کیٹیگری: مضامین

آسمانی کتابوں کی حقیقت:

چار آسمانی کتابیں ہیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید ۔ تین سو تیرہ دین قائم ہوئے ہیں لیکن تین سو تیرہ رسول نہیں ہیں۔جو تین سو تیرہ دین ہیں اور آسمانی کتابیں چار ہیں تو پھر اِس کا مطلب یہ ہوا کہ چار ہی دین ہونگے جو آسمانی کتابوں پر بنائے گئے ہیں۔ باقی جو ادیان تھے وہ بغیر روحانی تعلیم کے تھے۔ اب یہ بات آپ کو سمجھ میں آئے گی کہ جو چودہ ہزار آدم دنیا میں آئے ہیں اُن میں جو آخری آدم آیا ہے یعنی چودہ ہزار کا جو آخری آدم ہے وہ آدم صفی اللہ ہیں اور وہاں سے باطنی تعلیم شروع ہوئی ہے۔ اُس سے پہلے جتنے بھی دین آئے ہیں اُس میں کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی، بس تھوڑی سی تعلیم تھی کہ عبادت کرو، یہ کرو، وہ کرو تو ختم اور نہ شیطان نے اُن سے دشمنی کی۔ زبور باقاعدہ ضابطہ حیات نہیں ہے۔ زبور مناجاتِ الہی ہے جیسے ہم حمد اور نعت پڑھتے ہیں کہ حضورؐ کی شان میں پڑھیں تو نعت ہے اور اللہ کی بارگاہ میں اگر کلام پڑھا جائے تو وہ حمدِ باری تعالی کہلاتا ہے۔ اگر کوئی بزرگ جو فوت ہوگئے ہیں اِس دنیا سے چلے گئے ہیں تو اُن کی شان میں اگر کچھ پڑھا جائے تو اُس کو منقبت کہتے ہیں اور اپنے مرشد کی شان میں پڑھیں تو وہ قصیدہ کہلاتا ہے۔ اسی طریقے سے جو اللہ کی بارگاہ میں پیار، محبت،اپنی باطنی خواہشات کیلئے جو گزارشات پیش کی جاتی ہیں اُس کو مناجات کہتے ہیں۔ جو لفظ “مناجات” ہے وہ نجات سے نکلا ہے تو مناجات کا لفظی ترجمہ اللہ سے مغفرت نجات مانگنا ہوگیا۔ تورات، انجیل اور قرآن شریف میں تعلیم ہے لیکن اولوالعزم مرسلین تو پانچ ہیں۔ آدم صفی اللہ کی تعلیم کہاں گئی! ابھی جو ہم کہتے ہیں کہ چار آسمانی کتابیں ہیں تو یہ ہمارے مولویوں نے چار بنائی ہیں۔ توریت موسٰیؑ کے اوپر، زبور داوٴدؑ کے اوپر، انجیل عیسٰیؑ کے اوپر اور قرآن شریف محمد الرسول اللہ کے اوپر آگیا تو ابراہیمؑ کے اوپر جو تعلیم آئی وہ کدھر ہے اور آدم صفی اللہ جنھوں نے نبوت شروع کی اُن کی تعلیم کدھر گئی، یہ تو ہم نے کتابوں میں ہی پڑھا ہے اور مولویوں نے ہمیں بتایا ہے کہ چار آسمانی کتابیں ہیں تو وہ کتاب جو آدم صفی اللہ لے کرآئے ہونگے وہ کدھر گئی! یہ بہت بڑی ذیادتی ہے۔ آدم صفی اللہ کی جو تعلیمات ہیں وہ ہندووٴں کے ہاں جن کو ہم “وید” کہتے ہیں وہ آدم صفی اللہ کی تعلیمات ہیں۔ لیکن آج کا مسلمان اُس کو ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ہندووٴں کے پاس آسمانی کتاب کہاں سے آئی کیونکہ وہ ہندووٴں کو شاید کافر اور مشرک سمجھتا ہے۔ لیکن جو ہندو دھرم ہے وہ آدم صفی اللہ کے دین کی ایک کڑی ہے یعنی ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ مکمل وہی دین ہے بلکہ اُس کی ایک شاخ ہے، کڑی ہے تو اگر اب کڑی ہے تو تعلیم کی ترسیل تو ثابت ہوگئی۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ ہم مسلمان آدم کہتے ہیں اور جو ہمارے ہندو بھائی ہیں وہ اُن کو شنکر بھگوان کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں پر کہا جاتا ہے کہ جو ولی اللہ مقامِ وصل پر پہنچ جاتے ہیں اُن کو ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا روپ ہیں اور ہندو دھرم میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کے اوتار ہیں۔ صرف لفظوں کا فرق ہے لیکن بات ایک ہی ہے۔ اب اگر آپ نہ ماننا چاہیں آپ کے دل میں نفرت بھری ہوئی ہو تو آپ کو کون سمجھا سکتا ہے۔ یہ جو بھگوت گیتا ہے یہ آسمانی کتاب نہیں ہے، یہ ہندووٴں کو جو ولی ہیں اُنہوں نے لکھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ غلط ہے بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ اللہ کیطرف سے براہِ راست نہیں آئی ولیوں نے اِس کو لکھا ہے۔ جو آدم صفی اللہ کے اوپر اللہ کی طرف سے براہِ راست وحی آئی تھی وہ وید ہے تو آپ اُس کو شامل نہیں کررہے ہیں۔ عملی طور پر اگر آپ شامل نہ کریں تو عملی طور پر تو پھر تین ہی آسمانی کتابیں رہ جاتی ہیں کیونکہ زبور تو بس مناجات ہے اور اُس میں کچھ نہیں ہے۔ یہودی زبور پڑھتے ہیں اور عیسائی بھی پڑھتے ہیں لیکن صرف مسلمان نہیں پڑھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم زبور کیوں پڑھیں لیکن اُس میں اُسی اللہ کی حمدِ باری تعالی ہے۔ اللہ کا کلام اگر یہودیوں کو اُتر گیا تو اُس سے آپ کو نفرت کیوں ہے لیکن ہم تو پڑھتے ہیں کیونکہ اللہ کا کلام ہے۔ ہم وید بھی پڑھ لیتے ہیں کیونکہ وہ بھی اللہ کا ہی کلام ہے۔ چونکہ آپ کو پتہ نہیں ہے لہٰذا آپ گستاخیاں کرتے رہتے ہیں۔

کیا تمام مذہب والے حق پر ہیں؟

مذہب کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھو اور کسی کو بُرا مت کہو کیونکہ کیا پتہ اُس کے مذہب میں جو چیز ہے وہ اللہ کیطرف سے آئی ہو اور اگر تم اُن کے خلاف ایک لفظ کہو تو تمہارا ایمان کٹ جائے اور اللہ تم سے ناراض ہوجائے۔

کسی کو بُرا مت کہو۔ اب جیسے سکھ دھرم ہے وہ بابا گورونانک دیو جی سے نکلا اور بابا گرونانک دیوجی کو سیدنا غوثِ اعظمؓ سے فیض ہوا۔ اگر غوثِ اعظمؓ نے بابا گرونانک دیوجی کو اپنا مرید بنایا ہے تو آج اگر سرکار گوھر شاہی کے مریدوں میں راجندر نگم اور سوامی وشواآنند شامل ہیں تو یہ کونسی اچھنبے کی بات ہے یا انوکھی بات ہے۔ کیا نظام الدین اولیاء نے ہندووٴں کو فیض نہیں دیا اور غوثِ اعظم نے فیض نہیں دیا تو سرکار گوھر شاہی کا فیض تو پوری دنیا کیلئے ہے۔ یہ سرکار گوھر شاہی کی کرم نوازی ہے کہ آج ہم کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ جس کو ہم آدمؑ کہتے ہیں ہندو اُن کو شنکر کہتے ہیں تو لڑائی جھگڑا کس بات کا ہے! بہت سے ہندو تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کالکی اوتار محمد الرسول اللہ ہیں۔ دُرگا ماں کا تصور ہی یہی ہے کہ پاک صاف پوِتر ہونے کیلئے، ظاہری اور باطنی نجاست اگر دُور کرنی ہو تو دُرگا ماں کی پوجا کرتے ہیں۔ دُرگا ماں بی بی فاطمہؓ ہیں۔ ہم سیدہ فاطمہ کہتے ہیں اور ہمارے ہندو بھائی اُن کو دُرگا ماں کہتے ہیں۔ یہ نفرتیں تب مٹیں گی جب تمہارے پاس علم آئے گا۔ مولویوں سے علم سُنو گے تو اِس سے مزید نفرتیں بڑھیں گی۔ وہ علم حاصل کرو جس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ

الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ
سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 367
ترجمہ: دو طرح کے علم ہیں ایک علم زبان کا ہے وہ اللہ کی طرف سے انسانوں پر حُجت ہے اور جو دوسرا علم ہے وہ علم قلب کا ہے۔

جو قلب کا علم ہے اِس کے ذریعے انسان کا رابطہ اللہ سے جڑتا ہے۔ جب اللہ سے رابطہ جڑ جاتا ہے تو پھر انسان کے دل کے اوپر اللہ کی طرف سے راز بھی وارِد ہوتے ہیں۔ اُس سے پتہ چلتا ہے کہ سارے مذہب سچ پر تھے، ہم پتہ نہیں یہودیوں کو کیوں بُرا کہہ رہے ہیں! پھر مولوی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے۔ قرآن شریف میں اُن یہودیوں کو بُرا کہا ہے جو خود یہودیت پر قائم نہیں تھے، حضورؐ کے دشمن ہوگئے تھے اور جو شرپسند لوگ تھے۔ اُن عیسائیوں کو بُرا کہا گیا ہے کہ جنھوں نے حضورؐ کو ستایا۔ اُن عیسائیوں کو تو بُرا نہیں کہا جنھوں نے حضورؐ کے صحابہ اکرام کو نجاشہ میں پناہ دی تھی۔ اُن یہودیوں کو بُرا کہاں کہا ہے جن کیلئے حضورؐ نے اپنی مسجدِ نبوی میں چادر بچائی۔ اب اگر سارے یہودیوں کو دوست بنانا حرام ہے تو حضور پاکؐ نے تو اُنکی دعوتیں کی ہیں۔ حضور پاکؐ نے اپنی مسجد کے اندر اُن کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے مسجدِ نبوی میں عبادت کی ہے اور آج کیا کوئی یہودی اور عیسائی وہاں پر جاسکتا ہے! کیوں نہیں جاسکتا جب اللہ کے رسولؐ نے اُن کو آنے کی اجازت دی، اپنے دین کے مطابق عبادت کرنے کی اپنی مسجدِ نبوی میں اجازت دی تو آپ دشمنی کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن میں لکھا ہے لیکن قرآن میں اِن سب کیلئے تھوڑی لکھا ہے بلکہ قرآن میں اُن یہودیوں کیلئے لکھا ہے جنہوں نے اپنا دین چھوڑا ہوا تھا اور جنھوں نے دین میں نئی نئی اخترائیں بنالی تھیں، علم میں رّدوبدل کردیا تھا، توریت میں رّدوبدل کردیا تھا اور جن کے دلوں میں شیطان آکر بیٹھ گیا تھا تو وہ یہودی شرپسند ہیں۔ لیکن جن یہودیوں نے موسٰیؑ، ابراہیمؑ، داوٴدؑ کی صحبت میں جو وقت گزارا اور اللہ تعالی کے کلام کو سینے سے لگایا اور اللہ سے محبت کی تو اُن یہودیوں کو آپ بُرا کیسے کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ تو بُرے نہیں ہیں۔ نہ وہ عیسائی بُرے ہیں جنہوں نے عیسٰیؑ کا ساتھ دیا جن کو قرآن مجید نے حواری کہا۔ عیسٰیؑ کے ماننے والوں میں ایسے بھی نو افراد تھے کہ جو چلے جارہے تھے جب عیسٰیؑ کو پھانسی پر لٹکایا تو اُنہوں کے کہا کہ چلے جاوٴ تو وہ چلے گئے۔ اب اُن کو ڈر تھا کہ رومن اُن کے پیچھے بھاگ کرآئیں گے تو ایک پہاڑ کے سامنے سے گزرتے ہوئے اُنہوں نے اللہ سے دُعا کی کہ

وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ
سورة الکھف آیت نمبر 17-16
ترجمہ: اے اللہ ہمارے ایمانوں کی حفاظت فرما تو سامنے اُن کو ایک غار نظر آیا اور وہ اُس غار میں چلے گئے اور اللہ تعالی نے اُن کے اوپر مراقبہ طاری کردیا۔ اور سُنو یہ قرآن کے الفاظ ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب عیسٰیؑ کے حواریوں نے ہم سے دُعا کی اور ہم نے اُن کو غار میں پہنچا دیا تو پھر ہم نے سورج کو حُکم دیا کہ اُس غار کے پیچھے پیچھے سے جانا اور سورج کی روشنی اُس غار پر نہ پڑنے پائے اور سورج نے اپنا راستہ بدل لیا۔

تمہارے لئے سورج نے راستہ بدلا اور تم سارے عیسائیوں کو گالیاں دے رہے ہو۔ تم تو ایک دوسرے کو راستہ نہیں دیتے تو تمہارے لئے سورج کیا راستہ بدلے گا! جن کیلئے سورج نے راستہ بدل لیا، جن کی دُعا پر اللہ تعالی نے اُن کو تین تین سو سال کے مراقبے بھی لگائے اور نہ صرف اُن کے اوپر کرم کیا بلکہ اُن کے ساتھ جو کُتا تھا اُس کے اوپر بھی تین تین سو سال کے مراقبے لگتے رہے اور وہ تمہاری نظر میں کافر ہیں۔ شرم کرو جن نصارہ اور یہودیوں کو دوست بنانے سے منع کیا ہے وہ اِسی طرح کے یہودی تھے جسطرح کے آج تم مسلمان ہو۔ اُن کے دلوں میں بھی ابراہیمؑ کی تعلیم داخل نہیں ہوئی تھی، شرپسند بن گئے تھے، موسٰیؑ کی تعلیم کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، نام کے یہودی تھے، نام کے نصارہ تھے، دلوں میں ایمان نہیں اُترا تھا، ایسے یہودی اور ایسے عیسائیوں کی صحبت میں بیٹھنے سے قرآن نے منع کیا ہے۔ لیکن جو یہودی اور نصارہ اپنے دین پر قائم تھے تو اللہ تعالی کی تعلیمات کی روشنی میں وحی الہی کی روشنی میں اُن کو تو آپ بُرا کہہ ہی نہیں سکتے اور اُنہی کیلئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت نازل فرمائی کہ

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ
سورة البقرة آیت نمبر 62
ترجمہ: اگر تمہارا اللہ پر ایمان، یومِ آخرت پر ایمان اور عملِ صالح ہے، یہ تین چیزیں ہیں تو پھر تم یہودی ہو، نصارہ ہو، صائبین ہو تو وہ بھی موٴمن ہے۔

صائبین صابئیوں کا وہ مذہب تھا جو ستارے کی پوجا کرتے تھے۔ اِس سے معلوم یہ ہوا کہ کسی دور میں کوئی ستارہ آتا ہوگا جس کی پوجا جائز ہوگی۔ وہ یہ ستارہ نہیں تھا وہ کوئی اور ستارہ تھا۔

آدم صفی اللہ سے پہلے لوگ اللہ کی عبادت کیسے کرتے تھے؟

ایسے کچھ ستارے باطن میں ہیں۔ ایک دن حضور پاکؐ کے پاس جبرائیلؑ آئے اور حضور پاکؐ نے جبرائیلؑ کو فرمایا کہ جبرائیل تمہاری عمر کتنی ہے تو جبرائیلؑ نے کہا کہ مجھے اِس کا تو اندازہ نہیں ہے کہ میری عمر کتنی ہے لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ ایک ستارہ ہے جو ستر ہزار سال بعد نکلتا ہے اور میں نے اُس ستارے کو ستر ہزار بار دیکھا ہے۔ حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ اگر اب وہ ستارہ تمہیں نظر آئے تو تم پہچان لو گے تو جبرائیلؑ نے کہا ہے کہ جی بالکل پہچان لوں گا کیونکہ میں نے تو وہ ستر ہزار بار دیکھا ہے۔ پھر حضورؐ نے اپنی پیشانی پر سے بال ہٹائے اور آپؐ کی پیشانی سے وہ ستارہ نمودار ہوا۔ وہ جو ستارہ نمودار ہوا اُس کو دیکھ کر جبرائیل امین نے چوم لیا۔ اسی طرح جب امام مہدیؑ کے حوالے سے حضور پاکؐ نے باتیں فرمائیں تو امام مہدیؑ کے حوالے سے یہ فرمایا کہ

جب امام مہدیؑ کی آمد کا زمانہ آئے گا تو ایک دُم دار ستارہ نمودار ہوگا۔

پھر ایک حدیث شریف میں آیا کہ

امام مہدیؑ کا جو چہرہ ہوگا وہ کوکبِ دری کی طرح ہوگا۔

اگر باطن میں اِس کا ترجمہ کیا جائے تو یہ ستارہ طفلِ نوری ہے۔ ایک طفلِ نوری ہے اور ایک عکس ہے تو اب یہ دو ستارے ہوگئے۔ وہ جو عکس والا ستارہ ہے اُس کے اندر سے لال اور نیلی شُعاع نکلتی ہے۔ وہ ستارہ چاند کے قریب آتا ہے، سب سے موٹا نظر آتا ہے اور وہ عکسِ اوّل ہوتا ہے۔ تم اپنی اِن آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو اور اُسی کیلئے فرمایا تھا کہ

سترون ربکم کما ترون هذا القمر
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ نماز کے اوقات کا بیان ۔ حدیث 532
ترجمہ: ایک وقت آئے گا جسطرح تم چاند دیکھ رہے ہو تم اپنے رب کو بھی اِسی طرح دیکھو گے اور تمہیں دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔

وہ جو کوکب دری ہے وہ اُسی کی طرف اشارہ ہے۔ اب یہ جو ستارے تھے ہم نے اِنہیں سے کام لیا جب وہ نبیوں کو بھیجا، جب آدم صفی اللہ سے پہلے نبی آئے تھے کہ جن میں کوئی باطنی علم نہیں تھا اور جن میں کوئی آسمانی کتاب نہیں اُتاری تھی تو اب وہ سجدہ کدھر کرتے! وہی ستارہ جو حضورؐ کی پیشانی سے نمودار ہوا، وہی ستارہ جو سرکار گوھر شاہی کے قدموں سے نمودار ہوا تو وہی ستارے لوگوں کو نظر آتے اور اُن سے وہ دعائیں کرتے۔ اُس قدیم قوم کو صابی کہا جاتا ہے۔ وہ آسمان کے ستارے نہیں تھے، یہ آسمان کے ستاروں کو تھوڑی پوجا جاتا ہے کیونکہ یہ تو پتھر ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے بھی کہا کہ
چند سورج حجرِاسود وچ روشن ہوئی تصویر تیری
میرے دل نوں وی چمکا دیو جیویں پتھراں نوں چمکا دیا

اب کعبہ ہو یا حجرِاسود ہو پتھر ہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ ایک پتھر ماربل کا ہے جس پر چلتے ہیں، ایک پتھر وہ ہے جس کو پہنتے ہیں تو کوئی تو فرق ہوگا۔ کعبے میں کتنا ماربل لگا ہوا ہے تو وہ پتھر ہی ہے جس پر تم چل رہے ہو اور پھر ایک پتھر وہ حجرِاسود بھی ہے جس کو تم چوم رہے ہو تو کوئی چیز تو فرق ہوگیا۔ یہ جو اوپر ستارے چمک رہے ہیں یہ پتھر ہیں لیکن تم کو تو صرف چمک نظر آتی ہے۔ اِس لئے تم کو پتہ نہیں چلتا کہ کونسا ستارہ اصلی ہے اور کونسا ستارہ نقلی ہے۔ اب وہ جو ذاتی طفلِ نوری ہوگا اُس کے اندر سے کئی روشنیاں نکلیں گی اور جو صفاتی طفلِ نوری ہوگا اُس سے کوئی روشنی نہیں نکلے گی صرف سفید نکلے گی۔ پھر ایک دن حضور پاکؐ نے فرمایا کہ
یہ جتنے بھی میری باطنی صحبت میں ہیں یہ آسمان پر ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں تو کسی ایک کو بھی پکڑلو ہدایت پاجاوٴ گے۔ وہ اِن صحابیوں کو نہیں کہا تھا بلکہ وہ جو اندر کی صحبت ہے اُن کیلئے کہا تھا، جن کے ستارے اوپر چمک رہے ہیں اُن کیلئے فرمایا تھا۔
اب یہ کوکب دری دم دار ستارہ ہے تو اگر تم اِدھر عربی کا ترجمہ کرو گے تو اُس کا تم کو حدیث کے الفاظ سمجھ میں آئیں گے کہ اُن کا چہرہ کوکبِ دری کی طرح ہوگا لیکن نہیں وہ کوکبِ دری کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونگے جو کوکب دری کے اندر اُس چہرے کو تلاش کرلیں گے۔ ابھی تو تم دیکھتے ہو تو تمہیں صرف روشنی نظر آتی ہے کہ لال نیلے پیلے رنگ کی روشنی آرہی ہے تو جب اُس کے اندر صرف لال رنگ کی روشنی آئے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اِس وقت عالمِ جبروت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جب اُس میں نیلی بھی شعاع آئے تو سمجھ جاوٴ کہ وہ عالمِ ناسوت میں ہیں۔ اب جب یہ غیبت ہوگیا تو ہم نے جب وہ دیکھا تو اُس میں سے لال شعاع بھی نکلے، پیلی بھی نکلے اور نیلی بھی نکلے تو پھر کو یہی سمجھ میں آیا کہ وہ ہرجگہ ہیں۔ اِس لئے پھر ہم نے کہا کہ کوئی نہ کہے کہ وہ یہاں نہیں ہیں کیونکہ نیلی شعاع نکلنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ عالمِ ناسوت میں ہیں۔ جب ہیں تو پھر یہ تم نے مزار کیوں بنایا؟ مزار اِس لئے بنایا کہ تمہارا ایمان نہیں ہے تمہیں دھوکہ ہوگیا ہے۔ ہمارے پاس سب سے بڑی کسوٹی وہ نیلی روشنی ہے جو کوکبِ دری سے نکلتی ہے تو اُس سے ہم کوپتہ ہے کہ اِدھر ہی ہونگے۔ جب تک نیلی روشنی نکل رہی ہے وہ اِدھر ہی ہیں۔ بہت سارے ستارے آسمان پر نظر آئیں گے، جو عام طفلِ نوری ہونگے وہ آپ کو نظر نہیں آئیں گے۔ یہ جو سرکار گوھر شاہی کا وجودِ باطن ہے جس کو حدیث میں کوکبِ دری کہا گیا ہے، یہ ظاہر میں نظر آتا ہے۔ باقی اگر سلطانوں کے طفلِ نوری دیکھنے ہیں تو پھر تمہارے پاس کشفِ جبروتی ہونا چاہئیے تو پھر وہ نظر آئیں گے لیکن یہ جو سرکار گوھر شاہی والا ہے اِس کو کُھلی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے یہ آنکھ تم کو دیکھ رہی ہے اِسی طرح تم اُس کو بھی دیکھ سکتے ہو۔ علامہ اقبال نے اسی کیلئے کہا تھا کہ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جسکا، وہ راز اب آشکار ہوگا

اب اگر تمہارے دل میں سرکار گوھر شاہی کی کوئی خاص تصویر آجائے تو اُس کی مدد سے جو اوپر باطنی وجود نظر آرہا ہے پھر وہ بالکل صاف نظر آتا ہے۔ دل میں جو تصویر ہے اِس سے خاص تو تصویر نہیں ہوگی یعنی وہ جو پھر نظر آئے گا تو بالکل صاف نظر آئے گا۔ جیسے کرکٹ میں تیسرے ایمپائر سے پوچھتے ہیں کہ آوٹ ہے یا نہیں، اِسی طرح دل میں سرکار گوھر شاہی کی تصویر تیسرا ایمپائر ہے یہ کُھلا کُھلا دکھاتا ہے۔ ایک جگہ کسی نے لکھا کہ
جس طرح سے چاند اور سورج تمہیں منظور ہیں
اِس طرح سے ہم بھی ہیں لیکن مہ محمل نہیں

چاند کے برابر کوکبِ دری چمک رہا ہے اور کبھی کبھی سامنے آتا ہے۔ جب اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر اللہ پرایمان، یومِ آخرت پرایمان اور عملِ صالح، تین چیزیں ہوگئیں تو پھر فرمایا کہ یہود ہو یا نصارہ ہو یا صابی ہو تو بس تیرا درجہ ولیوں کے برابر میں ہے کیونکہ قرآن مجید نے وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ولیوں کیلئے استعمال کیا ہے تو یہاں اِن کیلئے بھی کیا ہے، اِس کا مطلب ہے یہ ولایت کے درجے پرچلے جائیں گے جن میں یہ تین چیزیں مل جائیں گی کہ اللہ پرایمان، یومِ آخرت پر ایمان اور عملِ صالح۔
ستارے کئی طرح کے ہیں اور علمِ نجوم میں کئی طرح کا ہے۔ ایک ظاہری علمِ نجوم ہے اور ایک باطنی علمِ نجوم ہے۔ ظاہری علمِ نجوم امام جعفرِصادق کو ملا اور جو باطنی علمِ نجوم ہے وہ امام مہدی کو ملا۔ اب جو ظاہری علمِ نجوم ہے اُس میں پتھر کے ستارے ہیں اور جو باطنی علمِ نجوم ہے اُس میں وہ باطنی ستارے ہیں کہ کوئی روح ہے، کوئی طفلِ نوری ہے اور کوئی کچھ اور کوئی کچھ ہے۔ اب دیکھیں کہ قرآن مجید میں اللہ نے ایک پوری سورت نجم کو وہ ستارے کے اوپر رکھا ہے تو وہ پوری سورت ستارے کے اوپر ہے۔ آپ روز پڑھتے ہیں لیکن آپ پھر بھی غور ہی نہیں کرتے کہ ستارے پر پوری سورت لکھنے کی کیا ضرورت تھی! قرآن مجید میں آیا ہے کہ

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ
سورت النجم آیت نمبر 1
ترجمہ: اُس ستارے کی قسم جب وہ نیچے آیا۔

اب یہاں اللہ ستارے کی قسم کھا رہا ہے تو کیا وہ پتھر کا ستارہ ہے جس کی اللہ قسم کھا رہا ہے! اللہ تعالی ستارے کی قسم کھا رہا ہے کہ جب وہ نیچے آیا تو کیا ستارے نیچے آئے تھے! یہ وہی ستارہ ہوگا جس کے بارے میں حضورؐ کو جبرائیل نے بتایا تھا کہ ستر ہزار بار اُس ستارے کو دیکھا ہے تو نبی پاکؐ نے فرمایا کہ اب اگر دیکھ لو تو پہچان لو گے تو اُس نے کہا کہ بالکل ستر ہزار مرتبہ دیکھا ہے تو پہچاننے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی تو وہ پیشانی سے نکلا ہے تو جبرائیل نے پہچان لیا۔ اِس آیت میں اُسی ستارے کی بات ہورہی ہے کہ جب وہ نیچے آئے۔ پھر اُس کے بعد فرمایا کہ

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ
سورت النجم آیت نمبر 2
ترجمہ: آپ کا جو صاحب ہے وہ بالکل سیدھا اُس کی نظریں اِدھر اُدھر نہیں ہوئیں۔

اِس آیت کے بعد پھر نیچے کی باتیں شروع ہوگئیں کیونکہ اللہ تعالی اشارے دیتا ہے پوری کہانی نہیں بتاتا کیونکہ یہ بات تو شبِ معراج کی ہورہی ہے تو یہاں پر وحی کا ذکر کیوں آگیا! وحی تو زمین پر بھی آتی تھی تو اللہ اشارے دے کر آگے بڑھ جاتا ہے یعنی قرآنِ مجید کو آپ مثال کے طور پر سمجھ لیں کہ جیسے وہ فلم آنے سے پہلے اُس کا ٹیزر آتا ہے۔ اِسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ نے باطنی علم کے ٹیزر رکھے ہیں کہ یہ بھی ہے یہ بھی ہے اور آدمی آیت کے آگے جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ہے لیکن یہاں نہیں ہے بلکہ کسی کے پاس ہے تو کس کے پاس ہے! قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
سورة النحل آیت نمبر 43
ترجمہ: جس کا تم کو نہیں پتہ کہ کدھر ہے تو اہلِ ذکر سے پوچھو۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 26 ستمبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس