کیٹیگری: مضامین

سورۃ الناس اورسورۃ الفلق کا شانِ نزول:

یہ دو سورتیں حیاتِ طیبہ میں بہت اہم ہیں۔ یہودی اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترویج و اشاعت سے بے حد خائف تھے۔ انہوں نے محمد الرسول اللہ کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن حضور نبی کریمؐ کہاں رکنے والے تھے لہذا یہودیوں نے محمد الرسول اللہ پر جادو کروا دیا جس سے آپؐ کی طبیعت مبارکہ ذرا متاثر ہوئی۔ پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان دو سورتوں سورة فلق اور سورة الناس کا ایک ساتھ نزول ہوا ہے۔ ایک روز رسول اللہ نے ہمیں فرمایا کہ آپ کو خبر ہے کہ آج رات اللہ تعالی نے مجھ پر ایسی آیتیں نازل فرمائی ہیں کہ پہلے مثال نظر نہیں آئی اور وہ ہیں أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ یثرب کے یہودیوں کو بلاوجہ ہی حضورؐ کی ذاتِ اقدس سے عداوت تھی۔ یہودی ایک وفد بنا کرایک یہودی جادوگر ابنِ عاصم کے پاس گئے کہ ہم ہر طرف سے مایوس ہوکر تیرے پاس آئے ہیں اور حضورؐ پر جادو کیلئے بھاری نذرانہ بھی دیا۔ ایک یہودی لڑکا حضورؐ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور کسی طرح اسے پھسلا کر حضورؐ کی کنگھی کا ایک ٹکڑا اور چند موئے مبارک حاصل کرلئے۔ ان چیزوں کو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی ذوریخ کے کنویں کی تہہ میں ایک بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد معمولی معمولی اثر ظاہر ہونے لگا لیکن آخری چالیس دن زیادہ تکلیف کے تھے اور ان میں سے آخری تین دن تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جادو کی وجہ سے میری طبیعت گھٹنے لگی،جسمانی کمزوری نقاہت بڑھنے لگی بظاہر اس کی وجہ معلوم نہ ہوتی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نا سازطبیعت کے باوجود فرائض نبوت کی ادائیگی میں کبھی بال برابر بھی فرق آیا ہو۔ جب تکلیف زیادہ بڑھی تو حضور پاکؐ نے بارگاہِ الہی میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا۔ اُسی رات حضورؐ کو خواب میں حقیقت حال سے آگاہ فرما دیا گیا۔ کنویں کی تہہ سے غلاف کو کھولا گیا تو اس میں کنگھی اور چند بال برآمد ہوئے جن میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ اسی وقت جبرائیلؑ حاضر ہوئے اور یہ دو سورتیں پڑھ کر سنائیں اورعرض کیا کہ آپ ان دونوں سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں اور ایک ایک گرہ کھولتے جائیں اور سوئی نکالتے جائیں۔ چناچہ دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں پڑھی گئی اور حضور پاکؐ کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی اور جادو کا سارا اثر زائل ہوگیا۔

سورة الفلق کی تشریح:

جادو سے لوگوں کا متاثر ہونا ایک یقینی چیز ہے۔ ساحران فرعون کا تذکرہ قرآن کے متعدد مقامات میں کیا گیا ہے۔ سورة الفلق اور سورة الناس جادو کے توڑ کیلئے اللہ نے اتاری۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہ میں پناہ مانگتا ہوں فلق کے رب سے۔ فلق کے معنی ہیں صبح صادق کے وقت پو پھٹنے کے وقت کو فلق کہا جاتا ہے۔ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ کہ اُس تمام شر سے جو اللہ نے پیدا کیا ہے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ کہ خاص طور پر اُس شر سے کہ جو اندھیرا ہونے پرمخلوقات آتی ہیں اُس شر سے پناہ چاہتا ہوں۔ غَاسِق کا مطلب ہے تاریک رات یعنی وہ رات جو ظلمت سے بھری ہو اور وَقَب کا معنی ہے کسی چیز کا کسی چیز میں داخل ہوجانا۔ گرہ لگانے کیلئے بھی دھا گے کی ایک گرہ کو دوسری گرہ میں داخل کرتے ہیں، اس عمل کو وَقَب کہا جاتا ہے۔ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ کہ اوراُس شر سے کہ جو رسیوں اور دھاگوں میں گرہ لگا لگا کر پھونک مارتے ہیں۔ جادو کیلئے عقَد کا مطلب ہے گرہ لگانا۔ عقدہ، عقَد کی جمع ہے اور جادوگر جب جادو کرتے ہیں تو منتر یا طلسم پڑھ کردھاگے میں گرہ لگاتے ہیں۔ گرہ کیلئے ایک اور لفظ ہے گانٹھ لگانا۔ اردو زبان میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ کیا عقدہ ہے یعنی ایسی چیز جس کو تالا لگا ہوا ہو اور جو سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ کہ اورحاسدوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ حسد یعنی کسی کی خوشحالی اور سکون کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہونا۔

جادو کے توڑ کیلئے کونسے دو اہم پہلو مدِنظر رکھنے چاہئیے؟

سورة الفلق جادو کے اثر کے توڑ کیلئے نازل ہوئی اورسورة الناس کا کام یہ ہے کہ خبیث قسم کے جنات جو اس وقت آکرتنگ کرتے ہیں تو جب بندہ اللہ کے راستے یعنی راہِ سلوک میں نکلے تو ہمارا گمان اور ایمان یہ ہے کہ سورة الفلق جادو کا توڑ ہے لیکن ہمیں حضورؐ کی حیاتِ طیبہ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جادو کے توڑ کیلئے دو پہلو مد نظر رکھنے پڑتے ہیں۔
1۔ پہلا یہ کہ کسی نے جادو جس چیز پر کروایا ہے وہ چیز جہاں چھپا کر رکھی ہے وہاں سے برآمد کی جائے اور پھر اس پر یہ سورة پڑھی جائے۔ سورة الناس خالی پڑھنے کا فائدہ نہیں ہے۔ پہلے اس چیز کا پتہ لگائیں کہ جادو جس چیز پر کیا ہے وہ کہاں ہے!
2۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جادو کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سورة الفلق پڑھنے والا موٴمن بھی ہوتاکہ اس کی زبان سے ہونے والی تلاوت میں نور بھی شامل ہو۔

سورة الناس کن کیلئے استعمال ہوتی ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا زیادہ تعلق جادو سے نہیں ہے بلکہ ان جنات اور لوگوں سے ہے کہ جن کے اندر یہ جنات رہتے ہیں جوکہ ولیوں کے خلاف، راہِ سلوک اورعلمِ روحانیت کےخلاف وسوسے ڈالتے ہیں۔ جب کوئی اللہ کے راستے میں نکلتا ہے، اپنے قلب کو صاف اور نفس کو پاک کرنے کیلئے مرشد کو پکڑتا ہے تو یہ حرکت میں آجاتے ہیں اور آپ کے اندر گھس کرآپ کے ذہن میں مرشد کے بارے میں اور اس رستے کے بارے وسوسے ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس تعلیم کے مخالف ہیں جن کے اندر شیطان بیٹھا ہوا ہے۔ وہ لوگ بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ تم کس چکر میں پڑگئےہو، دل کی دھڑکنوں میں اللہ اللہ بسانے کی باتیں اسلام سے باہرہیں، اس طرح یہ لوگ راہِ سلوک یا راہِ تصوف اختیار کرنے کے موقع پر وسوسے ڈال کر حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

سورة الناس کی تشریح:

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کہ اے انسانوں کے بنانے والے رب، اِن انسانوں سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔مَلِكِ النَّاسِ کہ اے انسانیت کے مالک۔ إِلَـٰهِ النَّاسِ اے تمام انسانوں کے معبود۔ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کہ میں خناس کے وسوسوں کی پناہ چاہتا ہوں۔ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ کہ اُن لوگوں سے بھی پناہ چاہتا ہوں جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتے ہی رہتے ہیں۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کہ وہ جنات بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی ہیں۔

شیطان جِن انسانوں پرکیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟

اگر کوئی جن آپ کے اندر گھس کر وسوسے ڈالے گا تو وہ تو آپ کو نظر نہیں آئے گا اور آپ پریشان ہونگے کہ میں نے تو کبھی ایسا سوچا نہیں یہ باتیں میرے اندر کہاں سے آرہی ہیں تو وہ جن ہے جوتیرے اندر گھس گیا ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کی صحبت میں بیٹھنے سے وہ یہ باتیں کرتے ہیں کہ یہ تم کون سی طرف لگ گئے ہو، یہ تصوف کیا ہوتا ہے اور مختلف منفی باتیں ذہن میں ڈالیں گے اورتجھے ورغلانے کی کوشش کریں گے۔ ان تمام چیزوں سے انسان کو اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہئیے۔ سورة الفلق اور سورة الناس کو رات کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کرکے سوئیں تو بہت فائدہ ہوگا۔ جب شیطان انسان کو ذکرِ الہی سے غافل پاتا ہے تو حملے کرتا ہے۔ جب انسان اللہ تعالی کا ذکر کرنے لگتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

سیدنا گوھرشاہی کا جثہ مبارک کیسے لوگوں کی حفاظت فرماتا ہے؟

سیدنا گوھر شاہی کا فرمانِ مبارک ہے کہ

پچیس سال کی عمر میں جثہ گوھر شاہی کو باطنی لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے نوازا گیا۔

باطنی لشکر یہ کرتا ہے کہ جیسے ہی کوئی ذکرِ اللہ اپنے قلب میں بسانے کیلئے تصوف کے راستے پر لگتا ہے تو جتنے بھی شیاطین اور انسان ہیں جن کے سینوں میں شیطان ہے وہ ٹوٹ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ اس کے سینے پر حملہ کردو اور وسوسے ڈالو کہ کہیں یہ سیدنا گوھر شاہی کی محبت میں مبتلا نہ ہو جائے کیونکہ اگر اس کو سرکار گوھر شاہی سے محبت وعقیدت ہوگئی تو ان کی نظروں سے اس کا سینہ روشن ہو جائے گا اور شیطان کو اس کے سینے سے نکلنا پڑے گا۔ لہذا جب بھی کوئی انسان تصوف کا راستہ اختیار کرتا ہے اور بالخصوص سیدنا گوھر شاہی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کو مختلف طریقوں سے شیطان وسوسے ڈالے گا اور پھر آپ کے رشتہ داروں میں سے آپ کے یاروں دوستوں میں سے بہت سے لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور اس راستے کی برائی کریں گے کہ یہ تو غلط راستہ ہے اور پھر سیدنا گوھر شاہی کے خلاف بھی باتیں کریں گے یعنی حتی الامکان ان کی کوشش یہ ہوگی کہ آپ بدگمان ہوجائیں اور اس راستے کو چھوڑ دیں۔ اب سیدنا گوھر شاہی نے جو یہ فرمایا کہ پچیس سال کی عمر میں جثہ گوھر شاہی کو باطنی لشکر کا سپہ سالار بنا دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بھی مخلوقات شیطان کی، یا شیطان صفت انسانوں کی یا خبیث جنات کی آپ کو تنگ کریں گی اور حملہ کریں گی تو آپ کی حفاظت کیلئے سیدنا گوھر شاہی کا ایک جثہ مبارک پورے باطنی لشکر کا سپہ سالار ہے آپ نے صرف “یا گوھر المدد” پکارنا ہے اورسرکار کی باطنی فوج آپ کی مدد کو پہنچ جائے گی اور شیطان کو ٹیڑھے ہاتھوں لے گی۔ آپ تمام کو یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ

جب کوئی وسوسہ آئے اور جب کوئی انسان غلط باتیں کررہا ہو بھلے وہ رشتہ داروں میں سے ہو، بہن بھائیوں میں سے ہو، اولاد میں سے ہو، والدین میں سے ہو، یاروں دوستوں میں سے ہو، بیوی ہو یا شوہرہو، کوئی بھی ہو جو آپ کو ورغلانا چاہ رہا ہو، جو سیدنا گوھر شاہی کی کردار کشی کر رہا ہو اور جوسیدنا گوھر شاہی کے خلاف آپ کو بھڑکا رہا ہو تو آپ فوری طور پر سیدنا گوھر شاہی کی یہ تصویرِ مبارک دیکھ کر “یا گوھرالمدد” پکاریں گے تو آپ کی فوری مدد ہوگی۔

اگر آپ ان لوگوں کی باتیں سنتے رہیں گے تو وہ آپ کے دل میں وسوسے ڈالتے رہیں گے. شروع شروع میں آپ کہیں گے یہ سب ایسے ہی بکواس ہے تو آپ اس خیال اور وسوسے کو جھٹک دیں گے تو وسوسہ پیچھے چلا جائے گا لیکن اندر سے نہیں نکلے گا اور پھرکسی کمزور گھڑی یالمحے میں دوبارہ حملہ کرے گا پھر آپ اپنے آپ سے جنگ کریں گے کہ نہیں ان کا تو اتنا اچھا مشن ہے وہ اتنی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں تو وہ خراب کیسے ہو سکتے ہیں لیکن پھر شیطان دوبارہ حملہ کرے گا، آپ کی جان نہیں چھوڑے گا لہذا آپ کے پاس اس ہتھیار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ آپ فوری طور پر سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں رجوع کریں اور کہیں یا گوھر شاہی میری مدد فرمائیں یا تین مرتبہ “یا گوھرشاہی المدد” کہیں تو سیدنا گوھر شاہی کی مدد فورا پہنچے گی۔ آپ دیکھیں کہ غوث پاک نے اپنے مریدوں کو فرمایا تھا کہ
مریدی لا تخف بر دل نوشتم
نمے ترسم ز شیطان دغائی

اس کی تشریح یہ ہے کہ اے میرے مرید! دل چھوٹا مت کر میرا ہاتھ بہت بڑا ہے اور شیطان تجھے کبھی بھی زیر نہیں کر سکے گا بس تو مجھے مدد کیلئے پکار تو جہاں کہیں بھی ہوا جس حال میں ہوا میں تیری مدد کو پہنچوں گا۔
آپ کا جومرشد ہے وہ تو امام مہدیؑ ہے اور ہمارے مرشد جیسا تو کوئی مرشد زمین پر آیا ہی نہیں۔ ہمارے مرشد کی طاقت کا کوئی اندازہ کیسے لگا سکتا ہے! جس ذات کے صرف ایک جثے کو پوری کائنات کے باطنی لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے نواز دیا گیا ہو۔ ہم نے صرف سیدنا گوھر شاہی کو مدد کیلئے پکارنا ہے کہ سرکارگوھرشاہی میری مدد فرمائیں اور وہاں سے سرکارگوھرشاہی نے اپنی فوج بھیجنی ہے جس نے آکر آپ پر حاوی ہونے والے شیطان اور خبیث جن سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں اورآپ اپنے راستے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پورے قرآن سے اس وقت تک فائدہ نہیں ہو گا جب تک آپ کے اندر نور نہیں ہے۔ قرآن سے تبھی فیض ہوگا جب آپ کے اندر بھی نور ہوگا۔

صفتِ رحمٰن کا تعلق کس سے ہے؟

سورة الرحمٰن کو مولا علی نے فرمایا کہ یہ عروس القرآن ہے۔ عروس کا مطلب ہے “دلہن”۔ جیسا کہ کراچی شہر کو عروس البلاد کہا جاتاہے اور “بلد” شہر کو کہتے ہیں تو وہیں سے بلدیہ نکلا ہے کہ شہر کے انتظام کو سنبھالنے والی بلدیہ۔ بلاد کا مطلب ہے کہ بہت سارے شہر اور عروس کا مطلب ہے دلہن اور عروس البلاد کا مطلب ہو گیا شہروں کی دلہن۔ مولا علی نے سورة الرحمٰن کو کہا کہ یہ سورة عروس القرآن ہے یعنی یہ سورة قرآن کی دلہن ہے۔ اُس دور کے راہب یہودیوں کو اپنےعلم پر بڑا غرور تھا لیکن انہیں اتنا بھی یاد نہ رہا کہ اللہ کا اسم “رحمٰن” ان کے ہی پیغمبر موسٰیؑ کو عطا ہوا تھا اور “یا رحمٰن” کے ذکر سے موسٰیؑ کی اُمت کے قلب منور ہوئے تھے۔ اب اللہ تعالی نے ان یہودیوں کو منہ کی شکست دینے کیلئے پوری کی پوری سورۃ الرحمٰن نازل فرمائی۔ اب یہودی پریشان تھے کہ یہ رحمٰن کون ہے تو یہ جو صفت رحمٰن ہے یہ صفتِ تکلم ہے یعنی جو کلام ہوتا ہے وہ صفت رحمن سے ماخوذ ہے۔ کلام کرنا اور یہ جو بولنے کا عمل ہے یہ سورة الرحمٰن کا ہے اور جو پتھروں میں جمادی روح ہوتی ہے اس کا تعلق بھی صفت رحمن سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اللہ کی تجلی پڑی تو رحمٰن کا جمادی روح سے تعلق ہوتا ہے لہذا وہ تجلی پہاڑ کے اوپر پڑی اور اس پتھر میں آگ لگ گئی۔ موسٰیؑ پر ابھی نبوت کا سلسلہ نہیں تھا وہ عام انسان کی حیثیت سے اس وادی میں سے اپنی بیوی کے ہمراہ جا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور ان کی بیوی کو ٹھنڈ لگی تو اس نے کہا جاوٴ آگ کا بندوبست کرو تو وہ چلے گئے کہ کہیں پتھر وغیرہ نظر آئیں تو ان کو رگڑ کر آگ کا بندو بست کریں۔ جب وہ کوہِ طور پر آگ ڈھونڈنے چڑھے تو دیکھتے ہیں کہ ایک جھاڑی سے آگ نکل رہی ہے تو وہ سہم گئے۔ اس آگ سے آواز آئی اے موسی! ڈرو نہیں میں تمہارا رب ہوں توصفتِ رحمٰن کا تعلق پتھروں اور صفتِ تکلم سے ہے۔ اب یہ جو اللہ کا کلام ہے یہ کسی بھی پیغمبر پرنازل ہو تو یہ اللہ کی صفت کلیمی سے ہے تو یہ کلام آئے گا۔ رحمن کی طرف سے ہی کیونکہ صفت کلیمی کا تعلق صفت رحمن سے ہے۔ اسی لئے اللہ نے سورة الرحمن کا آغاز الرحمن سے کیا ہے۔ اب یہاں اللہ تعالی حضور نبی کریمؐ کو اپنی صفت رحمن کو متعارف کروا رہے ہیں اور یہودیوں کو ان براہِ راست چیزوں سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ یہ تو تمہارے نبی کا خاصہ تھا اور تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ لہذا جب یہ سورة نازل ہوئی کہ الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ کہ یہ جو رحمن ہے وہ قرآن سکھاتاہے تو یہودی کہنے لگے یہ رحمٰن کون ہے اور پہلے تو تم اپنے رب کو اللہ کہتے تھے یعنی وہ اتنا بھول گئے اور بھولنے سے مراد اتنا ردو بدل ہوگیا کہ وہ بھول گئے کہ یہ اسم تو ان کے نبی کو عطا ہوا تھا جو انہوں نے اپنی اُمت کو دیا تھا۔

سورة الرحمٰن کی تشریح اورعَلَّمَهُ الْبَيَان کا راز:

الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ کہ رحمٰن ہے جس نے قرآن سکھایا۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ کہ انسان کو تخلیق کیا۔ عَلَّمَهُ الْبَيَان اور یہاں “بیان” لفظ بین سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ممتاز۔ اگرآپ علماء یا مولوی کی بات سنیں تو انہوں نے الگ سے ایک لفظ ایجاد کیا ہے کہ علم البیان اور اس پران کے مابین بہت بحث و مباحثے اور مناظرے ہوتے ہیں لیکن یہ لفظ “بیان” بین سے نکلا ہے لیکن اس کا معنی سمجھنا علماء کا کام نہیں ہے۔ یہ کام باطنی علماء کا ہے کہ وہ باطنی علماء جن کے قلب کو اللہ رب العزت نے قرآن سے مزین کر دیا ہے۔ الفاظ و نور اور اس کے معنی قلب کی گہرائیوں میں اتار دئیے ہیں۔ علماء کی نظر سے بات کرتے ہیں کہ “علم البیان” ہوتا ہے لیکن یہ علم کیا ہے! عَلَّمَهُ الْبَيَان یہ ہے کہ جیسے ہم ایک جملہ کہتے ہیں کہ سدرة المنتہی، بیت المامور اورعالم ملکوت ہے، یہ علم ہے لیکن علم البیان نہیں ہے تو اب عَلَّمَهُ الْبَيَان کیا ہوتا ہے؟ انسان کا قلب جب ہدایت یافتہ ہوتا ہے تب وہ موٴمن بنتا ہے اور پھر انسان کے قلب میں مرشد کامل اسم اللہ ڈالتا ہے، پھر دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ میں لگتی ہیں تو نور بنتا ہے اور نور بننے کے بعد جب اللہ کے اسرار و رموز قلب پر وارد ہوتے ہیں اور اس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے کہ یہ علم کہ دل اللہ اللہ کرتا ہے بالکل سچ ہے کیونکہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور اسرار و رموز اس پر نازل ہو رہے ہیں۔ ایسا علم جو انسان کی عقل میں بھی آئے، انسان کے عمل میں بھی آئے اور انسان کے تجربے اور مشاہدے میں بھی آجائے اور کسی بھی جہت اور حوالے سے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے تو وہ عَلَّمَهُ الْبَيَان ہوگا۔ نبی پاکؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ

ان فی جسد بنی آدم مضغتہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ الا وھی القلب
بحوالہ مشکوٰة شریف
ترجمہ: اے بنی آدم تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو پورے وجود کی اصلاح ہو جائے گی۔ یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے۔

عَلَّمَهُ الْبَيَان یہ ہے کہ جب آپ کے دل میں اللہ کا نور اترے اور اس کے بعد نس نس میں نور جائے، آپ کا نفس بھی پاک ہوجائے، آپ کا دماغ بھی پاک ہونا شروع ہو جائے، آپ کی سوچ بھی اک ہونا شروع ہو جائے اور نہ صرف یہ کہ تزکیہ نفس ہو بلکہ تزکیہ اخلاق، تزکیہ سوچ بھی ہوتو پھر اس کو یہ بات خود تجرباتی اور مشاہداتی طور پر سمجھ آنے لگ جائے کہ میری زندگی میں اتنی تبدیلی آگئی ہے، میری سوچ میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ میں مدرسے میں بھی نہیں پڑھا اور نہ کوئی کتاب لیکن میں تو صرف سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں گیا اور انہوں نے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو اور پڑھو اللہ ھو، اللہ ھو، اللہ ھو اور کچھ دن بعد میرے دل سے اللہ ھو کی صدائیں آنے لگ گئیں اور نور بننا شروع ہوا اور اس کے بعد اب میرا دل گناہ کرنے کو نہیں چاہتا، اب میرا دل اللہ اللہ میں لگتا ہے، اب میرے دل میں انسانوں کیلئے محبت آگئی ہے تو اس تجربے کی روشنی میں انسان مان لیتا ہے کہ یہ علم سچا ہے جو صرف میرے دماغ تک نہیں بلکہ میرے کردار اوراخلاق سے اس کی گواہی آرہی ہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ تم اپنے قلب کو صاف کرلو تو تیرا پورا جسم پاک صاف ہو جائے گا اور یہ بات ہم خود میں تجرباتی طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ عَلَّمَهُ الْبَيَان ہے۔

اللہ تعالی نےعَلَّمَهُ الْبَيَان کسے سکھایا؟

الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ کہ یہ رحمن ہے جس نے قرآن کو آگے بھیجا ہے۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ کہ پھر انسان کو تخلیق کیا ہے۔ اس سے مراد عام انسان نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے مراد عام انسان ہوتا تو بتاوٴ تمہارے پاس بیان کا علم کہاں ہے! جس انسان کے پیدا کرنے کی اللہ بات فرمارہا ہے اس کیلئے تو فرمایا کہ اس کو تو میں نے عَلَّمَهُ الْبَيَان سکھایا ہے اور اس کو تو قرآن سکھایا ہے۔ اب ہر مُلا اور مولوی سمجھتا ہے کہ میں ہی وہ انسان ہوں لیکن تجھے کہاں اللہ نے قرآن سکھایا ہے اور تجھے تو مولانا فضل الرحمان نے قرآن سکھایا ہے، تجھے تو طاہر القادری نے قرآن سکھایا ہے، تجھے تو ملا نے قرآن سکھایا ہے۔ یہ اُس انسان کی بات ہو رہی ہے کہ جس کو اللہ نے قرآن سکھایاہے لیکن کون ہے وہ انسان کون ہے؟ یہ اشارہ محمد الرسول اللہ کی طرف ہے۔ اللہ نے اس کو “بینات والا علم” دیا ہے جو صرف علم کیلئے نہیں ہے بلکہ تیرے کردار اور گفتار میں جھلکے گا، تزکیہ اخلاق کرے گا، تزکیہ کردار کرے گا، تزکیہ تخیل کرے گا، تزکیہ تکلم کرے گا اور پورا کا پورا تیرا نقشہ بدل کر رکھ دے گا، یہ اُس علم کی بات ہو رہی ہے۔ آسان الفاظ میں عَلَّمَهُ الْبَيَان کی تعریف کی جائے تو ہوگا تعلیمِ روحانیت یعنی عَلَّمَهُ الْبَيَان تصوف کی تعلیم ہے۔ علمِ باطن جو تیرے اندر اور باہر کو سنہرا صاف چمکا کر رکھ دے اور ہر شے تیرے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہی لفظ اللہ تعالی نے اپنی نشانیوں کیلئے فرمایا کہ

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
سورة فصلت آیت نمبر53

یہ وہی لفظ “بین” ہے جس کا یہاں “البیان” میں ذکر آیا ہے کہ جب تک ان پر کھل کر واضح ہوکر کہانی سامنے نہ آ جائے اور وہ کہہ اٹھیں کہ یہ جو ذاتِ گوھر شاہی ہے بس یہی حق ہے۔ آدم صفی اللہ کیلئے قرآن مجید میں کہا گیا تھا کہ

عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
سورة البقرة آیت نمبر31
ترجمہ: آدمؑ کو اللہ نے اسماء کا علم دیا تھا۔

پہلا انسان تو آدمؑ کو ہی کہا جاتا ہے اور ان کیلئے اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آدمؑ کو تمام اسماء کا علم دیا تواب یہاں انسان سے مراد آدم تو نہیں ہوسکتا۔ عَلَّمَهُ الْبَيَان کی جب بات آئے گی تو یہاں مراد براہِ راست حضور پاکؐ کی ذات والا ہے۔

سورة الرحمٰن میں نجم اور شجر سے کیا مراد ہے؟

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ کہ اللہ تعالی نے سورج اور چاند کی چال مقرر کر رکھی ہے۔ چاند تیرتا ہے اور سورج اچھل اچھل کر چلتا ہے۔ اللہ تعالی نے ان کو پابند کررکھا ہے۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ کہ اور یہ ستارے اور درخت اسی کو سجدہ کرتے ہیں لیکن آپ بتائیے کہ کہاں ستارے اور کہاں درخت کہ ایک چیز زمین کی تہہ میں لگی ہوئی ہے اور دوسری آسمان کی بلندیوں پر چمٹی ہوئی ہے تو ان دو کا ذکر کہیں ملتا ہے لیکن پھر یہ ستارے کون سے ستارے ہیں اور یہ درخت کون سے درخت ہیں! یہ سدرہ المنتہی کا ذکر ہے جس میں اس کے پتے ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔ ہم کو اس کا پتہ اس لئے چلا کہ ہم نے وہ مقام دیکھا ہے اورعالمِ جبروت میں وہ مقام ہے ہم وہاں گئے ہیں۔ حضورؐ کی محبت میں اضافہ کس طرح ہوا! ایک دفعہ ہم نے سرکارگوھرشاہی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمیں حضور نبی کریمؐ سے بڑی اُنسیت محسوس ہوتی ہے تو کیا ان سے کوئی تعلق ہے! اس کے جواب میں سرکارگوھرشاہی ہم کو لے کر سدرة المنتہی پر پہنچ گئے اور کچھ فرمایا نہیں لیکن بس یہ فرمایا کہ تم یہاں کھڑے رہو اور ہم ابھی آتے ہیں۔ اب وہ جو درخت تھا وہ ہم دیکھنے لگے کہ اچانک اس درخت کے پتے روشن ہو گئے اور کسی پتے پر نور سے “یا محمد” لکھا ہوا ہے جو چمک رہا ہے۔ ایسی دمک ایسا نور خیرہ کر دینے والا اس سے نکل رہا ہے کہ کسی پتے پر “یا احمد” لکھاہے اور کسی پر کچھ اور لکھا ہے۔ ایک پتا ہم نے توڑنا چاہا کہ نیچے لے جائیں گے مگر وہ ہم سے ٹوٹا نہیں تو آواز آئی کے یہ پتے لے جانے والے نہیں ہیں بلکہ ان سے فیض لیا جاتا ہے۔ پوچھا کہ ان پتوں سے فیض کیسے لیں گے تو پھر آواز آئی کہ جو پتا تجھے پسند آرہا ہے اس کو اپنی آنکھوں سے لگالیں تو وہاں جو پہلا پتا تھا جس پر “یا محمد” لکھا تھا وہ ہمیں بڑا خوبصورت لگا تو ہم نے اپنی آنکھوں سے لگا لیا تو بخدا کہ ہمیں نظر آرہا تھا کہ اس سے یا محمد کا نور آنکھوں میں داخل ہو رہا تھا اور پھر آنکھ سے پورے جسم میں اسمِ محمد کے الفاظ اندر آنا شروع ہو گئے۔ پوچھا کہ یہ کیا ہے تو فرمایا کہ سدرة المنتہی علمِ طریقت کا بیج ہے اور جو لوگ اللہ سے پیار کرتے ہیں وہ اپنے لطائف پر خود محمد، فقر اوراللہ لکھتے ہیں اور جن سے اللہ پیار کرتا ہے ان کو ادھر بلا لیتا ہے تو ان پتوں سے وہ تمام اسماء ان کے لطائف پر خود بخود منتقل ہو جاتے ہیں ان کو تصور کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جب وہ پتا لگا اور اندر گیا تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے لطیفہ اخفٰی کا رنگ گہرا جامنی ہے اور اس کے اندر سے سفید رنگ کا ٹھنڈا ٹھنڈا نور اسمِ محمد کا نکل رہا ہے۔ وہاں نبی پاکؐ کے جو اسمِ مبارک لکھے ہوئے ہیں ان اسماء کو نجم کہا گیا ہے اور سدرة المنتہی کا جو پودا لگا ہوا ہے اس کو شجر کہا گیا ہے۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ اورنجم اور شجر اللہ کو سجدہ کر رہے ہیں اور انسان بھی کر رہا ہے تو وہ اشرف المخلوقات کیسے ہو گیا! یہ جو نجم اور شجر ہے ان سے فیض لے کر انسان میں ڈالو، پھر وہ انسان جو سجدہ کرے گا وہ نجم اور شجر کا مصداق ہوگا۔ تمام دنیا کے درختوں کی طرف سے اس انسان کا سجدہ ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گیا کہ تمام درختوں کی طرف سے سجدہ ہو گیا۔ فرض کیا آپ کسی جنگل میں فقیر ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کے سینے پر سدرة المنتہی کے شجر کا فیض آ گیا ہے تو جس جنگل میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں اس جنگل کے تمام درختوں اور پودوں کی طرف سے سجدہ ہو گیا۔ اسی لئے ہر درخت، ہر پتا اور ہر پھل کہتا ہے کہ میرے پاس آ کر بھی نماز پڑھی جائے اور یہ فقیر میرے پاس بھی آ کر بیٹھ جائے، میرے پاس آ کر ذکر کر لے کیونکہ اگر کوئی فقیر درخت کے نیچے بیٹھ جائے تو اس درخت کے ساری زندگی کے سجدے اللہ نے قبول کر لئے بھلے اس نے سجدے نہ بھی کئے ہوں اور اس درخت کو کہا جائے گا “ساجد” کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ کرنے والا ہے۔ جب ہم اس دفتر میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری طرف سے اس دفتر کا ایک ایک پتھراوردیوار اللہ کا ذاکر ہے اس کی طرف سے ہم سجدہ کر رہے ہیں، اس کی طرف سے ہم ذکر کر رہے ہیں لیکن ثواب میں وہ بھی شامل ہے کہ اس پر بیٹھ کر ذاکر تقریر کر رہا ہے۔ یہ بھی ساجد ہے کہ یہاں بیٹھ کر ایک ساجد اللہ کا ذکر کر رہا ہے۔ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ کہ اور آسمان کو اس نے رفعت دی ہے اور میزان کو بلند کیا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 10 اپریل 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن قرآنِ مکنون کی خصوصی نشست میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس