسین، اللہ اور رسول اللہ کا نام لیا توزبان میں مٹھاس پیدا ہوگئی۔ جب دل اللہ اللہ کرے گا تودل کے اندرمٹھاس پیدا ہوجائے گی۔ جب دل اللہ اللہ میں لگے گا اور دل میں مٹھاس پیدا ہوگئی توعرش والے عش عش کراُٹھیں گے کہ کتنی میٹھی آواز ہے۔ جیسے ندیم بیٹھ کرپڑھتا ہے تولوگ عش عش کراُٹھتے ہیں کہ کتنی خوبصورت آواز ہے، اسی طرح اِس کے دل کی بھی آواز ہوگی۔ تم نے ظاہرسُنی ہے تم عش عش کررہے ہو اور جواِس کے دل کی نعت پڑھتا اور سُنتا ہوگا تووہ عرش پربیٹھ کربھی عش عش کرتا ہوگا۔ امام مہدی والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جن سے زمین والے بھی خوش اور آسمان والے بھی خوش ہوگئے۔ ظاہری ذکرکرنے سے ظاہرکی کالک اندرجاتی ہے اور باطنی ذکرکرنے سے باطن کی کالک باہرآتی ہے۔ جوصرف ظاہری ذکرکرتے ہیں اُن کے چہرے کی کالک اُن کے دل میں چلی جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ کتنا پُرنور چہرہ ہوگیا۔ جوذکرِقلبی کرنا شروع ہوتے ہیں اُن کا رنگ کالا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں پھٹکار برس رہی ہے لیکن اُن کویہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اُس کا چہرہ سفید ہے لیکن اِس کا دل سفید ہے۔ اگرتم چاہتے ہوکہ تمہارا دل بھی سفید ہو اور چہری بھی سفید ہوتوپھرتم اپنی ارضی ارواح کوبھی ذکرمیں لگا اور سماوی ارواح کوبھی ذکرمیں لگا۔ اُس کے بعد تیری ارضی ارواح کے اوپرپابندی ہوگی کہ اب اِس بندے کے مرنے کے بعد اِس کی ارضی ارواح کوسنبھال کے رکھو اور کسی ایسے بندے کے جسم میں ڈالنا جس کی تقدیرپہلے پڑھ لوکہ وہ اِس مقام تک پہنچے گا یا نہیں، جس کی روح کا اتنا ذکرہوگا یا نہیں تواُسی کے اندراِس کی ارضی ارواح ڈالنا۔
جب امام مہدی کے بندے نیچے بھیجے گئے جب اُن کی روح نے آنا تو فرشتوں کیلئے بہت مشکل ہوئی کہ اِس کے اندرکسکی ارضی اروح ڈالیں! نبی کے گھرانے کی اِدھرسے اْدھربڑی بڑی ہستیاں ہیں توکہا اِن کی ڈال دیتے ہیں کہ یہ سب سے بڑے امام تھے توکہا کہ جب اِس کی روح نے جلوہ کیا اور غیبی جلوہ آیا توپھراِس کا کیا ہوگا تو کہا کہ نہیں اِن کوتواللہ کا دیدارہوچکا ہے لیکن کہا نہیں دیدار تو ہوگیا لیکن جب غیبی جلوہ اِس کے اندرسمائے گا توپھراُس وقت اِس کی ارضی ارواح کا کیا عالم ہوگا توکیا یہ اُس کے ساتھ میچ کرلیں گی! پھریہ ہوا کہ نہیں کوئی اورارضی ارواح اِس میں ڈالیں اور پھراُن ارضی ارواح کوامام مہدی نے اپنے حساب سے مختلف اذکار میں اُن بندوں کے پیدا ہونے سے پہلے لگایا۔ اُن نباتی، جمادی اور حیوانی روحوں کو ذکردیا کہ تم کروتاکہ مستقبل کی تیاری ہوسکے۔ اگراُس کے اندرکوئی خاص چیزآنی ہے تواُس کی پیدائش سے پہلے اُس کی ارضی ارواح میں خاص ہی نام آیا ہوگا۔ پھرجب خاص نام آجائے توپھرجوبھی نام آتا ہے تووہ پھرتمہارے ہاتھ کی ایک اُنگلی کے اوپروہ نام ثبت ہوجاتا ہے۔ جیسے اگر”الف” روحِ جمادی، روحِ نباتی اور روحِ حیوانی میں بھی آگیا توپھرایک اُنگلی ایسی ہوگی جوبالکل الف کیطرح سیدھی رہے گی اور اُس کوتیڑھا نہیں کرسکتے۔ اگر “م” آگیا تواُنگلی خود بہ خود مڑی رہے گی۔ اسی طرح جو “الم” ہے اور اسی طرح “الر” بھی ہے۔ اگراُس میں الف لام کا “رٰ” آگیا توایک اُنگلی ایسی ہوگی جو بالکل “رٰ” کی صورت پر ہوگی۔ اگرتم چاہوکہ اُس کوسیدھا کردوتوتم سیدھا کروگے لیکن پھرویسی ہی ہوجائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہوگیا کہ ارضی ارواح کے اندر یہ چیز پہنچ گئی ہے۔ اِس لئے اُن گھروں کوعظمت اور رفعت کا حکم دے دیا۔ اِس لئے پھرلوگ ولیوں اورنبیوں کی قدم بوسی کرتے ہیں اوراُن کے ہاتھوں کوچُومتے ہیں کیونکہ اُن کے اندراُن کے ہاتھوں اور قدموں میں اسمِ اللہ بس رہا ہے۔ اُس کے بعد جن گھروں میں وہ رہتے ہیں اُن کوبھی اللہ نے ذکراللہ سے رفعت عطا کردی توپھرلوگ اُن کی چوکھٹوں کوبھی چومتے ہیں اور یہ مُحبین کا طریقہ بن گیا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی سیدی یونس الگوھر سے 21 جولائی 2020 کو یو ٹیوب لائیو چینل الرٰ ٹی وی پر کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس