کیٹیگری: مضامین

حروف مقطعات قرآن مجید میں استعمال ہونے والے وہ عربی ابجد کے حروف ہیں جو قرآن کی بعض سورتوں کی ابتدائی آیت کے طور پر آتے ہیں۔ مثلاً الم ، المر وغیرہ ۔ یہ عربی زبان کے ایسے الفاظ نہیں ہیں جن کا مطلب معلوم ہو۔ ان پر بہت تحقیق ہوئی ہے مگر ان کا مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ان حروف کے بارے میں زیادہ محققین و مفسرین کا خیال ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی انسانیت پر بے انتہا کرم نوازی ہے کہ یہ راز افشاں کئے جارہے ہیں نہ صرف راز بلکہ اس کا فیض بھی یہاں موجود ہے تاکہ لوگ اس کی طلب کریں اور دوام حاصل کر کے بے قرار ارواحوں کو قرار نصیب ہو ۔

رازجستجو کے لئے عریاں کئے جاتے ہیں:

یہ جو حروف مقطعات ہیں اس میں موجود ہر ایک لفظ ایک علم کا نشان ہے اور اُس علم کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔لیکن جب لوگوں کو راز بتایا جاتا ہے تو آپ پریشان ہو جاتے ہیں اور اس پریشانی کی وجہ یہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک چھپی ہوئی بات ہوتی ہے اور آپ کے کانوں کو وہی چیز بھلی لگتی ہے جو آپ بار بار سنتے ہیں، بار بار سننے کی وجہ سے وہ چیز آپ کو حق لگتی ہے بھلے کوئی بار بار جھوٹ ہی کیوں نہ بولے آپ کو وہی سچ لگے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کوئی راز معلوم ہو کوئی نئی بات پتہ چلے تو اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اب جیسے ہم کسی شہر کے بارے میں کہیں کی بھئی کراچی ایک شہر ہے اورآپ آکر کہہ دیں کہ یہ جھوٹ ہے ۔ بناء تحقیق کئے کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں ۔ اسی طرح آپ نے کراچی ،لاہور،پشاور، دہلی ،بمبئی ،دبئی ، ابو ظہبی،نیویارک،واشنگٹن،لندن،پیرس ان شہروں کے نام بہت سنے ہیں لیکن اچانک سن لیں آپ “کلیمنجارو ” تو حیرت سے کہیں گے یہ کونسا شہر ہے۔ یا پھر آپ کو کہا جائے “بھائی پھیرو” تو پھر وہی حیریت کے تاثرات نمایاں ہوں گے ۔ لہذا جو چیز آپ نے سنی ہوئی نہیں ہے لوگ اتنے بے صبرےثابت ہوئے ہیں کہ تحقیق کرنے سے پہلے ہی اُس کا انکار کر دیتے ہیں۔

حضورؐ نےمختلف مذاہب میں بگاڑ مختلف ہستیوں کے زریعے درست کیا:

نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ “میں کسی دین کو جھٹلانے نہیں آیا بلکہ اُن میں جو ردوبدل اور بگاڑ پیدا ہو گیا ہے وہ صحیح کرنے آیا ہوں “۔ تو پھر آدم صفی اللہ کی جو تعلیم آئی اُس میں بگاڑ پیدا ہوا ہوگا اُس کو محمد ﷺ نے کیسے درست کیا ہوگا اور جب آدم صفی اللہ کی تعلیم کو درست کردیا تو پھر وہ آدم صفی اللہ کی تعلیم ہی رہی یا پھراسلام کا حصہ بنی تھی!! ابراہیم خلیل اللہ کی تعلیم میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا تھا تو حضورؐ نے آکر اُس ردو بدل کو صحیح کردیا تو اب کیا ہوگا اب وہ ابراہیم علیہ اسلام کی تعلیم ہی رہی گی یا اسلام کا حصہ بن جائے گی!! نہیں وہ تعلیم اسلام کا حصہ کیوں بنے گی؟ مثال کے طور پر اگر آپ کی بیوی بیمار ہے آپ پریشان ہیں اور میں جاکر اُسے گولیاں کھلا دوں تو کیا وہ میری بیوی بن جائے گی ۔ میں نے تو اُسے صرف دو گولیاں کھلا کے ٹھیک کیا ہے وہ آپ ہی کی بیوی رہے گی۔ ایسا تو نہیں ہوتا تو زرا غور فرمائیے کتنی چھوٹی سی بات فرمائی ہے اور آپ نے کبھی غور نہیں کیا اِس پر جب نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی دین کو جھٹلانے نہیں آیا اُس میں جو ردوبدل ہوگیا بگاڑ پیدا ہوگیا اُس کو درست کرنے آیا ہوں ۔ معلوم یہ ہوا وہ جتنے علوم آئے ہیں اِس سے پہلے ان کی بھی آپ سے تصحیح فرمائی اور جو آپ نے اُن کے بگاڑ کو دور کیا تو کیا اُن کے بگاڑ کو دور کرکے مسلمانوں کو دے دیا ؟ نہیں ۔ پھر وہ بگاڑ کیسے دور کیا ؟
بی بی فاطمہ کو جب حکم دیا تھا کہ تم میری امت کی پہلی سلطان الفقراء ہے جا ؤہندوؤں کو فیض دو، بی بی فاطمہ کے ذریعے اُس بگاڑ کو درست کیا تو مختلف مذاہب کے اندر جو بگاڑ پیدا ہوا وہ مختلف ہستیوں کے ذریعے محمدالرسول ﷺ نے درست فرمایا جیسے الیاس علیہ ا لسلام کو کہا کہ آپ یہودیوں کا بگاڑ درست کردیں ۔ خضر علیہ السلام کو کہا کہ آپ اُن لوگوں کا بگاڑ درست کردیں کہ جو آدم صفی اللہ کی تعلیم سے نکلے اور جومختلف شاخوں میں بَٹ گئے۔ یہ تمام چیزیں نبی کریم ﷺ نے درست فرمائیں اور اُس کے ساتھ ساتھ اسلام بھی پیش کیا کیونکہ آپ کو کوئی بتانے والا نہیں آیا۔

حروفِ مقطعات کا علم ، علم ِلدنی ہے :

قرآنِ مجید وحی الہی ہے اور اس وحی الہی کے اندر جو حروفِ مقطعات آئےہیں وہ حروف مقطعات کا جو علم ہے وہ علمِ لدنی ہے ۔ قرآن میں اس لیئے آگیا کہ جتنا علمِ لدنی نبی کریم ﷺ کی معارفت سے، آپ کے وسیلے سے اللہ نے آپ کی اُمت کے ولیوں کو دینا تھا ،وہ سارا اُس میں رکھ دیا ۔اس کے ما سوا بھی اللہ تعالی اپنے خزانہ خاص سے علمِ لدنی دے سکتے ہیں ۔ یہ حروف علمِ لدنی ہیں اور علمِ لدنی جو ہے اگر آپ اس لفظ کو توڑیں تو لدُن جو ہے “کی جانب” کے لئے تعبیر کیا جاتا ہے۔علم لدُن اللہ ، وہ علم جو اللہ کی طرف سے آیا ہو۔ یاد رکھیں کی قرآن ، انجیل ، توریت یہ اللہ کی طرف سے نہیں آئیں یہ اُم الکتاب لوح محفوظ سے آئی ہیں ۔

“وحی کا تعلق لوح محفوظ سے ہے اللہ کی ذات سے متعلقہ جو علم ہے اُس کا تعلق اللہ کی ذات سے ہی ہے اللہ کی ذات کا علم “اُم الکتاب “میں نہیں لکھا “اُم الکتاب” سے جو علم آیا ہے وہ عام لوگوں کے لیے آیا ہے جیسے عبادت کرنے کا طریقہ ، دعا مانگنے کا طریقہ ،جنازہ پڑھنے کا طریقہ، درود پڑھنے کا طریقہ یہ تمام چیزیں اُم الکتاب لوح محفوظ سے آئی ہیں اور وہ علم جس سے اللہ ملتا ہے وہ اللہ کی طرف سے آتا ہے وہ علمِ لدنی ہے “

قرآن مجید میں علمِ لدنی کے اشارے موجود ہیں جیسے کہ
الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ۔۔۔۔۔۔ مندرجہ ذیل وضاحت “الم” کا مطلب ہے اور اگر آپ اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ الف سے” اللہ” ہو سکتا ہے تو پھر وہ لفظ بتاؤ جو “الف” سے شروع ہو اور اللہ سے بہتر ہو ۔ پھر اللہ کے علاوہ اس کا کوئی اور مطلب نہیں نکل سکتا ہے ۔
الف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ
ل سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
م سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد الرسول اللہ
اور بھی حروف مقطعات ہیں جیسے سورۃ یونس اور ھود میں آیا ہے ۔
الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو الفاظ ہیں” الرٰ” کے یہ حکمت والی کتاب کی نشانیاں ہیں۔ ایک اور جگہ آیا ” المرٰ”

علم ِلدنی قرآن مجید میں موجود نہیں ہے :

قرآن میں بہت سارے حروف مقطعات موجودہیں۔ وحیِ الٰہی عام لوگوں کے لئے ہوتی ہے اور جو علمِ لدنی ہے وہ خاص لوگوں کے لیئے ہوتا ہے ۔اب چونکہ علمِ لدنی قرآنِ مجید میں موجود نہیں ہے لہذا لوگ اِس کو جھٹلا دیتے ہیں اور وہ قرآن میں ہو بھی نہیں سکتا لدن کا مطلب ہی ” کی جانب” یعنی اللہ کی طرف آیا ہوا علم ہے۔ اللہ نے وہ خاص علم اپنے پاس رکھا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اُس کو دیتا ہے ۔ جب آپ کو بتایا جاتا ہے تو آپ ہر چیز کو قرآن میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں سوئی بنانی ہو ، بم بنانا ہو ایٹم بم بنانا ہو یہ سب قرآن میں موجود ہے، یہ جاہل مولویوں کی باتیں ہیں۔ پھر کہتے ہیں یہ سائنس نے جو ترقی کی ہے اُنہوں نے قرآنِ مجید سے یہ علم لیا ہے ۔ کافروں نے قرآن پڑھا اور راکٹ بنا لیا اور مومنوں نے قرآن پڑھا توفرقے بنا لیئے ۔
سائنس کا جو علم ہے یہ ایسا ہی ہے کہ جیسےیہاں پر کوئی عجیب و غریب قسم کا فروٹ جو پہلے کسی نےکبھی نہ کھایا ہو وہ لا کر رکھ دیں اور اس کا نام کسی کو نہ بتا ئیں ۔ لوگ آئیں گے اور کاٹ کر کھائیں گے ۔ پھر دوسرے دن کھائیں گے پھر تیسرے دن کھائیں گے ۔ پہلے دن کھائیں گے توکہیں گے کہ یہ سیب جیسا لگتا ہے اُس کے بعد پھر سیب ٹرائی کریں گے تو کہیں گے نہیں یہ سیب جیسا تو نہیں ہے ۔ یعنی اپنے تجربات سے روزانہ کوئی نا کوئی چیز اُن کو کھا کہ پتہ چلے گی ،پہلے کہیں گے یہ سیب جیسا ہے پھر کہیں گے کہ یہ ناشپاتی جیسا ہے سیب ہارڈ ہوتا ہے اور اتنا جوسی نہیں ہوتا کیونکہ ناشپاتی جو ہے وہ تھوڑے سے جوسی ہوتے ہیں پھر کہیں گے نہیں یار یہ تو پپیتے جیسا ہے بالا خر آپ کی رائے دن بہ دن تبدیل ہوتی جائے گی ،جیسے جیسے تجربہ آپ کا بڑھے گا ویسے ویسے آپ کی رائے تبدیل ہوتی جائے گی اور پھر جتنا زیادہ وقت گزرے گا جتنا زیادہ تجربہ ہوگا آپ اُس کی حقیقت کی تہہ میں پہنچتے جائیں گے اور ایک دن آئے گا کچھ نہ کچھ دریافت کرلیں گے۔ سائنس میں بھی یہی ہے سائنس پہلے مفروضہ قائم کرتی ہے اُس کے بعد جو ہے اُس کو سمجھتی ہے کہ ہاں یہ حق ہے کچھ عرصہ اور گزرتا ہے لوگ اور تحقیق کرتے ہیں اُس کے اوپر جو ہے ایک نئی بات وارد ہوجاتی ہے وہ کہتی ہے نہیں تم غلط کہتے تھے یہ بھی دیکھو اور بھی دریافت ہوتی ہیں اور اِس طرح کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
اب جیسے جو ہم گاڑیاں چلاتے ہیں پہلےصرف پیٹرول کی گاڑیاں ہوتی تھیں جس سے بڑا دھواں اُٹھتا تھا پھر اِنہوں نے سوچا یہ دھواں کیوں اُٹھ رہا ہے یہ کم کرو پھر انہوں نے تحقیق کرنے کے بعد یہ پتہ چلایا کہ اگر ہم پیٹرول سے “لیڈ” نکال دیں کیا ہوتا ہے لیڈ؟ پاکستان میں وہ جو پنسل بنتی ہیں وہ اُسی لیڈ سے بنتی ہیں جو پنسل لکھنے کے کام آتی ہیں وہ اُس لیڈ سے ہی بنتی ہیں وہ پیٹرول جو جلتا ہے اُس سے دھواں نکلتا ہے تو پھر اِنہوں نے کیا کیا کہ پیٹرول میں سے لیڈ نکالنا شروع کیا تو اب لیڈ نکالنا شروع کیا تو پیٹرول کم ہونے لگ گیا ا۔ُس کی پھر اِنہوں نے قیمتیں بڑھا دیں پھر کوئی پیٹرول ایسا ہوا کہ جس کےسے اندر 85% لیڈ نکالا ہے کوئی ایسا ہوا جس کے اندر 92% لیڈ نکالا ہے جتنا زیادہ لیڈنکالا ہے اُتنا مہنگا ہوتا گیا ۔ پھر اِنہوں جو ہے وہ ڈیزل بھی بنا دیا اور اُس کے بعد اُنہوں نے ٹرا ئی کیا کہ قدرتی گیس کے اوپر گاڑی چلائیں اب جب انکو یہ پتا چلا کہ پیٹرول ختم ہونے والا ہے ڈیزل بھی ختم ہونے والا ہے تو پہلے سے ہی اِنہوں نے اب الیکٹرک کار بنانا شروع کردیا۔ اب یہ آگئی الیکٹرک کار پہلے اِنہوں نے ہا ئبرڈ شروع کی کہ آدھا الیکٹرک سے چلے آدھا پیٹرول سے چلے ،اُس کے بعد جو ہے الیکٹرک پر آرہے ہیں اب جس طرح سے ٹیسلا گاڑی ہے پوری الیکٹرک ہے ایک دفعہ اُس کو چارج کردو ساڑھے تین سو میل چلے گی ۔اب یہ آہستہ آہستہ ترقی ہورہی ہے ہم سمجھتے تھے کہ صرف مولوی ہی چالاک ہیں لیکن یہ جو ہمارے سائنسدان ہیں یہ بھی بڑے تیز ہیں اِنہوں نے بھی ٹیکنالوجی کو روکا ہوا ہے اگر یہ گاڑی کی جو چھت ہے وہ پوری سولر پینل کی بنا دیں تو گاڑی جو ہے چلتی بھی رہے اور خود بخود چارج بھی ہوتی رہے اور یہ کرسکتے ہیں لیکن بس وہ آہستہ آہستہ تھوڑے تھوڑے راز بتاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بہت آگے چلی گئی ہے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن کرتے نہیں ہیں ۔لیکن ہم روحانی راز چھپاتے نہیں ہیں اب آہستہ آہستہ کھول رہے ہیں جیسے بائبل میں حضور ﷺکا نام آیا اِسی طرح قرآن میں امام مہدی کا نام آیا۔ امام مہدی کا نام کہاں ہے قرآن میں ۔

الرٰ ریاض الجنہ کا راز ہے :

الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ
الف سے ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہے
ل سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
ر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریاض ہے ۔
نبی پاک ﷺ نے کئی مواقعوں پر ریاض الجنہ کا ذکربھی فرمایا اور جہاں مسجد نبوی میں آپ نماز ادا کرتے وہاں جس جگہ بیٹھتے وہاں امام مہدی کی یاد میں بیٹھ کے اشک باری کرتے وہاں ملاقاتیں ہوتیں اُس خطہ کا نام “ریاض الجنہ” پڑ گیا یہ بہت باتیں ہیں جو آپ کو آہستہ آہستہ سمجھ میں آئیں گی۔

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ
سورۃ یونس آیت نمبر 1 تا 2

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ کہ یہ جو الرٰ ہے یہ حکمت والی کتاب کی نشانی ہے ۔ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اور انسانوں کو بڑا عجیب لگے أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ کہ جب ہم اُن انسانوں میں سے کسی کے اوپر کوئی وحی کردیں۔ اس کہ پاس یہ علم کہاں سے آتا ہے یہ کیا بول رہا ہے اُن کو بڑا عجیب لگتا ہے انسانوں کو اب یہ بات جو ہے حضور کیلئے تو نہیں کہی جارہی یہ تو انسانیت کی بات ہورہی ہے ۔پھر وہ جو ہے انسانوں کو وارننگ دیتا ہے کہ ایسا مت کرنا اور پھر وہ لوگوں کو اُمید بھی دلاتا ہے خوشخبریاں بھی سناتا ہے کن لوگوں کو جو مومن ہوگئے ۔پھر اُن لوگوں کے لیئے جو اِس “الر” سے فیض یافتہ ہوجائیں گے اُن کیلئے یہ ہے اللہ اُن کو ثابت قدمی عطا فرما دے اور یہ ثابت قدمی اُن کو اُن کے رب کی طرف سے ملے گی ۔اب ہم کو چونکہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں تو جو غیر مسلم ہوتا ہے وہ کافر ہے بھئی اُس کا مطلب بھی تو سمجھو کافر کا مطلب ہوتا ہے جو حق کو جھٹلا دے۔ ۔ کہ یہ جو اُس ذات کو جھٹلا دیں گے تو وہ یہ کہیں گے کہ یہ تونرا جادوگر ہے یہ کیسی باتیں کرتا ہے ۔
” الرٰ” یہ ریاض الجنہ کا عالمِ غیب کا راز ہے اب جب ہم یہ بات بتاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہاں سے لے آئے یہ کہانی بنا کر اگر ہم یہ کہانی بنائیں تو پھر رٰریاض سے فیض نہ ہو کسی کو اگر ہم یہ کہیں کہ یہ رب کا خاص نام ہے اور ہم جھوٹ کہیں تو پھر وہ رب کا خاص نام اگر جھوٹا ہواتو تمھارے دل میں تو نہیں جائے گا نا۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی الٹی سیدھی جھوٹی کہانی بنا لے اور اُس کہانی کے اوپر تم کو روحانی طور پر چلا بھی دے کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی خیالی پلاؤ پکائے اور کھا کے پیٹ بھی بھر لے !! ہم گمراہ بھی ہوجائیں اور ہم جو ذکر دے رہیں ہیں رٰریاض کا وہ بھی ہمارا من گھڑت ہو اور پھر بھی رٰریاض تمھارے سینوں میں دھڑکے پھر بھی منور کردے ،تمھاری روحوں کو پھر بھی خوابوں میں اٹھ اٹھ کر تم دیکھو کہ یہ رٰریاض کی آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں یہ تو قرآن کے راز اور بھید ہیں جس کو اللہ چاہتا ہے اُس کو توفیق دے دیتا ہے اور اِس کا فہم اور ادراک عطا کردیتا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 24 اگست 2017 کی یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذہے۔

متعلقہ پوسٹس