- 1,121وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
حضورؐ کودیدار الہٰی پہلی دفعہ کیسے اور کہاں ہوا؟
نبی پاکؐ کی عمر جب سات سال تھی تو جبرائیل آئے اور اُس وقت آپؐ خانہ کعبہ میں تھے۔ جب جبرائیل آئے تو انہوں نے سینہ چاک کیا اور نطفہٴِ نور قلب میں ڈال دیا، وہ طفلِ نوری تھا۔ طفلِ نوری کے سینے میں آنے کے بعد پورے جسم میں ذکرِاللہ شروع ہوگیا اور ہر وقت ذکرِاللہ ہوتا رہتا۔ آپؐ کی عمرِ مبارک بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذکرِاللہ بھی اندر ہی اندر بڑھتا جا رہا ہے۔ جب چار پانچ سال مزید گزرے تو آپؐ تنہائی پسند ہوگئے۔ آپؐ اکیلے بیٹھ جاتے اور اکیلے بیٹھ کر اپنے دل کی طرف توجہ کر کے ذکر میں مصروف رہتے۔ پھر اِس کے بعد آپؐ کا یہ دستور بن گیا کہ کئی کئی دنوں کیلئے آپؐ غارِ حِرا میں تشریف فرما ہوتے اور وہاں آپکا سارا کا سارا وقت ذکر، مراقبے اور مکاشفات میں گزرتا۔ کتابوں میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں خاص طور پر کتابوں میں وہ جو واقعہ لکھا ہے کہ حضورؐ پر جب پہلی وحی آئی تو آپؐ گھبرا گئے۔ اب جن لوگوں کی جو دینی معلومات ہے وہ صرف کتابوں تک محدود ہے تو جب وہ اِن معاملات پر گفتگو کرتے ہیں تو عام لوگوں کو پریشان کر دیتے ہیں۔ اگر جبرائیل جب وحی لے کر آئے تھے تواگروہ جبرائیل کی پہلی ملاقات ہوتی تو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا کہ جبرائیل کون ہیں اور اِن کی سند کیا ہے کیونکہ وحی کی تو بعد میں بات آئے گی کہ یہ جو آیا ہے یہ کون ہے! ایسا تو نہیں ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ جبرائیل آئیں اور کہیں کہ میری بات مانو میں فرشتہ ہوں بلکہ یہ تو آپ لوگوں نے کتابوں میں ایسا پڑھا ہے۔ وحی نازل ہونے سے پہلے تقریباً ہزار مرتبہ جبرائیل آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوچکے تھے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے کہ
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
سورة الضحی آیت نمبر7
اب اِس آیت کا جو مولوی ترجمہ کرتے ہیں وہ ترجمہ تو یہ ہے کہ اور جب ہم نے آپ کو “معاذاللہ” گمراہ پایا تو پھر ہم نے آپ کو ہدایت دی۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ قرآن اور حدیث کا آپس میں تضاد ہو۔ جو قرآن کا مفہوم آپ کے علماء حضرات بیان کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کو گمراہ پایا تو ہدایت دی اور محمد الرسول اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہاں آنے سے پہلے بھی نبی تھا تو گمراہ کب تھے! مولویوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اب لفظ ضَال سے مراد گمراہی لی گئی ہے تو اب جہاں پر بھی یہ لفظ استعمال ہوگا تو وہ اِس کا یہی ترجمہ کریں گے کہ اِس سے مراد گمراہی ہے۔ جب کہ یہ ضَال کا مطلب ہے کہ گہرا سایہ۔ جب نبی پاکؐ غارِ حرا میں ہوتے تو نبی پاکؐ کے پاس وقتاً فوقتاً جبرائیل امین کا آنا جانا ہوتا اور آپؐ کے قلبِ مبارک میں شوقِ وصال اللہ کو دیکھنے کا شوق اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور بہت بے قرار رہتے ہیں۔ آپؐ کے اوپر ایک ایسا حال وارد ہوتا ہے کہ آپؐ کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ صرف اِسی آرزو میں آپؐ کے شب و روز گزرتے ہیں کہ رب کا دیدار ہوجائے تو جب اِس قدرر شدت کی آرزو اور چاہت اللہ نے دیکھی ہے کہ میرا حبیب مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو پھر جبرائیل کو بھیجا ہے کہ جاوٴ اور لطیفہ انا کی تعلیم آپؐ کو بتا دو۔ لطیفہ انا کی تعلیم بتائی ہے اور جب آپؐ کا لطیفہ انا طاقتور ہوگیا ہے تو پھر رب کا دیدار آپؐ کو غارِ حرا میں ہی ہوگیا۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے وَوَجَدَكَ ضَالًّا اور جب ہم نے تمہیں دیکھا کہ شوقِ دیدار میں آپ اپنے ہوش و حواس سے ماورا ہوچکے ہیں اور آپ کے اوپر ایک دیوانگی اور ایک وارفتگی طاری ہے اور سوائے اپنے رب کے دیدار کے آپ کو کچھ اور سجھائی نہیں دے رہا ہے تو فَهَدَىٰ تو پھر ہم نے ہدایت بھیجی کہ اِس طرح دیدار ہوگا۔ اِس میں کوئی گمراہی کی بات نہیں ہے تو غارِ حرا وہ مقام ہے جہاں پہلی دفعہ حضورؐ کو اللہ تعالی کا دیدار ہوا۔ غارِ حرا میں ہی پہلی دفعہ حضورؐ اللہ سے ہمکلام ہوئے۔ غارِ حرا میں آپؐ کا آنا جانا کم سے کم بارہ سال تک چلتا رہا۔
حضورؐ کا روحانی سفر:
جب قرآنِ مجید کی پہلی وحی آپؐ پر نازل ہوئی تو آپؐ کو بخار ہوگیا۔ اِس سے پہلے تو نبی پاکؐ کا سارا کا سارا جو بھی تعلق باللہ تھا وہ باطنی طور پر رہا ہے۔ آپؐ کے پورے وجود اور نس نس میں جو اللہ کا عشق گردش کررہا ہے اور طفلِ نوری سے جو اسمِ ذات نکلا ہے وہ نس نس میں گونج رہا ہے تو یہ سب باطنی تھا۔ اب آکرکے اسمِ ذات کی جو کنجی ہے وہ جبرائیل نے حضورؐ کو ظاہری طور پر اُمت کیلئے عطا کی ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي
سورة العلق آیت نمبر1
انسان کو رب نے اِسی کنجی سے بنایا ہے۔ اب یہ جو اسمِ ذات حضورؐ کو دیا ہے یہ فقط اسمِ ذات نہیں بلکہ اُس کی کنجی ہے یعنی یہ مفتوح الاسمِ ذات ہے۔ عربی زبان میں مفتوح کنجی کو کہتے ہیں اور اگر زیادہ ہوں تو پھر مفاتیح کہا جاتا ہے۔ یہ احادیث میں نبی پاکؐ نے کامل ذات کا جب تعارف پیش کیا ہے تو کامل ذات کو اِس جملے سے یاد کیا ہے “مفاتیح الذکراللہ”۔ مفاتیح الذکر یعنی یہ جو کامل ذات ہوتے ہیں یہ ذکر کی کنجیاں ہیں۔ مفاتیح کنجی کی جمع ہیں۔ اب اگر آپ کے گھر میں کوئی یو پی ایس والا پارسل لے کر آتا ہے تو پھر وہ آپ کو کہتا ہے کہ دستخط کردو تو وہ اعتراف ہے کہ آپ کو پارسل مل گیا ہے۔ یہی چیز یہاں ہورہی ہے اقْرَأْ کہ اعتراف کرو۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي کہ یا رسول اللہ اعتراف کرلیں کہ آپ کو رب کا اسم ہم نے دے دیا ہے۔ یہ سارے کے سارے جو واقعات ہیں حضورؐ کا جو روحانی سفر ہے وہ اعلانِ نبوت کے بعد تو ہے ہی نہیں بلکہ وہ سارا روحانی سفر اعلانِ نبوت سے پہلے کا ہے۔ اب یوں سمجھ لیں کہ پچیس سال کی عمر میں شادی ہوگئی ہے اور شادی کے بعد سے یہ جو پندرہ سال کا دور گزرا ہے یہ سارا کا سارا حضورؐ کی روحانی تربیت کا دور تھا۔ ہم تو کتابوں میں پڑھ لیتے ہیں کہ داتا صاحب اور غوثِ پاک جنگلوں میں گئے اور حضورؐ نے تو اپنی آپ بیتی نہیں لکھی اور نہ صحابہ اکرامؓ کو بیٹھ کر سنائی ہوگی کہ اعلانِ نبوت سے پہلے کیا ہوتا تھا لیکن اعلانِ نبوت سے پہلے جو پندرہ سال گزرے ہیں وہ سارے کے سارے تو روحانی سفر کے اوپر مبنی ہیں۔ جو آپ سرکار گوھر شاہی کی کتاب “روحانی سفر” میں سرکار گوھر شاہی کی جو آپ بیتی پڑھتے ہیں کہ کہیں پر شیطان کا حملہ کیسا ہے، کہیں شیطان کا دھوکہ کیسا ہے، شیطان اور ابلیس سے سرکار گوھر شاہی نبرد آزما ہیں اور شیطان کی ساری کی ساری ناپاک کاوشیں اور کوششیں تھی اُن کو سرکار گوھر شاہی کی جواں مردی اور اعلیٰ ہمت نے شکستِ فاش کی۔ نبی پاکؐ کا بھی تو روحانی سفر گزرا ہے اور وہاں پر بھی تو بہت ساری چیزیں ہوئی ہونگی۔ ایک سب سے بڑی چیز تو یہ تھی کہ جب شروع شروع میں جبرائیل یا کوئی فرشتہ آتا تھا آپؐ اِس کے بارے میں بہت شکی ہو جاتے تھے یعنی آسانی سے یقین نہیں کرتے تھے۔ آپؐ کے ذہن میں یہ ہوتا تھا کہ کہیں یہ کوئی جِن نہ ہو کیونکہ یہ وہ دور ہے کہ جس معاشرے میں زیادہ تر لوگ کاہن تھے۔ کاہن وہ ہیں جو جِنّوں کو نکالتے ہیں جن میں جِن کی سواری آجاتی ہے اور جِن اُن کی زبانوں سے بول رہا ہے تو حضورؐ کا بھی جو یہ معاملہ ہے وہ کئی مرتبہ اِسطرح رہا ہے کہ اب جبرائیل آئے ہیں تو ابھی شروع میں پریکٹس تو کرائیں گے کیونکہ اعلانِ نبوت تو چالیس سال کی عمر میں ہوگا۔ جب چالیس سال کی عمر میں اعلانِ نبوت ہوگیا تو اب حضورؐ ہر چیز کے ماسٹر ہوگئے ہیں تو اب اس لئے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوگا جس میں شیطان کے دھوکے کا ذکر آئے گا۔ غارِ حرا نبی پاکؐ کیلئے جنگل کے چِلّے کا درجہ رکھتا ہے۔ غارِ حرا میں آپؐ نے ضربیں بھی لگائی ہیں، وہاں آپؐ کو مکاشفے بھی ہوئے ہیں، وہاں آپؐ کو دیدارِ الہی بھی ہوا ہے، وہاں آپؐ اللہ تعالی سے ہمکلام بھی ہوئے ہیں اور بہت سارے واقعات وہیں ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 11 مارچ 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔