- 831وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
مرشد کامل تُرش رویہ تزکیہ نفس کی وجہ سے اختیار کرتا ہے :
مولوی یا عالم کی زبانوں میں مٹھاس ہوتی ہے ان کی تقاریر سن کر بڑا مزاآتا ہے اور درویش کی زبان میں کڑواہٹ ہوتی ہے جس کو سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ بات تو صحیح ہے لیکن کہنے کا انداز غلط ہے ۔ ایک طرف اخلاقیات ہوتی ہے جس کے لئے قرآن مجید میں حکم آیا ہے کہ لوگوں سے اچھی طرح بات کرولیکن مسلمان قوم کو ہر معاملے میں غلو کی عادت ہے یعنی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں ۔ لفظ “آرائی ” رائے سے نکلا ہے اور رائے کی جمع”آراٴ” ہے اور اس کی ناؤن فارم آرائی کہلاتی ہے جو کہ خوشامدی ، چرب زبانی ، چاپلوشی کے زمرے میں آ جاتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ جو آپ کےدلوں اور نفس کی اصلاح کرے گا اس کے لئے پرہیز کرنا پڑتا ہے کہ وہ میٹھی زبان میں بات نہ کرے ۔جسطرح اسلام میں عورتوں کو حکم ہے کہ کسی غیر مرد سے نرمی سے بات نہ کریں ، جب بات کر یں تو ان کا لہجہ سپاٹ ہو نرمی نہ ہو ۔ بدتمیزی نہ کریں لیکن لہجے میں تعریفی انداز نہ ہو ۔ جو نفس شکن ہوتا ہے اس کو بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ نفس پاک کرنے کا کوئی موقع جانے نہ دے ، کلام بھی اسطرح سے کرے کے نفس کو اُمیدیں نہ بندھ جائیں ۔جو دلوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کرتے ہیں وہ طبیب القلب کہلاتے ہیں اور جو نفس پاک کرنے پر مامور ہوتے ہیں اُن کو یہ بات سالکین سےچھپانی پڑتی ہے کہ وہ اُن سے راضی ہو گئے ہیں جب تک اُس کا نفس پاک نہ ہو جائے۔پھر جب قلب کے جوان ہونے کی بات آتی ہے توپھر لہجہ ترش کرنا پڑتا ہے تاوقتیکہ اس کی مکمل صفائی نہ ہو جائےاور وہ درجہ کمال کو نہ پہنچ جائے، اُس وقت تک رہنما، رہبر یا مرشد کامل اپنے کلام میں تُرش رویہ رکھتا ہے ۔مولوی کی باتوں میں قصے اور کہانیاں ہوتی ہیں ، قرآن میں جو بہت سے قصے ہیں وہ بیان کرتے رہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو رمضان کے فضائل بیان ہوتے ہیں اور اس طریقے سے بیان ہوتے ہیں کہ جیسے کسی مسلمان کو رمضان کا پتہ ہی نہیں ہے ۔سارا مہینہ رمضان کے فضائل میں ہی گزر جاتا ہے اور رمضان کے فیوض و برکات سے مستفیض نہیں ہو پاتے ۔ جب محرم آتا ہے تو کربلا کے قصے سننا شروع ہو جاتے ہیں لیکن یہ کوشش نہیں کرتے ہیں کہ ہمارے اندر جو شیطان چھپ کر بیٹھا ہے کہیں وہ شیطان ہم کو یزید نہ بنا دے ۔ اگر تو نے اپنے دل میں اللہ کے ذکر اور اللہ کے نام کو نہیں بسایا ہے تو پھر تو یزیدیت کے راستے پر چل رہا ہے ، کسی بھی وقت یزید بن سکتا ہے ۔الغرض یہ کہ ہم ہر مبارک مہینے کی فضیلت ہی سنتے رہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں واضح طور پر آ گیا ہے کہ نماز ہر مومن پر فرض ہے اس کے باوجود بھی چاہتے ہیں کہ ہر مقرر نماز کی اہمیت کے اوپر روشنی ڈالے ۔
ذکر قلب سے تزکیہ نفس کی ابتداء ہوتی ہے :
اب رمضان کا مہینہ آگیا ہے اس وقت زور اس بات پر کہ تمام دوستوں کو تمام رشتہ داروں کو رمضان المبارک کی آمد کی خوشی میں سوشل میڈیاکے ذریعے رمضان المبارک کا اسٹیکر بھیجا جائے ۔ پھر زور اس بات پر ہوگا کہ گھر میں ہر قسم کا پکوان وقتِ سحور ملنا چاہئے ۔ اُس کے بعد افطار کے موقع پر کیا کھانا ہے پھر روزہ کھلنے سے پہلے جب ایک گھنٹہ رہ جائے گا تو سارا افطاری کا سامان ٹیبل پہ رکھ کے اُس کو تکتے رہیں گے۔ بھئی رمضان صرف سحری کرنا اور افطاری کرنے کا نام نہیں ہے۔
“رمضان صرف اس بات کا نام نہیں ہے کہ آپ اپنے پیٹ کو اپنے شکم کو غذا سے پندرہ سولہ سترہ یا اٹھارہ گھنٹے کے لئے دُور رکھیں۔ رمضان کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہ تمام چیزیں، تمام لوازمات بروئے کار لائیں کہ جس سے آپ کے نفس میں پاکیزگی اور طہارت آئے “
یہ جو تراویح ہے یہ اس لئے پڑھی جاتی ہیں کہ دن بھر آپ بھوک اور پیاس سے نفس کو سدھایا جاتا ہے اور نار کا راستہ روکا جاتا ہے۔ رات کو تراویح پڑھنی ہے کہ قرآنِ مجید جو پڑھا جا رہا ہے تراویح میں وہ آپ سُنیں اور قرآن مجید کی تلاوت کا نور آپ کے قلب میں جائے لیکن اگر آپ کا قلب ہی مرُدہ ہے تو پھر تراویح بیکار ہوگئی۔ بھئی اہلِ اسلام تو اسی اُلجھن میں رہے ہیں کہ تراویح کی رکعت دس ہونی چاہئے یا آٹھ ہونی چاہئے یا بیس ہونی چاہئے۔ مستحب کیا ہے، سنت کیا ہے فرض کیا ہے۔ واجب کیا ہے ۔ انہی چکروں میں لگے رہتے ہیں جو اصل مقصد ہے اُس کی طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ کوئی یہ آپ کو بتاتاہی نہیں ہے نماز ایک عظیم ترین عبادت ہے روزہ ایک انتہائی اہم ،انتہائی نازک اورانتہائی اہم ایک فریضہ ہے جو کہ اللہ کی طرف سے عطا ہے آپ کے لئے کہ اُس کے ذریعے آپ تھوڑا بہت تقوی حاصل کرلیں ۔ ایک مہینے میں تقویٰ حاصل ہوتا نہیں ہے یعنی قابلِ تشفی تقوی ایک مہینے کے مجاہدے سے ایک مہینے کی بھوک اور پیاس سے اتنا تقویٰ حاصل نہیں ہوتا ہے کہ آپ متقی بن جائیں۔ ایسا سوچئے گا بھی مت۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تزکیۂ نفس کا ایک مزا دینا چاہ رہا ہے ہر سال کہ کسی سال یہ قائل ہوجائے کہ یہ کام جو اُدھورا چھوڑ دیتا ہوں میں ہرسال ، ایک مہینے تک تزکیۂ نفس کرتا ہوں ایک مہینے بعد چھٹی ہوجاتی ہے تو چلو میں اب اس کا مکمل تزکیہ کرنے کا سوچ لوں لیکن آپ کو خیال ہی نہیں آتا ۔ قرآن مجید میں لکھا ہے؛
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاعلی آیت نمبر 14
سب دین اور رب کے راستےپر چل رہے ہیں اسمیں کامیاب وہ ہوگا کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا اپنے نفس کو پاک کرلیا۔ اہلِ اسلام کو یہ نہیں معلوم کہ تزکیۂ نفس اگر وہ کرنا چاہیں گے تو پہلا قدم کیا ہوگا؟ فرض کیا کہ آج کوئی یہ تہیہ کرلیتا ہے کہ جناب تزکیۂ نفس میں کرنا چاہتا ہوں اب وہ شروع کہاں سے کرے گا تزکیہ نفس؟ اس کے لئے تو آپ کو نفس کی حقیقت کو پہلے سمجھنا ہوگا۔اہم جو نکتہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ فی الوقت اس زمانے میں بغیر ذکرِ قلب کے تزکیہ نفس کی ابتداء ممکن نہیں ہے ، پہلے ہوجاتا تھالیکن اب نہیں ۔مولا علیؓ کے اوپر بھی جو ہے ایک الزام تھا کہ یہ کسی کی بات نہیں سنتے بس اپنی ہی چلاتے ہیں۔اکھڑ مزاج۔ تو وہ اکھڑ مزاج اس لئے تھے کسی کی بات اس لئے نہیں سنتے تھے کہ وہ علم کا دروازہ ہیں نبی پاکﷺ اُن کی زبان میں بولتے تھے۔ نبی پاکﷺ اُن کے کان میں نصیحت کرتے تھے۔ اب جب نبی کریم ﷺ اُن کی تعلیم اور نصیحت کے لئے ہمہ وقت موجود ہیں تو اُن کو کسی اور کی بات کیا سننی ہے۔ اسی طرح ہماری ہدایت کے لئے بھی سرکار گوہر شاہی موجود ہیں اس لئے ہم بھی کسی کی بات نہیں سنتے ہیں کیونکہ ہم سرکار گوہر شاہی کو سن رہے ہیں۔ اِس نے کیا کہا اُس نے کیا کہاہمیں اس سے کیا غرض ہے ہمیں اُس کی سننی ہے جس نے ہمیں بٹھایا ہے ۔ اب اس رویہ کو اگر آپ غلط ٹرانسلیٹ کریں گے تو پھر وہ آپ کا اپنا قصور ہے۔ایک عام مسلمان اور ایک تصوف کو سمجھنے والے مسلمان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو مسلمان تصوف سے شناسائی رکھتاہے ولیوں کو جانتا مانتا ہے ، صوفیوں کو جانتا مانتا ہے اُس کو پتہ ہے کہ جب کوئی صوفی گفتگو کرتا ہے تو اُس کے سامنے جو اکتسابِ فیض کے لئے لوگ موجود بیٹھے ہیں وہ اُس کی ہر بات پر چھینکتا بھی ہے تو سبحان اللہ کہتے ہیں لیکن جو صوفی نہیں جو تصوف سے واقف نہیں ہیں جو صوفیاء سے واقف نہیں ہیں جب وہ یہ منظر دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھو یہ کیا ہوگیا انہوں نے چھینک ماری ہے یہ سب سبحان اللہ کہہ رہے ہیں، اس میں سبحان اللہ والی کیا بات تھی۔ وہ لوگ اس لئے سمجھ نہیں پاتے کہ وہ صوفی کو جانتے نہیں ہیں۔ صوفی کے لئے اُن لوگوں کے دلوں میں بڑا احترام بڑی عزت ہوتی ہے جس سے وہ فیض حاصل کرتے ہیں۔ ویسے تو لوگ علماء کا بھی ادب کرتے ہیں مولویوں کا بھی ادب کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے فیصلے مولویوں پہ نہیں چھوڑتے اور یہ جو صوفی ہوتا ہے، صوفی کو جو ماننے والے ہوتے ہیں اپنی زندگی کے سارے فیصلے وہ صوفی کی ہدایت میں کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی کے ہر شعبے میں اُن کا جو رہبر ہے جو اُن کا رہنما ہے اُسکے مشورے اُس کی ہدایات اولین ترجیح رکھتے ہیں۔ یہ جو صوفی کو عزت ملی ہے اس عزت کو کہتے ہیں اللہ کی طرف سے عطا کردہ عزت ۔وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ جس کو وہ چاہتا ہے اُس کو عزت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اُس کو وہ ذلت دیتا ہے۔ عزت کیا ہے کہ کسی کو اللہ اپنی نسبت، اپنا قرب ،اپنی محبت عطا فرما دے اور وہ بندہ بولے تو اُس کے منہ میں رب بولے،وہ بندہ چلے تو فاصلہ رب طے کرتا ہو۔ اُس بندے کے ہاتھوں میں رب کی قوت آجائے۔ پکڑے صوفی تو گرفت اللہ کی ہوجائے۔ اِس کو کہتے ہیں وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ یہ عزت اللہ نے دی ہے۔
جنات کی زیادتی اور نار کے تناسب میں اضافہ:
تزکیہ نفس بغیر ذکرِ قلب کے اس زمانے میں اس لئے ممکن نہیں ہے کہ جس طرح اس دنیا میں انسان آباد ہیں اُسی طرح جنّات بھی آباد ہیں۔ قرآنِ مجید میں پوری ایک سورة ہے اُس کا نام سورۃ جنّ ہے۔ اس دنیا میں کئی بلین انسان رہتے ہیں میرا خیال ہے کہ چائنا کی جو آبادی ہے وہی ایک بلین سے زیادہ ہے اور جوانڈیا کی آبادی ہے وہ بھی ایک بلین سے زیادہ ہے۔ تو سوا دو ڈھائی بلین انسان تو اِن دو ملکوں میں ہی رہتے ہیں توانداز ہ لگائیں پوری دنیا میں کتنے انسان رہتے ہونگے۔ انسان کے ہاں عمومی طور پر نو مہینے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ اور اگر تین یا چاربچے ہوجائیں ایک وقت میں تو اخبار میں آجاتا ہے لیکن عمومی طور پر ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ہوسکتا ہے کوئی دس واردات ہوں تو اُس میں دس میں سے کوئی ایک جڑواں ہو۔اور پھر اُس کے ساتھ کئی دیشوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ بھئی پوری زندگی میں بس دو بچے ہوجائیں تو اچھا ہے بچے دو ہی اچھےتاکه آبادی کم کی جا سکے۔جیسا کہ چائنا میں بڑے عرصے تک پابندی رہی کہ ایک بچہ جائز ہے تو اگر یہ پابندیاں نہ ہوتیں تو نہ جانے کتنے انسان ہوتے۔ جنات کے ہاں نو مہینے میں بچہ نہیں ہوتابلکہ چھ مہینے میں ہوتا ہے۔ ہمارے انسانوں کے ہاں عمومی طور پر ایک بچہ ہوتا ہے اور جنات کے ہاں عمومی طور پر ایک وقت میں اَسّی بچے ہوتے ہیں ۔ کبھی اگر دو سو ہوجائیں تو شاید اُن کے بھی اخباروں میں آتا ہوگا۔ اچھا دوسری بات کہ اُن کے ہاں فیملی پلاننگ کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ انسانوں کی آبادی اُس کے باوجود بھی کئی بلئینز پر مبنی ہے۔ہمارے یہاں نو مہینے میں ایک بچہ اُن کے ہاں ایک جنّ کے چھ مہینے میں اَسّی بچے ۔ کیا خیال ہے۔ کچھ عورتیں کہتی ہیں کہ رات کو جب میں سو رہی تھی تومیں نے دیکھا کوئی مجھے ہاتھ لگا رہا ہے یہاں تک کہ کوئی نظر نہیں آتا لیکن خواتین کے ساتھ ہمبستری کرکے چلا جاتا ہے ۔ یہ جنات ہیں۔ مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ بھئی ایسا ایک خاتون کے ساتھ معاملہ ہے اب میں کیا کہوں؟ کیا کہیں گے آپ؟ تم تو مسلمان ہو۔ تمہارے ساتھ ایک شیطان جن آکے یہ معاملہ کرجائے تمہارا اسلام کہاں گیا؟ تمہارے سینے میں تو نور تھا کیا ہوا اُس کا!! کوئی جنّ تمہارے اندر تب ہی داخل ہوگا جب تمہارے سینے میں نور نہیں ہوگا۔ عام انسانوں کے نفس رات کو جسم سے نکل جاتے ہیں اور دیگر جو جنات اور نفوس ہیں اُن کے ساتھ شغل میلہ کرتے ہیں۔ فرض کیا کوئی عورت ہیں آپ کے جسم سے لطیفۂ نفس رات کو نکل گیا نجانے کہاں کہاں ہوکے آیا ،نجانے کس کس سے دوستیاں کیں آپ کو تو پتہ ہی نہیں چلا نفس باہر نکل کے نجانے کس کس کے ساتھ کیا کیا کرکے آگیا ۔ جب اُس جن نے تمہارے نفس سے ملنے کے لئے رجوع کیا اور وہ تمہارا نفس تمہارے جسم میں ہی تھا اُس وقت پھر اُس نے ہمبستری کی، صحبت کی تو پھر آپ کے جسم کو محسوس ہوا اور آپ پریشان ہونے لگ گئے۔ یہی کام ہمبستری کا جب وہ نفس نکل کے جسم سے باہر کرکے آتا تھا تو آپ کو پتہ نہیں چلتا تھا اب کسی دن نفس نکل کے نہیں گیا تو وہ دوست جنّ یہاں پہنچ گیا تمہارے گھر اور تمہارے ساتھ وہ معاملہ کیا نفس نے معاملہ بھی کر لیا کیونکہ نفس تمہارے جسم کے اندر اُس وقت موجود تھا اس لئے اب تمہیں محسوس ہورہا ہے کہ کوئی مجھے ہاتھ لگا رہا ہے۔ اس کی روک تھام کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ قلب میں نور آجائے نفس کو پاک کرنا شروع کردو اس کے بغیر کوئی اس کا طریقہ نہیں ہے۔
تو انسانوں کے ہاں نو مہینوں میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور جنات کے ہاں چھ مہینے میں اَسّی بچے۔ تو کتنی تعداد اُن کی بڑھ گئی ہوگی۔مثال کے طور پر کسی کمرے میں سردی ہو اور خالی ہو ، تو سردی بڑھے گی اور اگر اِس کمرے میں بہت سردی ہو لیکن کھچا کھچ انسان یہاں آ کرکے بھر جائیں تو آپ آدھ گھنٹے بعد دیکھیں گے کہ سردی ختم ہوگئی ۔ جسموں کی جو حرارت ہوگی اُس سے ماحول گرم ہوجائے گا۔ اسی طرح جنات ہیں صرف جنات کے ہونے کی وجہ سے ماحول میں کتنی نار ہوگی ذرا تصور کریں۔ صرف یہی تناسب لے لیں فوری طور پر کہ ایک انسان کے اوپر اَسّی جنّ ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں ، تناسب اس سےکہیں زیادہ ہے اس سے ۔ جس طرح سے ہماری یہ فضا ہے اور اس میں جو ہوا چل رہی ہے اُس ہوا کا اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ کو بہت ساری چیزیں اُس کے اندر ملیں گی کہ فلاں گیس بھی ہے اِس کے اندر ، فلاں گیس بھی ، فلاں گیس بھی ہے۔ اب جب آپ اپنے جسم سے گیس کا اخراج کرتے ہیں تو آپ کے جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈنکلتا ہے، جیسے ہی آپ نے گیس خارج کی فوراًفضا میں بدبو پھیل گئی۔ آپ نے کھڑکی دروازے کھولے ، ہوا آئی اور وہ بدبوکم ہوگئی۔ لیکن وہ ہوا میں موجود تو رہے گی کتنے لوگ روزانہ گیسزکا اخرا ج کرتے ہوں گے وہ سب ہوا میں موجود ہے ۔ نجانے کون کونسے کیڑے ہوا میں گھوم رہے ہیں۔ ہم سانس لے رہے ہیں پہلے سانس ہمارے پھیپھڑے میں جاتا ہے پھر پھیپھڑے میں جا کے تھوڑی دیر بعد وہ باہر آتا ہے۔ہمارے پھیپھڑے میں نجانے کیا کیا چیزیں موجود ہیں نجانے کون کونسے اجزا ہیں۔ کوئی شراب پیتا ہے کوئی سگریٹ پیتا ہے کوئی تمباکو کھاتا ہے ،کوئی نسوار کھاتا ہے۔ نجانے کیا کیا اول فول لوگ کھاتے رہتے ہیں۔ وہ تمام چیزیں ہمارے جسم میں ہیں۔ وہ جو سانس ہمارے پھیپھڑوں سے لگ کے واپس آرہا ہے وہ سانس ہم بھی لے رہے ہیں۔ کتنی آلودگی ہے اس ماحول میں۔ اب شہروں کے اندر جو ہوا چلتی ہے آپ کو سانس لینے میں اتنا مزہ نہیں آتا ہے جتنا کہ آپ دُور دراز پہاڑی علاقوں میں چلے جائیں سرسبز علاقوں میں ہِل اسٹیشن چلے جائیں وہاں پر آکسیجن ہوا میں زیادہ ہوتی ہے یہاں آکسیجن کم ہے ۔ تو ہم جو سانس لے رہے ہیں تو لوگوں کو نہیں پتہ میرے اندر کونسی بیماریاں اس سانس کے ذریعے باہر فضا میں گھل رہی ہیں۔
اسی طریقے سے جنات ہیں اِس وقت جنات کی تعداد اتنی ہے کہ اگر آپ کو جنات نظر آنے لگ جائیں اور آپ یہ سوچیں کہ میں پاؤں بچا بچا کر کے اس طرح چلوں کہ کوئی جن میرے پاؤں کے نیچے نہ آجائے تو آپ چل نہیں سکتے۔ سرکار امام مہدی گوہر شاہی نے تقریباً سترہ اٹھارہ سال پہلےارشاد فرمایا ، کہ جنات کی تعداد بڑھ گئی ہے پہلے تم لوگ تزکیہ نفس کرنے کے لئے ترکِ حیوانیات کرتے تھے گوشت کھانا چھوڑ دیتے تھے، دودھ، دہی یہ تمام چیزیں چھوڑ دیتے تھے کیونکہ اس میں نار زیادہ ہے سبزیاں کھاتے تھے سبزیوں میں نار اتنی نہیں ہوتی تھی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دیکھو اپنی ریشِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، اُس وقت اٹھارہ سال پہلے فرمایا ، کہ دیکھو اب داڑھی جو ہے بال شیو کرو، خط بناؤ تو دو دن کے اندر بال بڑے بڑے ہوجاتے ہیں، پہلے ایک ہفتہ لگ جاتا تھا بالوں کو اتنا بڑھنے میں ، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ فرمایا کہ فضا میں نار کا تناسب بڑھ گیا ہے اور یہ نار ہے جو بال بناتی ہے۔ اب یہ بات بھی اٹھارہ سال پہلے کی ہے ۔ اُس وقت پھر آپ نے یہ فرمایاکہ جنات کی زیادتی کی وجہ سے زمین پر یا درختوں پر اب تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہے اور پھر اُس کے بعد کیا فرمایا کہ ہم تو انسان ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کو عقل و شعور دیا ہے، اخلاقی و معاشرتی اقدارسے نوازہ ہے کیا ایساممکن ہے کہ آپ یہاں بیٹھ کے گفتگو کر رہے ہوں تو اچانک آپ کو رفع حاجت محسوس ہو اور آپ یہیں بیٹھے بیٹھے کر دیں۔ نہیں ناں!لیکن جنات کے پاس یہ تمام چیزیں نہیں ہیں ۔ جنات نے درختوں پر، پتے پتے پر وہ رفع حاجت کر کے چلے جاتے ہیں۔
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
نار کا تناسب بڑھنے سے ظاہری عبادات رائیگاں ہو جاتی ہے:
خدا گر تجھے دلِ فطرت شناس دے دے تو یہ لالہ و گل ، یہ درخت اور یہ پھول اور یہ ٹہنیاں اور یہ پتے جو خاموش بیٹھے ہوئے ہیں پھر تُو اِن سے بات چیت کرنے لگ جائے گا۔ جب انسان کو کامل کشف عطا ہوجاتا ہے تو وہ آنکھیں بند کرکے جب دیکھتا ہے درختوں کو ، تو اُس کو نظر آتا ہے کہ اِس پر کتنے جنّ بیٹھے ہیں اور انہوں نے اِن پر کتنی غلاظت کی ہوئی ہے۔ تو فرمایا کہ جنات کی زیادتی کی وجہ سے اب نار کا جو تناسب ہے گوشت اور سبزی میں برابر ہوگیا ہے اور پھر اٹھارہ سال پہلے فرمایا، کہ اب اِس دَور میں نفس کا تزکیہ علاج بالغذاسے نہیں ہوگا ، نفس کا تزکیہ کھانے پینے سے نہیں ہوگا کہ یہ چھوڑ دو اور وہ چھوڑ دو۔ تُو کچھ بھی نہ کرے ،کوئی گناہ بھی نہ کرے آرام سے لوگوں میں بیٹھا رہ ، نجانے کتنے شہوت کے، ہوس کے اور بغض و عناد کے کیڑے چل کے تیرے اندر گھس جائیں گے ، اور پھرجب باطنی تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ تو تُو بہت بڑا زانی ہے ۔ یہ زنا کے جراثیم تیرے اوپر کہاں سے آئے؟ زنا کے جراثیم اس لئے آئے کہ میں ایک بندے کے سامنے بیٹھا ہوا تھا وہ شہوت زدہ تھا اُس کے جراثیم اُڑ اُڑ کے میرے پاس آگئے۔ اب جب بغض و عناد کے ہوس کے جراثیم، شہوت کے ، تکبر کے جراثیم آپ نے وہ گناہ کئے نہیں اُس کے باوجود بھی اُڑوس پڑوس سے اُڑ کے آپ کے وجود کو آکے ٹکرا گئے تو اب کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ زانی ہیں یا نہیں، وہ کیڑے تو آپ کے اوپر چل رہے ہیں ۔ لہٰذا اِن حالات میں یہ جسم کی عبادت ناکارہ جاتی ہے لہٰذا اِن حالات میں ظاہری پرہیز گاری ، ظاہری زُہد، ظاہری ذکر و فکر، ظاہری حمد و ثنأ، ظاہری تلاوت کوئی اثر نہیں دکھائے گی۔ اب جب کوئی عبادت اثر دکھائی گی نہیں تو آپ کا نفس کیسے پاک ہوگا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا چلو نار نہ آئے ، یہ جو گھر کے اندر بیوی ہے ، بچے ہیں، ماں ہے ، باپ ہے، اور بھائی ہے ، بھتیجے ، بھانجے ، ماموں ، چاچا، اِن لوگوں کا گلا کیسے گھونٹوں میں، نجانے کہاں سے آیا ہے کیا کرکے آیا ہے ۔ ان کے گناہوں کے جراثیم اُڑ اُڑ کے آئیں گے میرا روزہ تو گیا۔ آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور آپ کو کوئی شہوت کا خیال آگیا کہ یار دیکھو کتنی اچھی عورت جارہی ہے کاش یہ ہوجاتا وہ ہوجاتا طریقت میں اُسی وقت روزہ ختم ہوگیا ۔ آپ تو یہ سوچ رہے ہیں کہ منہ میں پانی جائے گا تب روزہ ٹوٹے گا لیکن یہ وہ تعلیم ہے، یہ وہ علم ہے تقویٰ ، آسان نہیں ہے حاصل کرنا ، اگر غلط خیال بھی آگیا تو روزہ ختم ہوگیا۔ کیسے ختم ہوا؟ ہوسکتا ہے کہ اٹھارہ گھنٹے سے جو بھوکے مر رہے ہو تم، تم نے دو تین وقت کا کھانا نہیں کھایا اُس تین وقت کے کھانے میں اتنی نار نہیں تھی جتنا اِس خیال کی وجہ سے تمہارے اندر داخل ہوگئی ، روزے کا مقصد تو نار کو روکنا تھا تُو بھوکا تو رہا لیکن تُو فلمیں دیکھ رہاہے ، تُو گانے سُن رہا ہے ، آئٹم سونگ سُن رہا ہے ۔ کیا کرتے ہیں آج کے مسلمان دن رات، سحری کرکے فلم لگا کے بیٹھ گئے۔ کیا مقصد ہے روزے کا ، کہ نار کا راستہ روکا جائے۔ چلو ٹھیک ہے کھانا پینا چھوڑ دیا اٹھارہ گھنٹے کے لئے ، وہ نار نہیں آئی لیکن وہ جو گندے گندے ڈانس دیکھ رہے ہیں غلط غلط باتیں کر رہے ہیں یعنی نازیبا گفتگو کر رہے ہیں لوگوں کے اوپر بہتان لگا رہے ہیں تکبر کا اظہارکر رہے ہیں لوگوں سے نفرتیں کر رہے ہیں بغض و عناد سینے میں پالا ہوا ہے وہ تو نار کا دھارا بہہ رہا ہے کیسے روزہ ہوگا ! کیسے فیض ہوگا ایسے روزہ رکھنے سے، کبھی بھی تقویٰ حاصل نہیں ہوگا ۔ اہلِ اسلام سے میراسوال ہے کہ آپ اتنے سالوں سے روزے رکھ رہے ہیں کیاہر سال ا ٓپ متقی بن جاتے ہیں ؟ یہ تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو! ہم نے تم پر روزہ اس لئے فرض کیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ اور تم سے پہلے جو اُمتیں تھیں اُن پر بھی ہم نےاسی مقصد کے لئے روزہ فرض کیا تھا ۔ اب آپ صرف روزہ رکھے جارہے ہیں بس دھڑا دھڑ۔ عید الفطر کے موقعے پر یہ سوچتے ہیں کہ بھئی ایک مہینے پہلے میں جتنا بدمعاش تھا کیا ایک مہینہ کا روزہ جو میں نے رکھے ہیں ایک مہینے کے اُن روزوں کے رکھنے کے بعد میری بدمعاشی اندر کی کم ہوئی ہے کہ نہیں ۔ میرے اندر کا شیطان کچھ کمزور ہوا ہے کہ نہیں۔ یہ خیال ہی نہیں آتا۔ جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ بھئی چاند نظر آگیا عید الفطر کا، داڑھی کٹوائی ، ٹوپی پھینکی، سارے کا سارا اسلام بھول گئے اور پارٹیاں شروع۔ ایسے تو نہیں ہوتا روزہ۔
موجودہ دور میں روزے کا فائدہ کس کو ہوگا ؟
یہ جو نار آپ کے نفس میں آرہی ہے ، یہ صرف کھانے پینے کے وقت نہیں آتی ، ہر وقت نار آپ کی آرہی ہے ، فضاؤں سے، لوگوں سے میل جول رکھا ہوا ہے اُن کے باطنی کیڑے اُڑ اُڑ کے گناہوں کے آپ کو چپٹ رہے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے نار آرہی ہے ۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ چوبیس گھنٹے نور آنا بھی شروع ہو۔ دو گھنٹے کی تراویوں سے تقویٰ نہیں آئے گا، اٹھارہ گھنٹے کی بھوک اور افلاس سے تقویٰ نہیں آئے گا۔ چوبیس گھنٹے نار آرہی ہے چوبیس گھنٹے نور آئے گا تب فرق پڑے گا۔ چوبیس گھنٹے نور آئے گا تب فرق پڑے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ
جو ماہِ رمضان میں رمضان الکریم کے فیوض و برکات سے حقیقی معنوں میں مستفیض ہونا چاہتے ہیں وہ ذکرِ قلب کی نعمت تلاش کریں تاکہ اُن کے دل میں اللہ کا نام اللہ کا ذکر اور نور داخل ہو اور یہ دل نور بنانے کی فیکٹری بن جائے اور چوبیس گھنٹے نور کی رسد شروع ہوجائے۔ جب چوبیس گھنٹے نور کی رسد شروع ہوجائے گی تو اندر ہی اندر نور ، آپ سو رہے ہیں اور آپ کا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ یہ ہروقت کی تراویح ہے یہ ہر وقت کی نماز ہے ، یہ ہر وقت کا روزہ ہے۔ ایک دن آئے گا کہ یہ دل کی اللہ اللہ ہی تمہارے نفس کو پاک اور صاف کردے گی”
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر 16 مئی 2018 کو یو ٹیوب پر لائیو سیشن میں رمضان المبارک کے موقع پر کئی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔