کیٹیگری: مضامین

سنی جو ہے باطنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ، آدھی سچی بات اور آدھی اس میں اپنی بات لگا کر گمراہی کی طرف چلا گیا ۔ اور یہی حال اہل تشیع حضرات کا بھی ہے ۔ مولا علی سے جو تعلیم سامنے آتی ہے اس تعلیم کو انھوں نے منطق سے جوڑ کر اسکے بھی کئی مطلب نکال لئے ۔ لیکن تمام سنیوں اور تمام اہل تشیعوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ کریں ،لڑائی جھگڑا نہ کریں ۔ نہ کسی کو کمتر سمجھیں نہ خود کو سب سے اعلیٰ سمجھیں ۔ جب تک باطنی علم نہ ہو بات پوری سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ اور پھر عقیدہ آپ کا کیا ہونا چاہیے یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آپ کو حقیقت پتہ چل جائے ۔
جب اہل تشیعوں نے کہا کہ قرآن کے چالیس پارے ہیں تو ان کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ تیس پارے تو موجود ہیں باقی کہاں ہیں؟ تو کچھ نے یہ کہا کہ جو باقی دس پارے تھے وہ ابو بکر کی بکری کھا گئی ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا وہ دس پارے گھاس کے اوپر لکھے ہوئے تھے کہ بکری نے کھا لئے ۔ تو یہ ساری غلط غلط باتیں زمانے میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ ہمارے مسلمان قوم کا المیہ یہ ہے کہ کسی ایک فرقے نے صحابہ کرام کی عظمت کو اپنا مرکز بنا لیا اور کسی نے کچھ اور۔ جیسے پاکستان میں جھنگ سے سپاہ صحابہ کی ایک تحریک نکلی انھوں نے حق چار یار کا نعرہ لگا دیا ۔صحابہ کرام کی عظمت کی باتیں کیں۔ اور اس کی انہوں نے اپنی Speciality بنا لیاکہ بس صحابہ کرام کی عظمت کا بیان کرنا ہے اہل بیت کا نہیں ۔ تو انہوں نے صحابہ کرام کو بہت بڑا درجہ دے دیا ۔ پھر اب یہ جو سنی ہیں انہوں نے عشقِ مصطفی کی تو بات کی اور اس پر بڑا زور دیا لیکن اہل بیت کی بات ہی نہیں کی۔ تو اسطرح یہ اُن کی Speciality ہو گئی ۔ اور جو شیعہ ہیں انہوں نے اہل بیت کو پکڑ لیا ۔ انہوں نے حضورﷺ کا ذکرہی نہیں کیا۔ اب یہ سب فرقے والے تھوڑی تھوڑی چیزیں لے کر اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔

دلیل:

مثال کے طور پر جیسے آپ چار ٹائر لے لیں اور اُس کو گاڑی سمجھ لیں ، پھرکسی اور نے اسٹیرنگ ویل لے لیا اور سمجھ لیا کہ یہ گاڑی ہے۔ کسی نے انجن گھر پر اُٹھا کر رکھ لیا اور سمجھ لیا کہ یہ گاڑی ہے۔ اب سب اسی چکر میں ہیں کہ جو جو پرزے ان کے پاس ہیں وہ مکمل ایک گاڑی ہے۔ لیکن ان کے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اگر یہ مکمل گاڑی ہوتی تو چلتی ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین نے جتنی عزت و احترام ، جتنی محبت حضور ؐ کے لئے مختص کی ہے اتنی آپ کے دل میں ہونی چاہیے۔ اور جتنی عزت صحابہ کرام کی ہے اتنی ہی کریں۔ جتنا اہل بیت عظام کا احترام ضروری ہے دل وجان سے اُن کا بھی احترام کریں۔ کسی ایک کا احترام کریں اور دوسرے کا نہیں تو یہ غلط بات ہے ۔
اب چالیس پاروں کی جو بات ہے ۔ قرآن کے یہ جو تیس پارے ہیں یہ تیس کے تیس پارے نفس کی اصلاح کیلئے اُترے ہیں اور یہ علم ظاہر کہلاتا ہے۔ ابو ہریرہ نے صحابہ کرام سے کہا کہ

’’ مجھے حضور ؐ سے دو طرح کا علم عطا ہوا ایک تو تم کو بتا دیا ۔ دوسرا اگر تم کو بتاؤں تو تم مجھے قتل کر دو‘‘

جو جس علم کے اوپر اُن کو شک اور خوف تھا کہ وہ علم اگر انہوں نے بتا دیا تو ان کو قتل کر دیا جائے گا۔ وہ علم دل والا علم تھا ۔ اب وہ جو دل والاباطنی علم حضورؐ کو عطا ہوا وہ صرف حضور پاک ؐ کو تو عطا نہیں ہوا تھا ۔ وہ علم عیسیٰ کو بھی عطا ہواتھا ، موسی کو بھی ، ابراھیم کو بھی ہوا اور آدم صفی اللہ کو بھی عطا ہوا ۔ جتنے بھی یہ مرسلین آئے اِن کو دو علم عطا ہوئے ایک ظاہر ی اور ایک باطنی علم عطا ہوا۔ ظاہری علم عام لوگوں کیلئے اور جو باطنی علم تھا وہ خواص کیلئے اور اُس نبی کیلئے۔ تو ہر مرسل نے وہ جو باطنی علم تھا اس کا آدھا حصہ اُن کیلئے اور آدھا حصہ اُن کے خواص کیلئے رکھا۔ اسطرح باطنی علم کے دو حصے ہو گئے۔

پانچ مرسلین آئے اور پانچوں مرسلین کے اوپر باطنی علم بھی آیا ۔ تو ہر مرسل کا باطنی علم جب دو حصوں میں ہواتو پانچ علم کے دس حصے ہو گئے۔ وہ جو دس حصے باطنی علم کے ہیں اگر اُن دس حصوں کا تم کو پتہ ہوتا تو پھر یہی کہتے نا کہ قرآن کے تیس پارے نہیں چالیس پارے ہیں۔

اگر اسطرح کہیں گے کہ قرآن کے چالیس پارے ہیں تو لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئے گا ۔ اِسطرح سے کہیں کہ یہ جو قرآن کے تیس پارے ہیں یہ ظاہری علم ہے ، حضور پاک کو باطنی علم بھی عطا ہوا تھا۔ اور جب حضورپاکؐ کو عطا ہوا تھا تو باقی مرسلین کو بھی ہوا تھا۔ وہ باطنی علم ہے ۔ اور اُسی باطنی علم کے زریعے آدم صفی اللہ کے ماننے والے خاص ہوئے ۔ اسی باطنی علم کے زریعے ابراھیم خلیل اللہ کے ماننے والے خاص ہوئے ۔ جن کے پاس وہ علم تھا وہ خاص ہو گئے اور جن کے پا س نہیں تھا وہ فتنہ و فساد کا شکار ہو گئے ۔ اسی طرح عیسیٰ کے ماننے والوں میں بھی جن کو وہ خاص علم ملا وہ مومن اور عیسیٰ کے حواری بن گئے ۔ اور جن کو وہ خاص علم نہیں ملاور اسی طرح ٹکڑوں میں بٹ گئے ، فرقوں میں بٹ گئے۔ اور جب حضور ؐ تشریف لائے تو آپ کی بارگاہ سے بھی جن کو دل والا علم عطا ہو گیا وہ صحابی یا رسول اللہ کہلائے اور حضورؐ کے دورکے بعد وہ کوئی فقیر کہلایا ، کوئی ولی کہلایا ، کوئی درویش کہلایا ، کوئی نقشبندی بن گیا ، کوئی سہروردی بن گیا ، کوئی قادری بن گیا ، کوئی چشتی بن گیا ۔ لیکن یہ سب حق تھے کیونکہ اِن کے پاس دل والا علم تھا ۔آآج مسلمانوں کو وہی عالم ہے کہ جب تمھارے پاس سے دل والا علم چلا گیا ، جب یہ علم تمھارے پاس نہ رہا کہ قلب کی اصلاح کیسے ہو گی ، نفس کی طہارت کیسے ہو گی ؟ توپھر تم شیعہ، سنی ، وہابی بن گئے ۔ اب جو سنی ہیں وہ یہ نا سمجھیں کہ وہ حق پر ہیں اور شیعہ غلط ہیں ۔ کیونکہ حق پر وہ ہے جس کے اندر حق ہے ۔ نہ توسنیوں کی رسول اللہ تک رسائی ہے اور نہ شیعوں کی رسول اللہ تک رسائی ہے ۔ جب تم دونوں کی رسول اللہ تک رسائی نہیں اور تمھارے دل کالے ہیں تو پھر اب صحیح اور غلط کون ہے ۔ صحیح وہ ہے جس کا قلب منور ہے ، جس کا سینہ منور ہے ۔ جس کے سینے میں نور آگیا وہ صحیح ہے بھلے وہ شیعہ ہو بھلے وہ سنی ہو ۔ یہ حق ہے ۔اور حق پر وہی ہے جس کے دل میں حق ہے ۔ جس نے بھی اپنے سینے کو صاف کر لیا ، منور کر لیا ، جس نے بھی شرح صدر حاصل کر لی تو اسکو اللہ کا نور مل جائے گا ۔اور جس کی شرح صدر نہیں ہوئی وہ اسی طرح فرقوں میں ذلیل اور رسوا ہوتا رہے گا۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ
سورة الزمر آیت 22
جس نے اسم ذات اللہ کے زریعے شرح صدر کر لی تو اللہ تعالی کا نو ر اسی کو ملے گا ۔اور تباہ ہو جائیں گے وہ لوگ جن کے دلوں میں اتنی سختی ہے کہ اللہ کا ذکر وہاں داخل ہی نہیں ہو پاتا

کیونکہ جب تک قلب منور نہیں ہوگاتو یہ نمازیں اور سجدے تم کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔

متعلقہ پوسٹس