- 1,622وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
مسجد القبلتین:
اس مسجد کا نام مسجد قبلتین ہے جس کے لفظی معنی دو قبلوں والی مسجد ، یہ نام اس مسجد کو اس لیے دیا گیا ہے کہ اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے ،اُس وقت مسلمانوں کا قبلہ مسجد اقصٰی ہوا کرتا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھا ہی رہے تھے کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 144
ترجمہ : (اے پیارے نبی !) تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی، خو ب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کایہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور بر حق ہے، مگرا س کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حالتِ نماز میں ہی چہرہ مبارک مسجد اقصیٰ سے مسجد الحرام کی طرف پھیر لیا ۔ اسی طرح نماز میں پیچھے کھڑے صحابہ نے بھی رسولﷺ کی طرح منہ مسجد اقصیٰ سے مسجد الحرام کی طرف پھیر لیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس مسجد کو مسجد قبلتین (دو قبلوں والی مسجد ) کہا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ کا قبلہ قرار دیا جانا اللہ کی پہلے سے پلاننگ تھی :
قبلے کارخ مسجد اقصی ٰ سے مسجد الحرام کی طرف تبدیل ہونا اللہ کی قبل از وقت منصوبہ بندی کے تحت تھا، اگر پہلے سے اِس قبلے کی طرف توجہ مبذول کرانا نہ قرار پاتی تو ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل کے ہمرا ہ عراق کو چھوڑ کر مکہ آئے اور ابراھیم ؑ نے اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر جو اس کعبے کو دوبارہ تعمیرکرنے کا کام سر انجام دیا کیونکہ کعبہ بوسیدہ حالت میں تھا اور یقیناً ابراہیم علیہ السلام نے یہ تعمیر اپنی مرضی سے تو نہیں کی ہو گی اللہ کے حکم سے ہی وہاں آئے ہوں گے ۔ اس کامطلب ہے اللہ کی پہلے سے پلاننگ تھی کہ اس جگہ کو قبلہ بنانا ہے اگر یہ پلاننگ نہ ہوتی تو نہ آدم صفی اللہ کو اللہ فرماتے کہ چلو کعبہ بنا لو۔ ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کرنا اللہ کی پہلے سے پلاننگ تھی اور دوسرا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا بھی کی تھی کہ
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
سورۃ البقرہ آیت نمبر 128
ترجمہ : اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور جو ہماری اولاد ہے اُن میں سے ایک گروہ ایسا بنا جو تیرا فرمانبردار رہے ۔ اور ہم کو عبادات کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ کو قبول کر لے ، بے شک تو معاف کرنے والا ہے ۔
میری اولاد میں سے کم سے کم ایک گروہ بنانا جو مسملین کا گروہ ہو، ہم بھی مسلمین ہیں اور میری اولاد سے جو گروہ ہو وہ بھی مسلمین ہوں۔ اب ہمارے انڈیا اور پاکستان کے جو عالم ہیں وہ “مسلمین ”کو اسلام کی طرف لے جاتے ہیں اور“ مسلمین ”سے مراد مسلمان لیتے ہیں ۔ مسلمین کا مطلب جو ہم نے خودحضورﷺ سے سنا ہے وہ ہے فرمانبردار ۔آپ اسلام کا کیا ترجمہ کرتے ہیں (Submission to God) جس کا مطلب ہے اللہ کا فرمانبردار ہونا،وہ اشارہ حضورﷺ کی طرف تھا ۔ابراھیم نے کعبہ کی ازسر نو تعمیربھی کی اور ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میری اولاد میں سے ایک گروہ کو منتخب کرنا جو مسلمین ہو یعنی تیرا فرمانبردارہو ۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا کہ حضورؐ نے آسمان کی طرف سر اُٹھایا ہو اور اللہ نے کہہ دیا ہو کہ ٹھیک ہے آپ اپنا قبلہ تبدیل کر لیں ، یہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اللہ کی پلاننگ کا حصہ تھا ۔ اب یہ اللہ کا مزاج ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اے حضورؐ میں نے آپ کا بار بار اُٹھتا ہوا چہرہ دیکھ کر یہ کام کیا ہے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ یہ ہماری پہلے سے پلاننگ تھی ۔ اگر پلاننگ نہیں تھی تو دوبارہ سے کعبے کو بنوانا ، عراق سے چل کر ابراہیم ؑ یہاں آئیں اور پھر وہاں اللہ کا یہ حکم دینا کہ حاجرہ اور اسماعیل کو تم مکے میں چھوڑ کر واپس آ جاؤ۔ اور جو انہوں نے کام وہاں سر انجام دئیے وہ ہمارے مسلمانوں کے لئے مناسک حج قرار پائے۔ اب یہ جو صفی و مروی کا مقام ہے جہاں حاجی دوڑتے ہیں ، یہ دوڑنا کیا ہے ؟ جب اسماعیل ؑ کو پیاس لگی توپانی کی تلاش میں ان کی والدہ ماجدہ ہاجرہ پانی کے لئے دوڑیں ، اُن کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے عبادت بن گیا ۔جہاں کھڑے ہو کر ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ کی مرمت کی وہ مقام ابراہیم ہے وہاں جا کر مسلمان دو رکعت نماز پڑھتے ہیں وہ ابراہیم کا عمل بھی عبادت بن گیا ۔ جب ابراہیم ؑ اپنی بیوی حاجرہ اور بیٹے کو چھوڑ کر جا رہے تھے تو کئی مقامات پر شیطان آیا تو ابراہیم کو یہ کہا کہ اتنی گرمی میں اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ کر جار ہے ہو رہنے دو ، یعنی بہکانے کی کوشش کی ۔وہاں شیطان کی مجسمہ لگا دیا گیا ہے جس کو کنکر مارا جاتا ہے ۔ یہ وہ مقامات تھے جہاں شیطان نے ابراہیم ؑ کو وسوسے ڈالنے کی کوشش کی ۔ خانہ کعبہ کا قبلہ قرار دیا جانا اللہ کی پہلے سے پلاننگ تھی ورنہ ابراہیمؑ کا عراق سے آنا ، بی بی حاجرہ اور فرزند اسماعیل کو وہاں چھوڑنا یہ سب کچھ اتفاق نہیں تھا بلکہ اللہ کی پلاننگ کا حصہ تھا ۔
تاریخ ِاسلام سے ثبوت ملتا ہے کہ انسانو ں کی قربانی دی جاتی تھی :
جب اللہ تعالی نے ابراہیمؑ کو خواب میں دکھایا کہ بیٹے کو قربان کرو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی اُس وقت بیٹوں کی قربانی لیا کرتا تھا !! ہندوؤں میں بھی بلیّ چڑھانے کی رسم موجود ہے ۔ مسلمان کہتے ہیں یہ کافر ہیں کافر ۔ اگر تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ابراہیم ؑ تک بیٹوں کی قربانی کا سلسلہ اللہ کا دستور رہا ہے ، انسانوں کی بلیّ چڑھائی جاتی تھی اسی لئے اللہ تعالی نے ابراہیم ؑ کو خواب میں دکھایا تھا کہ اپنی بیٹے کو ذبح کرو ۔ اب جب اسماعیل ؑ کو ذبح کرنے کا حکم آیا تو اللہ تعالی نے وہاں پر دنبہ بھیج دیا ۔ یہاں سے اللہ تعالی نے اپنی سنت مبارکہ کو تبدیل فرمایا ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی قربانی کی جگہ دنبے قربان ہونے لگے اس سے پہلے تو انسان کی قربانی ہوا کرتی تھی ۔ اگر آج تک یہ چلتی رہتی تو کیا حال ہوتا لیکن آج کا مسلمان اسلام کی تاریخ سے نابلد ہے ۔ اب قرآن میں جو اللہ نے لکھا ہے کہ
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ
سورۃ الشعراء آیت نمبر 88
ترجمہ : اس روز نہ تو تمھارا مال کام آئے گا اور نہ تمھارے بیٹے کام آئیں گے ۔
یہاں اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بیٹے کام آتے ہوں گے ، کہ جو اپنے بیٹے کی بلیّ چڑھا دیتا ہو گا تو اس کو اللہ کی طرف شفاعت کا پروانہ اور رعایت ملتی ہو گی نا۔ لیکن جب ابراہیم ؑ کا واقعہ ہو گیا تو اس کے بعد سے یہ قانون تبدیل ہو گیا ۔ ورنہ اللہ کے یہاں بیٹے کام آنے کا تصور تو ہے نہیں ، زمین پر بیٹے کام آتےہیں لیکن اللہ یہاں آخرت کے پس منظر میں بات کر رہا ہے کہ اُس روز یوم محشر میں نہ مال کام آئے گا نہ تمھاری اولاد کام آئے گی ۔ یوم محشر میں بیٹوں کا کام آنا پہلے تھا اسی لئے اب اس آیت میں اس کی نفی کی جارہی ہے ۔
ابراہیم ؑ کے بعد بیٹوں کی قربانی کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا :
ابراہیم ؑ کے تشریف لانےکے بعد بہت ساری تبدیلیاں آئیں ہیں اور اُن تبدیلیوں کی وجہ یہ ہے کہ آدم صفی اللہ کے آنے کے بعد بہت زیادہ گڑبڑ پھیل گئی ، آدم صفی اللہ کے بعد بھی کچھ نبی آئے لیکن وہ نبی تھے اُن کا لوگوں کو نام ہی نہیں پتہ اور اگر آج ہم بتا دیں گے تو لوگ گمراہی کا الزام لگا دیں گے ۔ بہت سے نبی ایسے ہیں جن کے نام قرآن میں موجود نہیں ہیں اور اُن کا زمانہ آدم صفی اللہ سے لے کر ابراہیم خلیل اللہ کے بیچ کا زمانہ ہے ۔ اب وہ جو نبی تھے ان کے نام قرآن میں موجود نہیں ہیں ان کا نام اس لئے موجود نہیں رہا کیونکہ ایک بہت بڑا مجمع آدم صفی اللہ کی اولاد کا بتوں کی پرستش میں لگ گیا ، نبیوں سے کٹ گیا ۔ ان نبیوں کے اندر پھر یہ چلتا رہا کیونکہ ہابیل اور قابیل کو لڑائی ہوئی اور ایک بیٹا مارا گیا ، اس کی وجہ سے اللہ نے ان کو رعایت دی ۔ اس کے بعد نبیوں میں یہ ریت چل گئی کہ جس کا بیٹا مارا جائے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کو رعایت ملے گی ۔ اب آدم صفی اللہ کا جو ایک بیٹا مارا گیا وہ اُ ن کی آپسی لڑائی کی وجہ سے مارا گیا لیکن اب یہ جو ریت نکل گئی کہ جو مارا جائے گا اس پر اللہ کی طرف سے رحمت ہو گی تو اس سے وہ پھر نہیں رہے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے وہاں کہا کہ بیٹے کی قربانی دو۔ پھر بیٹے کی جو قربانی دی جانے لگی اس سے پھر یوم محشر میں رعایت ملے گی ۔ اب یہ ریت کئی نبیوں تک چلی لیکن یہ قربانی اللہ تعالی نے عارضی طور پر کی تھی کیونکہ یہ نبیوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے ، یعنی اُن کی اس غلط فہمی کو کچھ عرصے کے لئے اللہ تعالی نے قانونی طور پر جائز کر دیا ۔لیکن آدم صفی اللہ کے بعد جب دوسرا اولوالعزم رسول ابراہیم علیہ السلام آئے تو وہاں اللہ تعالی نے فوراً اس کی کی نفی کی ۔ کیونکہ اب مرسل آ گیا ہے اب پورا دین قائم ہو گا۔ نبی تو چھوٹی چھوٹی چیزیں لے کر آئے تھے کہ آدم صفی کے دین میں جو گڑ بڑ پیدا ہو گئی تھی اسے درست کرنے آئے تھے اُن کا پاس پورا علم تو تھا نہیں کہ پورے دین کے نظام کو تبدیل کر دیں ۔ لہذا جب باقاعدہ ایک اولوالعزم مرسل آیا تو اس کو اللہ تعالی نے کہا کہ اب یہ قربانی والا سلسلہ ختم کر دو اور ختم اس طرح سے کیا کہ ابراہیم ؑ کو خواب میں دکھایا کہ اپنے بیٹے کی قربانی دو اور جب بیٹے کی قربانی کا وقت آیا تو اس کی جگہ دنبہ آ گیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس دور میں بیٹوں کی قربانی ہوتی تھی اس لئے اللہ تعالی نے ابراہیم کو دکھایا اورنبی کے خواب تو سچے ہوتے ہیں۔تو اس طرح ابراہیم ؑ کے بعد یہ بیٹوں کی قربانی والا سلسلہ ختم ہو گیا ۔
اب یہ دیکھیں کہ قبلہ تو پہلا خانہ کعبہ ہی تھا کیونکہ ہدایت کا جو نظام چلا ہے وہ یہاں کعبے سے چلا ہے ، یروشلم سے نہیں چلا ہے لیکن زیادہ تر تو انبیاء اور مرسلین یروشلم میں ہی آئے ہیں ۔ اب اللہ کو یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ سارے اونٹوں اور گھوڑوں پر بیٹھ کر ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے یہاں کعبے میں آئیں لہذا وہیں پر سلمان ؑ نے قبلہ بنوا دیاتھا کیونکہ آدم صفی اللہ کے بعد وہاں کوئی مرسل نہیں آیا اور آخر مرسل محمد الرسول اللہ وہاں تشریف لائے۔
قبلے کی تبدیلی میں لوگوں کا امتحان لینا بھی مضمر تھا:
اب یہ جو ہم نے قبلے کا تاریخی پس منظر بتایا اس کے علاوہ ایک یہ بات یہ بھی تھی کہ بہت سے جو لوگ حضورؐ کے ہاتھ پر اسلام لے آئے ، اُن میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو پہلے سے مذہبی تھے ، یا تو کوئی عیسائی تھا یا پھر یہودی تھا اور عیسائی اور یہودی ہونے کی وجہ سے اُن کا قبلہ بیت المقدس تھا ۔اور چونکہ ایک لاکھ چوبیس پیغمبر آ چکے تھےاور عرصہ دراز سے یہ بات چل رہی تھی کہ وہی قبلہ ہے ۔پھر اچانک حضورؐ کا آسمان کی طرف سر اُٹھانا اور آیت کا نازل ہو جانا ، اس میں یہ بات بھی مضمر تھی کہ دیکھیں کون کون یہ سوچتا ہے کہ سارے نبیوں کا قبلہ تو بیت المقدس تھا اب حضورؐ نے اچانک کیوں تبدیل کر لیا ، یہاں لوگوں کا امتحان بھی مقصود تھا ۔
جس طرح تم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اگر میں وہی باتیں کروں جو دین الہی میں لکھی ہیں اور سرکار گوھر شاہی کی تقاریر میں آپ نے سنی ہیں تو آپ فوراً اثبات میں گردن ہلاتے ہیں اور اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو کہ آپ نے سرکار سے سنی ہی نہیں اور اُن خطوط پر بھی وہ بات شناسا نہیں لگتی جن خطوط پر سرکار گوھر شاہی کی تعلیم ہے اس طرح کی باتوں پر آپ میں سے کچھ لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کہ یہ کیا کہہ دیا !!
حضورﷺ کا جو معاملہ تھا وہ حضورؐ ہی جانتے ہیں لیکن جو اللہ نے قرآن مجید میں بات فرمائی ہے اس سے دو چیزیں ملتی ہیں کہ اس میں حضورؐ کی بھی رضا تھی کہ قبلہ تبدیل ہو جائے اورپھر یہ اللہ کا اپنا منصوبہ بھی تھا کیونکہ اس آیت میں اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اے محمد ہم نے آپ کا بار بار اُٹھتا ہوا چہرہ دیکھ لیا ہے تو پھر آپؐ اپنا رخ اپنی مرضی کے قبلے کی طرف کر لیں ، جس قبلے میں آپ کی رضا ہے اور پھر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اب کون حضورؐ کی پیروی میں حضورؐ کے ساتھ ہی اپنا رخ نئے قبلے کی طرف کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں بھاگتا ہے ۔تو اس طرح قبلے کی تبدیلی میں ان کی آزمائش بھی مقصود تھی۔
فیضان ِ گوھر شاہی :
تصوف میں بہت ساری چیزیں مقتدر اولیاء عظام سے منسوب کی جاتی ہیں ۔اور انہی کو طریقت کے خاص اسباق کہا جاتا ہے ۔اگر کوئی اچھوتی بات کہی جائے تو پھر لوگ کتراتے ہیں جسطرح
“فرمان گوھر شاہی ہے کہ جس کا قلب جاری ہو گیا تو وہ ایک نا ایک دن روشن ضمیر بن ہی جائے گا”
یہ بات صرف سیدنا گوھر شاہی نے ہی فرمائی ہے اور آپ کے فرمان کے بعد ہی یہ بات قانوناً لاگو ہوتی ہے اس سے پہلے جو اولیاء عظام، فقراءاور درویش آئے ہیں ، جنھوں نے اسم ِ ذات پھیلایا ہے نہ وہ یہ کہنے کے قابل تھے ، نہ یہ تصور ان کے یہاں موجود تھا کیونکہ وہ تصوف کو ایک دین کے نظام میں مدغم کر کے چلا رہے تھے ۔اس حوالے سے سیدنا گوھر شاہی نے بھی فرمایا کہ دین اسلام کے دو پر ہیں ایک نماز اور ایک ذکر ۔اگر ساری زندگی نماز ہی پڑھتے رہو گے تو نمازی رہوگے اور اگر ذکر کرتے رہو گے تو ذاکر کہلاؤ گے مومن تب بنو گے جب نماز بھی ہو گی اورذکر بھی ہو گا ۔اگر اسلام کے تحت یہ دیکھا جائے تو ذکر ِ قلب لینے کے بعد اگر ذکر چل جائے اور آپ نہ نماز پڑھیں اور نہ روزہ رکھیں تو پھر آپ کی ترقی نہیں ہو گی اور نہ ہی روشن ضمیری حاصل ہو گی ۔تو سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کی تشریف آوری سے قبل یہ قانون لاگو نہیں تھا بلکہ جب تک سرکار نے اس بات کا ظاہری زبان سے ذکر نہیں فرما دیا تو اس سے پہلے بھی یہ لاگو نہیں تھا ۔یعنی جو گزشتہ 20 سال کا عرصہ گزرا ہے اس میں کروڑوں لوگوں نے سیدنا گوھر شاہی سے ذکر قلب لیا اُن پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا ہے ۔یہ قانون اُس وقت لاگو ہوا
“جب فیضان ِ گوھر شاہی دین ِ اسلام کو سیراب کرتے ہوئے باہر نکلا اور تمام مذاہب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس وقت پھر یہ زبان ِ گوھر فشاں سے ارشاد ہوا کہ اب اگر کسی کا ذکر قلب چل گیا تو وہ کچھ بھی نہ کرے ، ہندو ہے تو پوچا پاٹ نہ کرے ،یہودی ہے تو اپنی عبادت نہ کرے ، عیسائی ہے تو گرجا گھرنہ جائے، مسلمان ہے تو مسجد نہ جائے کچھ بھی نہ کرے صرف ذکر ہی چلتا رہے ، تو اس ذکر کی برکت سے وہ ایک دن روشن ضمیر ہو جائے گا”
اور اس بات کے پیچھے جو خصوصیت تھی کہ اب جو ذکر ِ قلب لے گا ، کچھ بھی نہ کرے پھر بھی ایک دن روشن ضمیر بن جائے گا، یہ خصوصیت خصوصی طور پر اللہ تعالی امام مہدی کو دی ہے ۔
سمندری بابا کاواقعہ :
کلفٹن کراچی میں ایک سمندری بابا نامی مجذوب بیٹھا کرتا تھا ۔ سیدنا گوھر شاہی نے ایک دن اُن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرما دیا کہ مجذوب ہے وہ بھی ولی ہے جو ساحل سمندر پر بیٹھا ہوتا ہے ۔سرکار کی بارگاہ سے جب سمندری بابا کے بارے میں سنا تو آپ کے محب وہاں بھی آنا جانا شروع ہو گئے ۔ورنہ اس سے پہلے اس بزرگ کو کون جانتا تھا ! سیدنا گوھر شاہی ہی واحد وہ ذات ہیں کہ جنھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اگر اس دور میں کوئی ولی ہے تو وہ یہاں یہاں بیٹھا ہوا ہے۔اگر دنیا کو پتہ چلا کہ محمد اسحاق کوہاٹ غوث الزماں ہے تو وہ بھی سرکار گوھر شاہی کی مرحون منت ہے ورنہ لوگ ان کو زندہ پیر کے لقب سے پکارتے تھے ۔سرکار گوھر شاہی کے ماننے والے عام عام لوگ غوث الزمان کو ملنے جاتے تو وہ انھیں امامت کے لئے دعوت دیتے اور کہتے کہ میں تمھارے پیچھے نماز پڑھوں گا۔
اسی طرح سمندری بابا کے پاس جب ہمارے زاکرین جانے لگے خاص طور پر لڑکیاں ، فل میک اپ کیا ہوا ہے اور ماڈرن کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور وہ بابا جی کو ملنے کے لئے جارہی ہیں ۔ سمندری بابا کے ذہن میں جو بات اٹک گئی وہ یہ تھی کہ یہ سرخی پاوڈرلگانے والی لڑکیوں کو اللہ ھو کیسے مل سکتا ہے ، ان کا ذکر قلب کیسے چل سکتا ہے ؟ سمندری بابا ولایت کے مقام پر فائز ہو نے کے باوجود سب سرکار گوھر شاہی کے ماننے والوں کو دیکھا تو اس کے دل میں بھی آرزو پیدا ہوئی اور اس آرزو تحت اس نے اپنے مرشد کو کہہ دیا کہ مجھے بھی اسم ذات عطا کر دیں ۔اُن کے مرشد نے کہا چپ بیٹھ جا ، ذکر تیری زمہ داری نہیں ہے تو بس فکر کر۔اب سمندری بابا کو اس بات پر اعتراض تھا کہ یہ کلین شیو لڑکے ، یہ سرخی پاوڈر لگانے والی لڑکیاں جن کو نہ شریعت کا اور نہ دین کا پتہ ہے ، ان کے قلب کیسے جاری ہو سکتے ہیں !! ایک دن سیدنا گوھر شاہی مجمع سے خطاب فرما رہے تھے تو آپ نے فرما دیا کہ بھئی وہ جو مجذوب سمندر کے کنارے بیٹھا ہوا ہے جو یہ کہتا کہ سرخی پاوڈر لگانے والوں کا ذکر قلب اللہ ھو کیسے چل سکتا ہے ۔پھر فرمایا ایک دن ہم نے بھی سوچا کہ سرخی پاوڈر والوں کا اللہ ھو کیسے چل سکتا ہے پھر جواب آیا کہ “یہ رعایت صرف امام مہدی کے لئے ہے ”۔
يه وہ بات ہے جو عام لوگوں کو سمجھنا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے جو دین کے اراکین ، رسومات اور عبادات ہیں ادا کرتے ہوئے آ رہے ہیں ۔اب اس کو آزما کر دیکھیں کہ جب دل اللہ اللہ کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے ۔جب پہلی دفعہ ذکر چلتا ہے بہت سرور ہوتا ہے روحیں مدہوش ہوتی ہیں اور نمازوں کی طرف سے سستی آجاتی ہے اور اس سستی کی وجہ یہی ہے کہ نمازیں تو ساری عمر سے پڑھ رہے ہیں لیکن یہ کیفیت تو ہوئی نہیں تھی ۔لیکن جب ہم ان کو سمجھاتے ہیں کہ اب دل میں نور آ گیا ہے اب اگر نماز پڑھو گے تو کیفیت کچھ اور ہو گی تو پھر وہ نماز کی ادائیگی کرتے ہیں تو وہ سستی دور ہو جاتی ہے کیونکہ نماز میں ذکر فکر اور تیز ہو جاتا ہے اور مستی کا عالم بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
پیروکار ِ گوھر شاہی کو کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا :
سیدنا گوھر شاہی اس زمانے میں تشریف فرما ہوئے ہیں کہ جب تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادتیں رائیگاں ہو رہی ہیں ، نہ ہندؤوں کی پوجا پاٹ صحیح جا رہی ہے ،نہ مسلمانوں کی عبادات قبول ہو رہی ہے ، نہ یہودیوں کی عبادت کارآمد ہے دنیا میں آج جو اُن کا مقام ہے وہ صرف پیسے کے بل بوتے پر ہے ان کے اندر بنی اسرائیل والی تو کوئی بات نہیں ہے ، اللہ تعالی اُن کے لئے کوئی من وسلویٰ تو نہیں بھیجتا ہے اور نہ ہی کلام کرتا ہے نہ وہ اللہ سے کلام کر سکتے ہیں ۔اب اس دور میں یہ تمام عبادتیں کرنے والے اپنی عبادتوں سے کچھ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں ، اسی دور کے لئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ایک آیت نازل کی ہے
فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ
سورۃ النساء آیت نمبر 103
ترجمہ : جب تمھاری نمازیں قضا ہو نے ہونے لگ جائیں تو اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کے بل اللہ کا ذکر کرو۔اور جب اطمینان قلب میسر آ جائے تو پھر نماز قائم ہو جائے گی ۔
سیدنا گوھر شاہی بھی یہی فرما رہے ہیں کہ کہ اگر یہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں کے بل ہونے والا ذکر تمھیں مل گیا پھر کوئی بھی عبادت نہ ہو توصرف اسی ذکر کی وجہ سے روشن ضمیر ہو جائے گا۔اور اس کے بعد جب اطمینان قلب میسر آ جائے گا تو پھر نماز بھی قائم ہو جائے گی ۔اب یہ اطمینان قلب امام مہدی گوھر شاہی نے تمام مذاہب کے لئے رکھی ہے ۔ اطمینان قلب یہی ہے کہ جب دل کی دھڑکنوں میں اللہ کا نام شامل ہو تو مزا آتا ہے اور نہ ہو تو مزا نہیں ہے ۔جیسے نفس کی مرغوب غذا ساز اور آواز ہے یہی وجہ ہے کہ موسیقی ، نعتیں اور گانے آپ کو پسند ہیں ۔یہ نعتیں اور تلاوتیں تو نفس کے لئے ہے ساری رات کرتا رہ تاکہ غلط کام میں نہ پڑے ۔اگر ساز کے ساتھ یا اللہ ، یامحمد ، یا خواجہ پڑھو گے تو نفس بھی جھومے گا، مزا بھی آئے گا اور نور بھی ملے گا۔ولیوں کو یہ راز پتہ چل گیا کہ نفس کو اللہ کی طرف لانے کا طریقہ ہے کہ اُس طرح کے کام نفس سے کرواؤ جو نفس کو پسند ہیں اگر نفس کی پسندیدہ چیزوں کے زریعے اللہ اللہ کروایا تو نفس خوشی خوشی کرے گا۔ولیوں نے اُن کاموں کی ترغیب دی جو نفس آسانی سے قبول کر لے یعنی نفس کی رگ رگ سے واقف ہو گئے ۔ اب امام مہدی گوھر شاہی ساری دنیا کے لئے تشریف لائے ہیں اور سارے مذاہب کی عبادتیں بھی بیکار ہو گئیں ہیں کیونکہ وہ رب تک پہنچ ہی نہیں رہی ہیں تو اس کے لئے اللہ تعالی نے یہ خصوصیت دے دی کہ اگر یہ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ والی شرط پوری کر دیتے ہیں تو ہمارے نزدیک ان کو ہم ولیوں کا درجہ دیتے ہیں ۔
“قرآن مجید میں جو بات ولیوں کے لئے لکھی ہے سرکار گوھر شاہی نے وہ بات اپنی کتاب مقدس دین الہی میں مومن کے لئے لکھ دی ، فرمان گوھر شاہی ہے کہ “ اگر رب کا نام تیری روح تک پہنچ گیا تو پھر تیرا شمار انہی میں ہے جن کے لئے کہا گیا کہ انھیں نہ خوف ہو گا اور نہ کسی بات کا ڈر ہو گا ”
یہ بات تو اللہ نے قرآن میں ولیوں کے لئے کہی ہےکہ انہیں کسی چیز کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا ہے اور سیدناگوھر شاہی نے وہ بات مومنوں کے لئے کہہ دی ہے ۔ لیکن جب تک تیرے اندر خوف ہے تو سمجھ جا کہ تو مومن ہے۔اگر کوئی ڈیوٹی والا ہوا اور وہ کسی غیر مذہب میں گیا اور مندروں میں جانا پڑا، بتوں کو سجدہ کرنا پڑا اگر وہ ولی ہوا تو بتوں کے آگے جھک جائے گااس کو تو کوئی خوف ہی نہیں ہے اور اگر دل جھکنے نہ دے تو تُو مومن ہے ۔حضورؐ نے مومن کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ ایمان بین الخوف و الرجاء کہ مومن کا ایمان خوف اور اُمید کے درمیا ن ہوتا ہے ۔کبھی مومن کے اوپر اُمید کا غلبہ ہوتا ہے اور اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ بڑا رحیم ہے معاف کرے گا چلو دو چار گناہ کر لیتے ہیں ۔ اور کبھی ایسا بھی ہو گا کہ وہ بلا وجہ ڈرے گا۔لیکن جب اللہ کی تجلی پڑ جاتی ہے تو کہا
الَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورۃ یونس آیت نمبر 62
ترجمہ : جو اللہ کے ولی ہیں انہی کسی چیز کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا ۔
جسطرح رابعہ بصری کا واقعہ ہے وہ ولیہ تھی اُن کے مرشد نے حکم دیا کہ کوٹھے پر جا کر بیٹھ جا اور وہ وہاں جا کر بیٹھ گئیں ، انہیں کوئی خوف ہی نہیں تھا ۔ولایت میں یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی گناہ ہوا تو تجلی ان گناہوں کو دھو دیتی ہے ۔اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جو امام مہدی گوھر شاہی کا پیروکار ہو گیا ، جس کی روح تک رب کا نام پہنچ گیا وہ اُس کیفیت میں داخل ہو جائے گا جہاں اسے کوئی خوف نہیں ہو گا۔اسی زمین پر پتہ چل جائے گا ۔ اُس کو کہیں گے کہو سرکار گوھر شاہی رب الاربا ب ہیں تو وہ بے دھڑک کہہ دے گا کہ ہاں رب الارباب ہیں کیونکہ اسے کوئی خوف ہی نہیں ہے ۔جو امام مہدی گوھر شاہی کا پیروکا ہو گیا وہ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کے زمرے میں آ گیا ۔اگر آج بھی خوف ہے تو تُو گوھر شاہی کا بندہ نہیں ہے ۔اب خوف انسان کے اختیار میں نہیں ہے ۔مومن کا ایمان تو خوف اور رجا کے بیچ میں ہے اگرغلط کام ہو گیا تو احساس ندامت آئے گااور اگر وہ ولایت کے مرتبے پر چلا گیا تو اس سے پہلے کہ احساس ندامت ہو وہ تجلیوں کو نور اسے مٹا دے گا۔خوف میں مبتلا کرنے کا ایک باطنی فارمولا ہے کہ پہلے بندہ ذلیل ہو پھر خوف میں مبتلا ہوتا ہے ۔پہلے نفس اسے ذلیل کرتا ہے جب ذلیل ہو گا وہ پھر اس پر خوف طاری ہو گا۔
امام مہدی گوھرشاہی کا جو بندہ ہو گا ، جس کی روح تک رب کا نام پہنچ جائے گااس کی پہلی نشانی یہ ہو گی کہ کسی قسم کا خوف اُس پر قابض نہیں ہو سکتا اور کسی کے آنے جانے کا اسے غم نہیں ہوتا کیونکہ جو کچھ اسے مل گیا ہے اس سے زیادہ قیمتی شے دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں ۔اور جسے نسبت ِگوھر شاہی مل جائے ، میں جتنا سمجھاؤں نسبت گوھر شاہی سمجھ نہیں آئے گی ، نسبت گوھر شاہی کو سمجھنے کے لئے کم از کم یوم محشر کا انتظار کرنا ہو گا۔جب یوم محشر بپا ہو گااور سب سے بڑے تخت و تاج کا مالک تمھیں نظر آئے گا اور اس وقت تمھارا منہ کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔ایک ہلکا پھلکا نیک خیال کہ سرکار کی محبت عطا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے اور باقی سارے دنیا کے خیال ہوں ، ایک فیصد خیال محبت کے لئے تھا اور نناوے فیصد دنیا کا خیال ہے ، سرکار گوھر شاہی اس ایک فیصد کی بھی لاج رکھ لیں گے ، رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔ اللہ تعالی بھی فرماتا ہے کہ ایک ایک چھوٹے چھوٹے گناہ پر سزا اور چھوٹے چھوٹے نیک اعمال پر جزا دے گا لیکن سرکار گوھر شاہی کے یہاں سزا کا نظر یہ نہیں ہے صرف نوازنے کی بات ہے ، عطا ہی عطا ہے ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 20 اور 21 جولائی کے خطاب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔