کیٹیگری: مضامین

کیا پتھروں کو پوجنا شرک ہے؟

ہرمذہب کا ایک بھید ہوتا ہے۔ اسلام کا بھید “م” ہے، ابتداء میں م سے “محمد” اور انتہاء میں م سے “مہدی”۔ یہ اسلام کا بھید ہے۔ اسی طرح ہندو دھرم کا بھی ایک بھید ہے تو وہ اُس دین والوں کیلئے ہے۔ آپ بھی مٹی کے انسان ہو تو مٹی اور پتھر میں ذراسا ہی فرق ہے۔ پتھر سخت ہوتا ہے اور مٹی نرم ہوتی ہے توبس اتنا سا ہی فرق ہے لیکن اسی مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کے اندر نبی بھی آئے تو تم نے اُن کے پاوٴں بھی چُومے اور اُن کے وسیلے سے تم اللہ تک بھی پہنچتے ہو۔ تم خود بھی مٹی ہو اور جب تم کوقبرمیں ڈال دیں گے توتمہارا جسم اور ہڈیاں سب مٹی میں جائیں گی۔ جو مٹی کے بنے ہوئے انسان ہیں اُن کے اندرنبی، ولی، پیر اور پیغمبر بھی آئے تواب پتھروں کوبھی اللہ نے کچھ دیا ہوگا۔ اگر مٹی میں اللہ ایمان کی دولت، نبوت اور ولایت ڈال سکتا ہے تو پتھروں میں بھی ڈال سکتا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
سورة البقرة آیت نمبر 109
ترجمہ: اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔

نبی پاکؐ کے چاہنے والوں اور منافقوں میں یہی فرق تھا۔ جو حضورؐ سے محبت کرنے والے تھے اُن کو محمدؐ میں رب نظرآتا تھا اور جومنافق تھے وہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے جیسے انسان ہے۔ منافق کہتے کہ یہ تم نے کیسا نبی بھیج دیا جو کھاتا اور پیتا بھی ہے اور انسانوں کی طرح چلتا بھی ہے۔ جو زمین پرتمہاری طرح چلتا تھا پھرایک رات کو اُسے اللہ نے شبِ معراج پربھی بلایا لیکن تم کوتونہیں بلایا۔ اسی طرح تم ہوجواُن کوکہہ رہے ہوکہ پتھر کے بُت ہیں۔ کیا خانہ کعبہ سونے کا بنا ہوا ہے اور اگر سونے کا بن بھی جائے توپھربھی پتھراورسونے میں ذرا ہی فرق ہے۔

فقیر وہ ہے کہ جس کی نظر میں ہیرے اور عام پتھر کی ایک ہی قیمت ہے۔

اگرکوئی کہے کہ میں فقیر ہوں اور وہ ہیرے کو ذیادہ اہمیت دے لیکن پتھر کو اہمیت نہ دے تو وہ فقیر نہیں ہے۔ ہم خانہ کعبہ میں کسکو پُوج رہے ہیں، کیا ہم نے خانہ کعبہ میں اللہ کوبیٹھا دیکھا ہے! آپ کہتے کہ ہم اِس لئے کرتے ہیں کہ حضور پاکؐ کی سُنت ہے تو حضور پاکؐ نے جوسُنتیں کی ہیں تووہ ساری کی ساری پوری کرنی چاہیئں۔ حضورؐ نے اللہ کو بھی دیکھا ہے۔ پھرلوگ نکال کے لاتے ہیں کہ جب فتح مکہ ہوگئی اور حضورپاکؐ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تووہاں تین سوساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے تواُن تین سوساٹھ بُتوں کوتوڑا، گِرایا اور فرماتے تھے کہ

جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ
سورة الاسراء آیت نمبر 81
ترجمہ: حق آگیا اور باطل چلا گیا۔

اُن بتوں کوتوڑتے توڑتے ایک بت کے اندر سے ایک چنگاری نکلی اور وہ بُت بولنے لگا۔ صحابہ اکرامؓ پریشان ہوگئے کہ بُت بھی بول رہا ہے تو حضورؐ نے فرمایا کہ پریشان نہیں ہو کیونکہ اِس کے اندر شیطان جِن گُھسا ہوا تھا۔ وہ شیطان جِن بُت کے اندر بیٹھا ہوا تھا تواُس سے آواز آرہی تھی۔ اب یہ واقعہ سُن کراگرمسلمانوں نے سمجھ لیا کہ سارے ہی پتھروں میں شیطان جِن بیٹھا ہے توحجرِاسود کو کیوں چوم رہے ہو کیونکہ حجرِاسود بھی تو پتھر ہی ہے! اگرپتھرمیں جِن آسکتا ہے تو کوئی اورروح بھی آسکتی ہے۔ اِس لئے جسطرح بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے، ڈھادے جو کچھ ڈھیندا اے
ایک بندے دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا اے

کسی انسان کا بھی دل نہ توڑو کیونکہ پتہ نہیں کس کے دل میں رب رہتا ہو۔ اِسی طرح کسی بُت کو بھی بُرا نہ کہو کیونکہ پتہ نہیں کس بُت کے اندر پاکیزہ روح قائم کرتی ہو۔ سارے بُت توٹھیک نہیں ہیں لیکن کونسا ٹھیک ہے اِس کا تجھے پتہ ہی نہیں ہے۔ جس طرح کس کے دل میں رب رہتا ہے تجھے پتہ نہیں ہے تو سب کا تجھے احترام کرنا پڑے گا۔ انسانیت کا احترام انسانیت کی ضرورت ہے۔ اب تجھے پتہ ہی نہیں ہے کہ کونسے بُت کے اندر رب کیطرف سے کوئی روح آکر رہ رہی ہے تو بس تم چُپ رہو۔ یہ اُس دھرم کیلئے اللہ نے رکھا ہے تو اُن کو جانے دے اور تم اپنے دین کی بات کرو۔ مسلمان ہندو دھرم کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہے، کیا تجھے اسلام سے رب نہیں ملا ہے تو تم ہندو بن جاوٴ! لیکن اگرایسی بات نہیں ہے تو تم ہندو دھرم کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو! اگر کوئی ہندو ہم سے کوئی ہندو پوچھے گا تو ہم اُسے سمجھائیں گے کہ مندر میں جاوٴ تو یہ کام کیا کرو تو پتہ چل جائے گا کہ کونسے بُت کے اندر رب کا کرم ہے۔ یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ پتھروں پررب کا کرم نہیں ہوسکتا کیونکہ حجرِاسود پرہوا ہے اور خانہ کعبہ۔ اگرپتھرکوپوجنا اوراہمیت دینا غلط ہے تو پھرسارے پتھروں کودینا غلط ہے خواہ وہ کاشی کا بُت ہو یا وہ خانہ کعبہ کا حجرِاسود ہو، دونوں پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ اب بات آجاتی ہے کہ وہ ہمارا مسلمانوں کا ہے تو بات اصل یہی ہے حقیقت کی نہیں ہے کیونکہ تمہارا ہے تو صحیح ہے، کسی اور کا ہے تو غلط ہے۔ جسطرح امریکہ کے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ جب تک بندوق میرے ہاتھ میں ہے دنیا محفوظ ہے لیکن جب تم نے بندوق کو چُھولیا تو اب مسئلہ ہوگیا۔ یہی حال ہرجگہ نظرآتا۔ انسان بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اور اِسی انسان کے اندر جب رب کی کرم نوازی ہوجاتی ہے تو اِس انسان کے ہاتھوں کو بھی لوگ چومتے ہیں۔
انسانوں کے اندر بھی تو شیطان جن گھُس جاتے ہیں۔ بُت کے اندر بھی جِن گھُس جاتے ہیں اور انسان کے اندر بھی گھُس جاتے ہیں تو انسان میں بھی رب آجاتا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے اور اگر کسی کا دماغ خالی ہے اور اُس نے توحید کو جاہلوں سے پڑھا ہے تو اُس کو کیا سمجھ میں آئے گا! علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
بیاں میں نکتہِٴ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے

بات تو تمہارے دماغ کی ہے اور اگر وہاں بُت خانہ بنا ہوا ہے تو توحید کیسے سمجھ میں آئے گی! اسی طرح بتوں میں جو پتھر کے بنے ہوئے ہیں اُن میں شیطان جِن آجاتا ہے، انسانوں میں بھی شیطان جِن داخل ہوجاتا ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ انسانوں کے اندر رب کے جلوئے بھی داخل ہوجاتے ہیں تو اُس پتھرکے بُت میں بھی رب کا جلوہ داخل ہوسکتا ہے کیونکہ جب شیطان جِن داخل ہوسکتا ہے تو رب کا جلوہ کیوں نہیں داخل ہوسکتا! اگرتمہارا یہ خیال ہے کہ شیطان جِن توبُت میں داخل ہوسکتا ہے اور رب کا جلوۂ داخل نہیں ہوسکتا توپھراِس کا مطلب ہے کہ شیطان جو ہے وہ زیادہ طاقتور ہے اور رب کے جلوئے کو کوئی طاقت ہی حاصل نہیں! اگر اِن پتھر کے بتوں میں رب کا جلوۂ داخل نہیں ہوتا ہے تو پھر تم مسلمان جو یہ قیمتی پتھر کی انگوٹھیاں کیوں پہنتے ہو اور اِن میں کیا ہے کہ یہ عقیق، فیروزہ اور فلاں اور فلاں ہے اور اِس سے برکت ہوگی لیکن تمہارے ہاتھ میں جو پتھر بندھا ہے اُس سے برکت ہوگی اور ہندو کے مندر میں جوپتھرکا بُت بنا ہے وہ گمراہی اور کُفر ہے! تم پہنو تو برکت اور ہندو بُتوں کی پوجا کرے تو شرک۔ جب تمہارا عالمِ نزع کا وقت آئے گا تو پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ حقیقت کہاں تھی۔

اگررب دل میں ہے تو کہیں بھی سَر جُھکا دے اور اگر دل میں رب نہیں ہے تو کعبے میں سَرجھکا کر بھی نکھٹُو کا نکھٹُو ہے۔

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جُھکائی دیکھ لی
کعبے ول او جاندے جیڈے ہوندے کَم دے چوچی

کعبے کو تو وہ جاتے ہیں جن سے محنت نہیں ہوتی اور کام چور لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے اندر کا کعبہ بیدار نہیں کرسکتے وہ مٹی کے بنے ہوئے کعبے کیطرف جاتے ہیں۔ تیرے اندر بھی توکعبہ چھُپا ہوا ہے۔ تم کہتے ہو کہ تم مرد ہو اور عورت سے ذیادہ عظیم ہو لیکن ایک بوڑھی عورت کا طواف کرکے کعبہ چلا گیا اور تم اُسی کعبے کا طواف کرنے جارہے ہو جوعورت کا طواف کررہا ہے۔ مردانگی ہے توکوئی نیا کعبہ لاوٴ کیونکہ یہ کعبہ توعورت کا طواف کرتا ہے۔ اب ہماری اِس گفتگو سے مولوی جملے کاٹ کاٹ کرمولوی لگائیں گے اور پھرکہیں گے کہ دیکھو خانہ کعبہ کی گستاخی کررہا ہے۔ ہم بتوں کو بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ حجرِاسود بھی پتھر کا بنا ہے۔
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہندووٴں کے پتھر کے بتوں کو بُرا کہہ دیا تو تم اپنے مقدس پتھروں سے بھی بے فیضِ ہوگئے۔ اگر پتھر کی بنی ہوئی چیزیں ناکارہ ہیں تو پھر تیرے لئے کعبہ بھی ناکارہ ہوجائے گا۔ پھر تیرے لئے حجرِاسود کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی کیونکہ تیرے ایمان اور عقیدے میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ پتھروں کے اندرکچھ نہیں ہوتا۔ کچھ نہیں ہوتا توتین سوساٹھ بتوں میں سے ایک اللہ نے کیوں رکھ لیا!

خانہ کعبہ میں تین سوساٹھ بُت کیوں تھے؟

ہردین میں تین سوساٹھ غوث، اوتاد، اخیار، زنجبا اور نقبا آتے تھے اور ہردورمیں آئے ہیں۔ غوث، اوتاد صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ ہردور اور مذہب میں یہ آتے رہے ہیں۔ پچھلے زمانوں میں جوتین سوساٹھ اولیاء آتے تھے، اُن کوعلم تونہیں تھا تواُن کے مرنے کے بعد وہ اُن کے مجسمے بنا کرکعبے میں رکھ دیتے تھے اور اُن کی عزت کرتے تھے۔ پھرنسلیں آگے چلیں تو اُن نسلوں نے یہ کیا کہ بجائے عزت کرنے کے پھراُن کو پوجنا شروع کردیا تو یہ غلط ہوگیا۔ جب یہ چیز غلط ہوگئی توپھراُن کوحکم دیا کہ اِن کوکعبے سے نکال دو۔ لیکن اب یہ بات اِس لئے نہیں سمجھائی کیونکہ وہ اِس قابل ہی نہیں تھے کہ اُن کو یہ بات سمجھ میں آتی۔ آج بھی اگرتیری سمجھ میں بات نہیں آتی ہے توتجھ میں اوراُن میں کیا فرق ہے۔ وہ اُس دورکا ابوجہل تھا اور تم اِس دور کے ابوجہل ہو۔ بات یہی ہے جو اُن کو سمجھ میں نہیں آئی اور تجھے بھی سمجھ میں نہیں آئی توتم بھی وہی ہو۔ اگر پتھر کے بتوں میں کچھ نہیں ہے توآج کے بعد تم سارے مسلمان جو پتھرانگوٹھیوں میں پہنتے ہو اِن کو اُٹھا کرپھینک دو۔ یہ جتنے بھی نکمے پِیر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک ایک اُنگلی میں تین تین فیروزہ، عقیق اور کیا کیا باندھا ہوا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ عقیق کا تاج بھی بنالیں، فیروزہ سرپرپہن لیں اور آنکھوں پربھی لگالیں۔ اپنے لئے برکت اور دوسروں کیلئے شرک۔ ہم کسی بھی پتھرکوبُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمارے مذہب کے اندرحجرِاسود اور کعبہ پتھرکے بنے ہوئے ہیں توپھرہمیں اِن کوبھی بُرا کہنا پڑے گا۔ ورنہ خود ہی اِن کی زد میں آجائیں گے جب کہیں گے کہ پتھروں میں کچھ نہیں رکھا۔ پھرآپ کہیں گے کہ حجرِسود توجنت سے لایا ہوا پتھرتھا تواُن کے پتھربھی توکہیں سے کہیں آئے ہوئے ہونگے کیونکہ وہ پاگل تھوڑی نہ ہیں کہ بلاوجہ چوم چاٹ رہے ہیں، کچھ توحقیقت ہوگی۔ بات تو ہے وہ دل کولگتی کہنی چاہئیے کیونکہ اگرہمارا پتھرصحیح ہے تواُن کا بھی صحیح ہے اور اگراُن کا پتھربیکارہے توہمارے پتھربھی بیکارہیں۔ جوچیزاُن کیلئے ناجائزہونی چاہئیے وہ ہمارے لئے بھی ناجائز ہونی چاہئیے۔ حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ

نبی پاکؐ نے حجرِاسود کوعقیدت اور محبت کے ساتھ بوسہ دیا۔

خاتم الانبیاء امام المرسلین کی حجرِاسود کو بوسہ دینے کی وجہ کیا تھی؟

اگر اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنت سے آیا ہوا پتھر ہے تو جنت کے پتھر کو محمد الرسول اللہ بوسہ دیں گے یعنی جنت کا پتھر محمد الرسول اللہ کیلئے مقدس کب سے ہوگیا! جنت تومحمد الرسول اللہ کے پاوٴں کی دھول کے برابربھی نہیں ہے۔ حضور پاکؐ نے حجرِاسود کو اِس لئے بوسہ دیا کیونکہ اُس کے اندر امام مہدیؑ کا چہرہ مبارک ہے اور اُس کے اندر ایک روح بھی موجود ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے کہ

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ
سورة الرحمن آیت نمبر 6
ترجمہ: اور تارے اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں۔

اب دنیا میں پتھر بھی ہونگے جواللہ کوسجدہ کرتے ہونگے تو جوپتھراللہ کوسجدہ کرتے ہیں تووہ تواللہ کی عبادت کررہے ہیں۔ اللہ تعالی اُن پتھروں اور درختوں سے پیارکرتا ہوگا جواللہ تعالی کا ذکربھی کرتے ہیں اور سجدہ بھی کرتے ہیں۔ انسان بھی اللہ کوسجدہ کرے اور پتھر بھی سجدہ کرے توبتاوٴ کہ کون افضل ہے! دونوں ایک ہی کام کررہے ہیں۔ اگرصرف آپ نے سجدے پراتفاق کرلیا تو پھر پتھر اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پتھر سے بڑا بننے کیلئے کچھ غیر معمولی کام کرنا پڑے گا۔ ابھی توتم پتھرکے برابربھی نہیں ہو کیونکہ پتھرسجدہ کررہا ہے اور تم آرام سے بیٹھے ہوئے ہو۔ تم پتھروں کی برائی اور بُتوں کی غیبتیں کررہے ہو۔

کیا اللہ تعالی ہر مذہب والوں کو دیکھتا ہے؟

اِس وقت پاکستان میں جو خاص طور پر مسلمان ہیں وہ ہندووٴں کو اور بھگوان کو باقاعدہ گالیاں دیتے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ ترمسلمان ہندووٴں کو کافر اور مشرک کہتے ہیں۔ اُن کوپتہ کچھ نہیں ہے کہ توحید اور شرک کیا ہے لیکن خدا بہترجانتا ہے کہ اِنہوں نے کہاں سے اسلام سیکھا ہے! کسی کے دین کا مذاق نہ اُڑاوٴ، اِس لئے کہ ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یا مسلمان ہو سب کا بنانے والا ایک ہے، خواہ وہ اُس کو بھگوان بولے، God بولے، رام بولے یا اللہ بولے کیونکہ وہ ایک ہی ہے۔ قرآن مجید میں سورة فاتحہ میں فرمایا گیا ہے رَبِّ الْعَالَمِينَ کہ سارے عالموں میں جتنے انسان اور مخلوقات ہیں اُن کا بنانے والا ایک اللہ ہے۔ اپنی اپنی زبان اور دھرم میں مختلف ناموں سے لوگ اُس کو یاد کرتے ہیں لیکن وہ وہی ایک ہے۔ پھر اللہ تعالی یہ تھوڑی دیکھتا ہے کہ تیرا سر کہاں جھکا ہوا ہے بلکہ اللہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کِس کیلئے جھکا ہے۔ کس کے آگے جھکا ہے اِس کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے، کس کیلئے جھکا ہے یہ بات معنی رکھتی ہے۔ اللہ تعالی تمہارے الفاظ نہیں دیکھتا، اللہ تعالی تمہارے جذبات دیکھتا ہے۔

موسیؑ سے اللہ کی ناراضگی:

موسٰیؑ کے دور میں جوانہوں نے بندہ دیکھا کہ جوکہہ رہا تھا کہ اے اللہ تم زمین پرآجاوٴ تو میں تمہیں اپنی بکریوں کا گرم گرم تازہ تازہ دودھ پیش کروں، اے اللہ تم زمین پر آجاوٴ تو میں تمہارے بالوں میں کنگی کروں اور اے اللہ تم زمین پرآجا تومیں تیری مالش کروں۔ موسٰیؑ نے یہ دیکھ کربندے کو بہت ڈانٹا کہ تم یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو کہ تم پاگل ہوگئے ہو کہ اللہ کو بکریوں کا دودھ پلاوٴ گے۔ جب اُس کوڈانٹا تووہ رونے لگ گیا اور روتے روتے چلا گیا کہ یہ مجھ سے اتنا بڑا گناہ ہوگیا کہ اللہ مجھے معاف کردے۔ اُس واقعہ کے بعد جب کوہِ طورپرموسیؑ کا جانا ہوا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم تم سے ناراض ہیں کیونکہ تم نے ہمارے یارکوناراض کردیا۔ موسیؑ نے کہا کہ اے اللہ وہ کہہ رہا تھا کہ تمہیں اپنی بکریوں کا دودھ پیش کرے تو کیا تم دودھ پیتے ہو! اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم اُس کے الفاظ پرکہاں غورکرتے ہیں، ہم لوگوں کے الفاظ کہاں دیکھتے ہیں بلکہ ہم تواُس کے جذبے اور احساسات کودیکھ رہے ہیں۔ خدا کے یہاں پراِن الفاظوں کی اہمیت نہیں ہے اور اِن پتھروں کی اہمیت نہیں ہے کہ تم نے کہاں سرجھکایا ہوا ہے، یہ ہندو پتھرہے یا مسلم پتھرہے اِن چیزوں کی اہمیت نہیں ہے۔ اللہ کے یہاں توتیرے دل سے نکلے ہوئے جذبات جواللہ کیلئے ہیں اُن جذبات کی قدروقیمت ہے۔ ورنہ کعبے میں بھی توپتھرہی ہیں وہاں کونسا رب بیٹھا ہوا ہے! پتھروں میں اگر کچھ نہیں ہوتا تو جو تم حج کرنے کیلئے جاتے ہو تو وہاں پتھر کو سات کنکریاں کیوں مارتے ہو۔ پوری دنیا مسلمان بن جائے، اگرتم اپنے دل میں رب کو بسالے۔
ہم نے موٴمنوں میں یہ بھی دیکھا کہ ایسے بھی موٴمن ہیں کہ یہ پتھر ہے اِسکو ابراہیمؑ نے ہاتھ لگایا تھا تو کہا کہ چوم لیتے ہیں لیکن جب وہ کسی ولی اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اُس کے آگے نہیں جھک سکتے کیونکہ وہ انسان ہیں۔ یہ جہالت ہمارے اندر موجود ہے کہ پتھر مقدس ہے اُس کو چوم لیں گے لیکن اگرکسی انسان میں اللہ آکربیٹھ گیا تواُس کے آگے جھکنا اُن کیلئے ممکن نہیں ہے۔ شروع شروع میں جوبھی ہمارے (یونس الگوھر) گھرآتا توسرکارگوھرشاہی کے کپڑے، رومال اور جوتے ہم اُن کے آگے رکھ دیتے کہ چلو سب عزت کرو اور چومو۔ پھرایک وقت یہ آیا کہ وہ جوسرکارگوھرشاہی کا جوتا ہے اُس کولوگوں نے اتنا چوما اتنا چوما کہ اب جوتے میں سے وہ چیزختم ہوگئی جواُس میں ایک مقناطیسیت تھی۔ پھر ایک دفعہ لوگ آئے توہم نے ایسے ہی کہا کہ سرکار گوھر شاہی کے نعلینِ مبارک رکھے ہیں اُن کو چومو تووہ چومنے لگ گئے یعنی ازخود چومنے کو جی نہیں چاہا۔ جو سرکار گوھرشاہی کے وجودِ مبارک سے لمس جوتے کولگا تھا اُس کی وجہ سے جوتے میں رنگ تھا تو سب نے چوما۔ وہ جذب ہوگیا تواب جوتا خالی ہوگیا۔ جب جوتا خالی ہوگیا تواب لوگوں کوکشش محسوس نہیں ہورہی۔ اگراُس جوتے کا کوئی لطیفہ قلب ہوتا، اگراُس جوتے کی کوئی لطیفہ روح ہوتی اور اُس کے اندراسمِ اللہ چلا گیا ہوتا اور ہروقت اللہ اللہ ہورہی ہوتی توسرکارگوھرشاہی نے جولمس لگایا تھا وہ اَمر ہوجاتا۔ نورجاتا رہتا لوگ چومتے رہتے اور نور جاتا نہ تو پھر نور بنتا رہتا۔ یہ فرق جوتے اور انسان میں ہے۔ وہ سرکارگوھرشاہی کا جوتا مقدس ہے اور یہ جوسرکارگوھرشاہی کا بندہ غلام ہے یہ بھی تومقدس ہونا چاہئیے لیکن تم وہ قوم ہو جوجوتوں کوسجدے کرسکتی ہے، عماموں اور ٹوپیوں کو سجدے کرتی ہے، جن کو مدینے کی کھجوروں سے فیض ملتا ہے لیکن مدینے والے سے اِن کوکوئی نسبت نہیں ہے اور نہ مدینے والے کو کوئی دل میں بسانے کی جراٴت کرتا ہے۔
جن کو کعبے کا زم زم پسند ہے لیکن اُن کو یہ پسند نہیں کہ اُن کے اندر جو خون دوڑ رہا ہے اِس خون میں بھی کوئی برکت آجائے جیسے اُس زم زم کے پانی میں برکت آئی۔ تم غلافِ کعبہ کو پوجنے والے ہو۔ تمہارے ذہن میں کبھی نہیں آئے گا کہ یہ پتھرکی عمارت کو ابراہیمؑ سے نسبت ہوئی تو آج میرا سر جھکا ہوا ہے اور اگر رب میرے دل میں آجائے گا تو میں کہاں پہنچوں گا۔ پتھر کو نسبت ملی تو اِتنا عظیم ہوگیا لیکن انسان تواشرف المخلوقات ہے۔ کعبہ تو پتھرسے بنا ہوا ہے اتنا عظیم ہوگیا اور انسان اشرف المخلوقات ہوکرنکھٹو کا نکھٹو اور آج بھی وہیں جاکرسرجھکا رہا ہے۔ تمہارا اِنہیں میں دین ختم ہوگیا۔ صفا و مروہ پر بھاگنا جہاں حاجرہ بی بی پانی کی تلاش میں بھاگیں تھی تو تیرے لئے عبادت بن گئی۔ ہم صفاومروہ پر کیوں بھاگ رہے ہیں، ہمارا بچہ تو پانی کیلئے نہیں تڑپ رہا۔ ہم اُن کی نقل کررہے ہیں اور یہ ہمارے لئے عبادت ہے۔ انسان کا عمل دوسرے انسانوں کیلئے عبادت بن سکتا ہے۔ ایک عورت کا عمل اپنے بچے کیلئے پانی کی تلاش میں وہ دوڑتی ہے اور رب کو اُس کا یہ جذبہ اتنا پسند آیا ہے کہ وہ مناسکِ حج کا حصہ ہے۔ آج ہرشخص کو صفا و مروہ سے دوڑ کے جانا ہے، یہ عبادت بن گئی ہے۔ ایک عورت کا دوڑنا سارے انسانوں کیلئے عبادت بن گیا ہے اور اگر وہ جس میں رب آجائے اُس کی اداوٴں کو عبادت کہنے والے مشرک اور کافر کیسے ہوسکتے ہیں! حاجرہ پانی کیلئے دوڑیں، آپ کیلئے عبادت اور اگر سرکار گوھر شاہی نے اپنے چہرہ مبارک کو چُھوا تو وہ ہمارے لئے عبادت نہیں بن سکتا، سرکار گوھر شاہی نے چہرہ گھُما کریُوں دیکھا ہے تو کیا اُن کا یہ عمل عبادت نہیں بن سکتا! بی بی حاجرہ نے دوڑ لگائی تو تیرے لئے عبادت بن گئی تو اگرحضور پاکؐ کی ادائیں سامنے رکھیں گے تو اُن کی اداوٴں پر قربان ہونا عبادت کیسے نہیں ہوسکتا، جب بی بی حاجرہ کی دوڑ عبادت بن سکتی ہے تو محمد الرسول اللہ کا تبسم اور مسکراہٹ بھی عبادت ہے اور اُن کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور سرکار گوھر شاہی کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اُن کی طرح ہاتھ اُٹھانا بھی عبادت ہے، اُن کی طرح کپڑے پہننا بھی عبادت ہے اور اُن کی طرح چلنا بھی عبادت ہے۔
یہ سرکارگوھرشاہی کی تعلیمِ مبارک ہے یعنی سارے جتنے بھی انسان ہیں اُن کے دلوں سے نفرت ختم ہوجائے اور سب ایک دوسرے کے دھرم کا لحاظ اور ادب کریں۔ یہ تبھی ہوگا جب حقیقت پتہ چلے گی۔ صرف یہ کہنے سے کہ سب کا احترم کرو لیکن دل میں تو تم مشرک اور کافر سمجھتے ہو۔ ظاہری طور پر اُس کوکہہ دو کہ ہم تو بہت احترام کرتے ہیں لیکن یہ تومنافقت ہوگی۔ سب کوپیار اور سب کا خیال رکھنا اور سب کی عزت کرنا، یہ تب آئے گا جب آپ سب کوحقیقت پتہ چل جائے گی کہ حقیقت کیا ہے۔ رب کی مرضی ہے کہ وہ انسان کے روپ میں آئے یا پتھرکے روپ میں آئے تم کون بولنے والے ہوتے ہو کیونکہ رب کی مرضی ہے۔ انسان بھی تومٹی سے بنا ہوا ہے تو یہ بھی بُت ہی ہے اور اگر اِس بُت کے اندررب آسکتا ہے توکسی بھی بُت میں آسکتا ہے۔ یہ رب کی مرضی ہے جہاں چاہے اپنا جلوۂ اور کون کہتا ہے کہ پتھر پر رب کا جلوۂ نہیں آسکتا تو کوہِ طور پر کیا ہوا تھا! کوہِ طور پر اللہ کا جلوۂ پڑا اور اگر وہ تمہارا پتھر ہے تو ٹھیک ہے کیونکہ قرآن میں جوآگیا۔ ہندووٴں کا بُت قرآن میں نہیں آیا تو کافر ہے۔ یہ جہالت کی بات ہے۔

ہندووٴں کا آگ کی تعظیم کرنا کیسا ہے؟

جب موسٰیؑ کوہِ طور کیطرف گئے تو اُس وقت اُس وادی کو “طویٰ” کہتے تھے۔ آج کا مسلمان کہتا ہے کہ یہ ہندو آگ کی پوجا کیوں کررہے ہیں! دراصل موسٰیؑ پر اُس وقت نبوت کا اعلان نہیں تھا اور نہ اُن کو پتہ تھا تووہ اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ کہیں راستے سے گزرہے تھے تواُن کی زوجہ محترمہ نے کہا کہ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ دوسرا یہ تھا کہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور اُن کو سردی لگ رہی تھی توموسٰیؑ نے یہ اپنی زوجہ محترمہ سے کہا کہ تم یہی رہو اور میں جاتا ہوں، ہوسکتا ہے وہاں سے ہمیں کچھ ہدایت مل جائے کہ ہمیں کہاں جانا ہے اور پھرمیں آگ کا بندوبست بھی کرتا ہوں تواُن کا یہ خیال تھا کہ اوپر کوئی پتھر مل جائیں گے تواُن کو رگڑ کر آگ بنا لیں گے۔ جب وہ گئے ہیں تواُنہوں نے دیکھا کہ ایک درخت میں آگ لگی ہوئی ہے تووہ ڈرگئے۔ پھرآوازآئی کہ یہ تم مقدس وادی میں آگئے ہو، جوتے اُتاردو اور ہم تمہارے اللہ ہیں۔ لینے آگ گئے تھے اور پیغمبری مل گئی۔ جب وادی طویٰ میں موسٰیؑ داخل ہوئے ہیں تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
سورة طہ آیت نمبر 12
ترجمہ: میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اُتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے۔

پھر جھاڑ میں آگ نظر آئی تو ڈر گئے تو آگ سے آواز آئی کہ

فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
سورة القصص آیت نمبر 30
ترجمہ: جب موسٰیؑ نے مدت پوری کردی اور وہ اہل و عیال کو لے کر چلے تو طور کی جانب اُس کو ایک آگ نظر آئی اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا ” ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آوٴں یا اُس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاوٴں جس سے تم تاپ سکو۔” وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں اے درخت سے پکارا گیا کہ “اے موسٰی! میں ہی اللہ ہوں، تمام جہانوں کا رب”

اُس درخت میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہاں سے آواز آرہی ہے کہ “میں ہی تمہارا رب ہوں۔ اگر آگ سے رب کی آواز آئے گی تو اگر آگ کی کوئی تعظیم کرے تو کُفر کیسے ہوگا! پاکستان میں مسلمان مذاق اُڑاتے ہیں کہ یہ آگ کے اوپر سے یُوں یُوں کررہے ہیں، آگ تونارہوتی ہے لیکن وہ کیا تھی جب کوہِ طورپرجھاڑی جل رہی تھی، موسٰیؑ ڈرگئے تھے اور آگ سے آواز آئی کہ موسٰی ڈرو مت میں تمہارا رب ہوں۔ جن لوگوں نے وہ منظر دیکھا یا موسٰیؑ نے جن کو بتایا کہ آگ میں سے آواز آئی کہ میں تیرا رب ہوں تو کیا وہ اب آگ کو نہیں پُوجیں گے! قرآن سے یہ آیت نکلوادو ورنہ لوگ آگ کو پوجتے رہیں گے۔ یہ پاکستان کے مسلمانوں سے اپنا دین تباہ وبرباد کرلیا ہے۔ اِن کو صرف ایک کام آتا ہے کہ تم کافرہو اور گالیاں دینا۔ اِنہوں نے اپنے والدین سے یہی سیکھا ہے کہ ماں بہن کی گالی دینا، پوری دنیا کو کافر اور مشرک کہنا۔ اِن کے والدین اور مولویوں نے صرف یہی سیکھایا ہے۔ ابھی اگر ہم یہاں بیٹھ کر لاالہ الا اللہ کا ذکر کررہے ہونگے تو کچھ لوگ آکرکہتے ہیں کہ یہ یہاں پر کیا ہورہا ہے۔ یہ تم لعنت کی زد میں ہو۔ اگر کسی بارے میں پتہ نہ ہو تو اُنگلی اُٹھانے سے پہلے پوچھو کہ حق کیا ہے۔ اگر کسی عالم کے پاس اِس بات کا جواب ہے تو لیکرآئے۔ یہ بات ہم نے قرآن سے کہی ہے۔ ہمیں بتاوٴ کہ موسٰیؑ کو اگ سے آواز آئی کہ میں تیرا رب ہوں تو موسٰیؑ کیا سمجھے گا رب کہاں ہے، آگ میں! اگرموسٰیؑ کی بات مان کرلوگ آگ کی پوجا کرنا شروع کردیں توکون غلطی پر ہے، وہ لوگ یا بتانے والا یا وہ کہنے والا جو آگ کے روپ میں آکر بولتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں! قرآن مجید میں آیا ہے کہ

اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
سورة النور آیت نمبر 35
ترجمہ: زمین اور آسمان میں ہر جگہ اللہ ہے۔

اللہ ہر جگہ ہے تو مختلف صورتوں میں ہے، اپنی صورت میں تھوڑی آئے گا۔ اللہ کے ہزاروں جلوئے اور روپ ہیں۔ ماں بھی اُس کا ایک روپ ہے۔ ماں کی ممتا رب کی رحمت کا اظہار ہے اور اگر وہ چھین لے تو ماں کے دل سے بچوں کی محبت چلی جاتی ہے اور وہ بچوں کوچھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ اگرتیرے اندریہ ممتا آگئی کہ اِن بچوں کوپال پوس کربڑا کرنا ہے میری کی زندگی تباہ ہوتی ہے تو ہوجائے تو یہ رب کا کرم ہے کیونکہ اُس نے اپنی صفت سے نوازا ہے۔ اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ پوری دنیا میں جگہ جگہ کئی جلووں اور روپ میں رب ہی نظرآئے گا۔ ہم نہیں کہہ رہے کہ آپ آگ کے اندرہاتھ ڈالو بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ موسٰیؑ کو جب آگ نظرآئی تھی تووہاں سے آواز آئی تھی تو اُنہوں نے یہ واقعہ جاکربتایا ہوگا کہ آگ میں سے آواز آئی ہے کہ میں اللہ ہوں تولوگ یہی سمجھیں گے کہ آگ کے اندراللہ کا روپ ہے۔ جب یہ عقیدہ ہوگا توپھروہ اُس کی تعظیم بھی کریں گے۔ جیسے اب ہم دُعا ختم کرتے ہیں تو سارے چہرے پر اپنے ہی ہاتھ پھیرتے ہیں۔ دُعا سے نور آتا تھا تو وہ نور اپنے چہرے پر پھیرتے تھے۔ ابھی توتمہاری دعاوٴں اور نمازوں میں نورہی نہیں ہے تو ایسے ہی خودہی اپنے چہرے پرہاتھ پھیررہے ہو لیکن وہ اصل چیز نکل گئی۔ اِسی طرح وہ آگ جو رب کا جلوۂ تھی، وہ نکل گیا اورآگ رہ گئی۔

کیا ہمارے ملک پاکستان میں سب مذاہب والوں کو آزادی ہے؟

آئینِ پاکستان میں ہے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کے حساب سے اپنی عبادت گاہ بنا سکتا ہے، اپنی عبادت کرسکتا ہے اور اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کا کام کرسکتا ہے۔ پاکستان کے جھنڈے میں وہ جو سفید پٹی ہے وہ اقلیت کی نمائندگی کرتی ہے تو وہ اُن کے حقوق ہیں۔ اگرہمارے ملک پاکستان میں پاکستان کے آئین کے مطابق ہرمذہب والے کواپنی عبادت گاہیں بنانے کی آزادی ہوتی تو جب پاکستان کے شہر اسلام آباد میں ایک ہندو مندر بنایا جارہا ہے تواُس کیلئے مسلمان پریشان ہورہے ہیں کہ یہ یہاں پرکُفرہورہا ہے تو کیا ہندوستان میں مسجدیں نہیں ہیں اور اگرہندوستان میں مسجدیں ہیں توپاکستان میں مندرکیوں نہیں بن سکتا! نبی پاکؐ نے تو اپنی مسجدِ مبارک مسجدِ نبوی میں عیسائیوں اور یہودیوں کو فرمایا کہ آجاوٴ اور اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادتیں کرلو۔ عیسائی اور یہودی بھی جوحضورؐ سے ملاقات کرنے آتے توحضورؐ کی مسجد میں کھڑے ہوکراپنے مذہب کے مطابق اُن کوعبادت کرنے کی اجازت تھی۔ آج تم کہہ رہے ہو کہ وہ کافرہیں جن کوحضورؐ نے اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی، اگر وہ مشرک تھے توکیا حضورؐ نے مشرکوں کو مسجدِ نبوی میں شرک کرنے کی اجازت دی تھی! اسی طرح اگر پاکستان میں مندر بنایا جارہا ہے تو تم کو کس بات کی پریشانی ہے، کیا تمہیں یہ اسلام کے خلاف کوئی سازش لگتی ہے! جب بھی کوئی ایسی بات آتی ہے تو پاکستان میں مولوی اور ن لیگ کی پارٹی ہمارے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ہم (یونس الگوھر) نے اپنی ویڈیو میں کہیں کہا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ پاکستان کے اندر حکومت کیطرف سے مختلف مذاہب کی بھی عبادت گاہیں بنائی جائیں گی توہماری اُس بات کوعمران خان سے ملا کروہ آگے پیچھے بانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو عمران خان یونس صاحب کی پیروی کررہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ واللہ عالم بالصواب وہ پتہ نہیں کس کی پیروی کررہا ہے لیکن اگروہ ہماری پیروی کرلیتا ہے تو کیا ہم نے کوئی غلط بات کہی ہے! پاکستان میں اگرکوئی گردوارہ کرتارپور میں بن سکتا ہے تواسلام آباد میں مندر بنانے سے کیا پریشانی ہے! جب کرتارپور میں گروناننک صاحب کی نسبت سے جو جگہ ہے وہاں گردوارہ بنا تو آپ نے کوئی ہنگامہ کیا تھا تواب اسلام آباد میں جب مندربنایا جارہا ہے تو اب اتنا ہنگامہ کیوں کررہے ہو، اِس کا مطلب ہے کہ تمہاری ہر سوچ سیاسی ہے۔ یہ سب سیاست ہے اور کچھ نہیں ہے۔ دین کی صداقت تو یہ کہتی ہے کہ مسجد کے برابر میں میخانہ ہو اور پھر دین لوگوں کو متوجہ کرے۔ جس کو جہاں مزہ آئے اُس کو وہاں جانا چاہئیے۔ تم دین ایسے بیان کرو کہ لوگوں کو شراب سے ذیادہ دین کے نشے میں مزہ آئے۔ اپنی دکان اپنی مسجد ڈِسکو اور میخانے کے برابر کھول اور پھر حضورؐ کی زلفوں کا اسیربنا دے۔ عشقِ رسول کا اِتنا نشہ پلادے اور عشقِ الہی کا اتنا نشہ دیدے کہ مسجد کے برابر میں میخانہ اُجڑ جائے، مسجدیں آباد ہوجائیں اگرتیری نظر میں زلفِ رسول اور محبتِ الہی کا نشہ آجائے تو برابر میں پورے کا پورا میخانوں کا بازار بن جائے لیکن اُجڑا رہے گا کیونکہ وہ شراب جو عشقِ رسول میں ہے اور وہ نشہ جو عشقِ الہی میں ہے۔ وہ شراب کی بوتلوں میں نہیں مل سکتا لیکن تمہارے پاس تو وہ نشہ ہی نہیں ہے، اسی لئے تمہیں ڈرلگ رہا ہے کہ برابر میں کچھ اور نہ کھولو کہ کہیں مسلمان مندر میں نہ گُھس جائیں۔ ہمارے پاس کوئی آکر کہتا ہے کہ فلاں آدمی بہت روحانی ہے اور ذکر بھی دیتا ہے تو ہم اُس کو کبھی بھی نہیں بولتے کہ نہ جاوٴ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہاں پر بالکل جاوٴ۔ ہم اِس لئے بولتے ہیں تاکہ یہ جائے اور بھوکا پیاسا لوٹ کر بھاگ کر آئے۔ جب تک یہ دوسرے کے درپرنہیں جائے گا توپتہ کیسے چلے گا کہ حق کیا ہے تو ہم کیوں روکیں! ہم تو اُن کیلئے بیٹھیں ہیں جو حق چاہتے ہیں۔ تمہارا خوف بتا رہا ہے کہ شاید تمہیں لگتا ہے کہ کہیں مسلمان مندر میں نہ گُھس جائیں۔ اگر نہیں گُھسیں گے تو مندر بنانے دو کیونکہ وہاں ہندو ہی جائیں گے۔ اگر مسجدِ نبوی میں عیسائی اور یہودی اپنی عبادت کرسکتے ہیں تو مندر، گردوارے اور چرچ میں تم نماز نہیں پڑھ سکتے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں چرچ تو ناپاک ہے تو وہ عبادت جو مسجدِ نبوی میں یہودی اور عیسائی کرکے چلے گئے، اُنہوں نے مسجدِ نبوی کو ناپاک نہیں کیا! تم مندر میں جاوٴ اور وہاں جا کرنماز پڑھ لو کیونکہ ہرجگہ اللہ کو پوجا جاتا ہے۔ مندر ہو یا مسجد ہو، چرچ ہو یا گردوارہ ہو، اُسی کوپوجا جارہا ہے۔ ہم کسی بھی مسلم کو یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ مندر جائیں بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جیو اور جینے دو۔ کسی کے اوپر زبردستی نہیں کرو اور نہ کسی کو زبردستی مسلمان بنانا اچھا ہے۔ قرآنِ مجید میں لکھا ہے کہ

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ
سورة البقرة آیت نمبر 256
ترجمہ: دین میں زبردستی نہیں ہے۔

آپ لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھا کرجومسلمان بنا رہے ہیں، یہ اسلام کے خلاف ہے۔ دین دل کی چاہت سے اختیار کیا جاتا ہے۔ تم زبردستی کسی پر اپنا دین تھوپ رہے ہو تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے اور یہ نہ اللہ کو منظور ہے۔ مسجد، مندراور گُردوارے بنانے دو۔ ہر جگہ رب کو ہی پوجا جا رہا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 13 جولائی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس